ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم سے اسلامی تبلیغات کونسل کے اراکین کی ملاقات

بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں اس بات پر بہت ہی خوشی محسوس کررہا ہوں کہ ایک طویل عرصے کے بعد آپ بھائیوں اور بہنوں سے ملاقات اور آپ کی خدمات کی قدردانی  کرنےکی توفیق حاصل ہوئی ،  یقینا آپ لوگ اسلامی جمہوری  نظام میں  ایک عظیم ذمہ داری کو اپنے دوش پراٹھائے ہوئے ہیں ۔

" تبلیغات اسلامی میں ہم آہنگی پیدا کرنے والی کونسل " اسلامی جمہوری نظام کے بہت پرانے اور دیرینہ اداروں میں سے ایک ہے ۔اس بات کی بہت بڑی اہمیت ہے کہ ملک کی حقیقی اور سچی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی ادارہ معرض وجود میں آئے ، اور سالہا سال ، مختلف  حوادث اور تبدیلیوں میں اس ضرورت کو ہمیشہ اپنے مد نظر رکھتے ہوئےاقدام و عمل کا حق ادا کرے ۔ تبلیغات اسلامی میں ہم آہنگی پیدا کرنے والی کونسل ، ان مجموعوں میں سے ایک مجموعہ ہے  جن میں یہ خصوصیت نمایاں ہے ۔ جیسا کہ محترم جناب جنّتی نے کہا ( یقینا  موصوف کی سرپرستی نے  بھی اس سلسلے میں انتہائی مؤثر کردار اداکیا ہے ) کہ یہ کونسل گذشتہ برسوں میں ہمیشہ ہی ، صراط مستقیم اور صحیح راستے پر گامزن رہی ہے ؛ اس نے  ہر دور کی ضرورتوں کو بخوبی درک کیا ہے اور ان کے مطابق اقدام کیا ہے۔ بعض دیگر مجموعوں اور افراد کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ وقت شناس نہیں ہیں ، حالات کی نزاکت کو سمجھنے سے عاجز ہیں ، حالانکہ ان میں ایمان ، جوش و جذبے کی کمی نہیں ہے لیکن حالات کی نزاکت کو نہیں سمجھ پاتے ۔

 عصری تقاضوں کو پہچاننا چاہئیے ، ضرورتوں کو سمجھنا چاہئیے ۔ آپ ملاحظہ کیجئیے کہ کوفہ میں ایسے بہت سے افراد تھے جو امام حسین علیہ السّلام کے شیدائی تھے ، اہلبیت عصمت و طھارت (ع)سے والہانہ محبّت رکھتے تھے ، لیکن اس کے باوجود ،واقعہ کربلا کے رونما ہونے کے کچھ مہینے بعد میدان میں داخل ہوئے اور سب کے سب درجہ شہادت پر فائز ہوئے ، پروردگار عالم کے نزدیک یہ سبھی افراد ما جور و مثاب ہیں ؛ لیکن ان لوگوں کو جو کام انجام دینا چاہئیے تھا وہ یہ کام نہیں تھا جو انہوں نے انجام دیا ؛ انہوں نے وقت کی قیمت نہیں جانی ؛ عاشورا کی قدر نہیں کی ؛ اور اس دور میں اپنے فریضہ پر عمل نہیں کیا ۔ توّابین نے جو کام واقعہ عاشور کے رونما ہونے کے بعد انجام دیا ، اگر وہی اقدام ، جناب مسلم کے کوفے میں وارد ہونے کے بعد اٹھایا ہوتا تو یقینا نقشہ ہی بدل جاتا ؛ اور اس بات کا امکان موجود تھا کہ واقعات ایک دوسری شکل اختیار کر لیتے ۔ اس لئیے عصری تقاضوں کی شناخت اور ان کے مطابق عمل کرنابہت اہم چیز ہے ۔

الحمد للہ ، آپ کی کونسل میں آج تک ، یہی خصوصیت جلو ہ گر رہی ہے ۔ اس کی بہت سی دلیلیں ہیں ۔ اس سلسلے کی آخری کڑی ، اس سال نو دی کو منعقد ہونے والی ریلیاں ہیں ؛ اس واقعہ سے ٹھیک دس سال پہلے تئیس تیر کو منعقد ہونے والے مظاہرے بھی اس خصوصیت کا ایک اور نمونہ تھے ، جس کی طرف محترم جناب جنّتی صاحب نے بھی اشارہ کیا ۔ اس دن بھی وقت کی ضرورت پیش نظر تھی ، یہ کوئی منصوبہ بند ، معمول  کی کاروائی نہیں تھی ۔ بائیس بھمن کو نکالی جانے والی ریلیاں ، اپنی تمام عظمت کے باوجود ، ایک جانا پہچانا عمل ہے ، سبھی کو ان کا انتظار رہتا ہے ، ایک منتظرہ اقدام ہے۔لیکن تئیس  تیر  سنہ ۷۸ ہجری شمسی کو منعقد ہونے والی ریلیاں ایک غیر منتظرہ اور اچانک اقدام تھا ، معمول کی کا روائی نہیں تھی ۔ اس بات کی بہت اہمیت تھی کہ یہ  مجموعہ ان  حالات اور شرائط  کی نزاکت کو پہچانے اور اس کے مطابق اقدام کرے ۔ اس سال نو دی کو رونما ہونے والے واقعات میں بھی یہی خصوصیت جلوہ گر تھی ۔  وقت شناسی ، ضرورت کا ادراک ، ہر مناسب موقع پر عملی اقدام، یہ بنیادی کام ہیں جو ہر صاحب ایمان کے لئیے لازم و ضروری ہیں تا کہ اس کا وجود اپنا مؤثر کردار ادا کرسکے ۔ اور اپنی ذمہ داری کو نبھا سکے ۔ الحمد للہ اس کونسل میں ہمیشہ ہی سے یہ خصوصیت  جلوہ نما رہی ہے اور اس نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا ہے ؛ اس کونسل نے انقلاب کے پہلے عشرے میں رونما ہونے والے مختلف واقعات و حوادث میں ، مقدس دفاع کے دوران ، مقدس دفاع سے پہلے اور بعد میں رونما ہونے والے واقعات میں ، اور امام امت (رہ) کی رحلت کے بعد پیش آنے والی مختلف مناسبتوں میں  اہم کردار ادا کیا ہے ، ان مناسبتوں نے   ہماری تاریخ میں عظیم بلندیوں کو رقم کیا ہے۔ ان ناقابل فراموش سربلندیوں کی ایک مثال ، اس سال نو دی کو  منعقد ہونے والی ریلیاں ہیں ۔

میں یہاں پر دو اہم مطالب کی طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ ان میں سے ایک  مطلب بائیس بھمن اور عشرہ فجر کے سلسلے میں ہے ۔ انقلاب اور اسلامی نظام کی بہت سی دیگر خصوصیات کی طرح ، عشرہ فجر بھی ہماری جانی پہچانی  تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے ۔ یہ کوئی نعرہ نہیں ہے ؛ بلکہ عین حقیقت ہے ؛ جو مطالعہ اور غور و فکر کی بنیاد پر استوار ہے ۔ اس کا منفرد مقام کیوں ہے؟ جب سے دنیا میں انقلابی تحریکوں کا آغاز ہوا ہے اور انہیں دامن تاریخ میں جگہ ملی ہے تب سے کم و بیش ان تمام انقلابوں کی سالگرہ منائی جاتی رہی ہے اور آج بھی منائی جاتی ہے ، لیکن تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی انقلاب کی یاد اسی عامل اور عنصر کی طرف سے منائی جاتی ہو جس نے اس انقلاب کو وجود بخشا ہو  ۔ آپ ملاحظہ کیجئیے کہ وہ انقلاب جو چند سال تک اپنا اثر چھوڑنے میں کامیاب ہوئے ( کچھ انقلابوں کا تو نام و نشان تک باقی نہیں اور وہ فراموشی کا شکار ہو چکے ہیں ) مثلا سابق سوویت یونین کے اکتوبر کے انقلاب کو ہی لے لیئجیے جو دسیوں سال تک باقی رہا ، یا فرانس کے انقلاب کبیر کو لے لیجئیے یا دیگر عوامی انقلابوں کا جائزہ لیجئیے ۔ ان کی سالگرہ میں ، خاص کر تیسری یا چوتھی سالگرہ میں عوام کی کوئی خبر نہیں ہوتی ، عوام میں کوئی جوش و خروش نہیں پایا جاتا ۔ انقلاب کی سالگرہ کو محض ایک رسمی کاروائی کے طور پر منایا جاتا ہے ، ملک کے بعض حکام بالا اس میں شریک ہوتے ہیں ، فوجی پریڈ ہوتی ہے اور کچھ لوگ تماشائی کے طور پر ان تقریبات  میں حصہ لیتے ہیں ۔

ہمارے انقلاب کو تیس برس کا عرصہ بیت چکا ہے ، ہر سال ، عام لوگوں نے اس انقلاب کی سالگرہ کا جشن منایا ہے ۔ ہر سال بائیس بھمن کے دن ، کروڑوں افراد سڑکوں پر نکلتے ہیں اور انقلاب کی عید ، انقلاب کی سالگرہ کا  اعلان  کرتے ہیں اور اس کی یاد مناتے ہیں ۔اس کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ انقلاب ، عوام کے ایمان پر استوار ہے ؛ انقلاب کے مخالفین ، انقلاب کے نتیجے میں بر سراقتدار آنے والے نظام کے مخالفین کا سامنا عام لوگوں سے ہے ، وہ عوام کے مد مقابل ہیں ، ان کی ناکامی کا راز بھی اسی میں مضمر ہے ۔ ورنہ کوئی بھی سیاسی نظام ایسا نہیں ہے جسے سیاسی یا سلامتی ہتھکنڈوں کے ذریعہ متزلزل نہ کیا جا سکے ۔ کسی بھی نظام حکومت کا مقابلہ جب اس سے زیادہ طاقتور نظام سے ہوتا ہے تو اس کے پائے ثبات میں لغزش آجاتی ہے ۔ لیکن جس نظام کو عوام کی پشت پناہی حاصل ہو ، اس کے مخالفین، سیاسی ، اقتصادی اور فوجی اعتبار سے جس قدر بھی طاقتور کیوں نہ ہوں وہ اس نظام کو نقصان نہیں پہنچا سکتے ، اس کے پائے ثبات میں لغزش نہیں لا سکتے؛ اس کا راز بھی یہی ہے کہ اس نظام کو ، عوام کی پشت پناہی حاصل ہے ، یہ نظام ، اپنے عوام کے جذبہ ایمان پر استوار ہے ؛ یہ نظام اسی عامل پر استوار ہے جو اسے وجود میں لایا ہے ۔ یہ بہت اہم چیز ہے ۔

ہمارے دشمن اس بات کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں (جیسا کہ تجربہ نے بھی اس بات کو ثابت کیا ہے ) ہر اس تقریب اور مناسبت میں رخنہ اندازی کریں جس میں دسیوں ملین افراد شریک ہوتے ہیں ؛ عالمی یوم قدس کے موقع پر آپ نے مشاہدہ کیا کہ کس طریقے سے ایک چھوٹا سا گروہ ، چند انگشت شمار فریب خوردہ افراد، فلسطین کے خلاف اور اسرائیل کے حق میں نعرہ بازی کر رہے تھے ، حالانکہ اس دن کو فلسطین کے مظلوم عوام سے یکجہتی و حمایت کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ اسی طرح تیرہ آبان کے موقع پر جسے امریکی سامراج سے ایرانی قوم کی نفرت و بیزاری کے اظہار کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ چند گنے چنے افراد ، اسلامی انقلاب ، جمہوری اسلامی اور اس کی اسلامیت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہیں ! اس کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مخالفین ، عوامی جوش و جذبے اور اسلام سے ان کے والہانہ لگاؤ سے خائف و ہراساں ہیں ۔ مختلف سیاسی سلیقوں اور نظریات کے باوجود ایرانی قوم متّحد ہے ؛ اس کا راستہ اور منزل معیّن ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن اپنے پروپیگنڈوں کے ذریعہ ، ایرانی قوم کے اتحاد میں رخنہ اندازی کے درپے ہیں ۔ وہ اپنے پروپیگنڈوں میں ، ایرانی قوم کو مختلف دھڑوں میں منقسم ، بنیادی مسائل اور اصول کے مخالفوں کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا مقصد یہ ہے ، ہمیں اس کا مقابلہ کرنا چاہئیے ۔

یہ اسلامی حکومت ، عوام کی منشا اور جذبہ ایمانی کی بدولت بر سر اقتدار آئی ہے ، اور انہیں کی مرضی اور جذبہ ایمان کی بدولت ، اس نے ، پورے اقتدار ، عزّت اور احساس بے نیازی کے ساتھ آج تک پیش قدمی کی ہے اور انشاء اللہ اس کے بعد بھی پورے عزت و اقتدار کے ساتھ اپنے تمام دشمنوں پر کامیاب ہوگی ۔

پہلے مطلب کا خلاصہ یہ ہے کہ بائیس بھمن ( اسلامی انقلاب کی کامیابی کا دن ) پوری ایرانی قوم سے متعلق ہے ، امام امت(رہ) سے متعلّق ہے ، شہیدوں سے متعلّق ہے ، اسلامی انقلاب کی حقیقی روح و معنیٰ سے مربوط ہے ، ایرانی قوم کا سرمایہ ہے ، دشمن اس عظیم سرمایے کو ہم سے چھیننا چاہتا ہے ، اسے کمزور کرنا چاہتا ہے ۔ آپ پوری توانائی سے میدان میں موجود رہئیے اور عقل و تدبیر کے ساتھ آگے بڑھیے ۔ ایرانی قوم ، انقلاب کے انہیں بنیادی نعروں کی دلدادہ ہے ۔عصر حاضر میں ایرانی قوم کی عزت و عظمت ( دشمن بھی جس کے معترف ہیں ) اسی انقلاب اور عوامی شرکت کی برکت سے ہے ؛ ایرانی قوم اس سے کسی بھی قیمت میں دستبردار نہیں ہوگی ۔

دوسرا نکتہ(  جس پر گزشتہ چند مہینوں سے میں ، مسلسل تاکید کر رہا ہوں) یہ ہے کہ ایرانی قوم کے دشمن ، ماحول کے صاف و شفاف ہونے سے بہت پریشان ہیں ۔ وہ اس صاف و شفاف ماحول کو برداشت کرنے سے عاجز ہیں ؛ وہ فضا کے مکدّر و غبار آلود ہونے کے خواہاں ہیں ، وہ اس مکدّر فضا اور غبار آلود ماحول میں اپنے ناجائز مقاصد کے نزدیک پہنچ سکتے ہیں اور ایرانی عوام کی تحریک پر ضرب لگا سکتے ہیں ۔ غبار آلود ماحول ، وہی فتنہ ہے ۔ فتنہ کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ  جو  در حقیقت اس انقلاب کے دشمن ہیں بظاہر  دوست اور خیر خواہ  بن کر میدان میں داخل ہوں اور ماحول کو خراب کریں ؛ تاکہ اس ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ، ہمارے کھلّم کھلّا دشمن اپنے چہرے پر نقاب ڈال سکیں اور میدان میں داخل ہو کر وار کریں ۔ یہ جو امیر المؤمنین علی (ع) نے فرمایا ہے " انّما بدء وقوع  الفتن اھواء تتّبع و احکام تبتدع " ؛ اس کے بعد آپ فرماتے ہیں " فلو انّ الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین " ؛ اگر باطل ، عریاں اور کھلے عام سامنے آئے تو جو لوگ حق کی تلاش میں ہیں ، حق ان پر مشتبہ نہیں ہوگا ، وہ بخوبی متوجّہ ہوجاتے ہیں کہ یہ باطل ہے " ولو انّ الحق خلص من مزج الباطل انقطع عنہ السن المعاندین "؛ حق بھی اگر اپنی اصلی شکل میں میدان میں آئے تو اس کے مخالف، اس پر ناحق ہونے کا الزام نہیں لگا سکتے ۔ اس کے بعد امیر المؤمنین(ع) فرماتے ہیں : " ولٰکن یوخذ من ھذا ضغث ومن ذاک  ضغث فیمزجان " ؛ لیکن فتنہ پرور افراد ، حق و باطل کو ایک دوسرے میں مخلوط کر کے پیش کرتے ہیں " فحینئذ یشتبہ الحق علیٰ اولیائہ " ایسی صورت میں جو لوگ حق کی تلاش میں ہوتے ہیں ان پر بھی حق مشتبہ ہوجاتا ہے اور وہ حق کی شناخت سے عاجز ہوجاتے ہیں ، فتنہ ، اسے کہتے ہیں ۔

اس مشکل صورت حال کا راہ حل کیا ہے ؟ عقل سالم اور شریعت ان حالات میں بالکل واضح و دوٹوک انداز میں یہ حکم کرتی ہے کہ ایسی صورت حال کا بس ایک ہی راہ حل ہے کہ حق کو واضح انداز میں بیان کیا جائے ۔ جب آپ اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ الیکشن کو بہانہ بنا کر ایک غلط تحریک شروع کی گئی اور اس کے بعد دشمن کے کچھ  زرخرید عناصر اس ماحول کا فائدہ اٹھا کر میدان میں داخل ہوئے ، جب آپ نے دیکھا کہ دشمن کے عناصر اپنے نعروں کے ذریعہ اپنے مافی الضمیر کو کھلے عام بیان کر رہے ہیں اور میدان میں داخل ہو چکے ہیں تو یہاں آپ کو اپنے راستے کاتعین کرنا چاہئیے ، یہاں آپ کو اپنی حدوں کو واضح کرنا چاہئیے ، یہ سب کی ذمّہ داری ہے ؛ سب سے زیادہ " خواص " پر یہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے اور خواص میں سے بھی ان افراد پر اس کی زیادہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے جن کے ماننے والوں کی تعداد زیادہ ہے ، جن کی بات کو سننے والے زیاد ہیں ۔ یہ ایک فریضہ ہے ۔ حدیں معلوم ہونا چاہئیے ۔ اور یہ معلوم ہو کہ کون کیا کہہ رہا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ میدان کی گرد و غبار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ، دشمن میدان کارزار میں داخل ہو ،حق پر وار کرے ، اور حق کے محاذ کو خبر تک نہ ہو پائے کہ اس پر وار کہاں سے ہو رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ " خواص " کے منہ سے " دوغلی  " باتیں زیب نہیں دیتیں ۔ خواص کو اپنا مؤقف ، واضح اور دو ٹوک انداز میں بیان کرنا چاہئیے ۔ یہ بات کسی خاص سیاسی رجحان سے مربوط نہیں ہے ۔ اسلامی نظام کے اندر جتنے بھی سیاسی رجحان اور نظریات پائے جاتے ہیں ، وہ واضح انداز میں اپنا مؤقف  بیان کریں کہ آیا انہیں عالمی سامراج کی حمایت قبول ہے ؟ یا وہ اسے قبول نہیں کرتے ؟ جب سامراج کے سرغنہ ، ظلم و ستم کے مظہر ، اسلامی ممالک پر قابض تسلّط پسند طاقتیں ، عراق ، فلسطین اور افغانستان میں انسانی خون کی ہولی کھیلنے والے قاتل ، میدان میں داخل ہوتے ہیں اور واضح انداز میں اپنا موقف بیان کرتے ہیں ؛ تو ایسی صورت میں واضح ہونا چاہئیے کہ وہ لوگ جو جمہوری اسلامی کے پرچم تلے زندگی بسر کر رہے ہیں ، سامراج کے اس مؤقف کے مقابلے میں ان کا رد عمل کیا ہے ؟ کیا وہ ان سے بیزاری کے لئیے تیار ہیں ؟ کیا وہ اس بات پر آمادہ ہیں کہ ان سامراجی طاقتوں سے کہیں کہ ہم آپ کے دشمن ہیں ، ہم آپ کے مخالف ہیں ؟

جب اس فتنہ پرور ماحول میں کچھ افراد ، اپنی زبان کے ذریعہ ، اسلام اور اسلامی جمہوری نظام کے بنیادی نعروں کا انکار کر رہے ہیں ، اپنی رفتار و کردار سے جمہوریت اور ایک صاف و شفاف الیکشن پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں ؛ جب معاشرے میں یہ صورت حال پیش آئی تو خواص سے یہ امیّد ہے کہ وہ فورا اپنی حدوں کا تعیّن کریں ، اپنے موقف کوصاف و شفاف انداز میں بیان کریں ، دورخی  باتوں  سے ماحول کو خراب کر نے میں مدد ملتی ہے ۔ اس سے فتنہ انگیزی کے خاتمے میں کوئی مدد نہیں ملتی ، اس سے شفاف سازی کے عمل کو کوئی تقویت نہیں ملتی ۔ شفاف سازی ، دشمن کی دشمن ہے ؛ دشمن کے راستے کی رکاوٹ ہے ؛ ماحول کی خرابی ، دشمن کی مدد و اعانت ہے ۔ یہ چیز اپنے آپ میں ایک معیار ہے ۔ یہ ایک معیار ہے ، کون شفاف سازی کے عمل میں مدد کر رہا ہے اور کون ، ماحول کو خراب کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہا ہے  ، سب لوگ اس کو مد نظر رکھیں اور اسے معیار قرار دیں ۔

میری گفتگو کی آخری بات یہ ہے کہ آپ عزیز بھائی  بہن !  اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ اسلامی انقلاب ایک ناقا بل تردید حقیقت ہے ، اور ایک الہی سنت پر استوار ہے ، اسے مٹایا نہیں جاسکتا ۔ اس کو اس کے راستے سے منحرف نہیں کیا جاسکتا ، جب تک ایرانی عوام کے اندر جذبہ ایمانی کا رفرما ہے ، ان کے اندر اس انقلاب سے والہانہ محبت و لگاؤ موجزن ہے ، اور وہ اس کی حفاظت کے لئیے عملی اقدام کر رہے ہیں تب تک اگر پوری دنیا کی تمام منہ زور طاقتیں آپس میں متحد ہو کر بھی اس انقلاب کو نقصان پہنچانا چاہیں تو بھی وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتیں ۔ البتّہ کچھ فرائض ہیں جن کی انجام دہی ضروری ہے ، کچھ  آسان  اور کچھ مشکل اور دشوار گزار مراحل ہیں جن کو عبور کرنا ہے ، الحمد للہ ہماری قوم نے بعض مشکل اور دشوار گزار مراحل کو پار کر لیا ہے جو ان مراحل سے کہیں زیادہ سخت تھے جو آج ہماری قوم کے سامنے ہیں ، اس کے بعد بھی ہمیں ان مشکلات اور مسائل کا سامنا رہے گا ۔ محترم جناب جنّتی نے کہاکہ ایرانی قوم ، بلوؤں اور آشوب بپا کرنے والوں سے آسودہ خاطر رہے ۔ میں ان سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فتنہ پرور اور دشمن افراد ہمیشہ ہی موجود رہیں گے ؛ آج کوئی دشمن ہے تو کل اور پرسوں کوئی اور ؛ دشمنی کے انداز بدلتے رہیں گے ۔لیکن جب کوئی قوم بیدارہو، آگاہ و ہوشیار ہو ، مصمم ارادے کی حامل ہو، جذبہ ایمان سے سرشار ہو ، زندہ قوم ہو ، جوان نسل کی طاقت سے سرشار ہو ،  تو ایسی قوم بڑی آسانی سے دشمنوں کا مقابلہ کر سکتی ہے ، دشمنوں کے سامنے استقامت اور مزاحمت کا مظاہرہ کر سکتی ہے اور ان پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے ، الحمد للہ ،ہم جوان  نسل کو میدان میں دیکھ رہے ہیں ، میں اپنے دوستوں سے اس بات کی سفارش کرنا چاہتا ہوں کہ انقلاب کے اہداف و مقاصد کی پیشرفت میں ، ان جوانوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں ۔ ان جوانوں میں سے اکثرنے یا تو انقلاب کو سرے سے ہی نہیں دیکھا یا اس دور میں بہت کم سن تھے ؛ لیکن آج کے دور میں ہمارے دور کے مقابلے میں کہیں بہتر انداز میں امور انجام دے رہے ہیں ۔ بہت ہوشیاری اور بیداری سے امور کو آگے بڑھا رہے ہیں ، الحمد للہ انقلاب کا یہ تناور درخت ، روز بروز زیادہ پھلے پھولے گا۔

پروردگار عالم آپ سبھی کو اپنی توفیق و تائید عطا فرمائے ، ہمارے شہداء اور امام امت (رہ)کی روح پر اپنا لطف و کرم نازل فرمائے؛ امام زمانہ (عج ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرمائے ۔

                                       والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ