ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی کا ، علماء اور طلاب کے اجتماع سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

 میں آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو اس نورانی اجتماع میں حاضر ہوئے ہیں ۔ الحمد للہ قابل احترام علماء ، فضلاء اور طلاب  کرام ، حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ اور منتظمین ، یہاں تشریف فرما ہیں ، اس اعتبار سے یہ اجتماع ایک ممتاز اور کم نظیر اجتماع ہے ۔

آپ حضرات یہاں تبلیغ کی مناسبت سے جمع ہوئے ہیں ؛ اور تبلیغ ہی میرا اور آپ کا اصلی اور بنیادی کام ہے ۔ یہ ایام بھی تبلیغ دین سے مکمل مناسبت رکھتے ہیں ؛یہ ایّام ، الہام بخش ایام ہیں ، کل  ، عید مباہلہ کا مبارک دن تھا ، اور کچھ ہی دنوں میں محرم الحرام کے ایام شروع ہونے والے ہیں ، ۲۷ آذر ( ۱۸ دسمبر )  کا دن، حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کا یوم اتحاد ہے ۔ ہم سبھی کے لئیے( جو کہ تبلیغ دین اور حقیقت کے ابلاغ کے لئیے کمر بستہ ہیں  ) یہ ایام اور مناسبتیں ، بہت اہم اور سبق آموز ہیں ۔

روز مباہلہ وہ دن ہے جس دن پیغمبر اسلام (ص) اپنے عزیز ترین افراد کو میدان میں لائے ، مباہلہ کے واقعہ کا سب سے اہم پہلو یہی ہے ؛ " انفسنا و انفسکم '' کی تعبیر واقعہ مباہلہ میں ہے ؛ " نساءنا و نساءکم " (۱)  کی تعبیر بھی واقعہ مباہلہ میں ہے ؛  پیغبمر اسلام (ص) نے اپنے سب سے عزیز افراد کا انتخاب کیا اور انہیں مباہلہ کے میدان میں لے کرآئے جہاں  سب کے سامنے ، حق و باطل کے معیار کا تعیّن ہونا  تھا ۔ یہ پہلا موقع تھا جب  پیغمبر اسلام (ص)دین کی تبلیغ  اور حق کو پہچنوانے کے لئیے اپنے عزیز ترین افراد ، اپنی بیٹی ، اپنے بھائی اور جانشین کو میدان میں لے کر آئے تھے ؛ اس اعتبار سے مباہلہ کا واقعہ ایک استثنائی اور غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کے حقیقت کو روشناس کرانا کس قدر اہم ہے ؛ آنحضرت (ص) اپنے عزیز ترین افراد کو اس دعوے کے ساتھ میدان میں لے کر آئے کہ آئیے مباہلہ کرتے ہیں ، ایک دوسرے کے حق میں نفرین کرتے ہیں ، جو حق پر ہو وہ باقی رہے ، جو باطل پر ہو وہ ہمیشہ کے لئیے نیست و نابود ہو جائے ۔

          واقعہ کربلا میں بھی یہی بات عملی طور پر رونما ہوئی ، یعنی امام حسین علیہ السّلام ، رہتی دنیا تک کے لئیے حق و حقیقت کے معیار کو پہچنوانے کے اپنے اعزّاء و اقارب کو میدان کربلاء میں لے کر آئے ۔ امام حسین علیہ السّلام کو اس واقعہ کا انجام معلوم تھا اس کے باوجود ، جناب زینب سلام اللہ علیہا ، اپنے دیگر اعزّاء و اقارب ، اپنے بھائیوں  اور بیٹوں  کو میدان میں لاتے ہیں ۔ چونکہ یہاں بھی تبیلغ دین کی بات تھی ؛ اس واقعہ سے ، حقیقی تبلیغ ، پیغام الٰہی کے ابلاغ ، معاشرے کو حقیقت سے روشناس کرانے اور تبلیغ کے دیگر پہلوؤں کی اہمیت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔ امام حسین علیہ السّلام اپنے مشہور و معروف خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں '' من رای سلطا نا جائرا مستحلا لحرام اللہ ناکثا لعھد اللہ ۔۔۔۔۔ولم یغیر علیہ بفعل ولا قول کان حقا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ '' ؛ ( ۲) یعنی جب کو ئی ظالم بادشاہ ، معاشرے کی فضا کو اس طریقے سے مکدّر بنا رہا ہو ، اسے خراب کر رہا ہو تو ہر شخص کا فریضہ ہے کہ اپنے قول و فعل سے معاشرے کو حقیقت سے روشناس کرائے، امام حسین علیہ السّلام نے اس کا عملی نمونہ پیش کیا اور اس کے لئیے انہوں نے بہت بڑی قیمت ادا کی ۔ اس کے لئے آپ اپنے اعزّاء و اقارب ، امیر المؤمینن حضرت علی علیہ السلام کی اولاد ، حضرت زینب سلام اللہ علیہا  کو میدان میں لائے ۔

آج کے اجتماع کی ایک تیسری مناسبت ، حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کا یوم اتحاد ہے ۔ یہاں بھی ، خودسازی اور تبلیغ کی بات ہے ۔ یونیورسٹی کے طلباء کا مذہبی علماء اور دینی علوم کے طلاب کرام سے رابطہ ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے، اس رابطےکو مضبوط بنانے کے لئیے یہ دن منایا جاتا ہے ۔ اور اس اتحاد کا مطلب بھی یہی ہے ، ورنہ ، یونیورسٹی  اور حوزہ علمیہ کاعینی اور خارجی  اتحاد بے معنیٰ ہے ۔ چونکہ حوزہ ، حوزہ ہے او ر یونیورسٹی ، یونیورسٹی ہے ۔ دونوں کی سرگرمیوں کا اپنا ایک مخصوص دائرہ ہے ۔جس دور میں امام امت (رہ) نے ان دو مؤثر مجموعوں کے اتحاد کا نظریہ پیش کیا تھا ، اس دور میں حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی پالیسی حکم فرما تھی ۔ اس دور میں یہ پالیسی حکم فرما تھی کہ یونیورسٹی کو اسلام سے دور رکھا جائے اور حوزہ علمیہ کو عالمی تبدیلیوں اور سائنسی ترقی سے بے خبر رکھا جائے؛ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے دور رہیں ؛ یہ دونوں ایک ساتھ پرواز نہ کریں ، ان میں ہماہنگی اور یکسانیت نہ پائی جاتی ہو ۔اس کی بازگشت بھی مسئلہ  تبلیغ کی طرف ہوتی ہے تبلیغ کی اہمیت یہ ہے ۔ ہم درس بھی اسی غرض سے  پڑہتے ہیں  کہ اس کے ذریعہ ، پروردگار عالم کے پیغام کو پہنچا سکیں ؛ خواہ اس پیغام کا تعلّق ، عقیدے سے ہو ، یا اخلاق و احکام سے ۔

یہ مناسبتیں اور مسئلہ تبلیغ کی حقیقت ، اس عمل پر استوار ہیں جو بصیرت اوریقین  پر قائم ہو۔ اس کے لئیے بصیرت کا ہونا ضروری ہے ۔ یقین ، وہ قلبی ایمان ہے جس میں فرض شناسی کا احساس بھی پایا جاتا ہو ،اور اس یقین و بصیرت  کی بنیاد پر کوئی عمل انجام پائے ۔ اگر بصیرت و یقین ہو لیکن کوئی عمل انجام نہ پائے تو یہ بات ہر گز مطلوب نہیں ہے ؛ فریضہ تبلیغ ادا نہیں ہوا ۔ اسی طرح اگر  ، تبلیغ انجام پائے لیکن اس میں بصیرت یا یقین کی کمی ہو تو ایسی تبیلغ پر مطلوبہ اثر مرتّب نہیں ہو گا ۔ یہ یقین وہی چیز ہے جس کے بارے میں ارشاد رب العزّت ہو رہا ہے" آمن الرّسول بما انزل الیہ من ربّہ و المؤمنون کل ءامن باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسلہ" ؛ (۳)سب سے پہلے ، اس پیغام کے لانے والے کے دل میں اس پیغام کی حقانیت اور سچائی کے بارے میں گہرا ایمان اور اعتقاد ہو نا چاہئیے ، اگر ایسا نہ ہو تو اس کی تبلیغ رائیگاں جا ئے گی ، وہ مؤثر نہیں ہو گی ۔ اس ایمان کو بصیرت پر استوار ہونا چاہئیے ۔  بصیرت کے سلسلے میں کچھ باتیں کہی گئی ہیں  ، اس کا مفہوم واضح ہے ہم ان کو دہرانا نہیں چاہتے ۔اگر بصیرت اور یقین کی بنیاد پر کوئی عمل انجام پائے تو اسے " عمل صالح " کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے " ان الّذین آمنوا و عملوا الصالحات '' ؛ (۴) اس عمل صالح کا ایک مصداق کامل  جو واقعی میں ایک عمل صالح ہے '' تبلیغ دین " ہے جسے انجام دینا ضروری ہے ۔ تبلیغ دین کے بارے غور و فکر اور منصوبہ بندی لازمی امر ہے ۔ اس سلسلے میں محترم جناب مقتدائی (۵)نے جس نکتے کی طرف اشارہ کیا وہ بہت ہی  اہمیت کا حامل ہے اور میں اس کا مطالبہ کرنے والا تھا ، جناب مقتدائی نے پہلے ہی اس کی خوشخبری دے دی اور بتایا کہ امر تبلیغ کی پالیسی وضع کرنے اور مبلّغوں کی تربیت کے ایک سینٹر کا قیام عمل میں آیا ہے ۔

آپ ملاحظہ کیجئیے کہ آج کی دنیا میں تبلیغ کا کردار کس قدر اہم بن چکا ہے ، ہمیشہ سے ہی تبلیغ کا کردار بہت اہم رہا ہے لیکن ماضی میں موجودہ دور کی طرح یہ وسائل نہیں تھے ، یہ نزدیکی رابطے نہیں تھے  ۔ہم صاحبان عمامہ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ہم اپنے مخاطبین سے رو برو بات کرتے ہیں ، کسی واسطے کے بغیر ان سے مخاطب ہوتے ہیں ۔ یہ ایک بے مثال کام ہے ، کوئی بھی دوسرا فن اس کی جگہ نہیں لے سکتا ؛ منبر پر جا کر لوگوں سے خطاب کرنا ، تبلیغ کے دیگر فنون کے مقابلے میں زیادہ مؤثر ہے ۔ اگر چہ تبیلغ کے دیگر فنون بھی اپنی جگہ لازم و ضروری ہیں لیکن فن خطابت و تقریر میں جو خصوصیت پائی جاتی ہے وہ دوسرے فنون میں نہیں پائی جاتی ۔ پس تبیلغ ایک بہت اہم چیز ہے اور عصر حاضر میں ایک بنیادی اور اساسی چیز شمار ہوتی ہے ؛ ہمارے پاس تبلیغ کا سب سے زیادہ مؤثر طریقہ کار ہے ۔

میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ تبلیغ کو،  عوام میں ایک نئی تحریک پیدا کرنا چاہئیے ، تبلیغ کو عوام میں دینی شعور کی بیداری و ارتقاء کا باعث بننا چاہئیے ۔اگر معاشرے میں کوئی دینی مفہوم ہمہ گیر شکل اختیار کر لے تو اس صورت میں اس دینی مفہوم کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ ،سماجی شکل اختیار کر چکا ہے ۔ یہ کام کسی منصوبہ بندی کے بغیر انجام نہیں دیا جا سکتا اس کے لئیے منصوبہ بندی اور سعی پیہم کی ضرورت ہے ۔ بالکل ویسے ، جیسے اگر آپ پانی یا ہوا کو کسی خاص نقطے تک پہنچانا چاہتے ہوں تو اس کے لئیے پانی یا ہوا کو پہنچانے والے وسیلے کو مسلسل چلانا ضروری ہوتا ہے ، ویسےہی تبلیغ کے لئیے سعی پیہم اور منصوبہ بندی لازم ہے  ۔

یہ نظریہ پردازی اور بحث و گفتگو کا ماحول اس لئیے ضروری ہے تا کہ آپ کے مخاطبین میں  دینی شعور کو ارتقاء حاصل ہو ۔ اور جب دینی شعور کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ ، احساس ذمہ داری بھی پایا جاتا ہو تو ایسے دینی شعور سے'' عمل '' وجود میں آتا ہے ۔ اور یہ وہی چیز ہے جو انبیاء کا مقصود و مطلوب تھی ۔ درست ثقافت ، صحیح شناخت ، بعض مواقع پر خبردار کرنا ، ہوشیار کرنا ، یہ تبلیغ کے آثار و نتائج ہیں ۔

        تبلیغ کا ایک  نمونہ ، یہی ماہ محرم کی تبلیغ ہے جو امام حسین علیہ السّلام اور آپ کے اصحاب باوفا کی عزاداری کے موقع پر انجام پاتی ہے۔ یہ تبلیغ کا بہترین موقع ہے ۔ اس موقع غنیمت سے (ان مقاصد کے لئیے جو ہم نے بیان کیے )بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئیے ؛ تبلیغ کے ذریعہ  معیاروں کی نشاندہی ہونی چاہئیے ، راہنما خطوط کا تعیّن ہونا چاہئیے ، راستے کی علامتوں کا تعیّن ہونا چاہئیے ۔ اگر کسی دوراہے پر کوئی ایسی علامت نہ ہو جس سے راستے کا پتہ چلتا ہو کہ داہنی طرف ہے یا بائیں طرف ، ایسی صورت میں انسان راستہ بھٹک سکتا ہے اور یہی صورت حال اور بھی پیچیدہ ہو جاتی ہے جب سہ راہے یا چو راہے پر کوئی ایسی علامت نہ ہو ، یہ بات  انسان کی گمراہی کا باعث بن سکتی ہے ۔معیار کا تعیّن ہونا چاہئیے ۔  صحیح راستے کی راہنمائی کی علامتیں سب کی نظروں کے سامنے ہو ں تا کہ کوئی گمراہ نہ ہو ۔ جس دنیا میں دشمنوں کے فعل و کردار کی بنیاد ، فتنہ سازی پراستوار ہو ، وہاں صاحبان حق و حقیقت کو ، بصیر ت اور ہدایت ، اور حق و باطل کے معیاروں کو جس قدر ممکن ہو  واضح انداز میں ہر شخص کے سامنے پیش کرنا چاہئیے ، تاکہ ہر شخص حق و حقیقت سے روشناس ہو سکے ، اس کا ادراک کر سکے اور گمراہ نہ ہو ۔

تبلیغ کے سلسلے میں ایک مطلب،  سورہ احزاب کی اس آیت میں ہے جس کی قاری محترم نے یہاں تلاوت کی " الّذین یبلّغون رسالات اللہ و یخشونہ ولا یخشون احدا الا اللہ وکفیٰ باللہ حسیبا (۶) رسالت الٰہی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ان دو شرطوں کا ہونا ضروری ہے ۔  ۱: یخشونہ "  سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ صرف خدا سے ڈرتے ہو ں ۔ ۲: و لا یخشون احدا الا اللہ '' خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہو ں ۔ فریضہ تبلیغ کی ادائیگی میں سب سے پہلے خوف خدا کا ہونا ضروری ہے ، خوف ، خدا کے لئیے ہو ، راہ خدا میں ہو، اس کی طرف سے الہام یافتہ ہو ، اس کی تعلیم پر استوار ہو ۔ اگر خدا کے الہام اور تعلیم کے بر خلاف ہو ، تو ایسا خوف ، گمراہی و ضلالت  ہے۔ " فما بعد الحق الا الضلال '' : ( ۷) حق کا ادراک ، خوف و خشیت الٰہی کے ذریعہ ہی ممکن ہو سکتا ہے  ۔ اس کے بعد ، حق کو بیان کرنے کے مرحلے میں '' ولا یخشون احدا الا اللہ '' ؛ خداکے سوا کسی سے نہیں  ڈرتے ہیں ۔ اس پر تاکید کیوں کی گئی ہے ؟ چونکہ دنیا میں حق وحقیقت کے دشمن بہت زیادہ ہیں ، حقیقت بیانی کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ دنیا ، حقیقت کے دشمنوں کے زیر تسلّط ہے ، قدرت و اقتدار ان کے پاس ہے ، وہ دنیا کی شیطانی و طاغوتی طاقتیں ہیں ، پوری تاریخ میں یہی صورت حال حکم فرما رہی ہے اور امام زمانہ (عج) کی حکومت کے قیام تک یہی صورت  حال باقی رہے گی ۔ یہ صاحبان اقتدار نکمّے تو نہیں بیٹھیں گے، بلکہ حق کے راستے میں روڑے اٹکائیں گے ، اس پر حملہ آور ہوں گے ، اس کےمقابلے میں اپنے تمام وسائل کو بروے کار لائیں گے ۔ پس " لایخشون احدا الا اللہ '' کا وجود بھی ضروری ہے ، ورنہ اگر غیر خدا کا خوف حاکم ہو جائے تو حق کا راستہ مسدود ہو جائے گا ، خوف کی بہت سی قسمیں ہیں ، جان کا خوف ، مال کا خوف ، عزّت و آبرو کا خوف ، دوسروں کی چہ می گوئیوں کا خوف ، یہ سب خوف کی قسمیں ہیں ، ان خوفوں کو دل سے باہر نکال پھینکنا چاہئیے ؛ " ولا یخشون احدا الا اللہ '' کی راہ میں بہت زیادہ زحمتیں اور مشقتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں ۔بسا اوقات عوام کو اس کا احساس تک نہیں ہو پاتا کہ اس راستے میں کس قدر مشقتیں برداشت کی جا رہی ہیں ، آیت کے اس فقرے کے بعد ارشاد ہو رہا ہے " و کفیٰ باللہ حسیبا '' ؛ حساب و کتاب کو خدا پر چھوڑ دو۔ خلوص نیت ، یقین و بصیرت ، شجاعت و شہامت پر مبنی اقدام ، حساب و کتاب کو خدا پر چھوڑنا ، یہ تبیلغ دین کی برجستہ و ممتاز خصوصیات ہیں ۔

ماہ محرم میں تبلیغ کے سلسلے میں بھی یہ عرض کرتا چلوں کہ ممکن ہے کچھ افراد یہ کہیں کہ اگر آپ امام حسین علیہ السّلام کے قیا م کے فلسفہ کو بیان کرنا چاہتے ہیں تو جائیے اور بیان کیجئیے لیکن مصائب کا تذکرہ کس لئیے ہے  ، ان پر آنسو کیوں  بہائے جاتے ہیں ؟ آپ جائیے اور امام عالی مقام کے کارنامے بیان کیجئیے ، آپ کے اہداف و مقاصد پر روشنی ڈالئیے ۔ یہ انتہائی غلط انداز فکر ہے ، اولیاء خدا اور دین سے یہ والہانہ جذباتی لگاؤ ، فکر و عمل کی ایک مضبوط بنیاد ہے ۔ اس جذباتی لگاؤ سے جذبہ عمل پیدا ہوتا ہے ۔ اس جذباتی لگاؤ کے بغیر راہ عمل میں قدم رکھنا بہت مشکل ہے ۔ یہ جذباتی لگاؤ بہت اہم ہے ۔ یہ جو امام امت (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ) نے فرمایا ہے کہ امام حسین علیہ السّلام کی عزاداری کو اس کے روایتی انداز میں منایا جائے ، یہ کوئی عام بات نہیں ہے ، بلکہ بہت گہری بات ہے ۔ آپ ملاحظہ کیجئیے کہ اولیاء خدا کے بارے میں قرآن مجید میں تین تعبیریں آئی ہیں:

ایک تعبیر ، ولایت کی تعبیر ہے ؛ " انما ولیّکم اللہ و رسولہ والّذین آمنوا الّذین یقیمون الصلوٰۃ و یوتون الزکوٰۃوھم راکعون '' ؛( ۸)اس آیت کریمہ میں ، مسئلہ ولایت پر تاکید کی گئی ہے ، اور یہ بات واضح ہے کہ ، اولیاء خدا کی معرفت ، ان سے قلبی لگاؤ ، امر ولایت کی ذیلی چیزیں ہیں ۔

اولیاء خدا کے سلسلے میں ایک دوسری  بحث ان کی اطاعت و پیروی سے  مربوط ہے " اطیعواللہ و اطیعوالرّسول و اولی الامر منکم '' ؛ (۹) میدان عمل میں خداو رسول اور صاحبان امر (ائمہ معصومین علیہم السّلام )کی اطاعت و پیروی واجب ہے ۔

اولیاءخدا کے بارے میں ایک تیسری بحث بھی پائی جاتی ہے اور وہ مودّت کی بحث ہے " قل لا اسئلکم علیہ اجرا الاالمودۃ فی القربیٰ '' ؛ (۱۰ )ولایت و اطاعت کے بعد یہ مودّت کیا ہے ؟  ان کی ولایت کو قبول کیجئیے ، ان کی اطاعت و پیروی کیجئیے ، یہ تو اپنی جگہ صحیح ، لیکن یہ مودّت کس لئیے ہے ؟ اس کا فلسفہ کیا ہے ؟ یہ مودّت و محبت ، ایک بنیاد ہے ، ستون ہے ، اگر مودّت نہ ہو تو جس طرح صدر اسلام میں کچھ افرادکے، مودّت کا دامن چھوڑنے کی وجہ سے ،  رفتہ رفتہ اطاعت و ولایت کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ، عصر حاضر میں بھی امت مسلمہ اسی مصیبت میں گرفتار ہو سکتی ہے ۔ مودّت کی بحث بہت اہم ہے ۔ مودّت کے ذریعہ ، جذباتی لگاؤ پیدا ہوتا ہے ؛ مصائب کے تذکرے سے ، آنسو بہانے سے یہ جذباتی لگاؤ پیدا ہوتا ہے ؛ اہلبیت علیہم السّلام کے فضائل و مناقب کے تذکرے سے بھی جذباتی اور قلبی لگاؤ پیدا ہوتا ہے ۔

لہٰذا واقعہ کربلا کی یاد میں مجالس عزاکا انعقاد ، شہداء کربلا کے مصائب پر آنسو بہانا ، واقعات کربلا کی توضیح و تشریح ، یہ سبھی چیزیں لازمی ہیں ، کچھ نام نہاد روشن فکر یہ نہ کہیں کہ اس دور میں ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے ، نہیں جناب! نہ صرف اس دور میں بلکہ رہتی دنیا تک ، یہ چیزیں بہت ضروری ہیں ۔ عزاداری کےسلسلے میں عوام الناس جو کام انجام دیتے ہیں وہ بہت ضروری ہیں ، البتہ اس سلسلے میں کچھ نامناسب رسمیں بھی ہیں جن سے اجتناب کرنا چاہئیے ، مثلا  قمہ زنی ایک حرام فعل ہے اس سے اجتناب کرنا چاہئیے ، جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اس کے بارے میں تاکید کی ہے ۔ اس فعل سے ہمارے دشمنوں کو ہمارے اوپر الزام تراشیوں اور تہمتوں کا بہانہ ملتا ہے ۔لیکن عزاداری امام حسین علیہ السّلام کے سلسلے میں جو دیگر امور عوام میں رائج ہیں وہ مطلوب ہیں ، مثلا جلوس عزا برآمد کرنا ، علم اٹھانا ، شہداء کربلا سے محبت کا اظہار کرنا ، ان کے مصائب پر آنسو بہانا ، یہ امور انتہائی پسندیدہ امور ہیں ، ان کے ذریعہ ، اہلبیت علیہم السّلام سے ہمارے جذباتی لگاؤ میں روز بروز اضافہ ہوتا ہے ۔ تبلیغ کی اہمیت کے بارے میں اتنی ہی گفتگو کافی ہے ۔

لہٰذا حوزہ علمیہ (جس کا ہر اعتبار سے مرکز،  سرزمین قم ہے )  تبلیغی امور میں یکسانیت پیدا کرنے کے لئیے ، تبلیغی امور کی منصوبہ بندی کے لئیے ، تبلیغی امور کو زیادہ متحرک و فعال بنانے کے لئیے حتمی طور پر ایک اچھا قدم اٹھانا چاہئیے ( جس کی خوش خبری یہاں سنائی گئی )انشاء اللہ اس کا تعاقب ہوگا ۔ چہ بسا کسی ایک خاص موقع پر کچھ خاص مسائل کی توضیح و تشریح ضروری ہو ، اور دس ، پانچ سال تک ان کی تبلیغ ضروری ہو ، لیکن ، پانچ ، دس سال کے بعد ان کی تبلیغ کی کوئی ضرورت  نہ ہو ۔ اس کی منصوبہ بند ی کیجئیے ۔ میں، ہمیشہ ہی مبلغین کرام ، اور طلاب و فضلاء سے سفارش کرتا رہتا ہوں کہ آپ جہاں بھی تبلیغ پر جاتے ہیں سب سے پہلے وہاں کے مبتلابہ مسائل کے بارے میں معلومات جمع کیجئیے اور جائزہ لیجئیے کہ وہاں کس چیز کی ضرورت ہے ، اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی تبلیغ کی منصوبہ بندی کیجئیے ۔ البتہ یہ کسی ایک شخص کا کام نہیں ہے ، ممکن ہے انفرادی طور پر کوئی شخص ، غلطی کا شکار ہو جائے اس کے لئیے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ، یہ کام انشاء اللہ انجام پانا چاہئیے ۔

تبلیغ کا سب سے اہم موقع اور جگہ جہاں تبلیغ ، حقیقی شکل اختیار کرتی ہے ، وہ جگہ اور موقع ہے جہاں '' فتنہ '' پایا جاتا ہو ۔ صدراسلام اورپیغمبر اسلام (ص) کے دور میں سب سے بڑی مشکل کا تعلّق   منافقین سے تھا ، پیغمبر اسلام(ص)  کے بعد امیرا لمؤمنین علیہ السّلام کے دور میں بھی ، اسلامی حکومت کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ، انہیں لوگوں نے کھڑی کی جو بظاہر اسلام کے مدعی تھے ۔ اس کے بعد دیگر آئمہ طاہرین کے دور میں انہیں افراد نے اسلامی معاشرے کی فضا کو مکدر بنایا ، اس میں آشوب بپا کیا ۔ ورنہ جنگ بدر کا میدان مشکل نہیں تھا ۔ جب انسان کسی ایسے میدان کارزار میں قدم رکھتا ہے ، جہاں دشمن کی شناخت معلوم ہو ، اس کا عقیدہ معلوم ہو ، ایسے دشمن سے جنگ کرنا بہت آسان ہے ۔ مشکل تو تب پیش آتی ہے جب مد مقابل بھی اسلام کا مدعی ہو ، جیسا کہ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام اسی مشکل صورت حال سے دوچار ہو ئے ، امیرالمؤمنین کے مد مقابل ایسے افراد تھے جو بظاہر مسلمان تھے ، اسلام کے پابند تھے ، ایسے لوگ نہیں تھے جو اسلام سے پھر گئے ہوں ، اسلام کے معتقد نہ ہوں ، بظاہر مسلمان تھے لیکن صراط مستقیم سے منحرف ہو چکے تھے ، اپنی نفسانی خواہشات کے غلام بن چکے تھے ۔ یہ وہ مشکل صورت حال تھی جو افراد کو شک و شبہ میں مبتلا کر رہی تھی ، جیسا کہ تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ عبد اللہ بن مسعود کے ساتھی ، امیرالمؤمنین علی (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کیا : انا قد شککنا فی ھٰذا القتال " !(۱۱) ہمیں جنگ کے بارے میں شبہ ہے ، انہیں شک و شبہ کا شکار نہیں ہونا چاہئیے تھا ۔ خواص کا شک و شبہ ، کسی بھی معاشرے کی صحیح حرکت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے ۔ جب خواص کچھ روشن و واضح حقایق کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا ہو جائیں تو اس سے صورت حال اور بھی پیچیدہ ہوجاتی ہے ۔ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کو بھی اسی مشکل کا سامنا تھا ۔ آج ، بھی یہی صورت حال ہے ۔ آج ، آپ کو عالمی اور داخلی سطح پر یہی صور ت  حال نظر آئے گی ۔ اس لئیے عام لوگوں کو حقیقت سے روشناس کرانا ضروری ہے ۔ آج ہمارے دشمن عالمی سطح پر اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لارہے ہیں تاکہ وہ عالمی رائے عامہ کو گمراہ کر سکیں ، عالمی برادری کے ذہن میں ہمارے بارے میں قسم قسم کے شکوک و شبہات بھر سکیں ۔ اس سلسلے میں ان کی رسائی جہاں تک ممکن ہو وہ اس سے کوئی دقیقہ فر وگذاشت  نہیں کر رہے ہیں ، عوام و خواص ، دونوں میں رخنہ اندازی کے درپے ہیں ۔قانون کی بالادستی ؛ انسانی حقوق کی پاسداری اور مظلوم کی حمایت کا ڈھونگ رچا رہے ہیں ، یہ باتیں بظاہر تو بڑی اچھی اور دلکش معلوم ہوتی ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے ۔ امریکہ کے صدر نے چند دن پہلے یہ بات کہی کہ ہم اس بات کے پیچھے ہیں کہ قانون شکن حکومتوں کو جواب دہ بنایا جائے ، اچھا اگر یہی بات ہے تو بتاؤ کہ کون سی حکومت قانون شکن ہے ؟ امریکہ سے بڑھ کر کون سی حکومت قانون شکن ہے ؟ کس قانون کی بنا پر تم نے عراق پر قبضہ کیا ہے ؟ اور عراقی عوام کو اس قدر مادی ، معنوی اور انسانی نقصان سے دوچار کیا ہے ؟ ایک سراسر جھوٹی افواہ کی بنیاد پر جسے خود امریکی حکومت نے تراشا تھا ، اسے بنیاد بنا کر عراق پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کیا ، جس کے نتیجہ میں گزشتہ چند برسوں میں لاکھوں عراقی خاک و خون میں غلطاں ہوئے ، لاکھوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا ۔ چند دن پہلے خبروں میں آیا تھا کہ اس مدت میں پانچ سو عراقی برجستہ شخصیات اور عراقی سائنسدانوں کو اسرائلیوں نے موت کے گھاٹ اتار ا ہے ، کیا یہ کوئی معمولی بات ہے ۔ یہ عراق پر امریکہ کے حملے کا نتیجہ ہے جو اسرائیل نے عراق میں برجستہ شخصیات کے قتل کے لئیے دہشت گرد ٹیمیں تشکیل دی ہیں ۔ جو عراق کی برجستہ علمی شخصیات کو چن چن کر نشانہ بنا رہی ہیں ۔ تم کس قانوں کےتحت عراق میں داخل ہوئے ہو ؟ کس قانون کے تحت آج بھی وہاں موجود ہو ؟ کس قانون کے تحت ، عراقی عوام سے یہ نازیبا سلوک روا رکھے ہو ؟ تم نے کس قانون کے تحت ، سرزمین افغانستان پر قبضہ کیا ہے ؟ کس بین الاقوامی اور عقل پسند قانوں کے تحت وہاں اپنی فوجوں میں اضافہ کر رہے ہو ؟ افغانستان میں نہ جانے کتنے ہی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جب امریکی افواج نے شادی کی تقریبات کو اپنے بہیمانہ حملوں کا نشانہ بنا یا ہے ؟!گزشتہ چند برسوں میں بارہا یہ روداد دہرائی گئی ہے ۔ہر دفعہ کچھ بے گناہ افراد  لقمہ اجل بن گئے اور وہ بھی ایسے لوگ جو شادی کی تقریب میں شریک تھے ۔ اس کے بعد امریکی فوجی افسر انتہائی بے شرمانہ انداز میں یہ کہے کہ ہم طالبان کا پیچھا کر رہے ہیں ، طالبان جہاں بھی ہوں گے ہم انہیں نشانہ بنائیں گے ! تم کو شادی کی تقریبات سے کیا سرو کار ہے ؟ عام لوگوں سے تمہیں کیا واسطہ ؟ ان سے تمہیں کیا لینا دینا ہے ؟ ابھی چند دن پہلے صوبہ ہرات میں رونما ہونے والے ایسے ہی ایک واقعہ میں سو سے زیادہ افراد مارے گئے جن میں بچاس کمسن بچے بھی شامل تھے ۔ لاقانونیت کا مظہر تم ہو اورسب سے زہادہ قانون شکن حکومت ، امریکہ کی حکومت ہے ۔

حقیقت ماجرا یہ ہے ؛ لیکن یہ زبان استعمال کرتے ہیں کہ ہم قانون شکنی کے مخالف ہیں ، قانون شکن حکومتوں کو جوابدہ ہونا چاہئیے ! یہ حقیقی معنیٰ میں ایک فتنہ ہے ۔ان سازشوں کو ، ظلمت و تاریکی کے ان پردوں کو عالمی رائے عامہ کے ذہن سے کیا چیز پاک کر سکتی ہے ؟ حقیقت کو روشناس کرانے سے ہی ان چیزوں کا ازالہ ممکن ہے ، آپ ملاحظہ کیجئیے کہ آپ کی ذمہ داری کس قد سنگین ہے ۔

دینی مسائل کی نوعیت بھی یہی ہے ۔ عالم اسلام میں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے کے لئیے یہ فتنہ گر ہاتھ ، اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لارہے ہیں ۔ چونکہ اکثر  مسلم ممالک ایک حساس خطے میں واقع ہیں ، ایک ایسے خطے میں ہیں جو اقتصادی اور فوجی اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ تیل کی دولت اس خطے میں پائی جاتی ہے ، انہیں تیل کی ضرورت ہے ؛ اور اسلام ان کے راستے میں رکاوٹ بن رہا ہے ، وہ اس مشکل کوکسی نہ کسی طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں ، اس کو حل کرنے کا جو بہترین طریقہ انہوں نے ڈھوند نکالا ہے وہ یہی مذہبی اختلافات ہیں ، ان مذہبی اختلافات کی بنیاد ، بے جا مذہبی تعصبات ہیں ، ان تعصبات کا مقابلہ کیوں کر کیا جاسکتا ہے ؟ ان کا مقابلہ سیاسی شعور میں ارتقاء ، درست تبلیغ اور دشمن کی چال سے باخبر رہ کر کیا جاسکتا ہے ۔ بین الاقوامی مسائل کے بارے میں بس اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔

ملک کے داخلی مسائل میں بھی یہی صورت حال حکم فرما ہے ۔ آپ ملاحظہ کیجئیے کہ کچھ افراد نے قانون شکنی کی ، ہنگامہ کھڑا کیا ، اور جہاں تک ممکن ہوا ، عوام کو اسلامی نظام کا مقابلہ کرنے پر اکساتے رہے یہ الگ بات ہے کہ انہیں اس مقصد میں کامیابی نہیں ملی ، لیکن انہوں نے اپنی طرف سے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ؛ انہوں نے انقلاب اور اسلام کے دشمنوں کو زبان درازی اور جسارت کا موقع فراہم کیا ۔ ان کے اس اقدام کی وجہ سے ، اسلام اور امام امت (رہ)سے کینہ رکھنے والوں میں یہ جر ات پیدا ہوئی کہ انہوں نے یونیورسٹی میں امام امت (رہ) کی تصویر کی توہین کی (۱۲) انہوں نے وہ کام کیا جس کی وجہ سے انقلاب کے نیم جان ، مایوس اور ناامید دشمنوں میں دوبارہ امید پیدا ہو گئی جس کی بنا پر انہوں نے انقلاب اور امام امت کے عاشق ، انقلاب اور نظام سے والہانہ لگاؤ رکھنے والے طلباء کے سامنے اتنا بڑا قدم  اٹھایا ۔ ان قانون شکنیوں ، ہنگاموں اور انقلاب و نظام کا مقابلہ کرنے پر اکسانے کا نتیجہ یہی ہے۔ یہ غلطیاں سرزد ہوتی ہیں ، یہ مجرمانہ افعال انجام پاتے ہیں ، اس کے بعد ان کی پردہ پوشی کے لئیے نئی نئی دلیلیں قائم کی جاتی ہیں ، ان کے اطراف میں فلسفہ بافی کا کام شروع ہوجاتا ہے ، ان پر استدلال قائم کیا جاتا ہے ! یہ ہر انسان کی ایک بہت بڑی مصیبت ہے ، ہمیں اس کے تئیں ہوشیار رہنا چاہئیے ، ہم کوئی غلط قدم اٹھاتے ہیں اور جب ہمارا ضمیر ، یا دوسرے لوگ اس کے بارے میں ہم سے سوال کرتے ہیں تو ہم اپنے دفاع میں طرح طرح کی بے بنیاد دلیلیں پیش کرتے ہیں ، اس کے لئیے کوئی نہ کوئی استدلال تراشتے ہیں ۔

اس سے معاشرے میں فتنہ پیدا ہوتا ہے ۔ معاشرے کی فضا مکدّر ہوتی ہے ۔ ایک طرف قانون کی بالا دستی کی دہائی دیتے ہیں اور دوسری طرف ، عملی طور پر قانون شکنی کا ارتکاب کرتے ہیں ، امام امت(رہ) کی طرفداری کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن ایسا کردار پیش کرتے ہیں کہ ان کے ماننے والے ، اس طرح امام امت (رہ) کی تصویر کی توہین کریں ۔ امام امت (رہ) کی اہانت کریں ، کیا یہ کوئی معمولی بات ہے ؟ کیا یہ کوئی چھوٹی موٹی بات ہے ؟ انقلاب کے دشمن اس فعل سے بہت خوش ہوئے ہیں ،فقط خوش ہی نہیں ہوئے بلکہ اس کا  ، تجزیہ و تحلیل کر رہے ہیں ، اس تجزیے و تحلیل کی بنیاد پر فیصلے کر رہے ہیں اور ان فیصلوں کی بنیاد پر عملی اقدام کر رہے ہیں ، ان کے اندر ملکی مفادات اور ایرانی قوم کے خلاف سازشوں کا حوصلہ پیدا ہوا ہے ۔ فریب کاری ، دغل بازی ، فضا کا مکدّر ہونا  یہ چیزیں  سب سے بڑھ کر ان مشکلات میں اضافے کا سبب بنتی ہیں ، اور امیرالمؤمنین علیہ السّلام کے بقول '' ولٰکن یوخذ من ھذٰا ضغث و من ھذا ضغث فیمزجان  فھنالک یستولی الشّیطان علی ٰ اولیاءہ '' : (۱۳) حق و باطل کو ایک دوسرے میں ملا دیا جاتا ہے ، صاحبان حق کے لئیے حق کو پہچاننا مشکل ہوجاتا ہے ، یہاں پر حق کو پہچنوانا ، حقیقت سے روشناس کرانا ، عام لوگوں کے اذہان کو روشن کرنا ۔ حق و باطل کے معیار کو واضح کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔

وہ شخص جو انقلاب ، اسلام اور امام (رہ) کے لئیے مصروف عمل ہے ، وہ جیسے ہی یہ دیکھتا ہے کہ اس کی کسی بات کو ، اسلام اور انقلاب کے دشمن ، انقلاب کے اصول کے خلاف استعمال کر رہے ہیں تو وہ فورا ہوش میں آجاتا ہے ، یہ لوگ ہوش میں کیوں نہیں آتے ؟ جب ان لوگوں نے سنا کہ جمہوری اسلامی کے بنیادی نعروں ( خود مختاری ، آزادی  جمہوری اسلامی ) سے اسلام کو حذف کیا جا رہا ہے ، انہیں ہوش میں آنا چاہئیے ؛ انہیں فورا سمجھ لینا چاہئیے تھا کہ وہ غلط راستے پر چل پڑے ہیں ،وہ غلطی پر ہیں ؛ انہیں فورا اس سے لاتعلّقی اور بیزاری کا اظہار کرنا چاہئیے ۔ جب انہوں نے یہ دیکھا کہ عالمی یوم قدس (جسے فلسطین کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کے خلاف منایا جاتا ہے ) کے موقع پر غاصب صیہونی حکومت کے حق میں اور فلسطین کے خلاف نعرے لگائے جا رہے ہیں ، انہیں اس سے الگ ہو جانا چاہئیے تھا ، انہیں ہوشیار ہو جانا چاہئیے ، فورا اس عمل سے لا تعلّقی اور بیزاری کا اظہار کرنا چاہئیے تھا ۔ اور فورا اعلان کرنا چاہئیے تھا کہ ہم سے ان کا کئی تعلّق نہیں ہے ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عالمی ظلم و استکبار کے آقا ان کی حمایت کر رہے ہیں ، امریکہ ، برطانیہ اور فرانس کے سربراہ جو کہ گزشتہ دو، ایک صدی سے ظلم و استکبار کا مظہر رہے ہیں ،یہ لوگ ان کی حمایت کر رہے ہیں ، انہیں متوجّہ ہوجانا چاہئیے تھا ۔ انہیں فورا سمجھ جانا چاہئیے تھا کہ ان کے کام  میں کہیں نہ کہیں کوئی عیب ضرور ہے،  جب وہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کے فاسد و بدعنوان ،  جاہ طلب افراد ، کمیونسٹ  ، ملک سے فراری ناچنے گانے والے افراد ان کی حمایت کر رہیں انہیں فورامتوجّہ ہوجانا چاہئیے ، ان کی آنکھیں کھل جانا چاہئیے ، انہیں سمجھنا چاہئیے ؛انہیں سمجھنا چاہئیے کہ ان کے کام میں کہیں کوئی عیب ضرور ہے، انہیں فورا اس سے بیزاری کا اظہار کرنا چاہئیے ، اور اعلان کرنا چاہیے کہ ہمیں آپ کی حمایت نہیں چاہیے ، پاس و لحاظ کیوں کر رہے ہیں ؟ کیا عقلانیت کو بہانہ بنا کر ان حقائق سے چشم پوشی کی جا سکتی ہے ؟ کیا یہ عقلانیت ہے  اس قوم و ملت، انقلاب و اسلام کے دشمن ، آپ کو اپناحصہ  سمجھیں اور آپ کے لئیے تالیاں اور سیٹیاں بجائیں  اور آپ کو بھی اچھا لگے ، آپ بھی ان سے امید وابستہ کریں ۔ کیا اسی کانام عقلانیت ہے ؟!یہ عمل مخالف عقل ہے ، عقل کا تقاضا یہ ہے کہ جیسے ہی آپ نے مشاہدہ کیا کہ جن اصول و مبانی  کے آپ مدعی ہیں ، ان کے خلاف ، آواز اٹھ رہی ہے  تو اپنے آپ کو اس تحریک  سے الگ کر لینا چاہئیے تھا ، آپ کو اس سے اظہار بیزاری کرنا چاہئیے تھا ، اور یہ اعلان کرنا چاہئیے تھا کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے ۔ آپ نے جیسے ہی دیکھا کہ امام(رہ)  کی تصویر کی توہین کی گئی ہے ، آپ کو اس واقعہ سےسرے سے انکار کے بجائے  اس کی مذمت کرنا چاہئیے ، مذمت سے بھی بڑھ کر اس واقعے کی گہرائی کو سمجھئیے ، دشمن کی سازشوں اور منصوبہ بندیوں کو درک کیجئیے ۔اس کے اہداف و مقاصد کو سمجھئیے ۔ ان حضرات کو یہ حقائق سمجھنا چاہئیے ، مجھے ان میں بعض افراد پر بہت تعجب ہوتا ہے جن کی شناخت ، جن کی شہرت اور پہچان ، انقلاب کی مرہون منت ہے  ، ان میں سے بعض افراد نے طاغوت کے دور میں انقلاب کی خاطر ایک تھپڑ تک نہیں کھایا ، ان افراد نے انقلاب کی برکت سے شہرت حاصل کی ہے ، ان کی ہر چیز انقلاب کی مر ہون منّت ہے جب یہ لوگ اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ انقلاب کے دشمن کس طرح اپنے خنجر تیز کر رہے ہیں، کس طریقہ سے انقلاب کے خلاف صف آرا ہیں ؛ اس صورت حال سے کس قدر خوش ہیں ، وہ اس صورت حال پر مسکرا رہے ہیں ، جب وہ یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں  تو ہوش میں کیوں نہیں آتے ؟ ہوش میں آئیے اور متوجّہ ہوئیے ۔

 کچھ عرصہ پہلے تک آُ پ ہماری صف میں تھے ، ہمارے بھائی تھے ۔ ایک دور میں  ان میں سے بعض افراد کو  امام امت(رہ)  کی حمایت کی وجہ سے توہین کا سامنا کرنا پڑتا تھا ، وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ کچھ ایسے  افراد جو  ان کا نام لے کر نعرہ لگا رہے ہیں ، ان کی تصویر اپنے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہیں ، ان کا نام عزّت و احترام سے لیتے ہیں یہ لوگ اسلام ، انقلاب اور امام امت(رہ)  کے بتائے ہوئے راستے سے ہٹ کر نعرے لگا رہے ہیں ، ماہ رمضان کی حرمت کو پائمال کر رہے ہیں، یوم قدس پر کھلے عام کھا، پی رہے ہیں جب آپ ان چیزوں کو دیکھ رہے ہیں تو ان سے جدا کیوں نہیں ہو جاتے ۔ الیکشن تمام ہوگیا ۔ جو ایک صحیح و سالم الیکشن تھا ، اس الیکشن پر جو بھی الزام انہوں نے عائدکیے ان میں سے کسی بھی الزام کو ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ؛ محض دعوے کرتے رہے ، ان کو موقع بھی دیا گیا ؛ ہم نے بھی کہا کہ آئیے اور ان الزامات کو ثابت کیجئیے ؛ وہ ان الزامات کو ثابت کرنے سے عاجز تھے ، وہ نہیں آئے ؛ اب الیکشن کی بات ایک قصہ پارینہ بن چکی ہے ، قانون کے احترام کا تقاضا ہے کہ اگر ہم کسی منتخب صدر کو نہیں بھی مانتے تو بھی اگر ہمیں قانون کا پاس و لحاظ ہے تو ہمیں قانون کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہئیے ، کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ جو شخص منتخب ہوا ہے وہ سو فیصد اچھا ہے اور جو شخص منتخب نہیں ہوا وہ سو فیصد برا شخص ہے ، ایسا نہیں ہے ، بلکہ اچھائی و برائی دونوں طرف پائی جاتی ہے ۔ جب قانون ، معیار و ملاک ہے تو یہ صورت حال کیوں پیش آئی ؟ یہ خواہشات نفسانی کی تقلید کا نتیجہ ہے ۔

یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے جو لوگ اوائل انقلاب میں موجود تھے انہیں اچھی طرح یاد ہوگا انقلاب کے پہلے عشرے میں ، انقلاب کے ابتدائی ایام میں ، امام امت(رہ)  کے کچھ ساتھی امام (رہ)  کے خلاف صف آرا ہو گئے ، موصوف کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے ، وہ امام (رہ) کے موقف کو غلط ثابت کرنے کے درپے تھے ، وہ امام (رہ) کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کرنا چاہتے تھے ، البتہ بعد میں ان کی مخالفت نے کئی کروٹیں لیں ، انقلاب نے ان افراد کو اپنی حدوں سے باہر نکالا ، نوبت یہاں تک پہنچی کہ امام (رہ) کے بعض ساتھیوں ، بعض قریبی افراد نے دشمن کی آغوش میں پناہ لی ، انہوں نے  انقلاب کی مخالفت  اور اس پر ضرب لگانے کے لئیے ، دشمنوں کی ہر ممکن مدد کی ۔ ہم سب کو ان واقعات سے عبرت حاصل کرنا چاہئیے ، ہمیں اسے اچھی طرح سمجھنا چاہئیے ۔

جیسا کہ میں نے  نماز جمعہ میں بھی اعلان کیا تھا کہ میں زیادہ سے زیادہ افراد کو ساتھ لے کر چلنے کاقا ئل ہوں اور کم سے کم افراد کو دور کرنے کا معتقد ہوں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ گویا کچھ لوگ خود ہی    اس نظام سے علٰیحدہ ہونے پر مصر ہیں ، کچھ لوگوں نے ایک خاندانی اور اندرونی  اختلاف  کو جوکہ الیکشن سے مربوط تھا اسے اس نظام سے مقابلے کے میدا ن میں تبدیل کر دیا ۔ البتہ یہ ایک چھوٹی سی اقلیت ہے ؛ یہ افراد ، ایرانی قوم کی عظمت کے سامنے ہیچ ہیں ؛ لیکن ان کا نام لے کر نعرے لگا رہے ہیں ؛ یہ لوگ بھی دل ہی دل میں خوش ہو رہے ہیں ۔ یہ ہمارے لئیے عبرت کا باعث ہونا چاہئیے ۔ تبلیغ کو ،عوام اور خود ان لوگوں کو  ان حقایق سے روشناس کرانے کا عامل بننا چاہئیے جو اس میں ملوّث ہیں ، تبیلغ ان پر یہ حقیقت واضح کرے کہ وہ غلطی پر ہیں ، غلط راستے پر چل رہے ہیں ۔

البتہ یہ نظام ایک الٰہی نظام ہے ؛ پرورد گار عالم کا لطف وکرم اور اس کی نصرت  ہمیشہ ہی اس کے شامل حال رہی ہے ، اول انقلاب سے لے کر آج تک رونما ہونے والے واقعات اور تجربات اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر ہم خدا کے ساتھ ہوں تو خدا بھی ہمارے ساتھ ہو گا ۔ یہ لوگ ، یہ تسلّط پسند عالمی طاقتیں جو اپنی اس غلط منطق کے ذریعہ پوری دنیا پر اپنا تسلّط قائم کرنا چاہتی ہیں وہ یقینا پروردگار عالم کی مدد و نصرت سے ، اس قوم اور دیگر خود مختار قوموں کے ذریعہ منہ کی کھائیں گی ۔ انہوں نہ تو اسلام کو پہچانا ہے نہ ہماری قوم کو ؛ انہوں نہ تو ہمارے عظیم الشان  امام امت (رہ) کی معرفت ہے اور نہ ہی انہوں نے ہمارے انقلاب کو پہچانا ہے ؛ انہیں نہیں معلوم کہ ان کا مقابلہ کس قوم سے ، انہوں نے اس قوم کو نہیں پہچانا ، یہ قوم ایک ثابت قدم قوم ہے ، ہمارے جوان وہ جوان ہیں جو حقیقی معنیٰ میں جان و دل سے اس قوم کی سعادت و خوشبختی کےلئیے رات دن مصروف عمل ہیں  ، اس سعادت و خوشبختی کے حصول میں کوشاں ہیں جس کا تعیّن ، دین اسلام نے کیا ہے ۔ ہمارے طلباء بھی اسی خصوصیت کے حامل ہیں ؛ ہمارے آج کے طلباء کا شمار بہترین طلباء میں ہوتا ہے ؛ نہ فقط ، علم و ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بلکہ معنویت اور ایمان کے اعتبار سے بھی ہمارے طلباء ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ انہیں واقعات میں ہم نے  بارہا اس کے نمونے مشاہدہ کیے ۔ ان واقعات میں ہماری یونیورسٹیوں نے بہترین  امتحان دیا ۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری یونیورسٹیاں ، میدان عمل میں حاضر ہیں ، آگاہ و بیدار ہیں۔ حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کے رشتے جس قدر مضبوط ہوں گے اسی قدر اس  معنویت اور جوش و جذبہ میں اضافہ ہو گا ۔

امام امت(رہ)  کی توہین کے واقعہ سے عوام میں غصّے کی لہر دوڑ گئی ، عوام غیظ میں آگئے ، وہ اس میں حق بجانب بھی ہیں ، انہوں نے اس فعل سے بیزاری کا اظہار کیا ، یہ اعلان برائت  کا مناسب موقع و محل بھی ہے ۔لیکن میں عوام سے گزارش کرتا ہوں کہ پر سکون رہیں ، صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں ، طلباء سے بھی میری یہی گزارش ہے ۔ یہ لوگ جو آپ کے مد مقابل ہیں اس ملک میں ان کو کوئی مقام حاصل نہیں ہے ، یہ اس انقلاب اور اس قوم کی عظمت کے سامنے نہیں ٹک پائیں گے ؛  آپ ہر اقدام سوچ سمجھ کر ، صبر و سکون کے ساتھ اٹھائیے ، جہاں کہیں ضروری ہوا ، ملک کے حکام ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے ۔ البتہ طلباء ایسے عناصر کی شناسائی کریں جو یونیورسٹی کے پر امن ماحول میں رخنہ اندازی کرنا چاہتے ہیں ، ان کی شناسائی کریں اور دوسروں کو ان سے باخبر کریں ، یہ بھی ایک طرح کی درست تبلیغ ہے ، ان خبیث عناصر کا پتہ لگائیں ، ان کے روابط اور ان کے افکار کا پتہ لگائیں  ، لیکن ان امور کو پر سکون انداز میں انجام دیں ۔ معاشرے کی سطح پر ، ہلڑ ھنگامہ ، لڑائی جھگڑا اور تناؤ ، ہماری مصلحت میں نہیں ہے ، دشمن اسی چیز کے پیچھے ہے ، دشمن چاہتا ہے کہ معاشرے میں بد امنی کا دور دورہ ہو ، امن و سکون بہت اہم ہے ۔ لوگوں کے امن و سکون کے دشمن چاہتے ہیں کہ لوگوں میں بد امنی کا احسا س پیدا ہو ، ان میں ناراضگی پائی جاتی ہو ، وہ اس صورت حال سے تنگ آجائیں ، انہیں اس پر غصہ آئے۔ لیکن ہم یہ نہیں چاہتے ، ہم چاہتے ہیں ، کہ لوگ ، آرام وچین کی زندگی بسر کریں ، وہ پر سکون انداز میں اپنے روز مرّہ کے امور میں مصروف رہیں ،  حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کےطلباء پر سکون انداز میں  اپنے درس میں مشغول رہیں ، محقق ، آرام و سکون کی فضا میں اپنی تحقیق میں مصروف رہے ، کسان ، کارخانوں کے مالک اور تجارت پیشہ افراد ، امن و سکون کی فضا میں اپنے کاموں میں مشغول رہیں ۔ یونیورسٹی کا ما حول بھی پر امن و سازگار ہونا چاہئیے ، یہاں قوم کے جوان ، زیر تحصیل ہیں ، قوم یہ چاہتی ہے کہ یہاں کا ماحول پر امن و سازگار ہو ، جو لوگ ہنگاموں کے ذریعہ ، یونیورسٹی کے پر امن ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں ان کا سروکار اس قوم سے ہے ۔ البتہ ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بھی اپنے فرائض ہیں ، انہیں ان فرائض پر عمل کرنا چاہئیے ۔

اے  عزیز جوانو! عزیز طلاب اور فضلاء ! آپ یہ جان لیجئیے کہ قرآن مجید کی اس آیت کریمہ " فاما الزبدفیذھب جفاء وامّا ما ینفع الناس فیمکث فی الارض '' ؛ (۱۴)کا ہر دور میں ایک مصداق اتم و اکمل پایا جاتا ہے ؛ آپ  مشاہدہ کریں  گے؛   پروردگارعالم کے فضل و کرم سے آپ اسے ضرور مشاہدہ کریں گے کہ " اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض '' کی بنا پر ، یہ استوار عمار ت ،جس کا خاکہ خدائی ہے ، جس کی بنیاد بھی ایک خدائی  انسان نے رکھی ہے، اور جس کی بقا کا ضامن اس قوم کا عزم و ارادہ اور ایمان ہے ۔ یہ عمارت یوں ہی استوار رہے گی ۔ اور  انشاءاللہ اس درخت کی جڑیں روز بروز گہری ہوتی جائیں گی ۔ اور آپ دیکھیں گے کہ '' فیذھب جفاء '' کی رو سے انشاء اللہ  اس حق و حقیقت کے مخالف آپ کی آنکھوں کے سامنے نیست و نابود ہو جائیں گے ۔  

ہمیں امید ہے کہ پروردگار عالم امام زمانہ (عج)کے قلب مقدّس کو ہمارے  تئیں مہربان فرمائے گا ؛ اور ان کی دعا کو ہم سب کے شامل حال فرمائے گا ۔ اور امام امت(رہ)  اور شہداء کی طیب و طاہر روحوں کو ہم سے راضی و خشنود فرمائے گا ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

---------------------------------------------------------------

) سورہ آل عمران : آیت ۶۱

(۲)مقتل ابی مخنف  ص ۸۵ ؛ جو کوئی بھی  یہ دیکھے کہ کو ئی ظالم حاکم ، حرام خدا کو حلال قرار دے رہا ہے اور عہد و پیمان خداوندی کو توڑ رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر وہ اپنی رفتار و گفتار سے اس کا مقابلہ نہ کرے تو خدا کو یہ حق حاصل ہے کہ اس شخص کو اسی ظالم حاکم کے ساتھ محشور کرے ۔ ''

(۳) سورہ بقرہ ،آیت ۲۸۵ ؛ ''رسول ان تمام باتوں پر ایمان رکھتا ہے جو اس کی طرف نازل کی گئی ہیں اور مؤمنین بھی سب اللہ اور ملائکہ اور مرسلین پر ایمان رکھتے ہیں ''

(۴) سورہ بقرہ ؛ آیت ۲۷۷ ؛ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئیے ''

(۵) حوزہ علمیہ قم کے سربراہ ۔

(۶ ) سورہ احزاب : آیت ۳۹ '' وہ لوگ اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں اور اللہ حساب کرنے کے لئیے کافی ہے ''

(۷) یونس  ۳۲ ''حق کے بعد ضلالت کے سوا کچھ نہیں ہے ''

(۸ ) سورہ مائدہ : ۵۵ " ایمان والو ، بس تمہار ا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔

(۹) سورہ نساء : آیت ۵۹ " ۔۔۔۔اللہ کی اطاعت کرو ۔ رسول اور صاحبان امر کی اطاعت کروجو تمہیں میں سے ہیں '' ۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱۰) سورہ شوریٰ : آیت ۲۳ " ۔۔۔۔۔۔۔آپ کہ دیجئیے کہ میں تم سے اس تبلیغ کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو ۔۔۔۔''

(۱۱) وقعۃ صفین ، ص ، ۱۱۵ " ہمیں اس جنگ کے بارے میں شک و شبہ ہے " ؛

(۱۲ ) اس مقام پر حضار نے یہ نعرہ لگایا " روح منی خمینی    بت شکنی خمینی ''

(۱۳) نہج البلاغہ : خطبہ ۵۰ ؛ " وہ ہمیشہ حق و باطل کو ایک دوسرے میں مخلوط کرتے ہیں اور اس حالت میں شیطان اپنے ماننے والوں پر مسلّط ہو جاتا ہے ''

(۱۴) سورہ رعد : آیت ۱۷ ؛ ''۔۔۔ جھاگ خشک ہو کر فنا ہوجاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔''