ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا رضاکار فورس (بسیج ) کے اجتماع سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

میں آپ سبھی عزیزوں ، بھائیوں اور بہنوں ،  اور سربلند رضاکاروں کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔ تاریخی اعتبار سے یہ ایام ایک ممتاز اور عظیم مقام کے حامل ہیں ؛ امام محمد باقر علیہ السّلام کی شہادت ایک پیغام کی حامل تھی ؛ یہی وجہ ہے کہ امام علیہ السّلام نے خود وصیت فرمائی  کہ ان کی شہادت کے بعد دس سال تک سرزمین منی ٰ میں  ہر سال ان کی شہادت کی یاد میں فرش عزا بچھایا جائے ۔ یہ بات ہمارے آئمہ طاہرین علیہم السّلام میں بے سابقہ اور بے نظیر ہے ۔ امام محمد باقر علیہ السّلام کی یاد، حقیقت میں  دین اسلام کی تحریف اور مسخ شدہ تصویر کے مقابلے میں حقیقی اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی یاد ہے ۔

ان ایام کی ایک دوسری مناسبت ، روز عرفہ اور عید الاضحیٰ کی مناسبت ہے ۔ عید قربان سے عید غدیر تک کے ایام ، مسئلہ امامت سے مربوط ہیں ۔ قرآن مجید میں ارشاد رب العز ت ہے " واذ ابتلی ٰ ابراھیم ربہ بکلمات فاتمّھن قال انّی جاعلک للناس اماما " ۔ ***(۱)اس وقت کو یاد کرو جب خدا نے چند کلمات کے ذریعہ ابراہیم کا امتحان لیا اور انہوں نے پورا کر دیا تو اس نے کہا کہ ہم تم کو لوگوں کا امام اور قائد بنا رہے ہیں ۔۔۔'' *** حضرت ابراہیم علیہ السّلام ،خدا کی طرف سے منصب امامت پر فائز کیوں ہوئے ؟ چونکہ وہ کچھ مشکل امتحانوں میں کامیاب  ہوئے ۔عید قربان کو اس کا آغاز شمار کیا جاسکتا ہے ، اور عید غدیر کو اس کی انتہا کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے جس دن مولائے کائنات، امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے سر پر امامت کا تاج پہنایا گیا ۔ البتہ اس منصب پر فائز ہونے سے پہلے  حضرت علی علیہ السّلام  نے بھی انتہائی  مشکل  امتحانات کا معرکہ سرکیا ۔ حضرت علی علیہ السّلام کی زندگی کا لمحہ لمحہ ایک امتحان تھا ، تیرہ یا گیارہ سال کے سن مبارک میں واقعہ ذوالعشیرہ میں پیغمبر اسلام کی دعوت پر لبیک کہا ، یہاں سے امتحانات کا سلسلہ شروع ہوا ، شب ہجرت میں اپنی جان کو پیغمبر اسلام پر نچھاور کرنے کے لئیے ان کے بستر پر سوئے ، یہ ایثار و قربانی کا ایک بے مثال نمونہ ہے ۔ اس کے بعد جنگ بدر واحد، خیبر و حنین اور دیگر مقامات پر ہر امتحان میں کامیاب  ہوئے ،اس کے بعد امیرالمؤمنین علی علیہ السّلام اس عظیم منصب پر فائز ہوئے  ؛ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دل گواہی دے رہا ہے کہ عید قربان اور عید غدیر میں ایک گہرا ربط ہے ۔ بعض لوگوں نے اس عشرہ کو '' عشرہ امامت '' سے موسوم کیا ہے جو انتہائی مناسب نام ہے۔

ہفتہ بسیج (رضاکار فورس کا ہفتہ ) بھی ایک اہم اور عظیم یادگار ہے ۔ سال کے دوران  ہمارے ملک میں مختلف مناسبتوں سے متعدد ہفتے منائے جاتے ہیں ، لیکن ہفتہ بسیج کا اپنا ایک الگ مقام ہے جو اسے دوسرے ہفتوں کے مقابلے میں ممتاز کرتا ہے ، ایسا کیوں ہے ؟ ایسا اس لئیے ہے چونکہ رضا کار فورس کا وجود ، بذات خود بڑی اہمیت کا حامل ہے ؛ ایک بے مثال ماجرا  ہے ۔ہمیں  کسی دوسری جگہ اس کی نظیر نہیں ملتی خاص کر ماضی قریب میں  اس کی کوئی مثال نہیں ملتی  (حالانکہ اس دور میں کئی انقلاب رونما ہوئے ہیں ) کہ کسی قوم کے کچھ بہترین اور انتہائی مومن افراد اپنے ملک ، اپنے نظام اور حقیقت کی اس طرح پاسداری کریں اور جہاد و دفاع کے مختلف میدانوں میں کسی حد کے قائل نہ ہوں ، یہ ہمارے انقلاب کا طرّہ امتیاز ہے ، دیگر انقلابوں میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی ؛یہ ہمارے امام امت  کا نورانی دل تھا جس پر اس حقیقت کا الہام ہوا اور آپ نے پروردگار عالم کے الہام اور نصرت کے زیر سایہ اس الہام کو جامہ عمل پہنایا اور انقلاب اسلامی کو نور ایمان سے منوّر افراد کی نعمت سے مالا مال کیا۔ بسیج اس کا نام ہے ۔

اگر رضا کار فورس کی حقیقت پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ رضاکار فورس ، قومی عزّت و بقا اور پائداری کی رمز ہے ۔یہ بہت اہم چیز ہے اور دوسری کسی بھی جگہ یہ چیز  دکھائی نہیں دیتی  کہ ملک کے کچھ بہترین صاحبان ایمان ، بلا خوف و خطر ہر اس میدان میں داخل ہوں جس کی ملک کو ضرورت ہو ، اور اپنی پوری توانائی سے ، اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کسی اجرت اور مزدوری کی توقّع ، کسی نام و نمود کی لالچ کے بغیر  مختلف خدمات انجام دیں ۔ چونکہ یہ مسائل ہمارے لئیے عادت بن چکے ہیں ، اس لئیے اس جیسے بعض دیگر مسائل کی طرح ہم ان کی اہمیت کی طرف متوجہ نہیں ہو پاتے ۔

   سب سے پہلا میدان ، جس نے رضا کار فورس کو اپنی طرف راغب کیا ،   ملک کی خود مختاری اور سرحدوں کی حفاظت  کا مسئلہ تھا ۔ جہاں جان کی بازی لگانے کی بات تھی ؛ دنیا کی تمام لذتوں سے چشم پوشی کی بات تھی ، پیر و جوان ؛ مرد و زن ، الغرض بغیر کسی تفریق کے سبھی نے اس معرکے میں قدم رکھا اور اس امتحان میں کامیاب  ہوئے ۔ اس سے بڑھ کر کس امتحان کا تصوّر کیا جاسکتا ہے ؟ البتّہ اس دور میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جو اپنے ملک ، انقلاب ، ملکی خودمختاری کے راہ میں اپنے جان و مال ، آرام و آسائش میں سے کچھ بھی خرچ کرنے کو تیّار نہیں تھے ؛ لیکن عام لوگوں کی ایک کثیر تعداد ، میدان کارزار میں داخل ہوئی اور اپنی جان ومال ، عزّت و آبرو ، غرض اپنی تمام جمع پونجی اور سرمایہ لگا کر اس ملک کی خود مختاری اور عزّت و آبرو کی لاج رکھی ۔

آپ اطمینان رکھئیے کہ اگر آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران ، رضاکار فورس نے سرگرم حصہ نہ لیا ہوتا تو آج اس ملک کی سرنوشت کچھ اور ہی ہوتی ، ہمارا دشمن ہم پر مسلط ہو جاتا اور یہ عمومی جوش و خروش دکھائی نہ دیتا جس کی وجہ سے ہمارے جوان اپنے اہل خانہ کوالوداع کہہ کے ،انقلاب اور ملک کے دفاع کے لئیے محاذ جنگ کا رخ کرتے تھے ۔ یہ بہت عظیم واقعہ تھا ۔

دوران جنگ کے بعد بھی ، رضا کار فورس ہر موقع پر پیش قدم اور خط شکن رہی ہے ۔ جب سیاسی اقتدار اور ثابت قدمی کی  بات آئی تو اس عوامی تحریک نے پوری دنیا کے سامنے پورے ملک میں اس کا جھنڈا گاڑ دیا ؛ ثقافتی اور تعمیراتی میدان میں بھی اس فورس نے کارہائے نمایاں انجام دئیے ، اس ملک میں نہ جانے کتنے ہی ایسے عظیم کام ہیں جو رضا کار فورس نے انجام دئیے ہیں ۔اور جیسا کہ بیان کیا گیا کہ رضا کارمؤمن جوانوں نے علمی میداں میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں؛ رضا کار افراد کی خصوصیت بھی یہی ہے کہ ان میں قوت ایمانی جلوہ گر ہوتی ہے ، وہ نام و نمود کی پرواہ نہیں کرتے ، اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں ؛ اسلامی جمہوریہ کے اہداف ومقاصد ہی ان کے اہداف و مقاصد ہوا کرتے ہیں ۔ بسیجی (رضاکار ) کا مطلب یہ ہے ۔ ان خصوصیات کے حامل کچھ جوان ، میدان عمل میں داخل ہو ئے اور انہیں خدوم اور قیمتی افراد نے ملک کے لئیے قابل فخر کارنامے انجام دیے ہیں ۔ ان حقایق سے چشم پوشی ، بسیج کی درست شناخت نہ ہونے کے مترادف ہے اور یہ بات یقینا بسیج کے حق میں ایک بہت بڑا ظلم و ناانصافی ہے ۔

بعض افراد یہ سوچتے ہیں کہ بسیج (رضا کار فورس ) محض ان چند فوجی بٹالینز ( (Battalions تک  محدود ہے ، ایسا نہیں ہے ، اگر چہ ان فوجی یونٹوں کا شمار بسیج کے بہترین افراد میں ہوتا ہے لیکن بسیج ان فوجی یونٹوں تک  محدود نہیں ہے ۔ بلکہ اس کا  دائرہ بہت وسیع ہے ، بسیج ، ہر شعبے اور ہر میدان میں موجود ہے ۔ اور ان کی تعداد ، فوجی شعبے کے مقابلے میں ، سینکڑوں برابر یا اس سے بھی زیادہ ہے ۔ یہ لوگ سویلین شعبوں سے مربوط ہیں اور مختلف شعبہ ہائے حیات میں مصروف عمل ہیں ؛ یونیورسٹیوں میں ، فیکٹریوں اور کارخانوں میں ، شہروں اور دیہاتوں میں ، قبائل میں ، دینی مراکز اور حوزہ ہائے علمیہ میں ، الغرض ،بسیج آپ کو مختلف انداز میں اپنے ہمہ گیر ،مقتدر اور بے  پایان وجود کے ساتھ ہر جگہ دکھائی دے گی ۔ بسیج نہ تو پیسے سے وابستہ ہے اور نہ مقام ، جاہ و جلال کی بھوکی ہے ، اور نہ ہی حکام بالا کے احکام و اوامر کی محتاج ہے ۔ بسیج کا معیار دو چیزیں ہیں '' ایمان اور بصیرت " ؛ قوت ایمان ، اس کے دل میں جلوہ افروز  ہے جو اسے میدان عمل میں داخل ہونی کی دعوت دیتی ہے؛ بصیرت اور سیاسی شعور ، کیفیت عمل ، معیاروں کو پرکھنے ، صحیح راستے کی نشاندہی میں اس کی راہنمائی کرتا ہے ، بسیج کا مفہوم  یہ ہے ۔

بسیج سے کسی بھی دوسرے ادارے کا موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ بسیج کی تشکیل کی صورت کو نہ توکسی دوسری جگہ دہرایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی تقلید کی جاسکتی ہے ؛  یہ ، بسیج کی منفرد خصوصیت ہے ۔اس خصوصیت کو درست انداز سے نہ پہچاننا ، بسیج کے حق میں ظلم و ناانصافی ہے ۔ جب ہم بسیج کی حقیقت سے واقف ہوں گے تبھی ہم کوملک دشمن ، انقلاب اور نظام  دشمن عناصر کی بسیج سے دشمنی و عناد کی اصل وجہ بھی سمجھ میں آئے گی ۔ ؛تب ہمیں ان عداوتوں کا حقیقی عامل سمجھ میں آئے گا۔اونچی چوٹیاں ، عام طور سے حملوں کا نشانہ بنتی ہیں ، برجستہ اور ممتاز علامتوں کی طرف جلدی نظر جاتی ہے اور دشمنی و عناد کا نشانہ بنتی ہیں ۔

دشمنوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے ملک و ملت  میں ، بسیج کی موجودگی کس قد ر اہمیت رکھتی ہے ؛ لہذا وہ اس مؤثر ، طاقتور اور نافذ حقیقت کو نشانہ بنانے کے لئیے اپنی پوری توانائی بروئے کار لا رہے ہیں ۔ البتّہ یہ ایک مظلومیت ہے ، مظلومیت کا مطلب ، کمزوری و ضعف نہیں  ہے ۔ دنیا کے قوی ترین انسان بھی مظلوم واقع ہوئے ہیں ۔ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام تاریخ بشریت کی سب سے طاقور شخصیت ہیں لیکن اس کے باوجود سب سے زیادہ مظلوم بھی ہیں ۔ ہمارا انقلاب اور اسلامی نظام ، عصر حاضر کا سب سے مؤثر اور مقتدر نظام ہے ، لیکن مظلوم بھی ہے ۔ ہمارے امام امت (رہ) بھی اپنے دور کے سب سے مظلوم انسان تھے حالانکہ معنوی  طور پر وہ ایک انتہائی ، قوی ، ،مقتدر انسان تھے جو پوری دنیا کو ہلانے پر قادر تھے جس کا انہوں نے عملی مظاہرہ بھی کیا ۔ لہٰذا ، مظلومیت اور اقتدار میں کوئی تضاد نہیں پایا جاتا ۔بسیج مظلوم تو ضرور ہے مگر وہ ایک مقتدر ، مؤثر اور نافذ طاقت ہے؛ اس کا یہ اثر ہمیشہ باقی رہے گا ۔ بسیجی عناصر کو اس نفوذکو روز بروز تقویت پہنچانی چاہئیے اور اس کی جڑوں کو مزید مضبوط  بنانا چاہئیے ۔جب تک بسیج ہے ، اسلامی انقلاب اور جمہوری اسلامی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا ؛ بسیج ایک بنیادی اور اساسی رکن ہے ۔ مختلف واقعات میں ، بسیج نے اپنی اہلیت کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔  

اس صاحب ایمان اور مخلص مجموعے کا(جو کہ ملک کے ہر طبقے میں موجود ہے اور جسے بسیج کے نام سےجانا ہے ؛ بسیجی کے طور پر ان کی تعریف ایک حقیقی اور واقعی تعریف ہے ) فریضہ یہ ہے کہ مسلسل اپنی کارکردگی کا جائزہ لے ، اپنے عیوب و نقائص کی چھان بین کرے ان کے ازالے کے لئیے کوشاں رہے ۔اور دشمن کو اس بات کی اجازت نہ دے کہ اس مجموعے کے بارے میں اس کی سازشیں کامیاب ہوں ؛ یہ بہت اہم بات ہے ۔ کسی بھی کامیاب ، اقدام کے لئیے دو چیزیں ضروری ہوتی ہیں : عمل اور کام ، ترقّی اور پیشرفت کی پیش بینی کیجئیے ؛ دوسری چیز : عیوب و نقائص کے ازالے کے لئیے ان کی شناخت ۔ یہ بھی ایک طرح کی پیش بینی ہے ؛ یہ بھی ترقّی کی پیش بینی کی طرح ہے ۔ البتّہ یہ دو چیزیں ہر اقدام کے فرائض و واجبات میں سے ہیں ۔

آج سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ موجودہ دور میں ، استکبار اور اسلامی جمہوری نظام کا مقابلہ ۔ انقلاب کے پہلے عشرے جیسا نہیں ہے ۔ اس مقابلے میں دشمن نے کافی زور آزمائی کی مگر شکست اس کا مقدّر بنی ۔وہ مقابلہ بھی سخت و دشوار تھا ،  اس میں جنگ اور تختہ الٹنے کی سازشیں تھیں؛ استکبار نے انقلاب کے اوائل میں تختہ الٹنے کی کوشش کی جس میں اسے منہ کی کھانا پڑی ، مختلف قوموں اور قبائل کو آپس میں  لڑانے کی کوشش کی ، اس میں بھی اسے کامیابی نہیں ملی ؛ اس نے جنگ چھیڑی جو آٹھ سال تک چلی ، اس میں بھی انہیں ہزیمت اٹھانی پڑی ؛ اب وہ یہ راستہ نہیں اختیا ر کرے گا ۔  اس دور میں جنگ کا احتمال بہت کم ہے ، اگر چہ ہمیں ہر طریقے سے تیار رہنا چاہئیے ۔ لیکن موجودہ دور میں ایران سے مقابلہ کرنے مٰیں  اوّلین ترجیح ، فوجی جنگ نہیں ہے ، بلکہ استکبار  کی اوّلین ترجیح وہ چیز ہے جسے " نرم جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے ؛ اس جنگ میں ثقافتی وسائل ، نفوذ، دروغ گوئی ، بے بنیاد افواہیں پھیلانے اور اس دور کے ایسے انتہائی پیشرفتہ ارتباطی وسائل کو بروئے کار لایا جانا ہے ، جن کی آج سے دس،  پندرہ سال پہلے تک خبر بھی نہیں تھی ۔ لیکن آج وسیع پیمانے پر ان کا استعمال جاری ہے ، نرم جنگ کا مطلب یہ  ہے کہ عوام کے ذہن میں شکوک و شبہات پیداکئیے جائیں  ۔

نرم جنگ کا طریقہ کار یہ ہے کہ کسی معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے سے بد گماں کیا جائے ، ان میں اختلاف و تفرقہ ڈالا جائے ، کسی بہانے سے لوگوں میں اختلاف ڈالا جائے ؛ اس سال منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن کے بعد رونما ہونے والے واقعات کی طرح ، دشمن ہمیشہ ہی کسی بہانے کی تاک میں رہتا ہے ؛ آپ نے دیکھا کہ دشمنوں نے کس طرح ایک بہانہ تراشا اور عام لوگوں میں اختلاف ڈالا ۔ خوش قسمتی سے ہمارے عوام میں کافی  سیاسی شعور  پایا جاتا ہے ۔ اگر کسی دوسرے ملک میں یہ کام انجام پایا ہوتا تو اس کی کایا ہی پلٹ گئی ہوتی ؛ دوسرے ممالک میں بھی وہ اسی پالیسی پر گامزن ہیں کہ ہمارے ملک کی طرح وہاں بھی کوئی بہانہ ڈھونڈیں ، عوام کو ایک دوسرے سے بد ظن کریں ، ان میں شک و شبہ کی فضا پیدا کریں ، ایک دوسرے کے دل میں کینہ اور نفرت کا بیج بوئیں ، عوام کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کریں ؛ اور پھر اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے تربیت یافتہ کچھ عناصر عوام میں گھس کر مختلف جرائم کا ارتکاب کریں اور اس ملک کے حکام یہ بھی نہ سمجھ پائیں کہ اس کے پس پردہ کس کا ہاتھ ہے ؟ یہ کس کی ایما ء پر ہو رہا ہے ۔ یہ کام ، استکبار کی پالیسی کا اصلی محور ہے اور وہ اسی سیاست کا تعاقب کر رہا ہے ۔

آُ پ ملاحظہ کیجئیے کہ ایسی صورت حال میں سب سے زیادہ اہمیت کس چیز کی ہے ؟ ایسی صورت حال میں " سیاسی شعور" کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ۔یہی وجہ کہ میں بار بار اس پر زور دے رہا ہوں ۔ عوام کو حالات کی نزاکت کو سمجھنا چاہئیے ۔ کہ اصل ماجرا کیا ہے ؟ عوام کو دشمن کے ناپاک عزائم سے باخبر ہونا چاہئیے کہ ان واقعات کا اصلی سرغنہ کون ہے ؛ وہ کون ہے جو اس موقع سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے درپے ہے ، وہ کون سے خائن عناصر ہیں جو ان اجتماعات کو موقع غنیمت جان کر ان کی بھیڑ میں گھس جاتے ہیں اور تخریب کاری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہر وہ کام لائق ستائش ہے جو سیاسی شعور پر منتج ہو ، جس کے ذریعہ خیانت کار عناصر کی شناخت ممکن ہو ، اور عام لوگوں سے انہیں الگ کیا جاسکے ۔ ہر وہ فضا اور اقدام نقصان دہ ہے جس سے فضا مکدر ہو، ایک دوسرے کے تئیں شکوک و شبہات پیدا ہوں ، الزام تراشیوں اور تہمتوں کا بازر گرم ہو ، مجرم اور بے گناہ کی شناخت ممکن نہ ہو ۔

میرا اصرار یہ ہے کہ ایرانی قوم اور مختلف سیاسی رجحانات کو ان معدودے چند افراد کے مقابلے میں آپسی اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہئیے جو اس انقلاب ، ملکی خود مختاری کے مخالف ہیں اور ان کا مقصد یہ ہے کہ اس ملک کو دست بستہ امریکہ کے حوالے کردیں ۔ ہر قوم میں  دشمن کے کچھ ایسے زر خرید عناصر پائے جاتے ہیں ، ہماری قوم میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں ، البتّہ ان کی تعداد بہت کم ہے ، ہماری قوم کے بقیہ افراد کا حساب ان ضمیر فروش عناصر سے جد ا ہونا چاہئیے ، اس سلسلے میں ہمیں کسی غلطی کا ارتکاب نہیں کرنا چاہئیے ۔ میں مشاہدہ کرتا ہوں کہ بعض افراد اپنے اظہار خیال اور انٹرویو میں کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے عام لوگوں کے ذہنوں میں الجھن پیدا ہوتی ،ہے ، عام لوگ ایک دوسرے سے ، ملک کے حکام سے بد ظن ہو جاتے ہیں ؛ یہ صحیح نہیں ہے ۔

جرائد و اخبارات اور بعض دیگر عناصر  کسی قسم کی نصیحت و سفارش قبول نہیں کرتے ، وہ ہم سے نصیحت کا مطالبہ نہیں کرتے ؛ نہ جانے ان مطبوعات اور اخباروں کی پالیسیاں کون اور کس جگہ بناتا ہے ؟ گویا ان کی روزی روٹی ، اختلاف و تفرقہ ڈالنے سے وابستہ ہے ۔ لیکن جو لوگ اس ملک کی مصلحت و مفادات کے خیر خواہ ہیں اور حقائق کی فضا کی حکمرانی چاہتے ہیں ، میں ان سے یہ سفارش کرنا چاہتا ہوں کہ ان غیر ضروری اور غیر اصولی اختلافات سے صرف نظر کریں ۔ افواہ تراشی اور افواہ پھیلانا صحیح نہیں ہے ۔ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ کھلے عام ملک کے حکام پر الزام تراشی کی جاتی ہے ، ان کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں ؛ اس میں کوئی فرق نہیں کہ خواہ وہ شخص صدر جمہوریہ ہو ، یا پارلیمنٹ کا اسپیکر ہو ، یا تشخیص مصلحت نظام یا عدلیہ کا سربراہ ہو ؛ یہ سب اس ملک کے حکام ہیں ۔ ملک کے حکام وہ افراد ہیں جنہیں ملک کی کسی ذمہ داری کی باگ ڈور سونپی گئی ہو ؛ عوام کو ان افراد پر بھروسہ کرنا چاہئیے ۔ ان کے بارے میں اچھاگمان رکھنا چاہئیے ۔ افواہیں نہیں پھیلانا چاہئیے ؛ یہ دشمن کا مطلوبہ ہدف ہے ، دشمن ، افواہوں کا بازار گرم کرنا چاہتا ہے ؛ وہ دلوں کو ایک دوسرے سے اور حکام سے بد ظن کرنا چاہتا ہے ۔    

آپ نے مشاہدہ کیا کہ الیکشن کے بعد رونما ہونے والے واقعات میں سب سے پہلا کام جو انجام پایا وہ یہ تھا کہ ملک کے حکام کی کارکردگی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے گئیے ؛ گارڈین کونسل اور وزارت داخلہ کی کارکردگی پر انگلی اٹھائی گئی۔ یہ شکوک و شبہات انتہائی نقصان دہ ہیں ، دشمن یہی چاہتا ہے ۔ بسیجی جوانوں کو ایمان وبصیرت اور دیگر معیاروں کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئیے اور انہیں ایک دوسرے سے ملا کر دیکھنا چاہئیے ۔

ایک دوسری چیز ، جس پر بسیج کو خصوصی توجّہ دینا چاہئیے وہ یہ ہے کہ بسیج کو اپنی سرگرمیوں کا دائرہ مزید وسیع کرنا چاہئیے ، البتّہ بسیج کے بارے میں جس پالیسی کا اعلان کیا گیا  ہے اس میں سائنس  و ٹیکنالوجی ، اور ثقافتی میدان میں بھی اس کی سرگرمیوں کی توسیع کی بات کی گئی ہے  ، یہ ایک انتہائی مبارک قدم  ہے ۔ بہت سے کام ایسے ہیں جنہیں اس بسیجی جذبے اور ایمان کی قوت کے بغیر انجام نہیں دیا جا سکتا ۔ آپ اطمینان رکھئیے کہ ہمارے ملک میں جب تک بسیج (رضا کار فورس ) کا وجود ہے ، جب تک ہمارے ملک کے جوانوں میں صداقت، کسی مادی اجرت اور تنخواہ کے بغیر خدمت کا جذبہ کار فرما رہے گا ، اس نظام ، اس انقلاب اور اس ملک کو کوئی بھی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔

وہ لوگ جو دشمن کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ، ان کی ترغیب اور تبسم اور تالی بجانے کی وجہ سے اس نظام ، ملکی آئین اور عوام کی اس عظیم تحریک کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنا سر، چٹّانوں پر مار رہے ہیں ، وہ دیواروں سے سر ٹکرا رہےہیں ، وہ بیہودہ  کوشش کر رہے ہیں ۔لیکن اس بات سے بھی ہوشیار رہئیے کہ کسی کو اس کی محض ایک   غلطی کی بنیاد پر منافق نہیں کہا جاسکتا ، کسی کو محض کسی ایسے ایک نظریے کی بنیاد پر ''ولایت فقیہ '' کا مخالف نہیں کہا جا سکتا جس کا نظریہ ہمارے اور آپ کے نظریہ سے کچھ مختلف ہو  ؛ مصادیق کے تعین میں احتیاط سے کام لیجئیے ، میں آپ عزیز جوانوں ، اپنے ملک کے پر عزم جوانوں پر یہ زور دینا چاہتا ہوں کہ آپ اپنا کام ماضی کی شدت ، جذبہ عمل؛ قوت ایمانی اور مستقبل کی امید کے ساتھ جاری رکھیے، لیکن مصادیق کے تعین اور تشخص میں  احتیاط سے کام لیجئیے ، بسا اوقات مصادیق کے تعیّن میں غلطی کی وجہ سے بڑے بڑے نقصانات اٹھانا پڑ سکتے ہیں ۔

خداون متعال پر بھروسہ رکھیے اور اس سے مدد مانگیے ، میں بھی آپ کے لئیے دعا گو ہوں ، انشاء اللہ امام زمانہ (عج ) کی نظر عنایت ہمارے جوانوں اور اس عظیم قوم کے شامل حال ہو گی اور ان کی دعائیں اس راستے میں ہماری معاون ثابت ہوں گی اور اس قوم کی دستگیری کریں گی ۔

                   والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

-----------------------------------------------------------------------------

(۱)بقرہ  : آیت ۱۲۴