ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا طلباء اور ملک کی ممتاز علمی شخصیات سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

آپ سے ہماری یہ ملاقات ، ہمیشہ کی طرح میرے لئے انتہائی خوشگوار اور امید افزاتھی۔ملک کی امید کا اصلی مرکز ، یہ تعلیم یافتہ اور ممتاز نوجوان ہیں ، بالخصوس جب ان میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ، احساس ذمہ داری اور فرض شناسی بھی موجزن ہو ۔ آپ بھائیوں اور بہنوں اور میرے عزیز فرزندوں سے یہ ملاقات نہ فقط میرے دل میں بلکہ دیگر حکام کے اندر بھی امید کی کرن جگاتی ہے ۔ الحمد للہ یہ ملاقات بے حد دلچسپ اور اچھی تھی ۔

     سب سے پہلے ، میں اس نشست میں تشریف فرما ، ملک کے اعلیٰ عہدیداروں ، ممتاز طلباء کی فیڈریشن کے صدر ، اور صدر جمہوریہ کی معاون کو مخاطب کرتے ہوئے ایک انتہائی اہم نکتہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ؛ اور وہ یہ ہے کہ آپ ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کیجئیے۔اس سال ملک کے ممتاز طلباء نے جو تجاویز و آراء پیش کیں ، گزشتہ برس کے مقابلے میں ان میں واضح فرق محسوس کیا جا سکتا ہے، بدرجہ اولیٰ دس برس پہلے جو خیالات ، تجاویز و آراء  یونیورسٹی میں زیر تحصیل  طلباء اور یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طلباء سے ہم سنا کرتے تھے ان میں اور موجودہ تجاویز و آراء میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے ۔میں ہمیشہ یونیورسٹی کے طلباء اور اساتذہ سے رابطے میں رہتا ہوں ۔ جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ سال میں کئی مرتبہ ، مختلف مناسبتوں سے طلباء اور اساتذہ سے ہماری نشستیں ہوتی رہتی ہیں ، جن میں طلباء کو اظہار خیال کا موقع ملتا ہے۔ میں ،ملک کے طویل المیعاد اور کم مدت منصوبوں سے قطع نظر ، اپنے طور  پر بھی ان نشستوں کا جائزہ لیتا رہتا ہوں ۔ میں اپنے جائزہ میں ماضی اور حال میں واضح فرق محسوس کرتا ہوں ؛ آج ،ترقی و پیشرفت اپنے آپ کو واضح انداز میں  نمایاں کر رہی ہے ۔ ملکی حکام، ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کے مستقبل کی منصوبہ بندی کریں ۔ ان عزیز جوانوں نے جن نکات کی طرف توجّہ مبذول کرائی یہ وہی نکات ہیں جو ملک کی علمی رفتار ، اس کے مستقبل اورترقی  سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے ذہن میں پائے جاتے ہیں ۔ اور ظاہر ہے کہ جوانوں میں  ان بنیادی مسائل کے بارے میں گہری دلچسپی پائی جاتی ہے ۔

جیسا کہ ایک طالب علم نے بھی اس طرف توجہ دلائی کہ ہمیں اپنے مستقبل کی ضرورتوں کو اپنی سرگرمیوں کا محور قرار دینا چاہئیے ؛ مستقبل کی منصوبہ بندی کیجئیے ، ضرورتوں کا تعیّن کیجئیے ''یا ایک دوسرے نوجوان نے اس سلسلے میں کہا : " ہمیں اپنے اہداف و مقاصد کا تعیّن خود کرنا چاہئیے ؛ ہمیں اس سلسلے میں مغربی دنیا کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہئیے اور مستقبل کی زندگی کے خلاء کو پر کرنے کے لئے ان کی پیروی نہیں کرنی چاہئیے ، ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ ہمیں کس چیز کی ضرورت ، اسے پورا کریں ''؛ یہ بہت بڑی بات ہے ؛ بہت اہم بات ہے ۔ یہ وہی حقائق ہیں کہ جن پر جب بھی کوئی فرض شناس اور ہمدرد صاحب فکر نظر دوڑاتا ہے تو ملک کی تعلیمی پالیسی میں اس کی ضرورت کا  ادراک کرتا ہے ۔ لیکن ان حقائق کا ادراک ہی کافی نہیں ہے ؛ اگر چہ ضروری ہے ؛ لیکن اس ادراک کی بنیاد پر منصوبہ بندی اہم ہے ۔ جیسا کہ آپ میں سے بعض افراد نے بھی یہاں اس بات کا تذکرہ کیا کہ ہمیں علمی اور ثقافتی حلقوں میں فرض شناسی اور احساس ذمہ داری کی ثقافت کو فروغ دینا چاہئیے ۔ ان میں محض توقّع اور امید حکم فرما نہ ہو ؛ البتّہ توقّع اپنی جگہ ایک منطقی چیز ہے ، بجا بھی ہے ؛ توقع کوئی بےجا چیز نہیں ہے ۔ لیکن توقع اور امید کے ساتھ ساتھ ، احساس ذمہ داری ، فرض شناسی ، مقروض ہونے کا احساس اور یہ احساس بھی بہت اہم ہے کہ  ملک کے اس عظیم مجموعہ کی ایک فرد ہونے کے ناطے میری کیا ذمہ داری ہے ؟ مجھے کیا کرنا چاہئیے ؟ ایک دوسرا نکتہ جس کی طرف ایک خاتون نے اشارہ کیا: '' کہ ہمیں ملک کی تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیوں میں " دینی معنویت " کو ان کا اصلی عنصر قرار دینا چاہئیے اور ایسی معنویت سے اجتناب کرنا چاہئیے جو دین سے جدا ہو ایسی معنویت ، معنویت نہیں ہے بلکہ ایک وہم و گمان ہے" ؛ یہ بات بالکل درست بات ہے ۔ یہ ایک بنیادی نکتہ ہے جس پر توجۃ مبذول کرنی چاہئیے ۔ اگر ہم اس مقصد میں کامیاب ہو گئے تو معاشرے میں اخلاقی اقدار کا بول بالا ہو گا اور آپ کی یہ آرزو بھی پوری ہو جائے گی جیسا کہ آپ میں سے ایک طالب علم نے اس کی طرف توجّہ دلائی اور اس پر زور دیا ۔ چونکہ صرف نعرہ لگانے سے آگے نہیں بڑھا جا سکتا بلکہ کسی بھی ہدف اور مقصد کے حصول کے  لئیے عملی اقدام کی ضرورت ہو ا کرتی ہے ۔

میں ، جب آپ کے منہ سے ایسی باتیں سنتا ہوں تو میرے اندر امّید کی کرن جاگ اٹھتی ہے اور میرے اندر اس یقین کا احساس بیدار ہو جاتا ہے کہ یہ معاشرہ ؛ یہ نظام اس مادی و معنوی ، علمی اور اخلاقی ترقّی کے زیر سایہ بلا شبہ اپنے اہداف و مقاصد کو حاصل کر لے گا ۔ یہ چیز اسلامی نظام حکومت کی بقا کی ضامن ہے ۔

 آپ میں سے کچھ افراد نے ماضی قریب میں منعقد ہونے والے صدارتی الیکشن کے بعد رونما ہونے والے نا خوشگوار واقعات کی طرف اشارہ کیا ۔ اس سلسلے میں کہنے کو بہت کچھ ہے ۔ آپ یہ تصور نہ کیجئیے کہ جو باتیں ریڈیو اور ٹیلیویژن پر نشر کی گئی ہیں بات یہیں تک محدود ہے ؛ہرگز ایسا نہیں ہے ؛ بلکہ حقیقت اس سے کہیں بڑھ کر ہے ؛ کسی شاعر کے بقول " یک سینہ حرف موج زند در دھان ما " ہمارا سینے میں حقائق کا ایک سیلاب موجزن ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم نے اس سلسلے میں تمام حقائق کو بیان کر دیا ہو یا ہم انہیں بیان کرنے پر قادر ہوں ۔ اس سلسلے میں باتیں بہت زیادہ ہیں ؛ آپ الحمد للہ ذہانت اورا ستعداد کی نعمت سے سرشار ہیں ، رفتہ رفتہ بہت سے حقائق آپ پر عیاں ہوں گے ؛ میں دیکھ رہا ہوں کہ ماضی قریب میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات اور گزشتہ تیس برس کے حوادث نے ملک کو مزید مضبوط بنا دیا ہے اور آج ہمارے ملک پر کوئی بھی بم ، کوئی بھی ضرب کارگر نہیں ہو سکتی۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام حکومت کوئی مذاق نہیں ہے ۔آپ دنیا کی خفیہ ایجینسیوں اور پروپیگنڈہ مشینریوں کی طاقت کو کم نہ سمجھیں ۔ اس بات کو  سبھی لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں ؛ ممکن ہے بعض ایسے افراد جو ان مسائل سے آشنا نہیں ہیں وہ ان کی طاقت و قوّت کو نہ سمجھ پائیں ۔ آپ ہالیوڈ کو کم نہ سمجھیں ۔آپ مغربی دنیا میں فن و ہنر کی تاثیر سے آگاہ ہیں، وہاں کی پروپیگنڈہ مشینری کی نپی تلی تشہیراتی مہم کو کم نہ سمجھیں۔ (اس مسئلے کی طرف ایک خاتون نے بھی توجّہ دلائی ) ۔ یہ سبھی طاقتیں ، اس کے علاوہ مال ودولت کا بے پناہ خزانہ ، دنیا کی عظیم سیاسی اور تشہیراتی طاقتیں سب مل کر اسلامی جمہوریہ ایران پر تابڑ توڑ حملے کر رہی ہیں ۔ آج دنیا میں کو ئی بھی ملک آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو جمہوریہ اسلامی ایران کی طرح سامراج کے نشانے پر ہو ؛ اس کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران مزاحمت کر رہا ہے؛ کیا یہ کوئی مذاق ہے ؟ یہ ملک ایک مضبوط قلعے میں تبدیل ہو چکا ہے اور مزاحمت کو جاری رکھے ہوئے ہے ؛ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے ۔ سازشیں ،وہم و گماں  نہیں ہیں ؛ آپ اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیجئیے ؛ آپ یہ تصوّر نہ کیجئیے کہ میں ان باتوں کو سن کر رنجیدہ خاطر ہوتا ہوں بلکہ مجھے تو تب تکلیف پہنچتی ہے جب ان باتوں کو بیان نہ کیا جائے ۔ مختلف یونیورسٹیوں کے طلباء سے ہماری جو نشستیں ہوتی رہتی ہیں جب میں یہ مشاہدہ کرتا ہوں کہ بعض افراد ، پاس و لحاظ ، احترام یا کسی اور بنا پر کچھ باتوں کو بیان کرنے سے ہچکچکاتے ہیں تو مجھے تکلیف پہنچتی ہے ۔ لیکن ان باتوں کے اظہار سے مجھے ذرہ برابر بھی تکلیف نہیں پہنچتی ۔ کاش ، ہمیں موقع ملتا کہ ہم اس کتاب کے ورق الٹ کر دیکھتے اور اس سے بہت سے حقائق عیاں ہوتے ۔ البتہ مستقبل میں یہ کام ضرور انجام پائے گا ۔ آپ یہ تصوّر نہ کیجئیے کہ اس ملک کے بارے میں مختلف سازشیں محض  ایک توھّم ہیں؛ ایسا نہیں ہے ؛ بلکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے ؛ اس ملک کو ہر طرف سے سازشوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔یہ عین ممکن ہے کہ کہ ملک کے اندر بعض افراد نادانستہ طور پر ان سازشوں کا حصہ بن رہے ہوں ۔

ان سازشوں کو سمجھنے کے لئیے سیاسی شعور درکار ہوتا ہے ۔ بعض افراد میں یہ شعور نہیں پایا جاتا ۔ ہم نے مختلف افراد کو آزمایا ہے ، وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ کس کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ، وہ سمجھیں یا نہ سمجھیں ، جانیں یا نہ جانیں لیکن اس سے حقیقت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ یہ سازشیں پائی جاتی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ یہ نظام کمزور ہونے کے بجائے دن بدن مضبوط ہوتا جا رہا ہے ۔ گزشتہ دس برس کے مقابلے میں اس ملک نے موجودہ دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں ترقّی کی ہے ۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا مطلب حقانیت اور اصالت ہے ، اس کامطلب ، جڑوں کی گہرائی ہے ۔؛'' الم تر کیف ضرب اللہ کلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ " (۱ ) (کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے دی ہے) ہمارا عقیدہ یہ ہے اور ہم اس عقیدے کے ساتھ جی جان سے مصروف عمل ہیں ۔ میں نقائص سے انکار نہیں کرتا ؛ میں بہت سے نقّادوں  کے مقابلے میں نقائص سے زیادہ آگاہ ہوں ؛ لیکن ان نقائص کے ازالے کا طریقہ کار وہ نہیں ہے جو بعض افراد تصوّر کر تے ہیں کہ ان نقائص کا ڈھنڈورا پیٹا جائے کہ فلاں جگہ یہ نقص ہے ، فلاں جگہ یہ کمی ہے ۔ ان کے ازالے کا طریقہ کار ہر گز یہ نہیں ہے ؛ بہت سے مسائل صرف بیان کرنے اور اعلان کرنے سے حل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئیے عملی اقدام کی ضرورت ہوتی ہے ، خالی زبانی جمع خرچی سے کوئی چیز ٹھیک نہیں ہوتی ؛ زبانی جمع خرچی ، ڈھنڈورا پیٹنا ، اور لفّاظی ، مشکلات کے ازالے میں معاون ثابت نہیں ہوتی ؛ جیسا کہ آپ نے مشاہدہ فرمایا ؛صدارتی الیکشن کے مسئلے کو ہی لے لیجئیے ؛ جہاں الیکشن مہم کو الیکشن کے انعقاد سے ایک ماہ یا بیس دن پہلے شروع ہونا چاہئیے تھا لیکن عید نوروز (مارچ کے مہینہ ) سے پہلے ہی یہ سلسلہ شروع ہو چکا تھا !اور افسوس کہ ہمارے ریڈیو اور ٹیلیویژن سے اسے نشر کیا جاتا رہا ، میں بھی اس کا حامی نہیں تھا ، آپ ہر گز یہ تصوّر نہ کیجئیے کہ چونکہ میں ریڈیو اور ٹیلیویژن کے سربراہ کو منتخب کرتا ہوں اس لئیے ریڈیو اور ٹیلیویژن کے تمام پروگراموں کی تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا جاتا ہے اور میری منظوری حاصل کی جاتی ہے ۔ ایسا نہیں ہے ؛ میں بھی ریڈیو اور ٹیلیویژن کے بہت سے پروگراموں سے راضی نہیں ہوں ؛ منجملہ میں اس بات سے راضی نہیں تھا کہ الیکشن کے انعقاد سے تین ماہ بلکہ اس سے بھی پہلے سے الیکشن مہم کے دوروں اور جلسوں کے دوران اٹھائے جانے والے مسائل اور سیاسی بحث و گفتگو کو ٹیلیویژن سے نشر کیا جائے  ، لیکن صد افسوس کہ آزادی بیان کا نعرہ لگاتے ہوئے انہیں نشر کیا گیا ! یہ محض ایک توھم ہے ؛ یہ ملک میں جنجال اور ہلڑ ہنگامہ بپا کرنے کا باعث بنا ۔ جنجال اور صحیح بحث و مباحثہ میں واضح فرق ہے ۔ میں نے کہا ہے کہ یونیورسٹیوں میں آزادی اظہار کا شعبہ قائم کیجئیے ۔ آپ ایسا کیوں نہ کریں ؟ آُپ تہران یونیورسٹی ، شریف یونیورسٹی اور امیر کبیر یونیورسٹی میں سیاسی فکر و نظر کا شعبہ قائم کیجئیے ۔ آپ میں کچھ طلباء وہاں جا ئیں اور اپنے نظریات کو پیش کریں ، ایک دوسرے کے نظریات پر تنقید کریں ، ایک دوسرے سے بحث و گفتگو کریں ۔ اس صورت میں حقیقت واضح ہو گی ۔ محض تنقید کرنے سے حق کا پتہ نہیں چلتا ۔ لفّاظی کے ذریعہ پر آشوب ذہنی ماحول پیدا کرنے سے ملک کی ترقّی میں کوئی مدد نہیں ملتی ۔آپ لوگ اس سلسلے میں اپنے بوڑھے باپ کے تجربے سے استفادہ کیجئیے ۔ فکر و نظر کی حقیقی آزادی ہی ملک کی ترقّی میں معاون ثابت ہو سکتی ہے ،اظہار خیال کی آزادی کا مطلب ہے : آزادانہ ماحول میں غور و فکر کرنا ، درست انداز سے اسے پیش کرنا ، جنجال و شور شرابے سے ہراساں نہ ہونا ، کسی کی ترغیب اور اکسانے میں نہ آنا ۔ ممکن ہے کہ کبھی آپ کے منہ سے کوئی بات نکلے اور دنیا کی سیاسی شخصیات ( جن کا وجود سراسر خباثت ہے ) اس پر تالی بجائیں ۔ آپ اس سے ہر گز خوش حال نہ ہوں اور ماحول زدگی کا شکار نہ ہوں ۔ بلکہ منطقی اور صحیح انداز میں غور و فکر کیجئیے ، دوسروں کی بات سنئے اور اپنی بات کہیے ؛ اور پھر غور و فکر کیجئیے ۔قرآن کریم کا بھی یہی حکم ہے " فبشّر عباد الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ "   لہٰذا پیغمبر آپ میرے بندوں کو بشارت دیدیجئیے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں (۲ ) ہر بات کو سننا چاہئیے اور بہترین کا انتخاب کرنا چاہئیے ، ورنہ آشفتہ ماحول پیدا کرنے کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو آپ نے مشاہدہ کیا ، اور پھر الیکشن سے قبل و بعد کی پر آشوب فضا کو منعکس کیا جاتا ہے اور یہ بات ہمارے لئیے اس وقت اور بھی لمحہ فکریہ بن کر سامنے آتی ہے جب ہمیں ان واقعات کے پس پردہ اغیار کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے ۔ آپ کیا سمھجتے ہیں کہ آخرکن وجوہات کی بنیاد پر دنیا کی پروپیگنڈہ مشینری ان واقعات( جو اس کے خیال میں اسلامی جمہوریہ ایران کے لئیےنقصان دہ ہیں) کو لمحہ بہ لمحہ اپنے میڈیا میں منعکس کر رہی ہے ؟وہ کس حساب و کتاب سے یہ کام انجام دے رہے ہیں ؟ کیا ہمیں اس پر غور و فکر نہیں کرنا چاہئیے ؟! کیا ہمیں اس کا جائزہ نہیں لینا چاہئیے ؟!یہ وہ حقائق ہیں جن پر پوری توجّہ دینے کی ضرورت ہے ۔

بہر حال ملک ،آگے کی سمت پیش قدمی کر رہا ہے ۔ آپ بغیر کسی شک و شبہ کے اس بات کو جان لیجئیے کہ ملک ترقّی کر رہا ہے ۔ ماضی کے منصوبہ جات میں البتہ کچھ نقائص ضرور تھے لیکن ان مثبت اور منفی نکات کا نتیجہ وہی ہے جو آپ کے سامنے ہے ۔ ہمارے جوانوں نے علم و سائنس کے میدان میں نمایاں ترقی کی ہے ، سیاسی بصیرت اور شعور کے اعتبار سے بھی واضح پیشرفت کی ہے ۔ فکر و نظر میں دینی سوچ کے نفوذ اور گہرائي کے اعتبار سے بھی پیشرفت کی ہے ۔ یہ باتیں جو آج ہمارے جوانوں نے معنویت اور دین سے دلچسپی کے متعلق پیش کیں اور مغربی دنیا کی پیش گوئیوں اور منصوبوں پر توجّہ نہ دینے پر تاکید کی اور وہ باتیں جو آج کے دور میں آپ کے درمیان رائج ہیں ، آپ سے کچھ عرصہ پہلے تک یہی باتیں ملک کے ممتاز روشن فکر افراد کے دل کی آواز تھیں جو ان نظریات کو پیش کرنے کا جائزہ لے  رہے تھے! لیکن آج یہ باتیں ہمارے سماج کی رائج ثقافت کا حصہ بن چکی ہیں کیا یہ ترقّی نہیں ہے ؟ ہم مسلسل آگے کی سمت بڑھ رہے ہیں البتّہ ہمارے دشمن بھی بہت زیادہ ہیں ؛ ہمارے سامنے رکاوٹیں بھی بہت زیادہ ہیں ، اگر یہ رکاوٹیں نہ ہوتیں تو ہم اس قدر تجربہ کار اور ماہر بھی نہ ہو پاتے ؛ ہمارا اسلامی معاشرہ اور اسلامی جمہوریہ ، مہارت اور تجربہ کی اتنی دولت سے مالا مال نہ ہوتا ۔ رکاوٹیں پائی جاتی ہیں ، ہموار زمین میں چلنے سے پٹھے مضبوط نہیں ہوتے ۔ اس کے لئیے کوہ پیمائی لازم ہے ، رکاوٹوں کو پار کرنا بہت ضروری ہے ، ہمارے معاشرے نے یہ معرکہ سر کیا ہے ، اس راستے کو طے کیا ہے ؛ اور آئندہ بھی اسی راستے کو جاری رکھے گا ۔ آپ یہ جان لیجئیے کہ ہماری موجودہ نسل وہ نسل نہیں ہے جس پر روک لگائی جا سکے ۔

میں یہاں پر آپ سے یہ سفارش کرنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی ملک کی ترقّی اور اقتدار کا راز ، علم اور سائنس  کی بنیاد پر استوارہے ۔ آج جمہوری اسلامی ایران کے خلاف جو سازشیں ہو رہی ہیں ان میں سے اکثر کا نشانہ یہی سائنس و ٹیکنالوجی ، سائنسدان ، طلباء اور علمی ماحول ہے ؛ اس کو اپنے مد نظر رکھئیے اس تیر کو دشمن کے مطلوبہ  ہدف پر نہ لگنے دیجئیے ۔ سائنسی تحقیقات میں وقفہ نہ آنے دیجئیے ؛ سب سے اہم مسئلہ علم و سائنس اور ریسرچ کا مسئلہ ہے ۔ مغربی دنیا کی ثروت کا راز سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کی ترقّی میں مضمر ہے ؛ ان کا اقتدار بھی علم کی بدولت ہے ۔ ان کی تسلّط پسندی ، ان کی سائنس کے میدان میں ترقّی کا نتیجہ ہے ۔ پیسہ بذات خود اقتدار نہیں لاتا ، بلکہ یہ علم کی دولت ہے جو اقتدار کا باعث بنتی ہے ، اگرآ ج امریکہ نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اس قدر ترقّی نہ کی ہوتی تو دنیا پر اپنی دھونس جمانے میں کامیاب نہ ہوتا اور دنیا کے تمام مسائل میں مداخلت کرنے کی جسارت نہ کر پاتا ۔اگر ثروت بھی حاصل ہوتی ہے تو علم کے میدان میں پیشرفت اور ترقّی کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔  علم کو اہمیت دیجئیے ۔یہی وجہ ہے کہ میں سالہا سال سے سائنس و ٹیکنالوجی ، تحقیق و ریسرچ ،خلّاقیت اور علمی سرحدوں کو توڑنے پر مسلسل زور دیتا رہا ہوں ۔ مختلف علوم و فنون میں ترقّی کئیے بغیر ملکی اقتدار امکان پذیر نہیں ہے ۔ علم سے اقتدار پیدا ہوتا ہے ۔

ہمارے دشمنوں نے کہا : آئیے ایران کے ایٹمی مراکز پر بمباری کیجئیے ؛ دنیا کے ایک اہم لیڈر نے یہ بات کہی ، سبھی جانتے ہیں ، شاید آپ نے بھی سنا ہو ، میں یہاں پر اس کانام نہیں لینا چاہتا؛ یہ بات عالمی ذرائع ابلاغ سے نشر ہوئی لیکن اس نے اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ علم پر تو بمباری نہیں کی جا سکتی ؛ اس نے سچ کہا ، وہ اپنی اس بات میں حق بجانب ہے ، تمام جھوٹی باتوں کے باوجود اس کی یہ بات سچی ہے ۔ بالفرض وہ نطنز یا اصفہان کے ایٹمی مرکز پر بمباری کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن علم اور سائنس پر کیوں کر بمباری کریں گے ؟ آپ ملاحظہ کیجئیے ! علم سے تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے ؛ اقتدار پیدا ہوتا ہے ۔ آپ ہوشیار رہئیے کہ کہیں کوئی شخص آپ کی یونیورسٹی میں ، آپ کی کلاس اور ریسرچ سینٹر میں آپ کے تحقیقی کام میں رخنہ اندازی میں کامیاب نہ ہو ۔ اگر آپ یہ مشاہدہ کریں کہ کوئی ہاتھ خلل انداز ہو رہا ہے تو اس کے بارے میں بد گمان ہو جائیے ۔ اس نے آپ کے اقتدار اور آپ کے مستقبل کو نشانہ بنا رکھا ہے ۔

میں آپ عزیز جوانوں سے بہت سی باتیں کہنا چاہتا ہوں ۔ یہ نکتہ جس کی طرف اس آرٹسٹ خاتون نے توجّہ دلائی میری نگاہ میں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ایک کام یہی ہے ، ایسا نہ ہو کہ کچھ لوگ مغربی دنیا کی مانگ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے ملک میں سرمایہ کاری کریں  مثلا وہاں جس پینٹنگ (painting ) کی مانگ ہو یہاں ہمارے آرٹسٹوں پر پیسہ خرچ کریں اور انہیں اس کی طرف راغب کریں ۔ یہی بات فیلم سازی کی صنعت پر بھی صادق آتی ہے ، مختلف فیلمی میلوں (فیسٹیول ) کے لئیے ایسی فیلموں کو نامزد کریں جن سے ان کے اہداف و مقاصد پورے ہوتے ہوں ۔ یہی بات ہمارے علمی اور سائنسی منصوبوں پر بھی صادق آتی ہے ، اس مقالہ کے بارے میں بھی ہے جو آئی ایس آئی نامی میگزین میں شائع ہوتا ہے ، اس تحقیقی موضوع پر بھی صادق آتی ہے جس پر آپ اپنی یونیورسٹی میں کام کرتے ہیں ۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ کچھ افراد اسپانسر کے طور پر میدان میں وارد ہوں اور ہر طرح کی مادی اور معنوی امداد کریں  تا کہ ان کے اہداف و مقاصد کے لئیے کام ہو ۔ اس پر توجّہ دیجئیے ۔ اور ملک کے علمی استقلال کے لئےایک بات یہی ہے ۔ آرٹ و سائنس کے شعبے میں غیر وابستگی ضروری ہے ، بدرجہ اولیٰ سیاسی اقدامات بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں ۔

میں آپ سے ایک دوسری سفارش یہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے اندر جو بہترین صلاحیت پائی جاتی ہے وہ  بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔نعمت حیات اور تندرستی کی طرح ، صلاحیت بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے ، جس کا شکر لازم ہے ۔ تمام نعمتیں پروردگار عالم کی طرف سے ہیں ؛ آپ کو ان کا شکر بجا لانا  چاہئیے ۔ آپ میری اس نصیحت کو ہمیشہ مد نظر رکھیں ، ہم بہت سی نعمتوں کی قدر نہیں جانتے لیکن جب وہ نعمت سلب ہو جاتی ہے تب کہیں ہماری آنکھیں کھلتی ہیں ۔ جوانی بھی ایک نعمت ہے جب انسان سن رسیدہ اور بوڑھا ہو جاتا ہے تب اسے اس کی قدر معلوم ہوتی ہے ۔ بہترین صلاحیت اور ذہانت بھی بہت بڑی نعمت ہے ۔ہمیں اس نعمت کا شکر بجا لانا چاہئیے ۔ شکر کیا ہے ؟ شکر کے تین رکن ہیں  ۱ : نعمت کی معرفت اور اس سے غفلت نہ برتنا  ۲ : اس بات کی معرفت کہ یہ نعمت پروردگار عالم کی عطا کردہ ہے ۔ یہ الٰہی عطیہ ہے  ۳ : اس نعمت کو صحیح راستے میں استعمال کرنا ۔ اچھی صلاحیت کو صحیح راستے میں استعمال کرنا چاہئیے ، اس سے ہمارے اندر ،فرض شناسی اور احساس ذمّہ داری پیدا ہوتا ہے ؛ اس سے انسان کے اندر اپنے معاشرے اور ملک کے مستقبل ، ان برجستہ شخصیات اور استعداد کے تئیں احساس ذمّہ داری پیدا ہوتا ہے ۔  اس نعمت کا شکر بجا لانے کا مطلب یہ ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنے آپ کو سماج سے ہٹ کر ایک الگ تھلگ جزیرہ فرض کر لے اور یہ سوچے کہ جو وسائل اور معنوی ثروت اس کے ہاتھ لگی ہے اسے جلد از جلد مادی ثروت میں تبدیل کرے ۔   ایسا نہیں ہے ، بلکہ اسے اس ثروت کو ملک کے مستقبل کی تعمیر میں صرف کرنا چاہئیے ۔

میں یہاں پر ملک کے حکام سے بھی ایک سفارش کرنا چاہتا ہوں ، ملکی عہدیداروں  سے بھی میری سب سے پہلی سفارش یہی ہے کہ اللہ تعالی کا شکر بجا لائيں ، حکام کو ان ممتازاور برجستہ افراد کے وجود کا شکر یہ ادا کرناچاہئیے ، یہاں بھی شکر کے تین رکن ہیں ؛ سب سے پہلے ممتاز اور برجستہ افراد کی شناخت کا مسئلہ ہے اس کے بعد ہمیں یہ سمجھنا چاہئیے کہ ان افراد کا وجود ایک نعمت ہے جسے خدا نے ہمیں عنایت فرمایا ہے، اس کے بعد ان کے وجود کو غنیمت جانتے ہوئے ان کے وجود سے بہترین استفادہ کیا جائے ۔

اب ، یہاں پر موجود ایک عزیز جوان نے جو باتیں کیں ان کے بارے میں چند جملے عرض کرتا چلوں : جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا کہ کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن ہمیں متوجّہ رہنا چاہئیے کہ کسی ادارے کے غیر منصفانہ رویّہ پر تنقید کرتے ہوئے ہم خود ناانصافی کا شکار نہ ہوں ؛ آیا ہمارا ریڈیو اور ٹیلویژن ملک کی موجودہ صورت حال کی حقیقی عکّاسی کرتا ہے ؟ ایسا نہیں ہے ، بلکہ وہ ناقص عکّاسی کرتا ہے ، ملک کے اندر بعض انتہائی اہم پیشرفتیں ہوئی ہیں اور عظیم ترقّیاتی منصوبوں پر عمل درآمد ہوا ہے جسے ہمارے ریڈیو اور ٹیلیویژن سے  نہیں دکھایا گیا  ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ مختلف شعبوں سے وابستہ افراد ، ملک کے بہت سے حقائق اور پیشرفتوں سے بے خبر ہیں ؛ یہ ہمارے ریڈیو اور ٹیلیویژن کا نقص ہے ۔ورنہ جس طرح مغربی میڈیا اپنے تجربے اور دیرینہ روش، فن و ہنر کو بروے کار لاتے ہوئے وہاں کے جھوٹ کو سچ دکھا رہا ہے ، اگر ہمارا میڈیا بھی ملکی حقائق کو صحیح انداز میں منعکس کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو آپ جان لیجئیے کہ نئی نسل کی امیدوں ، امنگوں ، ملک ، دین اور نظام سے ان کی وابستگی اس سے کہیں زیادہ ہوتی جو آج ہے ۔ یہ ریڈیو و ٹیلیویژن پر ہمارا اعتراض ہے ۔ اگر وہ ملک کی موجودہ صورت حال کو صحیح انداز میں منعکس کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو ان کے سامعین اور ناظرین میں موجودہ دور کے مقابلے میں کہیں زیادہ جوش و ولولہ موجزن ہوتا ؛ بہت سے ایسے منصوبوں پر عمل در آمد ہو رہا ہے جو قابل فخروباعث مسرت ہیں ، نہ صرف سائنس اور علمی شعبے میں بلکہ سماجی اور سیاسی شعبے میں بھی ایسے منصوبوں پر کام جاری ہےجو سربلندی کا باعث ہیں ۔ اکثر افراد اس سے بے خبر ہیں ۔ میں عام طور سے ملکی حکام پر اعتراض کرتا رہتا ہوں کہ آپ ان کارناموں کو بیان کرنے سے عاجز کیوں ہیں ؟ بیان کرنا بھی ایک فن ہے ؛ کسی فن کو بیان کرنا بذات خود ایک فن ہے ؛ لیکن ملک کے حکام میں یہ فن نہیں پایا جاتا ۔

ایک دوسرا اعتراض جو عام طور سے بعض افراد پر کیا کرتا ہوں یہ ہے وہ اغیار کی باتوں پر بھروسہ کیوں کر کرتے ہیں اور اپنوں کی باتوں کو شک و شبہ کی نگاہ سے کیوں دیکھتے ہیں!ان کا یہ رویہ سراسر غلط ہے ، یہ رویہ مناسب نہیں ہے ۔ اس کی اصلاح ہونی چاہئیے ۔ آپ حضرات مختلف شعبوں میں آگے آئیے ملکی میڈیا ، جرائد اور اخبارات کو اپنے ہاتھوں میں لیجئیے ۔ میں روزانہ تقریبا سولہ ، سترہ اخباروں پر نگاہ ڈالتا ہوں ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے تمام صفحات کا مطالعہ کرتا ہوں ، میں شہ سرخیوں اور اگر کوئی قابل توجہ اداریہ یا مضمون ہو تو اسے ضرور دیکھتا ہوں ۔ افسوس! کہ ہمارے اخبارات ، حقائق کے انعکاس میں بہت کمزور ہیں ۔ بنیادی اور غیر بنیادی مسائل کو ایک دوسرے سے جدا کرنے میں غیر منصفانہ رویّہ اختیار کرتے ہیں ۔ الیکشن کے بعد رونما ہونے والے واقعات کو بھی اصلی اور غیر اصلی میں تقسیم کرنا چاہئیے ، اصلی اور بنیادی مسئلہ کیا ہے؟ اس کے ارد گرد کچھ فرعی مسائل بھی ہیں ؛ البتّہ وہ مسائل بھی اہمیت رکھتے ہیں ، لیکن اصلی مسئلہ کی اہمیت ان سے کہیں زیادہ ہے ۔ ان واقعات کا اصلی مسئلہ اور محور ، انتخابات کا انعقاد تھا ؛ ان انتخابات پر سوالیہ نشان لگانا سب سے بڑا جرم ہے جس کا ارتکاب کیا گیا ۔ آپ اس جرم سے چشم پوشی کیوں کر رہے ہیں؟!اس الیکشن کے انعقاد میں اس قدر زحمتیں اور مشقّتیں برداشت کی گئیں ؛ اور عوام نے اپنی بھر پور شرکت سے اس جمہوریت کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیاجس کا دنیا میں عام طور پر محض ڈھونگ رچایا جاتا ہے ۔اس کے بعد کچھ لوگ بلا وجہ بغیر کسی دلیل اور استدلال کے ، الیکشن کے انعقاد کے دوسرے دن سے ہی الیکشن کو جھوٹا بتائیں !کیا یہ کوئی معمولی بات ہے ؟ کیا یہ کوئی چھوٹا موٹا جرم ہے ؟ اس سلسلے میں کچھ انصاف سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔دشمن نے موقع کو غنیمت جانا اور اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا ، ملک کے اندر بھی کچھ افراد ہیں جو گزشتہ تیس برس سے اس نظام کے مخالف ہیں ؛ انہوں نے اس موقع سے ناجائز فائدہ اٹھایا ۔ جب دشمنوں نے دیکھا کہ نظام سے وابستہ کچھ افراد اس طریقے سے الیکشن کی شفافیت پر کیچڑ اچھال رہے ہیں تو وہ بھی میدان میں کود پڑے ؛جیسا کہ آپ نے مشاہدہ کیا ۔ میں نے پہلے ہی دن اس تحریک کے اصلی کرداروں کو خصوصی پیغام بھیجا کہ اس حرکت سے باز آجائیں ۔ میں نماز جمعہ کے اجتماع میں کھلے عام ایسے ہی کوئی بات نہیں کرتا ، اس سے پہلے خصوصی پیغام ، گفتگو ، نصیحت کے مراحل کارفرما ہوتے ہیں لیکن جب یہ کارگر نہ ہوں تو اس وقت انسان کے پاس کھلے عام بیان کرنے کےسوا کوئی چارہ نہیں رہتا ۔ میں نے انہیں پیغام دیا کہ آپ اس تحریک کو شروع تو کر رہے ہیں لیکن  اسے آخر تک کنٹرول نہیں کر پائیں گے ؛ دوسرے لوگ اس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں گے ۔ آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کچھ عناصر نے اس سے ناجائز فائدہ اٹھایا ۔ اسرائیل مردہ باد کے نعرے کو حذف کر دیا گیا ! امریکہ مردہ باد کے نعرے کو حذف کر دیا گیا ! اس کا مطلب کیا ہے ؟ وہ شخص جو سیاست کے میدان میں قدم رکھتا ہے وہ جو بھی چال چلتا ہے اسے شطرنج کے ماہر کھلاڑی کی طرح ، اس کے بعد کی تین ، چار چالوں کا بھی اندازہ ہونا چاہئیے ۔ کہ اگر آپ یہ چال چلیں گے تو آپ کا مد مقابل کون سی چال چلے گا ؛ اسے اپنی چال سوچ سمجھ کر چلنی چاہئیے اگر آپ کو معلوم ہو کہ آپ دوسری ہی چال میں مات کھا جائیں گے تو آپ کو پہلی چال نہیں  چلنی چاہئیے ، لیکن اگر آپ نے اس کے باوجود پہلی چال چلی تو یقینا آپ اس میدان میں نئے  ہیں ۔ البتّہ اس سلسلے میں بہتر تعبیر یہی ہے کہ آپ اس چال میں ، اس کھیل میں اس حرکت میں طفل مکتب ہیں اس سے ناواقف ہیں ۔ یہ لوگ نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ یہ ایک حرکت کا آغاز تو کر رہے ہیں لیکن اس کے انجام سے بے خبر ہیں ، انہیں نہیں معلوم کہ آخر کار وہ مات ہو جائیں گے ۔ انہیں اس کا حساب و کتاب رکھنا چاہئیے تھا ۔ اصلی اور بنیادی مسئلہ یہ ہے ۔ الیکشن پر سوالیہ نشان لگانا ، عوام کو مشکلات سے دوچار کرنا یہ کوئی معمولی جرم نہیں ہے ، عوام بے قصور ہیں ، ان کے اندر بد نیتی نہیں پائی جاتی ۔ انہوں نے الیکشن کے میدان میں قدم رکھا اور اپنی مرضی کے مطابق ووٹ ڈالا اور ملک اور اس کی عمومی تحریک کے شانہ بہ شانہ اقدام کیا، یہ ایک انتہائی مستحسن قدم تھا ۔ اگر آپ انصاف پسند ہیں تو ان فرعی مسائل پر نگاہ دوڑائیے اور اصلی اور بنیادی مسائل سے ان کا موازنہ کیجئیے ؛ اور ان کی اہمیت کو بھی مد نظر رکھیے ۔ الیکشن کا اس شان و شوکت سے انعقاد ہی سب سے اہم مسئلہ ہے ۔ اسے پیش نظر رکھیے

البتّہ ان نشستوں میں مجھے سیاسی امور پر گفتگو اچھی نہیں لگتی ، میری نظر میں یہ نشستیں محض ، علمی ، معنوی مسائل ، اور وعظ و نصیحت پر مشتمل ہونا چاہئیے ۔  ؛ لیکن اتنی گفتگو ناگزیر تھی اور ہم مجبور تھے ۔

بعض افراد کہتے ہیں کہ رہبری پر تنقید نہیں کی جاتی ؛  آپ جائیے اور ان سے کہیں کہ تنقید کریں ۔ ہم نے کبھی بھی کسی کو اس کام سے نہیں  روکا ہے ؛ ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ۔ ہم منصفانہ تنقید کا استقبال کرتے ہیں ؛ البتّہ وہ لوگ تنقید بھی کرتے ہیں ۔ یہاں وضاحت کا موقع نہیں ہے ورنہ میں بیان کرتا ۔ ہمارے اوپر کافی تنقید کی جاتی ہے ، میں بھی ان تنقیدوں کا مطالعہ کرتا ہوں اور ان سے با خبر ہوں ۔

ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ پروردگار عالم ہمیں اس راستے کی ہدایت فرمائے گا جس میں اس کی خشنودی اور رضاہے ۔ پروردگار عالم آپ کے مستقبل کو ماضی کے مقابلے میں بہتر قرار دے گا ؛ اور آپ کو ملک کی سربلندی کا باعث قرار دے گا ؛ انشاء اللہ آپ کا ملک ایک دن اقتدار کے عروج پر پہنچے گا ، آپ چونکہ جوان ہیں اس لئیے وہ دن ضرور دیکھیں گے اورمجھے دل کی گہرائیوں سے دعا دیں گے ۔

                                 والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
.............................

( ۱) ابراہیم  ۲۴

(۲)زمر ۱۷ ، ۱۸