ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا قرآنی موضوعات پر تحقیق کرنے والی خواتین سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

میں آپ عزیز بہنوں اور محترم خواتین کو بہت زیادہ خوش آمدید کہتا ہوں ۔ قرآن کریم کے شیفتہ اس عظیم اور ممتاز اجتماع کا مشاہدہ ، میرے لیے عید کا دن شمار ہوتا ہے اور میں اسے کریمہ اہلبیت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عنایت سمجھتا ہوں ۔ ہم پروردگار عالم کے انتہائی شکر گزار ہیں کہ آج ہمارے ملک میں وہ دن دیکھنے کو نصیب ہوا جس میں ملکی خواتین کا یہ عظیم مجموعہ ، عمیق، منطقی اور عالمانہ جذبے کے تحت ، قرآنی مفاہیم کے ادراک ، ان کی ترویج اور تحقیق کے ذریعہ ، ملک کی قرآنی فضا کو اس طرح رونق بخش رہا ہے ۔ یقینا یہ  ہمارے ملک کے لئیے پروردگار عالم کا ایک عظیم ہدیہ ہے ۔

محترم خواتین نے جو تجاویز یہاں پیش کیں وہ سبھی قابل توجّہ ہیں ۔انشاء اللہ ہم ان تجاویز کو حاصل کریں گے ،ان کا جائزہ لیں گے اور ان پر توجّہ دیں گے ،اگر یہ تجاویز ، ملک کے بعض حکام سے مربوط ہوئیں تو ہم انہیں ان کے حوالے کریں گے ۔اور ہمیں توقّع ہے کہ ان تجاویز میں سے جو تجاویز قابل عمل ، قابل قبول اور منطقی ہیں ان پر انشاء اللہ ضرور عمل درآمد ہو گا ۔

میں اس سلسلے میں دو مطلب آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں : ایک مطلب ،ہمارے ملک اوراسلامی جمہوری میں خواتین کی اس انتہائی برجستہ اور پر شکوہ علمی تحریک سے مربوط ہے اور دوسرا مطلب ، قرآنی مسائل سے مربوط ہے۔ مجھے ایسا دکھائی دیتا ہےکہ ہمارے ملک کی خواتین کا قرآن پر توجّہ دینا اور قر آنی میدان میں قدم رکھنا ایک ایسا واقعہ ہے جو عام  ناظرین، اس نظام کے ناقدین ، اس کے حامیوں اور مخالفوں کے سامنے اسلامی نظام کی ایک عظیم توفیق کے طور پر ان کی آنکھوں کے سامنے رہنا چاہیے ؛ سبھی اس کو دیکھیں ۔

سب سے پہلے خواتین کا علمی اور تحقیقاتی مسائل میں قدم رکھنا ایک قابل توجّہ امر ہے ۔اور یہ صرف قرآنی موضوعات و مباحث تک محدود نہیں ہے ۔میں ملک میں شائع ہونے والے  علمی اور تحقیقی جرائد پر عام طور پر نگاہ ڈالتا رہتا ہوں ، ہمارے جرائد میں جن علمی شعبوں کے بارے میں نئے مطالب پیش کیے جاتے ہیں ان تمام شعبوں میں خواتین محققین اور مقالہ نگاروں کی تعداد بڑی نمایاں اور برجستہ ہے ۔

دین مبین اسلام ، طاغوتی نظاموں کے بر عکس جو کہ عورت کو ایک دوسری نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ عورت کو شخصیت عطا کرتا ہے ۔اسلام میں جب کسی مؤمن کو نمونے اور مثال کے طور پر پیش کیا جاتاہے تو عورت کی مثال دی جاتی ہے  اس کی پہلی مثال فرعون کی بیوی کی ہے " وضرب اللہ مثلا للذین آمنوا امراۃ فرعون "؛  (۱)  اس کی دوسری مثال جناب مریم کی ہے ۔ '' ومریم ابنت عمران '' ؛ ( ۲)قرآن کریم نے اہل ایمان کے لئیے صنف نازک سے تعلق رکھنے والی دو ہستیوں کے کردار کو بطور نمونہ پیش کیا ہے ، اسی طرح اہل کفر کے نمونے و مثال کے طور پر بھی دو عورتوں کے کردار کو پیش کیا ہے ۔ " امراۃ نوح و امراۃ لوط کانتا تحت عبدین من عبادنا ۔۔۔۔۔فخانتا ھما ''؛ (۳) اسلام عورت کو نہ صرف ، خواتین عالم کے لئیے عبرت ، آئینے اورمحور کے طور پر پیش کرتا ہے بلکہ اسے پورے معاشرے کے لئیے اسوہ عمل اور آئینہ عبرت قرار دیتا ہے ۔ اس سلسلے میں کسی مرد کا بھی انتخاب کیا جا سکتا تھا لیکن عورت کو اس لئیے انتخاب کیا گیا تا کہ اس کے ذریعہ اس غلط انداز فکر کا مقابلہ کیا جاسکے جو ہمیشہ سے اس کے بارے میں پایا جاتا ہے ۔ عورت کے بارے میں پایا جانے والا انداز فکر اگر چہ ہمیشہ تحقیر آمیز نہیں رہا لیکن غلط ضرور رہا ہے ۔

طاغوتی حکومتوں میں ہمیشہ ہی عورت کو غلط انداز  سے دیکھا گیا ہے ؛ آج مغربی دنیا کا بھی یہی حال ہے ۔ عین ممکن ہے ، کہ مغربی معاشرے میں بھی  وہاں کے بعض مردوں کی طرح کچھ خواتین ، لائق احترام ، برجستہ اور پاک وطاہر ہوں ۔ لیکن وہ عمومی طرز فکر جو کہ مغربی معاشرے کی ثقافت میں رچ بس گیا ہے وہ سراسرغلط ہے ، وہاں ، عورت کو ایک آلہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، عورت کے بارے میں ان کا انداز فکر انتہائی تحقیر آمیز ہے ۔ مغربی دنیا کے اعتبار سے آپ کی بے پردگی اور بے حجابی کی وجہ  آپ کی آزادی نہیں ہے ، کہ جس کا  یہ جواب دے کر آپ اپنا دامن چھڑا لیں کہ ہم پردے میں بھی آزاد ہیں ۔ بلکہ ان کی نگاہ میں اس کی ایک دوسری وجہ ہے ۔ وہ عورت کو مرد کی آنکھوں کی نوازش ، اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لئیے ، معاشرے میں ایک مخصوص شکل و صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ عورت کی سب سے بڑی توہین ہے؛ اگر چہ وہ اس حقیقت پر ہزار پردے ڈالیں اور اس کے لئیے مختلف تعبیروں سے کام لیں ۔

حقوق نسواں کے احترام کا مفہوم یہ ہے کہ عورت کو اس بات کا بھر پور موقع فراہم کیا جائے کہ وہ علم ومعرفت ، تحقیق و ریسرچ ، ملک کی تعمیر و ترقّی کی راہ میں ، گھریلو ، سماجی اور عالمی ، الغرض ہر سطح پر اپنی  ان خداداد صلاحیتوں اور توانائیوں کو بروئے کار لاسکے جو پروردگار عالم نے ہر انسان کے وجود میں بطور امانت قرار دی ہیں  ، ان میں سے بعض توانائیاں صنف نازک سے مخصوص ہیں ۔حقوق نسواں کے احترام کا مطلب یہ ہے ۔ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ الحمد للہ ہمارے معاشرے میں پروردگار عالم کی توفیق اور اس کے فضل وکرم کے طفیل میں یہ صلاحیتیں اپنے جلوے بکھیر رہی ہیں ۔ یہ چند جملے میں نے اپنےملک کی  خواتین کے بنیادی اور انتہائی اہم کام کے سلسلے میں عرض کئیے  ۔ الحمد للہ آج ہمارے ملک کی خواتین ہر علمی شعبے میں سرگرم اور قابل تحسین کردار ادا کر رہی ہیں  ، بالخصوص ، قرآنی مجموعہ اور قرآنی امور میں ان کی شرکت کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔

میں نہیں سمجھتا کہ عالم اسلام کے کسی دوسرے مقام پر خواتین کی اتنی بڑی تعداد ،اس جوش و جذبے سے قرآنی موضوعات میں تحقیق و ریسرچ میں مصروف ہو ۔البتہ اس سلسلے میں مجھے حتمی خبر نہیں ہے لیکن جہاں تک عمومی اطلاعات کا تعلق ہے ان کی بنیادپر کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک میں اتنی بڑی تعداد اس کام میں مصروف نہیں ہے ۔ چونکہ " لوکان لبان " اگر کہیں بھی خواتین کی اتنی بڑی تعداد مصروف عمل ہوتی تو یقینا اس کا چرچا ہوتا ۔یہ صرف آپ کا ہنر ہے ۔ کہ خواتین کی اتنی بڑی تعداد قرآن کریم کے علمی ، تبلیغی ، تربیتی اور ہنری  اور دیگر مسائل میں تحقیق و ریسرچ میں مصروف ہے ۔ یہ سب چیزیں میری نگاہ میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔ البتہ جیسا کہ یہاں یہ تجویز پیش کی گئی ( اس کے تمام پہلووں کا بغور جائزہ لیا جائے ) اگر خواتین کے قرآنی  عالمی مقابلوں کا انعقاد  ممکن ہو اور یہ عملی شکل اختیا ر کر لے تو اس صورت میں قرآن کے سلسلے میں ایرانی خواتین کی پیشرفت سب پر واضح و آشکار ہو جائے گی ۔ یہ ایرانی خواتین اور اسلامی جمہوریہ کے لئیے ایک قابل فخر کارنامہ ہے جو قرآن کے سلسلے میں  اس قدر نمایاں ترقّی کرنے میں کامیاب ہوا ہے  ۔

قرآن کے بارے میں ہمیں ا س بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ  ہمارا معاشرہ سالہا سال قرآن سے بہت دور تھا ، ہم جمہوری اسلامی میں ان فاصلوں کو کم کرنے کی تگ و دو میں مصروف  ہیں ؛ ہم ان پسماندگیوں کا ازالہ کر رہے ہیں ، البتہ ہم اس میدان میں بہت پیچھے تھے  ان کا جبران کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ طاغوت کی حاکمیت کے دور میں ، ہمارے سماج میں قرآن کریم ، رسمی طور پر موجود نہیں تھا ؛  عین ممکن ہے کہ ملک کے مختلف کونوں میں قرآن سے آشنائی رکھنے والے کچھ افردا پائے جاتے ہوں ، اسی طرح کچھ دیندار گھرانوں میں اس کی تلاوت بھی ہوتی تھی لیکن یہ بات  صرف تلاوت کی حد تک محدود تھی ، قرآن کریم میں تدبر و غور وفکر کا عمل ہمارے معاشرے سے ناپید تھا؛ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے روشن خیال افراد اور یونیورسٹیوں کے طلباء ، قرآن مجید سے بہت دور ہو چکے تھے ۔اس دور کے تعلیم یافتہ افراد  میں قرآن  سے گہری اور وسیع آشنائی تو درکنار ، قرآن سے سطحی اور معمولی آشنائی اور انس رکھنے والے افراد بھی نہیں دکھائی دیتے تھے ؛ ہاں! مگر وہ افراد جو پہلے کبھی دینی طالب علم رہ چکے ہو ں انہیں البتہ چند آیات ضرور حفظ ہوا کرتی تھیں؛ لیکن دیگر اسلامی ممالک ، بالخصوص عرب ممالک  وہاں کے مخصوص حالات کی وجہ سے  یہ پوزیشن نہیں تھی اور آج بھی ایسا ہی ہے ۔ان کے روشن خیال افراد ، یونیورسٹی سے وابستہ شخصیات (ان میں سے بعض افراد ، حکومتی منصبوں پر بھی فائز ہیں ) سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے تو یہ بات اکثر و بیشتر مشاہدے میں آتی ہے کہ وہ اپنی گفتگو کے دوران ، تمثیل ، شاہد مثال ، مؤید اور استدلال کے  طور پر آیات قرآنی کا برملا استعمال کرتے ہیں ۔ہمارے ماضی کے روشن خیال افراد میں اس چیز کا فقدان تھا ۔ البتہ ہمارے جوان نسل میں ایسے افراد کی کمی نہیں ہے ۔ یہ قرآن کریم سے دور رہنے کا نتیجہ تھا ۔ہم اس دور میں قرآنی کاروان سے پیچھے رہ گئے تھے ۔ ان ممالک کا نظام تعلیم کیسا تھا ؟یہ ایک علٰیحدہ موضوع ہے میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن عرب ممالک میں ایک چیز ماضی میں بھی رائج تھی اور آج بھی رائج ہے اور انقلاب کے اوائل سے ہی ہمیں اس کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ عرب ممالک کے حکام اور سیاستدانوں کی زبان پر آیات قرآنی جاری رہتی ہیں ، اگر چہ عملی طور پر وہ قرآن کے مبانی و اصول سے دور ہیں اور ہم ہمیشہ سے ہی ان پر یہ اعتراض کرتے آئے ہیں اور اس اعتراض میں حق بجانب بھی ہیں ۔ لیکن ان کے ذہن و زبان پر آیات قرآنی کا جاری و ساری ہونا ایک طرہ امتیاز ہے ، ہمیں اس بات کا سخت افسوس ہوتا تھا کہ ہم ایسے کیوں نہیں ہیں ؟ اگر ہم اس کی  تشبیہ کرنا چاہیں تو بالکل ویسے جیسے کچھ باذوق ایرانی افراد اپنی گفتگو کے دوران ، گلستان سعدی کے کسی جملے ، یاحافظ کے کسی شعر ، یا دنیا کے کسی مشہور و معروف اہل قلم کے جملے کو زبان پر لاتے ہیں ، وہ قرآن سے بالکل ویسا ہی استفادہ کرتے تھے ۔ لیکن ہمارے ملک میں ایسا نہیں تھا ۔ اس تربیت کی وجہ سے جو انقلاب سے پہلے پائی جاتی تھی ہم قرآن سے دور ہو چکے تھے ۔

ہم ، اب اس  پسماندگی کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں ۔ حق و انصاف سے اگر دیکھا جائے تو انقلاب کے آغاز سے اس سلسلے میں بہت کام ہوا ہے؛ جس کا نتیجہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ لیکن یہ کام کی ابتداء ہے ؛ یہ راستے کا آغاز ہے ۔ہمیں قرآن میں رچ بس جانا چاہیے ، قرآنی مفاہیم محض چند معلومات کا نام نہیں ہیں بلکہ یہ مفاہیم و تعلیمات زندگی بسر کرنے کے لئیے مشعل راہ ہیں کبھی کبھی کسی انسان کی قرآنی معلومات بہت اچھی ہوتی ہیں لیکن  اس کی نجی زندگی پر اس کی کوئی تاثیر دکھائی نہیں دیتی ! بعض خواتین نے بھی یہاں اس نکتے کی طرف اشارہ کیا کہ ہمیں اپنی تمام تر توانائی کو بروئے کار لانا چاہیے تاکہ قرآن ہماری روز مرہ کی زندگی میں عینی و خارجی تجسم پیدا کر سکے ۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) کی ایک زوجہ مکرمہ سے  جب آنحضرت کے اخلاق  کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا : " کان خلقہ القرآن "(۴)  آنحضرت کا اخلاق ، قرآن تھا ۔ یعنی آپ قرآن مجسم تھے ۔ اس حقیقت کو ہمارے معاشرے میں بھی عملی جامہ پہننا چاہیے۔

 ایک واضح و آشکار حقیقت بھی پائی جاتی ہے جو زیادہ واضح ہونے کی وجہ سے عام طور سے مخفی رہ جاتی ہے ، ہم یہاں پر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ حقیقت ، اس اسلامی نظام کا وجود ہے ۔ یہ وجود بذات خود ، قرآن کے مجسم ہونے کا ایک بہترین نمونہ ہے ۔ اسلامی جمہوری نظام ، دین کی محوریت پر قائم ہونے والا یہ نظام ، قرآنی تعلیمات کے مجسّم ہونے کا ایک بہترین اور اعلیٰ نمونہ ہے جسے ہمارے انقلاب نے فراہم کیا ہے ۔ ہمیں اس سے غافل نہیں رہنا  چاہیے ۔اس عظیم دائرے کے بہت سے ذیلی خاکوں کو بھرنے کی ضرورت ہے ، ابھی بہت سے کام باقی ہیں ۔لیکن  اس نظام کی تشکیل کامسئلہ سب سے اصلی اور بنیادی کام ہے جو انجام پایا ۔ سب سے اہم چیز یہ تھی کہ  دین پر مبنی ایک نظام وجود میں آئے ۔ جس نظام کے حکام ، ان کی شناخت ، ان کے اہداف و مقاصد ، ان کی خصوصیات ، ان کی کا رکردگی ، عوام سے ان کا رابطہ ، عوام کی خدمت ، یہ سبھی چیزیں دین  اور دینی تعلیمات پر استوار ہوں ۔ یہ قرآن پر عمل پیرا ہونے کا ایک بہترین نمونہ ہے ۔ یہ وہی کام ہے جو پیغمبر اسلام  (ص)نے مدینہ منوّرہ کی طرف ہجرت  کے ذریعہ انجام دیا ؛چونکہ جب تک کوئی سماج نہ ہو ، کوئی نظام نہ ہو ، قدرت و اقتدار کا کوئی مرکز نہ ہو جو اجتماعی  سرگرمیوں پر نظارت رکھ سکے ، تب تک کسی بھی فعّالیت و سرگرمی کی ضمانت نہیں لی جاسکتی ۔ انقلاب سے پہلے بھی کچھ خیر خواہ اور ناصح افراد پائے جاتے تھے ، جن کا دل دین کے لئیے دھڑک رہا تھا ، وہ لوگوں کو اس دور کے محدود ارتباطی وسائل کے ذریعہ لگا تار  وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے، وعظ و نصیحت کی بھی اپنی تاثیر ہوتی ہے وہ دل پر اثر انداز ہوتا ہے ؛ لیکن اس پر عمل کی کوئی ضمانت نہیں ہوا کرتی ؛ ایسا کیوں تھا ؟ چونکہ اس دور کا نظام حکومت ایک غلط نظام حکومت تھا، معاشرے کی سمت و سو ، اس کے اہداف و مقاصد ، عدل و انصاف ، مروّت اور اخلاق کے برخلاف تھے ۔ ایسی صورت میں آپ جس قدر بھی دوسروں کو عدل و انصاف ، دوسروں پر رحم کھانے کی دعوت دیں گے اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوگا ۔ چونکہ سمت و سو ، اہداف و مقاصد کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔ایک اسلامی نظام کی تشکیل کے ذریعہ ہی ان اہداف و مقاصد کو صحیح ڈگر پر لگایا جاسکتا ہے ۔انقلاب نے یہ کارنامہ انجام دیا اور ایک ایسے نظام کی داغ بیل ڈالی ؛ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے قرآنی محققین ، جوش و ولولے سے سرشار اور اس حقیقت کے شیفتہ جوان اس حقیقت کو ہر گز فراموش نہ کریں ۔ یہ ایک بہت ہی واضح و آشکار حقیقت ہے لیکن غالبا اس سے غفلت برتی جاتی ہے ، یہ ایک انتہائی اہم حقیقت ہے ۔

اس دائرے میں ہمیں قرآنی میدان میں قدم رکھنا چاہیے اور بنیادی کاموں کو انجام دینا چاہیے ۔ اپنے معانی و مقاصد کو قرآنی رنگ میں رنگنے کے لئیے ہمیں اپنی فردی ، اجتماعی ، اداری ، انتظامی ، تعلیمی ، حوزہ اور یونیورسٹی ، درون خانہ ، سیاسی ، اور بین الاقوامی سرگرمیوں  کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا ہوگا ؛ یہ کب ممکن ہوگا؟ جب ہم قرآنی مفاہیم سے اچھی طرح واقف ہوں ۔ یہ وہ مقصد ہے جو قرآنی موضوعا ت پر تحقیق و ریسرچ کے ذریعہ پایہ تکمیل تک پہنچےگا ۔ہمیں اس مقصد کی راہ میں آگے بڑھنا چاہیے اور اپنی تحقیقات کو اس نکتے پر مرکوز کرنا چاہیے ۔

قرآنی موضوعات پر تحقیق کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ شخص جو اس راستے پر چلنا چاہتا ہے اسے اپنے دل کے دریچوں کو قرآن کی خالص حقیقت کو قبول کرنے کے لئیے تیار رکھنا چاہیے ؛ قلبی طہارت ایک لازمی امر ہے ۔اگر دل پاک نہ ہو اور قرآن کے حق و حقیقت کو قبول کرنے کے لئیے آمادہ نہ ہو ،غیر اسلامی اور غیر الٰہی مبانی اور اصول کا فریفتہ ہو تو ایسا دل قرآنی تعلیمات سے کوئی استفادہ نہیں کر سکتا ۔قرآن مجیدمیں ارشاد رب العزت ہے  :'' یضل بہ کثیرا و یھدی بہ کثیرا '' (۵) قرآن کے ذریعہ گمراہی کا کیا مطلب ہے ؟ قرآن ، ہدایت کا عامل ہے یہ بات تو اپنی جگہ مسلم ۔ لیکن قرآن کریم ، ضلالت و گمراہی کا باعث کیوں کر بنتا ہے ؟ اس کی وجہ اس آیت میں بیان کی گئی ہے : واما الّذین فی قلوبھم مرض فزاد تھم رجسا علی ٰ رجس '' ؛ (۶) وہ لوگ جن کے دل مریض ہیں وہ جب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو ان کی اندرونی پلیدی و خباثت میں اضافہ ہو جاتا ہے ؛ قرآنی آیات و سورے اس کی خباثت و پلیدی میں اضافے کا باعث بنیں گے ۔ یہ خباثت و پلیدی کیا ہے ؟ " فی قلوبھم مرض " سے مراد کون سی بیماریاں ہیں ؟ ان بیماریوں سے مراد وہی اخلاقی بیماریاں ہیں ۔ جب ہم حسد سے دوچار ہوں ؛ جب ہم بد خواہی کا شکار ہوں ؛ جب ہم لالچ و حرص میں مبتلا ہوں ، جب ہم پر خواہشات نفسانی کا غلبہ ہو ، جب ہم پر قدرت طلبی اور دنیا طلبی مسلط ہو ، جب ہم پر حقائق چھپانے اور حق کشی کا جذبہ غالب ہو تو اس صورت میں ہم قرآن سے استفادہ نہیں کر پائیں گے ۔ ہم قرآن کے بتائے ہوئے مفاہیم کے برعکس ، ان کے مخالف مفاہیم کو اختیار کر لیں گے ۔ ہمیں اس صورت حال سے پروردگار عالم سے پناہ مانگنا چاہیے ۔ آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایسے افراد ، اسلام کی مخالفت کے لئے قرآنی آیات کا سہارا لیتے ہیں ، اسلامی جمہوری اور اس کے ان فضائل و کمالات پر حملہ کرنے کے لئیے قرآنی آیات کا استحصال کرتے ہیں جو اس کے طفیل میں ہمیں نصیب ہوئے ہیں ۔ اس لئیے ضروری ہے کہ ہم پاک و پاکیزہ دل کے ساتھ قرآن کے حضور میں حاضر ہوں تا کہ اس کا نور اور اس کی پند و نصیحت ہمارے دل پر اثر انداز ہو سکے اور انشاء اللہ ہم اس سے استفادہ کر سکیں ۔

قرآنی تحقیقات و ریسرچ کے سلسلے میں ایک دوسرا نکتہ جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ ان تحقیقات میں علمی ، مبنائی اور اصولی کاموں پر توجّہ دینا بہت ضروری ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ جو کوئی بھی عربی زبان سے واقف ہو وہ قرآن مجید کے تمام مطالب و حقائق کے ادراک پر قادر ہو ؛اور حقیقی معنیٰ میں ایک قرآنی محقق ہو ؛ایسا ہر گز نہیں ؛ اس کے لئیے قرآن کریم سے مانوس ہونا ضروری ہے ؛ یعنی قرآنی محقق ، پورے قرآن سے مانوس ہو ؛ قرآن کی تلاوت ، قرآن کی دو، تین بار تلاوت ، قرآن میں ذاتی تدبّر و غور وفکر ، اس بات میں معاون ثابت ہوتا ہے کہ جب ہم کسی خاص موضوع کے بارے میں قرآن کریم میں تحقیق کریں تو کسی مطلوبہ نتیجہ تک پہنچ سکیں؛ اس کے لئیے قرآن سے مانوس ہونا ضروری ہے ۔

اس کے بعد قرآن سے استفادے کی کیفیت کا مرحلہ آتا ہے ؛ ہمارے فقہاء کرام نے آیات و روایات سے استفادہ کرنے کاجو طریقہ کار اور روش اپنا رکھی ہے یہ روش ایک انتہائی علمی ، پختہ اور آزمودہ روش ہے ؛ اسے سیکھنا چاہیے ۔ میری مراد یہ نہیں ہے کہ جو شخص بھی قرآنی موضوعات میں تحقیق کرنا چاہتا ہے وہ سالہا سال دینی مدارس کی خاک چھانے ، لیکن فہم قرآن کے مقدمات و اصولوں سے آشنا ہو ئے بغیر قرآنی موضوعات میں تحقیق ممکن نہیں ۔ عربی زبان کے لطائف و ظرائف سے آشنائی ، اصول فقہ  کے بعض مبانی سے آشنائی ، انہیں مقدمات کا حصہ ہے  جو تفسیر قرآن کے لئیے لازم و ضروری ہیں ؛ ہمیں ان سے آشنائی حاصل کرنی چاہیے ۔ اسی طرح ان روایات کی آشنا ئی بھی ضروری ہے جو بعض آیات کے ذیل میں پائی جاتی ہیں ۔ یہ سب چیزیں ، قرآنی تحقیقات میں مؤثر ہیں ۔

میں اپنی تقریر کے آخر میں ایک دوسرے نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ نکتہ یہ ہے کہ میں نے یونیورسٹی کے ذمہ دار حضرات سے بارہا اس بات کا شکوہ کیا ہے اور ابھی کچھ عرصہ پہلے بھی یہ مسئلہ اٹھا یا تھا کہ ہمارے علوم انسانی کی بنیاد ایسے مبانی و اصول پر استوار ہے جو دینی و اسلامی مبانی و اصول کے منافی ہیں ۔ مغربی دنیا کے علوم انسانی کی بنیاد ایک دوسرے نظریہ تصوّر حیات پر مبنی ہے ۔ وہ ایک غلط نظریہ ہے ؛ وہ ایک غلط اصل پر استوار ہے ۔ اس نظریہ کا من وعن  ترجمہ  ہماری یونیورسٹیوں میں تدریس ہو رہا ہے اور اس میں کسی تحقیقی اسلامی فکر کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جاتی؛ حالانکہ ہمیں ، علوم انسانی کی بنیاد اور جڑوں کو قرآن میں تلاش کرنا چاہیے۔ قرآنی تحقیقات کا ایک اہم حصّہ اس سے مربوط ہے؛ ہمیں مختلف موضوعات میں قرآنی دقائق و نکات کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے اور علوم انسانی کی جڑوں کو قرآن میں ڈھونڈنا چاہیے ۔ یہ ایک بنیادی اور بہت اہم کام ہے ۔اگر یہ معرکہ سر ہو جائے تو اس صورت میں علوم انسانی کے مختلف شعبوں سے وابستہ صاحبان فکر و نظر اس بنیاد پر علوم انسانی کی بلند و بالا عمارت کھڑی کر سکتے ہیں ۔ البتہ وہ اس صورت میں بھی علوم انسانی کے سلسلے میں دیگر مکاتب فکر اور مغربی دنیا کی پیشرفت سے استفادہ کر سکتے ہیں ، لیکن مبنا اور بنیاد، قرآنی ہونا چاہیے ۔

پروردگار عالم کے حضور میں  آپ کی توفیقات کے لئیے  دست بدعا ہوں ۔ میں ان تمام خواتین کا مشکور ہو ں جو ملک کے مختلف مقامات پر قرآنی سرگرمیوں میں فعّال کردار ادا کر رہی ہیں ۔ قرآنی میدان میں آپ کی موجودگی سے ملک کی دیگر خواتین کو بھی الہام حاصل ہو گا اور وہ  بھی اس طرف مائل ہوں گی ۔ اگر خواتین ، قرآن کی طرف مائل ہوں تو ہمارے سماج کی بہت سی مشکلات خود بخود حل ہو جائیں گی ۔ چونکہ ہماری آنے والی نسلیں انہیں خواتین کی آغوش میں پروان چڑھیں گی اور وہ خاتون ،تربیت اولاد میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جو قرآن سے مانوس ہو ، قرآنی مفاہیم سے آشنا ہو ۔ہمیں پوری توقّع ہے کہ آپ کی اس تحریک کی برکت سے ہمارا آئندہ کا معاشرہ ، موجود معاشرےکے مقابلے میں کہیں زیادہ قرآنی ہوگا ۔

                         والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

-------------------------------------------------------

) سورہ تحریم : آیت ۱۱

(۲ ) سورہ تحریم : آیت ۱۲

(۳) سورہ تحریم آیت ۱۰

(۴) فضائل الخمسۃ جلد ا ص ۱۱۷

(۵)  سورہ بقرہ : ۲۶   

(۶) سورہ توبہ : آیت ۱۲۵