ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا چالوس اور نوشہر کےعوامی اجتماع سے خطاب

بسم اللہ الرّحمنٰ الرّحیم

الحمد اللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ سیدنا و نبینا ابی القاسم المصطفیٰ محمد و علی ٰ آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیۃ اللہ فی العالمین ۔

میں پروردگار عالم کا انتہائی مشکور ہوں جس نے آخر کار اس بندہ حقیر کو اس  بارش والے دن میں شہرچالوس اور نوشہر کے عوام کے مخلصانہ اور محبت آمیز جذبات کے درمیان حاضر ہونے  کی توفیق عنایت فرمائی ۔اس سے پہلے دورے میں اس بات کی توفیق نصیب نہیں ہو پائی کہ ہم شہر چالوس کے عوام کا نزدیک سے دیدار کر سکیں ۔ اس دن بھی موسلا دھار بارش ہو رہی تھی جس نے نہ تو یہاں کے عوام کو جمع ہونے اور نہ ہی اس حقیر کو ان کی زیارت سے مشرّف ہونے کی اجازت دی ۔ آج بھی اگر چہ بارش کا سماں ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ ہم کچھ وقت آپ کے ساتھ  رہ سکیں گے ۔

میں شہر چالوس کو اس شہر کے عنوان سے پہچانتا ہوں ، جہاں سے ہم پر تھوپی گئی جنگ کے دوران ، صوبہ مازندران و گیلان سے حق و باطل کی نبرد کے محاذ پر روانہ ہونے والے مجاہدین اسی شہر سے ہو کر گزرا کرتے تھے ۔دسیوں ہزار مجاہدین کی حرکت کا نقطہ آغاز یہی شہر چالوس تھا ۔ در حقیقت یہ شہر ، صوبہ مازندران اور گیلان کے اکیس ہزار سے زائد شہیدوں کی قدم گاہ ہے ۔

صوبہ مازندران کے عوام نے انقلاب اور اسلام سے مربوط واقعات اور حوادث میں بہترین امتحان دیا ہے جو میری نگاہ میں  ایک منصفانہ حساب و کتاب کے اعتبار سے ایک کم نظیر امتحان تھا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ، طاغوت کے دور میں ، اسلام اور اخلاق کے دشمنوں نے اس علاقہ پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی تھی ۔ وہ افراد جو اس علاقہ کی خوشگوار آب و ہوا ، اور اس کے کم نظیر قدرتی مناظر ، اس کے جنگلات اور سمندر کے عاشق تھے اور اس علاقہ پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے تھے وہ ہر گز یہ نہیں چاہتے تھے کہ اس صوبے کے عوام ، بالخصوص اس خوبصورت و حساس علاقہ کے عوام ، دین و اخلاق کے پابند ہوں ۔چونکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ دین اور اخلاق ، ظلم و تجاوز کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ طاغوت کی حکومت کے دوران اس ظالم و جابر حکومتی مشینری نے اس علاقہ اور صوبہ گیلان کے عوام کو دین اور اخلاقی قدروں سے دور کرنے کے لئیے جس قدر سرمایہ لگایا تھا ، ایران کے دیگر علاقوں میں اتنا سرمایہ نہیں لگا یا ۔ اس کے باوجود ہمیں انقلاب کے دوران ، صوبہ مازندران صف اول میں دکھائی دیتا ہے ۔ یہ کون سا ایمان ہے ؟ یہ خلوص و دینداری کی کون سے قدرت ہے جس کے چشمے یہاں کے عوام کے دلوں سے جاری ہیں ؟ اور اس قدر تخریب کاری کے باوجود اس سرزمین کے عوام دین کے سپاہی نظر آتے ہیں ۔ہمارے اوپر مسلط شدہ جنگ اور انقلاب کے دوران ہمیں یہ مناظر دیکھنے کو ملے ۔ جنگ کے بعد رونما ہونے والے واقعات میں جہاں کہیں اسلام ، دین اور انقلاب ، جمہوری اسلامی اور اسلامی نظام کی بات آئی ، سرزمین مازندران کے عوام نے جان و دل سے حق کے محاذ کا دفاع کیا ۔ شہر چالوس و نوشہر کے عوام نے ایک ہزار کے قریب شہید راہ خدا میں پیش کئیے ۔

یہ یہاں کے عوام کے معنوی اور اسلامی شناختی کارڈ میں محفوظ ہے ۔یہ وہی روشن و واضح نقاط ہیں جو کسی قوم اور کسی معاشرے کے راستے کا تعیّن کرتے ہیں ۔ آج بھی اس میدان میں ، بارش کے دوران یہ محبت آمیز اور پر جوش اجتماع ، آپ کے نورانی دلوں کی عکاسی کر رہا ہے ۔اس خراب موسم میں مجھے آپ کو زیادہ زحمت نہیں دینی چاہیے ، میں اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے صوبہ مازندران اور ملک کے عام مسائل اور انقلاب کے بارے میں چند جملے عرض کرنا چاہتا ہوں۔

صوبہ مازندران ، جنگلات اور سمندر کی دولت سے مالا مال صوبہ ہے ۔ یہ دو چیزیں اس صوبے اورپورے ملک کی ثروت شمار ہوتی ہیں ۔ ان دو بیش بہا ثروتوں کی حفاظت ہونا چاہیے اور ان سے صحیح اور مناسب استفادہ ہونا چاہیے ۔ میں ملک کے حکام سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں : کہ یہ جنگلات ایرانی قوم کا سرمایہ ہیں، یہ سمندر ایرانی قوم کا سرمایہ ہے ،اور اس قوم کے امور کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں ہے ، اس لیئے آپ ہوشیار رہیں ۔ ان کی حفاظت کریں ، ان سے صحیح اور مناسب  اقتصادی  ، استفادہ کریں ۔ ان سےناجائز فائدہ اٹھانے کی اجازت نہ دیں ۔ عام طور سے جنگلات کا استحصال کیا جاتا ہے ۔ جنگلات کی حفاظت ملک کے حکام کا فریضہ ہے ۔ یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں کہ کچھ خود غرض اور لالچی قسم کے افراد ،اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اس قومی ثروت کا استحصال کریں اور اس کے پیسے سے اپنی جیبیں بھریں ۔ یہ علاقہ، بالخصوص یہ شہر جوکہ تہران چالوس قومی شاہراہ کے کنارے واقع ہے ، یہ حسین و جمیل مناظر ، اس علاقہ کا خوشگوار موسم ، یہ سب پروردگار عالم کی نعمتیں ہیں ، ان سے صحیح استفادہ ہونا چاہیے ۔ حریم الٰہی کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ان سے استفادہ کرنا چاہیے ، عوام کے دین و اخلاق ، اور ان اخلاقی  قدروں کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے ان سے استفادہ کرناچاہیے جن کی یہاں کے عوام نے ایک طویل عرصے سے بڑی جانفشانی سے پاسبانی کی ہے ۔

اہل مازندران جان لیں اور آپ اس امر سے بخوبی واقف بھی ہیں کہ دین اسلام کی ابتدائی صدیوں  میں بنو امیہ اور بنی عباس کی حکومتیں،  لشکر کشی کے ذریعہ  کسی بھی طریقے سے سرزمین ایران کے اس شمالی علاقہ (طبرستان ) کو فتح نہ کر سکیں۔ یہ وہی لشکر اسلام تھا جس نے سرزمین روم اور ایران کے بقیہ حصے پر قبضہ کر رکھا تھا لیکن یہ لشکر سرزمین مازندران کو فتح کرنے میں کامیاب نہیں ہوا ۔ البرز نامی پہاڑی سلسلے نے اس علاقہ کے عوام کے لئیے ، مضبوط قلعے کا کام کیا اور ان کے لئیے یہ موقع فراہم کیا کہ وہ بنی امیہ اور بنی عباس کے لشکروں کا مقابلہ کر سکیں اور ان کے لشکر سرزمین مازندران کو فتح نہ کر سکیں ۔ سرزمین مازندران ، آل محمد (ص) کی مظلوم اولاد کے ہاتھوں فتح ہوئی ۔ امام سجاد ، امام باقر اور امام صادق علیہم السلام کی ستم دیدہ اولاد ،    بڑی جانفشانی سے خونریز خلفاء سے اپنی جان بچا کر اس علاقہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ۔ جب وہ یہاں پہنچی تو مازندران اور گیلان کے عوام نے اپنی آغوش محبت  کو ان کے لئیے پھیلا دیا  اور پیغمبر اسلام کی اولاد کو ہاتھوں ہاتھ لیا ،اور ان کے ہاتھوں مسلمان ہوئے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا یہ شمالی منطقہ جب سے مسلمان ہوا ہے تبھی سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے مکتب اور مذھب تشیع کا پیروکار ہے ۔ یہ اس علاقہ کا تاریخی سابقہ ہے ۔ اس علاقہ کے عوام ہمیشہ سے ہی ، اسلامی قدروں ، جہاد فی سبیل اللہ اور ظلم و ستم کے خلاف علم برداری کے مضبوط و ثابت قدم ، پشت پناہ رہے ہیں ۔ اور آج بھی ایسا ہی ہے ۔ ہمیں اس اخلاق ، ان اقدار اور اس عمیق اخلاق کا احترام کرنا چاہیے جو ایک طویل عرصے کی نشانی ہے ۔

حکومت کو ہوشیار رہنا چاہیے کہ ان جنگلات ، سمندر کے ساحل اور ان حسین و جمیل مناظر کے استفادے سے کہیں یہاں کے لوگوں کے دین و ایماں ، اور اخلاقی قدروں پر کوئی آنچ نہ آئے ۔ ، ان نعمتوں سے اس طرح استفادہ کیا جائے کہ اس صوبے میں " فقیر " کا وجود بے معنا ہو جائے ۔ یہ حکومت کے فرائض میں سے ہے البتہ اس کے لئیے آپ کا تعاون بھی درکار ہے ۔ صوبہ مازندران ، بالخصوص سمندر کے ساحل اور جنگلات کے قریب بسنے والے لوگوں کو حکومت سے اس ثقافت کی بقا کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔اس حکومتی مشینری ( جو کہ آپ کے لئیے اور آپ  کے مفادات کی خاطر مصروف عمل ہے ) سے یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ آپ  کے دین و ایمان اور مفادات کی پاسبانی کرے ۔ اس کے لئیے حکومت و عوام کے مابین ایک وسیع تعاون درکار ہے ۔

  ملک کے عام مسائل اور انقلاب کے بارے میں چند جملے عرض کرتا چلوں : میرے بھائیو اور بہنو ! آپ ملاحظہ کیجئیے کہ مکّہ کے سخت و دشوار دور میں ، پروردگار عالم اپنے حبیب(ص)  سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیجئیے کہ یہی میرا راستہ ہے اور میں بصیرت کے ذریعہ خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے : ''قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علیٰ بصیرۃ انا و من اتبعنی " ؛ (۱) پیغمبراسلام (ص) خود بھی اور آپ کے ماننے والے اور پیروکار بھی ، بصیرت کے ساتھ راستہ چل رہے ہیں ۔ یہ اس دور کی بات جب ابھی کسی حکومت کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا ، ابھی کوئی اسلامی معاشرہ تشکیل نہیں پایا تھا ، ابھی کسی سخت و دشوار مدیریت کا مرحلہ درپیش نہیں تھا ۔ لیکن اس کے باوجود ، بصیرت ضروری تھی ، مدینہ منوّرہ کے دور میں تو بدرجہ اولیٰ اس کی ضرورت تھی۔ یہ جو میں چند سال سے مسلسل بصیرت پر زور دے رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے  کہ جب کسی قوم میں سیاسی شعور اور بصیرت موجزن ہو ، اس کے جوان بصیرت سے سرشار ہوں اور آگاہانہ طور پر قدم اٹھاتے ہوں تو ان  کے مقابلے میں دشمن کی شمشیریں کند ہو جاتی ہیں ۔ بصیرت اس چیز کا نام ہے ۔ جب بصیرت پائی جاتی ہو تو فتنہ کی غبار آلود فضا انہیں گمراہ نہیں کر سکتی ؛ انہیں شک و شبہ کا شکار نہیں ہونے دیتی ۔ اگر بصیرت نہ ہو تو کبھی کبھی خیر خواہانہ نیت کے باوجود انسان غلط راستے پر چل پڑتا ہے ۔اگر آپ محاذجنگ پر راستہ بھٹک جائیں ؛ آپ نقشے سے استفادہ کرنے سے قاصر ہوں ، آپ کے پاس قطب نما نہ ہو تو اچانک آپ اپنے آپ کو دشمن کے محاصرے میں پائیں گے ؛ اگر آپ غلط راستے پر چلیں گے تو دشمن آپ پر مسلّط ہو جائے گا ۔ یہ قطب نما وہی بصیرت ہے ۔

آج کی پیچیدہ اجتماعی زندگی میں بصیرت اور سیاسی شعور کے بغیر راستہ چلنا ممکن نہیں ہے ، جوانوں کو اس مسئلہ پر غور و فکر کرنا چاہیے اور اپنی بصیرت میں اضافہ کرنا چاہیے ۔ دینی مدرّسین ، اہل ثقافت اور فرض شناس تعلیم یافتہ افراد (خواہ ان کا تعلق حوزہ سے ہو یا یونیورسٹی سے ) کو بصیرت کے مسئلے کو اہمیت دینا چاہیے ؛ ہدف و مقصد میں بصیرت ، وسیلہ اور آلہ کار میں بصیرت ، دشمن کی شناخت میں بصیرت ، راستے کی رکاوٹوں کی شناخت میں بصیرت ، ان موانع کو دور کرنے میں بصیرت ، الغرض ، ہر میدان میں بصیرت ضروری ہے ۔ اگر بصیرت پائی جاتی ہو تو آپ ، اپنے مد مقابل کو پہچان پائیں گے ؛ اور پوری طرح لیس ہو کر اس کے مقابلے کے لئیے نکلیں گے ۔ اگر آپ کو ویسے ہی کسی سڑک پر چہل قدمی کرنا ہو تو اس کے لئیے  آپ ایک معمولی لباس اور چپل میں بھی باہر نکل سکتے ہیں لیکن اگر آپ کو  دماوند پہاڑ کی چوٹی سر کرنا ہو تو اس کے لئیے آپ کو مختلف وسائل و آلات کی ضرورت ہوگی ۔ بصیرت کا مفہوم  یہ ہے کہ آپ کو اپنے ہدف و مقصد کا علم ہو تاکہ اسی اعتبار سے آپ وسائل فراہم کریں ۔

جمہوری اسلامی نے عالمی سیاست میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ۔ اور تیس سال گزرنے کے بعد آج بھی یہ نظریہ روز اول کی طرح تازہ اور دلکش ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اقوام عالم آج بھی اسلامی جمہوریہ ایران کو عزّت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہیں؛ اس سے والہانہ محبت اور لگاؤ کا اظہار کرتی ہیں ۔ جب آپ کے صدراتی الیکشن میں پچاسی فیصد عوام نے ووٹ ڈالے تو دنیا کے مختلف گوشوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کے چاہنے والوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ، انہوں نے اپنے نعروں اور دیگر وسائل کے ذریعہ اس خوشی کا اظہار کیا ، مختلف ذرائع سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے ۔ لیکن جب دشمن نے اس الیکشن ، عوام کی بے مثال شرکت اور اس عظیم سیاسی کامیابی پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی ، اس سلسلے میں الزام تراشیوں اور افواہوں کا بازار گرم کیا ، ہنگامے بپا کئیے تو اسلامی جمہوریہ ایران کے چاہنے والوں میں تشویش پیدا ہو گئی ۔ لبنان ، پاکستان ، افغانستان اور دیگر ممالک کے شیعہ اور مخلص مسلمان اس صورتحال سے پریشان ہو گئے جس سے عالم اسلام میں اسلامی جمہوریہ ایران کے طرزفکر کے زندہ حضور کی عکّاسی ہوتی ہے ۔

جمہوری اسلامی کے دو رکن ہیں : وہ جمہوری ہے یعنی عوامی ہے ؛ وہ اسلامی ہے یعنی وہ شریعت الٰہی اور الٰہی قدروں پر استوار ہے ۔ عوامی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عوام ؛ اس نظام کی تشکیل اور اس ملک کے اعلیٰ حکام کے انتخاب میں نقش رکھتے ہیں اور اس نظام کے تئیں ، ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں ، وہ اس نظام سے لا تعلّق  نہیں ہیں ۔اس کے عوامی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک کے حکام ، عوام کا حصہ ہوں ان سے قریب ہوں ۔ افسر شاہی ، عوام سے جدائی ، عوام کی تذلیل و تحقیر کی بری عادت سے پاک و مبرّا ہوں ۔ ہماری قوم نے اس ملک میں متعددصدیوں تک ، باطل حکمرانوں کے دور حکومت میں افسر شاہی ، استبداد اور ڈکٹیٹر شب کا تجربہ کیا ہے ، جمہوری اسلامی کی حکومت کا دور ایسا نہیں ہو سکتا ۔جمہوری اسلامی کا دور حاکمیت ، یعنی ان افراد کی حاکمیت کا دور ، جو عوام میں سے ہیں ، ہر قدم پر ان کے ہمراہ ہیں ، انہیں کے منتخب شدہ ہیں ، ان کی رفتار و گفتار عوام کے مشابہ ہے ۔ عوامی ہونے کا مطلب یہ ہے ۔ یہ ایک عوامی حکومت ہے یعنی اس حکومت کو لوگوں کے عقائد، ان کی عزّت و آبرو ، ان کی شناخت اور شخصیت و کرامت کو اہمیت دینا چاہیے ۔ یہ اس کے عوامی ہونے کی پہچان ہے ۔

اسلامی ہونے کا مطللب یہ کہ ہم نے جو خصوصیات بیان کیں ، وہ سب کی سب ، معنوی بنیادوں پر استوار ہوں ۔ اس کی یہ خصوصیت اسے دیگر سیکولر جمہوری حکومتوں سے جد ا کرتی ہے چونکہ وہ حکومتیں ، " دین و سیاست میں جدائی "  کے نظریہ پر استوار ہیں، اس حکومت کے سائے میں جو لوگ اپنے دنیوی کاموں میں مصروف ہیں وہ در حقیقت الٰہی کاموں میں مصروف ہیں ۔ وہ افراد جو اسلامی معاشرے کے مفاد میں ، اس نظام کی مضبوطی کی خاطر ، اس نظام کے اہداف و مقاصد کی راہ میں مصروف عمل ہیں وہ درحقیقت خدا وند متعال کے لئیے کام کر رہے ہیں ۔ اس بات کی بہت زیادہ اہمیت ہے ؛ یہ ایک نیا نسخہ ہے جسے انبیاء کرام علیہم السّلام اور صدر اسلام کے بعد دنیا نے  آج  تک نہیں دیکھا ۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے ، اس کے دشمن بھی پائے جاتے ہیں ۔ دنیا کی ڈکٹیٹر طاقتیں بھی اس نظام کی مخالف ہیں ؛ اقوام عالم کے حقوق کی غاصب اور  تسلّط پسند قوّتیں اس کی دشمن ہیں ؛ ہمیں ، دشمنیوں کا منتظر رہنا چاہیے ۔ البتّہ اس قوم نے ہمیشہ ہی اس بات کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان خصومتوں سے اس کے ثبات قدم پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ تیس سال سے ہمارے دشمن ، دشمنیوں میں مشغول ہیں اور ہماری قوم مزاحمت کر رہی ہے اور اس مقابلے کا نتیجہ ایرانی قوم کی حیرت انگیز پیشرفت کی صورت میں سامنے آیا ہے ، یہ ترقّی و پیشرفت اس کےبعد بھی جاری رہے گی ۔۔۔(۲) مجھے آپ کے جذبات کی قدر ہے  لیکن اس بارش میں ہم آپ کو کب تک بٹھائے رکھیں ؟۔۔۔(۳)البتہ یہ آپ کا لطف و عنایت ہے ؛ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ۔ لیکن میں یہاں چھت کے نیچے بیٹھا ہوں اور آپ بارش میں بھیگ رہے ہیں ؛ یہ چیز مجھ پر بہت گراں گزر رہی ہے ۔

میں صرف چند جملے عرض کرنا چاہتا ہوں ،  میں اس وقت اپنے ملک کے تمام عوام ، بالخصوص جوانوں اور اس حساس خطے کے عوام سے مخاطب ہوں ۔ اے عزیز جوانو! اپنی بصیرت میں اضافہ اور اس میں مزید گہرائی پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرو ،اور دشمنوں  کو ہماری  بے بصیرتی سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دو ، انہیں ہمارے دوستوں کی صورت میں ظاہر ہونے کا موقع نہ دو۔ حق کو باطل اور باطل کو حق کے لباس میں نمودار نہ ہونے دو ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام اپنے ایک خطبے میں معاشرے کی سب سے بڑی مشکل اسی چیز کو شمار کرتے ہیں: '' انّما بدء الوقوع الفتن اھواء تتبع واحکام تبتدع یخالف فیھا کتاب اللہ " ؛  (۴)آپ اسی خطبے میں مزید فرماتے ہیں کہ اگر حق ، واضح و آشکار طور پر لوگوں کے سامنے ظاہر ہو تو کسی میں بھی جرات نہیں ہو سکتی کہ وہ اس کے خلاف اپنی زبان کھولے ۔ اسی طرح اگر باطل بھی اپنے آپ کو واضح و آشکار کرے تو لوگ اس کی طرف نہیں جائیں گے

ولٰکن یوخذ من ھذا ضغث ومن ھذا ضغث فیمزجان " ؛ وہ افراد جو عوام کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں وہ حق و باطل کو اس کی اصلی شکل میں پیش نہیں کرتے بلکہ دونوں کو ایک دوسرے میں مخلوط کر کے پیش کرتے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ" فھنالک یستولی الشّیطان علیٰ اولیاءہ '' حق کے حامیوں کے لئیے بھی حق ، مشتبہ ہو جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بصیرت ہمارا اوّلین فریضہ ہے ۔ ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دینا چاہیے کہ حق و باطل آپس میں مخلوط ہو جائیں ۔

عصر حاضر میں جمہوری اسلامی (جو کہ اس وقت دنیا میں اسلام طلبی کا مظہر ہے )کے نظام کے مد مقابل کئی دشمن صف آراء ہیں ، عالمی سامراج اور صیہونزم ، ان دشمنوں کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں  ، یہ اسلام کے کھلم کھلا جانی دشمن ہیں ؛ پس  یہ جمہوری اسلامی کے بھی جانی دشمن ہیں، یہ ایک معیار ہے ۔ اگر ہماری کسی حرکت کی وجہ سے ان کو فائدہ پہنچ رہا ہو تو ہمیں فورا سجھ لینا چاہیے ، اگر ہم غافل ہیں تو ہوش میں آنا چاہیے کہ ہم غلط راستے پر چل رہے ہیں ۔ لیکن اگر ہمارے کسی فعل سے ہمارے دشمن طیش میں آجائیں تو سمجھ لیجئیے کہ یہی راستہ صحیح ہے ۔دشمن ، ایرانی قوم کی پیشرفت سے غصے میں آتے ہیں ، ہماری کامیابیوں پر برہم ہوتے ہیں ، اسلامی نظام کے استحکام سے طیش میں آتے ہیں ۔ آپ ملاحظہ کیجئیے کہ ہمارے دشمنوں کو کون سی چیز طیش میں لاتی ہے ، وہی صحیح لکیر ہے ، اور جو چیز انہیں وجد و سرور میں لاتی ہو ، اور وہ اس پر زور دے رہے ہوں ، اس کی رٹ لگائے ہوں ، اپنے پروپیگنڈوں اور سیاسی پالیسیوں میں بڑھ چڑھ کر اس کا پرچار کریں تو سمجھ لیجئیے کہ یہ غلط راستہ ہے یہ ٹیڑھی لکیر ہے ۔ ان معیاروں کو ملحوظ نظر رکھئیے ۔ان کی بدولت حقائق واضح و آشکار ہوجائیں گے ۔ جہاں کہیں بھی شک و شبہ کی فضا پیدا ہو ، ان معیاروں کے ذریعہ اسے بر طرف کیا جاسکتا ہے ۔

ہمیں پروردگار عالم پر بھروسہ رکھنا چاہیے ، اس پر اعتماد کرنا چاہیے ؛ اس کے بارے میں نیک گمان رکھنا چاہیے ؛ پروردگار عالم نے وعدہ کیا ہے : " ولینصرنّ اللہ من ینصرہ " جو لوگ نصرت دین کی راہ میں چلتے ہیں خدا ان کاناصر و مددگار ہے ۔ جی ہاں ! اگر ہم دین خدا کے طرفدار تو ہوں لیکن اپنے گھر کے کسی کونے میں خاموشی سے بیٹھے رہیں اور اس سلسلے میں کوئی قدم نہ اٹھائیں تو ایسی صورت میں ، ہمیں نصرت الٰہی نصیب نہیں ہو گی ؛ لیکن جب ہم راہ خدا میں قدم اٹھائیں گے تو یقینا پروردگار عالم ہماری مدد فرمائے گا ۔ عین ممکن ہے کہ ہمیں اس راہ میں کچھ قیمت بھی ادا کرنی پڑی مگر نصرت الٰہی حتمی اور یقینی ہے ۔ جیسا کہ انقلاب کے آغازسے لے کر آج تک ایرانی قوم کو مختلف معرکوں میں فتح و نصرت نصیب ہوئی ہے ۔ یہ سب نصرت الٰہی کا نتیجہ ہی تو ہے ۔ آٹھ سالہ جنگ کے دوران ، دنیا کی تمام نامی گرامی طاقتیں ہمارے دشمن کی پشت پر تھیں اورہم سے لڑ رہی تھیں ؛ امریکہ نے اس کی مدد کی ، سوویت یونین نے اس کا تعاون کیا ، بے انصاف پڑوسیوں نے اسے سہارا دیا ؛ پیسہ دیا ، جنگی ساز وسامان فراہم کیا ، یہ سب مل کے جمہوری اسلامی کے مد مقابل صف آراء ہوئے ، ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس ملک کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ دیں ، صوبہ خوزستان کو اس سرزمین سے علیٰحدہ کر دیں ، اور اس سرزمین پر قابض ہو جائیں ، وہ اس کے ذریعہ ، اسلامی نظام پر نا اہلیّت کا لیبل چپکانا چاہتے تھے ، اسے اقتدار سے محروم کرنا چاہتے تھے ؛ لیکن پروردگار عالم نے ان کے منہ پر طمانچہ مارا اور ایرانی قوم نے اپنے صبر ، استقامت اور بصیرت کے ذریعہ ، دشمن کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ جب تک ہم راہ خدا پر چل رہے ہیں یہ توفیق ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے گی ۔

پروردگارا! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ ، آج جس طریقے سے ان لوگوں پر بارش برس رہی ہے ، اسی طریقے سے ہم سب پر اپنی رحمت اور فضل و کرم کو ناز ل فرما ۔پروردگارا ! ہمیں اسلام و قرآن کے ساتھ زندہ رکھ، خداوندا! ایرانی قوم کی عزت و اقتدار میں روز افزوں اضافہ فرما ۔ خداوندا! جو شخص بھی اس قوم کا درد رکھتا ہے ، اس کے لئیے کام کرتا ہے ، اس کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے ، اپنی رحمت و عنایت کو اس کے شامل حال قرار دے ۔ خداوندا! جو لوگ اس قوم کا برا چاہتےہیں ، اسے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ، اس کی صفوں میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہیں ، انہیں اپنے لطف و کرم سے محروم فرما ۔ خداوندا! ہمیں اپنے نیک بندوں اور اسلام کے  حقیقی سپاہیوں میں قرار دے ۔ امام زمانہ (عج) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرما ؛ امام امت(رہ)  اور شہداء کرام کی پاک روحوں کو ہم سے راضی فرما ۔

                                          والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

-------------------------------------------------------------------

(۱) سورہ یوسف : آیت ۱۰۸

(۲) حضار کا نعرہ : ای رہبر آزادہ             آمادہ ایم آمادہ

(۳) ۔۔۔۔۔۔۔ : باران رحمت آمد              رہبر ما خوش آمد

(۴) نہج البلاغہ : خطبہ ۵۰

(۵) سورہ حج : آیت  ۴۰