ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا گارڈین کونسل اورالیکشن منعقد کرانے والے اہلکاروں سے خطاب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

میں سب سے پہلے معذرت چاہتاہوں کہ میری آواز بیٹھی ہوئی ہےاوراسی حال میں  آپ سے گفتگوکررہا ہوں ۔دوتین دن سے میری طبیعت خراب چل رہی ہے جس کی وجہ سے میری آواز بیٹھی ہوئی ہے۔ ذرا تحمل سے سنیں۔

یہاں موجود  صدارتی امیدواروں  کے حق میں  الیکشن مہم چلانے والے حضرات اورمتعلقہ سرکاری اداروں کے نمائندوں سے میں سب سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتاہوں بعض دوسرے ممالک کے برخلاف ہمارے ملک میں الیکشن  قومی اتحاد اوروقارکی علامت ہوتاہے اس لئے جو بھی شخص ووٹ دینے پولنگ بوتھ آتا ہےوہ درحقیقت اسلامی جمہوری نظام کوایک بارپھرسے ووٹ دیتاہے۔لہٰذا آپ نے دیکھا ہوگا کہ ملکی حکام اورمیں نے  ہمیشہ الیکشن میں لوگوں کی زیادہ تعداد میں شمولیت پرزوردیا ہے  ۔لوگوں کو ووٹ دینے کی تشویق وترغیب دلاتے رہے ہیں اورلوگ بھی ہوشیاری وسمجھداری سے حساس مواقع پر میدان میں پہنچ جاتے رہے ہیں ۔جب جب دنیا بھرمیں مخالفوں اوردشمنوں کے سامنے ایک متحد اوربااثرآواز کی  ضرورت پیش آئی ہے لوگ پولنگ بوتھوں پر ٹوٹ پڑے ہیں اورووٹ دیتے رہے ہیں۔میں الیکشن کے بعد کے مبارکباد کے پیغام میں کئی باریہ لفظ استعمال کرتارہاہوں ''عقلمند اوروقت شناس عوام''۔اس باربھی یہی لفظ دہرارہاہوں ۔اس سے قبل بھی یہ لفظ دہراتارہاہوں ۔وجہ یہ ہے کہ عوام کی پولنگ بوتھوں پرحاضری ہمیشہ سے ہی عملی میدان میں ان کی موجودگی ،سمجھداری اوراسلامی جمہوری نظام کے حق میں ووٹ دینے کے مترادف سمجھی جاتی رہی ہے۔لہٰذا اس لحاظ سے ہمارےانتخابات ہمیشہ قومی اتحاداوروقارکی علامت سمجھے جاتے رہے ہیں۔

ہمیں یہ دھیان رکھنا ہوگاکہ انتخابات  اختلاف اورپھوٹ کا سبب نہ بنیں ہمارااصل مدعایہ ہے۔میری نظرمیں یہ کہنا بہت بڑی غلطی ہےکہ چوبیس ملین (دوکروڑچالیس لاکھ)عوام ایک طرف ہے اورچودہ ملین(ایک کروڑچالیس لاکھ) ایک طرف ۔جی نہیں سب ایک طرف ہیں ۔جن لوگوں نے موجودہ صدر کے حق میں ووٹ دیا ہے وہ اتنے ہی ملک اورانقلاب کے وفادارہیں جتنے کہ وہ  جنہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔عوام اسی ملک کے فرزند ہیں ،اسی قوم کے سپوت ہیں ۔یہ بالکل غلط ہے کہ ہم الگ الگ امیدواروں کوووٹ دینے والے الگ الگ عوامی حلقوں کوایک دوسرے کا مخالف فرض کرلیں ۔جی نہیں بات صرف اتنی ہے کہ ایک معاملہ میں ان کا مذاق ایک ہی جیسا نہیں ہے لیکن اصلی معاملہ میں ،نظام پریقین رکھنے میں،اسلامی جمہوریہ کا ساتھ دینے میں یہ سب ایک ہیں۔ ہمیں اب چالیس ملین عوام کا ووٹ مد نظررکھنا چاہئے۔یہ ضروری ہے۔

میرا ماننا ہے کہ اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس قومی یکجہتی اور  اسلامی نظام کی اس کھلی حمایت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے یہ بہت اہم بات ہے۔اِس وقت اسلامی نظام یہ عملی طورپرثابت کررہا ہے کہ حقیقی جمہوریت یہیں پر ہے۔لوگ بیٹھ کر مختلف امیدوارں کی گفتگو سنتے ہیں اورپھران آخری دس پندرہ دنوں میں رات میں سڑکوں پرآکراپنے اپنے امیدوارکے حق میں نعرے لگاتے اوراس کی حمایت کرتے ہیں، حالیہ انتخابات میں تہران سمیت دیگراضلاع میں بھی یہی صورتحال رہی ہے، لیکن ان کے درمیان کسی طرح کی کوئی لڑائی جھگڑانہیں ہوتاہمیں اس پرفخرکرنا چاہیے۔یہ بہت اہم بات ہے۔ہمارے عوام ایسے ہیں ۔پسند اپنی اپنی ہے ،نظریات اپنے اپنے ہیں ،امیدواراپنا اپنا ہے لیکن ایک دوسرے کے ساتھ تعاون بھی کرتےہیں ۔انجینئر موسوی صاحب بتارہے تھے کہ وہ ایک روڈ پر گئے توایک گاڑی ان کی گاڑی کے ساتھ ساتھ چلنے لگی اوراس میں بیٹھے لوگ میرے خلاف بنایاہوا نعرہ ہنس ہنس کے لگانے لگے۔موسوی صاحب بتارہے تھے کہ میں بھی ہنسنے لگا اوران کی طرف ہاتھ ہلا کے آگے بڑھ گیا۔ایسا ماحول بہت اچھاہے۔اب جب الیکشن ہوگئے ہیں تو یہ ماحول اختلاف اورتصادم میں نہیں بدلنا چاہئے۔کچھ لوگ یہی کرنا چاہتے ہیں، معاشرہ  میں یہی کیفیت بنانا چاہتے ہیں لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ایک امید وارکی حمایت میں  کسی جگہ اکٹھا ہونے والے لوگ اوردوسری جگہ دوسرے امیدوارکے حق میں اکٹھا ہونے والے لوگ دونوں ایرانی قوم کا حصہ ہیں عوامی حلقے ہیں  ہمیں دونوں کواس نظرسے دیکھنا چاہیے۔ان کے اپنے اپنے ووٹ ہیں کچھ نے ایک امیدوارکوووٹ دیئے کچھ نے دوسرے امیدوارکو۔اب جمہوریت کا قاعدہ ہے کہ اکثریت اقلیت پرعملی میدان میں فوقیت رکھتی ہے  یعنی جسے اکثریت کا ووٹ ملا ہے عہدہ اسی کو ملے گا یہ جمہوریت کا اصول ہے اس کا مطلب دشمنی اورٹکراؤ نہیں ہوتا۔ یہ کسی ایک امیدوار، کسی ایک انتخابی مرکز یا کسی ایک حلقہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دشمنی اورکدورت پھیلانے والوں سے مقابلہ کرنا ہرایک کا فرض ہے۔جیسا کہ آپ حضرات نے ذکرکیا ممکن ہے کسی انتخابی ادارہ کی کارکردگی پراعتراض ہو، اس کی کوئی لاپرواہی ریکارڈ کی گئی ہوتو اس کے لئے قانونی راستےہیں ۔اس طرح کے تمام معاملات کی تحقیق کی جانی چاہیے۔کچھ چیزیں ابھی بیان ہوئی ہیں  میں وزارت داخلہ نیز نگراں کونسل کے متعلقہ حکام  سے درخواست کرتاہوں کہ ان شکایات  کا جائزہ لیا جائے۔اگربعض شکایات کے ازالہ کے لئے کچھ بیلٹ بکس کھول کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی ضرورت پیش آتی ہے تو کوئی حرج نہیں دوبارہ گنتی کرلیجئے۔ابھی جیسا کہ بعض حضرات نے تذکرہ کیا کہ فلاں شخص نے کہا تھا کہ فلاں امیدوارکے اتنے ووٹ ہیں لیکن جب گنتی ہوئی تو کم نکلے توکوئی بات نہیں جہاں جہاں کے بیلٹ بکسوں پرشک ظاہرکیا جارہا ہے یا کوئی چند ایک بکس جوسامنے آجائیں اٹھا کے گن لیجئے اورگنتے وقت  جملہ امیدواروں کےانتخابی نمائندے بھی موجود رہیں ۔ان کے سامنے ہیں گنتی ہو تاکہ انہیں مکمل اطمینان ہوجائے۔سابقہ انتخابات کے وقت بھی آپ سب سرکاری عہدوں پرفائز رہے ہیں میرا طریقہ ٔکارجانتے ہیں میں نےان انتخابات میں بھی سابقہ انتخابات کی مانند حکام ؛وزارت داخلہ اورنگراں کونسل پربھروسہ کیا ہےجبکہ آپ جانتے ہیں کہ مختلف ادوارمیں الگ الگ مزاج کے حکام آتے رہے ہیں لیکن میں جس عہدہ دارکوپہچانتا ہوں ،اس کے کام کرنے کا طریقہ جانتا ہوں اس پربھروسہ کرتاہوں  اس باربھی ایسا ہی ہے۔مجھےانتظامیہ پر بھروسہ ہے  لیکن بھروسہ اوراعتماد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر کسی کے ذہن میں کوئی شک ہے تواسے دورنہ کیا جائے ،شکایات کا جائزہ لے کرحقیقت سامنے نہ لائی جائے۔البتہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سب لوگ کوشش کرکے قومی یکجہتی اورملکی اتحادکی حفاظت کیجئے ہرشخص پراپنے اپنے لحاظ سے ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

انتخابات ہمارے لئے قابل فخرہیں ۔چارکروڑووٹ کوئی مذاق نہیں ہےاب تک کی سب بڑی تعداد ہے۔اس سے پہلے بھی قابل توجہ تعداد رہتی رہی ہے لیکن اس مرتبہ سب سے زیادہ لوگوں نے ووٹنگ میں حصہ لیا ہے۔یہ بہت بڑی بات ہے۔تیس سال بعدعوام اتنی بڑی تعداد میں اتنے ذوق وشوق سے اسلامی جمہوری نظام سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہیں کہ پولنگ کے دن صبح ہی غیرملکی میڈیارپورٹنگ کرنے لگا(میں خبریں دیکھ رہا تھا) کہ اس سال غیرمعمولی تعداد میں لوگ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں ۔ساری خبررساں ایجنسیوں نے یہی رپورٹ دی۔جولوگ ووٹ دینے کے بعد آکے ہم سے بتاتے رہے ان کے علاوہ بعض غیرملکی چینلز نے بھی یہی کہا کہ اس مرتبہ بڑی تعداد میں اورکافی زوروشورسے عوام الیکشن میں شمولیت کر رہے ہیں ۔بعض چینلز نے ووٹ ڈالنےکے منتظرلوگوں کی لمبی لمبی قطاریں بھی دکھائیں ۔یہ ہمارے لئے مقام فخرہے اسے ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔یہ عوام کی چیز ہے۔ووٹ لوگوں نے کسی کو بھی دیا ہو چاہے جیتنے والے امیدوار کویا دوسرے کسی کو جو کامیاب نہیں ہوسکے جن کی تعداد کل ملا کے تقریباًایک کروڑچالیس لاکھ ہوتی ہے اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دینے میں سبھی شریک ہیں ۔ہمیں یہ اتحاداوریہ وسعت نظرعوام سے نہیں چھینناچاہیے۔اس میں سبھی شریک ہیں جس نے ڈاکٹراحمدی نژاد صاحب کوووٹ دیا وہ بھی شریک ہے،جس نے انجینئر موسوی صاحب کو ووٹ دیا وہ بھی شریک ہے،جس نے کروبی صاحب یا رضائی صاحب کوووٹ دیا وہ بھی  شریک ہے۔اس عظیم کارنامہ میں سبھی شریک ہیں ۔ملک ان کا احسان مند ہے، اسلامی نظام الیکشن میں عوام کی اس بھاری شرکت کا احسان مند ہے۔لوگوں نے اس شرکت کے ذریعہ اپنے نظام اوراپنے انقلاب کا دفاع کیا ہےاوراتنا بڑاقدم اٹھایا ہے۔ہمیں اس نظرسے دیکھنا چاہئے۔

لیکن فریقین کو بھی کچھ باتوں کا خیال رکھنا چاہئے،میرایہ ماننا ہے،جسے اکثریت حاصل ہوئی ہے وہ بھی کچھ باتوں کا خیال رکھیں،اپنی رفتاروگفتارکاخیال رکھیں  اورجنہیں اکثریت نہیں ملی انہیں بھی کچھ باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔سب کے اندرحلم ہونا چاہئے۔اسلامی حلم کو ہم بردباری کہتے ہیں ۔بردباری کا مطلب تحمل اوربرداشت کی طاقت ہے۔سب میں برداشت کی طاقت ہونی چاہئےاورتحمل سے کام لینا چاہئے۔کامیابی برداشت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اوراسی طرح ناکامی برداشت کرلینا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔صاحب حلم ہونا،تحمل سے کام لینااورکامیابی وناکامی برداشت کرنے کی صلاحیت رکھناانسانی فضائل ہیں ۔ہمیں یہ فضائل وکمالات خواص وعوام دونوں میں ایجاد کرنے چاہئیں ۔

البتہ جیسے آپ کو کوئی شک وشبہ نہیں ایسے مجھے بھی کوئی شک وشبہ نہیں  ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں یہ اتحاد کھٹک رہا ہے۔اورپھر ایسے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں جن کا تعلق نہ اس گروہ سے نہ اُس گروہ سے۔بلکہ یہ ان کا کام ہے جویہ یکجہتی، یہ اتحاداوریہ ایسا کارنامہ نہیں چاہتے ہیں ۔ میں اگرزندگی رہی اورموقع ملا تو اس پرجمعہ کومزید روشنی ڈالوں گا۔کچھ لوگ آپ کی کامیابیاں نہیں دیکھنا چاہتے۔اس مرحلہ پربھی آپ کامیاب وکامران ہوگئے ہیں ۔اس لحاظ سے آپ سب کامیاب ہوئےہیں کہ آپ نے  اپنے پسندیدہ نظام حکومت کومستحکم کیا ہے۔عوام سب کے سب کامیاب ہیں اس لئے کہ سب نے مل کے اپنی عظمت ووقار کا مظاہرہ کیا ہے۔کچھ لوگ یہی نہیں چاہتے،ان کی طبیعت ہی تخریب کاری ہے۔گڑبڑپھیلاتے ہیں اِن کی بات ادھرپہنچاتے اوراُدھر کی ادھر اوربات بھی صحیح نہیں ہوتی۔میرے پاس چونکہ کئی ذرائع سے خبریں آتی ہیں لہٰذامجھے پتہ ہے کہ اِدھروالے اُدھر والوں کے خلاف کچھ ایسی باتیں کہتے ہیں جن میں سچائی نہیں ہوتی اوراسی طرح اُدھر والے بھی اِدھروالوں کے خلاف کچھ ایسی باتیں کرتے ہیں جوحقیقت سے دورہوتی ہیں۔طے ہے کہ بیچ میں کچھ ایسے افراد ہیں جوملک میں اتحاد ویکجہتی نہیں ہونے دینا چاہتے۔یہ توبراہے ہی،  لیکن اس سے بھی بری بات وہ ہےجو آپ دیکھ رہے ہیں،جو آج کل ہورہا ہے۔سب کوان تخریبی کاروائیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا چاہیے ،اپنا موقف واضح کرنا چاہیے۔سب کومذمت کرنی چاہیے۔یہ جوتخریبی کاروائیاں  ہورہی ہیں ،یہ جوغلط اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ، یہ کہیں کہیں جوجرائم ہورہے ہیں یہ دونوں طرف والوں میں سے کسی کا کام نہیں ہے ،نہ یہ کام عوام کررہے ہیں ،یہ الیکشن  میں کھڑے ہونے والوں کا کام نہیں ہے یہ تخریب کاروں اوربلوائیوں کا کام ہے۔کسی کو یہ گمان بھی نہیں کرنا چاہیے کہ یہ فلاں کے طرفدارکررہےہیں  یہ ان کا کام ہے۔جی نہیں !یہ ویسے ہی لوگ ہیں جیسے لوگ مسلمانوں میں مسلکی نفرتیں پھیلاتے ہیں ہم مستقل کہتے رہے ہیں کہ یہ نہ شیعہ ہیں اورنہ سنی ۔شیعہ کو سنی کے خلاف اورسنی کوشیعہ کے خلاف بھڑکاتے ہیں ۔ہمارے وسیع معاشرہ کی صورتحال بھی یہی ہے ۔وہ لوگ جو ایک طرف والوں کو دوسری طرف والوں کے خلاف بھڑکاتے  اوربظاہر کسی ایک  کی طرفداری میں بلوہ  کھڑا کرتے ہیں یہ کسی کے حامی نہیں ہیں نہ اس  طرف کے نہ اُس طرف کے۔یہ نظام کے مخالف ہیں ،ملکی سلامتی کے مخالف ہیں ،انہیں کشیدگی چاہیے،بلوہ چاہیے ،یہ ملک میں امن وسلامتی نہیں دیکھنا چاہتے۔جیت کسی کی بھی ہوتی،انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوتے، میں اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ تب بھی یہی صورتحال پیش آتی ا س لئے کہ اس کے پیچھے وہ لوگ ہیں جوملک میں امن وسلامتی نہیں چاہتے۔انہیں ملک کی امن وسلامتی برباد کرنا ہےیہی ان کا مقصد ہے۔فساد کی اس آگ میں کسی کوبھی تعاون نہیں دینا چاہیے۔سب کو اس کے خلاف واضح موقف اختیارکرنا چاہیے۔چونکہ آپ  کااصلی موقف یہ نہیں ہے۔لہٰذاواضح مؤقف اختیارکیجئے اورواضح کیجئے یہ آپ کا مقصد نہیں ہے۔اورخود بھی کوئی ایسا قدم مت اٹھائیے جس سے کشیدگی پیداہو۔یعنی ایک دوسرے کو مشتعل نہ کیجئے۔مناسب معلوم ہوتاہےکہ میں یہاں پران لوگوں سے بھی عرض کردوں کہ جوآپ برادران عزیز میں شامل نہیں ہیں ۔اگرمیری یہ گفتگو نشرہوئی تومیں یہ عام لوگوں  سے کہہ رہا ہوں کہ دونوں پارٹیوں کے حامی ایک دوسرے کو اشتعال نہ دلائیں جس شخص کا پسندیدہ امیدوارجیت گیا ہےوہ بھی ایسی کوئی با ت نہ کہے اورنہ ہی کوئی ایسی حرکت کرے جس سےدوسرے کےدل کوچوٹ پہنچے، دوسرے کوتکلیف ہو۔اورجس کا پسندیدہ امیدوارنہیں جیت پایا وہ بھی کوئی ایسی بات یا کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس سے مد مقابل میں اشتعال پیداہو۔جی نہیں ۔آپ ایک ہی سمت میں چل رہے ہیں اوروہ ہےالیکشن میں شمولیت اوراسلامی نظام حکومت کی حمایت۔اصل معاملہ یہ ہے۔اسی سے حضرت ولی عصر(عج) کا دل خوش  ہوگا۔اسی سے ہمارے ملک پررحمت الٰہی کی بارش ہوگی۔میری نظرمیں صحیح راستہ یہی ہے۔

خدا کی مدد کی امید ہے میں نے یہ باتیں آپ سے عرض کرنا ضروری سمجھیں جوعرض کردیں ۔جیسا کہ میں نے عرض کیا میں آپ سب یا آپ کی اکثریت کواچھی طرح جانتاہوں ۔آپ کا ماضی میرے سامنے ہے لہٰذا مجھے لگا کہ آپ سے اس طرح سے گفتگو کی جائے تو بہتررہے گااوریہی ضروری بھی تھا اورمیری ذمہ داری بھی ۔میں سمجھتاہوں کہ اس وقت ملک وقوم کےاجتماعی تشخص کی حفاظت ہم سب کا فرض ہے۔ہمارے عظیم عوام نے اِس سنگین امانت کا بوجھ اپنے کندھوں پراٹھا رکھا ہے۔گذشتہ تیس سالوں سے شجاعانہ طریقہ سے اپنی راہ پرقائم ہے ۔اس سلسلہ کوختم ہونے سے بچائیے،لوگوں میں ٹکراؤ اورکشیدگی نہ ہونے دیجئے۔آپ میں سے ہرایک کسی نہ کسی انداز سے یہ کام انجام دے گا۔دعاہے کہ خداآپ کی مددکرے،آپ کی راہنمائی کرے،ہم سب کی راہنمائی کرے تاکہ ہم سب اس اہم ذمہ داری کو احسن طریقہ سے نبھا سکیں ۔

والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ