ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا امام خمینی (رہ) کی بیسویں برسی پرقوم سےخطاب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ سیدنا ونبیناابی القاسم المصطفیٰ محمدوعلیٰ آلہ الاطیبین الاطھرین المنتخبین سیمابقیۃ اللہ فی العالمین۔

چھ جون اس امت کے عظیم الشان باپ کے انتقال کی یا د دلاتاہے۔ میں آپ تمام حاضرین کرام،عظیم ایرانی قوم اوردنیا بھرکے حریت پسندوں کوتعزیت وتسلیت پیش کرتاہوں اورامید کرتاہوں کہ خداوند کریم کی توفیق سے ہم اسلامی تاریخ کی اس عظیم ہستی  کی یاد منا کے اپنی تحریک، ایرانی قوم کی  تحریک اورامت مسلمہ کی تحریک  کے لئے زادراہ حاصل کرلیں گے۔امام خمینی(رہ) کے طریقہ ٔکاراوراہداف ومقاصد کے سلسلہ میں ایک بات عرض کرنا چاہوں گا اوروہ یہ ہے کہ امام(رہ)  نے جتنی نصیحتیں فرمائي ہیں،جتنے نعرے بلند کئے ہیں ،عوام ،حکام اورمسلمانان عالم سے جومطالبے کئے ہیں ان سب کوملا کردیکھا جائے تو ہمیں امام خمینی(رہ)  دوچیزوں کے علمبردارنظرآتےہیں۔درحقیقت ہمارے ملک اورعالم اسلام میں اپنے ذریعہ چلائی گئی تحریک میں امام خمینی(رہ)  دوچیزوں کی علمبرداری کررہے تھے؛ایک احیائے اسلام یعنی اس عظیم اورلامتناہی طاقت کوعملی میدان میں لانا اوردوسرےایران اورایرانی قوم کی سربلندی۔ہمارے عظیم امام (رہ) نے اپنے مضبوط ہاتھوں سے ان دو چیزوں کی علمبرداری فرمائی ہے۔پہلی چیز توعلام اسلا م کی سطح پرشروع کی گئی امام (رہ) کی دعوت اورتحریک کا ایک حصہ تھا۔دوسری چیز اگرچہ بظاہرایرانی قوم سے تعلق رکھتی ہے ،ایران اورایرانی سے متعلق ہے لیکن  چونکہ حیات بخش اسلامی تحرک  کا عملی تجربہ اورنمونہ ہے لہٰذا پوری امت مسلمہ کے لئے خوش آئند اوربیدارکن ہے یہ چونکہ ایران میں اسلامی بیداری اوراسلام کوعملی شکل دینے کی تحریک تھی لہٰذا اگرچہ براہ راست ایران اورایرانیوں سے متعلق ہے لیکن  نتیجہ اورانجام کے لحاظ سے پوری امت مسلمہ کے لئے اہمیت کی حامل ہے۔میں ان دونوں سےمتعلق مختصراًچند باتیں عرض کروں گا۔ 

احیائے اسلام کی تحریک سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی شناخت ملی ، اپنے تشخص کا احساس ہوا۔جب کہ اس وقت کئی سالوں سے اسلامی شناخت مٹانے اورکچلنے کی کوششیں ہورہی تھیں ۔لیکن جب اسلامی انقلاب آگیا ،جب مسلمانان عالم کو ہمارے عظیم امام (رہ) کے وجود کا احساس ہوا تو سب نے یہ محسوس کیا کہ انہیں ایک شناخت، تشخص اورپہچان مل گئی ہے اوراس کے نتیجہ میں عالم اسلام کے مشرق ومغرب میں اسلامی بیداری کی نشانیاں نظرآنے لگیں۔دسیوں سال ناکام رہنے کے بعد فلسطینی قوم میں جان آگئی۔عرب ممالک کے مایوس جوان جن کی حکومتیں صہیونیوں سے  تین بارشکست کھا چکی تھیں ایک بارپھرحوصلہ پاجاتے ہیں۔اس سب کا تعلق توپورے عالم اسلام سے ہے صرف ہمارے ملک سے نہیں ۔اسلامی ممالک کے لئے ناسورصہیونی حکومت اس وقت تک  خود کوناقابل شکست ظاہرکررہی تھی اوربہت سے لوگ سوچ رہے تھے کہ صہیونی حکومت کو شکست نہیں دی جا سکتی۔مسلمان جوانوں نے اس کے منہ میں طمانچہ رسید کردیا۔فلسطینی انتفاضہ شروع ہوگیا، غاصب حکومت کوباربارہزیمت اٹھانی پڑی؛کبھی پہلے انتفاضہ کی صورت میں،کبھی اقصیٰ انتفاضہ کی صورت میں،کبھی نوسال قبل لبنان سے فرار کی صورت میں ، کبھی لبنان کے ساتھ تینتیس روزہ جنگ میں اور کبھی پچھلے سال کی غزہ کی مظلوم عوام کے ساتھ بائیس روزہ جنگ میں ۔صہیونی حکومت کو بارباریہ ہزیمتیں اٹھانا پڑیں ہیں۔جب کہ جس دن اسلامی انقلاب کامیاب ہوا تھا اس وقت تک صہیونی حکومت  مسلم اقوام اورحکام بالخصوص عرب ممالک کی نگاہ میں ناقابل شکست تھی۔انقلاب کے بعد صہیونی حکومت  نیل سے فرات تک  کا نعرہ بھول گئی اورمسلم اقوام افریقہ سے مشرقی ایشیا تک اسلامی حکومت قائم کرنے کی سوچنے لگے(کسی نہ کسی شکل میں ضروری نہیں کہ وہ ہمارا ہی نظام ہرجگہ قائم کرتے۔اصل بات یہ ہے کہ ان میں اپنے ملک پر اسلام کی حاکمیت کی فکرایجاد ہوئی) بہت سارے ممالک کامیاب بھی ہوگئے ہیں اوربہت سارے اسلامی تحریکوں سے ایک خوش آئند مستقبل کی امید لگائے ہیں۔

علام اسلام کا دانشورطبقہ اب ایک نئی امید کے ساتھ میدان میں اترا۔وہی شعراء اوراہل قلم جومایوسی کی باتیں کرتے تھے، شکست کا احساس کررہے تھے اب اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، اب امام خمینی(رہ)  عظیم تحریک کے بعد، اب اس قوم کی  ثابت قدمی کے بعدان کے جذبات میں نمایاں تبدیلی آگئی ۔ان کے لب ولہجہ ،اشعاراورقلم میں تبدیلی آگئی، میں یہیں سے مسلم اقوام سے عرض کردینا چاہتا ہوں کہ آپ یہ جودیکھ رہے ہیں کہ آج  آپ کے سلسلہ میں مغربی دنیا کے لہجہ میں نرمی آئی ہے تواس کا سبب عالم اسلام میں آئی بیداری اورثابت قدمی  ہے۔مؤمنین کی کامیابی کا خداکاسچا وعدہ ہمیشہ سچاہے لیکن شرط یہ ہے کہ مؤمنین بھی ثابت قدمی،صبرواستقامت اورجانفشانی  کا مظاہرہ کریں۔جس قدرثابت قدمی سامنے آئی ہے صورتحال بدل گئی ہے ۔عالم اسلام مغربی دنیا کے مقابلہ میں اپنی تحقیرمحسوس کرنے کی صورتحا ل سے باہرآگیا ہے۔ماضی میں تسلط پسند طاقتیں اسلامی ممالک کے سلسلہ میں اپنی مرضی سے فیصلے لیتے تھےنہ مسلم عوام کا کوئی خیال ہوتا تھا اورنہ حکام کا یہاں تک کہ حکام سے پوچھتے تک نہیں تھے۔ان کے پاس اگرتیل تھا تواس کا فیصلہ وہ کرتے تھے اورکچھ برآمدات تھیں تواس کا فیصلہ بھی وہی کرتے تھے اورمسلمانوں کا کام ان کے فیصلوں کو عملی شکل دینا تھا۔عالم اسلام بیدارہوا تو یہ صورتحال کافی حد تک بدل گئی ہے۔دنیا بھر کے مسلمانوں کواپنے اس کامیاب تجربہ کو غنیمت سمجھنا اوراسی راستہ پررواں دواں رہنا چاہئے۔اقوام اپنی استقامت وپائداری سے عزت وسربلندی حاصل کرتی ہیں۔

آج توآپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ نئی امریکی حکومت ریاستہائے متحدہ کا ایک نیا چہرہ اس علاقہ کے لوگوں کو دکھانے کی کوشش کررہی ہے۔انہیں ایسا کرنابھی چاہئے ۔اس لئے سابقہ حکومت نے اِس علاقہ کی عوام کے سامنے ریاستہائے متحدہ کا ایک برّااورنفرت انگیز چہرہ پیش کیا تھا۔مشرق وسطیٰ،دیگراسلامی ممالک اورشمالی افریقہ کے لوگ دل کی گہرائیوں سے امریکہ سے نفرت کرتے ہیں ۔اس لئے کہ انہیں  سالہاسال سےاپنےعلاقہ میں امریکہ کی جانب سے تشدد، فوجی مداخلت، حقوق غصب کرنا،امتیازبرتنا ،زبردستی دخل اندازی کرنااورطاقت کے بل بوتے پران کے حقوق چھین لینا ہی نظرآیا ہےلہٰذاانہیں نفرت ہے۔بہرحال اب نئی امریکی حکومت اس صورتحال کوبدلنا چاہتی ہے،اس علاقہ میں  امریکہ اپناایک نیا چہرہ سامنے لانا چاہتا ہے تویہ کیونکرممکن ہے؟ میں صاف صاف کہنا چاہوں گا کہ یہ سب، باتوں اورنعرے لگانے سے ممکن نہیں ہے۔سابقہ حکومتوں کے اقدامات سے اس علاقہ کےعوام واقعاً رنجیدہ ہوئے ہیں، واقعاً انہیں مصائب دیکھنا پڑے ہیں اب  ان کی یہ تکلیفیں  اوردل کی نفرتیں  بیان دینے یا نعرے لگانے سے توختم نہیں ہوسکتیں۔عمل ضروری ہے۔

امریکہ نے جمہوریت کی بات کی، عوامی ووٹ کی اہمیت کی بات کی لیکن جب فلسطین کی بات آئی تو عوامی رائے کوبیکارجانا ،اس پرکوئی توجہ نہ دی ۔ یہ دیکھا کہ لوگوں کے ذہن میں کیا آئے گا؟ واضح سی بات ہے۔فلسطینی قوم کی حقوق کی بات کی جائے توآپ ملاحظہ کیجئے کہ ایک قوم کودسیوں سال سےپرتشدداورظالمانہ کاروائیوں کے ذریعہ  اپنے گھراوروطن سے بے گھر و بے وطن کررکھا ہے یہ سبھی جانتے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی تاریخ تھوڑی ہے ساٹھ سال پہلے کی بات ہے۔توفلسطینی قوم کا یہ حال کہ اپنے حقوق سے محروم مختلف ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گذارنے پرمجبوراوردوسری جانب امریکہ نے نہ صرف یہ کہ ان کے حقوق کی جانب کوئی توجہ نہیں دی ، ان  کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس غاصب صہیونیوں کی سوفیصد حمایت کی ۔اوراگرمظلوم فلسطینیوں نےاعتراض کرنا چاہا توان کے اعتراض کو غلط قدم اورہنگامہ آرائی قراردیا گیا۔اب یہ سب کیسے صحیح ہوگا؟۔

امریکہ نے اس علاقہ میں کوئی ایک دو بارتوحقوق پامال نہیں کئے ہیں خود ہمارے ملک میں دیکھ لیجئے ، ملاحظہ کرلیجئے کہ حالیہ چند برسوں میں جوہری توانائی کے  سلسلہ میں انہوں نے حقیقت کی کس قدرپردہ پوشی کی ہے، کتنا غلط بیانی سے کام لیا ہے ، کتنا جھوٹ بولا ہے۔ایک قوم نے اگراپنا جائز اورطبیعی حق اپنے بل بوتے پرحاصل کرلیا ہے تواس کی کس قدرانہوں نے مخالفت کی ہے۔ہماری قوم کہتی ہے ہم جوہری صنعت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ہم زندگی کے مختلف شعبوں میں جوہری توانائی پرامن استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایران ایٹم بم بنانا چاہتا ہے۔ کیوں جھوٹ بولتے ہو؟اس طرح کی باتیں کرکے ایرانی قوم کے اندراپنے  سلسلہ میں اورنفرت کیوں ڈال رہےہو؟ اِن چند سالوں میں یہ سب ہوا ہے ایرانی عوام اورحکام نے بارہا اعلان کیا کہ ہمیں ایٹمی ہتھیارنہیں چاہئیں ۔ہماری ضروریات اوراسلحہ جات میں یہ چیز شامل ہی نہیں ہے۔ہم نے یہ بھی اعلان کیا کہ اسلام کی نظرمیں ایٹمی ہتھیارکا استعمال ممنوع اورحرام ہے۔اوراس کی نگہداشت بھی ایک بڑا خطرہ اوردردسرہے۔ہم اس چیز کے پیچھے نہیں ہیں اورنہ یہ چاہتے ہیں ۔کوئی پیسہ بھی دے کہ یہ  کرلو، جی نہیں !ایرانی عوام اورحکام ایٹمی ہتھیارنہیںبنانا چاہتے ۔لیکن ان چند سالوں میں ہمارے مخالفوں اورمغربیوں  کا پروپگینڈہ  آپ نے دیکھا ہے یہ سب کیوں ہورہا ہے صرف اس لئے کہ اپنی باطل اورجھوٹی بات کو سچادکھادیں ۔اپنےغیرمعقول اورتکبرآمیز بیانا ت کومدلل ثابت کرسکیں لہٰذا یہ کہنےکے بجائے کہ ایران پرامن ایٹمی توانائی حاصل کرنا چاہتاہے کہہ رہے ہیں کہ ایران ایٹم بم بنانا چاہتا ہے۔یہ حقوق کی پامالی نہیں ہے؟۔

سابق امریکی حکومتوں خاص کربیوقوف سابق امریکی صدرنےدہشت گردی سے جنگ کے  نام پردواسلامی ممالک  عراق وافغانستان پرقبضہ کرلیا ۔ اس کے بعد آپ افغانستان کا حال دیکھئے  امریکی جنگی جہاز نہتے عوام پرایک دو تین دس بارنہیں بلکہ ان چند سالوں میں مسلسل بمباری کرتے اورسوڈیڑھ سو افراد کوہلاک کردیتے ہیں ۔توسوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کا کام کیا ہوتا ہے؟ یہی کام تودہشت گرد کرتے ہیں ۔فرق اتنا ہے کہ دہشت گرد  ایک ،دو، دس افراد کو ہلاک کرتے ہیں اورتم ایک ہی مرتبہ میں سو،ڈیڑھ سولوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیتے ہو۔ یہ کس قسم کی دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے؟ عراق میں ہماری مصدقہ اطلاعات کےمطابق  خودبعثی دہشت گردوں کا ساتھ دیتے اوران کے ساتھ تعاون کرتے ہیں  اوربیک وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نعرے بھی لگا رہے ہیں ان باتوں نے علاقائی اقوام کو امریکہ سے متنفرکیا ہے۔امریکی چہرے پربدنما داغ لگا دیاہے  اسے کہیں منہ دکھانے کے لائق نہیں چھوڑاہے۔اگرنئے امریکی صدراس صورتحال کو بدلنا چاہتے ہیں توان حرکتوں میں تبدیلی لائیں ۔بیانات دینے اورنعرے لگانے سے کچھ نہیں ہونے والا۔مسلم اقوام بھی یہ جانتی ہیں کہ امریکی حکمرانوں کی باتوں کی سچائی کا اس وقت پتہ چلے گا جب عملی طورپرکوئی تبدیلی سامنے آئے گی۔ لیکن عملی لحاظ سے کوئی تبدیلی سامنے نہ آئے تو ایسے یہ جتنے بھی بیان دیتے رہیں امت مسلمہ کے سلسلہ میں میٹھی میٹھی باتیں کرتے رہیں کچھ نہیں ہونے والا۔ کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔تو اسلامی بیداری ہمارے عظیم امام (رہ) کی تحریک کا پہلا حصہ تھا۔

آپ(رہ)  کی تحریک کا دوسراحصہ ایران اورایرانیوں کی عزت وسربلندی سے متعلق ہے۔اس سلسلہ میں آپ کا اہم ترین کارنامہ یہ تھا کہ آپ نے اس قوم کے اندرسے حقارت وذلت کا احساس مٹا دیا۔یہ بہت اہم بات ہے ۔ ہماری قوم گذشتہ سو، ڈیڑھ سوسال سے مختلف وجوہا ت کی بنا پراپنےآپ کو حقیراورپست سمجھ رہی تھی ۔احساس کمتری کا شکارتھی۔قاجاری دور کی جنگو ں سے شروع کیجئے وہ ناکامیاں اورایران کے  شہروں پردشمن کا قبضہ !اس کے بعد پہلوی دورآیا رضا خان جیسےقوم دشمن ڈکٹیٹرکا دورجوکسی کو سانس بھی نہیں لینے دیتا تھاپھرمحمد رضا کا دورتھا  امریکیوں کی موجودگی،سکیورٹی اداروں اورساواک کی تشکیل، لوگوں کے ساتھ  براسلوک! اس سب کے باعث لوگ سوچنے لگے کہ اب ان میں کوئی طاقت نہیں بچی ہے۔چند اہم مقامات پرعوام کوشکست ہوئی ۔آئینی تحریک میں عوام کامیاب ہونے کے بعد ناکام ہوگئے  پھرقومی تحریک میں ایرانی قوم نے بہت بڑا قدم اٹھایا لیکن تحریک کے ذمہ داران اسے سنبھال نہ پائے  اورقوم پھرناکام ہوگئی ۔ اس کے بعد ۱۹۵۴ء سے ۱۹۷۸ ء تک یعنی چوبیس سال تک لوگوں پرسخت ڈکٹیٹرشپ رہی اور اس کے بعد تو واقعاً ان کے حوصلے جواب دے گئے تھے۔

دوسری جانب  حکومتی اداروں میں تعینات مغرب زدہ دانشوروں نے اپنی تقریروتحریرسےلوگوں کو یہ تلقین کردی تھی کہ تمہاری کوئی اوقات نہیں ہے۔تم کچھ نہیں کرسکتے۔تمہیں دوسروں کے پیچھے پیچھے چلنا ہوگا۔سائنس میں تقلید کرو، ٹیکنالوجی میں ان کی تقلید کرو، انہیں کی تہذیب اپناؤ، انہیں جیسا لباس پہنو،انہیں کی طرح کی کھاؤ، انہیں کی طرح بولو۔اورحد ہوگئی ایک بارتویہاں تک کہنے لگے کہ فارسی رسم الخط کوبدل دیاجائےآپ اندازہ لگائیے کہ وہ قوم اپنی آزادی اورعزت نفس کس قدرکھوچکی ہوگی جس سے یہ کہا جارہا ہےکہ تم اپنا رسم الخط بدل لوجس فارسی رسم الخط میں ہزارہا سال کا ہمارا ثقافتی ورثہ  لکھا گیا ہے اسے بدل کے اس کی جگہ لاطینی ویورپی رسم الخط میں لکھا جائے۔بات یہاں تک پہونچ چکی تھی۔امام (رہ)نے اس احساس کمتری کا خاتمہ کیا انقلاب کی کامیابی تک کی اپنی پندرہ سالہ تحریک اورانقلاب کی کامیابی کے بعداپنی بابرکت  عمرکے آخری دس سالوں میں مستقل اس قوم میں خوداعتمادی کی روح پھونکتے رہے۔تم کرسکتے ہو، ہم کرسکتے ہیں ۔تم میں صلاحیت ہے،تم عظیم ہو،تم طاقتورہو۔

اپنے اوپریقین اورخوداعتمادی کسی بھی ملک کی ترقی کے دوبنیادی ارکان میں سے ایک ہے۔ایک رکن مادی وسائل ہیں لیکن مادی وسائل کافی نہیں ہیں۔ ممکن ہے کسی قوم کے پاس مادی وسائل کی کمی نہ ہو لیکن اس کے باوجود ترقی نہ کرپارہی ہو، عزت وسربلندی حاصل نہ کرپارہی ہو۔انقلاب سے پہلے بھی ہمارے پاس یہی تیل تھا، یہی گیس تھی، یہی قیمتی دھاتیں تھیں ، یہی درخشاں صلاحیتیں بھی تھیں ، یہی افرادی طاقت بھی تھی۔ لیکن اس سب کے باوجودایک تیسرے درجہ کی  گمنام اوربڑی طاقتوں کے ہاتھوں پٹی  قوم کے بطوردشمن کی پٹھو اوربدعنوان حکومت  کے تحت جی رہے تھے۔لہٰذا مادی وسائل کافی نہیں ہیں دوسری چیزیں بھی ضروری ہیں اوران میں سب سے اہم یہی اپنے اوپربھروسہ یا خوداعتمادی ہےیہ یقین رکھنا ہے کہ قوم میں صلاحیت ہے وہ جوچاہے کرسکتی ہے۔امام (رہ)نے ہماری قوم کو یہ یقین دلادیا کہ وہ اٹھ کھڑی ہوسکتی ہے، مزاحمت کرسکتی ہے، اپنے ملک کو آزاد کراسکتی ہے، اپنے قائم کردہ نظام حکومت کی خود ہی حفاظت بھی کرسکتی ہے، عالمی سطح پر، بین الاقوامی سیاست میں مؤثرواقع ہوسکتی ہے۔اورایسا ہی ہوا بھی ۔قومی وقاراسی کو کہتے ہیں اس پرمیں نے بیس دن پہلے سنندج میں کرد بھائیوں کے درمیان گفتگو کی تھی۔کسی ملک کے لئے قومی وقا ر کی بہت اہمیت ہوتی ہےاورقومی وقارصرف باتوں سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کا اثرہرعملی میدان میں ہوتاہے۔

ملکی انتظام میں قومی وقارکا مطلب ہوتا ہے حکومت اورنظام حکومت عوام  کے سہارے پرقائم ہو۔

معاشی مسائل میں قومی وقارکا مطلب یہ ہے کہ ملک خودکفیل ہوجائے اگراسے دنیاسے کچھ لینا پڑتا ہے تو دنیا کوجواباً اس سے کچھ لینا پڑرہاہواس طرح وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے سلسلہ میں مغلوب نہیں رہے گی۔

سائنسی میدان میں قومی وقارکا مطلب یہ ہے کہ طالبعلم ،محقق اور دانشورسائنس کی سرحدیں عبورکرجائے (یہی جو ہم نے کہا تھا سافٹ ویئر تحریک  اورعلم وسائنس کی ایجاد)اورخود علم وسائنس تخلیق کرے۔جن لوگوں نے سائنس کو یہاں تک پہنچایا ہے وہ اوسطاًصلاحیت میں اگرہم سے پیچھے نہیں تھے توآگے بھی نہیں تھے۔علم وسائنس کی ہماری صدیوں کی درخشاں تاریخ ہے۔آج بھی ہم میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ ہم سائنس تخلیق کرسکیں،ایجاد کرسکیں ، سائنسی انکشافات کرسکیں اور سائنس کی دنیا میں اپنا ایک اہم مقام بنا سکیں ۔ یہ ہوگی عزت وسربلندی!

خارجہ پالیسی، دیگرممالک، حکومتوں اورطاقتوں کے ساتھ

تعلقات میں قومی وقار کا مطلب یہ ہے کہ ملک کواپنی رائے اورنظریہ کے سلسلہ میں آزادی ہو،بڑی طاقتوں سے اس طرح سامنا کرے کہ وہ کسی بھی معاملہ میں اس پراپنا نظریہ مسلط نہ کرسکیں ۔

ثقافتی میدان میں قومی وقارکا مطلب یہ ہے کہ قوم اپنی روایات کی پابند ہو،اپنی روایات کو اہمیت دیتی ہو۔غیرملکی اورحملہ آورثقافتوں  کی مقلد نہ ہو۔اس سلسلہ میں افسوس کہ ہماراملک انقلاب سے پہلےسوسال یا اس سے زیادہ کے عرصہ میں مغربی تہذیب کے تباہ کن طوفان میں بہہ گیا جس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں ، جس کی وجہ سے ہم آج تک تکلیفیں برداشت کررہے ہیں ۔قومی وقارکا مطلب یہ ہےکہ قوم اپنی روایات کو اہمیت دے،انہیں قدرکی نگاہ سے دیکھے ، ان پرفخرکرے، دوسروں کہ یہ کہنے کو اہمیت نہ دے کہ صاحب آپ توقدامت پسند ٹھہرے۔آج کچھ یورپی ممالک ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ اگرکسی عام عقلمند آدمی کے سامنے رکھئے گا تومذاق اڑائے گا۔ہم پوچھتے ہیں ایسا کیوں کرتے ہو توجواب آتا ہے یہ ہماری روایت ہے!تووہ اپنی روایا ت کے پابند ہیں  اوروہ بھی کہنہ اوربوسیدہ ہوچکی روایات کے۔لیکن  اگردوسری اقوام اپنی روایات کی قدرکریں اوران کی پابندی کریں توان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔کیوں؟جی نہیں !یہ  عدم اعتمادی قومی وقارکے خلاف ہے۔قومی وقارکا مطلب ہے کہ قوم دوسروں کی ثقافت کے مقابلہ میں اپنے آپ کوشکست خوردہ تصورنہ کرے۔یہ ہےقومی وقار!یہ ہرشعبہ ٔحیات میں  معنی رکھتا ہے،ہومقام پراس کا مصداق موجودہے۔

ملکی انتظام اورانسانوں سے برتاؤمیں قومی وقارکا مطلب  ہے کہ سماج میں ہرفرد کا احترام کیا جائے ''اما اخٌ لک  فی الدین واما نظیرلک فی الخلق''(۱)اگرسامنے والا آپ کا ہم مذہب ہے تب بھی اس کا احترام کیجئے ۔ہم مذہب نہیں ہے تب بھی اس کا احترام کیجئے۔سماج میں جوبھی انسان ہے اس کا احترام ہونا چاہئے ،اکرام ہونا چاہئے۔اسی سے قومی وقارپیداہوتاہے۔یہ قومی وقارکےمختلف گوشے ہیں۔امام خمینی(رہ) اسی کی راہنمائی فرماتے تھے ، اسی کی جانب اشارہ کرتے تھے۔

اسلامی انقلاب بھی ان تیس سالوں میں اسی خوداعتمادی سے ہی آگے بڑھتا آیا ہے۔فرازونشیب آتے رہے،اٹھنا گرنا جاری رہا لیکن ٹھہراؤ نہیں آیا ۔ قوم رکی نہیں ۔آج ہمارے قومی وقارکا سایہ پوری دنیا پرپڑرہاہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری قوم اپنے اصولوں کی پابندی کی وجہ سے دنیا میں ذلیل ہوئی ہے،دوسروں کی نظروں سے گرگئی ہے ۔میں یہ نہیں مان سکتا،ہرگزایسا نہیں ہے، دنیا میں کچھ لوگ ہمارے دشمن ہیں اورانھوں نےایک متحدہ محاذتشکیل دے رکھا ہے  جس میں تمام متکبر و مغروراورمداخلت پسند طاقتیں شامل ہیں۔جب کوئی ملک ان کے دائرہ اختیارسے نکل جاتا ہے (کچھ ممالک کویہ اپنے غلام کے بطوراپنے دائرہ میں شامل رکھتے ہیں )جیسے انقلاب کے بعد ایران نکل گیا ہے توپھریہ اس سے مقابلہ کی کوشش کرتے ہیں ، اس کی توہین کرتے ہیں ، اس کے خلاف پروپگینڈہ کرتے ہیں۔ ان کے پاس پروپگینڈہ کے وسائل بھی کافی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری عزت جاتی رہی۔جی نہیں !اسلام اوراسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کے دل بھی اما م خمینی (رہ) اورملت ایران کے تئیں احترام سے سرشارہیں ۔

امام خمینی(رہ)  کی ہدایات کی پروردہ قوم کے لئے ترقی وسربلندی کے حصول کا ایک ہی راستہ ہے اوروہ یہ ہے کہ  ہرمقام پراپنے قومی وقارکا تحفظ کرے۔جب ایک قوم مضبوط ہوجاتی ہے مادی ومعنوی اعتبارسے ترقی کرلیتی ہے تواسے سلامتی بھی حاصل ہوجاتی ہے یعنی اس کے بعد قابل شکست نہیں رہتی۔اوردشمن اسےطمع کی نظروں سے نہیں دیکھتا۔اگرہماری قوم  چاہتی ہےکہ دشمن اسے دھمکیاں نہ دیں تواسے اسی راہ پرچلنا ہوگا،اگرترقی اورعدل وانصاف کا حصول چاہتی ہے تب بھی اسے اسی راہ پرچلنا ہوگا۔ہمارے ملک کا عوام سے جداہوجانا،اسلامی اقدارسے منحرف ہوجانا ، امام (رہ) کی راہ سے الگ ہوجانا اس کے لئے بہت بڑاخطرہ ہے۔یہ چیزیں ہمارے ملک کے لئے خطرہ ہیں ۔انقلا ب نے جوہڈیاں جوڑی ہیں اگریہ ایسے ہی جڑی رہیں  توبہت ساری مشکلات اِدھراُدھرکرکے حل ہوجائیں گےیہ ہڈیاں نہیں اکھڑنی چاہئیں اگریہ اکھڑگئیں توپھرکوئی زخم بھرنہ پائے گااورکوئی مشکل دورنہ ہوسکے گی ۔اسلام نظام کا جومستحکم ڈھانچہ امام (رہ) نے ہمیں دیا ہے اس کی حفاظت کرنا ہوگی۔میں خداکا شکراداکررہا ہوں کہ ان تیس سالوں میں ہمارے عوام اورحکام امام خمینی (رہ)  ہی کے بتائے ہوئےراستہ پرگامزن رہے ہیں کمی زیادتی ہوتی رہی ہے ۔سُرعت وکندی آتی رہی ہے ،کسی دورمیں صورتحال زیادہ اچھی رہی ہے کسی دور میں کم اچھی رہی ہے لیکن آج تک کبھی ٹھہراؤنہیں آیا۔خداکی توفیق، عوام کی ہمت خاص طورپرآپ  جوانوں کی ہمت وحوصلہ سے، ہم آخری کامیابی تک اسی راہ پرچلتے رہیں گے۔

کچھ جملے الیکشن سے متعلق بھی عرض کرتا چلوں ۔انتخابات کوئی بھی ہوں  ہمارے ملک کے لئے نہایت اہم،حساس اورتقدیرسازہوتے ہیں  چاہے پارلیمانی انتخابات ہوں ، چاہے خبرگان کونسل کے ، خاص طورسے صدارتی انتخابات بہت ہی اہم ہیں جوچند روز بعد ہورہےہیں ۔انتخابات کے سلسلہ میں، میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔

پہلی بات یہ کہ غیرملکی ریڈیودوتین ماہ پہلے سے  ہی ہمارے ملک کے انتخابات  کوبدنام کرنے میں لگے ہوئے ہیں لوگوں کوبدظن کرنا چاہتے ہیں ۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ یہ انتخابات نہیں انتصابات ہیں ۔کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حکومت کے اندر کاہی کھیل ہے  جسے پوری طرح کنٹرول کیا جارہا ہے۔کبھی بات کی جاتی ہے کہ امیدوارڈرامہ کر رہے ہیں ۔ان کے درمیان نظریاتی اختلافات محض دکھاواہے،محض کھیل ہے۔کبھی یہ کہ الیکشن میں یقیناً دھاندلی ہوگی ۔کچھ نہ کچھ کہتے آئے ہیں اوراس ساری تخریب کاری کا ایک ہی مقصد ہے اوروہ  یہ کہ لوگ  بھاری تعداد میں الیکشن میں حصہ نہ لیں ۔میں آپ سے عرض کردوں  ۔میرے عزیزو!اے عظیم ایرانی قوم! اے بیداروعقلمند ایرانی قوم!اے ایران کی تجربہ کاراورآزمودہ قوم!جس نے ان تیس برسوں میں تمام سخت مرحلے آسانی سے پارکرلئے جان لیجئے کہ دشمن آپ کی جمہوریت کا مخالف ہے، آپ کی حکومت اورہرجگہ آپ کی موجودگی کا مخالف ہے، آپ کے انتخابات کا مخالف ہے۔اس اسلامی نظام کے ستون عوام ہیں اوردشمن کی کوشش ہے کہ عوام اسلامی نظام کو ووٹ نہ دیں ۔انہیں پتہ ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں ۔اب وائے ان پرجونادانستہ یا غفلت کی بنا پرانہیں کی باتیں دہرائیں اوراندرونی طورپران کا مقصد پوراکردیں ۔یہ لوگ عوام کونا امید کرنا چاہتے ہیں ۔ایرانی قوم کو فخرہے کہ اس نے ان تیس سالوں میں خود اپنے حکام کا تعین کیا ہے۔اوپرسے نیچے تک تمام اعلیٰ سطحی حکام کوعوام خود منتخب کرتے ہیں  ۔رہبر بھی خبرگان کونسل کے انتحابات کے ذریعہ قوم ہی منتخب کرتی ہے۔صدر،پارلیمنٹ، دیگرادارے سب عوام منتخب کرتے ہیں۔ یہ ہمارے نظام کے لئے فخرکی بات ہے۔اسے لوگوں سے چھیننا چاہتےہیں اس لئےکہ انہیں پتہ ہے کہ اس سے نظام مضبوط ہوتاہے۔میں آپ سے عرض کردوں کہ جوبھی اس نظام کو اورمضبوط کرنا چاہتاہے، جسے بھی اسلام سے لگاؤ ہے، جسے بھی ایرانی قوم سے محبت ہے اس پرعقلاً وشرعاًالیکشن میں حصہ لینا واجب ہے۔  

الیکشن سے متعلق ایک اوربات!میرے عزیزو! ہرصدارتی امیدوار کے کچھ حامی ہیں،کچھ چاہنے والے ہیں ۔ایک امید وار کے حامی دوسرے امید وارکے حامیوں پراعتراض نہیں کرسکتے کہ تم فلاں کی حمایت کیوں کرتے ہومیں جس کی حمایت کرتا ہوں اسے کیوں نہیں چاہتے۔جی نہیں! یہ بھی ہمارے ملک کے لئے فخرکی بات ہے کہ مختلف افراد، مختلف انداز کے حامل،مختلف مزاج رکھنے  والے اورکام کرنے کامختلف سلیقہ رکھنے والے افراد عوام کے سامنے آتے ہیں کچھ کوفلاں پسند ہے ، کچھ کو فلاں اورکچھ کو فلاں  ۔یہ فخر کی بات ہے ،اچھی بات ہے۔محترم صدارتی امیدواروں کے بھی اپنے اپنے حامی ہیں اورکچھ اپنے امیدوار کی حمایت کے سلسلہ میں متعصب بھی ہیں ،اپنے امید وارکوبہت زیادہ چاہتے ہیں ۔بہت اچھی بات ہے ، حمایت کریں ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن اتنا خیال رکھئے گا کہ اس حمایت اورطرفداری کے نتیجہ میں ٹکراؤ ہنگامہ آرائی نہ ہو۔آپ اپنے عقیدہ اورایمان کے لحاظ سے محنت کررہے ہیں دشمن کواپنے ایمان سے غلط فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دیجئے گا۔میں نے سنا ہے، خبرملی ہے کہ کچھ حامی نوجوان سڑکوں پرنکلتے ہیں  فی الحال میں اس پرکچھ نہیں کہنا چاہتالیکن زوردے کرکہہ رہا ہوں  سڑکوں پرآکے ٹکراؤ،بحث اورجھگڑاہرگزنہیں ہونا چاہئے۔اس کا خیا ل رکھئے گا۔اگرکوئی ایسا شخص دکھائی دیا جوجھگڑایا ہنگامہ کھڑا کرنا چاہتا ہے تو سمجھ جائیے گا کہ خائن ہےیا بہت زیادہ غفلت میں مبتلاہے۔

الیکشن سے متعلق تیسری بات یہ کہ خود امیدواروں کوبھی محتاط رہنا چاہئے ۔اچھا نہیں لگتا کہ ایک امید واراپنی الیکشن مہم،تقریر، ٹی وی انٹرویو یا کسی دوسری جگہ عجیب وغریب دلیلیں دے کے اپنے کوصحیح اوردوسرے کو غلط ثابت کرے۔میرے خیال میں یہ صحیح نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی میں اس سلسلہ میں ایک نصیحت کرچکا ہوں اب وقت نزدیک آگیا ہے پھرسے کہہ رہا ہوں ۔ہرامید وار ایک مقصد کے لئے کام کررہا ہے، اسے  اپنی نظرمیں ایک فرض اورذمہ داری کا احساس ہے لہٰذا انتحابی میدان میں آرہا ہے۔مجھے مناظرہ ، گفتگو اورتنقید سے اختلاف نہیں ہے لیکن کوشش کیجئے کہ یہ کام شرعی اورمذہبی قواعد وضوابط کے اندرانجام پائے۔لوگ بیدا رہیں  سب سمجھتے  ہیں ، جانتے ہیں ۔یہ چارامید وار جن کی نگراں کونسل نے توثیق کردی ہے اوراب مختلف جلسوں سے خطاب کررہے ہیں   خیال رکھیں کہ ان کی تقریر یا بیان ایسا نہ ہو کہ جس سے دشمنی وعناد پیدا ہوجائے۔بھائی چارہ اوراتحاد کے ساتھ آگے بڑھئے۔نظریاتی اختلاف، مزاج میں اختلاف، مختلف ذاتی یا عمومی مسائل میں اختلاف ،طبیعی ہے  اسمیں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اس کے نتیجہ میں ہنگامہ آرائی نہیں ہونی چاہئے۔اس پرخود امید وارحضرات غورکریں۔

چوتھی بات یہ کہ الیکشن میں میرا بھی ایک ہی ووٹ ہے۔اب میرا ووٹ کسے جائے گا اسے یقینی طورپرکوئی نہیں جانتا۔ممکن ہے کچھ لوگ قیاس آرائیاں کرتے رہیں لیکن میں کسی سے نہیں کہتا، نہ اب تک کہا ہے اورنہ کبھی کہوں گا کہ کسے ووٹ دو ، کسے ووٹ نہ دو۔میں کسے ووٹ دوں گا اس کا تعلق صرف مجھ سے ہے  لیکن الیکشن پوری قوم کا ہے۔میرا عوام سےیہی کہنا ہے کہ اپنی پوری قدرت  وطاقت سے، پورے جوش وخروش سےبائیس خرداد کوپولنگ بوتھ جائیں اورووٹ دیں ۔خدا اس قوم کے ساتھ ہے جوسوچتی ہے ، فیصلہ لیتی ، اس  کے بعد انتخاب کرتی اورپھرخدا کی خاطراوراس کی راہ میں اپنے انتخاب پرعمل کرتی ہے۔

پالنے والے!اس قوم پراپنی رحمتیں وبرکتیں نازل کر۔

پروردگارا!ہمارے عظیم امام (رہ) کواپنے اولیاء کے ساتھ محشورکر۔

پالنے والے!امام (رہ) کے دونوں جوان بیٹوں کوبھی جودنیا سے چلے گئے ہیں اورامام (رہ) سے مل گئے ہیں امام (رہ) اوران کے اولیاء کے ساتھ محشورکر۔

پروردگارا!ہمارے شہداء کو جن کی ایک بڑی تعداد یہیں امام (رہ) کے جوار میں دفن ہوئی ہے شہدائے اسلام اوراپنے اولیا ء کے ساتھ محشورفرما۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)نہج البلاغہ مکتوب۵۳