ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا مریوان شہرمیں عوام کے شاندار اجتماع سے خطاب


بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

و الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى القاسم المصطفى محمّد و على اله الطّيّبين الطّاهرين و صحبه المنتجبين سيّما بقيّةاللَّه فى العالمين.‏

مریوان کا علاقہ، شہر اوریہاں کے عوام و یہاں کے خوبصورت مناظر اور یہاں کے اہم و حساس علاقے، میرے لئے ملک کے مغربی حصے اور کردستان میں دلچسپ اور اہم یادگار چیزیں ہیں۔ میں اللہ تعالی کا شکر گذار ہوں کہ اس نے مجھےشجاعت و دلیری، قدرتی خوبصورتی، اور جذبہ مہر و محبت اور ایثار و فداکاری سے سرشار خطے کا ایک بار پھر دورہ کرنے کا موقع عنایت فرمایا اس علاقہ کی ان خصوصیات سے میں پہلے سے واقف ہوں۔ اس میدان میں مریوانی عزیزوں کے اس محبت آمیز اور پر خلوص اجتماع سے میں کہنا چاہوں گا کہ اس شہر، اس علاقہ اور اس عظیم افرادی سرمائے کو میں ملک اور انقلاب کے لئے الہی نعمتوں اور برکتوں کا جز سمجھتا ہوں۔ انقلاب کے ابتدائی برسوں کے دشوار ایام سے ہی جب اس سر سبز و شاداب علاقے کو دشمنوں نے میدان جنگ میں تبدیل کر دیا تھا اور یہاں کے با ایمان، گرمجوش، محبتی اور مخلص عوام کو ہر روزکی جھڑپوں، جنگ و جدال کی متعدد مشکلات سے دوچار کر دیا تھا، اللہ تعالی نے کچھ ایسے اسباب فراہم کئے کہ اس علاقے میں ہمارا آنا ہوا اور اسے نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا۔ ملک کے دیگر علاقوں سے آنے والے لوگوں نے یہاں کے رہنے والوں اور آپ عزیزوں کی شجاعت و وفاداری اور محبت و ہمدردی کے متعلق جو کچھ بیان کیا تھا اس کے نمونے ہم نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کئے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، انیس سو اسی اکاسی کی بات ہے، اسی مریوان شہر میں یہاں کے ہمدرد لوگوں سے ملاقات ہوئی اور میں غالبا ایک پرائمری اسکول میں گیا، وہاں نوجوانوں سے بات چیت ہوئی وہ نوجوان اب یقینا درمیانی عمر کے ہو چکے ہوں گے۔ یہاں سے مریوان کے کچھ لوگوں کے ساتھ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے دزلی اور درکی جانا ہوا جو بڑے اہم اور حساس علاقے تھے۔ قدرتی مناظر کے لحاظ سے بے پناہ خوبصورت، لیکن ملت ایران اور اسلامی انقلاب کے دشمنوں کی کارروائیوں کے نتیجے میں یہی اچھے لوگ مشکلات کا شکار تھے اوریہی خوبصورت علاقے، یہی فلک بوس پہاڑ اور یہی سرسبز وشاداب میدان جنگ کے باعث جہنم میں تبدیل ہو گئے تھے۔ دشمن یہاں اپنے بعض آلہ کاروں کو اس علاقے کے عوام کو براہ راست اور اسلامی نظام کو بالواسطہ نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
میں اس وقت کو نہیں بھول سکتا جب دزلی کے لوگوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا۔ احباب کے ساتھ دزلی سے نکل کر ہم سرزمین عراق سے ملحق "تنہ" کی پہاڑیوں کی جانب بڑھے اس علاقہ کے لوگوں میں دشمنوں نے بڑا نفوذ پیدا کر لیا تھا۔ اس علاقے میں ہماری موجودگی کی اطلاع دشمن کو دے دی گئی اور دشمن کے طیارے ہمارے سر پرآن پہنچے۔ پہاڑیوں کی جانب بڑھتے وقت راستے میں ہم نے دشمن کے جنگی طیاروں کو پرواز کرتے دیکھا تو ہم نے اندازہ کر لیا کہ دزلی پر کوئی مصیبت نازل ہونے والی ہے۔ واپس آکر دیکھا تو عام شہریوں پر بمباری کی گئی تھی، کچھ لوگ مارے گئے تھے کچھ زخمی حالت میں پڑے تھے۔ ہم نے شہداء کے جنازے اور زخمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور مریوان پہنچے۔ یہ واقعات سبق آموز اورعبرت ناک ہیں۔ ان دنوں یہی عالمی نظام جو انسانی حقوق کا بڑا دعوےدار ہے صدام حسین کی بھرپور حمایت کر رہا تھا۔ اس کی ان وحشیانہ کاروائيوں کا دفاع کر رہا تھا۔ ہماری آج کی نوجوان نسل اس سے آگاہ ہے اور اسے اس کا علم ہونا بھی چاہئے کہ انسانی حقوق کے دعوے کرنے والے بڑے بڑے اداروں اور حکومتوں کی صداقت اور جھوٹ کو پرکھنے کے لئے یہی ہمارا ملک اور کردستان سمیت ملک کی مغربی سرحدیں کسوٹی ثابت ہوئیں۔
"والفجر چار" نامی فوجی کارروائیوں کے تحت کرد، فارس اور دیگر مجاہد جوان، دشمن کے توپخانے کا نشانہ بننے والے مریوان کو آگ کے شعلوں سے نجات دلانے کے لئے گئے اور انہوں نے یہ کام کامیابی سے پورا بھی کیا، بعثی دشمن لمبی رینج والی توپوں سے مریوان پر شدید حملے کر رہا تھا۔ اس وقت یہاں کے نوجوانوں، پاسداران انقلاب اسلامی اور کرد جوانوں نیز ملک کے دوسرے علاقوں کے شہریوں پر مشتمل رضاکار فورس "بسیج" کے مجاہدین نے "والفجرچار" آپریشن کو مکمل کیا۔ آگ میں جلتے علاقوں کو نجات دلائی اور دشمن کو پسپا کردیا۔ یہاں تک کہ عراق کے شہر حلبچہ کو بھی دشمن سے چھین لیا۔ آپ کو معلوم ہے کہ دشمن نے اس کا انتقام کیسے لیا؟ یہاں تو وہ اپنی کاروائیاں نہیں کر سکتا تھا کیونکہ ہمارے دلیر جوانوں اور بہادر سپاہیوں نے اسے بڑا اچھا سبق دے دیا تھا۔ انسانیت کی دشمن اور بے رحم بعثی حکومت نے شہر حلبچہ پر کیمیائی ہتھیاروں سے بمباری کی۔ اس کیمیائی بمباری میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں کرد جن کا تعلق حلبچہ شہر اور اطراف کے علاقوں سے تھا جاں بحق ہو گئے۔ صدام نے ان کرد عوام سے انتقام لیا جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے فوجیوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے انہیں خوش آمدید کہا تھا۔ یہ علاقہ اس طرح کی آزمائشوں سے گزر چکا ہے۔ میں تاریخ بیان کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تاہم نوجوان نسل کو چاہیے کہ وہ خاص طور پر ان چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔ اس نسل کو چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ کے ان بڑے امتحانوں کو، ملت ایران کے اس عظیم کارنامے کو اور عوامی طاقت کے ذریعہ حاصل ہونے والی اس عظیم کامیابی کو تاریخ کے اہم سبق کے طور پر یاد رکھیں ۔ آپ نوجوانوں کو اس سے واقف ہونا چاہیے تاکہ آپ کو دنیا میں سامراج کے آلہ کاروں کے ذریعے جاری پروپیگنڈے کی وسعت اور گہرائی کا بخوبی اندازہ ہو سکے۔ تاریخ بیان کرنا مقصود نہیں، میں بس یہ کہنا چاہوں گا کہ گزشتہ منگل کو سنندج شہر میں، میں نے قومی وقار کی بات کی۔ کوئی بھی قوم ہو اسے چاہیے خود کو با وقار سمجھے اور با وقار رکھے۔ قوم کو چاہیے کہ ذلت و رسوائی کا ہر ممکن طریقے سے مقابلہ کرے اور خود کو عزت و وقار کی بلندیوں تک پہنچائے۔ یہ وقار ایرانی قوم کے لئے ایک ناگزیر چیز ہے اور اللہ تعالی کے فضل و کرم سے انقلاب کے بعد ہمارے اندر وقار کا احساس پیدا بھی ہو چکا ہے۔ اس وقارکا ایک پہلو یہ ہے کہ ایرانی قوم کی ترقی آج اغیاراور اسلامی انقلاب کےدشمنوں کے منصوبوں پر منحصر نہیں جنہیں ایران کی عظیم قوم کے وقار سے کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی۔ وہ اپنے مفادات کے حصول کے لئے کوشاں ہیں اور وہ اپنے مفادات کو قوموں کی ذلت و رسوائی اور حقارت و بے بسی میں پوشیدہ سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے کوئی امید وابستہ نہیں کرنا چاہیے۔

اس ملک کا مستقبل آپ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ملک آپ کا ہے، مستقبل آپ کی ملکیت ہے ہمارے جوانوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ وہ ملک کی تقدیر بنانے کے لئے اغیار کے لکھے ہوئے نسخوں پر عمل نہ کریں ۔ اسلامی، قومی اور مقامی نسخوں کو استعمال کریں۔ برسہا برس سے لیکر آج تک مغربی حکومتوں اور مغربی تمدن کے خدمت گذاروں کی یہ کوشش رہی ہے کہ اپنی ثقافت، اپنے خیالات اور انداز فکر کو قوموں اور ذہنوں پر مسلط کر دیں۔ اب جس قوم کو اپنا وقار عزیز ہے اور جسے خود مختار رہنے کی فکر ہے وہ ان سازشوں کا مقابلہ کرتی ہے۔ آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ بحرانوں کا سامنا ہو جانے پر مغرب کا سرمایہ دارانہ نظام کتنا کمزور اور ناتواں ثابت ہوا ہے۔ یہ نظام خود ہی بحران کی وجہ بھی ہے۔ جب بحران پیدا ہو جاتا ہے تو اس میں اپنا دفاع کرنے کی ہمت و سکت نہیں رہتی۔ یہ ہے مغرب کا اقتصادی نظام جس پر بڑا ناز کیا جاتا تھا اور اسی نظام کو مختلف بہانوں اور مختلف انداز سے بے مثال نظام ثابت کرکے دوسری قوموں پر مسلط کر دینا چاہتے تھے۔
میں یہاں پر کہنا چاہوں گا کہ ہماری قوم، ہمارے نوجوان، ہمارے مفکرین، ہمارے طلبا، ہمارے مستقبل کی تعمیر کرنے والے لوگ مغربی ممالک کی انتظامی امور سے متعلق عدم توانائی کا جائزہ لیں، سب سے اہم شعبے یعنی معیشت سے متعلق امور میں ان کی انتظامی کمزوریوں پر نظر ڈالیں تو انہیں انداز ہوگا کہ ثقافتی امور اور انسانی اصولوں سے بے اعتنائی کے علاوہ بھی مغربی تہذیب میں اور بھی خامیاں موجود ہیں۔ ہماری قوم، ہمارے حکام اور بالخصوص ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ اس چیز کو بنیاد بنا کر سوچیں اور اس نظریے کے ساتھ ملک کا نظم و نسق چلانے اور اس عظیم قوم کے امور کی دیکھ بھال کے لئے قومی اور مقامی طریقوں پر غور کریں۔ اس طرح آپ اسلام پر زیادہ توجہ دیں گے۔ اسلام انسان، انسانیت اور انسانی روشوں کے بارے میں بڑی وسیع اور کھلی ہوئی نظر رکھتا ہے۔ ہم رجعت پسند اسلام کے حامی نہیں۔ ہم اس اسلام کا دفاع نہیں کرتے جو تمام مسائل کو بڑی تنگ نظری سے دیکھتا ہے۔ اسلام کے بعض دعویدار جو باتیں کرتے ہیں ہم اس کی ہرگز دعوت نہیں دیتے۔ حقیقی و سچا اسلام تو وہ ہے جو انسانوں کو متنبہ کرتا ہے، انہیں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ قرآنی اسلام، سنت نبوی پر مبنی اسلام اور اہلبیت (ع)کا اسلام وہ اسلام ہے جس کا ایک نمونہ ہمارے ملک میں نظر آتا ہے جس نے دشمن کے دور تسلط کے بے شمار مسائل و مشکلات کے باوجود ملک میں ایک تحریک کو وجود بخشا جس کے نتیجے میں خود مختاری و آزادی حاصل ہوئی۔ ہم اس اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔
ہمارے نوجوان، ہمارے مفکرین، ہماری علمی شخصیات کو چاہیے کہ وہ غور کریں۔ ملک کے حکام کو چاہیے کہ اسلامی پالیسیوں کی سمت گامزن رہیں۔ اگر انتخابات جیسے مواقع پر کوئی عہدہ دار اور امیدوار مغرب والوں کی باتیں دہراتا ہے تو یہ کوئی بڑائی کی بات نہیں ہے۔ یہ کوئی خوبی نہیں ہے کہ ہم وہی باتیں کریں جو مغرب کو پسند ہوں ۔ یہ وہ عناصر ہیں جو ایرانی فکر، اسلامی طرز فکر اسلامی تشخص اور ایرانی شناخت کے بھی مخالف ہیں۔ ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ملت ایران کو وہ آگاہی و بیداری حاصل ہو گئی ہے جس کے ذریعہ وہ ان تمام مشکلات پر آسانی کے ساتھ غلبہ حاصل کر سکتی ہے۔
آپ کا کردستان علاقہ اور یہ سرسبز و شاداب صوبہ، انسانی وسائل، قدرتی ذخائر اور ہر لحاظ سے ملک کا بڑا مالامال اور حساس علاقہ ہے۔ دشمنوں نے اس علاقہ کے لئے جو سازشیں تیار کیں ان میں ایک یہ تھی کہ اس علاقے اور اس جیسے دیگر علاقوں کے درمیان بے اعتمادی اور غلط فہمی کی خلیج پیدا کرکے اسےعظیم اسلامی ملک سے جدا کر دیں یا ان کے ما بین دوریاں پیدا کر دیں لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے اور ناکام ہو گئے۔ بد امنی پھیلا کر اور زہریلے پروپیگنڈے کرکے بھی وہ یہاں کی مؤمن و مسلمان قوم کو تقسیم نہیں کر پائے۔ ہمارے کرد بھائیوں اور بہنوں نے صوبے کے تمام علاقوں میں اپنی وفاداری، اپنی استقامت اور اپنی فراست و ذہانت کا ثبوت پیش کیا۔ مریوان شہر تو ابتدا سے ہی اسلامی بنیادوں اور اصولوں کے تئیں اپنی پابندی کے لئے مشہور تھا۔ خود کرد بھائیوں کا کہنا ہے کہ مریوان، کردستان کا قم ہے یعنی مریوان علمی و دینی مرکزہے اس جگہ پر علم و دانش اور دین و مذہب سے انس رکھنے والے افراد جمع ہیں۔ برسہا برس کے تجربات سے بھی یہ چیز ثابت ہوئی ہے۔
اس وقت الحمد للہ اسلامی نظام تمام امور میں مضبوط و مستحکم ہے۔ اسلامی نظام، اسلامی جمہوری نظام ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی سطح پر بھی پالیسی سازوں اور سیاستدانوں کے درمیان اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ دشمن بھی اسلامی جمہوریہ کی روز افزوں طاقت اور استحکام کا اعتراف کر رہے ہیں۔
اب بحمد اللہ اسلامی جمہوریہ کو یہ موقع مل گیا ہے کہ ماضی کی خامیوں اور نقائص کو دور کرنے کے لئے دراز مدت پروگراموں پر کام کرے۔ بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ بڑا اہم منصوبہ ہے، ملک کے حکام خواہ ان کا تعلق قوہ مقننہ سے ہو یا مجریہ سے ، مختلف شعبوں میں قدم قدم پر اس منصوبے کے مطابق عمل کریں اور مقررہ اہداف سے خود کو نزدیک کریں۔ اس سلسلے میں ملک بھر کے نوجوانوں اور ممتاز و ماہر شخصیات کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں۔ میں عزیز عوام بالخصوص نوجوانوں سے عرض کرتا ہوں کہ ملک کی تعمیر و ترقی اور ملک کو آگے لے جانا عوام اور حکام کا مشترکہ فریضہ ہے عوام کی بھی اس سلسلے میں ذمہ داریاں ہیں۔ ہمیں بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ملک کی ترقی و پیش رفت کے دشمن ہمارے ذہنوں اور افکار کو جزوی اور ضمنی باتوں میں نہ الجھا دیں ہم اتحاد و یکجہتی صورت میں ہی مقررہ اہداف کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔
آج میں یہ بات پورے اعتماد اور وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت ملک کے حکام ملک کے تمام علاقوں کے مسائل کو دور کرنے کے لئے محنت سے کام کر رہے ہیں۔ صوبہ کردستان کے دورے میں بھی کابینہ کے اراکین کا سنندج میں اجلاس ہوا۔ ان مسائل پر خاص طور پر غور کیا گیا جن پر ترجیحی بنیاد پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کی رپورٹ مجھے بھی پیش کی گئی۔ میں انتظامیہ کے عہدہ داروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، جنہوں نے یہاں تشریف لانے کی زحمت گواراکی ۔ کردستان اور منجملہ آپ کے اس علاقے مریوان کے سلسلے میں جو امور ان کے پیش نظر ہیں وہ بہت ہی اہم امور ہیں، بڑے بنیادی اور اساسی معاملات ہیں۔ بڑے اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان فیصلوں پر جلدعملدرآمد بھی ہوگا۔ اس پیشرفت کی بنیاد ایرانی عوام کی ا ستقامت ، انقلاب کے نعروں اور اہداف کے متعلق وفاداری پر استوار ہے۔ اسلامی انقلاب کے نعرے ہی ایرانی قوم کی قوت کا سرچشمہ اور مختلف میدانوں میں حکومت کی پیش رفت کا سہارا ہیں۔
اس علاقے کے سلسلے میں ایک اہم موضوع سرمایہ کاری کا ہے۔ صنعتی اور زراعتی شعبوں میں ایسی سرمایہ کاری جس سے روزگار کے مواقع فراہم ہوں۔ اگر روزگار کے مواقع ضرورت کے مطابق فراہم نہ ہوں اورنوجوانوں کو سہی راستہ نہ ملے تو یہ نوجوان اسمگلنگ وغیرہ کی غلط راہوں پر چل پڑیں گے، اسمگلنگ ملک کے لئے ایک آفت اور ملک کی معیشت کے لئے بہت بڑی مصیبت اور تباہ کن وائرس ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے لئے ایسے حالات پیدا نہ ہونے پائیں کہ وہ خود کو غیر منطقی، غیر قانونی اور ناجائز کاموں کے لئے مجبور پائيں۔ یہ حکومت کے انتہائی بنیادی اہمیت کے حامل پروگراموں میں ہے جس پر حکومت پوری ہمت سے کام بھی کر رہی ہے۔ آپ بھی اس سلسلے میں تعاون اور مدد کیجئے۔ اسمگلنگ کا کام کرنے والے کو کچھ فائدہ ضرور ہو تا ہے لیکن سب سے بڑا فائدہ ان عناصر کو پہنچتا ہے جو اس پورے عمل کے پس پردہ کارفرما ہوتے ہیں۔ وہ موقع پرست اور خود غرض افراد جو بغیر کسی زحمت کے سب سے زیادہ فائدہ حاصل کرتے ہیں جبکہ ہمارا نوجوان مجبور ہوکر یا کسی اور وجہ سے خود کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ یہ راستہ بندکرناچاہیے۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب پورے کردستان میں صحیح طریقے سے سرمایہ کاری کا کام انجام پاجائے اور کام کے مواقع پیدا کئے جائيں، صوبے کے تمام اضلاع بالخصوص مریوان جیسے علاقوں میں جو سرحد کے نزدیک واقع ہیں۔ ملک کے اعلی حکام کی توجہ سرمایہ کاری کے نکتے پر ہے۔ انہوں نے اس بات پر غور بھی کیا ہے۔ سرمایہ کاری کے لئے زمین ہموار کی جانی چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں، اورنوجوان صحیح، قانونی اور جائز راہوں سے اپنی روزی روٹی کما سکیں۔ البتہ آپ یہ بات یاد رکھئے کہ چونکہ دشمن کو معلوم ہے کہ سرمایہ کاری اور دولت پیدا کرنے کے لئے امن و سلامتی لازمی شرط ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس علاقے میں سرمایہ کاری ہو اور ثروت پیدا کی جائے لہذا وہ سکیورٹی کے لئے خطرات پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ امن و سلامتی میں رخنہ اندازی کی کوشش کرےگا۔ ویسے میں آپ کو یہ یقین دہانی بھی کراتا چلوں کہ اسلامی جمہوریہ کی با ایمان و وفادار فورسز انہی عوام اور انہی نوجوانوں کی مدد سے بد امنی پھیلانے والے عناصر کا سختی سے مقابلہ کریں گی اور اللہ تعالی کے فضل وکرم سے دشمن کے ہاتھ سے بد امنی پھیلانے کا ہر موقع سلب کر لیں گی۔
میں اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے مریوان شہر اور آپ جیسے مؤمن و با وفا اور مہربان لوگوں سے دوبارہ نزدیک سے ملنےکی توفیق عنایت فرمائی۔ آپ کی یاد کبھی بھی ہمارے دلوں سے محو نہیں ہوگی، ہمارے حکام کے دلوں کی دھڑکنوں میں آپ کی محبت کا جذبہ بھی شامل ہے اور ان کے دل عوام دوستی کے جذبات سے سرشار ہیں، اس کا آپ یقین رکھیے۔ حکام جن چیزوں کے لئے دن رات کوشاں ہیں وہ معیشت سمیت ملک کی ترقی کے امور ہیں۔ خوش قسمتی سے بہت سی کامیابیاں ملی ہیں، بڑے کام انجام پائے ہیں اور دوسرے بھی بہت سے کام انجام پا رہے ہیں۔ ہمارے اس سفر کا ایک مقصد یہ تھا کہ ملک کے دیگر علاقوں کے لوگوں کی توجہ اس خطے پر مرکوز کی جائے، تاکہ دلوں کا باہمی جذباتی لگاؤ روز بروز مزید مضبوط و مستحکم ہو۔ اس علاقے کے کرد عوام اور اسی طرح فارس، ترک، بلوچ اور دیگر قومیں سب کی سب با قاعدہ طور پرمحسوس کریں کہ وہ ایک عظیم و با شکوہ پیکر کے اعضاء و جوارح ہیں جس کا نام ایرانی قوم ہے ۔ الحمد للہ یہ ہدف پورا بھی ہوا۔
میں آپ کی والہانہ محبت ، گرمجوش استقبال اور دوستانہ بیانات کا تہ دل سے شکرگذار ہوں اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ عزیزوں پر اپنے الطاف و عنایات میں اضافہ کرے، اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے حکام کی مدد و نصرت فرمائے تاکہ وہ عوام کی مکمل طور پرخدمت انجام دیں اور اپنے فرائض کو پورا کریں۔ میں آپ سب کو اللہ تعالی کےحوالے کرتا ہوں۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ