ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا صوبہ کردستان کی ممتاز شخصیات اور مفکرین کے اجتماع سے خطاب

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الرّحيم‏

میرے لئے یہ جلسہ بڑا پر کشش اوردل نشیں ہے۔ دوستوں اور بھائیوں نے بڑی اچھی ،جامع اور تسلی بخش گفتگو کی اگر چہ دو گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا لیکن مجھے بالکل تھکن محسوس نہیں ہوئی ۔ جلسہ میں حاضر دوسرے دوستوں کی بھی گفتگو سننے کے لئے آمادہ تھا۔ البتہ اذان ظہر اور نماز کا وقت قریب ہے اور اس وجہ سے ہمارے پاس وقت محدود ہے ورنہ مجھے تھکاوٹ کا بالکل احساس نہیں ہے یہ بات میں اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ جلسہ کے مدیر محترم نےمیری تھکن کا ذکر کیا۔ میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے اندر بالکل تھکن کا احساس نہیں ہےاور آپ کی مزید باتیں سننے کے لئے تیار ہوں لیکن وقت کے دامن میں گنجائش نہیں ہے اور ہمارے پاس نماز ظہر سے پہلے تک ہی موقع ہے۔ جو کچھ آپ دوستوں، بھائیوں اور بہنوں نے بیان فرمایا وہ میرے لئے دو زاویوں سے بہت اہم اورمفید ہے۔ ایک وہ نکات جو ان بیانات میں تھے چاہے ان کا تعلق ثقافتی مسائل سے، معاشی امور سے یا دیگر موضوعات سے رہا ہو ۔ یہ نکات میرے مد نظر رہیں گے اور امید ہے کہ آئندہ کے منصوبوں اور پروگراموں میں ان نظریات کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ دوسرے یہ کہ یہاں میں نے کردستان کے عوام کی صلاحیتوں پر مبنی ایک چھوٹی سی نمائش کا مشاہدہ کیا ہے۔ ویسے میں پہلے سے بھی کچھ کرد شخصیات سے آشنا ہوں۔ جناب احمد قاضی کی تشریف آوری کی اطلاع مجھے ملی، یہ معروف مترجم محمد قاضی مرحوم کے بھائی ہیں۔ چالیس سال پہلے یا شائد اس سے بھی پیشتر میں نے محمد قاضی مرحوم کا پہلا ترجمہ پڑھا تھا جو میرے خیال میں "رومن رولان" کی کتاب "مہاتما گاندھی" کا ترجمہ تھا۔ یہ کتاب بھی بڑی ممتاز کتاب ہے اور محمد قاضی نے بھی انصاف سے ترجمہ کا حق ادا کیا ہے۔ اس کے چند سال بعد ان کا ایک اور ا ہم ترجمہ بھی میری نظر سے گزرا۔ یہ بھی "جان شیفتہ " کے عنوان کے تحت رومن رولان کی کتاب کا ترجمہ تھا۔ میرے خیال میں یہ کتاب تین چار جلدوں پر مشتمل ہے اور بڑی مرصع و مسجع عبارت سے مزین ہے۔ البتہ میں اس بارے میں کوئی را‏ئے قائم نہیں کرسکتا کہ ترجمہ اصلی عبارت سے کتنا ہم آہنگ ہے۔ اس بارے میں کتاب کی اصلی زبان سے واقف حضرات ہی اپنی رائے پیش کرسکتے ہیں۔ لیکن زبان کے لحاظ سے ترجمہ بڑا ہی شاندار ہے۔ مجھے فارسی زبان کے مترجمین اور مصنفین کی تخلیقات سے آشنائی ہے اور میرے ذہن میں ان کا مختصر تجزیہ بھی ہے۔ میری نظر میں محمد قاضی مرحوم کا ترجمہ بہت اچھا ہے۔ میں ان سے ایک بار مل بھی چکا ہوں۔ اپنے دور صدارت کے اختتام کے قریب شیراز میں حافظ پر ہونے والے ایک سمینار میں میری ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کا تعارف کرایا گيا ، ان کے گلے میں خراش ہو گئی تھی۔ میرے اور ان کے درمیان چند جملوں کا رد و بدل بھی ہوا۔
اسی طرح نثری ادب میں عبد الرحمن شرف کندی (ہجار) مرحوم نے بھی بڑی گراں قدر خدمت انجام دی ہے۔ انہوں نے ابن سینا کی کتاب قانون کا ترجمہ کیا جو بڑا ہی پیچیدہ مشکل اور بہت ہی گراں سنگ کام ہے۔ یہ کتاب جو ایک ہزار سال قبل ایک ایرانی کے ہاتھوں لکھی گئی اور دنیا کے طبی تعلیمی مراکز میں پڑھائی جاتی رہی، اس کا فارسی ترجمہ نہیں ہو سکا تھا۔ میرے پاس اطلاعات ہیں کہ تقریبا سو سال قبل تک یورپی ممالک کے میڈیکل کالجوں میں "قانون" کو مآخذ کا درجہ حاصل تھا اور متعدد یورپی زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا جا چکا تھا لیکن فارسی زبان "قانون" کی آشنائی سے محروم تھی۔ اپنے صدارتی دور کے وسطی برسوں میں اس نکتے کی جانب میں نے توجہ دی کہ ہم نے قانون کا ترجمہ کیوں نہیں کیا۔ میں نے کچھ افراد سے بات کی اور انہیں قانون کے ترجمہ کا کام سپرد کیا۔ حکم صادر ہوا اور وہ اس کام میں مصروف ہو گئے۔ لیکن ایسے کاموں کے لئے لگن اور دلچسپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکم اور فرمان سے ایسے کام انجام نہیں پاتے۔ اسی دوران مجھے اطلاع ملی کہ اس کتاب کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ میرے سامنے ہجار مرحوم کی کتاب لائی گئی جو تقریبا آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے۔ دیکھئے نہ تو طب میرا موضوع ہے اور نہ میں نے ترجمہ کو کتاب کی اصلی عربی عبارت سے ملایا ہے لیکن اس کتاب کو پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ جو بھی اس کتاب کا مطالعہ کرے گا اس کے نثری ادب کی عظمت کے سامنے سر تعظیم ضرور خم کرےگا۔ بہرحال یہ ترجمہ ہو گیا۔ میں ان سے واقف نہیں تھا، ان کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ان کا تعلق کردستان سے ہے۔ کچھ برس قبل مجھے ان کے انتقال کی اطلاع ملی۔
میں کردستان کے شعرا سے بھی آشنا ہوں جن میں جناب ستودہ مرحوم کا نام لیا جا سکتا ہے جو بڑے اچھے شاعر تھے۔ انقلاب کے اوائل سے ان سے میری آشنائی ہوئی یہاں تک کہ وہ بیمار ہوکر سنندج آ گئے اور بظاہر یہیں ان کا انتقال ہو گيا۔ اسی طرح گلشن کردستانی مرحوم ہیں جن سے ملاقات سے قبل ان کے شعر میری نظروں سےگزر چکے تھے۔ بعد میں ان سے ملاقات بھی ہوئی۔ تو یہاں کے لوگوں سے یہ میری مختصر آشنائی ہے۔ ویسے تو کردستان کی علمی شخصیات ایک نمایاں حقیقت کے طور پر ہمیشہ میرے ذہن میں موجود رہیں لیکن آج تو میں نے گویا ایک نمائش کا مشاہدہ کیا ہے جو میرے لئے بہت قیمتی اور گرانقدر ہے۔ کاش اتنا موقع ملتا کہ صوبے کی مزید علمی شخصیات کی یہاں تشریف آوری ہوتی اور ان کے ذہن و دل اور فکر و زبان سے آشنائی کا شرف حاصل ہوتا تو یہ یقینا میرے لئے بڑی خوشی و مسرت کی بات ہوتی۔ جو کچھ ہم نے یہاں دیکھا اور سمجھا ہے انشاء اللہ اسے ملک اور اس زرخیز صوبے کی ترقی کے لئے استعمال کریں گے۔ کردستان میں اب تک ان دو دنوں کے قیام میں جو گفتگو ہوئی اس میں زیادہ تر کرد عوام کی دلیری و شجاعت کا ذکر رہا۔ عوامی اجتماع میں بھی، فوجیوں سے ملاقات میں بھی اور دیگر شعبوں سے گفتگو کے دوران بھی۔ لیکن میں نے ایک چیز یہ محسوس کی کہ یہاں کے باشندوں اور ملک کے اس خطے کی دوسری بھی اہم خصوصیات ہیں جو یہاں کے لوگوں کی شجاعت و دلیری کی خصوصیات پر غالب ہیں۔ اس صوبے میں متعدد پر کشش چیزیں ہیں، خوش اخلاقی، خوش الحان ہونا، قدرتی خوبصورتی، شعری ذوق، اعلی درجے کا ادب، روشن خیالی، جذبہ ایمانی یہ چیزیں یہاں واضح طور پر نمایاں ہیں جن کی قدر کرنا چاہئے۔
خوش قسمتی سے اسلامی جمہوری نظام میں اس قیمتی پہلو کا خاص احترام و مقام ہے۔ اسلامی نظام کے تحت ہم ان قیمتی خصوصیات کی قدر کرتے ہیں اور ان روحانی و ثقافتی اقدار کو وہ جہاں کہیں بھی ہوں اہم سمجھتے ہیں۔ اصفہان میں ہوں، کردستان میں ہوں، فارس یا خراسان میں۔ ہمیں توقع یہ ہے کہ کردستان کی اہم شخصیات اپنے بیانات میں اس حقیقت کی نشاندہی کریں، جیسا کہ اس وقت آپ حضرات نے نشاندہی کی اور کرتے رہتے ہیں اور مجھے بھی اس کی اطلاع ہے۔ اسلامی نظام کی نظر میں تفریق و امتیاز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ نہ کردستان کے متعلق اور نہ ہی ملک کے کسی اور علاقے کے بارے میں۔ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ ہم قوموں اور نسلوں کے تنوع کو ملک کے لئے سنہری موقع سمجھتے ہیں، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ حقیقت میں قوموں کا تنوع ہماری نظر میں ایک اہم خصوصیت ہے۔ قوموں اور مکاتب فکر کے تنوع کو اسلامی جمہوری نظام تعصب کی نظر سے نہیں دیکھتا ، یہ نظام فرقہ پرستی اور جانبدارانہ نقطہ نظر پر یقین نہیں رکھتا۔ میں پوری سنجیدگی سے یہ اعلان کر رہا ہوں۔ یہ چیز نہ آج ہے اور نہ سنہ ساٹھ ہجری شمسی کے عشرے میں امام خمینی (رہ) کی زندگی میں کبھی ایسا ہوا ۔ اسلامی جمہوری نظام نے ہمیشہ اسلام اور ایرانی ماہیت کو اساس قرار دیکر اپنا راستہ معین کیا ہے۔ اس نقطہ نگاہ سے ملک کے کسی بھی حصے میں آباد تمام ایرانی اور مسلمان اہم اور گرانقدر ہیں۔ اسلامی جمہوری نظام اس نظریے کو پائدار بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ میری نظر میں یہ صوبہ ایک ثقافتی مرکز ہے۔ یہ بات میں بارہا کہہ چکا ہوں۔ ایسی کوششیں ہوئيں کہ اس صوبے کو فوجی علاقے میں تبدیل کر دیا گيا، چنانچہ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ ظاہر ہے یہ کام اسلامی جمہوریہ نے تو نہیں کیا اور نہ ہی وہ ایساکر سکتا ہے، تو پھر یہ کس نےکیا؟ یقینی طور پر یہ کوشش اسلامی جمہوری نظام کے دشمنوں کی تھی۔ انہوں نے پروپیگنڈہ کیا کہ اسلامی جہموری نظام کرد قوم اور مذہب اہل سنت کو پسند نہیں کرتا اور انہیں برداشت نہیں کرےگا۔ یہ سراسر جھوٹ تھا، حقیقت کے خلاف تھا۔ بعد میں سب کچھ سامنے آگیا اور سب نے دیکھا۔ یہ امتیازی سلوک تو شاہ کی طاغوتی حکومت کا تحفہ تھا۔ تفریق اس کی عادت و خصلت میں شامل تھی صرف کرد قوم ہی نہیں بلکہ ملک کی دیگر قوموں کے ساتھ بھی مختلف وجوہات کی بنا پر امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ اسلامی جہموری نظام نے اس روش اور طریقہ کار پر خط بطلان کھینچ دیا ۔ ظاہر ہے دشمن کو یہ چیز پسند نہیں آئی کیونکہ اس علاقے میں ان کے بہت سے مفادات کا انحصار اس بات پر تھا کہ اسلامی جمہوری نظام اپنی حقیقت کے ساتھ نافذ نہ ہونے پائے۔ بہت سی معاشی مشکلات اور حقیقی پسماندگیاں یہاں موجود ہیں۔ میں نے رپورٹوں میں بھی ان کے بارے میں پڑھا ہے اور یہاں تشریف فرما حضرات نے بھی ان کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے اور اس کے لئے راہ حل کی تلاش ضروری ہے لیکن یہ نتیجہ ہے ان شیطانی اقدامات اور اندھے عناد کا جس نے شروع میں ہی اس صوبے میں یہ حالات پیدا کر دئیے اور یہ سب کچھ دشمنوں کے اشارےپر ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی جمہوری نظام ان سب پر غالب آ چکا ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ عداوتیں ختم ہو گئی ہیں۔ ہماری اور آپ کی ذمہ داریاں بدستور موجود ہیں۔ ہم سب کو اجتماعی طور پر کوشش کرنا چاہئے کہ انسانی اور قدرتی وسائل سے سرشار اس با استعداد صوبے کو ملکی سطح پر اس مقام پر پہنچائیں جو اس کے شایان شان ہے۔ کچھ لوگ اس بات کے مخالف ہیں اور اس وقت بھی اپنا کام کر رہے ہیں۔ میں اس علمی مجمع میں تکلیف دہ باتیں نہیں بیان کرنا چاہتا لیکن یہ حقیقت ہے۔ آپ مختصر الفاظ میں اتنا سن لیجئے کہ دشمن اپنے کام میں مصروف ہیں۔ اس وقت بھی ہماری سرحدوں کے اس پار جس کی جانب میں نے کل بھی اشارہ کیا تھا، سامراج کی خفیہ ایجنسیاں آشکارا سرگرم عمل ہیں یعنی سی آئی اے عراق کے کردستان کےعلاقے میں با ضابطہ طور پر اعلانیہ سرگرم عمل ہے، اس کی کوششیں ہر اس گروہ اور دھڑے پر مرکوز ہیں جنہیں وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔ یہ کوئی تجزیہ اور قیاس نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی رپورٹ ہے۔ یہ وہ اطلاعات ہیں جو ہمارے پاس موجود ہیں۔ یہ بات ہماری ہوشیاری و دانشمندی کا تقاضا کرتی ہے۔ اداروں کو الرٹ رہنا چاہئے۔ عوام سے بھی ہمیں کچھ توقعات ہیں لیکن ملک کی اہم شخصیات اور علاقے کے ممتاز لوگوں سے زیادہ توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں۔ آپ لوگ درد کو بھی سمجھتے اور پہچانتے ہیں اور اس کے علاج سے بھی واقف ہیں۔ اپنی وسیع النظری سے آپ بہت سے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں تو آپ سے توقعات بھی زیادہ ہیں۔ اسلامی نظام نے ایک نیا پیغام دیا ہے اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں اور مخالفوں کے پروپیگنڈوں کے برخلاف اسلامی جمہوریہ نہ کسی کودشمن بناتاہے نہ کشیدگی پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے نہ تنازعہ کھڑا کرتا اور نہ ہی سر درد مول لیتا ہے۔ اگر کوئی سردرد ہے تو وہ در حقیقت اسلامی جمہوری نظام کی ماہیت کی بنا پر پیدا کیا گیا ہے۔ یہ ماہیت دنیا کے امور میں آزاد موقف رکھنےاور چھوٹے بڑے کسی بھی معاملے میں بڑی طاقتوں کے دباؤ میں نہ آنے کی وجہ سے ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے، یہ اسلام کا سبق ہے، یہ وہی حکم ہے جو اسلام نے ہمیں یاددیا ہے۔ اسلام نہیں چاہتا کہ مسلمان قوم اپنے مؤقف، اپنے اقدامات، اپنی پالیسیوں اور اپنے فیصلوں میں کسی ایسے مرکز کے تابع ہو جو سامراجی مفادات کا حامل ہے۔ مسلمان قوم کو اس بات پر توجہ مبول کرنی چاہئے جو اسلام اور پوری قوم کے مفادات کی حامل ہو اسی کے مطابق عمل کرنا حکام کا فریضہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم تسلط پسند سامراجی طاقتوں کی پالیسیوں سے متاثر نہیں ہوئے۔ مختلف معاملات میں ان کا مؤقف کچھ ہوتا تھا اور اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف کچھ اور ہوتا تھا۔ یہ چیز ان کے لئے قابل برداشت نہیں ہے۔ اسی بنا پر وہ دشمنی اور عناد پر اتر آئے اور اسلامی جمہوریہ ایران بھی اپنا دفاع کرنے پر مجبور ہوگيا۔ استقامت اور خود مختاری کی یہی خصوصیت ہےکہ سامراجی طاقتوں کا اس سے ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ایرانی قوم بھی ایسی حکومت تشکیل دیتی جو ہمیشہ دوسروں کے دباؤ میں کام کرتی۔ ایسی صورت میں ٹکراؤ پیدا نہ ہوتا لیکن پھر ٹکراؤ ہی کا خاتمہ نہ ہوتا بلکہ دوسری بھی بہت سی چیزیں ختم ہو جاتیں۔ اس صورت میں قومی وقار کا کوئی وجود نہ ہوتا، قومی ترقی اور پیشرفت کا کوئی نام و نشان نہ ہوتا، جیسا کہ ہم طاغوتی دور میں بھی اس چیز کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔ جو اعداد و شمار اس دن میں نے شہر کے مرکزی اسکوائر پر عوامی اجتماع سے خطاب میں پیش کئے وہ عبرت ناک ہیں۔ بے شمار وسائل سے مالامال آپ کے اس صوبے میں تیس سال قبل طلباء کی تعداد تین سو پیسنٹھ تھی، یہ سرکاری ریکارڈ میں موجود اعداد و شمار ہیں۔ صوبے میں خواندگی کی شرح انتیس فیصد تھی۔ ہاں اس وقت وہ مشکلات نہیں تھیں جن کے بارے میں آج تصور کیا جاتا ہے کہ صوبے میں موجود ہیں لیکن کیا یہ حالت اور یہ محرومی برداشت کی جا سکتی تھی؟ اسی سے آپ پوری ایرانی قوم کی حالت کا اندازہ لگا لیجئے۔ ہر جگہ یہی حالت تھی۔
طاغوتی دور کے حالات، ایسے لوگوں نے اپنی کتابوں میں لکھے ہیں جو اقتدار کا حصہ تھے ، جنہیں پڑھ کر انسان شرمسار ہو جاتا ہے۔ وزیر اعظم کے انتخاب، داخلی امور سے متعلق فیصلو اور ملک کے بنیادی مؤقف کے سلسلے میں ملک کے اعلی عہدہ دار اور منصوبہ ساز، امریکہ اور برطانیہ کے سفرا کی رائے لینے پر مجبور تھے کہ کہیں کچھ ان کی مرضی کے خلاف تو نہیں ہو رہا ہے۔ یہ ایسی باتیں نہیں ہیں جو شاہی حکومت کے مخالفین نے بیان کی ہوں بلکہ یہ خود انہی لوگوں کی لکھی ہوئی باتیں ہیں۔ ویسے یہ چیزیں ان دستاویزات میں بھی موجود ہیں جو ہمیں حاصل ہوئیں، تاہم اب خود وہ لوگ بھی یہ چیزیں واضح طور پر لکھ رہے ہیں۔ آج کل میں ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا ہوں جسے پڑھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ کہاں تو وہ قومی وقار، قومی حمیت، ایرانی شناخت پر فخر کااحساس ، کہاں اس قوم پر اعتماد جو درخشاں تاریخ کی مالک ہے؟! اور کہاں شاہی دور کے حالات، شاہ کے طاغوتی دور میں ان سب کا کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا۔ اسلامی جمہوری نظام نے اس بساط کو لپیٹ دیا۔ ہمیں اس چیز کو گرانقدر، نمایاں اور حیرت ناک حقیقت کے طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صوبے کی علمی شخصیات اور دانشور اس سلسلے میں جو در حقیقت ایک سیاسی و ثقافتی معاملہ ہے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ علمی شخصیتیں تیار کرنا بھی دانشوروں کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں کچھ ذمہ داریاں حکومتی اداروں کی بھی ہیں جس پر انہیں توجہ دینا چاہئے اور انشاء اللہ توجہ دی جائے گی تاہم کچھ ذمہ داریاں خود علمی شخصیات، دانشور طبقہ، اساتذہ اور دین و مذہب اور ادب و ثقافت کی تعلیم دینے والوں پر بھی عائد ہوتی ہیں۔
آپ اس بات کو ذہن نشین کر لیجئے کہ متحد، پیشرفتہ اور اعلی اہداف کی طرف گامزن ایران کو دیکھ کر دشمن برہم اور تشویش میں مبتلا ہیں، وہ اسے برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں لیکن یہ چیز اسلام کے زیر سایہ آج ایک حقیقت کے طور پر نمایاں ہے جو ہمارےدین اور قوم کے افراد کے درمیان بنیادی روحانی رابطے کا عنصر ہے۔ وہ اس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ اب تک دشمن کو اس میں کامیابی نہیں ملی ہے اور آئندہ بھی نہیں ملے گی، لیکن بہرحال ان کی سازشوں سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ میرے خیال میں ممتازعلمی شخصیات اور مفکرین پر اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
میرے لئے یہ جلسہ بڑا اہم اور مفید ثابت ہوا۔ آپ سے جان پہجان کا موقع بھی ملا اور آپ کی مفید اور تعمیری تجاویز کو بھی سنا۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ جلسہ کردستان اور ملک کے مستقبل کے سلسلے میں اللہ تعالی کے لطف و کرم سے مفید اور مثمر ثمر واقع ہوگا۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏