ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا سنندج کے آزادی اسکوائر میں ایک عظیم الشّان عوامی اجتماع سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ و السّلام علی ٰ سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد وعلی ٰ آلہ الطیّبین الطّاہرین وصحبہ المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین

میں بہت مسرور ہوں اور خداوند متعال کا انتہائی شکر گزار ہوں جس نے ایک طویل عرصے کے بعد اس سربلند صوبے اور آپ عزیز اور وفادار لوگوں کے درمیان حاضر ہونے کی توفیق عنایت فرمائی ۔ صوبہ کردستان ، عظیم قربانیوں کی سرزمین ہے ؛ ہنر و ثقافت کی سرزمین ہے ؛ ایسے وفادار لوگوں کی سرزمین ہے جنہوں نے اس نظام حکومت کے حسّاس ترین برسوں میں اپنی مردانگی ، دلیر ی و شجاعت کے ذریعہ بڑی بڑی سازشوں کو ناکام بنایا ۔ یہ ایسے فہیم اور آگاہ لوگوں کی سرزمین ہے جنہوں نے بہت ہی نازک لمحات میں دشمن کی سازشوں کو محسوس کیا اور اپنی قربانی کےذریعہ ان فتنوں کو اپنے ناپاک مقاصد تک پہنچنے سے پہلے ، طشت از بام کیا ۔ ایرانی قوم اسے ہر گز فراموش نہیں کر ے گی ۔ صوبہ کردستان کو ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ میں وہ نمایاں مقام حاصل ہے جس کی مثال دوسرے کسی صوبے میں کم ہی دکھائی دیتی ہے ۔

میرے عزیزو!میرے بھائیواور بہنو!جب اس سرزمین پر اسلامی انقلاب کی کامیابی کا سورج طلوع ہوا تو کچھ لوگ ملک میں داخلی جنگ چھیڑنے کے درپے تھے ، وہ برادر کشی کا بازار گرم کرنا چاہتے تھے ۔ عالمی استکبار اور ستم پیشہ طاقتیں بھی اس بات سے سخت پریشان اور برہم تھیں کہ اس خطّے میں ، مذہبی عقائد اور دین پر استوار ایک مستقل طاقت سر اٹھا رہی ہے ، لہٰذا انہوں نے اس کا مقابلہ کرنے کے لئیے اپنی پوری طاقت میدان میں جھونک دی ، انہیں یہ امّید تھی کہ شاید اس کے ذریعہ وہ اس نومولود طاقت کو اس کے ابتدائی مرحلے میں ہی نیست و نابود کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ اس امتحان میں کرد قوم نے بخوبی اپنا کردار ادا کیا ، میں نے صوبہ کردستان کو نزدیک سے دیکھا ہے ، اس پر آشوب اور سخت دور میں ، میں نے اس صوبے کے عوام کی استقامت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ صوبہ کردستان کے بارے میں جو بھی عرض کر رہا ہوں اس کا تعلّق میرے ذاتی مشاہدات و اطّلاعات سے ہے ۔ البتہ انقلاب کی تحریک اور جنگ کے دوران آپ کی بے مثال استقامت اور مزاحمت ،شہرہ عام و خاص ہے ۔

میرے عزیزو!انقلاب کے آغاز میں ایک گندی اور ناپاک سیاست نے اس بات کی کوشش کی کہ مختلف ایرانی قوموں کو مختلف بہانوں سے ایک دوسر ے سے جد ا کر دیا جائے ؛ ایرانی قوم کے عظیم پیکر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے جائیں ؛ اس غرض سے ، فارس، ترک ، کرد، ترکمن ، عرب ، بلوچ اور لورمیں سے ہر قوم کے دل میں طرح طرح کے شیطانی وسوسے ڈالے جا رہے تھے تاکہ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی کدورت کا زہر بھرا جاسکے ۔ اہل تہران و اصفہان سے ایک بات کہی جاتی تھی تو صوبہ بلوچستان کے بلوچی اور صوبہ کردستان کے کردوں سے ایک دوسری بات کہی جاتی تھی ۔ اس دور میں نہایت ہوشیاری اور چوکسی کی ضرورت تھی تاکہ ایرانی قوم اپنے اس عظیم فریضہ اور رسالت کو ادا کرنے کے لئیے قیام کر سکے جو پر چم اسلام لہرانے کی وجہ سے اس کے کندھوں پر آن پڑی تھی ۔ اس ملک کے ہر گوشے میں ایرانی قوم نے اپنی جد و جہد کے بے شمار عظیم کارنامے پیش کئیے ہیں ؛صوبہ کردستان کے عوام نے بھی اس عظیم جد و جہد میں بھر پور کردار اداکیا ہے ، یہ وہ چیز ہے جو ہمیشہ اس ملک کی تاریخ کے حافظے میں محفوظ رہے گی ۔

صوبہ کردستان ایک ثقافتی صوبہ ہے ، آپ اس صوبے کی سر سبز و شادا ب طبیعت پر ایک نظر دوڑائیے ، اس صوبہ کے مہربان اور پاک دل عوام کو دیکھئیے ، اس صوبے کی تاریخ پر نگاہ ڈالئیے ، آج بھی اس صوبے میں علماء ، شعراء ، صاحبان ثقافت و ہنر کی ایک بہت بڑی تعدادآپ کو دکھائی دے گی ؛ یہ سب چیزیں اس بات کی غمّاز ہیں کہ یہ صوبہ ایک ثقافتی صوبہ ہے ۔

انقلاب کے مخالفوں اور اسلام کے دشمنوں نے اوائل انقلاب میں اس صوبے کے امن و امان میں خلل ڈالنے کی کوشش کی ، اس مشکل پر قابو پانا آسان نہیں تھا لیکن آپ کے تعاون سے اس طاقتور نظام حکومت نے اس پر قابو پایا ، وہ لوگ اس قوم کے اجزاء کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کے درپے تھے ، وہ فارس، کرد اور ترک قوم میں فاصلہ پیدا کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں اپنے اس ناپاک مقصد میں کامیابی نہیں ملی "وما یمکرون الاّ بانفسہم وما یشعرون "(۱)ان کی مکّاری کا اثر خود ان کی طرف لوٹ گیا ۔آپ کرد بھائی بہن یہ جان لیجئیے ، انقلاب کے شروع کے برسوں میں ملک کے دور دراز گوشوں سے جو بھی یہاں آیا اور چند دن یہاں بسر کئیے اسے اس صوبے کے عوام سے قلبی لگاؤ ہو گیا ،وہ پر جوش ، پر عزم جوان جو صوبہ تہران ، خراسان ، اصفہان ، فارس یا ملک کے دیگر صوبہ جات سے یہاں آتے تھے اور سنندج ، سقز ، مریوان یا اس صوبے کے دیگر مقامات پر کچھ دن گزارتے تھے جب وہ یہاں سے لوٹ کر جاتے تھے تو یہاں کے لوگوں کی محبّت کے سفیر بن کر جاتے تھے ،ان لوگوں کی دلی محبّت کو ساتھ لے کر جاتے تھے ،یہ کرد عوام کے محبّت آمیز سلوک کا انعکاس ہی ہے جس کی بنا پر ہم اس صوبے کو ایک ثقافتی صوبہ کہہ رہےہیں ۔ اس قضیہ کا دوسرا رخ بھی درست ہے ، ابھی یہاں کے لوگوں کے دلوں میں ان دلیر و شجاع جوانوں کی یاد تازہ ہے جو ملک کے دیگر مقامات سے یہاں آئے اور ایثار و قربانی کے بے مثال کارنامے انجام دیئے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہاں کے لوگوں کے دلوں میں شہید کاوا ، شہید صیّاد ، شہید متوسّلیان ، ناصر کاظمی ، شہید احمد کاظمی ، شہید بروجردی کی یادآج بھی زندہ ہے جنہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کچھ دن یہاں بسر کئیے ۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ دشمن اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوا ۔

البتہ میں آپ سے عرض کردوں کہ دشمن ہر گز چین سے نہیں بیٹھا ہے ۔ طاغوتی دور حکومت میں ایک خبیث سیاست ہمارے ملک پر حکم فرما تھی اور وہ سیاست یہ تھی کہ مختلف قوموں کو اغیاراور اجنبی سمجھا جاتا تھا ؛ کردوں ، بلوچوں ، ترکوں ، عربوں اور ترکمنوں کو بیگانہ سمجھا جاتا تھا ۔ اس حکومت کے اعمال و کردار میں بھی یہی چیز نمایاں تھی ۔ آپ ملاحظہ کیجئیے کہ اس دور میں اس صوبے میں نہ توکوئی قابل ذکر ترقیاتی کام انجام پایا اور نہ ہی کوئی نمایاں ثقافتی کا م انجام دیا گیا ۔ انہیں اس صوبے سے کوئی سروکار نہیں تھا ۔ طاغوت کے دور حکومت میں اس صوبے میں ترقی نہ ہونے کے برابر تھی ، ثقافتی امور کا بھی یہی عالم تھا ۔ آج آپ مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اس صوبے میں پچّاس ہزار کے قریب طلباء ، بیس سے زیادہ اعلیٰ تعلیمی مراکز میں زیر تعلیم ہیں ، طاغوت کے دور حکومت میں یہ تعداد تین سو ساٹھ طلباء تک محدود تھی ! خواندگی کی شرح بھی بہت افسوسناک تھی ، اس صوبے کے محض انتیس فیصد لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے!چونکہ طاغوتی حکومت نہیں چاہتی تھی کہ اس صوبے کے بااستعداد ، ذہین و فہیم لوگ تعلیم سے مستفید ہوں ، اس خصوصیت اور کیفیت کے حامل صوبے میں صرف انتیس فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے ! ان کی ترقّیاتی اور ثقافتی کارکردگی ، دونوں آپ کے سامنے ہیں !اس صوبے کے بارے میں ان کا طرز فکر ایک شیطانی اور غلط طرز فکر تھا ۔ اسلامی نظام کے بر سر اقتدار آنے کے بعد نہ صرف حکام کی سوچ میں تبدیلی رونما ہوئی بلکہ عوام الناس کے طرز فکر میں بھی نمایاں تبدیلی واقع ہوئی ۔

میرے عزیزو! سب جان لیں کہ اسلامی نظام حکومت اس عظیم اورسرفراز ملک میں مختلف قوموں کے وجود کو ایک سنہری موقع سمجھتا ہے ۔ مختلف آداب و رسوم ، عادات و اطوار، گونا گوں صلاحیتیں اس بات کا موقع فراہم کرتی ہیں کہ رواداری ، بھائی چارگی اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایرانی قوم کے مختلف اجزاایک دوسرے کے نقائص کا ازالہ کر سکیں۔ ہماری قوم کے لئیے یہ فخر کا مقام ہے کہ وہ قوموں کےتنوّع کو اس نگاہ سے دیکھتی ہے اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس نظام کے الہام کا اصلی منبع ، اسلام ہے ۔اسلام کے نقطہ نظر سے مختلف ملّتوں کی مختلف نسلوں اور زبانوں میں کوئی فرق نہیں چہ جائیکہ ان قوموں کا تعلّق ایک ہی ملّت سے ہو ۔ اسلا م کا نقطہ نظر یہ ہے اور اسلامی نظام کا نظریہ بھی یہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم صوبہ کردستان اور دیگر قوموں کے محل سکونت کو اسلامی نظر سے دیکھتے ہیں ، اسلام ، برادری ، اتحاداورہمدردی کا درس دیتا ہے ۔ جو شخص بھی اس نظریے کا مخالف ہو اور کسی دوسرے طریقہ کار کو اپنائے وہ اسلامی نطام حکومت کی پالیسی کے بر خلاف عمل کر رہا ہے ۔ سبھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ اسلامی نظام اس صوبے کے عوام کو اپنا حصّہ سمجھتا ہے ؛ انہیں انقلاب کا وفادار اور اس کا سپاہی سمجھتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں جب دشمن کے کچھ زر خرید عناصر یہاں اور کچھ دیگر مقامات پر کردوں کی نام نہاد نمائندگی کے عنوان سے ایسی بیہودہ باتیں زبان پر لا رہے تھے جن کی خبر کردوں کی روح تک کو نہیں تھی ، اس دور میں جب دشمن کے شیطنت آمیز ہاتھ ، اس صوبے میں برادر کشی کا بازار گرم کرنے کے درپے تھے ، اس دور میں خود یہاں کے عوام نے آگے بڑھ کر ان سازشوں کا مقابلہ کیا اور ان کا منہ توڑ جواب دیا ۔ جن لوگوں نے یہاں کے مؤمن مجاہدوں کے جذبہ ایثار و شہادت کو دیکھا ہے وہ اسے ہر گز فراموش نہیں کرسکتے ۔ میں اس صوبے کے شہداء (جن کی تعداد پانچ ہزار چار سو ہے ) پر درود وسلام بھیجتا ہوں اسی طرح شہداء کے گھرانوں اور ان مجاہدوں پر بھی درود و سلام بھیجتا ہوں جو آج بھی بقید حیات ہیں ۔ اور خداوند متعال سے ان سب کے لئے رحمت و بخشش کا طالب ہوں ۔

آج ہم کچھ ایسے گھرانوں سے روبرو ہیں جنہوں نے اس مقدّس پیکار کی راہ میں اپنے فر زندوں کی قربانی پیش کی ہے ، اور کچھ ایسے گھرانے بھی ہیں جن کے بچّوں نے دشمنوں کا فریب کھایا ، وہ بھی مصیبت زدہ ہیں ، ہمیں ان سے بھی ہمدردی ہے ، ان گھرانوں کے جوانوں کو دشمن نے فریب دیا اور ان کے خون کو امریکہ اور صیہونیوں کے ناجائزمقاصد کے حصول کے لئیے استعمال کیا ، ان بیچارے گھرانوں کا بھی کچھ قصور نہیں ، یہ بھی اپنے جوانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، ان میں سے بہت سے خاندان ایسے ہیں جو انہیں بھلا چکے ہیں ۔ ہمیں ان گھرانوں سے بھی ہمدردی ہے ۔ یہ وہ عظیم نقصان ہے جو انقلاب مخالف عناصر نے اس صوبے پر مسلط کیا ہے ۔

انقلاب مخالف عناصر کے ان اقدامات کی وجہ سے زمانے کے ایک خاص حصّے میں ، اس صوبے کی تعمیر و ترقّی کا سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا اور اس میں خلل واقع ہوا۔آپ کا صوبہ کئی اعتبار سے استعداد اور صلاحیّت سے سرشار صوبہ ہے ۔ یہاں بہت سے میدانوں میں سرمایہ کاری ہو سکتی ہے ؛ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی برسوں میں یہ طے پایا تھا کہ اس صوبے میں بڑے بڑے ترقّیاتی منصوبوں پر کام شروع کیا جائے ،انقلاب کونسل کی طرف سے سب سے پہلا گروہ صوبہ کردستان آیا اور یہ اس دور کی بات ہے جب" جہاد سازندگی "نامی ادارہ ابھی معرض وجود میں بھی نہیں آیا تھا ۔ آیۃاللہ شہید بہشتی رضوان اللہ تعالی ٰ علیہ (جو اس دور میں انقلاب کونسل کے سربراہ تھے) نے اس دور میں اس صوبے میں ترقیاتی مواقع کا جائزہ لینے کے لئیے ایک گروہ یہا ں بھیجا ۔چونکہ اسلامی حکومت ، اس سوتیلے سلوک سے اچھی طرح واقف تھی جو گزشتہ منحوس پہلوی حکو مت نے ملک کے دور درازصوبو ں اور مختلف قوموں ، زبانوں ولہجوں سے روا رکھا تھا ؛ یہ حکومت اس کی تلافی کرنا چاہتی تھی ؛لیکن افسوس کہ انقلاب مخالف عناصر نے اسلامی حکومت سے کچھ مدّت کے لئیے یہ سنہری موقع چھین لیا ۔ مجھے معلوم ہے ، میں جانتا ہوں کہ الحمدللہ گزشتہ برسوں میں اس صوبے میں بہت ہی گرانقدر اور عظیم خدمات انجام پائی ہیں جن کا تصوّر بھی ایک دور میں ناممکن تھا ، اس عرصے میں اس صوبے میں اتنے زیادہ ترقّیاتی کام انجام پائے ہیں جن کی ایک طویل فہرست ہے ، سڑکیں اور ڈیم تعمیر کئیے گئے ہیں ، بجلی اور پانی کی سپلائی کے نظام کو بہتر بنایا گیا ہے ، مواصلاتی نظام کو بہتر سہولتوں سے آراستہ کیا گیا ہے ۔ حال حاضر میں اس صوبے میں انیس ڈیموں کی تعمیر پر کام جاری ہے ، ایک دور میں کسی کے تصوّر بھی یہ نہیں آتا تھا کہ ایک دن یہ کام انجام پائیں گے لیکن آج ہم اپنی آنکھوں سے تکمیل کے مراحل کا مشاہدہ کر رہے ہیں ، لیکن جو کیا جاسکتا تھا اور جسے ہونا چاہئیے تھا وہ اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ اس صوبے میں بہت سے کام نہیں ہوئے ہیں ، حکام کو اپنی پوری توجّہ ان کاموں پر مرکوز کرنی چاہئیے ۔

اس صوبے میں آج بھی بہت سی ایسی مشکلات ہیں جن کا فوری ازالہ ہونا چاہئیے ، جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے اور محسوس کیا ہےاس صوبے کی دو بڑی مشکلیں ہیں ایک مشکل بے روزگاری اور دوسری مشکل سرمایہ کاری ؛ بے روزگاری کا مسئلہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے ، اس صوبے میں بے روزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے حالانکہ اس صوبے میں کام کے لئیے آمادہ جوان بہت زیادہ ہیں ۔ اس سلسلے میں کچھ اچھے قدم اٹھائے گئے ہیں لیکن یہ ناکافی ہیں ان میں مزید اضافہ کی ضرورت ہے ۔خداوند متعال کا انتہائی شکر گزار ہوں کہ ماضی کی طاغوتی حکومتوں کے بر خلاف آج کی حکومتیں خود چل کر عوام کے پاس جاتی ہیں ، ایک دور میں لوگ ، لاکھ صعوبتیں برداشت کر کے حکومت کے پاس پہنچتے تھے لیکن آج اسلام کی برکت سے حکومتیں خود ، مختلف شہروں ، صوبوں اور دور افتادہ علاقوں کا دورہ کرتی ہیں ، صدر جمہوریہ وہاں کا دورہ کرتےہیں ، مختلف وزراء وہاں جاتے ہیں ، مختلف حکام وہاں جاتے ہیں ، ان میں سے بعض علاقوں کے لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ گزشتہ دور میں یہاں ہم نے کسی ادارے کے اعلیٰ عہدیدار کی صورت نہیں دیکھی تھی جہاں آج ہمیں صدر جمہوریہ کی زیارت نصیب ہو رہی ہے !یہ لوگ سچ بول رہے ہیں ۔ یہ اسلام کی دین ہے۔ دین اسلام ، حکومتوں پر یہ ذمّہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ سب سے مشکل کاموں اور سب سے کمزور طبقات پر اپنی توجہ مرکوز کریں ؛ خوش نصیبی سے آج اس پر عمل ہو رہا ہے ، میں خداوند متعال کا انتہائی شکر گزار ہوں ۔

اپنی تقریر کے اس حصّے کے آخر میں آپ سے یہ عرض کر تا چلوں : میرے عزیز جوان یہ جان لیں کہ سامراج کی سازشیں ناکام ضرور ہوئی ہیں لیکن ان کا خاتمہ نہیں ہوا ۔ صاحبان ایمان کی ہوشیاری اور ملک کے حکام کی ہمہ تن آمادگی نے اس صوبے اور اس جیسے دیگر مسائل میں دشمن کی سازشو ں کو ناکام ضرورکیا ہے ؛ لیکن یہ تصوّر نہیں کرنا چاہیے کہ دشمن اپنی حرکتوں سے باز آگیا ہے اور خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے اور اپنے ناپاک عزائم سے دست بردار ہو چکا ہے ؛ ایسا ہر گز نہیں ،اس ہوشیاری کو جاری رکھنا چاہئیے ۔ آپ جان لیجئیے !کہ ایران کے دشمن ایران کی سالمیت اور یکجہتی کے مخالف ہیں ۔ وہ استعماری طاقتیں جنہوں نے دنیا کے اکثر ممالک اور حکومتوں پر اپنا سیاسی اثر و رسوخ قائم کر رکھا ہے لیکن آج تک اس اسلامی حکومت کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور نہیں کر سکی ہیں جو مؤمن اور شجاع عوام کی حمایت پر استوار ہے ، وہ طاقتیں اس صور ت حال سے سخت برہم ہیں ۔ یہ طاقتیں اپنا طریقہ کار تو بدلتی رہتی ہیں لیکن اپنے ناجائز مقاصد سے دست بردار نہیں ہوتیں ؛ جوانوں کو ہوشیار رہنا چاہئیے ؛ ہر فرد کو ہوشیاری اور بیداری کا ثبوت دینا چاہئیے؛ حکام کو بھی ہوشیار رہنا چاہئیے ؛ ہم ہر قیمت پر اپنے ملک کی سالمیت اور بقا کا دفاع کریں گے ؛ ہم اپنی پوری طاقت سے اسلام کا دفاع کریں گے ؛ہم ماضی میں نہ تو کبھی دشمن کی گیدڑ بھبکیوں سے ڈرے ہیں اور نہ پیچھے ہٹے ہیں اور نہ ہی مستقبل میں اس سے خائف ہو ں گے اور پسپائی اختیار کریں گے ۔

میں اس سلسلے میں ایک بنیادی نوعیّت کی چیز کی طرف اشارہ کرتا چلوں ۔ عزیزبھائیواور بہنو!اسلام نے ایک سربلند اور متحرک معاشرے کی خصوصیّات کو بیان کیا ہے اور طول تاریخ میں مسلمانوں اور امت اسلامیہ کے لئیے ان خصوصیات تک پہنچنے کا راستہ معیّن کیا ہے ۔ ان میں اسے ایک خصوصیت "قومی عزّت و وقار " ہے ؛ جیسا کہ ہر شخص کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے عزّت و وقار حاصل ہو بالکل ویسے ہی ہر قوم کی ایک بڑی خواہش یہ ہوتی ہے اسے عزّت و وقار نصیب ہو ، اسے کبھی بھی ذلت و حقارت کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔ قومی عزّت و وقار کا مطلب کیا ہے ؟ قومی عزّت و وقار کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قوم اپنے اندر ذلت و حقارت محسوس نہ کرے۔ احساس عزّت کا مخالف نقطہ ، احساس ذلت و حقارت ہے ؛ کسی بھی قوم کے لئیے یہ بہت ضروری ہے کہ جب وہ اپنے اندر جھانک کر دیکھے ، اپنے سرمایے کی طرف نگاہ اٹھائے ، اپنی تاریخ اور تاریخی ورثے کو مڑ کر دیکھے ، اپنے فکری اور انسانی سرمایے کو دیکھے تو اس کے اندر عزّت اور غرور کا احساس پیدا ہو ، ذلت و حقارت کا احساس پیدا نہ ہو ۔ قرآن مجید نے متعدّد مقامات پر اس کی طرف اشارہ کیا ہے " یقولون لئن رجعنا الی المدینۃ لیخرجنّ الاعزّ منھا الاذلّ و للہ العزّۃ ولرسولہ و للمؤمنین و لٰکن المنافقین لا یعلمون " ؛(۲)منافق اندر ہی اندر یہ سرگوشیاں کر رہے تھے کہ ہم عزیز ہیں اور ان ذلیل افراد (مسلمانوں )کو مدینے سے نکال باہر کریں گے !خداوندمتعال نے پیغمبر اسلام (ص)پر وحی نازل کی کہ جیسا یہ کہہ رہے ہیں ویسا نہیں ہے ،لیکن یہ منافق نہیں جانتے اور نہیں سمجھتے کہ اہل ایمان ہی عزیز ہیں ؛ ساری عزّت ، اللہ ،اس کے رسول اور صاحبان ایمان کے لئیے ہے ۔قومی عزّت و وقار ، ایک ایسا درخشاں نشان ہے جسے ہمیشہ ، امت اسلامیہ کی نگاہوں کے سامنے رہنا چاہئیے ۔اگر کسی قوم میں عزّت کا احساس نہ پایا جاتا ہو ، یعنی وہ قوم اپنے سرمایے ، اپنے آداب و سنن ، اپنی زبان ، اپنی تاریخ ، اپنی نامور شخصیات اور بزرگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہو ،اور احساس کمتری کا شکار ہو تو ایسی قوم نہایت آسانی سے اغیار کے چنگل میں پھنس جاتی ہے ۔

سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں جب مغربی سامراج نے مشرقی سرزمین (جس میں اسلامی سرزمین بھی شامل ہے ) پر قدم رکھا تو یہاں کی قوموں پر تسلط حاصل کرنے اور انہیں اپنا غلام بنانے کےلئیے ، ان قوموں میں اپنے ماضی ، اپنی پونجی ، اپنے مذہب ، اپنے آداب و رسوم اور لباس کے بارے میں بد گمانی پھیلانا شروع کر دی ۔یہ چیز سبق آموز ہے ؛ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ تحریک مشروطیت کے آغاز میں اس ملک کے ایک نام نہاد روشن فکر نے یہ نعرہ بلند کیا کہ ہر ایرانی کو سر سے پیر تک مغربی رنگ میں رنگنا چاہئیے !اسے اپنے دین و مذہب ، اپنے اخلاق ، اپنے لباس ، اپنے رسم الخط ،اپنے ماضی اور قابل فخر چیزوں سے دست بردار ہونا چاہئیے ، انہیں بھول جانا چاہئیے ! اور مغربی ثقافت ، مغربی آداب و رسوم ،مغربی طرز فکراور طریقہ کار کو اپنانا چاہئیے ! اس ملک میں کھلے عام یہ اعلان کیا گیا ۔اس ملک میں اس ذلت آمیز آواز کو ایسے افراد نے بلند کیا جو دین سے منہ موڑ چکے تھے ؛ اور یہ واضح ہے کہ جب کوئی ملک اپنی تمام چیزوں سے ہاتھ دھو بیٹھےاور اند ر سے خالی ہوجائے تو برطانوی سامراج نہایت آسانی سے اس کے تیل ، اس کی فوج ، اس کے خزانے اور سیاسی مشینری پر قابض ہو سکتا ہے ۔ منحوس پہلوی دور حکومت میں عالم یہ تھا کہ اس ملک کا خائن بادشاہ جب کسی شخص کو وزیر اعظم کے طور پر متعارف کرانا چاہتا تھا تو سب سے پہلے برطانوی سفیر اور اپنے آخری دور میں امریکی سفیر سے مشورہ کرنے اور اس سے اجازت طلب کرنے پر مجبور تھا ۔ یہ ہمارے ماضی کی دردناک تاریخ ہے ۔اس سے قوم کے عزّت و وقا ر پر حرف آتا ہے ۔ بد عنوان اور وابستہ ڈکٹیٹرحکومتوں نے ایرانی قوم کے عزّت و وقار کا سودا کیا ؛ اس ملک کی علمی اور دنیوی پیشرفت تو درکنار، ا ن لوگوں نےاس ملک کی عقبی ٰ کو بھی برباد کیا ؛ اس قوم کو ذلت و غلامی کا لباس پہنایا ، اسلامی انقلاب نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئیے قیام کیا ، اس عظیم مصیبت کے سامنے اسلامی انقلاب اور امام امّت نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور ایرانی قوم نے اس راہ میں بے شمار قربانیاں پیش کیں اور اسے کامیابی سے ہمکنار کیا ۔

جب کسی قوم پر ایسی صورت حال حکم فرما ہو تو یہ فطری بات ہے کہ اس ملک کی سیاسی مشینری اور عوام میں غلامی اور نوکر مآبی کی صفت جلوہ گر ہوتی ہے ؛ اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے ملک کے حکمران ، اپنے عوام کے سامنے ، پھاڑ کھانے والے کتے اور خونخوار بھڑئیے کی طرح ہوتے ہیں لیکن دشمنوں کے سامنے بھیگی بلی بنے نظر آتے ہیں "اسد علیّ و فی الحرب نعامۃ"(ایک عربی ضرب المثل ہے )مجھ پر تو شیر ہو لیکن لڑائی میں شتر مرغ ۔ وہی رضا خان جس نے اپنے دور اقتدار میں بالخصوص اس کے دوسرے حصّے میں ایرانی عوام پر بے پناہ مظالم ڈھائے ، جس کی وجہ سے لوگ سانس بھی نہیں لے پارہے تھے ، باپ کو بیٹے اور بیٹے کو باپ پر بھروسہ نہیں ہو ا کرتا تھا ، یہی رضاخان ، برطانوی حکومت کے ایک معمولی سے پیغام (جس میں اس سے سلطنت چھوڑنے کے لئیے کہا گیا تھا )پر مردہ چوہے کی طرح سلطنت چھوڑ کا بیرون ملک بھاگ کھڑا ہوا ۔اسی طرح ، محمّد رضا پہلوی ، جس نے چالیس اور پچّاس ہجری شمسی کے عشرے میں اس ملک کے مجاہدوں اور حریت پسندوں پر بے تحاشا مظالم ڈھائے اور سنگدلی کا عجیب مظاہرہ کیا ، یہی محمّد رضا خان امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں کے سامنے انتہائی خاضع و خاشع تھا اور ان کی بات ماننے پر مجبور تھا ، یہ صورت حال اس کے لئیے ناگوار تھی لیکن وہ مجبور تھا ، یہ ایک ایسی قوم کی حکومت تھی جو قومی عزّت و وقار سے محروم تھی ۔

اسلامی انقلاب کا سب سے بڑا تحفہ جو اس نے ایرانی قوم کو عطا کیا وہ اس قوم کی کھوئی ہوئی عزّت و وقار کی بحالی تھی ۔ ہمارے امام امّت ، عزّت و وقار کا مظہر تھے ۔ اس دور میں جب امام امّت نے کھلے عام یہ اعلان کیا کہ "امریکہ ہمار ا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ''وہ ایک ایسا دور تھا جب سیاسی اور فوجی اعتبار سے دنیا میں امریکہ کا ڈنکا بج رہا تھا ۔ امام امّت اور اسلامی انقلاب نے اس قوم کے کھوئے ہوئے وقار کو اسے واپس دلایا ۔ آج ایرانی ، اپنے ایرانی اور مسلمان ہونے پر فخر کرتا ہے ۔ آج ، عالمی طاقتیں بھی اس بات کا اعتراف کررہی ہیں کہ ایرانی قوم کے سامنے ان کی دھمکیاں ، ان کی فوجی طاقت ، اور ان کے سیاسی پروپیگنڈے بالکل غیرمؤثرہو چکے ہیں ؛ ایرانی قوم نے جس ہدف اور راستے کا انتخاب کیا ہے وہ اسے پوری توانائی کے ساتھ جاری رکھے گی اور اپنے مطلوبہ ہدف کو حاصل کر کے دم لے گی ۔

اس عزّت و وقار کی حفاظت و بقا انتہائی اہم چیز ہے ۔ میرے بھائیواور بہنو!صوبہ کردستان اور پورے ایران کے لوگو!ہم سب کو اس بات پر خصوصی توجّہ دینی چاہئیے ؛ ہمیں ہر قیمت پر اس عزّت و وقار کی حفاظت کرنی چاہئیے ، لیکن صر ف زبانی جمع خرچی ، شعار اور نعرے سے اس عزّت و وقار کی حفاظت نہیں کی جاسکتی ،اگر آج ایرانی قوم عزیز ہے اور عالمی سیاست پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے ، اس کی سب سے بڑی وجہ ، اس کاایمان و عمل ، اس کی خلاقیت ، اس کے شجاعانہ اقدامات اور اس کا اتحاد و یکجہتی ہے ، اگر ہم ان میں سے کسی بھی عامل سے غافل ہو جائیں تو ہماری عزّت ووقار کو شدید خطرہ لاحق ہو جائے گا ۔ اگر ہمارے اندر سے وہ جذبہ عمل اور جدوجہد اٹھ جائے جو الحمد للہ ہماری عظیم قوم ، با لخصوص ہمارے جوانوں میں موجزن ہے تو ہم اپنی عزّت و وقار کو کھو بیٹھیں گے ؛یہ ہمارے لئیے ، خاص کر ہماری جوان نسل کے لئیے موجودہ سیاسی حالات و واقعات کے تجزیے و تحلیل کا ایک بنیادی نقطہ ہے ۔

آپ دیکھئیے اور مشاہدہ کیجئیے کہ جو لوگ ایرانی قوم کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ جان لیجئیے کہ یہ لوگ دشمن کے آلہ کار ہیں؛ یہ لوگ یا تو خود دشمن کی صفوں میں بیٹھے ہوئے یہ باتیں دہرا رہے ہیں یا ان کے اشاروں پر ناچنے والے لوگ ہیں ؛ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ؛ وہ شخص جو اہل سنت اور شیعہ حضرات کے درمیان تفرقہ اور اختلاف ڈالنا چاہتا ہے اور مذہب کو بہانہ بنا کر قومی اتحاد میں رخنہ ڈالنے کے درپے ہے ، وہ شیعہ ہو یا سنی ، وہ دشمن کا زر خرید غلام اور اس کا آلہ کار ہے ؛ خواہ اسے اس بات کا علم ہو یا وہ اس سے بے خبر ہو ۔کبھی کبھی بعض افراد ،دشمن کا نوکر ہوتے ہوئے بھی یہ نہیں جانتے ہیں کہ وہ دشمن کے نوکر ہیں ۔ وہ بیچارے وہّابی اور سلفی افراد جو تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ڈالروں کے طفیل میں ، عراق ، افغانستان اور پاکستان اور دیگر ممالک میں دہشت گردانہ حملوں میں ملوّث ہیں ، ان میں سے بہت سے افراد خود بھی نہیں جانتے کہ وہ دشمن کے آلہ کار ہیں ، اسی طرح وہ شیعہ، جو اہل سنت کے مقدّسات کی توہین کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے وہ بھی دشمن کا آلہ کار ہے ، اگر چہ اس کو اس بات کا علم نہ ہو کہ وہ کیا کر رہا ہے ، بہر حال یہ لوگ دشمن کےاصلی عوامل ہیں ، دشمن کے اشاروں پر ناچنے والے بعض عناصر(خواہ ان کا تعلّق شیعہ مسلک سے ہو یا ان کا تعلّق اہل سنت سے ہو ) اس بات سے بے خبر ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ وہ دشمن کے لئیے کام رہے ہیں ۔

چند برس قبل ایک کردی علاقے میں ایک روشن خیال عالم دین نے نماز جمعہ میں تقریر کی اور جہاں تک مجھے یاد ہے ، انہوں نے اپنی تقریر میں اس بات کی قسم کھائی (چونکہ اس بات کو کافی عرصہ گزر چکا ہے اس لئیے مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ) انہوں نے کہا : جو لوگ شیعوں کے پاس آتے ہیں اور ان کے دلوں میں اہل سنت کے بغض و عناد کا بیج بوتے ہیں اور جو لوگ اہل سنت کے پاس جاکر ، ان کے دلوں میں شیعوں کی نفرت اور دشمنی کا بیج بوتے ہیں واللہ یہ لوگ نہ تو شیعہ ہیں اور نہ ہی سنی ؛ یہ لوگ نہ تو شیعوں کے خیر خواہ ہیں اور نہ اہل سنّت کے چاہنے والے ؛یہ اسلام کے دشمن ہیں ، البتہ ان میں بہت سے افراد اس بات سے غافل ہیں ، وہ نہیں سمجھ رہے ہیں ۔ یہ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آخر یہ لوگ سمجھتے کیوں نہیں ؟آج ، یہ وہّابی اور سلفی جماعت ، شیعوں کو کافر سمجھتی ہے ؛ محبان اہلبیت (ع) اہل سنت کو کافر سمجھتی ہے ، عرفانی اور قادری مسلک کے ماننے والوں کو کافر سمجھتی ہے !یہ غلط فکر کہاں سے پیدا ہوئی ہے ؟ کیادنیا بھر کے شیعہ ، شمالی افریقہ کے شافعی ، مرکزی افریقہ کے مالکی جو اہلبیت کے چاہنے والے ہیں ، اور ان عرفانی مسلکوں (جن کی جڑیں اہلبیت علیہم السّلام کی تعلیمات میں ہیں )کے پیروکار کافر ہیں ؟! کیوں؟ اس لئیے کہ قاہرہ میں امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہّر اور مسجد راس الحسین کا احترام کرتے ہیں ؛ اس وجہ سے کافر ہیں !ان کی نگاہ میں شیعہ تو کافر ہیں ہی وہ سقزی ، سنندجی اور مریوانی سنی بھی کافر ہے جو قادری یا نقش بندی مسلک سے تعلق رکھتا ہو ۔یہ کیا طرز فکر ہے ؟ اس غلط اور بری سوچ کی بنا پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ کیوں ڈالا جائے ؟ میں ان شیعہ حضرات سے بھی عرض کرنا چاہتا ہوں جو نادانی یا غفلت یا دیگر اغراض و مقاصد کی بنا پر اہل سنت کے مقدّسات کی توہین کرتے ہیں ، ان دونوں گروہوں کاعمل ، شرعی اعتبار سے حرام ہے اور خلاف قانون ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ بعض افراد غفلت یا نادانی کی بنا پر اس عمل کا ارتکاب نہیں کرتے بلکہ انہیں دشمن کی طرف سے اختلاف ڈالنے کا ٹھیکہ دیا گیا ہے ۔

میرےعزیزو ! اے ملت ایران !اپنے اتحاد و یکجہتی کی قد ر وقیمت پہچانو۔ یہ اتحاد اس ملک کے لئیے برکت اورشان و شوکت کا پیغام لایا ہے ؛اس اتحاد کی قدر کیجئیے ؛ ہمدلی اورمل جل کر کام کرنے کی فضا کو غنیمت سمجھئیے ؛عوام کے ساتھ حکومت کی ہمراہی کی قدر کیجئیے ، حکومت کی عوام دوستی کی قدر کیجئیے ، حکومت بھی لوگوں کے ایمان ، جوش و جذبے ، شوق و اشتیاق، خلاقیت اور فعالیت کو غنیمت جانے اور ان کی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کرے ، انشاء للہ ایسا ہی ہو گا ۔

ایک جملہ انتخابا ت کے سلسلے میں بھی عرض کر دوں ۔ میرے عزیزو! انتخابا ت نزدیک ہیں ، آج ، انتخابا ت کے انعقاد میں محض ایک مہینے کا وقت باقی ہے ۔ انتخابات ،دشمن کے سامنے ایرانی قوم کا ایک بہت بڑا امتحان ہیں ، یہی وجہ ہے کہ دشمن ہمارے الیکشن کے بارے میں بہت حسّاس ہیں ۔ ایرانی قوم کے دشمنوں کی پروپیگنڈہ مشینری نے آج سے تقریبا ایک سال پہلے سے ان انتخابات کے خلاف ایک ملائم ساز چھیڑ رکھا ہے ، وہ ان انتخابات کے بارے میں بے بنیاد باتیں گڑھ رہے ہیں ؛ ان کی خفیہ ایجنسیاں بھی اطلاعات کے حصول اور تجاویز دینے میں مصروف ہیں ۔ وہ اس الیکشن کے تئیں حساس ہیں ۔ آج بھی جب آپ ان بیرونی خبر رساں ایجنسیوں پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو آپ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ان انتخابا ت سے غافل نہیں ہیں بلکہ ان انتخابات میں اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کی تگ و دو میں لگی ہوئی ہیں ۔ ان کے اہداف و مقاصد کیا ہیں ؟ ان کاسب سے پہلا مقصد یہ ہے کہ ان انتخابا ت کے انعقاد کو روکا جائے ، انہیں منعقد نہ ہونے دیا جائے ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ایک دورمیں ان لوگوں نے مختلف بہانوں سے قومی اسمبلی کے انتخابا ت کو رکوانے کی کوشش کی ۔ لیکن خداوند متعال کی مرضی کچھ اور ہی تھی اور پرعزم ایرانی قوم نے ایسا نہیں ہونے دیا ، یہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ انتخابا ت کے انعقاد میں روڑے اٹکانے سے بالکل مایوس ہیں ، اس کے بعد ان کا ہدف یہ ہے کہ یہ انتخابات ، بالکل ٹھنڈے اور بے جان طریقے سے منعقد ہوں ۔ ان کی دلی خواہش ہے کہ ایرانی عوام ان انتخابا ت میں سرگرم حصّہ نہ لیں ۔

عزیز ایرانی قوم ! میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دشمن کی منشا و مرضی کے بر خلاف ، ہم سب کو ان انتخابات میں سرگرم کردار ادا کرنا چاہئیے ۔ انتخابا ت ہماری قومی عزّت و آبرو ہیں ، انتخابات ہمارے قومی رشد کی علامت ہیں ، انتخابات ، ہمارے قومی اقتدار کا باعث ہیں ۔ جب وہ یہ دیکھیں گے کہ ایرانی قوم پورے جوش و ولولے ، شعور و آگاہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولنگ بوتھوں پر حاضر ہو رہی ہے تو اس کا معنی کیا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی قوم اپنے لئیے فیصلے کے حق اور طاقت کی قائل ہے ؛وہ ملک کے مستقبل میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہتی ہے وہ ملک کے حکام اور انتظامیہ کا انتخاب کرنا چاہتی ہے ۔ صدرجمہوریہ کا انتخاب ، یعنی ملک کا انتظام و انصرام سنبھالنے والی طاقت کے سب سے بااختیار شخص کاا نتخاب ، ملک کے اکثر وسائل جس کے اختیار میں ہوتے ہیں ۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اگر صدر جمہوریہ کے اندر ، جوش و ولولہ ، شوق و اردہ ہو تو وہ ملک کے لئیے کتنی بڑی خدمات انجام دے سکتا ہے ؛ وہ اس کی روک تھام کرنا چاہتے ہیں ۔ میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں ، کہ آپ سب انتخابات میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیے ۔ انتخابا ت کا سب سے پہلا مسئلہ اس شخص یا اس شخص کا انتخاب نہیں ہے بلکہ انتخاب کا سب سے پہلا مسئلہ ، انتخابات میں آپ کی سرگرم مشارکت کا مسئلہ ہے ۔انتخابات میں آپ کی سرگرم مشارکت سے اس نظام کو قوّت حاصل ہوتی ہے ، اس کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہیں ، ایرانی قوم کی عزّت و آبرو میں اضافہ ہوتا ہے ، دشمنوں کا مقابلے کرنے کے لئیےاس ملک کی استقامت میں اضافہ ہوتا ہے اور ملک میں فساد اور فتنہ پھیلانے کی کوششوں کی بیخ کنی ہوتی ہے ۔ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے ؛ لہٰذا سب سے پہلا مسئلہ، انتخابات میں شرکت کا مسئلہ ہے ۔

انتخابات کے سلسلے میں دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ عوام ، صدارتی امیدواروں میں سے سب سے نیک اور شائستہ فرد کے انتخاب کی کوشش کریں ۔ یوں تو وہ سبھی افراد نیک سیرت اور شائستہ ہوتے ہیں جو صدارت کے امّید وار بنتے ہیں اور گارڈین کونسل میں جن کی صلاحیت کی تائيد کی جاتی ہے اور یہ کونسل ان کی صلاحیت پر مہر تصدیق لگاتی ہے ، لیکن اہم بات یہ ہے کہ آپ ان نیک سیرت اور شائستہ افراد میں سے سب سے نیک اور سب سےشائستہ اور سب سے لائق فرد کو تلاش کیجئیے ۔ یہ وہ مقام نہیں ہے جہاں ہم اور آپ کم سے کم پر قانع ہو جائیں ؛ حد اکثر کی تلاش میں رہئیے؛ سب سے بہترکو انتخاب کیجئیے ۔

سب سے بہتر کون ہے ؟ میں یہاں اس سلسلے میں کسی شخص کے بارے میں کسی قسم کا اظہار خیال نہیں کرنا چاہتا ؛ اس سلسلے میں کچھ معیار پائے جاتے ہیں ۔سب سے شائستہ وہ ہے جو ملک کی مشکلات کو سمجھتا ہو ، جو عوام کے دکھ درد کو سمجھتا ہو ، جوعوام دوست ہو ، بدعنوانی میں ملوّث نہ ہو ، جو اپنی امیرانہ ٹھاٹ باٹ کےچکر میں نہ ہو ۔ ہماری سب سے بڑی مصیبت یہی امیرانہ شان و شوکت ہے ، اگر کوئی حاکم ، اپنی شان و شوکت کی فکر میں ہو تو وہ عوام کو بھی ٹھاٹ باٹ اور اسراف کی طرف مائل کرے گا ۔جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ سال درست مصرف کی جانب پیشرفت کا سال ہے ۔ یعنی یہ سال وہ سال ہے جس میں ایرانی قوم کو فضول خرچی سے مقابلے کا پختہ عزم کرنا ہو گا ۔ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ اس ایک سال کے اندر ،فضول خرچی کی بیخ کنی ہو جائے ، ایسا ممکن نہیں ،ہم حقائق سے واقف ہیں ؛ ہمیں معلوم ہے کہ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لئیے سالہا سال کا عرصہ درکار ہے ، اس ثقافت کی ترویج کے لئیے سعی پیہم کی ضرورت ہے ؛ بہر حال ہمیں اس کام کو جلد از جلد شروع کرنا چاہئیے ۔

فضول خرچی کی روک تھام کے لئیے ایک بنیادی نوعیّت کا کام یہ ہے کہ ہمارے حکام ، ان کے اعزّاء و اقارب ، ان کے دوست و احباب اور نزدیکی افراد ، اس لعنت سے دور ہوں ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اس بیماری میں گرفتار ہوں اور عوام الناس کو اس سے دور رہنے کی نصیحت کریں ؛ " اتامرون الناس بالبرّ و تنسون انفسکم "؛(۳)" یا ایہا الّذین آمنوا لما تقولون ما لا تفعلون، کبر مقتا عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون "۔(۴) ہمار ا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ملکی ذمّہ داریاں سنبھالنے کے لئیے ایسے افراد کا انتخاب کریں جو عوام دوست ہوں ؛ سادہ زندگی بسر کرتے ہوں ، عوام کے دکھ تکلیف کو سمجھتے ہوں اور ان کے دکھ تکلیف سے رنجیدہ خاطر ہوتے ہوں ۔ میری نگاہ میں یہ بھی ایک بہت اہم معیار ہے ، جائیے اور ایسے افراد کو تلاش کیجئیے اور جب آپ کسی نتیجہ پر پہنچ جائیں تو قربۃ الی اللہ اس پر عمل کیجئیے ، قصد قربت سے بیلٹ بکسوں میں اپنا ووٹ ڈالئیے اور یقین رکھئیے کہ خداوندمتعال آپ کو اس کا اجر دے گا ۔

انتخابا ت کے بارے میں آخری نکتہ یہ ہے کہ وہ صدارتی امّیدوار جو اپنے کاغذات نامزدگی داخل کر چکے ہیں اور الیکشن مہم چلا رہے ہیں ، اگرچہ ابھی اس کے قانونی وقت کا آغاز نہیں ہوا لیکن پھر بھی اس میں کوئی قباحت نہیں ، وہ اپنی الیکشن مہم چلائیں ،وہ اس بات کی بھر پور کوشش کریں کہ ان کا رویّہ منصفانہ ہو، ان کی نفی و اثبات ، حقانیت اور صداقت پر مبنی ہو ۔ بعض چیزیں ایسی بھی سنائی دیتی ہیں جن کے بارے میں یقین نہیں آتا کہ یہ باتیں ان صدارتی امیدواروں اور کی زبان سے ، حق و صداقت کی بنا پر نکلی ہوں ۔ کبھی کبھا ر عجیب و غریب باتیں اور نسبتیں سنائی دیتی ہیں جن پر یقین نہیں آتا ، ان سے لوگوں میں غیر یقینی کی فضا پیدا ہوتی ہے ؛ ان باتوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ، صدارتی امّیدوار اس بات پر توجّہ دیں اور بلا وجہ لوگوں میں تشویش پیدا نہ کریں ، دوسروں پر الزام تراشیوں سے لوگوں کے ذہن خراب ہوتے ہیں ؛ اور یہ خلاف حقیقت بھی ہے ۔ میں ملک کی صورت حال کے بارے میں ان سبھی صدارتی امیداواروں کے مقابلے میں زیادہ واقف ہوں ، مجھے معلوم ہے کہ موجودہ دور میں ، ملک کی صورت حال اور اقتصادی پالیسیوں پر جو تنقید کی جا رہی ہے ان میں سے بہت سی باتیں ، حقیقت کے خلاف ہیں ؛یہ لوگ غلطی پر ہیں ، انشاء للہ غلطی پر ہیں۔ ہمیں توقّع ہے کہ خداوند متعال ، خیر و برکت ، ترقّی و کمال کو اس قوم کا مقدّر قرار دے گا ۔

میں اپنی تقریر کے آخر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں : میرے عزیزو! بس اتنا جان لوکہ ہم اس ملک میں اسلام کی حاکمیت کے لئیے آخری دم تک استقامت کا مظاہرہ کریں گے اور کسی قسم کا دباؤ اور کوئی بھی طاقت ہمارے اس ارادے پر اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔

خداوندا!ان لوگوں پر اپنے لطف و کرم کی بارش نازل فرما ۔خداوندا! ان لوگوں کے ذہن، فکر ،دل اور عمل پر فضل و کرم فرما ۔میں آپ لوگوں کی وفاداری ، اس عظیم الشان اجتماع کے انعقاد اور استقبال کا دل کی گہرائی سے شکر گزار ہوں ، ہمیں امّید ہے کہ خداوندمتعال ہمیں اپنے فرائض کی ادائیگی ،اور اس راہ میں بڑے بڑے قدم اٹھانے کی توفیق عنایت فرمائے گا ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱)انعام : ۱۲۳

(۲)منافقون : ۸

(۳)بقرہ : ۴۴

(۴) صف : ۲، ۳