ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا فضائیہ کے اعلی اہلکاروں اورجوانوں سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سات فروری(انیس بہمن) کوایک قابل فخرکارنامہ انجام پذیرہوا، اس دن فضائیہ کے جوانوں اورافسروں نے کربلائی قدم اٹھایا (یہاں تشریف فرما آپ نوجوان حضرات شاید اس عجیب وغریب اورفیصلہ کن موقع پر پیش آئے اس واقعہ کی اہمیت اچھی طرح درک نہ کر سکیں) صرف اسی ایک روز نہیں بلکہ ان پورے ستائیس سالوں پراس واقعہ کے اثرات عیاں رہے ہیں۔

اس دوران ہمیں فضائیہ سے جن فخریہ کارناموں کی توقع تھی الحمد للہ اس نے وہ سبھی کچھ کر دکھایا۔ مقدس دفاع کے دوران فضائیہ نے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ مجھے نہیں معلوم آپ نوجوان فضائیہ کی دفاعی تاریخ سے واقف ہیں یا نہیں؟ بس اتنا جان لیجئے کہ کسی مقدس دفاع کے دوران کسی بھی فوج کوجتنی قربانیوں کی ضرورت پیش آسکتی ہے فضائیہ کو اتنی قربانیوں کی ضرورت پیش آئی اوراس فوج نے وہ ساری قربانیاں پیش کیں۔ یہ ساری چیزیں بلا کسی مبالغہ کے امانتداری سے نوجوان نسل کے سامنے بیان کی جانی چاہییں مبالغہ کی ضرورت ہی نہیں ہے یہ واقعات خود اتنے عجیب اورعظیم ہیں کہ ہربابصیرت دل کو اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔

تعمیروترقی کےمیدان میں بھی سب سے پہلے فضائیہ ہی نے خودکفیل ہونے کا بیڑااٹھایا۔ حقیرنے خودکفالت کے میدان میں فضائیہ اوردیگرفوجی اداروں کی جہادی سرگرمیاں قریب سے دیکھی تھیں بڑے عمدہ کارنامے سرانجام پائے۔ استقلال اورمسلمان ایرانی فوج کی سربلندی وافتخارکی خواہش سب سے پہلے فضائیہ میں ابھری جس کےنتیجے میں نمایاں کارنامے انجام پائے اوربہت ساری مشکلات حل ہوگئیں۔

اب آپ فضائیہ کے جوان اپنی قدر و منزلت پہچانئے، فضائیہ بڑی اہم ہے بلکہ ایک لحاظ سے فیصلہ کن کردارکی مالک ہے۔ قوم کی سربلندی، وقاراورآزادی کے سلسلہ میں اس وقت آپ کا دفاعی شعبہ بقیہ فوجی اداروں میں سب سے زیادہ اہم ہے لیکن یہ سارے اعلی اہداف عزم وارادہ، خوداعتمادی، توکل علی اللہ اورانتھک محنت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ بائیس بہمن کوفضائیہ کے جن جوانوں نے یہ عظیم قدم اٹھایا انہیں شاید خبر نہ رہی ہوگی کہ وہ کتنا بڑا کام کرنے جا رہے ہیں بس ایمان اورالہی عشق انہیں کشاں کشاں میدان میں لے آیا تھا لیکن ان کاقدم انقلابی تحریک میںبھرپورمعاون ثابت ہوا لہذا ہرفوجی وغیرفوجی شعبہ کسی خاص موقع پرنہایت مؤثرکردارادا کر سکتا ہے۔ خوداعتمادی رکھئے، اپنی اندرونی صلاحیتیں بروئے کار لائیے اوریہ ذہن میں رکھئیے کہ آپ اپنے عزم وارادہ، خلاقیت اورانتھک محنت کے ذریعہ اعلی پیمانہ پرقوم کی عزت کا ذریعہ بن سکتے ہیں یہ ممکن ہے ہم تجربہ کر چکے ہیں ایسا ہوا ہے۔ سخت فوجی ڈسپلن، خلوص اور توکل علی اللہ کے ساتھ منظم طور پر آپ جو بھی کام کریں گے وہ نہایت مؤثرواقع ہوسکتا ہے۔

کربلا سبق ہے اٹھ کھڑے ہونے اور کسی چیز سے نہ ڈرنے کا، خطرات مول لینے اورمیدان میں کود پڑنے کا اتنا بڑاکارنامہ حسین ابن علی(علیھما السلام) ہی کر سکتے تھے کوئی دوسرا نہ کر سکتا تھا اور نہ کر سکتا ہے لیکن اس بلند وبالاکوہ عمل کے دامن میں بھی بہت سارے کردارہیں جوہم آپ ادا کر سکتے ہیں۔

سالہا سال تک ہماری قوم کو وابستہ رکھا گیا، اس کی تہذیب اورخود اعتمادی جاتی رہی، خوداعتمادی کی جگہ یاس و نا امیدی نے لے لی۔ ایسا شاندار ماضی، حساس جغرافیائی پوزیشن، بے پناہ انسانی صلاحیتیں اورلاتعدادقدرتی ذخائر رکھنے والی قوم غیر ملکی طاقتوں کالقمہ تربن گئی کبھی برطانیہ تو کبھی امریکہ اس کا لہو پیتے رہے لیکن انقلاب نے ہمیں بیدار کر دیا، ہمیں ہوش آگیا یہی کربلائی کردارہے۔ اس انقلاب عظیم نے ہماری تاریخ کا رخ موڑ دیا ہے اب ہم عزت و آزادی کی جانب گامزن ہیں اوراپنی قدرتی وانسانی استعدادیں بروئے کار لا کرآگے بڑھ رہے ہیں دنیا بھی کافی حد تک ہماری ترقی وپیشرفت کا اعتراف کر چکی ہے، دنیا کو اعتراف تو کرنا ہی پڑے گا لیکن ہمیں اس سلسلہ کو جاری و ساری رکھنا ہے۔ کاہلی وآرام طلبی سے کوئی بھی قوم عزت ومقام حاصل نہیں کر سکتی۔ استقلال اورعزت وکرامت کا حصول قربانیاں چاہتا ہے۔ قربانیاں دینا ہوں گی محنت کرنا ہوگی۔ انجام کار کو رجائیت اورحقیقت پسند نظروں سے دیکھنا چاہئے حقیقت پسندی خوش آئند ہوا کرتی ہے۔ آپ کو الجھاؤ میں مبتلا کرنا دشمن کی کوشش ہے ملک کے ہر شعبہ کا کچھ نہ کچھ فرض ہے مسلح افواج، اسلامی جمہوریہ فوج اورفضائیہ کے بھی اپنے مخصوص فرائض ہیں جنہیں باریک بینی، جہد مسلسل اورعزم وہمت سے نبھایا جانا چاہئے۔

عالمی حالات حاضرہ ہمارے لئے اہم ہیں۔ ملاحظہ کیجئے کہ سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں ایران کی ترقی پر عالمی استکبار کس قدر سیخ پا ہے۔ جوہری توانائی پران کا شوروغل ان کے ذہنی انتشار کا عکاس ہے۔ کسی دوسری قوم کے پاس اپنے بل بوتے پرسائنس وٹیکنالوجی آجانا استکباری طاقتوں کو برداشت نہیں لہذا ایک قوم کے پاس اپنے بل بوتے پر حساس ایٹمی ٹیکنالوجی آجانے سے وہ پریشان ہیں۔ امریکی صدراوراس کے حواری جھوٹ موٹ میں بار بار ایٹمی اسلحہ کا تذکرہ کر رہے ہیں یہ اپنے جارحانہ موقف کی توجیہ ہے یہ تو انہیں پتہ ہی ہے کہ یہاں ایٹمی اسلحہ تیارکرنے کی بات نہیں بلکہ ایک قوم کے استقلال کا مسئلہ ہے۔ یہ لوگ عالمی اداروں کو بھی اپنا تابع کر لیتے ہیں جس سے ان اداروں کا وقار باربار مجروح ہو تا رہتا ہے۔ این، پی، ٹی(NPT) اورعدم پھیلاؤ کا معاہدہ خود مغربیوں نے تیار کیا تھا اورسنیچرکوخود ہی اس کی دھجیاں اڑا دیں، اسے بے اثر بنا دیا۔ آخر دوسری قومیں کیوں ایسے لوگوں کی خواہشات کی تابع رہیں جنہیں زورو زبردستی کے سوا کچھ سوجتا ہی نہیں؟ جن کے نزدیک دوسری کسی قوم اورانسانیت نوازعلم واخلاق کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہمارا اورہمارے انقلاب کادنیا کی تمام مسلم وغیر مسلم اقوام کے نام یہی پیغام ہے اسلامی جمہوریہ کے ذریعہ اٹھائے گئے اقدامات نے حجت تمام کردی ہے اسلامی جمہوریہ نے دو ڈھائی سال کے عرصہ میں ان کے تمام بہانوں اوربدگمانیوں کا سد باب کرنے کی کوشش کی ہے لہذا مجبور ہو کر انہیں آخر میں کہنا پڑا ہے کہ بات ایٹمی اسلحہ کی نہیں بلکہ جوہری ٹیکنالوجی کی ہے۔

ان کی خواہش ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی نہیں ہونی چاہئے تاکہ یہ ملک ہمیشہ دوسروں سے وابستہ اورپسماندہ رہے اورنتیجہ میں اقوام عالم پرتسلط پسندوں کی زیادتیاں کبھی ختم نہ ہوں۔ واضح سی بات ہے کہ ایران اب ان کی باتوں میں نہیں آنے والا اورنہ ہی یہ سب برداشت کر سکتا ہے وہ زمانہ چلا گیا جب امریکہ وبرطانیہ کے سفیر تہران میں محمد رضا شاہ کے پاس بیٹھ کراس سے جو چاہتے کرواتے تھے اور وہ بھی کرنے پر مجبورتھا آج کے ایران کا اس دور سے ہر گز موازنہ نہ کیا جائے۔

آج ایرانی قوم میدان میں ہے، حکام قومی عزائم اورخواہشات کا مظہر ہیں انہیں اس قوم کی طاقت کا مظہربھی ہونا چاہئے ایسے حکام جواس قوم کی عزت وقار کا پاس نہ رکھ سکیں اس کے نمائندے نہیں ہیں۔ صدرمحترم کا بیان اورایٹمی ادارہ کو دیا گیا حکم اس قوم کے عزت ووقارکے عین مطابق ہے۔ حکام کی طرف سے لئے گئےفیصلے خاص طورسےان کا آج کافیصلہ عالمی سیاست اورتکنیکی مسائل میں ان کی بالغ نظری اوردوراندیشی کا عکاس ہے، سمجھ رہے ہیں کہ کیا کر رہے ہیں اورخوب آگے بڑھ رہے ہیں۔ جنہیں ایرانی قوم کی جانب سے لچک کی توقع ہے وہ جان لیں کہ ہم اپنے قومی وقاراوراستقلال کے سلسلہ میں کسی بھی دھمکی میں نہیں آئیں گے۔ انقلاب کے ستائیس سال، مقدس دفاع اوردیگرتجربے ہم سے باربار یہی کہہ رہے ہیں کہ اس ملک وملت کی اجتماعی طاقت کم نہ سمجھنا۔

تسلط پسند طاقتوں کے پاس نہ زیادہ وسائل ہیں اورنہ زیادہ اختیارات، انہیں صرف جارحانہ زبان کے ذریعہ اپنا الوسیدھا کرنا آتا ہے۔ استکبارکے پاس سب سے بڑا ہتھیار جارحانہ لب ولہجہ ہے اگراسلامی ممالک اور تیسری دنیا کی اقوام اپنی طاقت کا احساس کر لیں تویہ ہتھیار ناکارہ ہوجائے گا ملت ایران کو اپنی طاقت کا احساس ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہےکہ آزادی اظہارمغربی تمدن کے لئے رسواکن ہے۔ سرکاررسالتمآب(ص) کی شان میں گستاخی ہمارے لئے سب سے زیادہ ناقابل برداشت ہے۔ یہ حرکت لیبرل ڈیموکریسی کی رسوائی ہے وہی لیبرل ڈیموکریسی جس کی علمبرداری پر مغربی دنیا کوناز ہے۔ جس آزادی اظہار کا یہ ڈھنڈھوراپیٹ رہے ہیں وہ کسی کوہولوکاسٹ نامی یہودیوں کے قتل عام کے افسانہ پرشک کی اجازت نہیں دیتی۔ یہاں کوئی آزادی اظہار نہیں! یورپ میں بہت سے اسکالر، محقق، تاریخ داں اورصحافی ڈرکی وجہ سے اس افسانہ پر اپنے شکوک کا اظہار تک نہیں کرسکتے اس لئے کہ دیکھ چکے ہیں کہ اس سلسلہ میں جو زبان کھولتا ہے سزا پاتاہے، جیل جاتا ہے، اس کی حرکات وسکنات پرنظررکھی جاتی ہے، بہت سارےحقوق چھین لئے جاتے ہیں لیکن ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مقدسات کی توہین اوروہ بھی بلا وجہ، بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے، بلاکسی پہل کے جائز اورآزادی اظہارکے تحت ہے۔ بات اخبارات یا کارٹونسٹ کی نہیں ہے انہیں تو صہیونیوں نے(اپنے گھٹیا مقاصد کے تحت) اس کام کے لئے پیسے دیئے ہوں گے بات یہ نہیں ہے بات یہ ہے کہ یوروپی حکام اس گھٹیا حرکت کی وکالت کر رہے ہیں، آزادی اظہار کے نام پر اسے جائز قرار دے رہے ہیں! میراخیال ہے کہ اس سب کے پیچھے کوئی گہری صہیونی سازش ہے، مسلمانوں اورعیسائیوں کو آپس میں ٹکرانے کی کوشش ہے، اس لئے کہ دنیا بھرمیں مسلمانوں اورعیسائیوں کا آمنے سامنے آجانا صہیونیوں کے لئے بڑی کام کی چیز ہے۔

گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد امریکی صدر کی زبان سے نکل گیا کہ "صلیبی جنگ شروع ہو گئی ہے" پھرخیال آیا غلطی ہو گئی ہے ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا تو بہانے بنانے لگے، اس وقت کسی نے اصل نقطہ پر توجہ نہیں کی کہ یہ کون سی " صلیبی جنگ" ہے۔ صلیبی جنگ کا مطلب عیسائیوں اورمسلمانوں کی جنگ ہوتاہے۔ لہذا یہ لوگ اقوام عالم کوآپس میں ٹکرانے کا ماحول تیار کرنے میں لگے ہیں مسلمان اورعیسائی مذہبی قیادت کو بڑی ہوشیاری سے کام لینا ہوگا اورخیال رکھنا ہوگا کہ وہ کہیں ان خبیث سیاستدانوں کا آلہ کار نہ بن جائیں۔

کچھ سال قبل ایک یورپی سیاستداں نے مجھ سے ملاقات کے دوران مسلمانوں اورعیسائیوں کی جنگ کا تذکرہ کیا تو میں چونک گیا۔ وہ کوئی بہت زیادہ اہم شخص نہیں تھا لیکن چونکہ امریکہ کا تابع اوراس سے وابستہ تھا اور ہے اس لئے اس کی اس بات نے مجھے چونکا دیا لیکن اسوقت صہیونی یورپ سمیت پوری عیسائی دنیا میں اسی کے لئے ماحول تیار کرنے میں لگے ہیں۔ ڈیڑھ دو مہینے قبل ایک ملک کے کسی اخبارنے توہین آمیز خاکہ شائع کئے اتنے عرصہ بعد وسطی ومغربی یورپ میں وہی خاکے باربارشائع کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟ مسلمانوں نے بجا اوربرمحل ردعمل ظاہر کیا اورکرنا بھی چاہئےتھا سرکارختمی مرتبت(ص) کی ذات گرامی عالم اسلام کی محبتوں کا محورہے، جملہ مسالک کے بیچ اتحاد ویکجہتی کا مرکز ہے مسلمانوں کا ردعمل اورغیرت کا اظہار بجا ہے لیکن سب جان لیں کہ مسلمانوں کا یہ بجا اورپاک غم وغصہ اورمظاہرے عیسائیوں کے خلاف نہیں بلکہ ان خبیث صہیونیوں کے خلاف ہیں جنہوں نے تسلط پسند دنیا کے سیاستدانوں کو اپناکٹھ پتلی بنا رکھا ہے۔ ان کے پاس ذرائع ابلاغ کی بھی کمی نہیں اورموجودہ امریکی حکومت پوری طرح ان کی مٹھی میں ہے یورپ میں بھی سرگرم ہیں یہ سب ان کے خلاف ہے۔ فلسطین میں حماس کے ہاتھوں پٹنے کے بعد اب اس انداز میں شکست کی بھرپائی کرنا چاہتے ہیں، فلسطین میں گنوائی عزت اب اس طرح پانا چاہتے ہیں۔

امریکیوں نے با ضابطہ اعلان کیا کہ فلسطین میں جوگروہ حماس کا مقابلہ کرے گا ہم اسے پیسہ دیں گے اوردیا! پیسہ بھی دیا اورپروپگینڈہ کا موقع بھی! لیکن امریکیوں اورغاصب صہیونیوں کی خواہشات کے برعکس حماس کے مجاہد جیت گئے اسلامی دنیا میں جہاں بھی آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات ہوں گے وہاں کے نتائج یہی ہوں گے امریکہ مخالف پارٹی ہی برسراقتدارآئے گی وجہ یہ ہے کہ اس وقت لوگوں کی سوچ اورسیاسی رجحان امریکہ کے خلاف ہے۔

امریکہ اس وقت دنیا  نہایت ہی متنفرملک بن گيا ہے امریکہ سے صرف ہمیں نفرت نہیں بلکہ پورے خطہ کی رائے عامہ اس وقت امریکہ مخالف ہے عوام کے دلوں میں امریکہ سوفیصد ہار گیا ہے۔ شورہنگامہ جتنا مچا لے لیکن اوقات کا پتہ تب چلے گا جب عوام کی رائے سامنے آئے گی۔ ان کے یہاں تناقض بھی ہے ایک طرف کہتے ہیں جمہورہت ہونی چاہئے دوسری طرف ہرجمہوریت ان کے نقصان میں ہے جہاں بس چلے وہاں جڑیں کاٹتے اورجہاں بس نہ چلے وہاں دور سے زہرچھڑکتے ہیں۔

ملت ایران پورے صبروضبط سے اس حیرت انگیز منظرنامہ پر نگاہ رکھے ہوئے ہے، اپنے عظیم انقلاب کے ذریعہ عالم اسلام میں لگے پودے کی یکے بعد دیگرے نکل رہی شاخیں دیکھ رہی ہے، اپنے ہاتھوں لگائے پیڑ پر پھل آتے دیکھ رہی ہے جن کی تعدادمستقبل میں اورزیادہ ہوگی۔ ہم پوری رفتار سے اپنی شاہراہ پر گامزن ہیں اورخدا کے فضل سے اسی طرح گامزن رہیں گے اورعزت وقارکی ساری چوٹیاں سرکر لیں گے جنگ وجدال سے نہیں صبرو استقامت سے! عزم وارادے سے! حکمت عملی سے! جس طرح ابھی تک آگے بڑھتے اورکامیابیاں حاصل کرتے آئے ہیں۔

ملت ایران! آپسی اتحاد قائم رکھنا، ایمان محفوظ رکھنا،اپنے مضبوط ارادےبچائے رکھنا، اوریقیناً آپ اس سب پر قائم ہیں۔ بائیس بہمن(گیارہ فروری) کی ریلیوں میں انشااللہ آپ ایک بار پھردکھا دیں گے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ارادے رکھتے ہیں؟ دنیا آنکھیں کھول لے اورہر سال کی طرح اس سال بھی گیارہ فروری کے جلوس کا نظارہ کرے۔
خدا کی ہدایت، نصرت و مدد اوراس کا فضل وکرم ہی ہماراسب سے بڑا سہارا ہے۔ توفیق تو خدا دیتا ہے ہم صرف قدم بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں ہماری کوششیں ناکام رہ جائیں اگرخدا کافضل وکرم اوراس کی نصرت وہدایت ہمارے شامل حال نہ ہو۔ اپنے قلوب کوہدایت الہی کے لئے تیار کر لیجئے! خاص طور سے میں ملک کےجوانوں سے(فضائیہ میں ہوں یا کسی دوسرے ادارے میں) یعنی اپنے بچوں سے کہنا چاہوں گا کہ اپنےصا ف دلوں اورپاک ضمیروں کی قدرپہچانئے، خدا سے محکم رابطہ رکھئیے، پہلے سے زیادہ اپنے دلوں کونورالہی سے منور کیجئے،(انشااللہ) حضرت بقیۃ اللہ(ارواحنا فداہ) کی دعائیں آپ کے شامل حال رہیں۔
                                                                               والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ