ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا ملک کے صوبائی گورنروں سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

دوستواوربھائیو! خوش آمدید!

اصل اوربنیادی امر یہ ہے کہ صوبائی گورنر اپنی اہمیت سمجھیں اورپورے وجود کے ساتھ اپنے فرائض منصبی کا احساس کریں، میرے خیال میں گورنر صوبائی سطح پرصدرکی حیثیت رکھتا ہے اسے یہ کہنے کا حق نہیں کہ فلاں شعبہ نے اپنی ذمہ داری نہیں نبھائی جس کی وجہ سے فلاں پروجیکٹ پر کام پیچھے رہ گیا ہے جی نہیں، گورنر کووفاقی حکومت سے رابطہ کرکے ایسا پروگرام ترتیب دینا چاہئے جس سے ہر شعبہ میں ترقی کی راہ ہموار ہوسکے۔ گورنر کوخود عمل کے میدان وارد ہونا چاہیے، ہمارے نزدیک مضبوط یا کمزور گورنر کا معیار یہ ہےکہ ایسا گورنرجو ہرہفتہ صوبائی حکام کی میٹنگ بھی بلائے، دیگر امور بھی انجام دے لیکن اس سب کے با وجود صوبہ کے امور میں کوئی پیشرفت نہ ہو (چاہے ان کا تعلق کسی مرکزی وزارت، مثلا ٹرانسپورٹ یا توانائی کی وزارت سے ہو) ہم ایسے گورنر کو کمزورگورنرسمجھتے ہیں ۔ہمارے نزدیک معیار یہ ہے، سب سے اہم بات یہ ہے کہ گورنر کواپنی اہمیت اوراپنے فرائض منصبی کا اچھی طرح احساس ہونا چاہئے.

دوسری بات جس پر توجہ کی ضرورت ہے یہ ہے کہ اس وقت ملکی حالات ترقی کے لئے موزوں ہیں ۔ بحمداللہ ملک میں امن وامان ہے، عوام آمادہ وتیار ہیں ، لوگوں کے دلوں میں امیدیں ٹھاٹھیں ماررہی ہیں۔

الحمدللہ! اس وقت عوام خودکووفاقی حکومت سے وابستہ تصورکررہے ہیں اور گویا ایک قسم کی امید لئے حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ آپ قدم اٹھائیے ہم تیار ہیں(جب ذمہ داریاں تقسیم کرکے دیکھا جاتا ہے تونچلی سطح پرحکام میں سب سے پہلے گورنرآتے ہیں) لوگ تیار ہیں، حالات موزوں ہیں، حکومتی طریقہ کاراچھا ہے، صدرمحترم کی حالیہ گفتاروکردارنے بہت اچھا ماحول فراہم کردیا ہے ، حقیقت میں لوگوں کے دلوں میں امیدیں جاگ اٹھیں ہیں آپ کسی بھی ایسے شعبہ کا دورہ کلیجئے جہاں عوام کی آمد ورفت زیادہ ہے آپ محسوس کریں گے(اورمیں خبررکھتا ہوں) کہ اس دوران ان کی شکایات میں کمی آئی ہے مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے سارے مسائل حل ہوگئے ہیں مسائل جتنے بھی کم ہوگئے ہوں اتنے بھی کم نہیں ہوئے کہ لوگوں کوکوئی شکایت ہی نہ ہو جی نہیں! بلکہ انہیں امید ہو گئی ہے ۔ امیدکا بڑا اثرہے، لوگوں کو محسوس ہوتا ہے کہ بہتری آرہی ہے۔

برادران عزیز!انقلاب کی آمد سے ہی ہمارے ملک کو متعدد چیلنجوں کا سامنا رہا ہے ، اب بھی ہے اورمزید رہے گا۔ یہ سوچنا صحیح نہیں ہے کہ یہاں اسلامی جمہوری نظام اپنے اصولوں اورمعیاروں کے مطابق قائم رہے اوردوسری طرف ان اصولوں کی سو فیصد مخالف تسلط پسند طاقتیں آرام سے بیٹھی رہیں، نہ صرف یہ کہ ہمارے ساتھ کوئی زیادتی نہ کریں بلکہ اپنا تعاون بھی دیتی رہیں ، ایسی توقع بے معنی ہے! ایسی توقع بالکل نہیں رکھنی چاہئے،بین الاقوامی سطح پرعدل وانصاف، روحانیت، دین، معنویت اوراخلاق کی سمت رجحان ہمارا حکومتی اصول ہے، یہ اسلامی جمہوریہ کے اصول اورمعیار ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب آپ کے اسلامی انقلاب کی بنیادہی سامراجی طاقتوں سے مقابلہ پر استوارہے تودنیا کے متکبرین آپ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کرنے والے نہیں ہیں یہیں سے چیلنج شروع ہوتا ہے۔ انقلاب کی آمد سے ہی ہمیں اس چیلنج کا سامنا ہے اورجب تک انہیں مایوسی نہیں ہوتی ہمیں اس کا سامنا کرنا ہوگا آپ خود اوراپنے ملک کواتنا آگے لے جائیے کہ دشمن مایوس ہوکر بیٹھ جائیں۔ آپ کے سامنے چیلنج تب بھی رہیں گے لیکن اتنے شدید نہ ہوں گے۔لہذا ہمیشہ یہ مد نظررکھئیے کہ آپ توسیع پسندوں سے مقابلہ اورچیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں۔اس فکر کے مطابق اقدامات اٹھائیے۔

ہمارا نظام جن لوگوں کا اصل مخالف ہے ان کا فائدہ کس چیزمیں ہے؟ ایران میں اسلامی جمہوری نظام کے ہوتے ہوئے امریکہ یہاں کیسے حالات دیکھنا چاہے گا؟ اسے اختلاف ڈالنا، عوام کاآپسی اتحاد توڑنا اورملک کی سائنسی پیشرفت روکنا اچھا لگے گا۔ اسلئے کہ ہرملک کی معاشی، سیاسی، عسکری اورنفسیاتی پیشرفت کاراز سائنسی ترقی پر ہی استوارہوتاہے۔ ہم برسوں سے اسی سمت میں قدم اٹھا رہے ہیں اورخوب وقابل قبول حد تک آگے بڑھ رہے ہیں اگرچہ وہ اس سلسلہ کو روکنا چاہتے ہیں اس لئے کہ ان کا فائدہ عوام کی خدمت کا سلسلہ روکنے میں ہے ۔ عوام کی خدمت ہمارے ملک میں ایک نعرہ کے بطورمتعارف ہوئی اوراب ایک اصول بن چکی ہے موجودہ حکومت نے بھی اسی اصول کی بنیاد پراقتدار سنبھالا ہے۔ دشمن عوامی خدمت کا سلسلہ بند کرنا چاہتا ہے۔ دشمن امن وامان کی صورتحال خراب کرنا چاہتا ہے آپ کے پاس بھی رپورٹیں ہوں گی ہمیں بھی بے شمار رپورٹیں ملی ہیں کہ دشمن کس کس راستہ سے امن وامان کی صورتحال خراب کرنا چاہتا ہے۔ وہ حکومت کو سیاسی کشمکش اورپارٹی بازی میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے، عوام کو مایوس کرنے میں ہی اس کا نفع ہے ،اس کا مفاد انقلابی نعروں اورانقلابی راہ پرسے عوام کا اعتماد ختم کرنے میں ہے، عوام کےحوصلے پست کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب واضح ہے، ہمارے پاس کوئی رپورٹ نہ بھی ہو تب بھی ہمیں پتہ ہے کہ ہمارے خلاف محاذ کھڑا کرنے والے امریکیوں اورصہیونیوں کے مفادات کس چیز میں ہیں اورالگ سے ملی رپورٹیں بھی تصدیق کر رہی ہیں کہ یہ لوگ یہی چاہتے ہیں۔

آپ صوبہ کے صدر ہیں۔ ان مسائل سے نپٹنے کا طریقہ کیا ہوگا یہ بنیادی چیز ہے۔ آپ کی ترجیحات اورطرز عمل کی بنیاد انہیں مسائل پر توجہ ہونی چاہئے ابھی گورنر حضرات اورصدر محترم نے اچھی باتیں کہی ہیں اب آپ کیا کرنا چاہیں گے اسے عملی طورپر ثابت کیجئے البتہ عمل سے پہلے طے کر لیجئے، اس کے بعد جس کام میں ہاتھ ڈالئے اسے ادھورا مت چھوڑئیے ، اس کی اہمیت کم مت سمجھئے، تھکن کا احساس مت کیجئے۔ وقت بہت جلدی گذرتا ہے دیکھ لیجئے کہ آپ کو عہدہ سنبھالے چھ مہینے ہو گئے ہیں چارسالہ دور میں سے چھ،آٹھ مہینے گذرنے کا مطلب آٹھ حصے گذرگئے ہیں اورسات باقی بچے ہیں وہ بھی اسی سرعت سے گذرجائیں گے ۔ کوشش یہ کیجئے کہ اس مدت میں ایسے پروجیکٹ شروع کیجئے جنہیں جاری رکھنے پر خود آپ کو خوشی محسوس ہو اورآپ کے آئندہ کے کام آسان ہو جائیں اوراگر آپ کی مدت ختم ہونے پر کوئی دوسرا آپ کی جگہ لے تو آپ کی کارکردگی دیکھ کر زبان سے نہ سہی دل سے تعریف کرے کہ کتنا اچھا گورنر یہاں رہا ہے جس نے اتنے اچھے کام کیے ہیں جنہیں ہم جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس طرح قدم اٹھائیے۔

میری نظرمیں آپ امن و امان کی صورتحال پر خصوصی توجہ دیجئے۔عوام کی خدمت اورانہیں راضی رکھنا بہت ضروری ہے۔ صدرمحترم اوران کی کابینہ کے صوبائی دورے بہت اچھی چیز ہے ۔ عوام کے درمیان جاکر براہ راست ان کی گفتگو سننے سے ان کی خدمت کرنے والے کو خوب حوصلہ ملتا ہے لیکن اس ذیل میں دو باتوں کا خیال رکھئے گا کبھی کوئی غیرسنجیدہ بات کہہ کے عوام میں پوری نہ ہو سکنے والی یا دیر سے پوری ہونے والی امیدیں پیدا نہ کیجئے گا جس سےانہیں آپ کے قول وفعل میں تضاد نظرآنے لگے۔ دوسری بات یہ کہ عوام تک اپنی خدمات پہنچانا اوران کے مسائل کا فوری حل گویا دردختم کرنے والی دوا ہے اس کی وجہ سے آپ بنیادی کاموں سے غافل مت ہو جائیے گا۔ دونوں ضروری ہیں یہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ ہم بنیادی کاموں میں لگے لگے عوام کے روز مرہ کے مسائل بھول جائیں (یہ بہت خطرناک چیز ہے)اور یہ بھی نہیں ہونا چاہئے ہم فی الفورضروری خدمات میں ایسے محو ہوجائیں کہ طویل المیعاد ضروریات اورمنصوبے یاد نہ رہیں۔ دونوں جانب توجہ ضروری ہے۔

رفتاروگفتار میں انصاف، تواضع اورعوامی رکھ رکھاؤ کا خیال رکھئے۔ حضرات! عوام کے ساتھ گھل مل جائیے، ان سے تواضع وانکساری سے پیش آئیے، ضرورت پڑے تو ان کے گھروں تک جائیے۔ آپ پر گورنری کا نشہ نہ طاری ہو ! یہ بہت ضروری ہے۔لوگ جب یہ دیکھیں گے کہ آپ ان کے اپنے ہیں توآپ کی گورنری کی ہیبت زیادہ قائم ہوگی ۔ یہ کبھی نہ سوچئے گا کہ عوام سے کٹے رہنے سے ان پر آپ کی ہیبت بیٹھ جائے گی ۔ حکام کی ہیبت ہونی چاہئے لوگ انہیں کچھ سمجھتے رہیں لیکن یاد رکھئے ہیبت آپ کی ایمانی رفتاروگفتار سے پیدا ہوگی۔ جب آپ ایماندار ہیں، ذاتی مفادات کے پیچھے نہیں ہیں، اپنا آرام وآسائش لوگوں کے آرام وآسائش پر قربان کر رہے ہیں، خلوص کے ساتھ مصروف عمل ہیں توخدا بھی لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت اورہیبت ڈال دے گا۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ جو حکام اس خیال سے عوام سے دور رہتے ہیں کہ اس سے ان کی ہیبت قائم رہے گی لوگ انہیں قطعی اہمیت نہیں دیتے، عوام میں ان کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ لہذا عوام کے ساتھ ساتھ رہیے۔

مخلص اورباصلاحیت لوگوں سے غفلت نہ برتئے گا ۔ ملک بھر میں ایسے لوگ موجود ہیں جن میں خلوص بھی ہے اور صلاحیت بھی ، لیکن ہم وفاق والے شایدان سے بے خبر ہیں ۔ ایسے افراد کی خدمات حاصل کیجئے۔ نظام اورحکومت کے بنیادی اہداف ومقاصد یعنی ویژن ڈاکومنٹ اورپانچ سالہ منصوبہ کو مد نظررکھئے،آپ کے لائحہ عمل میں دونوں کا عکس نظرآنا چاہئے۔ انہیں کے دائرہ میں اقدامات اٹھائیے ۔

میری نظرمیں ہر کام کی بنیاد خلوص، نیک نیتی ،خدا سے ارتباط، اوراپنے اندرمعنویت کی تقویت پر استوار ہونی چاہیے۔ میرا اعتقاد ہے کہ عوامی خدمت پر کاربند شخص خدا سے اپنا رابطہ قائم رکھے تو خدا بھی اسکی مدد کرتا اوراس کے لئے نئی راہیں کھولتا ہے، اسے فرائض منصبی کی انجام دہی کی توفیق کرامت فرماتا ہے۔ ایسا ہو کہ جب دوسری بار آپ سے ملاقات ہو تو آپ کہیں کہ ہم نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے، یہ عظیم قدم اٹھایا ہے، اس قدر ترقی کی ہے۔

خدمت کے مواقع فراہم ہیں اورآپ خدمت پر کاربند! کمرہمت باندھئے، دشمن سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، دشمن سے مراد وہی ظاہری طور پرمتحد اوراندرونی پرمتفرق محاذ ہے ، بھیڑئیے اورکتے کبھی متحد نہیں ہوتے، ان بھیڑیوں اورکتوں نے امت مسلمہ کے خلاف ایک متحدہ محاذ کھڑا کر رکھا ہے لیکن حقیقت میں جس طرح ان کے جسم جدا ہیں اس طرح دل بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں ظاہر میں انہوں نے اسلام اورہمارے ملک میں اسلام کے سربلند پرچم کے خلاف محاذ قائم کر رکھا ہے۔ ان سے نہ ڈریئے، ان سے مرعوب نہ ہوئیے۔ یہ کچھ نہیں کر سکتے جب تک ہم صراط مستقیم پر قائم ودائم ہیں یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ان کی پالیسیاں یہی ہیں جو آپ دنیا میں دیکھ رہے ہیں ۔سب کی سب ناکام ہو چکی ہیں ۔

آپ ملاحظہ کیجئے کہ امریکیوں کے خیال میں عراق میں اختلافات کی آگ بھڑکاکراورعوام کی منتخب حکومت کو ناکارہ ثابت کرکے ان کے مفادات حاصل ہو جائیں گےلہذااختلافات پھیلانے اورفرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں سامرا کا حالیہ سانحہ اسی کی ایک مثال ہے اس سے قبل بھی انہوں نےسرکاردوعالم (ص)کےتوہین آمیز خاکہ شائع کراکےاپنے سیاسی مقاصدکی خاطرمسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا۔ دونوں حرکتوں کی نوعیت ایک ہی ہے اورپالیسی یہ ہے کہ لوگوں کے مقدسات کی توہین کرکے ان کے جذبات کی آگ بھڑکا کر اپنے مفادات حاصل کریں ۔ لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ ناکامی ہاتھ لگی! توہین آمیز خاکوں کے خلاف مسلمان متحدہ طورپر اٹھ کھڑے ہیں اورپوراعالم اسلام بڑی طاقتوں سے نفرت کرنے لگا ہے۔ سامراکے سانحہ سے بہت ساری جگہوں پر شیعہ، سنی متحد ہوگئے ہیں۔ شیعہ سنی علماء متحدہ طورپرجب مذمتی بیان جاری کریں گے تودشمن کیا کرپائے گا؟ تودشمن کی پالیسیاں پرانی ہیں سالہاسال سے یہی سازشیں کر رہے ہیں لیکن اب امت مسلمہ بیدار ہو چکی ہے لہذا اس کی ایک نہیں چلتی البتہ اس بیداری کی حفاظت اورشیعہ وسنی بھائیوں کو ایک دوسرے سے قریب لانا ضروری ہے، دلوں کو دلوں سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ دشمن عراق سمیت ہرجگہ مسلکی اورفرقہ وارانہ اختلافات بھڑکانا چاہتا ہے یہ بات عام مسلمانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ عراقی حکومت امریکہ کی ناکامی کی علامت ہے، امریکہ کااسے اسلام پسند عوام کے لئے جمہوریت قائم کرنے سے روکنا عراق میں اس کی شکست کی دلیل ہے۔ وہ اس غرض سے تھوڑی عراق آئے تھے! وہ تواس ملک میں اپنے مفادات کی محافظ حکومت قائم کرنے آئے تھے !یہ تھوڑی چاہتے تھے کہ یہاں مراجع اور ذمہ دارعلماء کے اشاروں پرچلنے والی اسلام پسند حکومت تشکیل پاجائےگی۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے اورعراقی عوام یہی چاہتے تھے! آخر وہی ہوا جو عوام نے چاہا۔ اب یہ لوگ مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی کی مثال پیش کرنے والے ملک عراق میں امن وامان کی صورتحال خراب کرنا اوراختلافات بھڑکانا چاہتے ہیں، عوامی مینڈیٹ سے بننے والی حکومت کواپنی ذمہ داریاں نبھانے سے روکنا چاہتے ہیں۔ انشا اللہ اس میں بھی ناکام ہوں گے۔ ایرانی عوام کی طرح عراقی عوام بھی ہوشیاری سے ان کی پالیسیوں کا مقابلہ کریں گے۔

دعا ہے کہ پرودگارمتعال آپ کی مدد ونصرت فرمائے،

آپ کی ہدایت فرمائے تاکہ آپ بے پناہ حوصلوں اورامیدوں کے ساتھ عوام کے حوصلے اورامیدیں بڑھاتے رہیں، ہرکام احسن طریقہ سے انجام دیجئے اوراحساس کیجئے کہ ترقی ہو رہی ہے مطلب یہ ہے کہ جب آپ خود زمینی حقائق کا مشاہدہ کریں تو محسوس کریں کہ پیشرفت و ترقی ہوئی ہے۔ خدا وند متعال آپکو ہمیشہ کامیاب وکامران بنائے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ