بسم اللہ الّرحمٰن الرّحیم
یا مقلّب القلوب والابصار ، یا مدبّر اللیل والنّھار ، یا محوّل الحول والاحوال ، حوّل حالنا الیٰ احسن الحال ۔
میں ، اپنے عزیز ہم وطنوں ، دنیا کے دیگر ممالک میں سکونت پذیر ایرانیوں ، اور ان ممالک کے عوام کی خدمت میں عید نوروز کی تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں جو اس عید کے موقع پر جشن مناتے ہیں ، شھداء ،ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنے والے جانبازوں کے عزیز خاندانوں کواس عید کی خصوصی مبارک باد پیش کرتا ہوں ، مجھے امّید ہے کہ یہ سال سبھی کے لئیے ایک اچھا سال ثابت ہو گا ۔ حسن اتّفاق سے اس سال یہ عید ، خاتم الانبیاء ، سرور کائنات حضرت محمّد مصطفے ٰ (ص)اور امام جعفر صادق علیہ السّلام کے یوم ولادت کے قریب واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس کی شان و شوکت میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔
۱۳۸۷ھ ۔ ش ، کا سال جو آج اختتام پذیر ہو رہا ہے ،بین الاقوامی اور ملک کے داخلی مسائل کے اعتبار سے ایک پر ماجرا سال تھا ۔اس سال ، بین الاقوامی سطح پر کچھ عظیم اور اہم واقعات رونما ہوئے جو بلا شک و شبہ ، عالمی سیاست پر اپنے گہرے نقوش چھوڑنے میں کامیاب ہوئے ، ان میں سے اقتصادی میدان میں ایک اہم واقعہ ، دنیا کا عظیم مالی و اقتصادی بحران ہے جو امریکہ سے شروع ہوا ، یورپ اور دیگر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوا ہمارے خطّے کے ممالک میں داخل ہوا ۔ یہ مسئلہ دنیا کے سبھی لوگوں کے لئیے ایک اہم واقعہ ہے ، جو نہ صرف، ان کی روز مرّہ زندگی اور ان کی اقتصادی منصوبہ بندی پر اثر انداز ہو رہا ہے بلکہ اقتصادی نظریّات اور سرمایہ دارانہ نظام اقتصاد کے تئیں ان کی فکر پر بھی اپنے دیر پا نقوش چھوڑے گا ۔ خوش قسمتی سے ، ہمار ا ملک اور ہماری قوم کافی حد تک اس خطرناک عالمی طوفان سے محفوظ رہے ، لیکن ہمیں احتیاطی تدابیر کو جاری رکھنا چاہئیے ۔
گزشتہ سال رونما ہونے والے ، علاقائی اور عالمی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ غاصب صہیونی حکومت کا غزہ پر حملہ تھا ، جو پوری دنیا کی توجّہ کا مرکز بنا رہا ۔ جسے ہر کسی نے اپنے زاویہ نظر سے دیکھا، فلسطینی تحریک مزاحمت کے مخالفین (جو عام طور پر مغرب کے بعض سیاستدان ہیں )نے اسے اپنی نظر سے دیکھا ،غزہ اور فلسطین کے مظلوم عوام کی تحریک مزاحمت کے حامیوں نے اسے اپنے نکتہ نگاہ سے دیکھا ۔ لیکن اس بہیمانہ اور بزدلانہ حملے پر جو نتائج مرتب ہوئے وہ پوری دنیا کی حیرت کا باعث بنے ۔بائیس دن تک غزہ کے نہتے عوام نےغاصب صہیونی حکومت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ، ان بائیس دنوں میں صہیونی حکومت نے فلسطینی تحریک مزاحمت کو کچلنے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن جنگ کا نتیجہ ، صہیونی حکومت کی شکست کی صورت میں ظاہر ہوا ؛ جو دنیا والوں کے لئیے ، ظالموں اور ستم گروں کے خلاف ،قوموں کی مزاحمت کا ایک بیش بہا تجربہ ہے ۔
اس کے علاوہ بھی علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے جن سے صرف نظر کرتا ہوں ۔
ملکی سطح پر بھی گزشتہ سال میں بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں ۔۱۳۸۷ ھ ۔ ش کے سال کا آغاز ، جوہری توانائی کے حصول کی نوید لایا اور ہماری قوم کو یہ خوشخبری ملی کہ عالمی پابندیوں کے باوجود ، ایران کے ماہر سائنسدانوں اور محنتی جوانوں نے جوہری توانائی کے مسئلہ میں اپنی صلاحیّتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے اور پوری دنیا سے ایرانی قوم کی صلاحیّتوں کا لوہا منوا لیا ہے ؛ جس کی وجہ سے ہماری قوم کوعلمی میدان میں ہی نہیں بلکہ دوسرے میدانوں میں بھی ، دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ۔
الحمد للہ گزشتہ برس ، آٹھویں پارلیمنٹ نے اپنی ذمّہ داریاں سنبھالیں اور اس دوران ، حکومت کے تعاون سے کئی اہم اور مفید بل منظور کئیے گئے اور ان پر عمل درآمد کی راہ ہموارہوئی ، ہمیں توقّع ہے کہ مستقبل میں بھی حکومت اور پارلیمنٹ میں یہ تعاون جاری رہے گا ۔
گذشتہ برس ، الحمد للہ دیگر مختلف میدانوں میں بھی کارہاے نمایاں ، انجام پائے ہیں جن میں سے ایک ، سال کے آخر میں بوشہر ایٹمی پاور پلانٹ کے آزمائیشی افتتاح کا واقعہ ہے ؛ یہ بھی ایک اہم اور بڑی خبر ہے ۔ البتّہ یہ بھی ہمارے ملکی سائنسدانوں کا کارنامہ ہے جنہوں نے پوری دنیا پر ثابت کر دیا ہے کہ ایرانی قوم کی ایٹمی پیشرفت کا راستہ نہیں روکا جا سکتا ۔
سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اس کے علاوہ بھی ، عظیم کام انجام پائے ہیں ، جن کو گنوانے کے لئیے مفصّل اور طولانی وقت درکار ہے ۔ میں نے مختلف نمائشوں میں نزدیک سے ان پیشرفتوں کے منتخب نمونے مشاہدہ کیے ہیں ؛ یہ پیشرفت ، یقینا حیرت انگیز ہے ۔ ہمارے عزیز جوانوں ، ہماری محنتی اور پر عزم قوم نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز کارنامے انجام دئیے ہیں ،اس ترقّی نے دنیا میں انقلاب کے خلاف گزشتہ تیس سال کے بے بنیاد پروپیگنڈوں کو ناکارہ بنا دیا ہے ۔
"امّید"نامی سیٹلائٹ کا فضا میں چھوڑا جانا ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک اہم پیشرفت شمار ہوتی ہے ۔ یہ ایک عظیم پروجیکٹ کا پہلا قدم ہے جس نے اس ٹیکنالوجی میں ہمارے ملک کو دنیا کے چند گنے چنے ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا اور پوری دنیا کی توجّہ کو اپنی طرف مرکوز کیا ،اس کارنامے نے ثابت کر دیا کہ ایرانی قوم کوکسی کے تعاون کی کوئی ضرورت نہیں ،سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ایرانی قوم بے پناہ صلاحیّتوں کی حامل ہے ۔
اقتصادی مسائل کے بارے میں اپنی قوم سے عرض کردوں کہ دنیا کے عظیم اور تباہ کن اقتصادی بحران ، جوہری توانائی اور دیگر مسائل کی وجہ سے ایران پر اقتصادی پابندیوں کے باوجود ، ملک کے حکام نے اس طوفان پر قابو پایااور کافی حد تک اس ملک کو اس کے منفی اثرات و نتائج سے محفوظ رکھا ، اور ایرانی قوم کو ایک ایسے سیلاب میں غرق ہونے سے بچایا جس نے کئی دوسرے ممالک کو شدید مشکلات سے دوچار کردیا ہے ، ان اقتصادی پیشرفتوں میں روز بروز اضافہ ہونا چاہئیے تا کہ ہماری قوم کا دامن ،مزید خوشیوں سے بھر جائے اور مختلف میدانوں میں ترقّی اور پیشرفت کے زیادہ مواقع فراہم ہوں ۔
جیسا کہ آپ نے مشاہدہ کیا "خلّاقیت اور پیشرفت "کا سال ، خلّاقیت اور پیشرفت سے بھر پور تھا ؛ اس سال میں اس نعرے کے تمہیدی مرحلے کو مکمل طور پر عملی جامہ پہنایا گیا ۔ البتّہ خلّاقیت اور پیشرفت ، گزشتہ سال سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ہمیں مستقبل میں بھی سنجیدگی سے اسی راستے کو جاری رکھنا ہو گا تا کہ ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے آپ کو اس مقام پر پہنچا سکیں جو ایرانی قوم کے شایان شان ہے ۔
موجودہ سال ،جو اس لمحے سے آغاز ہو رہا ہے ایک انتہائی اہم سال ہے ، مجھے پوری امّید ہے کہ ایرانی قوم، ماضی کے تجربات کی روشنی میں اور اپنی طاقت (جو خدا پر ایمان کی دین ہے )پر بھروسہ کرتے ہوئے ، انشاء اللہ ان حوادث اور واقعات کا رخ اپنے حق میں موڑنے میں کامیاب ہو جائے گی جو اس سال کے دوران رونما ہو سکتے ہیں ۔
میں اپنی عزیز قوم سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم، آغاز سال کی دعا میں ان الفاظ کو زبان پر جاری کرتے ہیں " یا محوّل الحول و الاحوال ، حوّل حالنا الیٰ احسن الحال " ہماری حالت کو بہترین حالت میں تبدیل کر دے ۔یہ تبدیلی ، یقینا خداوند متعال کے قبضہ قدرت میں ہے لیکن اس کے لئیے ایرانی قوم ، عوام کی ہر فرد کی جد ّو جہد اور محنت ضروری ہے تاکہ خداوند متعال کے لطف و کرم کا راستہ ہموار ہو سکے ۔ اپنے اندر تبدیلی لانے ، اپنی زندگی کو بہتر بنانے ، اپنے دل و دماغ کی اصلاح کے لئیے ،اور دنیا و آخرت کی بھلائی کے لئیے کوشش کرنا ،ایرانی قوم کی ہر فرد کا فریضہ ہے ۔" حوّل حالناالیٰ احسن الحال " اس دعا کاوہ پر معنا جملہ ہے جو ، معنویّت ، ذہنی اور خارجی حقائق، روز مرّہ زندگی کے فردی و سماجی مبتلابہ مسائل کو اپنے دامن میں سمیٹے ہو ئے ہے ۔ میں یہاں پر اس کے ایک نمونے پر اکتفا کرنا چاہتا ہوں جسے میں تبدیلی حالت کا ایک برجستہ مصداق سمجھتے ہوئے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔
ہم لوگ، ملک کے مالی وسائل کے مصرف کے تئیں لا پرواہی برت رہے ہیں جو ہماری ، ہمارے ہم وطن بھائیوں اور ہمارے ملک کے حکام کی انتھک کوششوں کے ذریعہ فراہم کئیے جاتے ہیں ، ہمیں اس مسئلہ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور اس کیفیت کو تبدیل کرنا چاہیے ۔ ہم اسراف و فضول خرچی میں مبتلا ہیں ، ہم مصرف کے سلسلے میں فضول خرچی اور واہیّات کا شکار ہیں ؛ میں ، انشاءاللہ نئے سال کے پہلے خطاب میں اس مسئلے پر مزید روشنی ڈالوں گا ، آج اس مسئلہ پر صرف ایک طائرانہ نگاہ ڈالنا چاہتا ہوں ، ہر میدان میں (خواہ وہ نجی سطح کی بات ہو یا قومی سطح کی بات ہو )ملک کے مالی وسائل کا ایک بہت بڑا حصّہ ، اسراف اور استعمال میں افراط کی نذر ہو جاتا ہے ۔ہمیں اپنے مصرف و استعمال کو عقل و تد بیر کے سانچے میں ڈھالنا چاہئیے ، خرچ و استعمال وہ چیز ہے جسے نہ فقط اسلامی نقطہ نظر سے بلکہ دنیا کے صاحبان فہم و فراست کے اعتبار سے بھی ، عقل کے دائرہ اختیار میں ہونا چاہیے ، خواہشات نفسانی کی پیروی اور من چاہے طریقے سے "مصرف " پر نظارت نہیں کی جاسکتی ۔ ورنہ نوبت یہا ں تک پہنچتی ہے کہ ملک کے مالی وسائل یوں ہی برباد ہو تے ہیں ؛ فقیروں اور مالداروں کے مابین ، فاصلے کی خلیج بڑہتی جاتی ہے ۔ کچھ لوگ زندگی کی بنیادی ضرورتوں کی حسرت میں کف افسوس ملتے رہتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے فضول اور واہی اخراجات کے ذریعہ ، ملک کے مالی وسائل کی بربادی کا سامان کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
ہمیں مصرف کے طریقہ کار کی اصلاح کرنی چاہیے ، ہمیں درست استعمال کی جانب آگے بڑھنا چاہئیے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ملک کے مسؤولین (خواہ ان کا تعلّق قومی اسمبلی سے ہو یا حکومت یا ملک کے دیگر ذمّہ دار اداروں ، جیسے عدلیہ ۔۔۔)پر ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ، اس کے بعد ملک کی دیگر ممتاز شخصیات ، عام لوگوں (فقیر و امیر ) کی نوبت آتی ہے ، سبھی کو استعمال کے طریقے کی اصلاح پر توجّہ مرکوز کرنی چاہیے ۔ روز مرّہ استعمال کی اشیاء اور دیگر میدانوں میں عقل و تدبیرکو سراسر نظر انداز کرنے ، اور ان کے بے رویّہ استعمال سے ، ملک و قوم کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ میں ، عوام الناس ، بالخصوص ملک کے اعلی حکام سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ موجودہ سال میں اس سلسلے میں اپنی سرگرمیوں میں تیزی لائیں ؛ ان میں اضافہ کریں اور درست استعمال کے لئیے منصوبہ بندی کریں ۔
میں، اس سال کو "عوام اور مسؤولین کے درست استعمال کی جانب عملی اقدام "کے سال سے موسوم کرتا ہوں اور مجھے توقّع ہے کہ ، استعمال کے طریقے کی اصلاح کو ہم سب اپنا نصب العین قرار دیں گے ، تاکہ ملک کی تعمیر و ترقّی کے لیئے اس بنیادی اور حیاتی نعرے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے اور ملکی وسائل سے بہترین استفادہ کیا جا سکے ۔
میں یہاں پر ، اپنے بزرگ امام(رہ) اور شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور ایرانی قوم کو ایک بار پھر ، اس عید سعید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ