بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
میں آپ حاضرین مجلس، ملک کے اعلیّ حکّام ، بین الاقوامی وحدت کانفرنس کے میہمانوں ، اسلامی ممالک کے سفراء ، پوری ایرانی قوم ،دنیا کے تمام مسلمانوں بلکہ تمام عالم انسانیّت کے آزاد ضمیر انسانوں کی خدمت میں عید میلاد النّبی (صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم )کی مناسبت سےتبریک و تہنیّت پیش کرتا ہوں ۔
آج کا دن عالم اسلام کے لئیے ایک بہت بڑا دن ہے ، جو شیعوں کے مشہور محدّثوں کے اعتبار سے سرور کائینات ،خاتم الانبیاء حضرت محمّد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم ) کی ولادت با سعادت کا دن ہے ، اسی طرح یہ دن ، حضرت امام صادق علیہ السّلام کی ولادت باسعادت کا دن بھی ہے جو ۸۳ ھجری قمری میں پیدا ہوئے۔
پیغمبر اسلام(ص) کی ولادت باسعادت کا واقعہ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ، عالم انسانیّت کے راستے کو متعیّن کرنے میں ایک فیصلہ کن کردار کا حامل ہے ۔وہ حوادث جو اس تاریخی واقعے کے وقت رونما ہوئے ( جنہیں تاریخ نے نقل کیا ہے )وہ خود اس ولادت کے معنا و مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ اہل تاریخ نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت باسعادت کےوقت دنیا کے مختلف گوشوں میں ، کفر و شرک کے مظاہر میں خلل پیدا ہوا ، فارس کا آتشکدہ جس کی آگ پچھلے ایک ہزار سال سے مسلسل جل رہی تھی ، پیغمبر اسلام کی ولادت کے وقت بجھ گیا ۔ عبادت خانوں کے بت سرنگوں ہو گئے ، معابد کے راہبوں اور خادموں کو اس پر سخت تعجّب ہوا کہ آخر ماجرا کیا ہے ! یہ کفر و شرک اور مادہ پرستی کے جسم پر اس ولادت کا علامتی وار تھا ۔دوسری طرف ، اس دور کی ظالم و جابر اورمشرک ایرانی سلطنت بھی سانحے کا شکار ہوئی اورقصر کسریٰ کے چودہ کنگرے ٹوٹ گئے ، جو اس بات کی ایک دوسری علامت تھی کہ یہ ولادت ، دنیا میں ظلم و سرکشی ، طاغوتیّت سے پیکار کا مقدّمہ ہے ۔اس ولادت میں جہاں ، فردی طور پر انسانوں کی فکری اور قلبی ہدایت کاپہلو مضمر ہے وہیں اجتماعی اعتبار سے معاشرے کی عملی ہدایت و راہنمائی ، دنیا میں ظلم وجور سے پیکار ، طاغوتی طاقتوں کے مقابلے کا علامتی پہلو بھی نمایاں ہے ۔ یہ پیغمبر اسلام(ص) کی ولادت باسعادت کے علامتی پہلو ہیں ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام نے نہج البلاغہ میں متعدّد مقامات پر اس دور کی کیفیّت کو بیان کیا ہے جہاں پیغمبر اسلام(ص) کے وجود اقدس کا آفتاب عالم تاب طلوع ہوا تھا ، اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ ایک مقام پر فرماتے ہیں: " و الدّنیا کاسفۃ النّور ظاھرۃ الغرور "(۱)دنیا کی روشنی کجلائی ہوئی تھی ، اور اس کا فریب واضح تھا ۔ اس دور میں انسانیّت ، نور ہدایت سے محروم تھی ؛ اسے جہالت ، سرکشی اور گمراہی کی تاریکی نے گھیر رکھّا تھا ، البتّہ ان تمام ظلمتوں کا مرکز ، وہ مقام (جزیرۃ العرب) تھاجہاں پیغمبر اسلام (ص)نے آنکھیں کھولیں اور مبعوث بہ رسالت ہوئے ۔ ہر تاریکی اور گمراہی کا نمونہ ، جزیرۃ العرب، خاص کر شہر مکّہ میں دکھائی دیتا تھا ، وہاں فکری اور اعتقادی انحرافات ، شرک و بت پرستی کے مظاہر کےعلاوہ ، تند خوئی اور سنگ دلی کے وہ دلخراش مناظر دکھائی دیتے تھے جن کی مثال نہیں ملتی ، قرآن ان کی سنگ دلی کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے : "واذا بشّر احدھم بالانثیٰ ظلّ وجھہ مسودّا و ھو کظیم یتواریٰ من القوم من سوء ما بشّر ایمسکہ علیٰ ھون ام یدسّہ من التراب الا ساء ما یحکمون " (اور جب خود ان میں سے کسی کو لڑکی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے ، قوم سے منہ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے اب اس کو ذلّت سمیت زندہ رکھّے یا خاک میں ملا دے یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں (۲)" یہ پیغمبر اسلام(ص) کی ولادت اور بعثت کے دور میں انسانی اخلاق کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔"وکان بعدہ ھدی من الضلال و نورا من العمی ٰ" (۳)بشریّت اندھی تھی ، بینا ہوگئی ، دنیا تاریک تھی ، پیغمبر اسلام (ص) کے وجود کے نور سے منوّر ہو گئی ۔یہ اس عظیم ولادت اور پیغمبر اسلام (ص) کی بعثت کا معنا و مفہوم ہے ۔ صرف ہم مسلمان ہی اس مقدّس وجود کی وجہ سے خداوند متعال کے احسان اور نعمت کے مرہون منّت نہیں ہیں بلکہ پوری انسانیّت اس نعمت کی مرہون منّت ہے
یہ بات صحیح ہے کہ متعدّد صدیوں کے گزرنے کے باوجود پیغمبر اسلام (ص) کی ہدایت و راہنمائی (دین اسلام ) نے ابھی پوری بشریّت کا احاطہ نہیں کیا ہے ؛لیکن یہ مشعل فروزان اور روزافزوں روشن چراغ ہمیشہ سے بشریّت کے درمیان موجود رہا ہے اور عالم انسانیّت کو مسلسل ، نور ہدایت کے سرچشمے کی راہنمائی کر رہا ہے ۔ اگر آپ پیغمبر اسلام(ص) کی ولادت اور بعثت کے بعد کے دور کا جائزہ لیں گے تو یہ حقیقت آپ پر روز روشن کی طرح عیاں ہو گی ۔ انسانیّت نے اخلاقی قدروں کی راہ میں مسلسل آگے کی سمت قدم بڑھایا ہے ؛ اس نے ان قدروں کی معرفت میں نمایاں پیشرفت حاصل کی ہے ، رفتہ رفتہ ان کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اور روز بروز ان میں شدّت آتی جائے گی یہاں تک کہ انشاء اللہ ایک دن یہ دین پوری دنیا پر چھا جائے گا،" لیظھرہ علی الدّین کلّہ ولو کرہ المشرکون "(۴) اور انسانیّت، خداوند متعال کے بتائے ہوئے صراط مستقیم اور راہ ہدایت پر گامزن ہو جائے گی ، انسانی زندگی کا واقعی آغاز اسی دن سے ہو گا ، اس دن لوگوں پر خدا کی حجّت تمام ہو جائے گی اور بشریّت اس عظیم راستے پر گامزن ہو جائے گی ۔
ہم امّت اسلامی ہونے کے اعتبار سے ، عصر حاضر میں اس عظیم نعمت کے سامنے کھڑے ہیں ، ہمیں اس نعمت سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئیے۔ ہمیں اپنے دل و دماغ ، اپنے دین ، اپنے طرز فکر ، اپنی دنیا ، اپنی زندگی اور ماحول کو اس مقدّس دین کی تعلیمات کی برکت سے منوّر کرنا چاہئیے ، چونکہ یہ دین سراسر نور اور بصیرت ہے ، ہم اپنے آپ کو اس دین سے نزدیک کر سکتے ہیں اور اس کی تعلیمات سے مستفید ہو سکتے ہیں ، یہ ہم سب مسلمانوں کا ایک عمومی فریضہ ہے ۔
وہ چیز جس پر میں آج زور دینا چاہتا ہوں اور وہ ہم مسلمانوں کاایک عظیم فریضہ اور اوّلین ترجیح ہے ، وہ مسلمانوں کے اتحاد اور یکجہتی کا مسئلہ ہے ، ہم نے انقلاب کے آغاز سے ۱۷ ربیع الاوّل پر اختتام پذیر ہونے والے ہفتے کو " ہفتہ وحدت ''سے موسوم کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ۱۲ ربیع الاوّل اہل سنّت کی مشہور روایت کے اعتبار سے پیغمبر اسلام(ص) کا یوم ولادت ہے اور ۱۷ ربیع الاوّل شیعوں کی مشہور روایت کے مطابق پیغمبر(ص) اسلام کی ولادت با سعادت کا دن ہے ، انقلاب کے اوائل سے ، ایرانی قوم اور اس ملک کے مسؤولین نے ان دو تاریخوں کے درمیان کے ایّام کو ہفتہ وحدت سے موسوم کیا اور اسے مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کی رمز اور علامت قرار دیا، لیکن زبانی جمع خرچی کافی نہیں ہے ؛ نام رکھنا کافی نہیں ہے ؛ ہمیں اس بات کا عملی مظاہرہ کرنا چاہئیے ؛ ہمیں اتّحاد و یکجہتی کی سمت قدم بڑھانا چاہئیے ، آج عالم اسلام اتّحاد کا محتاج ہے ، تفرقے اور اختلاف کے عوامل بھی موجود ہیں ؛ ان عوامل و اسباب پر قابو پانا اور ان پر کامیاب ہونا ضروری ہے ۔
بڑے مقاصد اور اہداف کے حصول کےلئیے ، محنت اور جد و جہد کی ضرورت ہوتی ہے ، کوئی بھی بڑا مقصد ، جانفشانی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ، مسلمانوں کا اتحاد بھی جانفشانی اور جد و جہد کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ۔ یہ ہم سب کی ذمّہ داری ہے کہ ہم اتحاد بین المسلمین کے لئیے جانفشانی کا مظاہرہ کریں ۔ یہ اتحاد بہت سی گتھّیوں کو سلجھا سکتا ہے ، عالم اسلام کی بہت سے مشکلات کو حل کر سکتا ہے اور اسلامی معاشرے اور مسلمان قوموں کی عظمت اور شان و شوکت کو لوٹا سکتا ہے ۔ مسلم ممالک کی حالت زار کا جائزہ لیجئیے ، مسلمانوں کی حالت پر نظر دوڑائیے جو دنیا کی مجموعی آبادی کا چوتھائی حصّہ ہیں ، عالمی سیاست کو رہنے دیجئیے ، حتیٰ ان کے اپنے ملکوں کے داخلی مسائل میں بیرونی طاقتوں اور ناپاک عزائم رکھنے والی طاقتوں کے مقابلے میں ان کا کردار اور اثر اندازی کہیں کم اور معمولی نوعیّت کی ہے، اس کی وجہ ان طاقتوں کا بیگانہ ہونا نہیں ہے (اگرچہ ہم اپنے آپ اور اپنے مخاطبین کو اس سے خبر دار کرتے رہتے ہیں ) بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ طاقتیں ، برے ارادے رکھتی ہیں ؛ تسلّط پسندی کا جذبہ رکھتی ہیں ؛ وہ اسلامی قوموں کو اپنے سامنے ذلیل و رسوا کرنا چاہتے ہیں ؛ وہ مسلمانوں کو اپنی بے چون و چرا اطاعت پر مجبور کرنا چاہتے ہیں ، کیا اتحاد و یکجہتی کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی ہے جس کے ذریعہ یہ پچّاس سے زیادہ مسلم ممالک ان متکبر و تسلط پسند طاقتوں کے ناپاک عزائم کا مقابلہ کر سکیں ؟ہمیں ایک دوسرے سے نزدیک ہونا چاہئیے ؛ اتحاد و یکجہتی کی راہ میں دو عامل سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ، ہمیں ان کو دور کرنا چاہئیے ۔
ایک عامل، ہمارا اندرونی عامل ہے : اور وہ ہمارا مذہبی تعصّب اور ہر مذہب کے ماننے والوں کا اپنے عقائد کی پائبندی ہے ۔ اس پر کنٹرول کرنا ہو گا ۔ اپنے عقائد و اصول پر ایمان و یقین رکھنا ، بہت اچھّی چیز ہے ، ان پر ثابت قدم رہنا بھی اچھّی بات ہے ، لیکن اسے اثبات کی حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئیے ، اسے دوسروں کے عقائد کی نفی ، ان کی توہین اور دشمنی و عداوت میں تبدیل نہیں ہونا چاہئیے ، جو لوگ امّت اسلامی کا حصّہ ہیں انہیں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئیے ؛اگر وہ اپنے عقیدے پر باقی رہنا چاہتے ہیں تو رہیں ، لیکن دوسروں کے عقیدے ، ان کے نظریّات اور افکار ، ان کے حقوق کا احترام کریں ،بحث اور مناظرے کو علمی محافل کے سپر د کریں ، اگر علماء اور صاحبان فن ، علمی بحث و مناظرہ کرنا چاہتے ہیں تو کریں ، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، لیکن علمی محافل میں بحث و مناظرے اور کھلے عام ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے ، عمومی سطح میں ان مسائل کو پیش کرنے میں واضح فرق پایا جاتا ہے ، علماء اور حکام کو اس پر کنٹرول کرنا چاہئیے ، مسلمانوں کے تمام گروہوں پر اس کی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ، یہ شیعوں کا بھی فریضہ ہے اور اہل سنّت کا بھی ، دونوں کو اتحاد و یکجہتی کی سمت قدم بڑھانا چاہئیے ۔ تفرقے اور اختلاف کا یہ ایک عامل ہے جو اندرونی عامل شمار ہوتا ہے ۔
اختلاف و تفرقے کا بیرونی عامل، خود غرض اسلام دشمن طاقتیں ہیں جو مسلمانوں میں اختلاف ڈالنے کے در پے ہیں ، اس سے غفلت نہ کیجئیے ، صرف عصر حاضر کی بات نہیں ہے بلکہ دنیا کی تسلّط پسند قوّتوں کو جب سے یہ محسوس ہوا ہے کہ وہ قوموں پر اثرانداز ہو سکتی ہیں تب سے اختلاف کو ہوا دینے کی سازشوں کا آغاز ہوا ہے ؛عصر حاضر میں ان سازشوں میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدّت آئی ہے ، عصر حاضر کے ماڈرن ارتباطی وسائل (ریڈیو، ٹیلیویژن ، انٹر نیٹ وغیرہ )بھی اس سلسلے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں ۔ یہ نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں ؛ یہ لوگ ، اختلاف بھڑکانے کے لئیے نئے نئے نعرے ایجاد کر رہے ہیں ، ہمیں حالات کی نزاکت کو سمجھنا چاہئیے ؛ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئیے ، افسوس کا مقام ہے کہ مسلم قوموں اور ممالک کے اندر کچھ افراد مسلمانوں کے حقیقی دشمنوں کے اغراض و مقاصد کو پورا کرنے کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
دو ماہ قبل، امّت اسلامی کو ایک دوسری کامیابی نصیب ہوئی اور وہ تھی غزہ پٹّی میں دشمن صہیونیوں کے خلاف ، فلسطین کی تحریک استقلال کی کامیابی ،فلسطینی تحریک کو ایک عظیم اور تابناک کامیابی نصیب ہوئی ۔ اس سے بڑھ کر کس کامیابی کا تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسی مسلّح فوج ، بائیس دن تک اپنی پوری طاقت صرف کرے اور فلسطین کےثابت قدم جوانوں ، مؤمن مجاہدوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور نہ کر سکے ، انہیں شکست نہ دے سکے ، جس نے سن 1967 ء سے سن 1973 ء تک تین بڑے ممالک کی افواج کو شکست سے دوچار کیا تھا ؟ ایک ایسی فوج خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور ہوئی ، جس کی وجہ سے غاصب صہیونی حکومت اوراس کے حامیوں بالخصوص امریکہ کی عزّت خاک میں مل گئی ۔یہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی ؛ اس کامیابی نے مسلمانوں کے درمیان ہمدردی اور ہمدلی کا جذبہ بیدار کیا ، یہاں سنّی ، شیعہ کا مسئلہ نہیں اٹھا سکے ، یہاں دشمن نے قومیّت کے مسئلے کو اٹھایا ، عرب و غیر عرب کی دھائی دی ، اور یہ نعرہ لگایا کہ فلسطین کا مسئلہ ، عرب دنیا سے مخصوص ہے اور غیر عرب ممالک کو اس میں مداخلت کا حق نہیں ہے ! ہر گز ایسانہیں ہے بلکہ فلسطین کا مسئلہ ، اسلام کا مسئلہ ہے ، عرب و عجم کی بات نہیں ہے ۔
عالم اسلام میں قومیّت کے مسئلے کو اچھالنا ایک انتہائی خطرناک قدم ہے اور اختلاف و تفرقے کا سب سے بڑا عامل ہے ، اگر دشمن ، عالم اسلام میں قومیّت کے مسئلے کو چھیڑ کر ، عرب کو فارس سے ، ترک کو کرد سے ، انڈونیشیا ئی کو ملیشیائی سے ، ہندوستانی کو پاکستانی سے جداکرنے میں کامیاب ہو جائے تو اسلام کے دامن میں کیا باقی رہے گا ؟ کیا یہ اسلامی امّت اور اس کی طاقت و توانائی کو نیلام کرنے کے مترادف نہیں ہے ؟ یہ استعمار کی چالیں ہیں، افسوس کہ عالم اسلام میں بھی بعض افراد ان کی ان چالوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں ، وہ مسلمانوں کو لبنان اور فلسطین کی کامیابی کا مزہ نہیں چکھنے دینا چاہتے ؛ ان میں اختلاف ڈالنے کے لئیے انہیں ایک دوسرے سے الگ کرنے کے لئیے فورا اختلاف و تفرقے کے عامل کو ابھارتے ہیں ۔
امّت اسلامیہ کو بیدار ہونا چاہئیے ؛ اسے ان سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہئیے ۔اس سلسلے میں سب سے پہلا فریضہ ، سیاستدانوں پر عائد ہوتا ہے ،مسلم ممالک کےحکام اور سربراہان مملکت بھی ہوشیار رہیں ۔ ممکن ہے یہ قومیت کا نعرہ بعض مسلم سیاستدانوں کی زبان سے جاری ہو لیکن ہم اس کے اصلی عامل سے بخوبی واقف ہیں اور اس کی شناخت میں کسی غلطی کے مرتکب نہیں ہوں گے ۔ یہ آواز ان کے گلے سے نکل رہی ہے لیکن ان کی نہیں ہے ؛ یہ غیروں کی پکار ہے ، یہ دنیا کی استکباری طاقتوں کی آواز ہے ، یہ طاقتیں ، عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی کی مخالف ہیں ، اگر یہ آوازاسلامی امّت کے اندرونی عناصر کے ذریعہ اٹھائی جا رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ فریب خوردہ ہیں ، یہ ان کی آواز نہیں ہے ۔ یہ اسلام دشمن طاقتوں کی آواز ہے ؛ ہم اسے اچھّی طرح پہچانتے ہیں ۔ سب سے پہلے سیاست دانوں اور حکام ،اس کے بعد عالم اسلام کے مفکّروں ، علماء دین ، روشن ضمیر افراد ؛ اہل قلم ، شاعروں ؛ ادیبوں اور دانشوروں پر یہ عظیم ذمّہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو ان عوامل سے آگاہ کریں جو مسلمانوں کے اتحاد میں رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں ، اور مسلمانوں کو خدا کی مضبوط رسّی سے الگ کرنا چاہتے ہیں ۔
قرآن مجید نے واضح الفاظ میں ، ہمیں اتّحاد کی دعوت دی ہے " واعتصموا بحبل اللہ جمیعا (۵) سب مل کر اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو؛اللہ کی رسّی کو ایک ایک کر کے بھی پکڑا جاسکتا ہے ، لیکن قرآن کا حکم ہے : "واعتصموا بحبل اللہ جمیعا " سب مل کر اس رسّی کو پکڑو " ولاتفرّقوا " اور اس کو پکڑنے میں اختلاف پیدا نہ کرو ۔ یہاں تک کہ خدا کی رسّی کو پکڑنے کے لئیے بھی اتحاد کی دعوت دی گئی ہے چہ جائیکہ بعض خدا کی رسّی کو پکڑنا چاہتے ہوں اور بعض شیطان کی رسّی کے پیچھے ہوں ۔ اگر خدا کی رسّی کو پکڑنا چاہتے ہیں تو یہاں بھی سب مل جل کر اسے پکڑیں اور ہمدردی اور الفت کا مظاہر ہ کریں ۔ اتّحاد عالم اسلام کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔
ہم خداوند متعال سے دعاگو ہیں کہ پورے عالم اسلام ، مسلم قوموں ، مسلم حکومتوں کو اس بات کی توفیق عنایت فرمائے کہ وہ اس اہم اور سنگین مسئلہ کو اس کی شایان شان اہمیّت دیں اور اسے عملی جامہ پہنائیں ، ہمارے عزیز امام (رہ) کی روح پر خدا وند متعال کی رحمتوں کا نزول ہو جنہوں نے اس دور میں اتّحاد کی فریاد بلند کی اور مسلمانوں کو اتّحاد کی دعوت دی ۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ خداوند متعال ہمارے دلوں کو اس دعوت سے زیادہ سے زیادہ مانوس و آشنا کرے ،اور امّت اسلامیہ کے مستقبل کو ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر بنائے ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)نہج البلاغہ خطبہ ۸۹
(2) نحل ۵۸و۵۹
(3) مفاتیح الجنان ، دعاے ندبہ
(4) توبہ : ۳۳
(5) آل عمران ۱۰۳