ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا صوبہ سمنان کے شہداء اورجانبازوں کے اہل خانہ سےخطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا ونبینا ابی القاسم المصطفی محمد وعلی آلہ الاطیبین الاطھرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

عزیز جوانوں اورشہدا کے والدین، اولاد، ازواج اورصابر ماؤں کی خدمت میں پرخلوص سلام پیش کرتا ہوں۔

یہ نشست اورصوبائی دوروں کے دوران اس طرح کی سبھی نشستیں میرے لیے سب سے زیادہ جوش وجذبہ پیدا کرنے والی ہوتی ہیں راہ خدا میں جام صبر پینے والوں کے ایثاروشہادت کی یاد گاریں! "وبشرالصابرین الذین اذا اصابتھم مصیبۃ قالواانا للہ وانا الیہ راجعون اولائک علیھم صلوات من ربھم ورحمۃ"

قرآن مجید میں اس طرح کی لفظیں سب سے کم ہیں خدا کا درود وسلام ہو ان صابروں پر جوجانگداز مصبتیں اورحادثے برداشت کرتے اورخندہ پیشانی سے ان کا استقبال کرتے ہیں جس ماں نے اپنے پھول کو سالوں تک پال پوس کر بڑا کیا جس باپ نے سالوں تک اپنے بچے کی جوانی کی تمنائیں دل میں پالیں اسے اچانک خبر ملتی ہے کہ اس کا جوان سا ل بچہ محاذ جنگ پر شہادت سے ہم آغوش ہوگیا ہے توصبر کرلیتا ہے، شوہر کےدل سے پیوند خوردہ دل رکھنے والی اورزندگی کے تلخ وشیریں دور میں ساتھ رہنے والی محبوب بیوی کو اپنے شوہر کی شہادت کی خبر ملتی ہے! بڑاہی سخت مرحلہ ہے، بہت سخت لمحہ ہے لیکن ہمارے لوگوں نے نہایت خندہ پیشانی اورخوش اسلوبی سے یہ ساری سختیاں برداشت کی ہیں یہ کہنا بے معنی نہ ہوگا کہ کسی بھی قوم نے کسی بھی جنگ میں اتنا امتحان نہیں دیا جتنا ہماری قوم نے دیا ہے جنگ ایک مرحلہ ہے جنگ کے آثاروعواقب یعنی مجاہدوں شہیدوں اورجانبازوں کے گھر نیز وہ جانباز خود دوسرا مرحلہ ہیں، کئی جگہوں پر یہ دوسرا مرحلہ پہلے سے زیادہ سخت ہے اپنے اعزا کو کھو دینے پر ماں، باپ، بیوی اور اولاد کا صبر بعض اوقات دشمن کی گولیوں کا نشانہ بننے والے مجاہدکے صبر سے زیادہ سخت ہو جاتا ہے لوگوں نے اس طرح کے صبر کا مظاہرہ کیا ہے میںشہدا کے والدین اورازواج سے کافی نشست وبرخاست رکھتا آیا ہوں ان سے ملاقات کے دوران ایسے ایسے واقعات سننے میں آئے ہیں جو انسان کو حیرت زدہ کر دیتے ہیں آپ خود بھی جانتے ہیں۔

سمنان بھی ان صوبوں میں شامل ہے جن کے مجاہدوں کی تعداد اوسطاً سب سے زیادہ رہی ہے اس صوبہ کی آبادی اور ایک یا کئی بارمحاذ جنگ پر روانہ ہونے والوں کی تعدادکے مد نظر تین ہزار شہداصوبوں کی سطح پرایک بڑی تعدادہے آپ کے اس غیرت مند، مؤمن اور شجاع صوبہ کے بھی اس قسم کی عجیب وغریب واقعات ہیں جنہیں آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں۔

ایک باپ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ محاذ پر روانہ ہوتا ہے وہاں اس کے دونوں بیٹے شہید ہوجاتے ہیں وہ کمانڈر سے شہدا کی فہرست مانگتا ہے فہرست میں جب اپنے دونوں بیٹوں کے نام دیکھتا ہے تو ابروخم کئے بغیرصرف اتنا کہتا ہے یہ دونوں میرے بیٹے ہیں مجھے انکی پاک لاشوں تک لے چلو، میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں اسے اس کے بیٹوں کی لاشوں پر لایا جاتا ہے یہ لگتا تو افسانہ ہے لیکن حقیقت ہے۔

مہدی شہر کے تین نوجوان آپس میں یہ طے کرکے محاذجنگ پر روانہ ہوجاتے ہیں کہ ان میں سے جو بھی شہید ہوگا وہ روز قیامت بقیہ دو کی خداکے سامنے شفاعت کرے گا لیکن وہ تینوں ہی شہید ہوجاتے ہیں ان کے نام آپ جانتے ہیں ان کا واقعہ بھی آپ جانتے ہیں یہ تاریخ کے ناقابل فراموش واقعات ہیں انہیں کوئی قوم بھلا نہیں سکتی۔

ایک بہادر سپاہی محاذ پرزخمی ہوجاتا ہے لیکن اس کے بعد بھی وہ محاذ پر اس طرح سرگرم رہتا ہے کہ کبھی اسے کندھے پر بٹھا کر علاقہ کی شناخت کے لیے لے جایا جاتا ہے اس طرح کئی بار زخمی ہوتا رہتا ہے ہمارے دو ایسے شہید ہیں ایک شہید محمود اخلاقی جن کی تصویر یہاں آویزاں ہے اوردوسرے شہید شوکت پور جو پہلے زخمی ہوتے ہیں اور پھر اسی حال میں دوبارہ محاذ پر چل دیتے ہیں اور آخر میں شہید ہوجاتے ہیں تین شہدا کے پسماندگان، دو شہدا کے پسماندگان یہ بہت قابل فخر بات ہے۔

اگر ہمیں یہ کامیابیاں نہ ملتیں ہماری ساری کامیابیاں آپ کے پیاروں کے خون کا صدقہ ہیں یہ قومی وقار، یہ سائنسی ترقی، یہ سیاسی غیر وابستگی، یہ انقلابی مقاصد اور امام (رہ)کے فرمودات کا زندہ رہنا یہ سب کسی قوم کو آسانی سے نہیں ملتا ہے یہ اس راہ میں ثابت قدمی، یہ مختلف شعبوں کی روافزوں درجہ بدرجہ ترقی، یہ ایک کمزور، پسماندہ اور بھولی بسری قوم کا بین الاقوامی حیثیت حاصل کر لینا اگر نہ بھی ہوتا تب بھی یہ شہدا کے یاد گارخاندان، یہ عظمتیں اور یہ شجاعتیں جن کا انہوں نے مظاہرہ کیا ہے تاریخ میں فخریہ طور پرباقی رہتیں۔

۱۹۸۶عیسوی(۱۳۶۵ہجری شمسی) میں بننے والی اس قائم نامی مستقل بریگیڈ نے جنگ کے اختتام یعنی تقریبا ڈھائی سال تک پچیس ابتدائی ودفاعی آپریشنوں میں شرکت کی ہے کیایہ مذاق ہے؟ پچیس آپریشن! سنہ پینسٹھ شمسی میں اس صوبہ کے مجاہدوں نے قائم بریگیڈ بنائی اس سے قبل سمنان، شاہرود، دامغان اور گرمسار سمیت صوبہ بھر سے مجاہدین ۱۷علی بن ابی طالب بٹالین اورامام رضا(علیھما السلام) بریگیڈ کے ماتحت محاذ پہ جاتے اورجنگ میں مشغول ہوجاتے تھے وہ اپنی جگہ! لیکن جب یہ بریگیڈ تشکیل پائی تواس کے بعد ڈھائی سال کے اندر اندرانہوں نے پچیس ابتدائی ودفاعی آپریشنوں میں حصہ لیا اس سے ایک عوامی گروہ کی عظمت کا پتہ چلتا ہے، ارادوں کی طاقت کا پتہ چلتا ہے، خاندانوں کے صبر کا پتہ چلتا ہے مرصاد آپریشن میں اسی قائم بریگیڈ نے اہم ترین کردار نبھایا، میں نے سنا ہے کہ مرصاد آپریشن میں قائم بریگیڈ کا کردار اتنا نمایاں تھا کہ اگر یہ نہ ہوتی تو شاید دشمن کرمانشاہ تک پیش قدمی کرلیتا "قائم بریگیڈ" ہی قائم رہی یہ سب تاریخ میں محفوظ رہتا ہے۔

میں نے کل بھی عوامی اجتماع میں کہا تھا کہ جہادسازندگی ادارے سے وابستہ، اس صوبہ کے جنگ میں تعاون کرنے والے اسٹاف نے انجینئرنگ شعبہ میں کارہائے نمایاں انجام دیے مجھے رپورٹ ملی تھی کہ انہوں محاذ پر پچیس ہزار کیلو میٹر لمبی سڑک تعمیر کی چارہزار خندقیں کھودیں تعداد دیکھئے! میں نے سنا کہ چودہ پندرہ سالہ بچہ بلڈوزرکی اسٹیرنگ پر بیٹھا خندق بنا رہا تھا وہ اتنا چھوٹا تھا کہ اسٹیرنگ کے پیچھے دکھائی نہیں دے رہا تھا جب وہ اپنے سامنے دیکھنا چاہتا تھا تو مجبوراً سیٹ سے اٹھ کر سامنے دیکھتا تھا صبح تک یہ بچہ خندقیں بناتا رہا یہ جوان کہاں ہیں؟ آپ ہی کے درمیان ہیں اسی قوم کے بیچ ہیں یہ ارادے کہاں ہیں ؟ ملت ایران کے مجموعی ارادے انہیں سے تشکیل پائے ہیں یہ ختم ہونے والے نہیں ہیں۔

کچھ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوکرکہہ رہے تھے کہ انقلاب جتنا پرانا ہوتا جائے گا اتنا ہی بے رنگ ہوتا چلا جائے گا لیکن انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ ایسا نہیں ہوا توسیع پسند عالمی سپر پاور کی دھمکیوں کے مقابلہ میں یہ اعلان کرنے والے کہ ہم کسی سے نہیں ڈرتے یہی ارادے ہیں۔ یہ ارادے ہیں اور ان کے مالک جوان!

ہرآزمائش کی گھڑی میں ہماری آج کی جوان نسل ویسی ہی ہے جیسی جنگ کے دوران تھی کچھ لوگ سڑک یا گلی ، بازار میں کسی لڑکے لڑکی میں کوئی خرابی دیکھ کر فوراً کہہ اٹھتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل برباد ہو گئی ہے نہیں صاحب! اس وقت بھی ایسے لوگ تھے نوجوان نسل مؤمن ہے سخت آزمائشوں میں ہی کسی قوم کو پہچانا جا سکتا ہے، قوم مشکل گھڑیوں میں اپنے آپ کو دکھاتی ہے کسی قوم کی برجستہ شخصیات اپنے ملک کی تقدیر سازی میں تبھی کردار ادا کرسکتی ہیں جب آزمائش کی گھڑیاں درپیش ہوں۔

ایک وہ دن تھا جب(سنہ۱۳۲۰شہریورکے مہینہ میں) کچھ فوجیں مشرق اور کچھ مغرب کی طرف سے ملک میں گھس آئیں آسمان میں چند ایک جہاز بھی نمودار ہو گئے تواس وقت کی فوج بارکوں سے بھی بھاگ گئی ایسا نہیں کہ صرف محاذ سے پیچھے ہٹ گئی بلکہ جو بارکوں میں تھے وہ بھی بھاگ کے گھروں میں چھپ گئے اور ایک وہ دن تھا جب دن کے دو بجے امام(رہ) نے کہا تھا کہ لوگ جائیں اورپاوہ کو دشمن کے چنگل سے چھڑا لیں تو یہی قوم تھی جس کے بارے میں شہید چمران نے خود مجھ سے کہا تھا کہ : جیسے ہی امام (رہ)کا پیغام ریڈیو پر نشر ہوا تو ہم جو دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے تھے یہ احساس کرنے لگے کہ دشمن کی شکست ہونے ہی والی ہے کچھ ہی گھنٹوں میں انسانوں کا سیل رواں پاوہ کی سمت چل پڑااسی دن شام کے چار یا پانچ بجے میں سڑک سے امام (رہ) ہی کے گھر جا رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ صورتحال ہی بدلی ہوئی ہے لوگ سڑک پر گاڑیوں میں سوار ہو ہو کے فوجی اورمحاذ پر بھیجنے والے مراکز سے محاذ پر جا رہے ہیں یہ وہی لوگ ہیں ہاں فکر اور ذہنیت بدل چکی ہے کچھ آرزوئیں رکھتے ہیں، اپنی شناخت حاصل کرچکے ہیں خود کو پہچان چکے ہیں یہی سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔

اس صوبہ کےممتاز شہدا بہت ہیں یہاں بعض کی تصویریں آویزاں کی گئی ہیں شہید شاہچراغی، شہید سید کاظم موسوی( یہ سات تیر کے واقعہ میں شہید ہوئے)، شہید سید کاظم کاظمی، شہید حسن شوکت پور، شہید محمود اخلاقی، شہید ہمتی(یہ پیکان جنگی کشتی کے کمانڈرتھے)، شہید سید احمد نبوی، شہید حسن عرب عامری، شہید مرتضی شادلو اوردیگربہت سے شہدا، یہاں کی برجستہ شخصیات کے فرزند جناب اختری صاحب کے بیٹے، جناب نصیری صاحب کے بیٹے، ان کی بہت عظمت واہمیت ہے اس لحاظ سے آپ کا صوبہ مایہ نازہے اس کی قدر پہچانیے۔

عزیزجوان یہ جان لیں کہ قوم کی پہچان انہیں چیزوں سے بنتی ہے یہی چیزیں پہچان بناتی ہیں آج اگر آپ نے ان چیزوں کو باقی رکھا توایک بہترین مستقبل آپ کا منتظررہے گا دنیا میں اگر کچھ لوگ کہیں پہنچے ہیں اگر کسی قوم نے عزت ووقارحاصل کیا ہے تو ایسے ہی حاصل کیا ہے لیکن ان اقوام کی اکثریت ایسی تھی جنہیں اس ظاہری زندگی کے اختتام پرکسی ذاتی فائدہ کی امید نہ تھی ان کی اکثریت کو مستقبل کی کوئی امید نہ تھی لیکن آپ پرامید ہیں "ان اللہ اشتریٰ من المؤمنین انفسھم واموالھم بأن لھم الجنۃ" خدا اس جان کوجنت کے عوض خرید لیتا ہے "ھی فلا تبیعوھا بغیرھا" اس انسانی قیمتی جان کو جنت کے علاوہ کسی چیز کے عوض نہیں بیچیے گا آپ کی جان کی قیمت جنت ہے آپ کی جان جنت برابرقیمتی ہے۔

ایک انسان کے لئے اہم یہی ہوسکتا ہے کہ اسے اس دنیا میں کامیابی مل جائے ایک اچھا مستقبل بلکہ اس کا مستقبل رضوان الہی اور بہشت الہی قرار پائے۔ یہ چیز جدوجہد سے ملے گی، صبرسے ملے گی، انتھک کوششوں سے ملے گی، پرہیزگاری اورپاکدامنی سے ملے گی دشمن کی طرف سے کھڑے کئے گئے چیلنجوں کے مقابلہ میں انسان سختیاں برداشت کرتا ہے لیکن خدا کہتا ہے ان سختیوں سے نہ ڈرنا" ان تکونوتألمون فأنھم یألمون کما تألمون" اگر دشمن کی ضرب سے تم سختی برداشت کر رہے ہو تو دشمن بھی تمہاری مزاحمت اورصبر کے باعث تکلیف میں ہے لیکن فرق یہ ہے کہ " وترجون من اللہ ما لا یرجون" تمہیں مستقبل کی امید ہے جو دشمن کو نہیں ہے جہاد اور شہادت کا اسلام میں یہ رتبہ ہے یہاں کوششیں فائدہ ہی فائدہ رکھتی ہیں ایسی سچی کوششیں جو انسان کی زندگی کو با معنی بنا دیں انسانی تحرک کی سمت کا تعین کرتی ہیں ان سے مجموعی طور پر قوم کا مستقبل روشن وتابناک ہوجاتا ہے اورانفرادی طور پر انسان کا سرانجام رضوان الہی قرارپاتا ہے اسلام میں جہاد اور شہادت کا یہ مقام ہے دوسری کوئی شئی اس کا متبادل نہیں بن سکتی۔

پروردگارا! ہمارے شہداء کی ارواح طیبہ پراپنی رحمت ورضوان نازل فرما، پالنے والے! شہداءکے عزیزپسماندگان کومکمل صبر اوراجرعظیم عطاکر، پالنے والے! ہماری موت صرف اپنی راہ میں شہادت کو قراردے!

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ