ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرِمعظّم کا شاہرود کے عوام سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّدو علیٰ آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الار ضین۔

خداوندِ متعال کا شکر گذار ہوں اور دل کی گہرائیوں سے خوش حال ہوں کہ مجھے توفیق حاصل ہوئی کہ ایک بار پھر شاہرود کے عزیز ،زندہ دل اورہشّاش وبشّاش عوام کے درمیان حاضر ہوں اور ہمیشہ کی طرح آپ کے عظیم اور پر جوش اجتماع کا نظارہ کروں۔ایک بار پھر یہاں کے لوگوں کی دیرینہ محبّت،صفا اور ایمان کےمظاہر کو نزدیک سے مشاہدہ کروں ۔

خواہ وہ طاغوت سے پیکار کا دور ہو یا اسلامی انقلاب کی کامیابی کا دور یا مشہد میں ہماری طالب علمی کا زمانہ یا اس کے بعد مسلّط کردہ جنگ کا دور، غرض ہم نے ہر دور میں ہر ادارے ،انقلاب اور عمل کے میدان میں شاہرودی عوام کو ان خصوصیّات کا حامل پایا ہے، دیندار ،زندہ دل،پر جوش،اہل عمل،علم دوست ،اسلامی اور دینی اقدار کے پائبند، آج جب کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کو کئی سال بیت چکے ہیں اور ہمارا ملک گذشتہ سالوں میں طرح طرح کے تجربات سے گذر چکا ہے ،شاہرود کے عوام کو یہاں کے مرد و عورت ،بوڑھے اور جوان اور مختلف طبقات سے وابستہ افراد کو انہیں خصوصیّات کا حامل پاتے ہیں؛ با عظمت شہر ، زندہ دل لوگ ،پاک و پاکیزہ دل۔ یقیناّ ضلع شاہرود کے عوام کی اخلاقی تربیّت میں یہاں کے دین و اخلاق کے اساتذہ کا نمایاں کردار ہے ۔دین واخلاق کے بر جستہ علماء و اساتذہ نے یہاں کے عوام پر ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں، چاہے ان علماء کا تعلّق شاہرود سے رہا ہویا اس کے گرد و نواح سے ،خواہ ماضی کے علماء ہوں یا وہ علماء جو ہمارے ہم عصر تھے اور ہم نے انہیں نزدیک سے دیکھا ۔ہماری جوانی کے زمانے میں یہاں کے ممتاز علماء کا نام ہر عام و خاص کی زبان پر جاری تھا ،مرحوم آیۃ اللہ العظمی ٰشاہرودی جو مرجعِ تقلید اور حوزہ علمیہ نجف کے نامور استادتھے؛ مرحوم آیۃ اللہ آقا شیخ آقا بزرگ شاہرودی جو ایک ممتاز علمی شخصیّت اور شاہرود کے رہنے والے تھے؛ اس سے قبل ہم نے مشہد میں ایک اور برجستہ عالم دین کا نام بہت سنا تھا جن کا نام نامی سیّد عبّاس شاہرودی تھا موصوف یہاں کے ایک با تقویٰ اور پر ہیزگار عالم دین مرحوم آقای حاج آقا حسین شاہرودی کے چچا تھے جن کا چند برس پہلے انتقال ہوا ہے؛انقلاب کے زمانے تک کی بات کریں تو مرحوم توحیدی کا نام سامنے آتا ہے جو ایک برجستہ و ممتاز اور سرگرم شخصیّت کے مالک تھے؛ اور اگر ان سے قدرے جوان طبقے کی بات کریں تو مرحوم آقا طاہری اور بہت سے دیگر علماء کا نام سامنے آتا ہے ،یہ علماء پرورسر زمین ہے ،دین و اخلاق کے اساتذہ کی سر زمین، ماضی میں بھی بایزید بسطامی اور ابوالحسن خرقانی کا نام تمام مسلمانوں ، اسلامی تعلیمات اور معارف سے آشنائی رکھنے والے ، بلکہ غیر مسلموں نے بھی سن رکھا ہے۔البتّہ بایزید اور ابوالحسن خرقانی جیسے افراد کو ،تصوّف و عرفان کا نام نہاد دم بھرنے والوں سے الگ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ان کا ماجرا ،ان کی داستان الگ ہے ۔

یہ نکتہ کافی اہمیّت کا حامل ہے کہ اس خطّے نے دین اور اخلاق کے اس قدر ممتاز اور برجستہ اساتذہ کی تربیّت کیوں کر کی ہے ؟ یہ محض ایک اتّفاق نہیں ہے؛ بلکہ اس سرزمین کے لوگوں میں پائے جانے والے دیرینہ خلق و خو کی علامت ہے؛ معنوی مسائل کا رجحان ،اسلامی اور اخلاقی قدروں پر یقین اور اعتقاد ، یہاں کے عوام کی رگوں میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے ۔میں ان مطالب کو اس لئیے نہیں عرض کر رہا ہوں کہ شاہرود کے عوام کو اچھّا لگے ؛وہ خود بھی بخوبی اس سے واقف ہیں ۔بزرگوں اور آباء و اجداد کی فضیلتوں اور کارناموں کے تذکرے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم ان پر فخر و مباہات کریں ،بلکہ اس تذکرے کا ایک دوسرا اہم مقصد ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اور اجتماع ،اپنے وطن کی بنیادی قدروں سے آگاہ ہو،اپنی صلاحیّتوں کو پہچان لے ،اپنی اخلاقی اور انسانی قدروں سے روشناس ہو ،تو ایسے لوگ ان مشکلات کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکتے جو دوسروں کی پیدا کردہ ہوں ۔اس قوم اور اجتماع کا مستقبل ایک روشن اور تابناک مستقبل ہے ۔

سالہاسال ،شاید دسیوں سال سے سامراجی طاقتوں کی یہی کوشش تھی کہ ایرانی قوم کو اپنے آپ سے ،اپنی قدروں اوراپنے ماضی سے بیگانہ بنایا جا سکے۔ہماری پہلی نسل کے روشن فکروں کا سب سےبڑا جرم یہ تھا کہ وہ مغربی فکر و ثقافت کے مروّج تھے ۔انہوں نے ایرانی قوم سے یہی بیان کیا اور اس پر اصرارکیا،اسے بار بار دہرایا کہ تم کچھ نہیں ہو ،تمہاری قدریں ،تمہارے عقائد، تمہارا ماضی،تمہارے بزرگوں کی تاریخ کی کوئی قیمت نہیں ۔اور اس طریقے سے ایک نسل کو اپنے سے بیگانہ کرنے میں کامیاب ہوئے جس نے رضا خان جیسے مغرورکی ظالم اور پٹھو حکومت کو قبول کر لیا ۔یہ وہ سلوک ہے جو دشمنوں نے سالہا سال اس قوم سے روا رکھّا ۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی پر منتج ہونے والے برسوں کے دوران ،عوام اور علماء کی عظیم اسلامی تحریک کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو،ان کی پہچان ،ان کی استعداد ،ان کے ماضی اور تاریخ کے بارے میں خوشبین کیا جائے اور جھوٹ وگمان کے اس پردے کوچاک کیا جائے جو دشمنوں نے ہمارے قومی یقین و اعتماد پر ڈال رکھّا تھا ؛انہیں اس میں کامیابی بھی نصیب ہوئی ۔شاہرود ان شہروں میں سے تھا کہ جہاں کے عوام اور نوجوانوں نے اس کا استقبال کیا۔طاغوتی حکومت کے خلاف تحریک کے دوران ،شاہرود سے میرا نزدیکی رابطہ رہا ہے ۔ہمارے دوست واحباب ،ہمارے ہمسفر جب بھی شاہرود آتے تھے یہاں کے نوجوان نہایت گرمجوشی سے ان کا استقبال کرتے تھے؛اس شہر کی مساجد میں ایسے جلسات کثرت سے منعقد ہوتے تھے جہاں انقلاب کے مبانی اور مفاہیم نیز اسلامی تحریک سے مربوط مسائل پربحث و گفتگو ہوا کرتی تھی۔خداوند متعال، مرحوم جناب توحیدی اوراس شہر کے بعض دیگر علماء پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو ان نوجوانوں کی راہنمائی کرتے تھے اور مجھ سے بھی رابطے میں تھے۔اس شہر کے کچھ پرجوش اور مؤمن نوجوان مشھد میں ہم سے رابطہ قائم کئیے ہوئے تھے۔مجھے بھی اس دوران کئی بار شاہرود آنے کا موقع ملا۔انقلابی تحریک کے عروج کے زمانے میں ،میں نے ایک شب شاہرود کے پرجوش اور مؤمن نوجوانوں کے درمیان بسر کی ،یہ تجربات انسان کی یاد سے نہیں جاتے۔شاہرود کے لوگو!آپ بھائیوں اور بہنوں اور قابل احترام اور عزیز خاندانوں نے آٹھ سالہ مقدّس دفاع کے دوران بھی اچھا امتحان دیا۔اس ضلع کے زیادہ تر شہداءکاتعلّق شاہرود سے ہے ۔مسلّح افواج اور جانبازوں کی بعض ممتاز اور برجستہ شخصیّات کا تعلّق اس خطّے، اس شہر اور اس کے گرد و نواح سے ہے۔ہمیں امّید ہے کہ آپ لوگ اس ملک کے مستقبل میں بھی اپنا وہی نمایاں کردار ادا کریں گے جو آپ نے ماضی میں ادا کیا اور اب تک اسے ادا کر رہے ہیں ۔

پوری ایرانی قوم اور آپ عزیز عوام یہ جان لیں کہ اسلام اور کفرواستکبار کے محاذ میں جاری پیکار میں اسلام وایمان کے محاذ کی کامیابیاں ،باطل کے محاذ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں خوش قسمتی سے ہماری قوم کی آگاہی و ہوشیاری نے ان کے لئیے ان شرائط وحالات کو بالکل واضح کر دیا ہے۔مسئلہ صرف ایران کا نہیں ہے ؛مسئلہ اسلامی تحریک کا ہے اور ایرانی قوم اس تحریک کی پرچمدار ہے ۔ایرانی عوام نے جس دن اس اسلامی تحریک کا آغاز کیاتھا اس کی نیّت ایک عالمی تحریک کی نہیں تھی بلکہ ملک و ملّت کا درد رکھنے والے بعض افراد نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر ،حق کا دفاع کرنے اور ظلم اور نا انصافی کے خلاف قیام کرنے کے بارے میں اپنی ذمّہ داری کا احساس کرتے ہوئے جو فرض سمجھا اسے انجام دیا ،ہمارے عزیز امام (رضوان اللہ علیہ)نے بارہا اس نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے، کہ آپ جن حالات میں جو فریضہ سمجھتے تھے اسے انجام دیتے تھے اور اس راہ پر قدم اٹھاتے تھے ؛ مشکلات آپ کو پیچھے نہیں دھکیلتی تھیں ،تحریک چلانے والوں ،اس راہ میں لڑنے والوں اور ایرانی عوام کاقصد یہ تھا اس ملک کی مشکلات اور مسائل کا ازالہ کریں ۔لیکن حق بات کا خاصہ یہ ہے کہ پوری دنیا کے مشتاق دلوں کو اپنی طرف مائل کرلیتی ہے ۔

ایرانی قوم کا انقلاب،اسلامی دنیا کے مختلف خطّوں کے مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں کو اپنی طرف متوجّہ کرنے میں کامیاب ہوا اور انہیں برے طریقے سے جھنجھوڑا؛بہت سوں کو نیند سے جگایااور جوان نسل کو ان اہداف و مقاصد کی طرف متوجۃ کیا جن کا حصول ممکن تھا۔لہٰذا یہ تحریک ایک اسلامی تحریک قرار پائی ۔ ہمیں ملکوں کے داخلی معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں ۔فلسطین ،لبنان اور عراق کی تحریکیں، ایرانی حکومت اور عوام کے ذریعہ نہیں چلائی جا رہی ہیں ؛لیکن یہ آپ لوگوں کی تحریک ،آپ نوجوانوں کی استقامت اورآپ خاندانوں کا صبر ہی تھا جس نے فلسطینی قوم کو بیدار کیا ؛جس نے لبنان کے مومن جوانوں کو وہ قدرت عطا کی اور ان میں وہ روح پھونک دی کہ جس کی وجہ سے انہوں نے ایک ایسی فوج کا اس طرح جم کر مقابلہ کیا اور اسے ایسی شکست سے دوچار کیا جو ایک ظالم فوج تھی ،جو اسلحے سے پوری طرح لیس تھی ،جسے امریکہ کی مکمّل حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی۔اگر چہ میداں کارزار میں ،حزب اللہ اور لبنانی قوم بر سر پیکار تھے لیکن دنیا کے صاحبان فکر و نظر کا یہ متّفقہ فیصلہ ہے کہ اس معرکے میں ایرانی قوم کو کامیابی نصیب ہوئی ۔آج اسلامی دنیا میں جہاں کہیں بھی کسی اسلامی گروہ یا اسلامی نعرے یا اسلامی قدر کو کامیابی ملتی ہے ،بین الاقوامی سطح پر، دنیا اور سیاستداں یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ اس مسئلے میں ایرانی عوام کو کامیابی ملی ہے ؛حالانکہ ایرانی قوم کا فلاں ملک اور فلاں سیاسی اور انقلابی گروہ سے کوئی سر و کار نہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج "لا الٰہ الا اللہ محمّد رسول اللہ "کے زیر سایہ، قوموں کے استقلال کا پرچم آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ اور آپ نے تمام مشکلات اور سختیوں کے باوجود اس پرچم کو اٹھا رکھّا ہے ۔اسے سر نگوں نہیں ہونے دیا ۔ایرانی قوم نے اس طاقت کا مظاہرہ کیاہے ۔ یہ ہماری قوم کے لئیے ایک عظیم افتخار ہے ۔

لیکن یہ کافی نہیں ہے ۔ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے دل اسی پر راضی ہو جائیں کہ ایرانی قوم ،بین الاقوامی سطح پر یا اسلامی بین الاقوامی سطح پر سربلند و سر افراز ہے ؛یہ اپنی جگہ مسلّم ہے ؛لیکن ہم اسی پر قانع نہیں ہیں ۔ہمیں ایسے سماج و معاشرے کو وجود میں لانے کے لیئے اپنی پوری توانائی صرف کرنا چاہئیے جو اسلام کا پسندیدہ ہو ۔اس کام کو انجام دینا چاہیے ؛ یہ ہمارا فریضہ ہے ۔ اور اتفاق سے وہ بنیادی نکتہ بھی یہی ہے جس پر عالمی پیمانے پر اسلام دشمن طاقتیں اپنی پوری توجّہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور ان کی دلی آرزو ہے کہ یہ کام انجام نہ پائے ۔وہ ملک اور سماج جو اسلام کے مدّنظر ہے اسے مادی اور معنوی اعتبار سے پیشقدم ہونا چاہئیے ۔

ہمارے ملک کو علم و ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں مقام حاصل کرنا چاہئیے ۔اقتصاد اور دیگر میدانو ں میں بناوٹ اور لوگوں کے اجتماعی روابط کے اعتبار سے پیشرفت ہونا چاہئیے ، لوگوں کے باہمی روابط کو ،مضبوط ہونا چاہیے، انہیں پیشرفت اور خلاقیت کا عکّاس ہونا چاہیے؛معاشرے میں سب کی صلاحیّتوں کو نکھرنے کا موقع ملنا چاہیے ،تا کہ تمام انسان اپنی خداداد صلاحیّتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کے اہداف و مقاصد کے حصول میں باہمی تعاون اور مدد کا مظاہرہ کر سکیں ۔اس معاشرے میں اجتماعی عدالت و انصاف کو حکمفرما ہونا چاہئیے ۔عدالت کے معنا تمام امور میں برابری کے نہیں ہیں ؛ بلکہ مواقع میں یکسانی کے ہیں ؛ حقوق میں برابری کے ہیں ۔سب لوگ مساوی طور پر پیشرفت اور ترقّی کے مواقع سے مستفید ہوں ۔ عدالت مخالف اور حدود سے تجاوز کرنے والےستم پیشہ افراد کا ڈٹ مقابلہ کیا جائے اور لوگوں کو اس پر مکمّل اطمینان ہو۔

ایسے معاشرے میں مادی پیشرفت کے مطابق ،اخلاق اور معنویّت کو بھی آگے کی سمت حرکت کرنا چاہیےاور لوگوں کے دل، خدا اور معنویّت سے آشنا ہونا چاہیے ۔خدا، معنوی دنیااور خدا کی یاد سے انس ،آخرت سے لگاؤ ایسے معاشرے میں رواج پانا چاہیے۔یہی وہ مقام ہے جہاں اسلامی تمدّن اور معاشرے کی استثنائی خصوصیّت اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے ؛جہاں دنیا و آخرت کا امتزاج نظر آتا ہے ۔

مغرب کے مادی تمدّن نے علم و ٹیکنالوجی میں نمایاں ترقّی کی ہے ۔پیچیدہ مادی تحقیقات میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں ؛ لیکن معنویّت کا پلڑا روز بروز ہلکا ہوتا جا رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب کے مادی تمدّن کی ترقّی اور پیشرفت بشریّت کے حق میں نقصاندہ ثابت ہوئی ۔حالانکہ علم کو بشریّت کے لئیے مفید ہونا چاہئیے۔

ارتباطات کی سرعت اور سہولت کو عوام کے سکون ،سلامتی اور آرام کا باعث بننا چاہیے۔ وہ علم جس کی دریافت سے لوگوں کی دن رات کی نیند حرام ہو بشریّت کے لئے ہر گز مفید نہیں ہو سکتا ، کبھی ایٹم بم کا خوف کبھی دورمار میزائیلوں کا ڈر،کبھی نادانستہ دھماکوں کا خطرہ۔مغربی دنیا اپنی علمی پیشرفت کے باوجوداس خطرناک جال میں پھنسی ہوئی ہے ۔

اسلامی تہذیب و تمدّن کے نکتہ نگاہ سے بھی مادی پیشرفت ایک مطلوب امر ہے ؛ لیکن لوگوں کی سلامتی کے لئے ،لوگوں کی آسائش کے لئے ،رفاہ عام کے لئے ،لوگوں کے درمیان آپسی میل ملاپ اور ہمدردی کو فروغ دینے کےلئے ؛ یہ اسلامی نظام کی خصوصیّات ہیں ۔ہم نے انقلاب کے آغاز سےہی انہیں بلند آواز سے عالمی پیمانے پر پیش کیا اور مسلم اور غیر مسلم اقوام کے بہت سے دل اس طرف مائل ہوئے ہیں ۔ایرانی قوم کی عزّت کا رازیہ خصوصیّات ہیں ۔ یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ عالمی اداروں میں ایک عیسائی مفکّر ، ایک غیرمسلم سیاستداں ،ملحد و بے دین شخص، اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی فکر سے متاٰثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ہم اپنے ملک میں ان اعلیٰ افکارکو عملی شکل دینا چاہتے ہیں ۔بھائیواور بہنو!اس کام کے لئےسخت محنت اور لگن کی ضرورت ہے ؛اس کے لئے مؤمن ،جانباز اور بہادر افراد کی ضرورت ہے ؛اس کے لئے حکومت اور قوم کے رشتوں میں دن بدن مضبوطی لانا ضروری ہے۔اس ملک وقوم اوران اہداف کے دشمنوں نے انہیں نکات کو نشانہ بنا رکھّا ہے ۔حکومتی عہدیداروں اور عوام کے رشتوں کو کمزور کرنے کے لئے نئی نئی سازشوں میں مصروف ہیں ؛ حکومت کی ذمہ دار شخصیّات کے عزم کو کمزور کرنے کے لئے نئے نئے منصوبے بناتے ہیں ۔گذشتہ چند برسوں میں مغرب کی پروپیگنڈہ مشینری نے واضح لفظوں میں یہ اعلان کیا ہے اور اسے بار ہا دہرایا ہے کہ ہمارا مقصد اسلامی جمہوریہ ایران کی انتظامیہ میں انتشار ڈالنا ہے ؛انہیں دو گروہوں میں تبدیل کرنا ہے ؛انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے اور الحمد للہ انہیں اس میں کامیابی نہیں ملی۔

انہوں نے یہ منصوبہ بنا رکھّا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی فکر کو اس ملک کے مستقبل کی تعمیر سے منحرف کر کے اسے شہوت اور ہوس پرستی کی راہ پر لگائیں ۔لوگوں کے دلوں کو اس طولانی اور دشوار مگر پر اشتیاق

راستے پر چلنے سے مایوس کریں جسے وہ امّید کے سائے میں با آسانی طے کر سکتے تھے ؛ ان کے دلوں کو امّید سے تہی کریں ۔یہ دشمن کے منصوبوں میں شامل ہے ۔

میں آپ سے عرض کرتا چلوں کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ستّائیس برسوں میں ایک دن بھی ایسا نہیں گذرا ہے جس دن دشمن نے ہمارے خلاف سازش نہ کی ہو ۔ایرانی قوم ،اسلامی انقلاب اور اس عظیم تحریک کا مقابلہ کرنے میں دشمن کو آج تک پے درپے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔دشمن کسی بھی وقت کامیاب نہیں ہو سکا ۔

ہاں البتّہ کبھی کبھی ان کے اندر بیکار کی امیّدیں ضرور پیدا ہوتی تھیں اورکسی طرف سے غلط اشارے بھی ملتے تھے ، اس وقت وہ یہ تصوّر کرنے لگتے تھے کہ شاید ان کی سازشیں کسی منزل تک پہنچ چکی ہیں لیکن انہیں فوراّ اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا تھا ۔لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ دشمن کو کامیابی نہیں ملی ۔آج ملک کے مستقبل کے بارے میں ملکی ذمّہ داروں کے پاس ایک نپا تلااور واضح پلان موجود ہے ۔ملک کی ذمّہ دار شخصیّات بھی ایسی شخصیّات ہیں جو پورے عزم وارادے اورخود اعتمادی کے ساتھ ان اہداف کی راہ پر رواں دواں ہیں ۔

میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آج پہلے کے مقابلے میں ، انقلاب کے اہداف و مقاصد کے طولانی ، پرپیچ وخم اور دشوار راستے پر چلنے کی ملکی عہدیداروں کی سعی و کوشش کہیں زیادہ ہے ؛حالانکہ یہ ہمارے دشمنوں اور مخالفین کی توقّعات کے بالکل بر عکس ہے ،وہ یہ سوچ رہے تھے وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ امیّدیں پھیکی پڑتی جائیں گی ؛ لیکن صورت حال اس کے بالکل بر خلاف ہے ۔آج ہماری حکومت اور اس کے اہلکار ، مشکلات کو دور کرنے کے لئے ،گتھیاں سلجھانے اور راستہ طے کرنے کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ خود اعتمادی اور کوشش کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔اور میں آپ سے یہ عرض کر دوں جن پروجیکٹوں پر یہ لوگ کام کر رہےہیں ان سب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے ۔ جیسا کہ انقلاب کے اوائل سے لے کر آج تک جو بھی کام ہوئے ہیں اور مختلف میدانوں میں جو بھی پیشرفت ہوئی ہے وہ کسی معجزہ سے کم نہیں ۔البتّہ کچھ مشکلات بھی ہیں ۔میں ملک کے مختلف حصّوں اور شاہرود کے باشندوں کی مشکلات سے با خبر ہوں ۔جو نقائص ،جو گلے شکوے اور توقّعات پائی جاتی ہیں میں سب سے آگاہ ہوں ؛ان امور سے بھی آشنا ہوں جنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے جیسے پانی کا مسئلہ ، بے روزگاری کا مسئلہ اور دیگر طرح طرح کے مسائل جو یہاں کے لوگوں کے مدّ نظر ہیں ۔ان چیزوں کا مطالبہ لوگوں کا حق ہے ۔البتّہ حصولیابی کے اعتبار سے سب مسائل یکساں نہیں ہیں ؛بعض چیزوں میں کچھ صبر کا مظاہرہ کرنا ہو گا،بعض چیزوں کا حصول قدرے آسان ہے ۔سب سے اہم بات یہ کہ ملک کے ذمّہ دار افراد کو ضرورتوں کا علم ہو اور انہیں پورا کرنے کے لئے پختہ عزم کئیے ہوں، بدعنوانی اورناجائز فائدہ اٹھانے کے راستے کو بند کریں ۔میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ خداوند متعال کے لطف وکرم اور اس کی توفیق کی بدولت یہ سب چیزیں ہمیں حاصل ہیں ۔

اس ضلع سے مربوط ضلعی دستاویزات ،تنظیم شدہ دستاویزات ہیں ۔ حکومت کے ذمّہ دار حضرات اس خطّے کی ضرورتوں اور امکانات سے آگاہ ہیں۔اور انہیں پورا کرنے کے لئیے کوشاں بھی ہیں ۔خوش قسمتی سے ان کاموں کو انجام دینے کے لئے تازہ دم اور آمادہ بھی ہیں ، انہیں ان کاموں کو انجام دینا چاہیے ۔البتّہ بعض کاموں کا خاصہ یہ ہے کہ انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے ۔بعض کاموں میں کوئی راستہ طے کرنے کے لئے اور کسی منزل تک پہنچنے کے لئے دس گھنٹے کا وقت درکار ہوتاہے وہاں یہ توقّع نہیں کی جاسکتی کہ یہ سفر ایک گھنٹے میں طے ہو جائے ۔ بعض راستے نزدیک ہوتے ہیں اور بعض دور۔سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ذمّہ دار حضرات میں احساس، دلچسپی،ہمّت اور مسائل کی سوجھ بوجھ ہو اور یہ الحمد للہ پائی جاتی ہے ۔

آپ کے احساسات ،اعتماد ،امّید اور دلوں کی پشت پناہی ،حکام کی ڈھارس اور حوصلہ افزائی کا باعث ہے ۔وہ آپ کے اعتماد ،شوق و شغف اور محبّت پر تکیہ کئے ہوئےہیں اور یقیناّ حجّت ان پر تمام ہو چکی ہے ۔یعنی ملک کے حکام کو عوام کی بھرپور اور ہمہ جہت حمایت حاصل ہے اور اس حمایت کی بنیاد ایمان پر مبنی ہے ۔

مملکت کےحکام کو آپ کے اس اعتماد اور حسن ظن پر بھروسہ کرتے ہوئے کاموں کوآ گے بڑہانا چاہیے اور میں بہت زیادہ پر امّید ہوں کہ انشاءاللہ وہ ان تمام امور کو خوش اسلوبی سے انجام دیں گے جنہیں انجام دینا ان کا فریضہ ہے ۔عوام بھی اپنے کردار کو فراموش نہ کریں ۔اور ہر شخص کو اس کی ذمّہ داری کا احساس دلائیں اور اپنے مطالبات کا تعاقب کریں ۔یہ عوام کا فریضہ ہے ۔ حکام کا اپنا کردار ہے اور عوام کا اپنا، اس آپسی تال میل کے نتیجے میں اور خداوند متعال کی توفیقات کے زیر سایہ ہم انشاءللہ بہت اچھے دن دیکھیں گے ۔ہمیں امیّد ہے کہ جس طرح ہماری قوم نے عظیم اسلامی نعروں اور آرزوؤں کو پیش کر کے امّت اسلامیہ کو اپنی طرف متوجّہ کیا ،اسلامی نظام حکومت کا ایک مکمّل اور جامع نمونہ پیش کر کے امت اسلامیہ کے لئے اس راستے کو بھی ہموار کرے گی ۔

پروردگارا ! تجھے محمّدو آل محمّد کا واسطہ ،ان مومن اور زندہ دل لوگوں پر اپنا لطف و کرم نازل فرما، پروردگارا !حکام کو ان مؤمن، پاک دل لوگوں کے خدمت کی توفیق عنایت فرما، پروردگارا !عوام اور حکام کے درمیان محبّت اور تعاون کے رشتوں میں دن بدن اضافہ عنایت فرما۔

میں آپ لوگوں کا تہہ دل سے شکرگذار ہوں جو لوگ اس میدان میں جمع ہوئے ہیں یا جن بھائیوں اور بہنوں نے راستے میں ہمارا استقبال کیا ،میں دل کی گہرائی سے آپ کی اس محبّت اور لطف کا مشکور ہوں امّید کرتا ہوں کہ امام زمانہ حضرت ولی عصر (ارواحنا فداہ ) کی نظر عنایت ،ہر حال میں ہم سب کے شامل حال ہو ۔

والسّلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ