بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
سب سے پہلے ،پوری تاریخ میں امّت مسلمہ کو بیدار کرنے والے اور ناقابل فراموش تاریخ رقم کرنے والے تاریخ انسانیّت کے شہید اعظم حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السّلام کی شہادت کی تسلیّت و تعزیّت پیش کرتا ہوں اور آپ خواتین و حضرات کو خوش آمدید کہتا ہوں جو قم کے غیور اور بیدار عوام کی تحریک کی سالگرہ کے موقع پر وہاں سے تشریف لائے ہیں اور جنہوں نے اس دوستانہ اور باصفا اجتماع کو منعقد کیا ہے ۔
انّیس دی ۱۳۵۶ ھ۔ش(۹جنوری ۱۹۷۸ع) کا واقعہ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے جو قصّہ پارینہ بن چکا ہو بلکہ اس واقعہ کی اہمیّت اس اعتبار سے ہے کہ ایرانی قوم کا جزو ہونے کی حیثیّت سے قم کے عوام نے ایک حادثے کو اس کے رونما ہونے سے پہلے محسوس کیا اور پھر ملک میں ایک عظیم تحریک چلانے میں ان کی دانشمندی اور بیداری ان کے کام آئی ، اس دور کے بعض سطحی فکر رکھنے والے افراد کی نگاہ میں ، شاہی دربار سے وابستہ ایک ضمیر فروش کے قلم سے امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی شان میں گستاخی کے معاملے کی کوئی خاص اہمیّت نہیں تھی ،چونکہ وہ اس واقعے کی گہرائی اور اس کے خفیہ پہلوؤں کو سمجھنے سے قاصر تھے ، اور جب انسان کسی معاملے کی نزا کت کو نہیں سمجھ پاتا تو اس پر رد عمل بھی نہیں ظاہر کرتا ، قم کے عوام اور یہاں کے جوانوں نے اس واقعے کی اہمیت و سنگینی کو سمجھا ، اسے محسوس کیا ، یہ ہمارے انقلاب کی تاریخ میں اس واقعے کا سب سے اہم پہلو ہے ، اگر آپ، اہل قم نے اس واقعے کی نزاکت کو نہ سمجھا ہوتا ، اور آپ جان بہ کف سڑکوں پر نہ نکلے ہوتے ، دفاع نہ کیا ہوتا ، شہیدوں کا نذرانہ نہ پیش کیا ہوتا ، اور اس دن طاغوتی نظام حکومت کو اس بے مثال ذلّت و رسوائی سے دوچار نہ کیا ہوتا تو یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ہماری انقلابی جدّ و جہد اپنا راستہ جاری رکھنے میں کامیاب ہو جاتی اور اس نتیجے پر منتج ہوتی ، نکتہ آغاز کی بڑی اہمیّت ہوتی ہے ، نکتہ آغاز کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے ، بلکہ ایک ایسے واقعے کے صحیح فہم و ادراک کا نتیجہ ہے جس کے متعدّد پہلو آنکھوں سے پنہان تھے ، قم کے انّیس دی (۹جنوری ) کے واقعے میں یہ ہنر نمایاں ہے ، اس سے یہ واضح ہو گیا کہ قم کے عوام نے معاملے کی نزاکت کو بخوبی سمجھا ، سازش کو سمجھا اور انہیں معلوم تھا کہ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) کے خلاف لکھّے جانے والے مقالے کے بعد کون سی چیزیں رونما ہوں گی ، انہوں نے جب سازش کو سمجھا تو رد عمل دکھایا جو ایک فطری عمل ہے ۔
آج بھی درس یہی ہے ، آج ،قوموں میں اس قدر سیاسی بصیرت ہونی چاہئیے کہ وہ حادثات کے رونما ہونے سے پہلے انہیں محسوس کر سکیں، انہیں معلوم ہو کہ کیا ہونے والا ہے اور اس پر اپنا رد عمل دکھائیں، اگر ہم تاریخ اسلام پر ایک نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ سیاسی بصیرت کے فقدان کی وجہ سے ،قومیں ہمیشہ ہی خواب غفلت کا شکار رہی ہیں ،اور قوموں کے دشمنوں کو یہ موقع ہاتھ لگا ہے کہ وہ ان سے دل چاہا سلوک کریں اور ان کے رد عمل سے بھی محفوظ رہیں ۔
اس زاویہ نگاہ سے واقعہ کربلا کا جائزہ لیجئیے ۔ واقعہ ہجرت کے ساٹھ سال بعد ، اور پیغمبر ا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم )کی رحلت کے پچّاس سال بعد ، بہت سے مسلمان ، اس دور میں پائے جانے والے حالات کا صحیح تجزیہ و تحلیل نہیں کر پا رہے تھے۔ اور چونکہ تجزیہ نہیں کر پا رہے تھے، اس لئیے ردّ عمل بھی ظاہر نہیں کر رہے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو کھلی چھوٹ حاصل تھی جو امت مسلمہ کے راستے میں انحراف پیدا کرنا چاہتے تھے ، وہ اپنے من چاہے طریقے سے سلوک کر رہے تھے اور کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا ،اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک فاسق و فاجر اور رسوائے زمانہ شخص امّت اسلامیہ کا رہبر اور پیغمبر اسلام (ص)کا جانشین بن بیٹھا جس میں اسلامی حاکمیّت اور پیغمبر اسلام (ص)کی جانشینی کے شرائط کا پایا جانا تو دور کی بات، اس کا کردار ، آنحضرت (ص)کے کردار کے بالکل منافی تھا ۔
آج آپ کی نگاہ میں یہ واقعہ کتنا حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے ؟ لیکن اس دور کے لوگوں کو اس پر کوئی تعجّب نہیں ہوا ، یہانتک کہ خواص نے بھی خطرے کو نہیں محسوس کیا ، شاید بعض لوگوں کو خطرے کا احساس ہوا بھی لیکن ذاتی مفادات اور ان کے عیش و عشرت نے انہیں اس پر رد ّ عمل دکھانے کی اجازت نہیں دی ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم ، شریعت اسلام کو لے کر آئے تا کہ لوگون کو توحید، عدل ومساوات ،اخلاقی قدروں اور انسانی معاشرے کی فلاح و بہبود کی سمت لے جائیں لیکن آج ایک ایسا شخص پیغمبر اسلام (ص)کا جانشین بنا بیٹھا ہے جو سراپا گناہ اور فسق و فجور ہے ، جو خدا کے وجود اور اس کی وحدانیّت پر ذرّہ برابر بھی ایمان نہیں رکھتا ، پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے پچّاس برس بعد ایک ایسا شخص ، مسند خلا فت پر بیٹھا ہے ؟! آج آپ لوگوں کو یہ بات کتنی عجیب لگ رہی ہے لیکن اس دور کے بہت سے لوگوں کو اس پر کوئی تعجّب نہیں ہوا، یہ کتنے تعجّب کی بات ہے ؟!جیسے تیسے یزید خلیفہ بن بیٹھا اور عالم اسلام کے مختلف خطّوں میں ، بدعنوان اور ظالم کارندوں کو عوام سے بیعت لینے کی ذمّہ داری سونپی گئی ، لوگوں نے بھی جوق در جوق یزید کی بیعت کی ، علماء نے بیعت کی ، زاہدوں نے بیعت کی ، ممتاز شخصیّات نے بیعت کی ، سیاسی شخصیّات نے بیعت کی ۔
ان حالات میں جب عالم اسلام پر ایسی غفلت اور بے حسی طاری تھی کہ وہ خطرے کو محسوس نہ کر پا رہا ہو، کیا کیا جاسکتا تھا؟ان حالات میں حسین بن علی(ص) کو کیا کرنا چاہئیے تھا ؟ جو اسلام کا مظہر تھے اور '' حسین منّی و انا من حسین '' کی رو سے پیغمبر اسلام (ص)کی ہو بہو تصویر تھے ۔انہیں کوئی ایسا کارنامہ انجام دینا چاہئیے تھا جو نہ صرف اس دور میں اسلامی دنیا میں بیداری کی روح پھونکے بلکہ آنے والی صدیوں میں بھی اسلامی دنیا کو بیدار کرے ، ان کے ضمیر کو جھنجوڑے ، انہیں خواب غفلت سے جگائے ، یہ کام امام حسین علیہ السّلام کے قیام سے شروع ہوا۔کوفے سے حکومت کی تشکیل کا دعوت نامہ اور کوفہ کا سفر یہ واقعے کا ظاہری پہلو ہیں ، اگر امام حسین علیہ السّلام کو کوفہ کے لوگ دعوت نہ بھی دیتے تب بھی امام حسین علیہ السّلام کا یہ قیام انجام پاتا ، امام حسین علیہ السّلام کو یہ قدم ضرور اٹھانا چاہئیے تھا تا کہ ان جیسے حالات میں تمام مسلمانوں کے لئیے لائحہ عمل کی نشاندہی کر سکیں ، آپ نے آنے والی صدیوں کے مسلمانوں کے لئیے ایک نسخہ کیمیا پیش کیا ۔ لیکن امام حسین علیہ السّلام کا نسخہ صرف لفّظی اور زبانی جمع خرچی پر مشتمل نہیں تھا کہ حکم صادر کرو اور خود ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشائی بنے بیٹھے رہو، بلکہ آپ کا نسخہ ایک عملی نسخہ تھا ۔ آپ نے خود اس پر عمل کر کے دنیا کو دکھایا کہ صحیح راستہ کیا ہے؟آپ نے اپنے نانا پیغمبر اسلام (ص)کی اس حدیث کی طرف اشارہ کیا کہ جب آپ دیکھیں کہ اسلام کو حاشیہ نشین بنا دیا گیا ہے ، ظالم اور ستم پیشہ افراد عوام پر حاکم ہیں ،اور وہ خدا کے دین میں تحریف کر رہے ہیں اور لوگوں کے ساتھ فاسقانہ و فاجرانہ برتاؤ کر رہے ہیں ، تو جو بھی شخص اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائے گا ''کان حقا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ '' تو خداوند متعال اس خاموش اور تماشائی شخص کے ساتھ بھی وہی سلوک کرے گا جو "مستحل حرمات اللہ "(حرام خدا کو حلال سمجھنے والے )کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔یہ وہ نسخہ ہے جو امام حسین علیہ السّلام نے پیش کیا ، اس راہ میں اگر امام حسین علیہ السّلام کی مقدّس اور قیمتی جان بھی قربان ہو جا ئے جو روے زمین کی سب سے قیمتی اور برتر جان ہے تو بھی امام حسین علیہ السّلام کی نظر میں یہ کوئی بہت بڑی قیمت نہیں ہے ، اس راہ میں امام حسین علیہ السّلام کے باوفا اصحاب کی گرانبہا جانوں کی قربانی ، امام حسین علیہ السّلام کی نگاہ میں کوئی بڑی قربانی نہیں ہے ،آل اللہ ، پیغمبر اسلام (ص)کے اہل حرم ، حضرت زینب علیہاالسّلام کی غیروں کے ہاتھوں اسارت بھی برداشت ہے ۔ امام حسین علیہ السّلام کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس صحرا میں ان کی شہادت کے بعد اعداء، بچّوں اور خواتین کو ا سیر کر لیں گے ، لیکن امام حسین علیہ السّلام کی نگاہ میں ، اسلام کی بقا کی خاطریہ اسارت بھی کوئی بڑی قیمت نہیں تھی ۔ ہم ،جو قیمت ادا کرتے ہیں اس کا موازنہ ان چیزوں سے کیا جانا چاہئیے جو اسلام، مسلمانوں ، امّت اسلامیہ اور معاشرے کے لئیے حاصل ہوتی ہیں ۔ کبھی کبھی انسان سو روپیہ خرچ کرتا ہے اور وہ اسراف و فضول خرچی شمار ہوتا ہے اور کبھی کبھی سو ارب کا خرچ بھی اسراف اور فضول خرچی کے زمرے میں نہیں آتا ۔ہمیں یہ دیکھنا چاہئیے کہ ہمیں اس کے مقابلے میں حاصل کیا ہو رہا ہے ؟
اسلامی انقلاب ، اسی نسخے پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے ، بانئ انقلاب حضرت امام خمینی (رہ)نے اسی نسخے پر عمل کیا ۔ کچھ سادہ لوح اور سطحی فکر رکھنے والے افراد (حالانکہ یہ لوگ برے نہیں تھے ، اچھّے لوگ تھے میں انہیں نزدیک سے جانتا تھا) یہ کہہ رہے تھے کہ امام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے اس اقدام سے قوم کے بہترین جوانوں کو میدان میں لاکھڑا کیا ہے ، ہمارے بہترین جوان مارے جائیں گے ، ان کا خون بہ جائے گا ، یہ لوگ سوچ رہے تھے کہ امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ کو اس کا علم نہیں ہے کہ ان کے اس اقدام سے ان جوانوں کی جانیں خطرے میں پڑ جائیں گی ، یہ لوگ اپنے خیال خام میں امام (رہ) کی ہمدردی میں یہ باتیں کر رہے تھے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کو وہ حالات کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام تھے ، بے شک ہم نے مسلّط کردہ جنگ میں بے شمار شہید وں کی قربانی پیش کی، بے شمار افراد جسمانی اعضاء سے معذور ہوئے ، کتنے ہی گھرانوں کو مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا ، یقینا یہ بہت بڑی قیمت تھی ، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ہمیں اس کے مقابلے میں حاصل کیا ہوا؟اس کے مقابلےمیں ہمیں ، اس بھیانک طوفان کے سامنے،ملکی خود مختاری ، پرچم اسلام ،ایران کی قومی اور اسلامی شناخت کی حفاظت نصیب ہوئی ہمارے دشمنوں نے جو طوفان کھڑا کیا تھا وہ صرف صدّام تک محدود نہیں تھا ،بلکہ صدّام تو ان کے لشکر کے ہراول دستے کا ایک معمولی سا سپاہی تھا ، اس کی پشت پر کفر و استکبار کی سبھی طاقتیں جمع تھیں ، اگر ہم تسلیم بھی کر لیں کہ یہ لوگ ابتداء سے اس سازش کا حصّہ نہیں تھے ، لیکن یہ بالکل واضح ہے کہ آگے چل کر یہ سبھی طاقتیں صدّام کے پیچھے صف آرا ہوئیں ، صدّام کو ، امریکہ ،نیٹو ، سوویت یونین اور عالمی سامراج سے وابستہ رجعت پسند قوّتوں کی مکمّل پشت پناہی حاصل تھی ۔ انہوں نے صدّام کو پیسے دئیے ، اطّلاعات فراہم کیں ، نقشے دئیے اور پروپیگنڈہ کیا ۔ اتنا عظیم محاذ تشکیل دینے کا واحد مقصد یہ تھا کہ ایران عظیم اور اس کے بہادر اور غیور عوام کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے ، تا کہ اس خطّے پرابتدا میں صدّام جیسے پست و ذلیل شخص کو قابض کیا جائے اور آگے چل کر اسے ہمیشہ کے لئیے امریکہ کا غلام بنایا جا سکے ، اور اس ملک کو دوبارہ اسی مصیبت میں گرفتار کیا جائے جس میں وہ گذشتہ دو صدیوں میں گرفتار تھا اور جس کے آثار آج بھی دکھائی دیتے ہیں ، وہ اس ملک کو کئی صدیوں تک مزید اپنے چنگل میں رکھنا چاہتے تھے ۔ لیکن ہمارے ملک کے عوام اور امام امّت اٹھ کھڑے ہوئے ، البتّہ اس راہ میں ہم نے عزیز جانوں کا نذرانہ پیش کیا ،عظیم شخصیّتیں شہید ہوئیں ، عزیز جوان قربان ہوئے ، لیکن اس عظیم نتیجے کے مقابلے میں یہ کوئی بہت بڑی قیمت نہیں ہے ۔
آج ، فلسطین کے مسئلے کی بھی یہی نوعیّت ہے ، غزہ کا مسئلہ جسے آپ مشاہدہ کر رہے ہیں ، یہ اس مسئلے کا صرف ظاہری پہلو ہے ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ تمام انسانی قدروں کو پائمال کرنے والی سامراجی طاقتیں ، جغرافیائی اور اقتصادی اعتبار سے حسّاس اور ثروت و دولت سے مالا مال ، مشرق وسطیٰ کے خطّے پر اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہیں ، اور اس کا وسیلہ فلسطین پر قابض اسرائیلی غاصب حکومت ہے ، اصل مسئلہ یہ ہے ، گذشتہ برسوں میں ، لبنان ، عراق اور فلسطین میں ہونے والی سیاسی اور فوجی سرگرمیوں کو اس تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے اور ان کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ اس خطّے کو سامراج کاغلام بنانے کی کوشش ہے ، البتّہ سامراج کا دائرہ ، امریکہ سے زیادہ وسیع ہے لیکن موجودہ دور میں سامراج کا اصلی مظہر ، بڑا شیطان امریکہ ہے ۔ سامراج اس خطّے پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے اور اس کا بہترین وسیلہ اسرائیل ہے ۔ گذشتہ چند برس کے واقعات کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ امریکہ کی وزیر خارجہ نے تینتیس روزہ جنگ کے دوران کہا تھا کہ یہ نئے مشرق وسطیٰ کا درد زہ ہے ، یعنی اس سے اس مشرق وسطیٰ کی پیدایش ہو گی جس کا خواب امریکہ نے دیکھا ہے ۔البتّہ اس خواب پریشاں کی تعبیر وہی تھی جس سے وہ دوچار ہوئے اور لبنان کے بہادر ، غیور ، مؤمن اور قربانی و ایثار کے جذبے سے سرشار جوانوں نے نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ اور اس کی پٹّھو حکومتوں کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کیا اور انہیں ذلّت کی دھول چٹائی ۔
غزہ کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے ، ان کی کوشش ہے کہ اس خطّے سے مزاحمت اور استقامت کا خاتمہ ہو جائے ، وہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اس مزاحمت کا مرکز سمجھتے ہیں ، ہاں ! انہوں نے ٹھیک ہی سمجھا ہے ، ایران ،پائداری اوراستقامت کا مرکز ہے ۔ایران وہ جگہ ہے کہ اگر ہم کوئی اقدام نہ بھی کریں ،زبان سے کچھ نہ کہیں تو بھی اس کا وجود خود بخود خطّے کی قوموں کے لئیے الہام بخش ہے ،یہ ایک ایسا وجود اور تشخّص ہے جو سامراجی طاقتوں کی تمام تر سازشوں کے باوجود علاقے میں سر اٹھائے کھڑا ہے اور روز بہ روز اس کی جڑیں گہری ہوتی جا رہی ہیں ، اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، وہ دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے ۔ اس عظیم اور باشکوہ پیکر کا وجود سامراج کی آنکھوں کا کانٹا ہے اور قوموں کے لئیے سرچشمہ امّید ہے ۔ بے شک یہاں استقامت اور مزاحمت کا مرکز ہے ، دوسروں کو بھی یہیں سے درس ملا ہے ۔ البتّہ اس مزاحمت کو کچلنے کے لئیے انہوں نے اس کڑی کے سب سے کمزور حلقے یعنی غزہ میں حماس کی منتخب حکومت کا انتخاب کیا ہے ، اسے مظلوم پا کر کچلنے کے در پے ہیں ۔ آج دنیاے اسلام میں جو بھی شخص غزّہ کے مسئلے کو ایک علاقائی اور مقامی مسئلہ تصوّر کرتا ہے وہ در حقیقت اسی خواب غفلت کا شکار ہے جس نے آج تک بہت سی قوموں کو ہزیمت سے دوچار کیا ہے ۔ غزّہ کا مسئلہ محض غزّہ کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری خطّے کا مسئلہ ہے ، فی الحال انہوں نے اس مقام کو نشانہ بنایا ہے جو سب سے کمزور ہے ،اگر انہیں وہاں کامیابی ملی تو وہ اس خطّے کو سکون کی سانس نہیں لینے دیں گے ۔ وہ اسلامی حکومتیں جو غزّہ کے گرد و نواح میں ہیں اور وہ غزّہ کے مظلوم عوام کی مدد کر سکتی ہیں ، اور انہیں کرنا بھی چاہئیے تھی لیکن وہ امداد رسانی سے کترا رہی ہیں ، وہ یقینا بہت بڑی غلطی کر رہی ہیں ۔ اس خطّے میں اسرائیل کی جڑیں جس قدر مضبوط ہوتی جائیں گی ، سامراج کا تسلّط بڑھتا جائے گا اور ان حکومتوں کی کمزوری اور ذلّت میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔ آخر یہ حکومتیں متوجّہ کیوں نہیں ہو رہی ہیں ؟یہ حکومتیں اپنی قوموں کو بھی اپنے ساتھ ذلّت و رسوائی کی طرف گھسیٹ رہی ہیں ۔ایک ذلیل ورسوا اور غیروں سے وابستہ حکومت اپنی قوم کو بھی ذلیل و رسوا اور تابع بنا دیتی ہے ، لہٰذا قوموں کو ہوش میں آنا چاہئیے ۔
ہماری قوم نے اس مسئلے میں اپنی بھر پور بیداری اور آمادگی کا ثبوت فراہم کیا ، میں اپنی قوم کا تہ دل سے مشکور ہوں جس نے جلسے جلوسوں ، اور مظاہروں کے ذریعہ اپنے موقف اور عزم و ارادے کا اعلان کیا ، میں خاص طور سے ان جوانوں کا شکر گزار ہوں جو تہران اور ملک کے دیگر شہروں میں ائیر پورٹ پر جمع ہو گئے اور یہ خواہش ظاہر کی کہ انہیں غزّہ بھیجا جائے ، ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ،اگر وہاں جانا ممکن ہوتا تو یقینا ہم ایسا ہی کرتے اور وہاں حاضر ہوتے اور اس سلسلے میں کسی بات کا پاس و لحاظ نہ کرتے لیکن موجودہ صورت حال میں اس کا امکان نہیں وہاں جانے کے لئے راہیں ہموار نہیں ۔ لیکن سب جان لیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت اور اس کے اہلکاروں سے ، فلسطین کے مظلوم عوام کی مدد کے سلسلے میں جو بھی بن پڑے گا وہ اس سے ہرگز دریغ نہیں کریں گے ، ہم آج تک ان کی مدد کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔ہماری موجودہ جوان نسل ، جوش و جذبے سے سرشار ہے ، ہمارے جوانوں نے اپنے اس اقدام سے ثابت کر دیا کہ یہ نسل ، وہی کربلائے پانچ(فوجی آپریشن کا نام ہے )والفجر چار ، بدر و خیبر فوجی آپریشن والی نسل ہے ۔انہیں چند دنوں میں کربلائے پانچ نامی آپریشن کی سالگرہ ہے ۔آج کے جوان بھی ، پچّیس ، تیس سال پہلے کے جوانوں کی طرح اپنی جان ہتھیلی پر رکھّے ہوئے میدان میں جانے کے لئیے بیقرار ہیں ۔وہ پیسہ رائیگان گیا جو دشمن سامراج کی خفیہ ایجنسیوں نے ہمارے ملک کے بعض ضمیر فروش اور زرخرید عناصر کو دیا تھا تا کہ وہ ہمارے جوانوں کو اس راستے سے منحرف کریں اور اخبارات و جرائد میں تبصرے لکھ کر ، اس بیداری اور آمادگی کو مصلحت کے خلاف ظاہر کریں ۔ لیکن اس سے انہیں کچھ ہاتھ نہیں لگا اور ہمارے جوان ،امام حسین علیہ السّلام ،انقلاب اور اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں،عالم اسلام کی دوسری قوموں کو بھی آگے آنا چاہئیے اور اپنے موقف اور عزم و ارادے کا واضح اظہار کرنا چاہئیے ،اور اپنی حکومتوں سے بھی اس کا مطالبہ کرنا چاہئیے ۔ بعض مسلم حکومتوں نے اگر چہ اس سلسلے میں قابل قدر کوششیں کی ہیں لیکن یہی کافی نہیں ہے ،بلکہ سیاسی اور عوامی دباؤ کے ذریعہ دشمن کو پسپائی پر مجبور کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج آپ ملاحظہ کیجئیے کہ صیہونیوں کے ہاتھوں اس خطّے میں جو المیہ رو نما ہو رہا ہے تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے ۔ دنیا کے کسی کونے میں اگر کوئی شخص کسی حادثے کی وجہ سے زمین پر گر جائے تو انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں ، آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں ، یہ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں ، جھوٹ و فریب اور دکھاوے کی علامت ہیں ورنہ جب غزّہ میں معصوم بچّے اور بے بس خواتین ،خزاں کے پتّوں کی طرح زمین پر گر رہے ہیں تو ان تنظیموں کی سانس تک نہیں نکل رہی ہے ۔خداوند متعال نے انسانی حقوق کی طرفدار ان نام نہاد تنظیموں کی قلعی کھول دی ہے اور انہیں ذلیل و رسوا کیا ہے خواہ وہ اقوام متّحدہ ہو ، یا انسانی حقوق کی علمبردار دوسری تنظیمیں اور ممالک ۔ یورپی حکومتیں ہمیشہ ہی انسانی حقوق کی پاسداری کا راگ الاپتی رہتی ہیں ،یہ کون سے حقوق انسانی کی بات کرتی ہیں ؟!آپ کی نگاہ میں انسانی حقوق کی کوئی قدر و قیمت نہیں ، آپ جھوٹے ہیں ، آپ صرف ریاکاری اور دکھاوے کے لئیے انسانی حقوق کا ڈھونگ رچاتے ہیں ، ورنہ کیسے ممکن ہے کہ یورپ کے کسی ملک کا سر براہ مملکت اس المیہ کو دیکھے اور اسرائیل پر حملہ آور نہ ہو ،بشرطیکہ آپ کو انسانی حقوق کا کوئی پاس ولحاظ ہو ۔
ان سے بد تر ، اسلامی دنیا کے بعض نام نہاد روشن خیال ہیں جوصیہونی غاصب حکومت کے مظالم پر پردہ ڈالنے کے لئیے فلسطین کی موجودہ قانونی حکومت کے خلاف اخبارات و جرائد میں تبصرے لکھ رہے ہیں اور اسے موجودہ صورتحال کا ذمّہ دار ٹھرا رہے ہیں ۔خداوند متعال انہیں ہر گز نہیں بخشے گا ۔ افسوس ، کہ ملک کے اندر بھی بعض ایسے عناصر پائے جاتے ہیں ، لیکن فلسطین کی حمایت میں عوام کا حتمی موقف اور اس سلسلے میں حکومت اور عوام کی یکجہتی انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ خیانت اور فریب پر مبنی اس راستے کا تعا قب کریں ،ورنہ یہاں بھی شاید کچھ لوگ یہ جسارت کرتے لیکن عوام کے عزم و ولولے اور عوام اور حکومت کی ہم آہنگی کے سامنے بے بس ہیں ۔ البتّہ دوسرے ممالک میں یہ کام پورے شد ّومد سے جاری ہے۔ ان حوادث و واقعات کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ ایک جملے میں اس کاجواب یہ ہے کہ " حق کو باطل پر کامیابی نصیب ہو گی''۔
اگر خدا نخواستہ دشمن ، اس وقت حماس کی طرف سے شجاعانہ دفاع کرنے والے ، اور عزم محکم سے لڑنے والے ایک ایک فلسطینی کو شہید کرنے میں کامیاب ہو جائے تب بھی فلسطین کا مسئلہ ان ظالمانہ اور بہیمانہ کاروائیوں سے ختم نہیں ہو گا ۔ بلکہ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بن کر دووبارہ سر اٹھائے گا اور دشمنوں کے سر پر بجلی بن کرگرے گا اور ان پر کامیابی حاصل کر ے گا۔ ہماری قوم کو اپنے دل و دماغ میں اس عزم کو باقی رکھنا چاہئیے ، اور اس سیاسی بصیرت کو غنیمت سمجھنا چاہئیے ، اس شعور و بیداری کو بھی غنیمت سمجھنا چاہئیے جو اس قوم کو حاصل ہوئی ہے ، اپنے موقف کو پوری دنیا پر واضح کر دینا چاہئیے اور پوری دنیا کو بتا دینا چاہئیے کہ وہ ظلم مخالف موقف پر اٹل ہے اور اس کے لئیے ہر قربانی دینے کو تیّار ہے ، اور یقینا اس کے نتیجے میں جو اسے حاصل ہو گا وہ اس سے کہیں زیادہ قیمتی اور گرانبہا ہو گا جسے وہ اس راہ میں کھوئے گی ۔بے شک امام امت (رہ) اور ہمارے عزیزشہیدوں کی ارواح طیّبہ ، اس قوم کے شجاعانہ دفاع و جہاد میں ان کے ساتھ ہوں گی ۔اور تمام مسلم قومیں مستقبل قریب میں کامیابی و فتح کا جشن منائیں گی۔
خداوند متعال ،حضرت امام زمانہ (عج) کی دعاؤں کو ہم سب کے شامل حال کرے اور ہمارا شمار امام حسین علیہ السّلام کے حقیقی پیرو کاروں میں فرمائے ۔
والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ