ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا زندگی کے مختلف شعبوں سےوابستہ افراد سےخطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مختلف شعبوں سے تعلّق رکھنے والے اور مختلف علاقوں سے تشریف لانےوالے بھائیوں؛ اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور امّید کرتا ہوں کہ خداوند متعال آپ کے ان جذبات کو جو آپ کے پاک دلوں کے ترجمان ہیں برکتوں کا منشا قرار دے اور ان پاک دلوں اور نیّتوں پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔

ملکی امور کو چلانے میں ایرانی عوام کا تعاون اس قوم کا طرّہ امتیاز ہے اور یہ سوچ غلط ہے کہ ایرانی قوم کی مو جودگی صرف انتخابات کے موقع پر نمایاں ہوتی ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے حکومتی نظام میں گذشتہ اٹھائیس برسوں میں انتخابات ہمیشہ ہی ایک درخشاں اور تابناک دور کا غمّاز رہے ہیں اور ایرانی قوم کے موجودہ نظام حکومت میں گہرے اعتقاداور اپنی تقدیر میں دخالت کا مظہر شمار کیے جاتے رہے ہیں لیکن ایرانی قوم کی موجودگی؛اعتقاد کی گہرائی؛اور اس کی وسعت اس سے کہیں زیادہ ہے۔

آج اگر داخلی سطح پر علمی ،فنّی،سماجی اوراقتصادی میدان میں ہم ترقّی اور پیشرفت کا مشاہدہ کررہے ہیں،اور بین الاقوامی سطح پر ایرانی قوم کا عزت و اقتدار،نیزاس کی سیاست کا خطہ اور عالمی سطح پرایک نیا عنصر بن کر ابھرنا کہ جس نےتمام سیاسی تجزیہ کاروں کی نظروں کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے،یہ سب مختلف میدانوں میں لوگوں کی مشارکت اورموجودگی کا نتیجہ ہے۔

یہ ایٹمی توانائی کا نعرہ کہ جسے ہماری قوم، ملک کے ہر کونے اور ہر مناسبت پر بلند کرتی ہے ایک قومی مطالبہ کا عکاس اور عینیّت کا باعث بنتا ہےاور لوگوں کی مختلف میدانوں میں آگاہانہ موجودگی اور مشارکت کا مظہر ہے۔عوام کی مختلف میدانوں میں موجودگی اور مشارکت کا مطلب یہ ہےکہ تمام طبقات اور مکتب فکرسےتعلّق رکھنے والےافراد خواہ بوڑھے ہوں یا جوان، مرد و عورت، غرض سبھی افراد ملک کے بنیادی مسائل کو اپنا ذاتی مسئلہ سمجھیں اور ملک کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت کو اپنا بنیادی مسئلہ جانیں،انقلاب کی بنیادی اقدار کی پائبندی کو اپنے حقیقی مطالبہ کے طور پرہر جگہ پیش کریں اور ملکی نظام اور اعلی عہدیداروں سے اس کی پائبندی کا مطالبہ کریں،عوام کی مختلف میدانوں میں موجودگی کے معنا یہ ہیں کہ لوگ ملک کی تقدیر اور ملکی مسائل سے غافل و بیگانہ نہ ہوں۔

جب کسی قوم کے بوڑھے اور جوان ،چھوٹے بڑے،مختلف شعبوں سے وابستہ افراد ملک کے مختلف مسائل کے بارے میں جذبہ اور فکر سے سرشار ہوں اور اسے اپنی زبان پر جاری کریں اور اس پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں،اور اس کا دفاع کریں تو ایسی قوم ایک زندہ قوم کہلانے کے لائق ہے اور اس قوم کا مستقبل ضمانت شدہ ہے

اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ہماری عظیم قوم کی مشکل فقط یہ نہیں تھی کہ اس کی اطلاع کے بغیر ، بیرونی طاقتیں کچھ افراد کو اقتدار کی گدّی پر بٹھاتیں اور جب چاہتیں انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیتیں،البتّہ ، یہ ایک بڑی مصیبت تھی لیکن اس سے بڑی مصیبت یہ تھی کہ عوام، ملکی مسائل اور پیشرفت ،دیگر ممالک سے اس کا مقایسہ کرنے،مقاصد اور اہداف کی جانب ترقّی اور پیشرفت سے بالکل بے خبر اورغافل تھے۔اگر کوئی مرد عمل تھا تو اپنے لئے،اپنے آپ میں مگن تھا،ملکی امورکو عوامی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا تھا نتیجہ بھی وہی نکلتا تھا جو آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، ہمارے جوان بھی یا تو تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے ہیں یا اپنے بزرگوں سے سنتے ہیں،آپ لوگوں میں سے بعض افراد کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ اس دور میں ملک کا نظم و نسق کس طرح کچھ گنے چنے لوگوں کے ذریعہ چلایا جا رہا تھاجو خودبین الاقوامی سیاست کے ہاتھوں کا کھلوناتھے اور ایرانی قوم مختلف میدانوں میں ایک پسماندہ اور پچھڑی ہوئی قوم میں تبدیل ہو چکی تھی چونکہ عوام کو ملکی مسائل سےکوئی سر و کار نہیں تھا،ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ انہیں اس کی خبر نہیں تھی،ملک پر کون سی سیاست حکمفرماہے؟ملک کا مستقبل کیا ہو گا؟کون لوگ ملک میں مداخلت کر رہے ہیں؟عام لوگ ان مسائل سے بالکل بے خبر تھے اور کوئی انھیں آگاہ کرنے والا بھی نہیں تھا،اس کا نتیجہ بھی وہی نکلا جو ہم سب نے دیکھا، کچھ ایسے لوگ بر سر اقتدار آتے تھے جنہیں لوگوں کے ایمان اور دنیاوآخرت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، ان کی ساری توجّہ اپنے ذاتی مفادات کی حفاظت اور غیر ملکی آقاؤں کی جی حضوری پر مرکوز تھی،انقلاب کی کامیابی سے پہلے ہماری قوم ان حالات سے دوچار تھی۔

انقلاب نے اس ملک و قوم کی کایا پلٹ دی اور ملکی سیاست کی باگ ڈور عوام کے ہاتھوں میں سونپ دی،اور لوگ اس ملک کے حقیقی مالک اوراس کے فیصلوں میں شریک قرار پائے،عوام کی مشارکت کے معنا یہی ہیں۔

بعض لوگ یہ نہ کہیں کہ عوام کی ضرورت صرف انتخابات کے لئے ہے،ہرگز ایسا نہیں،بلکہ انتخابات مشارکت کاایک اعلی نمونہ ہیں اس میدان میں حاضر ہو کر،عوام، اپنے مطالبات،اہداف و مقاصد،ملکی مسائل اور ترقّی و پیشرفت کے بارے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں، آج ان مسائل کی فکر لوگوں میں عام طور پر رائج ہے،لوگ مشرق وسطی کے مسائل کے بارے میں حسّاس ہیں،آج آپ کی ہر فرد ،عراق،لبنان، فلسطینی مظلوم عوام اور مسلمانوں کے دیگر مسائل کے سلسلے میں حسّاس ہے،آپ کے ذہن میں ان مسائل کے بارے میں سؤالات ،جذبہ اور امنگ پائی جاتی ہے،اس جذبہ کے بعد عمل کی منزل آتی ہے۔یہ مختلف میدانوں میں عوامی مشارکت و حصہ داری کی علامت ہے،اور یہ بہت بڑی خدمت ہے جو اسلامی انقلاب نے ہمارے ملک و قوم کے لیے سر انجام دی ہے، ایرانی قوم ایک زندہ قوم ہے۔اور مختلف میدانوں میں ترقّی و پیشرفت اس قوم کے زندہ ہونے کا ثبوت ہے ،آپ مشاھدہ کر رہے ہیں کہ ایرانی قوم نےاسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کس برق رفتاری سے مختلف شعبوں میں ترقّی کی ہے،وہی قوم جس کی تقدیر کا ریموٹ کنٹرول غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھ میں تھااور وہ دور سے بیٹھے بٹھائے اس قوم کے مقدّر کا فیصلہ کیا کرتے تھے،ایرانی قوم کا اپنے سر براہ مملکت اور دیگر اعلی عہدیداروں کے انتخاب میں کوئی

کردار نہیں ہوا کرتا تھا ،آج اس مقام پر فائز ہے کہ جہاں خطہ کی سیاست میں اس کا کردار سر نوشت ساز ہے،یہ کوئی ہمارا دعوی نہیں بلکہ عالمی مسائل پر اثر انداز ہونے والی استکباری طاقتیں اس بات کی معترف ہیں کہ ایران کی مشارکت اور مرضی کے بغیر مشرق وسطی کے اہم مسائل کا حل نا ممکن ہے،ایرانی قوم کی رائے جاننا ضروری ہے،اور عملی طور پر بھی یہ بات واضح ہے کہ ایرانی قوم جس مسئلہ پر بھی اپنی ثابت قدمی جاری رکھتی ہے تمام عالمی طاقتیں مل کر بھی اپنی بات منوانے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں،ایٹمی توانائی کے مسئلہ میں بھی یہی ہوا سب اس بات پر متّفق تھے کہ ایران کو اس ٹیکنالوجی تک رسائی نہیں ہونا چاہیے لیکن ایرانی قوم نے یک زبان ہو کر اس ٹیکنالوجی کے حصول پر زور دیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج اس نے اپنے آپ کو اس ٹیکنالوجی کے بہت پیشرفتہ مراحل تک پہو نچا دیا ہے، البتّہ یہ سر انجام نہیں ہے بلکہ انشاء اللہ اس میں مزید پیشرفت ہو گی۔

ان سب باتوں کے گوش گزار کرنے کا اصل مقصد یہ کہ ہمارے ملک کی جوان نسل اس ملک کے مستقبل کے لیے اپنے آپ کو آمادہ رکھےاور الحمد للہ ہماری قوم کی اکثریّت جوانوں پر مشتمل ہے،جوانوں کو چاہے وہ کسی بھی طبقہ سے تعلّق رکھتے ہوں بالخصوص تعلیم یافتہ جوانوں کو جان لینا چاہیے کہ یہ ملک ان سے وابستہ ہے اور اس ملک کا مستقبل ان کے ہاتھوں میں ہے۔

اگر ایرانی قوم کسی بات پر کمر ہمّت کس لے اور اس پر ثا بت قدمی کا مظا ہرہ کرے ،دنیا کی کوئی طاقت اس قومی اتّحاد پر غالب نہیں آسکتی اس کامیابی کی پہلی شرط ،پختہ عزم و ارادہ ہے اور دوسری شرط قومی اتّحاد ہے الحمد للہ ہماری قوم ان شرائط کی حامل ہے البتّہ کچھ لوگ اختلاف ڈالنے کے در پے ہیں، اختلاف آمیز نعرے بلند کر رہے ہیں، لوگوں کو ایک دوسرے کے مدّ مقابل صف آرا کرنے کے لئےکوشاں ہیں، لیکن انہیں اب تک کامیابی نصیب نہیں ہوئی اور انشاء اللہ آئندہ بھی انہیں منہ کی کھانا پڑے گی ۔

آج الیکشن ہمارے سامنے ہے، ہر الیکشن اہمّیت کا حامل ہے ،الیکشن کی اہمیّت دو زاویہ سے ہے ایک لوگوں کی انتخابات مٰیں حصّہ داری اور ووٹ کے حق کا استعمال، جب کوئی قوم الیکشن کے میدان میں قدم رکھتی ہے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے،جو شخص اپنے لئے انتخاب کرتا ہے وہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے، جس شخص کے لئے دوسرے لوگ فیصلہ کرتے ہوں اور انتخاب انجام دیتے ہوں اور وہ تماشائی بنا بیٹھا رہتا ہو اس میں زندگی کی علامت، بہت کمزور ہے، اسے ایک زندہ انسان اور زندہ قوم تصوّر نہیں کیا جا سکتا۔

پس انتخابات کا پہلا اثر یہ ہے کہ انتخابات ، کسی بھی قوم کی زندگی اورخود آگاھی کی علامت ہیں، ہماری قوم کو مختلف اور پےدرپے انتخابی مواقع سے استفادہ کرتے ہوئے اس کا ثبوت فراہم کر نا چاہئے،جیسا کہ انقلاب کی کامیابی کے بعد ہماری قوم نے متوسط طور پر تقریباّ ہر سال ایک انتخاب کا انعقاد کیا ہے کہ جن میں ہمارے عوام نے بھر پور انداز میں حصّہ لیا ہےاور اپنے نمائندوں کا انتخاب عمل میں لایا ہے اور میدان عمل میں اپنے عزم و ارادہ کا اظہار کیا ہے۔

دوسرا اثر یہ ہے کہ جب لوگوں کا ارادہ کسی انتخاب میں حکمفرما ہو تا ہےتو جو چیز لوگوں کی اکثریّت کے منظور نظر ہوتی ہے وہ معرض وجود میں آتی ہے،خواہ وہ صدارتی انتخاب ہو یا پارلیمینٹ کا الیکشن ہو،یا وہ انتخابات ہوں جو دو دن بعد انجام پانے والے ہیں یعنی خبرگان کونسل اور میونسپلٹی کا الیکشن۔

میں نے پہلے بھی گوش گذار کیا ہے کہ خبرگان کونسل کا الیکشن نہایت اہمیّت کا حامل ہے،خبرگان کونسل کو اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے ہمیشہ تیّار رہنا چاہیے ،اسے امانتدار،عاقل،سماج کے خیر خواہ افراد پر مشتمل ہو نا چاہیے تا کہ ضرورت پڑنے پر اپنی ذمّہ داری کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں اور ایک شائستہ رہبر کا انتخاب کر سکیں۔

لہذا مذکورہ کونسل کا الیکشن نہایت اہمیّت کا حامل ہے،اس کونسل کو ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیےاور اس کے اراکین ،عوام کے منتخب ہونا چاہیے تا کہ لوگ ان پر بھروسہ کر سکیں اور ان کے انتخاب کو دل و جان سے قبول کریں یہ بہت اہم مسئلہ ہے، خبرگان کونسل کا الیکشن ،اعلی ترین پیمانے کا الیکشن ہے،لوگوں کو لائق و سزاوار افراد کی نشاندہی کر کے ان کا انتخاب کرنا چاہیے۔اور اگرکسی کو نہیں پہچانتےتو ایسے مؤمن اور قابل اطمینان افراد کی راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں جن کی راہنمائی انسان کے لیے شرعی حجّت قرار پاسکتی ہو،شرعی حجّت کی تلاش میں رہیے،یہ کوشش کیجیئے کہ اگر کل روز حشر خداوند متعال آپ سے معلوم کرے کہ زید کو خبرگان کونسل کے لیے کیوں منتخب کیا؟تو آپ یہ جواب دے سکیں کہ میں نے اسے فلاں افراد کے کہنےکی وجہ سے منتخب کیا جو میرے نزدیک قابل اطمینان اور امین تھے،خدا کے نزدیک آپ کےپاس حجّت ہونا چاہیے۔ہر راہنمائی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ صرف ان افراد کی راہنمائی پر اطمینان کیا جا سکتا ہے جن کے بارے میں معلوم ہو کہ ان کی نیّت خدائی ہے،اور وہ کسی سیاسی وفاداری کے تحت میدان میں وارد نہیں ہوئے بلکہ اپنے شرعی فریضہ کی ادائیگی کےلیےراہنمائی کر رہے ہیں انسان کو ایسے افراد کی بات سے اطمینان حاصل ہوتا ہے اور ان کی راھنمائی سےخبرگان کونسل کے اراکین کا انتخاب کرتا ہے ۔

میونسپلٹی اور بلدیہ کاالیکشن بھی اسی اہمیّت کا حامل ہے،اگر چہ بلدیّہ کے اراکین اور خبرگان کونسل کے اراکین کی زمّہ داریاں ایک دوسرے سے با لکل الگ ہیں لیکن میونسپلٹی کی ذمّہ داری بھی اپنی جگہ نہایت اہم ذمّہ داری ہے، بلدیّہ میں ایسے افراد کو مصروف عمل ہونا چاہیے جو صداقت،فعّالیّت اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوں،جنہیں اپنے ذاتی مفادات اور دنیاوی امور عزیز نہ ہوں عوام کی سچّی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوں، اگر شہری اور دیہاتی میونسپلٹی کے اراکین نیک اور صالح افراد پر مشتمل ہوں تو عوام کی شہری اورزندگی کی بہت سی مشکلات خود بخود حل ہو جائیں گی۔

انتخابات میں عوام کی شرکت بہت اہم ہے، آپ کے دشمنوں کی کوشش ہے کہ مختلف انتخابات میں عوام کی شرکت میں کمی لائیں،اور انتخابی کونسلوں کو کمزور بنائیں تا کہ اسلامی جمہوریہ میں عوامی حکومت کی جڑیں کمزور ہوں اور اسلامی جمہوری پر الزام تراشی کر سکیں، وہی لوگ جنکا افتخار یہ ہے کہ وہ جمہوریّت کے حامی ہیں اپنی تمام تر کوششوں کو بروے کار لاتے ہیں تا کہ ایران میں منعقد ہونے والے انتخابات کی رونق کو گھٹا سکیں،آپ ملاحظہ کیجئے ہر الیکشن کے نزدیک دشمن کا میڈیا حرکت میں آجاتا ہے اور ایرانی حکومت کے خلاف اپنے پروپیگنڈہ کا آغاز کر دیتا ہے تا کہ لوگوں کوانتخابات سے مایوس کر سکے ،ہمارے عوام کو ان کے منحوس اغراض و مقاصد کا پتہ لگانا چاہیےاور ان کی مرضی کے بر عکس عمل کرنا چاہیے۔

انشاء اللہ جمعہ کے دن ہمارے عوام پورے جوش و ولولے سے الیکشن میں حصّہ لیں گےاور بیلٹ بکسوں کو اپنے ووٹوں سےبھر یں گےاور اپنے سیاسی رشد و شعور کو پوری دنیا پر آشکار کریں گے۔

انتخابات میں شرکت کے علاوہ اس کی نوعیّت کے بارے میں بھی دقّت سے کام لیجیےاور ہر کسی کی یہی کوشش ہونا چاہیے کہ وہ نیک اور شائستہ افراد کا انتخاب کرے۔

میرے عزیزو! ہرمسئولیّت و ذمّہ داری کی بنیاد دیانت،امانت اور صداقت پر استوار ہے اگر کارآمد افراد میں امانت و صداقت نہ پائی جاتی ہو تو ان کی کارآمدگی عوام کے کام نہیں آئی گی،کارآمدگی کے ساتھ ساتھ ، افراد میں دینداری،امانت اور صداقت ،نیز اہداف و مقاصد سے لگاؤ بھی ضروری ہے، ایسے افراد کو ڈھونڈھیے اور انہیں ووٹ دیجیے، تہران اور دوسرے صوبوں میں ،اور جہاں کہیں بھی اس الیکشن کا انعقاد ہو رہا ہے اس الیکشن کو عبادت سمجھ کر ،خداوند متعال پر بھروسہ کرتے ہوئے اورتقرّب الی اللہ کی نیّت سے اس میں حصہ لیجیےاور اس میں جوش و ولولہ پیدا کیجیےاور دنیا کے سامنے ایک نئی انقلابی اور عوامی لہر پیش کیجیے۔

اطمینان رکھیئے جب آپ اس پاک نیّت اور سچّےعزم و ارادہ سے میدان عمل میں داخل ہوں گے تو خداوند متعال بھی آپ کی نصرت فرمائے گا اور اس الیکشن پر اچھے نتائج مترتب کرے گا۔انشاء اللہ خبرگان کونسل اور بلدیّہ کے انتخابات میں خداوند متعال کا لطف و کرم ہمارے شامل حال ہو گا اور ملک کی مدیریّت کے حوالہ سے ایک نئے موسم کا آغازہوگا۔

خداوند متعال سے دعا گو ہوں کہ امام زمانہ حضرت بقیّٰۃ اللہ (عج) کی خالص دعاؤں کو اس قوم اور اس کے ذمّہ داروں اور الیکشن انتظامیّہ کے شامل حال کرے،انشاء اللہ حکومتی اہلکاروں کو بھی یہ توفیق حاصل ہو کہ وہ انتخابات کو زیادہ سے زیادہ خوش اسلوبی سے منعقد کر سکیں،اور جیسا کہ مجھے بتایاگیا ہے اس سلسلہ میں نہایت اعلی پیمانہ پر انتظام کیا گیا ہے اب عوام کی باری ہے کہ اپنی شرکت سے اس میں مزید چار چاند لگادیں۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ