ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا علم وصنعت یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلباءسے اہم خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

میں اس عظیم اور اہم یونیورسٹی میں آپ کے اجتماع میں حاضر ہونے کی توفیق پر انتہائی مسرور ہوں اور اور خداوند متعال کا شکر گزار ہوں ۔ اس اجتماع میں طلباء کے علاوہ ، اس یونیورسٹی کے اساتذہ اور اعلیٰ عہدیدار بھی تشریف فرما ہیں ۔ الحمد للّٰہ " علم و صنعت" یونیورسٹی ان یونیورسٹیوں میں سے ہے جنہوں نے علمی اور انقلابی سطح پر قابل فخر کارنامے انجام دئیے ہیں ۔ اگر ملک کی تعمیر و ترقّی کے لئیے لایق اور مفید افراد کی تربیّت کو یونیورسٹیوں کی سب سے اہم ذمّہ داری قرار دیا جائے جیسا کہ حقیقت بھی یہی ہے ، تو یقینا آپ کی یونیورسٹی کا شمار سب سے پیشرفتہ اور با سابقہ یونیورسٹیوں میں ہوگا ۔اس یونیورسٹی سے فارغ ہو کر ملک کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کی ایک طویل فہرست پیش کی جاسکتی ہے ۔ چونکہ اس محفل میں بعض دوستوں کی زبان پر شہداء کا ذکر جاری ہوا اس لیئے میں بھی نمونے کے طور پر اسی حوالے سے آپ کے سامنے کچھ باتیں عرض کرتا چلوں ، ہردل عزیز شخصیّت کے مالک، شہید کمانڈر احمد متوسّلیان کو ہی لے لئیجیے ، میں اس ممتاز شخصیّت سے نزدیک سے واقف ہوں ، اور موصوف کے کام ،محنت اور لگن کے جذبے کو میں نے قریب سے مشاہدہ کیا ہے ، آپ کا شمار مقدّس دفاع کی نمایاں شخصیّات میں ہوتا ہے ، میری نظر میں آپ کے لئیے ان شخصیّات کے حالات زندگی کا مطالعہ بہت مفید اور سبق آموز ہے ، بالخصوص موصوف کی زندگی کے اس حصّے کا ضرور مطالعہ کیجئیے جو آپ کے فوجی آپریشنوں سے متعلّق ہے ، خواہ وہ ملک کے مغرب میں انجام پانے والے آپریشن ہوں یا "بیت المقدّس " اور فتح المبین " نامی آپریشن ہوں ۔ عام طور سے شہید محمود شہبازی اور اس عظیم شخصیّت کا نام ساتھ ساتھ لیا جاتا ہے ، ان دونوں کا شمار اس یونیورسٹی کی قابل فخر شخصیّات میں ہوتا ہے اور یہ دونوں اسی یونیورسٹی کے فارغ التّحصیل ہیں ۔ الحمد للّٰہ آج بھی ، کارآمد ، فعّال ، انقلابی اور شجاع صدر جمہوریہ کا تعلّق بھی اسی یونیورسٹی سے ہے ، موصوف کا شمار بھی اسی یونیورسٹی کے طلباء اور اساتذہ میں ہوتا ہے ۔یہ سب چیزیں اس یونیورسٹی کی درخشاں تاریخ کی عکّاس ہیں ۔

آج کے اس اجتماع میں اگر چہ اساتذہ کرام بھی تشریف فرما ہیں لیکن میری گفتگو کا زیادہ تر حصّہ طلباء سے مربوط ہے ، اگرچہ میری تقریر کے دوران ، بعض کلّی مسائل پر بھی بحث ہو گی جس سے اساتذہ کرام بھی مستفید ہو سکیں گے ۔ میں نے اپنے خطاب کو تین حصّوں میں تقسیم کر رکھّا ہے ، اپنے خطاب کے پہلے حصّے میں طلباء کے نقش و کردار کے بارے میں گفتگو کروں گا ، میری نظر میں یہ مسئلہ ملک کے اہم مسائل میں سے ہے ۔ اپنی تقریر کے دوسرے حصّے میں ، اسلامی انقلاب کی تیسری دہائی کے اختتام پر تاریخ اور مضمون کے اعتبار سے اسلامی انقلاب پر دوبارہ ایک نظر دوڑائی جائے گی ،اور تقریر کے تیسرے حصّے میں عدالت اور پیشرفت کے سلسلے میں بعض نکات کو مختصر انداز میں آپ کے سامنے پیش کروں گا چونکہ انقلاب کی چوتھی دہائی''عدالت اور پیشرفت ''سے موسوم ہے ۔

یونیورسٹی اور اسٹوڈنٹس اجتماعات ہمارے لئیے نہایت دلنشین ہوتے ہیں ؛چونکہ ان اجتماعات پر صداقت اور خلوص کی فضا بھی حکم فرما ہوتی ہے ،اور حال اور مستقبل کی تعمیر میں بھی اسٹوڈنٹ کا ایک بنیادی کردار ہے ؛یہ وہ چیز ہے جسے اسٹوڈنٹس کو ہر گز نہیں بھولنا چاہئیے ، اسٹوڈنٹ، ملک کے حال اور مستقبل ، موجودہ دور اور آنے والے کل میں نقش آفریں ہے ۔

اسٹوڈنٹ، اس عظیم کارخانے کا وہ عنصر ہے جو اپنی کوشش اور محنت ، اساتذہ کی راہنمائی اور مدد سے غیر معمولی اہمیّت کا حامل ہے ۔یقینا اس نگاہ سے یونیورسٹیاں، ملک کی ترقّی اور پیشرفت کا سب سے اہم اور بنیادی ڈھانچہ شمار ہوتی ہیں ؛ یعنی ملک کے دیگر بنیادی ڈھانچوں میں سے کوئی بھی یونیورسٹی کے نقش کی برابری نہیں کر سکتا؛چونکہ یونیورسٹی ، انسانی قوّت کی تربیّت کرتی ہے اور انسانی قوّت ملک کا سب سے اہم سرمایہ شمار ہوتی ہے ۔یونیورسٹی سے ہمیشہ اور ہر جگہ یہی توقّع اور امّید کی جاتی ہے کہ وہ ملک میں دو حیاتی اور بنیادی رجحانوں اور تحریکوں کی پیدایش اور رشد کا محور و مرکز قرار پائے ، اول: ریسرچ اور تحقیق کے رجحان کا محور ہو، دوم: امنگوں ،امّیدوں اور توقّعات ،سماجی اور سیاسی اہداف و مقاصد کے رجحان کا مرکز و محور ہو ، شاید یونیورسٹی کے علاوہ کوئی دوسرا مرکز نہ پایا جاتا ہو جہاں یہ دونوں رجحان ایک ساتھ دکھائی دیتے ہوں ، علم اور تحقیق کا رجحان بھی یونیورسٹی میں پایا جاتا ہے جو معاشرے کی عزّت اور حیات کا باعث ہے ، علمی عزّت و وقار کے طفیل میں اقتصادی ،سیاسی اور بین الاقوامی عزّت اور وقار وجود میں آتا ہے ، اس کے علاوہ امنگوں اور امّیدوں کی تحریک کا مرکز بھی یونیورسٹی ہے ، اگر چہ بظاہر اس رجحان کا علم سے کوئی ربط نہیں ہے لیکن اسٹوڈنٹ کی موجودگی کی بنا پر دنیا بھر میں یونیورسٹی سے یہ توقّع وابستہ کی جاتی ہے کہ وہ امّیدوں اور توقّعات کی پیدایش اور ان کے حصو ل کی کوششوں میں اپنا فعّال کردار ادا کرے ؛ اور اس بات کا اسٹوڈنٹ سے گہرا تعلّق ہے ، اس کی جوانی ، اس کا سن ، اس کی نفسیاتی آمادگی یونیورسٹی کو اس بات کا حق دیتی ہے کہ وہ اسٹوڈنٹ سے اس میدان میں اپنا فعّال کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرے ، بہرحال یونیورسٹی سے یہ توقع وابستہ ہے ، بعض جگہوں میں یہ توقّعات پوری ہو جاتی ہیں اور بعض دوسرے مقامات پریہ امّیدیں پوری نہیں ہوتیں ۔

پہلے رجحان " علم و ریسرچ" کے سلسلے میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے بھی یہ رجحان کم و بیش پا یا جاتا تھا اور اس سے کلّی طور پر انکار نہیں کیا جا سکتا ، اعتراضات اپنی جگہ لیکن اس رجحان کا وجود ایک مسلّم امر ہے ، اس دور میں بھی ملک وقوم کا درد رکھنے والے بعض افراد یونیورسٹیوں میں پائے جاتے تھے جو بخوبی اپنا کردار ادا کر رہے تھے ، لیکن انقلاب کی کامیابی کے بعد اس رجحان میں بہت تیزی آئی ہے جس کی اپنی وجوہات ہیں ۔

گذشتہ برسوں میں جب سے یونیورسٹیوں میں علم کی تولید، ریسرچ اور تحقیق ،سافٹ وئیر تحریک اور اپنی صلاحیّتوں پر اعتماد کے مسئلے پر خصوصی توجّہ دی گئی ہے اس رجحان میں مزید برق رفتاری پیدا ہوئی ہے ؛بعض علمی ، سائینسی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں آپ اس کے مثبت نتائج کا مشاہدہ کر رہے ہیں ،مختلف طبّی علوم ، جدید علوم ،ایٹمی مسائل ، نینو ٹیکنالوجی ، سائینس اور ٹیکنالوجی کے دیگر شعبوں میں ، ہماری یونیورسٹیوں نے نمایاں پیشرفت کی ہے، ماضی میں اس بات کا تصوّر بھی محال تھا کہ کسی دن ہمارے محقّق اور اساتذہ ، طلباء اور جوان ، ان علوم میں مہارت پیدا کر سکیں گے اور اس برق رفتاری سے اس منزل تک پہنچ سکیں گے ، لیکن آج الحمد للّٰہ آج انہوں نے ان علوم میں مہارت حاصل کر لی ہے ؛ اس تحریک اور رجحان کو جاری رکھنا بہت ضروری ہے ؛ہم علم اور سائینس کے میدان میں ایک پرانی اور فرسودہ پسماندگی کا شکار ہیں ، اس تحریک کو اسی برق رفتاری اور تیزی کے ساتھ جاری رکھنااس دور میں بہت اہمیّت کا حامل ہے ،ہمیں اس رجحان کو سالہا سال اسی برق رفتاری سے جاری رکھنا چاہئیے ؛ اس میں ذرّہ برابر توقّف جائز نہیں چونکہ پیشرفتہ دنیا کے مقابلے میں ہماری علمی اور سائینسی پسماندگی بہت زیادہ اور قابل توجّہ ہے ؛ ہم اس سے اچھی طرح واقف ہیں ، اسے سمجھتے ہیں اور ہمیں اس سے دکھ پہنچ رہا ہے چونکہ ہماری قوم عالمی ذہانت کے متوسّط معیار سے کم درجے کی قوم نہیں ہے تا کہ وہ اس پسماندگی کو اپنا حق سمجھ کر قبول کر لے بلکہ ہماری قوم عالمی ذہانت کے متوسّط درجے سے زیادہ ذہانت اور شعور کی حامل ہے ؛یہ وہ حقیقت ہے جو ثابت ہو چکی ہے ، اور اس کا اعتراف اپنے پرائے سبھی نے کیا ہے ؛ اس کی علامتوں کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ، ہماری علمی تاریخ اس کی گواہ ہے ، ایک ایسی قوم اور وہ بھی دنیا کے اس حسّاس خطّے میں علمی اعتبار سے اس پر تھوپی گئی پسماندگی اور فقر کا شکار ہو یہ ہمارے لئیے نا قابل برداشت امر ہے ؛ہم خداوند متعال کے انتہائی شکر گزار ہیں جس نے اس پسماندگی کے سلسلے میں ہماری آنکھیں کھولیں اور ہمیں اس فقر و ناداری کا احساس ہوا، ہم خداوند متعال کے انتہائی مشکور ہیں کہ اس نے ہمارے اندر عزم ۔ ہمّت ، شوق و ولولے اور امّید کے جذبے کو بیدار کیا تاکہ ہم اس پسماندگی کو دور کرنے کے لئیے قدم اٹھا سکیں ،لہٰذا اس برق رفتاری کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔

ہم نے عرض کیا کہ ملک کو علمی عزّت اور سرافرازی کی بلندیوں تک پہنچنا چاہئیے ، اور جیسا کہ ہم نے بارہا عرض کیا ہے اس کا اصلی ہدف و مقصد یہ ہونا چاہئیے کہ ایران کو علم اور سائینس کامرکز بنایا جائے ، جیسا کہ آپ ،آج علمی اور سائینسی معلومات کے حصول میں دوسرے ممالک کے سائینسدانوں اور ماہرین کی کتابوں کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہیں ، ہمیں اپنے آپ کو اس مقام پر لے جانا چاہئیے کہ دنیا کا ہر طالب علم ، ہر محقّق ،آپ اور آپ کے علم و تحقیق کا محتاج ہو ، اور آپ کے علم سے مستفید ہونے کے لئیے آپ کی زبان سیکھنے پر مجبور ہو ، اس ہدف کو پیش نظر رکھئیے ، یہ کوئی خام خیالی نہیں ہے ، بلکہ عملی چیز ہے ، ہم علم و ٹیکنالوجی کے اعتبار سے آج جس مقام پر کھڑے ہیں ایک دن اسے بھی خیال خام سمجھا جاتا تھا ۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے جب ہماری قوم میں یہ شوق و شغف ، رکاوٹوں کے مقابل یہ احساس شجاعت بیدار نہیں ہوا تھا ، اگر اس دور میں یہ بات کہی جاتی کہ کسی دن ہمارا ملک مختلف علوم میں اس درجہ پیشرفت کرے گا تو کوئی باور نہ کرتا ، اس دور میں لوگ معمولی معمولی بیماریوں کے علاج کے لئیے بیرون ملک سفر کرنے پر مجبور تھے اور اس سلسلے میں خطیر رقومات خرچ کرتے تھے اور غیروں کی خوش آمدیں کیا کرتے تھے، لیکن آج ، انہیں بیماریوں کا علاج ہمارے دوسرے اور تیسرے درجے کے ہسپتالوں میں ہوتا ہے ۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے بلکہ اسلامی انقلاب سے ذرا پہلے کی بات ہے ۔آج ہم مختلف علوم اور دیگر شعبوں میں جس مقام پر ہیں ایک دور میں یہی پیشرفت بعض لوگوں کی نظر میں غیر قابل حصول تھی؛لیکن ہماری قوم اور ہمار ے جوانوں نے اس محاذ کو فتح کر دکھایا ،ایٹمی توانائی کا مسئلہ بھی ایسا ہی ایک مسئلہ ہے ۔علمی شعبوں کے مختلف مسائل بھی اسی خصوصیّت کے حامل ہیں ۔لہٰذا یہ عین ممکن ہے کہ ہمارا ملک ، ہماری قوم ، علم کے کاروان کو اس قدر آگے بڑہائے کہ ایک دن وہ سائینس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کا مرکز اور محور قرار پائے ، البتّہ اس مقام تک پہنچنے کے لئیے کچھ تمہیدی اور مقدّماتی اقدامات کی ضرورت ہے کہ جن پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے ، ان مقدّمات میں سے ایک اہم چیز ہماری "خود آگاہی " ہے تاکہ ہمارے اندر "باید"( ہمیں یہ کام انجام دینا چاہئیے)اور "ما می توانیم " (ہم یہ کر سکتے ہیں ) کا جذبہ بیدار ہو سکے ۔ دوسرا مقدّماتی اور تمہیدی اقدام ، ملک کی علمی پیشرفت کے لئیے ایک جامع علمی نقشے کی تدوین کا مسئلہ ہے ، تا کہ ملک اس سلسلے میں انحراف کا شکار نہ ہو ، خوش قسمتی سے اس پر کام ہو چکا ہے ،اور مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ ، محقّقین اور ماہرین نے مل کر ایک جامع علمی نقشہ تدوین کیا ہے جو اپنے آخری مراحل میں ہے ؛ یہ ملک کی علمی ترقّی اور پیشرفت میں ایک بہت بڑا قدم ہے ، البتّہ اس نقشے کی تدوین کے بعد کچھ دیگر امور پر کام ہونا ضروری ہے ، اس پر عمل در آمد کے لئیے ایک مناسب منصوبے کی ضرورت ہے ، اس نقشے کو سینکڑوں پروجیکٹوں میں تبدیل کیا جائے اور انہیں ، یونیورسٹیوں کے اساتذہ ، تحقیقاتی مرا کز کے ماہرین کے امین ہاتھوں میں سونپا جائے ، اس کی پیشرفت پر نگرانی رکھنے کےلئیے ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے ، اس پر عمل درآمد میں نیک نیّتی سے کام لیا جائے ؛اساتذہ اور اسٹوڈنٹس کو اس منصوبے میں یکساں طور پر شریک کیا جائے؛ جیسا کہ اسی جلسے میں اسٹوڈنٹس نے ہم سے سئوال کیا کہ علمی ترقّی اور پیشرفت کے تئیں ان پر کیا ذمّہ داری عائد ہوتی ہے؟ اس جامع منصوبے میں سبھی پہلووں کو مد نظر رکھّا جائے ۔ہر اسٹوڈنٹ اس میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے ؛ہر تحقیقیاتی مرکز ، ہر تعلیمی ادارہ اور تمام اساتذہ اس میں فعّال کردار ادا کر سکتے ہیں ، لہٰذا یہ ایک چند سالہ پروجیکٹ ہے ، اس چند سالہ پروجیکٹ کا پورے شدّومدّ ، نہایت سنجیدگی اور امید کے ساتھ تعاقب ہونا چاہئیے ،انشاءاللہ آپ اس سے خاطر خواہ نتیجہ حاصل کریں گے ۔ وہ دن دور نہیں جب آپ ایرانی یونیورسٹیوں اور ماہرین کو علمی مرکز اور محور میں تبدیل ہوتے دیکھیں گے ؛ وہ دن آپ کے بہت قریب ہیں ، مجھے اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ آپ یقینا اس دن کا مشاہدہ کریں گے ۔

میرے خطاب کا یہ حصّہ یونیورسٹیوں میں پائے جانے والے پہلے رجحان کے بارے میں تھا جس کا تعلّق یونیورسٹیوں ، اسٹوڈنٹس اور ان سے توقّعات سے تھا ، البتّہ اس رجحان میں اساتذہ کا کردار بہت اہم اور حسّاس ہے ۔

"دوسرا رجحان " یونیورسٹیوں میں پائی جانے والی امنگوں ، امّیدوں اور توقّعات کے متعلّق ہے جسے عام زبان میں"طلباء کی تحریک " کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، ہمارے ملک میں اس تحریک کی ایک انوکھی تاریخ ہے ، میں اسے اس لئیے بیان کر رہا ہوں اور اس پر زور دے رہا ہوں تاکہ اس تحریک کو جاری رکھنے پر تاکید کر سکوں ؛البتّہ یہ تحریک ہر گز رکنے والی نہیں ؛چونکہ ہمارے ملک کے موجودہ حالات ، اس کے سیاسی اور حکومتی نظام کی ساخت اور بناوٹ، اس کی خصوصیّات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ یہ تحریک ہمیشہ ان کے ساتھ موجود رہے ۔طلباء کی تحریک ہمارے ملک کی تاریخ کا حصّہ ہے اور سبھی کے لئیے جانی پہچانی ہے وہ ہمیشہ سے ہی ، ظلم و استبداد ، سامراجیّت ، غیروں کے تسلّط اور ڈکٹیٹر شپ کی مخالف رہی ہے اور سختی سے عدالت کی خواہاں رہی ہے ؛ طلباء کی تحریک کی یہ خصوصیّت روز اوّل سے آج تک باقی ہے ۔ اگر کوئی شخص اس تحریک کا حصّہ ہونے کا مدّعی ہو اور اس میں یہ خصوصیّات نہ پائی جاتی ہوں تو یقینا ایسا شخص اپنے دعوے میں جھوٹا ہے ۔طلباء کی تحریک ان لوگوں سے ہاتھ نہیں ملا سکتی جو فلسطین میں قتل و غارت کا بازار گرم کئیے ہوئے ہیں ، جو عراق اور افغانستان کے مظلوم عوام کو اپنے ظلم و بربریّت کا نشانہ بنا رہے ہیں ؛جو ایسے سفّاکوں سے ہاتھ ملائے وہ طلباء کی تحریک نہیں ہو سکتی ، شاید دوسرے ملکوں کی اسٹوڈنٹ یونینوں اور طلباء کی تحریکوں میں یہ بات پائی جاتی ہو لیکن کم سے کم ہمارے ملک کے طلباء کی تحریک میں یہ بات نہیں پائی جاتی ، چونکہ وہ سامراج ، استکبار اور ڈکٹیٹر شپ کی سخت مخالف ہے اور عدل وانصاف کی شدید حامی۔اس تحریک کے آغاز کی جانی پہچانی تاریخ یہی سولہ آذر ہے۔

یہ دلچسپ بات ہے کہ ۱۶ آذر ۱۳۳۲ ہجری شمسی (۷دسمبر ۱۹۵۳ ع)کو تین طالب علم خاک و خوں میں غلطاں ہوئے اور یہ واقعہ ۲۸ خرداد کے چار ماہ بعد رونما ہوا، یعنی ۲۸مردادکو حکومت وقت کا تختہ الٹنے کے بعد؛اس عجیب و غریب گھٹن اور سکوت کی فضا میں اچانک تہران یونیورسٹی کے طلباءنے ایک آواز بلند کی ؛ ایسا کیوں ہوا؟ چونکہ نیکسن جو اس وقت امریکہ کے صدر کا معاون تھا وہ ایران کے دورے پر آیا ، امریکہ اور نیکسن کے خلاف نفرت اور اعتراض کے اظہار کے لئیے طلباء نے مظاہروں اور ہڑتالوں کا اہتمام کیا چونکہ امریکہ ۲۸ مرداد کے اس واقعہ کا اصلی محرّک اور بانی تھا ؛ البتّہ ان مظاہروں کو سختی سے کچل دیا گیا جس کے نتیجے میں تین اسٹوڈنٹ جاں بحق ہوئے ؛ اب ۱۶ آذر کو ہر سال اسے خصوصیّت سے پہچانا جانا چاہئیے ؛۱۶ آذر ، نیکسن ، امریکہ ، اور ڈکٹیٹر شپ کے مخالف ، اسٹوڈنت کا دن ہے ۔

اس کے بعد ۱۳۴۲ ہجری شمسی (۱۹۶۳عیسوی) تک ہمیشہ ہی یہ تحریک اپنی موجودگی کا مسلسل احساس دلاتی رہی ؛ مجھے اچھّی طرح یاد ہے کہ ۱۳۳۸، ۳۹،۴۰، ہجری شمسی میں اس تحریک نے سر اٹھانے کی کوشش کی لیکن اسے اس کی اجازت نہیں دی گئی اور اسے سختی سے کچل دیا گیا ، یہانتک کہ ۱۳۴۱ ہجری شمسی میں علماء کی تحریک کا آغاز ہوا جو ۱۳۴۲میں اپنے نقطہ عروج پر تھی، یہاں بھی آپ کو طلباء کی تحریک کے نشانات دکھائی دیتے ہیں یعنی ۱۳۴۲ ہجری شمسی میں علماء کی تحریک کے آغاز سے لے کر ۱۳۵۷ ہجری شمسی میں انقلاب کی کامیابی تک کے پندرہ سالہ عرصے میں آپ طلباء کی تحریک کو علماء کی تحریک کے شانہ بہ شانہ مشاہدہ کرتے ہیں ۔ملک کی یونیورسٹیاں اور تعلیمی مراکز انقلابی سرگرمیوں کا مرکز تھے اور طلباء اس تمام عرصے میں اسلامی تحریک کا قوّت بازو شمار ہوتے تھے ، ہم نے نزدیک سے اس کا مشاہدہ کیا ہے اور جو دوست اور عزیز اس پیکار میں سرگرم رہے ہیں وہ بخوبی اس سے آشنا ہیں اور انہوں نے نزدیک سے اس کا تجربہ کیا ہے ؛ یونیورسٹیاں ، علماء کی تحریک کا " جزولا ینفک "تھیں ، اگر چہ یونیورسٹیوں میں دین مخالف ، مارکسسٹی ،الحادی اور کمیونیسٹی رجحانات بھی پائے جاتے تھے لیکن مسلمان اور مذہبی طلباء کی تحریک ان سب پر غالب تھی لہٰذا جو بھی گروہ تشکیل پاتے تھے اور جو بھی فعّالیّت انجام پاتی تھی ،طلباء اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے ، طلباء علماء کے شانہ بہ شانہ ہر جگہ موجود تھے ، خواہ وہ ظالم حکومت کے خلاف نبرد کا میدان ہو یا قید و بند کی صعوبتوں کا امتحان ہو ، جیلوں میں قید اکثریّت ، طلباء اور علماء پر مشتمل تھی ؛ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کی کامیابی سے پہلے ۱۳۵۷ ہجری شمسی میں ہم مشہد کے علماء اور عوام نے حکومت کے اقدامات پر اعتراض ظاہر کرنےجب اپنے آپ کو محصور کرنا چاہا تو اس کے لئیے امام رضا میڈیکل کالج کا انتخاب کیا گیا ، یعنی اس کا مرکز بھی ایک یونیورسٹی تھی ، تہران میں بھی امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ )کی آمد میں تاخیر پر اعتراض ظاہر کرنے کے لئیے علماء اور دیگر انقلابی افراد نے اپنے آپ کو تہران یونیورسٹی میں محصور کر رکھّا تھا ، ان حقائق سے اسلامی انقلاب کی کامیابی میں یونیورسٹی اور اسٹوڈنٹ کا کردار بخوبی واضح ہوتا ہے ۔

انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی طلباء کی تحریک نے عجیب و غریب تاریخ رقم کی ، انقلاب کی کامیابی کے اوائل کے مہینوں میں "سپاہ پاسداران "کی تشکیل اور اس میں فعّال کردار ، اس تحریک کا نمایاں کارنامہ ہے ؛ اس کے چند ماہ بعد "جہاد سازندگی" نامی ادارے کی داغ بیل بھی انہیں طلباء نے ڈالی ، اپنے ہاتھوں سے اس ادارے کا سنگ بنیاد رکھّا اور اسے آگے بڑھایا ؛ "جہاد سازندگی" کی تشکیل کا شمار، اسلامی انقلاب کے بابرکت اور قابل فخر کارناموں میں ہوتاہے ؛اس کے چند ماہ بعد طلباء کا دوسرا بڑا اقدام ، ان مسلّح شر پسند عناصر کا مقابلہ تھا جو تہران یونیورسٹی میں گھس آئے تھے ان میں سے اکثر اسٹوڈنٹ نہیں تھے ، تہران یونیورسٹی ، اسلحے اور بارود ، ہینڈ گرنیڈ اور بندوقوں کے مرکز میں تبدیل ہو چکی تھی ، ان شر پسند عناصر نے وہاں اسلحہ اس غرض سے جمع کیا تھا تا کہ وہ اس کے ذریعہ اسلامی انقلاب سے لڑ سکیں ، تہران یونیورسٹی کے طلباء نے خود اس یونیورسٹی کو ان شر پسند عناصر کے وجود سے پاک کیا ؛ طلباء کی تحریک نےیہاں بھی اپنا نقش چھوڑا۔

۱۳۵۹ہجری شمسی میں مقدّس دفاع کے آغاز سے ہی ، طلباء نے محاذ جنگ کا رخ کیا کہ جس کے بے شمار نمونے ہیں، جن میں سے ایک یہی شہید کمانڈر جناب احمد متوسّلیان اور ان جیسے دیگر افراد ہیں جو میدان کارزار میں کود پڑے اور ملک کے مغرب میں کردستان کے علاقے میں خالی ہاتھ، ایسے دشمن سے نبرد آزما ہوئے جومکمل طور پر اسلحے سے لیس تھا ، اور دوسری طرف ان پر مسلسل بمباری بھی ہو رہی تھی ، کردستان کا علاقہ غربت اور تنہائی کا مظہر ہے میں نے نزدیک سے اس کو محسوس کیا ہے ، ان مخلص ترین افراد نے " فتح المبین "فوجی آپریشن (جس میں شہید متوسّلیان اور ان کے ساتھیوں نے حصہ لیا) سے پہلے "محمّد رسول اللہ " نامی آپریشن انجام دیا جو محاذ جنگ پر طلباء کی فعّال موجودگی کا ایک بہترین نمونہ ہے ، محاذ جنگ پر طلباء کی فعّالیّت کا ایک دوسرا اہم نمونہ ہویزا کا واقعہ ہے ؛ اتّفاق سے میں نے شہید علم الہدی ٰ،شہید قدّوسی اور ان کے ساتھیوں کو نزدیک سے دیکھا جس دن وہ محاذ پر روانہ ہو رہے تھے، یہ واقعہ ۱۳۶۰ ،۶۱ہجری شمسی کا ہے ، طلباء کی تحریک نے جنگ کے آخر تک ،اس میں سرگرم کردار ادا کیا ، آٹھ سالہ جنگ میں ہماری یونیورسٹیاں ، ہماری فوجی طاقت کی تقویّت کا اہم مرکز رہی ہیں ، ساٹھ کی دہائی میں جب یونیورسٹیاں دوبارہ کھلیں ، تو "جہاد دانشگاہی " ادارہ وجود میں آیا جو ایک حسّاس اور قابل فخر مرکز شمار ہوتا ہے ، اس سے قبل۱۳۵۸ ہجری شمسی میں جاسوسی کے مرکز (امریکی سفارت خانے ) پر قبضہ بھی اس تحریک کا ایک اور عظیم کارنامہ ہے۔

اسٹوڈنٹ ، اسٹوڈنٹ ہونے کے لحاظ سے اس تحریک کا حصّہ ہے ، ممکن ہے ان میں سے بعض افراد اپنے کئیے پر نادم ہوں جنہوں نے جاسوسی کے اڈّے پر قبضہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا ، ان میں سے بعض افراد اپنے کئیے پر نادم ہیں ؛ ان میں سے بہت سے افراد کے قدم ، مختلف علل و اسباب کی وجہ سے ڈگمگا گئے جو ایک زمانے میں اس تحریک کا حصّہ تھے ، لیکن اس سے طلباء کی تحریک پر کوئی آنچ نہیں آتی ، بہر حال جاسوسی کے اڈّے پر قبضہ اس تحریک کا ایک عظیم کارنامہ ہے ۔

یہ اس تحریک کی تاریخ ہے اور یہ سفر آج بھی جاری ہے ،مؤمن ، عدالت طلب ، عفوو درگذشت کے حامل طلباء نے ،مختلف ادوار میں ، اسلامی انقلاب کے مختلف حوادث میں ، حسّاس اور اہم مواقع پر ، ماحول کی صحیح راہنمائی کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔میری نظر میں طلباء کی تحریک کی خصوصیّت یہ ہے کہ وہ ظلم و استبداد، سامراج، توسیع پسندی، آمریت ، افسر شاہی اور انحرافات کی مخالف ہے ؛ یہ طلباء کی تحریک کا امتیازی نشان ہے ۔انقلاب کی کامیابی کے بعد ، طلباء نے ان میدانوں میں فعّال کردار ادا کیا ہے ، طلباء نے بحث و گفتگو اور صحیح فکر کے لئیے سازگار ماحول فراہم کیا ہے ، سیاسی اور انقلابی مفاہیم کو سماج میں رائج کیا ہے ، آپ ہر جگہ ان خصوصیّات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔

البتّہ میرا یہ نظریہ اسٹوڈنٹ کی جنرل باڈی کے بارے میں ہے ۔ عین ممکن ہے اس باڈی کے کچھ عناصر بعض دیگر رجحانات کے حامل ہوں ،مجھے اس پر نہ تو کوئی تعجّب ہے اور نہ ہی میں اس سے انکار کرتا ہوں ، یقینا ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں لیکن عام طور سے اسٹوڈنٹ کے کام کی نوعیّت اور اس کی نفسیاتی کیفیّت انہیں خصوصیّت کی حامل ہے جو میں نے بیان کیں ، یعنی وہ ظلم و استبداد ، توسیع پسندی ، آمریّت اور غیروں کے قبضے کا مخالف ہے اور عظیم امنگوں اور امیّدوں کا عاشق ہے اور اپنے دل میں ان کے حصول کی امّید جگائے ہوئے ہے ۔جوان، بالخصوص اسٹوڈنٹ کسی بھی سماج کو چلانے کے لئیے اس کا موٹر شمار ہوتا ہے ، لہٰذا طلباء کو اپنی اہمیّت کا احساس ہونا چاہئیے اور ملک کے مستقبل کی تعمیر کے لئیے اسے اپنے مد نظر رکھّیں ۔

ایک جملہ طلباء یونینوں کے سلسلے میں بھی عرض کرتا چلوں ، طلباء یونینوں سے ہماری مراد ، سیاسی اور سماجی یونینیں ہیں ، ورنہ علمی یونینوں کی بحث جدا ہے ۔بلا شک طلباءیونینیں بھی اپنے نقش و کردار کے اعتبار سے ممتاز مقام رکھتی ہیں،البتّہ یہ بات پیش نظر رہے کہ سیاسی پارٹیوں اور طلباء یونینوں میں ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے ، عام طور سے دنیا میں سیاسی پارٹیاں ، اقتدار اور طاقت کے حصول کے لئیے بنائی جاتی ہیں ، کچھ ا فراد مل کر ایک سیاسی پارٹی تشکیل دیتے ہیں تا کہ اس کے ذریعہ اقتدار اور طاقت حاصل کر سکیں ، لیکن طلباء یونینوں کی تشکیل کا مقصد ، امنگوں اور امّیدوں کی حصولیابی ہے اور یہ ہدف، سیاسی مقاصد اوراقتدار و طاقت کی حصولیابی سے کہیں بڑا مقصد ہے ،طلباء یونینوں کے پیش نظر سیاسی مقاصد نہیں ہوتے ، البتّہ سیاسی پارٹیوں کو اس میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ وہ اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے لئیے ان یونینوں کو زینے کے طور پر استعمال کریں ، میری نظر میں بات جائز نہیں ، خود طلباء کو بھی اس سلسلے میں ہوشیار رہنا چاہئیے ، سیاسی پارٹیاں ، اقتدار اور طاقت حاصل کرنے کے لئیے سرمایہ لگاتی ہیں ،لیکن طلباء اپنی جان کی بازی لگا کر ، اپنی پوری طاقت صرف کر کے سماج کو کچھ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں ضروری ہو وہاں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی نہیں کتراتے ، جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا ۔

اس کے ساتھ ساتھ ، طلباء یونینیں ، طلباء کے لئیے گروہی اور اجتماعی کام کے تجربے کے لئیے بہترین موقع فراہم کرتی ہیں ، میں اجتماعی کام پر بہت اعتقاد رکھتا ہوں اور مختلف سیاسی ،سماجی مہارتوں کے حصول کے لئیے اسے ضروری سمجھتا ہوں ،آپ عزیز جوان ؛ بھائی بہن اچھّی طرح واقف ہیں کہ اس دور میں طالب علم کو مختلف فریب کاریوں ، اور خطروں کی موجوں نے ہر طرف سے گھیر رکھّا ہے ، کم سے کم ہمارے ملک میں یہی صورت حال ہے؛بلاشک ہمارے ملک میں سامراج کی سازشوں کا ایک اہم نشانہ ، طلباء ہیں ، اس کی وجہ بھی معلوم ہے ، چونکہ ہمارے ملک کی اکثریّت جوان ہے ۔اور جوانوں میں بھی طلباء کا فیصد بہت زیادہ ہے ؛ علمی اورسیاسی اعتبار سے طلباء کے کردار کی اہمیّت سب پر عیاں ہے ، لہٰذا جن لوگوں نے اس ملک وقوم کے لئیے برے خواب دیکھ رکھّے ہیں وہ ایرانی طلباء پر سرمایہ کاری پر مجبور ہیں ، ایرانی جوانوں کو بہکانے کے لئیے غریزی اور جنسی مسائل کی کشش سے لے کر سیاسی مکّاریوں ، جھوٹے عرفانوں اور بظاہر معنوی دکانوں کا سہارا لے رہے ہیں اور مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں ۔ یہ یونینیں ، طلباء کو اس بھنور سے نجات دلا سکتی ہیں ، یہ وہ کردار ہے جو طلباء یونینیں اداکر سکتی ہیں ، ان یونینوں کے مسؤول حضرات کو (جو مختلف ناموں اور عناوین کے تحت فعّال ہیں ) اس ہدف کے حصول میں اپنے آپ کو حصّہ دار سمجھنا چاہئیے اور اس سلسلے میں طلباء کی مدد کرنا چاہئیے ۔

طلباء یونینوں کومحتاط رہنا چاہئیے کہ کہیں وہ اپنے اصلی مقصد سے دور نہ ہو جائیں ، طلباء یونینوں کا اصلی ہدف وہ چیزیں ہیں جوطلباء تحریک کی بلند و بالا عمارت پر تحریر ہیں ، یعنی سامراجیّت اور استکبار کی مخالفت ، ملک کی ترقّی اور پیشرفت میں ہر ممکن مدد، قومی اتّحاد اور علم کی پیشرفت میں مدد، دشمنیوں اور سازشوں کا مقابلہ کرنے میں ایرانی قوم کی نبرد و پیکار میں ہمراہی ، یہ چیزیں اصلی ہدف شمار ہوتی ہیں ، انہیں ہر گز فراموش نہ کریں ، البتّہ طلباء یونینوں کو ، طلباء کی تحریک کے اصلی ڈھانچے سے اپنے آپ کو الگ نہیں کرنا چاہئیے ، یعنی ایسی صورتحال پیدا نہ ہو کہ یہ یونینیں ، طلباء کی تقسیم کا باعث بنیں ، یونینیں اپنے آپ کو طلباء سے قریب لائیں ۔ طلباءکے مسائل کے سلسلے میں ، میں اپنی گفتگو کو یہیں ختم کرتا ہو ں ؛ یہ گفتگو نسبتا طولانی گفتگو تھی۔

انقلاب کے مطالعہ کا مسئلہ میری نظر میں بہت اہم مسئلہ ہے ، دامن وقت میں گنجایش نہیں اس لئیے اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو نہیں کر سکتا اور میری مزاجی کیفیّت بھی تفصیل میں جانے کی اجازت نہیں دیتی ، میں چند روز سے جاڑ ے اور سردی کا شکار ہوں ، میں اس ملاقات کو ملتوی نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئیے اسی حالت میں حاضر ہواہوں ، بہر حال میرے مزاج کی کیفیّت ، میری اور آپ کی گفتگو میں کسی حد رکاوٹ بن رہی ہے ۔

ہمارے پر ماجرا انقلاب کی تاریخ کی شناخت کے سلسلے میں ایک نکتہ بہت اہمیّت کا حامل ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اس بات کو مدّ نظر رکھّیں کہ یہ انقلاب کن حالات میں کامیاب ہوا؟مشروطیّت کی تحریک کے دوران تک ہمارا ملک سالہاسال، شاہی نظام حکومت کے ظلم و استبداد میں گرفتار تھا ، مشرو طیّت کا دور ،سکون کی سانس لینے کا ایک موڑ شمار ہوتا ہے ، اس تحریک سے یہ امّید وابستہ تھی کہ وہ ایرانی قوم کو سکون کی سانس لینے کا موقع فراہم کرے گی اور انہیں آزادی دلائے گی ،بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوا اور اس تحریک کو شروع سے برطانوی سامراج نے اغوا کر لیا اور اس پر اپنا قبضہ جما لیا

اس افراتفری کے بعد جو مشروطیّت کی تحریک کے آغاز پر پیدا ہوئی ،اور چند سال جاری رہی ، برطانوی سامراج نے رضا خان جیسے مطلق العنان اور ڈکٹیٹر شخص کو مسند اقتدار پر بٹھایا جو اپنے پیشرو سلاطین ،مظفّرالدّین شاہ اور ناصرالدّین شاہ سے کہیں زیادہ سفّاک اور بے رحم حکمران تھا ، رضا خان کی ڈکٹیٹر شپ ، مظفّر الدّین شاہ اور ناصر الدّین شاہ کی ڈکٹیٹر شپ سے بہت زیادہ بری اور خطرناک تھی ، برطانیہ نے ایسے سفّاک اور ظالم شخص کو مسند اقتدار پر بٹھایا ، حقیقت یہ کہ ہم ،استبداد سے آزادی کے دور میں داخل نہیں ہوئے بلکہ ایک ایسے استبداد میں داخل ہوئے جو برطانیہ سے وابستہ تھا ؛ ہماری قوم نے آزادی کا مزہ نہیں چکھّا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایران میں اسلامی تحریک کا آغاز ہوا اور امام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) نے اس کا ہدف "شاہی اور استبدادی حکومت ، غیروں کے تسلّط '' کے خاتمے کوقرار دیا تو بہت سے ایسے افراد کواس پر یقین نہیں آرہا تھا جو گذشتہ تحریکوں میں فعّال کردار ادا کر چکے تھے ، وہ اس بات کا صحیح تصوّر کرنے سے عاجز تھے کہ آخر ایسی چیز کیوں کر ممکن ہے ؟! اس ملک سے شاہی نظام حکومت کا خاتمہ کیسے ممکن ہے ؟!مجھے اچھّی طرح یاد ہے کہ اس تحریک کے آخری برسوں میں جب امام(رہ) نے حکومت کے مسئلہ پر بحث و گفتگو شروع کی اور امام (رہ)نے اعلان کیا کہ " شاہ ایران خائن ہے اور اسے جانا چاہئیے " یہاں تک کہ بعض، فعّال انقلابی عناصر بھی یہ کہتے سنائی دیتے تھے کہ یہ کیوں کر ممکن ہے ؟!امام(رہ) کیسے شاہ اور سلطنت کو للکار رہے ہیں ؟!شاہ کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے ؟!انہیں اس بات کا یقین نہیں آتا تھا؛ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ شاہ ایران کو دنیا کی بڑی طاقتوں کی حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی ،لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ رو نما ہوا اور شاہ ایران ، فرار ہونے پر مجبور ہوا۔عظیم اسلامی تحریک ، لوگوں کی ہمّت اور جوش و ولولے ، امام (رہ) کی بے مثال قیادت نے یہ کارنامہ انجام دیا ، صبر و بصیرت ، آگاہی اور استقامت وہ دو عنصر ہیں جو ایرانی قوم میں پیدا ہوئے اور کامیابی کی ضمانت بن گئے ؛ میں نے بارہا امیرالمؤمنین (علیہ الصلاۃ والسّلام)کا یہ کلام نقل کیا ہے : لايحمل ھٰذا العلم الّا اھل البصروالصبر '' بصیرت اور صبر کامیابی کے بنیادی عنصر ہیں ، یہی دو عنصر ایرانی قوم میں جلوہ گر ہوئے اور اپنا کام کر گئے اور اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا، حقیقت میں اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل سے ایرانی قوم کی تاریخی ضرورت کو مناسب جواب ملا ، ایرانی قوم نے اپنی تاریخی تمنّاوں اور امّیدوں کے زیر سایہ اسلامی جمہوریہ کے پرچم کو لہرایا، اور یہ واضح ہے کہ جب کوئی نظام حکومت ،عوام کی دیرینہ اور قلبی آرزووں کا نتیجہ ہو تو وہ یقینا باقی رہتا ہے ، اس میں رشد و بقا کی صلاحیّت پائی جاتی ہے اور اس کی جڑیں بہت گہری ہوتی ہیں ، ایسے نظام حکومت سے دشمنی کوئی آسان کام نہیں ، ایران میں ایسا ہی ایک واقعہ رونما ہوا۔

عزیز جوانو! آپ اچھّی طرح جان لیں اور اس پر یقین رکھّیں کہ اسلامی اور مذہبی تحریک کے سوا کسی دوسری تحریک میں یہ دم نہیں تھا کہ وہ اس ملک سے شاہی نظام حکومت کا خاتمہ کر سکے ، کسی دوسرے سیاسی رجحان ، سیاسی پارٹی اور مبارزاتی گروہ میں ہر گز یہ صلاحیّت نہیں پائی جاتی تھی کہ کہ وہ ملک میں امریکہ جیسی طاقت سے وابستہ استبدادی نظام کو سرنگوں کر سکے ؛ جیسا کہ ہم جانتے ہیں اس تحریک سے پہلے جتنی بھی تحریکیں چلائی گئیں وہ سب شکست سے دوچار ہوئیں خواہ ان کا تعلّق دائیں بازو سے رہا ہو یا بائیں بازو کی تحریکیں ہوں یا مسلّح تحریکیں ہوں ، یہ تمام تحریکیں ۱۳۵۴ اور۱۳۵۵ہجری شمسی میں حکومت کے ہاتھوں کچل دی گئیں ، ایک قومی تحریک ہی اس حکومت کا تختہ الٹ سکتی تھی ، ایرانی قوم کی بھر پور حمایت کا حصول ، مذہبی جذبے ،علماء کی حمایت اور امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ)جیسے مرجع تقلید کے بغیر ممکن نہیں تھا، اس فاسد نظام حکومت کی سر نگونی کے بعد اسلامی جمہوری نظام حکومت کے سوا اگر کوئی دوسرا نظام بر سر اقتدار آتا تو یقینا دشمنوں کے نفوذ اور ان کی مداخلت کے سامنے پا ئمردی اور استقامت کا مظاہرہ نہ کر پاتا خواہ وہ دائیں محاذکا نظام حکومت ہو یا بائیں محاذ کا نظام حکومت ہو۔ ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ کس طریقے سے امریکہ کے نفوذاس کی سیاسی اور فوجی مداخلت اور اقتصادی محاصرے کی وجہ سے بہت سے انقلاب صفحہ ہستی سے مٹ گئے خواہ ان کا تعلّق لفٹ فرنٹ سے ہویا میانہ رو انقلاب ہوں ، آپ مشرقی یورپ کو ہی دیکھ لئیے جو ایک دور میں اشتراکی حکومتوں کا مرکز تھا لیکن آج یہ صورتحال ہے کہ وہاں امریکی افواج اور میزائیلوں کے اڈّے قائم کیے جا رہے ہیں اور وہاں دن بدن امریکیوں کی موجودگی بڑھتی جا رہی ہے ، اسلامی جمہوری نظام حکومت کے سوا ، دنیا کا کوئی بھی نظام حکومت ، امریکہ کے نفوذاور دباؤکا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔میں یہاں اس نکتے کی طرف بھی اشارہ کرتا چلوں کہ عالمی سامراج اور اس کے سرغنے امریکہ ، اور صیہونی لابی کی اسلامی جمہوریہ ایران سے دشمنی کی بنیادی وجہ وہ نہیں ہے جسے وہ زبان پر لا رہے ہیں اور ملک کے اندر بھی بعض افراد اسی کو دہرا رہے ہیں ، بلکہ اسلامی جمہوریہ کے کچھ انکار'' اور کچھ تائیدات اس دشمنی کی بنیادی وجہ ہیں ۔

اسلامی جمہوریہ ایران ، استحصال ، تسلّط پسندی ، دنیاکی سیاسی طاقتوں کے ذریعہ قوموں کی توہین ، سیاسی انحصار اور وابستگی ، تسلّط پسند قوّتوں کی مداخلت اور نفوذ، سیکولرزم کی بے لگام آزادی ، اخلاقی لا ابالی کا حتمی طور پر انکار کرتا ہے ۔

اور بعض چیزوں کی تائید حمایت کرتا ہے ؛ اسلامی جمہوریہ ایران ،قومی اور ایرانی تشخّص کی حمایت کرتا ہے ؛ اسلامی اقدار کا حامی ہے ، علم و دانش کی بلندیوں کو سر کرنے کے لئیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کرتا ہے ، اور علم کے میدان میں دوسروں کا مقلّد بنے رہنے کو صحیح نہیں سمجھتا بلکہ علم کی بلندیوں کو فتح کرنے کا قائل ہے ، یہ وہ حمایتیں ہیں جن پر اسلامی جمہوریہ ایران اصرار کرتا ہے ۔

یہ انکار اور تائید ، امریکہ اور صیہونی لابی کی اسلامی جمہوریہ ایران سے دشمنی کا بنیادی سبب ہیں اگر ہم امریکہ کے نفوذ اور مداخلت کو تسلیم کر لیں ،اور غیروں کے ذریعہ ایرانی قوم کی توہین کو برداشت کر لیں اور اپنی قومی شناخت اور اسلامی قدروں کے دفاع کو ترک کر دیں تو یقینااسی اعتبار سے عداوتوں میں بھی کمی آجائے گی۔آپ نے بارہا امریکی حکام کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم اسلامی جمہوریہ کی نابودی کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ اس کے رویہ میں تبدیلی چاہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم ان انکار اور تائید و حمایت کی روش سے دست بردار ہو جائیں وہ ہم سے اس کا تقاضا کر رہے ہیں ۔

اس'' انکار اور حمایت'' پر استقامت کے ذریعہ ہم نے مختلف امکانات سے لیس دشمنوں کا بخوبی مقابلہ کیا ہے آٓٹھ سالہ مقدّس دفاع میں مشرق و مغرب کی تمام طاقتیں ، یورپ اور نیٹو ، اور بعض عرب ممالک نے ملک کر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف محاذ تشکیل دیا لیکن ایران کو پسپائی پر مجبور نہیں کر سکے ، بلکہ خود پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گئے ، جنگ کے بعد ، آج تک مختلف سیاسی میدانوں میں بھی یہی صورتحال حکم فرما رہی ہے؛یعنی جمہوریہ اسلامی ایران نے اس عظیم محاذ کے مدّ مقابل نہ صرف یہ کہ پسپائی اختیار نہیں کی بلکہ پیشرفت بھی کی ہے اور دشمن پر کاری ضرب لگائی ہے ، یہ وہ حقائق ہیں جو آپ کے سامنے ہیں ۔

آپ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی موجودہ زبوں حالی کو ملاحظہ کیجئیے ، اور پندرہ سال پہلے سے اس کا موازنہ کیجئیے تب آپ کو اندازہ ہو گا کہ آج امریکہ، مشرق وسطیٰ میں کس دلدل میں گرفتار ہے ،آج امریکہ کی ذلّت ،ناکامی اور اس سے نفرت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اسے فلسطین ،لبنان، عراق و افغانستان میں اپنے ناجائز مقاصد کے حصول میں ہزیمت اٹھانا پڑ رہی ہے ،ان ممالک پر چڑھائی سے امریکہ کا بنیادی مقصد ، اسلامی جمہوریہ ایران کو کمزور کرنا تھا ، لیکن اسے اس مقصد میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ایران نے اس عرصے میں ان کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، انہوں نے ایران کے خلاف طرح طرح کی سازشیں رچیں ، اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی نوعیّت میں تبدیلی آتی رہی ہے ، انقلاب کی پہلی دہائی میں ان سازشوں کی نوعیّت کچھ اور تھی ، دوسری اور تیسری دہائی میں یہ سازشیں مختلف نوعیّت کی تھیں ، اس کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ؛ وقت تیزی کے ساتھ گذر رہا ہے ؛لیکن وہ بنیادی نکتہ جو طلباء ، اہل علم اور پوری قوم ،بالخصوص ممتازاور برجستہ شخصیّات کو اپنے مدّ نظر رکھنا چاہئیے یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے نظام حکومت میں قوّت اور ذاتی اقتدار پایا جاتا ہے کہ وہ گذشتہ تیس برس کی طرح اپنی استقامت اور پائداری کو جاری رکھ سکتا ہے ، اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں نے اسے گزند پہنچانے کے لئیے اپنی پوری طاقت لگادی مگر اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے اور ایران مختلف شعبوں میں دن بدن مضبوط ہوتا چلا گیا۔

اس نظام کی "بقا کی طاقت " اس کا اقتدار ، اس کی باقی رہنے کی ظرفیّت کی حفاظت ہونا چاہئیے ، ایسا نہیں کہ ہم اپنے من چاہے طریقے سے عمل کرتے رہیں ، اور اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی سے کام لیتے رہیں اور اسلامی انقلاب پر کوئی آنچ نہ آئے اور اس میں یہی استقامت اور پائداری باقی رہے ، ایسا ہرگز نہیں ہے ، بلکہ حقیقی معنا میں اس نظام کی حفاظت ضروری ہے ،تاکہ اس قوم کے لئیے اس ملک کے منافع سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا جا سکے اور اس قوم کو اس کی امنگوں ، آرزؤوں کی بلندیوں تک پہنچایا جا سکے ۔

یہ بات نہایت اہمیّت کی حامل ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کا ایک رسمی ڈھانچہ ہے ، جو بنیادی آئین ، پارلیمنٹ ، اسلامی حکومت اور الیکشن پر مشتمل ہے ؛ ان کی حفاظت بھی ضروری ہے لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہے ۔

ہمیشہ ہی ایک حقوقی اور رسمی ڈھانچے کے اندر ایک حقیقی اور واقعی تشخّص پایا جاتا ہے جس کی حفاظت ضروری ہوتی ہے ، یہ حقوقی ڈھانچہ، جسم کے مانند ہے اور حقیقی تشخّص اور ہویّت ، روح کے مانند ہے اور معنا اور مضمون کا حکم رکھتا ہے ، اگر اصلی تشخّص میں تبدیلی واقع ہو جائے اگر چہ ظاہری شکل و صورت اپنی جگہ باقی رہے تو اس کی ظاہری شکل کا نہ تو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی اس میں دوام اور بقا پائی جاتی ہے ، یہ ظاہری شکل ، اس دانت کے مانند ہے جو اندر سے کھوکھلاہو چکا ہو وہ کسی بھی سخت چیز سے ٹکراتے ہی ٹوٹ جاتا ہے ؛ حقیقی تشخّص کی بناوٹ بہت اہم ہے ، وہ اس جسم کی روح و جان ہے ، وہ حقیقی تشخّص کیا ہے ؟ انقلاب کی امنگیں ، عدل ومساوات ، انسانی وقارواقدار کی حفاظت ، مساوات اور اخوّت کے لئیے سعی و کوشش، اخلاقیّات کا لحاظ اور دشمن کا مقابلہ یہ سب چیزیں اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کا حقیقی تشخّص شمار ہوتی ہیں ۔

اگر ہم اسلامی اخلاقیّات سے دور ہو گئے، اگر ہم نے عدل و انصاف کے تقا ضے فراموش کر دئیے ، اگر ملک کے حکّام کی عوام دوستی پر توجّہ کم ہوگئی ، اگر ہمارے ملک کے حکّام بھی دوسرے ممالک کے حکّام کی طرح حکومتی عہدوں کو ثروت و طاقت کا زینہ سمجھنے لگے ، اگر حکّام کی سادہ زیستی اور عوامی زندگی گزارنے کی عادت ختم ہو جائے ، اگر ان کے اندر سے عوام کی خدمت اور قربانی کا جذبہ ختم ہو جائے ، اگر سیاسی اور اجتماعی مسائل پر خوش آمدی اور ذاتی کمزوریوں کو چھپانے کا غلبہ ہو ، تو بنیادی تشخّص کے ارکان منہدم ہو جائیں گے اور اس کا ظاہری ڈھانچہ ہمارے کسی کام نہیں آئے گا وہ اپنا اثر کھو دے گا، اور ایسے میں اس کا اسلامی لیبل(اسلامی پارلیمینٹ،اسلامی حکومت) اور اس کی ضمنی اسلام پسندی اکیلے کوئی کردار ادا کرنے پر قادر نہیں ہو گی ، ہمیں بہت محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں یہ حقیقی تشخّص ، ہاتھ سے نہ نکل جائے اور فراموشی کاشکار نہ ہو جائے ، ہم صرف ظاہر اور اس کے سانچے پر خوش نہ ہوں بلکہ ہمیں اس کے حقیقی تشخّص پر توجۃ مبذول کرنا چاہئیے ، اصل مسئلہ یہ ہے ۔

میں آپ سے عرض کر دوں کہ حقیقی روح و روش کی تبدیلی ، تدریجی اور رفتہ رفتہ ہوتی ہے اور عام طور سے بعض یا اکثر افراد اس کی طرف متوجّہ بھی نہیں ہو پاتے ، ممکن ہے کہ لوگ ایک ایسے وقت میں اس کی طرف متوجّہ ہوں جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہو اور کسی سے کچھ نہ بن پڑے ، لہٰذا بہت محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ، طلباء ، روشن فکر اور صاحب بصیرت طبقے کی آنکھیں ہیں ، انہیں ہمیشہ اس سلسلے میں اپنی ذمّہ داریوں کااحساس ہونا چاہئیے ، موجودہ نظام حکومت ، ظاہری اور باطنی اعتبار سے ایک اسلامی نظام ہے ، صرف یہی کافی نہیں ہے کہ اس کے آئین میں ، صدر جمہوریہ ، رہبر ، چیف جسٹس اور گارڈیں کونسل کے سربراہ کے انتخاب کے لئیے بعض شرائط کو معیّن کیا گیا ہے ، یہ شرائط اگر چہ لازم و ضروری ہیں لیکن کافی نہیں ہیں بلکہ ہمیں ، امنگوں ،امّیدوں اور توقعات میں انحراف کے بارے میں محتاط اور ہوشیار رہنا چاہئیے کہ خدا نخواستہ ان میں کوئی انحراف پیدا نہ ہو، یہ وہ محاذہے جس پر ہم کافی عرصے سے نبرد آزما ہیں ، جنگ اور امام خمینی (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رحلت کے بعد کی دو دہائیوں میں ہمارے دشمنوں نے انتھک کوششیں کیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو اس کے اصلی تشخّص سے دور کر سکیں ، اس سلسلے میں انہوں نے مختلف حربے استعمال کیے، انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لئیے سیاسی ، سماجی اور اخلاقی میدانوں میں وسیع پیمانے پر کوششیں کیں ، ایک دور میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ ہمارے اخبارات اور جرائد نے واضح طور پر "دین اور سیاست " میں جدائی کا اعلان کیا ، دین و سیاست کے اتحاد پر سوالیہ نشان لگایا جو اسلامی جمہوریہ ایران ،اور عوامی تحریک کا بنیادی عنصر ہے ، اس سے بڑھ کر سوچا بھی نہیں جا سکتا !ہمارے بعض اخبارات و جرائد میں سفّاک اور ظالم پہلوی حکومت کا دفاع کیاگیا اس انحراف کا سدّ باب کرنے کے لئیے ،اسلامی تشخص کے معیاروں اور فکری ، سیاسی اور اعتقادی حدود کو نمایاں کرنا ضروری ہے ، اس کے ذریعہ ،اس انحراف کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکا جاسکتا ہے ، اسلامی تشخّص کے معیار واضح ہونا چاہئیے ، انصاف پسندی ، حکّام کی سادہ زیستی ، پر خلوص محنت ، مسلسل علمی نشونما، اغیار کی تسلّط پسندی اور حرص وطمع کے مقابلے میں استقامت ، قومی حقوق کا شجاعانہ دفاع ، اسلامی تشخّص کے بنیادی معیار ہیں ، ایٹمی توانائی کے حق کی طرح ، ایٹمی توانائی، ملک کی دیگر دسیوں ضرورتوں کی طرح ، ایک اہم ضرورت ہے ، یہ ہمارا واحد مسئلہ نہیں ہے ، لیکن جب دشمن کی توجّہ اس پر مرکوز ہو گئی تو ہماری قوم نے بھی استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کیا ، اگر اس مسئلے میں ہمارے حکّام ، ہمارے عوام ، اپنے واضح اور مسلّم حق سے چشم پوشی کریں گے تو بلا شبہ دشمن کو قوم کے دیگر حقوق پر دست درازی کا موقع مل جائے گا۔

افسر شاہی اور عیش و عشرت سے اجتناب ، اس تشخّص کا ایک اور معیار ہے ، انقلاب کے اوائل میں ان چیزوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، لیکن رفتہ رفتہ بعض افراد نے اس نظریے کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی ، یہ مسئلہ ہمارے اقتصادی اور نفسیاتی مسائل پر بھی اثر انداز ہوتا ہے، ہمارے انقلاب میں افسر شاہی اور عیش و نوش کو بری نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، مختلف سطحوں پر ایسے افراد پائے جاتے تھے جن پر افسر شاہی اور عیش و نوش کا الزام لگایا جا سکتا تھا لیکن یہ لوگ سختی سے ان چیزوں سے اجتناب کیا کرتے تھے ، ہمارے حکّام اس کے پابند تھے اور انہیں اس کا پابند بھی ہونا چاہئیےتھا ، یہ نظریہ رفتہ رفتہ نظر انداز ہونے لگالیکن خوش قسمتی سے ، افسر شاہی سے اجتناب ، اور عیش و عشرت کی زندگی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنے کا نظریہ دوبارہ پروان چڑھ رہا ہے ، ملک کے حکّام ، سادہ زیستی اور عوام دوستی کے جذبے سے سرشارہیں ۔ یہ ایک بہت غنیمت موقع ہے ، اور ایک بہت بڑی نعمت بھی ہے ، یہ نظریہ اسلامی تشخّص کا ایک دوسرا معیار ہے ۔

جہاداور شہادت کی قدر و منزلت کا مسئلہ بھی اس نظام کے بنیادی معیاروں کا جز ہے؛ بعض افراد نے جہاد اور شہادت کے بلند و بالا مقام پر بھی سؤال اٹھائے اور ان پر اعتراض کیا ؛جہاد و شہادت بھی اس نظام کا ایک بنیادی معیار ہے اسے نمایاں کرنے کی ضرورت ہے ؛ شہیدوں اور مجاہدوں کا احترام ، اسلامی جمہوریہ ایران کے پرچم کا حصّہ ہونا چاہئیے ، اسلامی جمہوریہ ایران کو جہاد و شہادت کے ذریعہ جانا جاتا ہے ۔

عوام پر اعتماد اور عوامی شراکت پر حقیقی اعتقاد بھی اس تشخّص کا ایک معیار ہے ، بعض لوگ عوام کا نام تو لیتے ہیں لیکن عوامی شراکت پر یقین نہیں رکھتے ، عوام کا نام تو لیتے ہیں لیکن ان پر بھروسہ نہیں کرتے ، حالانکہ اسلامی جمہوریہ کی بنیاد ، عوام پر بھروسے اور ان کے تعاون پر گہرے یقین پر رکھّی گئی ہے ۔ دشمنوں کی ہیبت کے مقابلے میں شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کرنا اسلامی انقلاب کے بنیادی معیاروں میں شمار ہوتا ہے ، اگر ملک کے حکّام ،دشمن کے سامنے ڈر اور خوف سے دوچار ہوں تو یقینا قوم ایک عظیم مصیبت میں گرفتار ہو جائے گی ، وہ قومیں جو دشمنوں کے ہاتھوں ذلیل ہوئیں ، ان کی ذلّت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے قافلہ سالاروں اور حکّام میں شجاعت اور خود اعتمادی کا فقدان تھا، کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عوام میں مؤمن ، فعّال ، ایثار و قربانی کے جذبے سے سرشار افراد موجود ہوتے ہیں لیکن جب حکّام میں یہ خصوصیّات ناپید ہوں تو عوام کا یہ جذبہ کام نہیں آتا ، جب سلطان شاہ حسین کے دور میں اصفہان کو تاراج کیا گیا ، اور لوگوں کا قتل عام کیا گیا ، اور صفوی حکومت کا خاتمہ ہوا تب بھی وہاں بہت سے باغیرت افراد موجود تھے جو دفاع کر نا چاہتے تھے ، لیکن سلطان حسین بزدل اور کمزور شخص تھا ، خدا نخواستہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران کو کسی دن سلطان حسین جیسے افراد مل جائیں ، جن میں شجاعت اور جسارت نہ پائی جاتی ہو ، ان میں خود اعتمادی کا فقدان ہو تو جمہوریہ اسلامی کا کام تمام ہو جائے گا۔

دیگر مسلمان قوموں سے دوستانہ روابط کا قیام ، اسلامی جمہوریہ ایران کی گہری اسٹراٹیجک کا حصّہ ہے ، ہماری قوم اور دیگر مسلمان قوموں میں تفرقہ ڈالنے کی امریکہ اور برطانیہ کی تشہیراتی مہم کس غرض سے جاری ہے ؟وہ قومیّت اور شیعہ سنّی مسئلے کو کیوں ہوا دے رہے ہیں ؟ایسا اس لئیے ہے کہ انہیں اچھّی طرح معلوم ہے کہ یہ مسائل ایران کی گہری حکمت عملی کا حصّہ ہیں اور قوموں کا انحصار ان کی اسٹراٹیجک پر ہوتا ہے ۔

وہ نہیں چاہتے کہ مختلف ممالک میں ،ایرانی قوم اور اس کے نظام حکومت کو اس بے مثال قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا جائے ، آپ کو یہ منظر کہیں بھی نہیں دکھائی دے گا کہ کسی ملک کے عوام ، دوسرے ملک کے صدر کا اس قدر احترام کریں ، اس کی تصویر کو لہرائیں ، اس کا نام احترام سے لیں ، یہ خصوصیّت صرف اسلامی جمہوریہ ایران میں پائی جاتی ہے ، دنیا میں جہاں بھی آپ کو اسلامی جمہوریہ ایران کے قدموں کے نشاں ملیں گے وہاں یہی جذبات اور خواہشات دکھائی دیں گی ،دشمن اس رابطے سے ہراساں ہے ، لیکن ایران کو ان روابط میں فروغ دینا چاہئیے ، یہ بھی اسلامی انقلاب کے بنیادی معیاروں کا حصّہ ہے ۔

آپ ان تنگ نظراور کم فہم (اگر حسن نیّت کی نظر سے دیکھا جا ئے تو انہیں تنگ نظر کہا جا سکتا ہے ورنہ بد گمانی کی نظر سے انہیں خائن اور مغرض کہا جا سکتا ہے )افراد کی تحریروں کو ملاحظہ کیجئیے جو لبنان ، عراق ، فلسطین اور افغانستان کے عوام سے اسلامی جمہوریہ ایران کے دوستانہ روابط پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں ، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے بعض جرائد اور اخبارات ، بعض سیاسی رجحانات ، ان روابط کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ، یہ اسلامی جمہوریہ ایران کے بنیادی معیار کی مخالفت ہے ، اسلامی جمہوریہ ایران ، تمام مسلمانوں کے مفادات کو اپنے مفادات سمجھتا ہے ، ان کا دفاع کرتا ہے ، فلسطینی قوم کا دفاع کرتا ہے ، مظلوم کا حامی ہے ؛ یہ بنیادی معیار ہیں انہیں نمایاں کرنے کی ضرورت ہے ، اسلامی جمہوریہ ایران کی ان خصوصیّات ، ان معیاروں کے تحفّظ اور انہیں مزید برجستہ کرنے کے لئیے ،طلباء اور یونیورسٹی سے وابستہ افراد کو پیش پیش رہنا چاہئیے ، آپ بھی اس میں شریک ہو سکتے ہیں ، آپ بھی اقدام کر سکتے ہیں ، ہماری خوش قسمتی ہےکہ ہماری قوم ایک بیدار قوم ہے ۔

آج میں پیشرفت و عدالت پر مفصّل گفتگو کرنا چاہتا تھا لیکن چونکہ دامن وقت میں گنجائش نہیں اور میری طبیعت بھی ناساز ہے اس لئیے آپ کو زیادہ زحمت نہیں دوں گا ، اس سلسلے میں چند جملوں پر اکتفا کروں گا ، اس بارے میں مفصّل بحث انشاءاللہ کسی دوسری ملاقات میں عرض کروں گا ۔

آپ عزیز جوانوں سے بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ مختلف سازشوں کے باوجود، پہلی دہائی کی ایذارسانیوں ، تختہ الٹنے کی سازشوں ، اور جنگ کے باوجود، دوسر ی اور تیسری دہائی کی سرد جنگ کے باوجود ، ایرانی قوم اور اسلامی جمہوری نظام نے ثابت کر دیا ہے کہ و ہ بقا کا مستحق ہے ، اس نے پوری طاقت سے ان سازشوں کا مقابلہ کیا ، اس کے بعد بھی دنیا کے مختلف حوادث ، اس عظیم درخت کو ہلانے میں کامیاب نہیں ہو ں گے ، ہمارے دشمن اس دن اس درخت کو اکھاڑنے میں کامیاب نہیں ہوئے جب یہ ایک معمولی سا پودا تھا، آج تو یہ ایک ایسے عظیم درخت میں تبدیل ہو چکا ہے ، جس کی جڑیں بہت گہری ہیں ، دشمن اسلامی جمہوریہ ایران کو ہلانے پر قادر نہیں ، ہمیں محتاط رہنا چاہئیے کہ کہیں ہم اندر سے کھوکھلے نہ ہو جائیں ، ہم اندر سے بوسیدہ نہ ہو جائیں ، جب تک ہم اپنی معنوی سلامتی کو برقرار رکھّٰیں گے ، اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے دکھائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے ، ہمیں کس دشمن کا کوئی ڈر نہیں اور کوئی بھی دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

سامراج کی سیاست ، امریکہ کی پالیسیاں ، عالمی صیہونی لابی کی سیاست ، اسلامی جمہوریہ ایران کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ، رکاوٹ تو دور کی بات اس کی رفتار کو کند نہیں کر سکتی ، ہم پوری برق رفتاری کے ساتھ آگے بڑھنے پر قادر ہیں ، البتّہ ہمیں دشمنوں کی سازشوں کا بھی انتظار ہے ، یہ سازشیں جاری رہیں گی ، اور تب تک جاری رہیں گی جب تک اس ملک کو مکمّل اقتدار نہیں حاصل ہو جاتا ، اور یہ کام آپ طلباء اور جوان نسل کا ہے ، جس دن آپ ملک کو علمی اور اقتصادی اقتدار کی بلندیوں پر لے جائیں گے اس دن دشمن کی سازشیں بھی کم ہو جائیں گی ، دشمن مایوس ہو جائے گا ، لیکن جب تک ہمیں یہ اقتدار حاصل نہیں ہوتا ، ہمیں دشمن کی سازشوں کا منتظر رہنا ہو گا ،اور ان کے سد باب کے لئیے اپنے آپ کو تیّار رکھنا ہو گا ، انشاء اللہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ مزید مضبوط ہوں گے اور آپ کے دشمن مزید کمزور ہوں گے ، انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہماری قوم کو قطعی کامیابی نصیب ہو گی ۔

اے پروردگار!ہم نے جو کہا جو سنا اس میں خلوص نیّت عطا کر ، اسے اپنی بارگاہ میں شرف قبولیّت عطا فرما !اس نطام ، اس پر قربان ہونے والوں ، اس کی امنگوں کی راہ میں شہید ہونے والوں ، اور امام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ) پر اپنی برکتیں نازل فرما !ہمارے ملک کے جوانوں اور طلباء پر فضل و کرم نازل فرما ! ہمیں ہمیشہ اسی راہ کا سپاہی قرار دے اور ہماری موت و حیات کو اسی راہ میں قرار دے ، پروردگارا! ہمارے عزیز شہداءکے درجات میں روز بروز اضافہ فرما ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ