ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظّم کا مشرقی آذربائیجان کے عوام سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

اپنے عزیز بھا ئیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جو تبریز اور صوبہ آذربائیجان کے دیگر دور دراز مقامات سے طولانی مسافت طے کر کے اس حسینیہ میں تشریف فرما ہوئے ہیں۔ اور امّید کرتا ہوں کہ ہمیشہ کی طرح خداوند متعال کا لطف وکرم اور اس کی توفیقات آپ غیور ،مؤمن ،شجاع اور عزم و ولولے سے سرشار عوام کے شامل حال رہیں ۔

میں نے گذشتہ برسوں میں جب بھی صوبہ آذربائیجان کے عوام سے ملاقات کی ،- خواہ وہ ملاقات یہاں ہوئي یا تبریز میں یا اس کےدوسرے شہروں میں – تو میں نے ان کی رفتار و کردار میں زندہ دلی ،خلّا قیّت اور طراوت و شادابی کو موج زن پایا ہے ،آج بھی ایسا ہی ہے ۔ ہمارے ملک کی تاریخ بھی ایسی ہی ہے ، ماضی میں بھی یہی صورت حال تھی ۔لیکن اگر ہم ماضی قریب کی تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو ہمیں صوبہ آذرباٰئیجان اور تبریز کے عوام صف اوّل میں نظر آئیں گے ،بالخصوص جہاں ملک کی عظیم تاریخی مصلحتوں کی بات ہو۔

مثلا تنباکو کی تحریک کو ہی لے لیئجیے جو اس ملک کے لیئے ایک تاریخ ساز دور تھا ، دشمن اس ملک اور اس کے استقلال کو ایک ساتھ نگلنے کے در پے تھا، یہ تبریز ہی تھا جہاں کے عوام اور علماء ،مشہور عالم دین مرحوم آقای میرزا جواد مجتھد کی قیادت میں اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوے اور اس کی منسوخی میں اہم کردار ادا کیا ۔

اس کے بعد مشروطیّت کی تحریک کا مشاہدہ کیجئیے ۔تبریز کی تاریخ حیرت انگیز ہے ۔مشروطیّت کی تحریک میں آذربائیجان کے عوام کے کردار پر بہت سی کتابیں لکھّی گئی ہیں لیکن ابھی بھی ان کہی باتیں بہت زیادہ ہیں جنہیں تحریر میں لایا جا سکتا اورایسا ضرور ہونا چاہئیے ۔

میرے والد گرامی مشروطیّت کی مہم کے دوران نوجوان تھے اور اس شہر میں مقیم تھے ،انہوں نے قریب سے ان حوادث کا مشاہدہ کیا تھا، وہ اور مرحوم باقر خان ''قرہ باغیھا'' نامی کوچہ میں ایک ہی محلّہ میں ساکن تھے ،وہ اکثر اوقات مشروطیّت کی تحریک کے حوادث اور واقعات کو نقل کیا کرتے تھے ۔

ہم جانتے ہیں کہ ستار خان اور باقر خان نے مشروطیّت کے دوران برطانوی اوراغیار کی مشروطیّت کے خلاف محاذ قائم کر رکھّا تھا ،ستار خان اپنی تقاریر اور بیانات میں ہمیشہ یہی کہتے تھے ''میں جناب ابوالفضل العبّاس کے پرچم تلے حرکت کر نا چاہتا ہوں ''کچھ لوگ اس تحریک کو برطانیہ کی آغوش میں ڈالنا چاہتے تھے لیکن ستار خان نے ایسا نہیں ہونے دیا ، بعد میں انہیں لوگوں نے مرحوم ستار خان اور باقر خان کے ساتھیوں کو تہران بلا کر'' اتابک'' نامی باغ میں مختلف طریقوں سے ہمیشہ کی نیند سلا دیا ۔

مشروطیّت کی تحریک میں صوبہ آذربائیجان اور تبریز کے عوام کی حرکت، دین اور استقلال کی راہ میں ،مقاومت ،اقتدار اور عوام کی عظیم مشارکت پر مبنی تھی ۔

مشروطیّت کے بعد پیش آنے والے دیگر حوادث میں بھی تبریز کے عوام کا کردار امتیازی نوعیّت کا رہا ہے مرحوم شیخ محمّد خیابانی کی تحریک میں بھی تبریز یکّہ و تنہا اٹھ کھڑا ہوا ،وثوق الدولہ کی قرارداد کا معاملہ تھا ، تہران کی حکومت نہایت کمزور ہو چکی تھی ،اس نے اقتصادی اور فوجی امور کو برطانوی سامراج کے حوالے کر دیا تھا ، لیکن تبریزی عوام اٹھ کھڑے ہوئے ،مرحوم خیابانی اور دیگر افراد نے اس مسئلہ کو اٹھایا ، تبریز میں حیرت انگیز واقعات رو نما ہوئے ،تبریز ہمیشہ سے ہی ان خصوصیّات کا حامل رہا ہے ۔

تبریز میں ۲۹ بہمن (۱۸فروری ۱۹۷۸ء)کا حادثہ بھی تقدیر ساز حوادث میں سے ہے ، اگر تبریز کے عوام نے اس دن قیام نہ کیا ہوتا تو شاید اسلامی تحریک کا یہ قافلہ اپنی منزل مقصود تک نہ پہنچتا ، قم میں کچھ لوگ درجہ شہادرت پر فائز ہوئے ( یہ شہادتیں بھی دوسری شہادتوں کی طرح تھیں )ممکن تھا وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ ان کا رنگ پھیکا پڑجاتا اور لوگ انہیں بھول جاتے لیکن تبریز کے عوام نے ایسا نہیں ہونے دیا اور اس حادثہ کو ذہنوں میں زندہ رکھّا اور ۲۹ بہمن کو شہداء قم کے چہلم کے طور پر منا کر اسلامی انقلاب برپا کرنے میں سرزمین ایران کے دوسرے خطّوں کی راہنمائی کا کردار ادا کیا ،یہ ایک خلّا قانہ اقدام تھا ، دیگر تحریکوں کے معرض وجود میں آنے کا باعث بنا ،یہ قیام با برکت تھا ، بعد میں دیگر مقامات کےعوام نے شہداء تبریز کا چہلم منایا اور یہ عظیم تحریک اسلامی انقلاب کی کامیابی پر منتج ہوئی ۔

میں نے بارہا جو اس بات پر تاکید کی ہے کہ ایران کے بارے میں سیاسی پالیسیاں وضع کرنے والے امریکی اور برطانوی اہلکاروں نے صوبہ آذربائیجان کے عوام کو نہیں پہچانا اس کی ایک بڑی وجہ مذکورہ حوادث میں آذری عوام کا ناقابل تردید کردار ہے ،میں اسی بنیاد پر کہتا ہوں کہ انہوں نے تبریز کے عوام کو نہیں پہچانا ، یہ لوگ اپنے گمان باطل میں یہ سوچے بیٹھے ہیں کے ایرانی قوم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں یہ ان کا پاگل پن ہے ، یہ ایران اور آذربائیجان سے ناآشنا لوگ اپنے ناجائز اور پلید مقاصد کے حصول کے لئیے تبریزاور آذربائیجان کا رخ کرتے ہیں اور ان کے کچھ زر خرید غلام ان کی پرفریب باتو ں کے دھوکے میں آجاتے ہیں اور یہاں نا امنی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور امریکہ اور برطانیہ کی سیاسی پالیسی بنانے والے افراد انہیں انگشت شمار زر خرید افراد کا دھوکا کھاجاتے ہیں ۔

اب تک انقلاب کے دشمنوں کی طرف سے جو بھی تحریک ،تبریز اور آذربائیجان سے اٹھی ہے ، یہاں کے عوام نے خود اس کا دندان شکن جواب دیا ہے ،آپ کو یاد ہو گا (شاید جوان طبقے کے افراد کو یاد نہ ہو)لیکن اکثر کو یاد ہی ہو گا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے اوائل میں کچھ لوگ تبریز کے باہر سے ''مجاہداور اپوزیشن '' کے نام سےداخل ہوئے اور مرحوم شھید مدنی کا محاصرہ کر لیا ، انقلاب کا دفاع کرنے کے لئیے باہر سے کوئی نہیں آیا بلکہ یہاں کے عوام نے جب یہ ماجرا دیکھا تو میداں میں کود پڑے اور ان کا صفایا کردیا ۔

تبریز اس سلسلے میں خود کفیل ہے ،صوبہ آذربائیجان انقلابی غیرت اور اسلامی انقلاب کے دفاع کے سلسلے میں خود کفیل ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں لیکن دشمنوں نے آذربائیجان کو سمجھنے میں غلطی کی ہے ۔وہ ایران اور ایرانی عوام کو سمجھنے سے قاصر ہے ۔ دنیا میں اسلامی انقلاب کے خلاف سازشیں رچنے والے خواہ وہ امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں ہوں یا برطانیہ کی ، وہ اپنے باطل گمان میں ایرانی قوم اور انقلاب کی نابودی کا نقشہ بنا رہے ہیں لیکن وہ ایرانی قوم اور دیگر اقوام عالم کے جاویدانہ حقائق سے بےخبر ہیں ۔

آپ نے اس سال ۲۲ بہمن کو منعقد ہونے والے مظاہروں کا مشاہدہ کیا۔ سبھی کہہ رہے تھے اور محسوس بھی کیا جا سکتا تھا ،اور جو لوگ ، گنتی اور تعداد کو اہمیّت دیتے ہیں انہوں نے بھی حساب لگا کر بتایا کہ اس سال مظاہروں میں حصہ لینے والوں کی تعداد گذشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی چاہے وہ تہران کے مظاہرے ہوں یا دیگر شہروں ،قصبوں کے مظاہرے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ ۲۷ برس گذرنے کے بعد بھی اس سال لوگوں نے اتنی تعداد میں شرکت کیوں کی ؟ چونکہ قوم کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ دشمن دھمکی آمیز نظروں سے دیکھ رہا ہے ، اس لئیے میدان میں کود پڑی ۔انقلاب کی اصلی طاقت یہی عوام ہیں ۔ یہ ایسا انقلاب ہے جو اپنا دفاع خود کرسکتا ہے ، جیسے ہی خطرے کا احساس ہوتا ہے فورا انسانوں کا موجیں مارتا سمندر سڑکوں پر نکل آتا ہے ۔

جب ایران پر جنگ تھونپی گئی اس وقت لوگ اپنے روز مرّہ کے امور میں مشغول تھے ، لیکن جیسے ہی خطرے کا احساس ہوا نوجوانوں نے یونیورسٹیوں ،بازاروں ،کارخانوں ،دیہاتوں ، شہروں اور اپنے آرام و آسائش کو خیر آباد کہا اور اپنی شناخت کے بقا کے لئیے کھلی آغوش سے خطروں کو گلے لگا لیا '' فمنہم من قضی ٰنحبہ ومنہم من ینتظر '' ان میں سے بعض نے جام شہادت نوش کیا اور بعض نے اپنے اعضاء و جوارح کو قربان کیا اور جانباز کہلائے ،اور ایک عظیم اکثریّت آج بھی باقی ہے ، وہ بھی میدان میں موجود ہیں اور دن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔

میں نے اس قبل بھی کہا ہے اور آج بھی پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ کہ رہا ہوں کہ ہماری آج کی نسل جسے انقلاب کی تیسری نسل سے تعبیر کیا جاتا ہے ،اپنی دینی اور انقلابی پہچان کے دفاع کے لئیے ، غیرت اور شجاعت میں اس نسل سے کسی درجہ کم نہیں ہے جو مقدّس دفاع اور تھونپی گئی جنگ کے دوران بر سر پیکار تھی ،بلکہ شاید ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہو ۔ یہ اس انقلاب کی حقیقت ہے جو لوگوں کے ایمان اور اعتقاد اور دلی آرزو کا نتیجہ ہے ۔ ممکن ہے دشمن کے چند زرخرید غلام اس انقلاب کے مخالف ہوں ، کیونکہ سبھی تو برابر نہیں ہو سکتے ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ انقلاب ایک عوامی انقلاب ہے ۔ لوگ اسے اپنا سرمایہ سمجھتے ہیں ،اپنے انقلاب سے راضی ہیں چونکہ معنوی اور مادی اعتبار سے خوشبختی اور سعادت اور اعلیّ انسانی مقام تک پہنچنے کا واحد راستہ ، وہ راستہ ہے جو انقلاب نے انہیں دکھایا ہے ، انقلاب کا راستہ ، وہی اسلام اور اسلام کی نجات دہندہ تعلیمات کا راستہ ہے ۔

میں اس مقام پر ضروری سمجھتا ہوں کہ اس سال ۲۲ بہمن کے مظاہروں کے شاندار انعقاد پر ایرانی قوم کا تہ دل سے شکریہ اد کروں ۔ اس تحریک سے ، اس حاضری اور مشارکت سے ۔اس الٰہی غیرت و حمیّت سے اسلامی جمہوریہ اور اس کے نظام حکومت کو بہت قوت ملتی ہے اور دشمنوں کی دھمکیوں کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے ۔

اگر دشمن کو کسی قوم میں کمزوری کا احساس ہو وہ اتنا ہی جسور ہوجاتا ہے ۔ وہ لوگ یقینا غلطی پر ہیں جو ادھر ادھر ایسی باتیں کر رہے ہیں جن سے دشمن کی جسارت بڑھتی جا رھی ہے ۔ کبھی یہ رونا روتے ہیں کہ ملک میں بحران ہے، کبھی رائی کو پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیں ، اگر کہیں کوئی معمولی سا نقص پایا جاتا ہے جس کی کوئی اہمیّت نہیں ،اس کو دس گنا بڑا کر کے پیش کرتے ہیں ،اپنے جرائد اور اخبارات میں اسے منعکس کرتے ہیں یہ لوگ غلطی کا ارتکاب کر رہے ہیں ۔

ایک ایسے دشمن کو جو جاہ طلب ،قدرت طلب اور پوری دنیا پر چودھراہٹ کا مدّعی ہو اگر اسے کسی قوم میں کوئی کمزور پہلو نظر آتا ہے تو اس کی جسارت میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔یہ لوگ دنیا کو ایک چھو ٹے سے گاؤں سے تشبیہ دیتے ہیں اور امریکہ کو اس کا چودہری سمجھتے ہیں جسے اپنی من مانی کی کھلی اجازت حاصل ہے ۔ اگر کوئی قوم ، یا سیاسی شخصیت ان کی رائے کے خلا ف آواز اٹھاتی ہے، اس پر طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے ، ہمارا دشمن ایک ایسا دشمن ہے۔

ایسے دشمن کے سامنے ہمارے اندر کمزوری کا احساس نہیں ہونا چاہئیے اگر کہیں کوئی نقص ہے اسے دشمن کے سامنے بیان کرنے سے اجنتناب کرنا چاہئیے ، چہ جائیکہ کوئی نقص نہ پایا جاتا ہو۔

ملک میں کوئی بحران نہیں ہے ، آخر یہ لوگ کیوں جھوٹ سے کام لے رہے ہیں ؟کیوں دشمن کی مرضی کے مطابق کام کر رہے ہیں ؟الحمد للہ آج ہمارے ملک کو ایک مضبوط ، با ہوش،بیدار اور متّحد قوم اور ہمدرد ،فعّال اور کار آمد حکومت کی خدمات حاصل ہیں جو اس کی مشکلات کو یکے بعد دیگرے حل کر رہے ہیں اور اسے آگے کی سمت بڑھا رہے ہیں ، قوموں کی زندگی کا یہی عالم ہے ۔ کون سا بحران؟ ملک میں کون سی غیر معمولی صورت حال ہے ؟وہ اس بات پر مصر ہیں کہ جیسے بھی ممکن ہو اپنے زہر آگین قلم سے یہ ثابت کریں کہ ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے ، ملک میں غیر معمولی صورتحال ہے البتّہ اس کے پشت پردہ مختلف محرّک کار فرما ہیں ۔ کوئی حکومت کا مخالف ہے تو کوئی اصل انقلاب کا ، کوئی انقلاب کے مفاہیم کادشمن ہے تو کوئی قدرت طلبی کا شکار ہے اور کوئی کج فہمی میں مبتلا ہے ۔

جویہ لکھ رہے ہیں اور بیان کر رہے ہیں اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے ، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آج ہمیں ایک ایسی قوم نصیب ہوئی ہے جو اتحاد کا مظہر ہے ، متحد ہونے کے ساتھ ساتھ ،باہوش اور بیدار بھی ہے ، آپ مشاہدہ کیجئیے اسے جہاں کہیں بھی خطرے کا احساس ہوتا ہے ۲۲ بہمن کے عظیم مظاہروں کے ذریعہ اس کا جواب دیتی ہے ، دشمن جس نقطہ پر اپنی توجّہ مرکوز کرتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے ہماری قوم اس نقطہ پر زیادہ حساس ہو جاتی ہے ۔ ہمارے دشمنوں نے بہت کوشش کی کہ ایٹمی توانائی کے مسئلے کو عوام کی نظروں سے گرا دیں اور ملک کے اندر بھی بعض عناصر نے ان کی ہاں میں ہاں ملا نا شروع کر دی تھی ۔یہ کوتاہ فکر اور سطحی نگاہ رکھنے والے افراد ، جن کی تمام امّیدیں سرحد کے اس پار بیٹھے عناصر سے وابستہ ہیں یہ کہتے سنا ئی دیتے ہیں کہ ہمیں ایٹمی توانائی کی کیا ضرورت ہے ؟ اتنا پیسہ خرچ کرنے ،اتنی محنت مشقّت کرنے اور اتنی مشکلات برداشت کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟ لیکن ہماری قوم پر ان پروپیگنڈوں کا کوئی اثر نہیں ہوا ، چونکہ ہماری قوم جاگ رہی تھی ، اور اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ ایٹمی توانائی کا مسئلہ صرف آج کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک کا مستقبل اس سے وابستہ ہے ،یہ تقدیر ساز مسئلہ ہے ، یہ بہت سے ممالک اور اقوام کا مسلّم حق ہے ، لیکن ایرانی قوم کے مانند وہ اپنے حق کے مطالبے کے لئیے میدان میں اترنے سے کتراتے ہیں ، اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو ممالک ایٹمی توانائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں مستقبل قریب میں دنیا کی توانائی کی تقدیر ان کے ہاتھوں میں ہوگی ۔

ان کے پاس تیل نہیں ہے جو ہمارے اور خلیجی ممالک کے پاس ہے ، اگر ان کے پاس تیل کی دولت ہوتی اور وہ ہمیں دیتے تو یقینا وہ ایک بوتل تیل اس سے کہیں زیادہ مہنگی قیمت میں فروخت کرتے جس قیمت میں آج ہم ان کو ایک بیرل تیل دے رہے ہیں اور وہ بھی ترسا ترسا کر دیتے ۔

وہ چاہتے ہیں کہ جب دنیا میں ، تیل باقی نہ رہے (چونکہ تیل ہمیشہ تو نہیں رہے گا کسی نہ کسی دن تمام ہو جائے گا) توانائی کا اختیار ان کے ہاتھوں میں ہو ،جو قومیں توانائی پیدا کر سکتی ہیں وہ چاہتے ہیں ایسا نہ کریں ، یہ لوگ اس سیاست کا تعاقب کر رہے ہیں ، ہماری قوم نے ان کی اس چال کو اچھی طرح سمجھ لیا ہے ،خوش قسمتی سے ہمارے ملک کے اعلیٰ حکام نے بھی آگاہانہ طور پر اس مسئلے کا تعاقب کیا اور اسے نہایت اعلیٰ مرحلے تک پہنچایا ہے اور انشاء اللہ اس سے بھی بہتر مقام تک پہنچانے میں کامیاب ہوں گے ۔

میں خدا کا شکر گزار کہ ۲۹ بہمن ۱۳۵۶ ھ ش (۱۸ فروری ۱۹۷۸ء)کے شہداء کا خون نیز دیگر حوادث میں ہمارے عزیزشہداء کا خون اور ایران پر تھونپی گئی جنگ کے شہداء کا مقدّس خون رائگاں نہیں گیا ، ہم خدا کے شکر گزار ہیں ،خون کا نذرانہ دیا گیا ، عوام نے اپنے عزیزوں کو کھویا لیکن اس کے بدلے میں انہیں ،قومی شناخت ،استقلال ،عزت جیسی نعمت نصیب ہوئی ۔ اور ہمارا ملک ایک ایسے طفیلی ملک سے آزاد اور مستقل ملک میں تبدیل ہوا ،جہاں امریکہ اور برطانیہ کی پٹھو اور کٹھ پتلی حکومتیں بر سر اقتدار آتی تھیں ، جن کے سربراہ دنیا پرستی ۔ عیاشی اور فساد کا مظہر ہو ا کرتے تھے ۔

آج اس ملک کا لوہا اس کے دشمن بھی مانتے ہیں اور یہ کہنے پر مجبورہیں کہ ایرانی ملک و قوم سے زور زبردستی نہیں کی جا سکتی ۔

ملک کے اعلی حکام بھی عوام میں سے ہیں اور اپنے سینے میں عوام کا درد لئیے ہوئے ہیں اور خلوص نیّت کے ساتھ دن رات عوام کی خدمت میں مشغول ہیں اس سلسلے میں طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ،وہ اپنے آپ کو عوام کا خادم سمجھتے ہیں ، کیا یہ انقلاب کی دین نہیں ہے ؟ کیا یہ کم چیز ہے ؟

آج ہمارے نوجوانوں نے اپنی قدر و قیمت کو سمجھ لیا ہے وہ دن رات حصول علم اور نت نئی ایجادات میں مصروف ہیں ،وہ علم کی پر پیچ و خم وادیوں کی چوٹیوں کو سر کرنے کے لئیے سر دھڑ کی باز ی لگائے ہوئے ہیں ،کیا یہ کوئی معمولی کام ہے ؟

آج ہمارے پاس استعداد سے سرشار انسانی وسائل کی ایک عظیم ثروت موجود ہے ، حکام جس شعبے میں بھی ان سے استفادہ کرنا چاہیں ترقّی اور پیشرفت کی راہیں کھلی ہیں البتّہ بہت سے شعبوں میں یہ کام انجام پایا ہے ۔اسے دوسرے شعبوں میں بھی پھیلانے کی ضرورت ہے ، میں اس فرصت کو غنیمت سمجھتے ہوئے حکام پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ان صلاحیتوں اور شوق و شغف کی قدر پہچانیں ۔

شوق و شغف ، شجاعت ،ہمّت سے مزیّن نوجوانوں کے ذریعہ بہت بڑے بڑے معرکے سر کئے جا سکتے ہیں ، مسؤلین ترقّی اور پیشرفت سے نہ گھبرائیں ۔ عظیم چوٹیوں کی طرف جانے سےنہ ڈریں ، اپنے دل سے دشمن کے ڈر کو نکال دیں ،میں یہ نہیں کہتا کہ احتیاط نہ برتیں ، احتیاط کے دامن کو ہاتھ سے نہ جانیں دیں ،احتیاط ہر حال میں لازم و ضروری ہے ۔لیکن احتیاط اور ڈر میں بہت فرق ہے ۔ اگر کوئی دشمن سے مرعوب ہو جائے وہ آگے کی سمت حرکت کرنے پر قادر نہیں ہوگا ، دشمن سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔البتّہ دشمن سے ہوشیار رہئیے ، کام کے تمام پہلوؤں کا اچھی طرح جائزہ لیجئیے ۔ احتیاط بھی کیجئیے لیکن آگے بڑھنے کے عزم و ولولے کو اپنےاور قوم کے دل سے نہ نکالیں، کسی بھی میدان میں ٹہراؤ جائز نہیں ہے خواہ وہ یونیورسٹیوں کا علمی ماحول ہویا لین دین اور تجارت کا میدان ،یا مذہبی تعلیم کی بات ہو سب میدانوں میں آگے بڑھیے ، اب جب کہ ہم نے آگے کی سمت بڑھنا شروع کر دیا ہے ہماری قوم میں بھی حرارت پیدا ہوئی ہے ، اب ہمیں پہلے سے زیادہ یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہماری قوم میں ترقّی اور پیشرفت کی بہت زیادہ صلاحیّت ہے اور ہم انشاءللہ اس آزادی اور خوداعتمادی کے طفیل میں بہت مشکل راہوں پر چلنے پر قادر ہوں گے جو اسلامی انقلاب نے اس قوم کو عطا کی ہے ۔

میں ایک بار پھر آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اور طولانی مسافت اور راستے کی صعوبتیں برداشت کرنے پر آپ سے معذرت خواہ ہوں ، تبریز اور صوبہ آذربائیجان کے دیگر شہروں میں بسنے والے بھائیوں اور بہنوں کو میرا سلام پہنچا دیں ،میں امّید کرتا ہوں کہ خداوند متعال آپ لوگوں پر دن بدن اپنے لطف وکرم اور عنایت میں اضافہ فرمائے، شہداء اور امام (رضوان اللہ تعالی ٰعلیہ ) کی مبارک روح اور حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالیٰ کا قلب مقدّس کوآپ سے راضی و خوشنود فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکا تہ