ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظّم کا دفعہ 44 کا نفاذ کرنے والے عہدیداروں سےخطا ب

بسم اللہ الرحمٰن الرّحیم

سب سے پہلے میں آپ عزیز بھائیوں کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔الحمد للہ سب جمع ہیں ؛سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں سرگرم افراد موجود ہیں ۔ میں بھی اپنے معروضات کو کسی تمہید اور مقدّمہ کے بغیر آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ۔

۱۳۸۴ ھ ۔ش میں خرداد کے مہینے کے آغاز پر بند"ج" کو چھوڑ کر بنیادی آئین کی دفعہ چوالیس کی دیگر کلّی پالیسیوں کا ابلاغ عمل میں لایا گیا ۔ تقریباّایک سال بعد یعنی ۱۱ /۴/ ۸۵ ھ ۔ ش کی تاریخ میں بندِ "ج" سے مربوط پالیسیوں کو بھی جاری کیا گیا جو کہ حکومت کے اقتصادی اور مالی اداروں کو نجی اور خصوصی شعبے کو سونپنے سے مربوط تھیں ۔ اسی کے دوسرے دن صدر جمہوریہ کے خط کے جواب میں بند ِ "ج" سے مربوط حصص کے کچھ حصّے کو" عدالت شیئرز" کے عنوان سے سماج کے پسماندہ طبقوں میں تقسیم کرنے کا حکم جاری کیا گیا ۔

ہمارے آخری حکمنامہ سے لے کر آج تک کئی مہینے بیت چکے ہیں جو ۱۲/۴/۱۳۸۵ھ ۔ش کو جاری کیا گیا تھا۔اور پہلے آرڈینینس سے لیکر آج تک ڈیڑھ برس سے زیادہ کاوقت گذر چکا ہے جو کہ ۱۳۸۴ ھ۔ش میں خرداد کے مہینے کے آغاز پر جاری کیا گیا تھا ۔

اس سلسلے میں ترقّی اور پیشرفت کی رفتار تسلّی بخش نہیں ہے ۔اس بات کو میں نے پچھلے ایک دو ماہ میں تینوں اداروں ( عدلیہ ،مجریہ ،مقننہ)کے سر براہوں سے واضح الفاظ میں بیان کیا ہے ؛اور آپ حضرات کے سامنے بھی یہی بات رکھنے جارہا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے جوموجودہ پیشرفت اور ترقّی تسلی بخش نہیں ہے؟چونکہ آپ اس کام کی پیشرفت اور ترقّی کے مختلف مراحل سے وابستہ ہیں اور مختلف سطوح سے تعلّق رکھنے والےذمّہ دار افراد ہیں ۔اس کے دو ہی سبب ہو سکتے ہیں ، یا تو ان پالیسیوں اور ان کے پس پردہ مقاصد و اہداف کی اہمیّت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جن کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں بڑے پیمانے پر عظیم اقتصادی تبدیلیاں لائی جائیں اور یا اس کا ایک عامل یہ ہو سکتا ہے کہ مختلف اداروں میں حتیٰ ایک ہی ادارے میں اس مسئلہ کے بار ے میں مختلف سوچ اور زاویہ فکر پایا جاتا ہے، اور تمام افراد ان پالیسیوں ان کے اغراض و مقاصد ان کے نتائج کے بار ے میں متفق القول نہیں ہیں ۔سب کی سوچ اور زاویہ فکر ہم آھنگ نہیں ہے۔

اس جلسے کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے نکتہ نگاہ سے اس کام کی اہمیّت کو آپ پر اجاگر کر یں اور اس سلسلے میں ایک مشترک سوچ اور فکر کو وجود میں لا یا جائے نیز مختلف سلیقوں کو اس نہایت اہم اقدام کی راہ میں حائل ہونے سے روکا جا ئے۔

میرے عزیز بھائیو !اس جلسے کا نتیجہ یہ ہونا چاہئیے کہ ملک کے اقتصاد کے بارے میں ہماری سوچ میں ، ہماری رفتار و کردار میں ،مختلف اداروں کی تشکیلات اور بناوٹ میں، قوانین و قواعد میں نیز ہر ادار ے کے کردار اور حصّے میں تبدیلی لائی جائے اور ان پالیسیوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے اپنے مستقبل کا تعیّن کریں ۔یہ ملک کا نظام و نسق چلانے والے اداروں کے اہم فرائض میں شمار ہوتا ہے ۔ اس پالیسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے بجٹ بنایا جائے اور اس کی منظوری دی جائے ، بجٹ سے باہرکی اقتصادی سرگرمیوں کو ان پالیسیوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے وضع کرنا چاہئیے اس سلسلے میں حکومت ،پارلیمنٹ اور عدلیہ پر نہایت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو انہیں بہر حال انجام دینا ہو گی۔

پہلے مرحلے میں ہم ان پا لیسیوں کی افادیّت ؛ اور ان کے پس پردہ اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں ۔ جب ہم موجودہ صورت حال پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں ، تو ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ہمارے ملک میں ثقافتی ،سیاسی ،سماجی اور قومی شناخت کے سلسلے میں نہایت عظیم اور عمیق تبدیلیاں آئی ہیں ، یہ تبدیلیاں ۱۸۰ درجے کی ہیں اور بہت گہری ہیں ۔ہمار ے دشمنوں کے بے بنیاد پروپیگنڈوں اور بعض بے خبر دوستوں کی بے بنیاد باتوں سے اس ترقّی اور پیشرفت پر کوئی حرف نہیں آتا جو ہم نے حاصل کی ہے اور وہ پیشرفت ان پروپیگنڈوں سے کہیں بالا ہے ۔لیکن میں واضح الفاظ میں اس بات کا بھی اعتراف کرتا چلوں کہ اقتصادی میدان میں جو تبدیلیاں آئی ہیں وہ دوسرے میدانوں کی تبدیلیوں کے برابر نہیں ہیں ۔ہمیں د نیا کے سامنے ایک کامیاب اقتصاد کا نمونہ پیش کرنا چاہئیے تھا ۔

مختصر یہ کہ ہمیں دنیا کے سامنے اقتصادی ترقّی اور رونق اور عدل و انصاف کی فراہمی کے سلسلے میں اپنی اہلیّت کا لوہا منوانا چاہئیے تھا۔البتّہ اس سلسلے میں بعض امور انجام پائے ہیں ، جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا ؛ عظیم کام سر انجام دئیے گئے ہیں، لیکن یقینا آج ہم اس سطح پر نہیں ہیں جہان ہمیں ہونا چاہئیے تھا اور یہ بات ہمار ے لئےلمحہ فکریّہ ہے۔

جب ہم اسلامی نظام اقتصاد پر ایک کلّی نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں دو اصلی عنصر اور ستون نظر آتے ہیں ۔ہر وہ اقتصادی راہ و روش ، ہر وہ اقتصادی نسخہ جو ان دو عناصر پر مشتمل نہ ہو ، معتبر نہیں ہے ۔ہر وہ نسخہ جو ان عناصر کو فراہم کرنے میں کامیاب نہ ہو وہ اسلامی نہیں ہے چاہے بظاہر اسلامی منابع و مآخذ سے مستند ہو ۔ ان میں سے ایک عنصر ہے "قومی سرمایے میں دن بدن اضافہ" اسلامی ملک کو امیر اور سرمایہ دار ملک ہونا چاہئیے ؛ فقیر اور نادار نہیں ہونا چاہئیے ؛تا کہ اپنے سرمایے اور اقتصادی طاقت کے ذریعہ ، بین الاقوامی سطح پر اپنے اہداف و مقاصد کو حاصل کر سکے۔ دوسرا عنصر اور ستون " اسلامی معاشرے میں دولت کی عادلانہ تقسیم اور اس سے فقر و محرومیّت کو دور کرنا"ہے۔ ان دو عناصر کی فراہمی ضروری ہے اور پہلا عنصر دوسرے کی شرط ہے ۔ اگر دولت اور سرمایے میں اضافہ نہ ہو ؛ ہم فقر و پسماندگی کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا دونوں ضروری ہیں ۔آپ اقتصادی ماہر بھی ہیں اور اسلامی اقدار کے پائبند بھی ، اپنا پروجیکٹ سامنے لائیے ؛اور ان دونوں باتوں کا اس میں خاص خیال رکھّیں اور اگر آپ کا پروجیکٹ ان دو عناصر سے عاری ہو تو یقینا اس میں نقص و عیب پایا جاتا ہے ۔

ملک کو قومی سرمائے کے لحاظ سے غنی اور بے نیازبنانے کے لئے ، سرمایہ کاری ،اقتصادی سرگرمیوں اور دولت کی پیداوار میں ملک کے تمام فعّا ل افراد کی شراکت ضروری ہے؛ یعنی سب کو اس میدان میں حصہ لینے کا حق ہونا چاہئیے ؛اور حکومت کو ان کی حمایت کرنا چاہئیے ؛ قانون ان کی حایت کرے ۔ ہمارے ملک میں پڑھے لکھّے تجربہ کاراور انتظامی امور چلانے کے لئیے لایق اور شایستہ نوجوان ، کثیر تعداد میں موجود ہیں ، انہیں موقع دیا جائے کہ آگے بڑھ کر سرمایہ کی پیداوار میں اضافہ کرنے والے ان عظیم پروجیکٹوں کی باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لیں اور انہیں نافذ کریں اور آگے بڑھائیں۔ انہیں یہ معرکہ سر کرنا چاہئیے ۔ملک، انسانی اور مادی وسائل کے لحاظ سے بہت مضبوط ہے ۔میں نہیں سمجھتا کہ اب تک جو مطالب بیان کئے گئے ہیں، اسلامی نقطہ نگاہ سے کوئی اس کے بر عکس نظریہ پیش کر سکے۔

ملکی آئین اوراس کی چوالیسویں دفعہ کی تدوین کرنے والے افراد ذہین بھی تھے اور صاحب انصاف بھی، ہم نے نزدیک سے ان لوگوں کے ساتھ کام کیا تھا ۔اس تعاون کے نتیجہ میں دفعہ ۴۴ معرض وجود میں آئی جس سےصاف ظاہر ہےکہ یہ لوگ ذہانت کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کے جذبے سے بھی سرشار تھے ۔انہوں نے افراط و تفریط سے پرہیز کرتے ہوئے سوشیلزم اور سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کے درمیانی راستے کو اختیار کرتے ہوئے ایک ایسا اقتصادی نظام تدوین کیا جس میں" مالکیّت"کے لئے تین بنیادی محور قرار دئیے گئے اور دفعہ ۴۴کے متن میں ان کا لحاظ رکھاگیا ۔ بعض چیزیں حکومت کی ملکیّت قرار پائیں ،بعض چیزوں کو کمپنیوں کی ملکیّت قرار دیا گیا اور کچھ چیزوں کو افراد کی نجی اور ذاتی ملکیّت کے طور پر گنوایا گیا ؛ ان کی تقسیم بندی کی گئی اور ہر ایک کے ذیل میں دو تین شرطیں رکھّی گئیں ۔ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ ان مصادیق کے ساتھ یہ تقسیم بندی اقتصاد کے رشد اور پھیلاؤکا باعث بننا چاہئیے ؛نقصان و ضرر کا عامل نہ بنے۔یعنی اگر کسی دن ملک کے ذ مّہ دار افراد کو یہ احساس ہوکہ یہ تقسیم بندی اس صورت حال میں ملکی اقتصاد کے حق میں نہ فقط یہ کہ مفید نہیں ہے بلکہ نقصاندہ ہے ،اس دن اس قانون کی موجودہ شکل اپنا اعتبار کھو بیٹھے گی اور اس دور کی مصلحت کو مد نظر رکھتے ہوئےاسے نئی شکل دی جائے گی ۔ اس ذہانت اور انصاف پسندی سے یہ صاف ظاہر ہے۔

ہم نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے پہلے عشرے میں ،مقدّس دفاع ،جنگ ،اقتصادی محاصرے اور دیگر مسائل سے نمٹنے کے لیئے کچھ ایسے اقدامات کئے جو وسیع پیمانے پر حکومت کی مالکیّت پر منتج ہوئے ؛آئین کی چوالیسویں اصل کی رو سے مالکیّت کے جو اختیارات حکومت کو حاصل تھے اس سے بھی زیادہ ۔البتّہ اس دور میں بھی بہت سے موارد میں شکوک و شبہات پائے جاتے تھے ۔اس دور کی زیادہ تر مدّت میں منصب صدارت میرے پاس تھا ، میں نےحکومت کے اقتصادی ماہرین ، وزیر اعظم اور دیگر اقتصادی ذمّہ داروں سے کافی بحث و گفتگو کی ۔ بہر حال ضرورتوں نے ان پر اور ملک پر ان مسائل کو تھوپ رکھّا تھا اور حکومتی مالکیّت کا دائرہ اس حد سے زیادہ پھیل چکا تھا جو آئین کی دفعہ ۴۴ کی رو سے اسے حاصل تھا ۔انقلاب کی دوسری اور تیسری دہائی میں ، ہمیں غیر ضروری حکومتی کمپنیوں کے قیام کی ہر گز اجازت نہیں دینا چاہئیے تھی ، آج حکومتی کمپنیاں ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور ان میں سے ایک اچھی خاصی تعداد غیر ضروری ہے ۔ حکومت کے ذریعہ ان کا قیام ،انہیں دفعہ ۴۴ کے ذیل میں ذکر شدہ عوامی کمپنیوں کو منتقل نہ کرنے کا عمل،اور اس کی موافقت ، مصلحت کے مطابق نہیں تھا۔

ہم نے انقلابی کونسل میں دفعہ ۴۴ کے بارے میں ایک اہم قانون منظور کیا تھا جس کی رو سے حکومت پر یہ ذمّہ داری عائد کی گئی تھی کہ وہ دفعہ ۴۴ کے دوسرے حصّے میں ذکر شدہ کمپنیوں کو مکمّل طور پر عوام کے سپرد کرے ۔ البتّہ اس کے لئے بھی ایک قانون پاس کیا گیا تھا جو مختلف ذیلی نکات پر مشتمل تھا اس کا بند "ج" ان کمپنیوں سے مربوط تھا جو گذشتہ نظام حکومت سےحکومت کی مقروض تھیں ۔یہ طے پایا کہ جیسے ہی یہ کمپنیاں اپنا قرض ادا کر دیں انہیں خود ان کے سپرد کر دیا جائے ،یہ کام بھی انجام نہیں پایا ۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ اپنے صدارتی دور کے آغاز میں، میں نے اس کمیٹی پر اعتراض کیا جو بند "ج" سے مربوط کمپنیوں کو بند "ب" سے ملانے کے در پے تھی ، بند "ب " ان کمپنیوں کے بارے میں تھا جنھیں حکومت کے حوالے کیا جانا تھا ۔

اگر اس دور میں ضرورتیں اس بات کا تقاضا کرتی تھیں لیکن جنگ کے بعد دوسری اور تیسری دہائی میں انجام نہیں پانا چاہئیے تھا ؛ بلا وجہ کمپنیاں بنانے کی ضرورت نہیں تھی ؛ حکومت کی ان کمپنیوں کو عوام کے سپرد کرنے میں کوتاہی نہیں کرنا چاہئیے تھی جس کی وضاحت آئین میں کی گئی تھی ۔ان کو عوام کے حوالے کرنا چاہئیے تھا ۔ حکومت کی مالکیّت کو دن بدن کم کرنے کی ضرورت تھی ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا ، بلکہ اس کا دائرہ روز بروز بڑھتا ہی گیا ۔ اور بہت سی رقم فضول اور غیر ضروری کاموں میں صرف کی گئی جسے پیداوار بڑھانے ، معاشرے میں پیسے کی صحیح گردش پر صرف ہونا چاہئیے تھا ۔یہ پیسہ فضول خرچی اور بلا وجہ کی بلڈنگیں بنانے پر خرچ ہوا ۔ یقینا اس کام سے ملکی اقتصاد کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ۔ بہر حال پچھلی دو دہائیوں میں یہ کام انجام نہیں دینا چاہئیے تھا۔لیکن موجودہ صورت حال یہ کہ حکومت کی مالکیّت کا دائرہ بہت پھیل چکا ہے جو بعض اوقات دفعہ ۴۴ کے متن کے منافی ہے اور بعض اوقات ان شرائط کے منافی ہے جو دفعہ ۴۴ کے ذیل میں بیان ہو ئی ہیں ۔

بیس سالہ ترقّیاتی منصوبے میں اھداف و مقاصد کا تعیّن ہو چکا ہے ۔لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ موجودہ صورت حال کے پیش نظر ہم بیس سالہ ترقّیاتی منصوبے کے اہداف و مقاصد کے حصول میں ہر گز کامیاب نہیں ہو سکتے۔ جیسا کہ تخمینہ لگایا گیا ہے ان اھداف و مقاصد کے حصول کے لئے سالانہ ۱۲ فیصد سرمایہ کاری درکار ہے جو ایک خطیر رقم ہے ۔انداز ے کے مطابق صرف تیل و پٹرولیم کے میدان میں آئندہ دس برس میں ۱۷۰ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، یعنی ہر سال ۱۷ ارب ڈالر ۔ کیا حکومت اس سر مایہ کاری پر قادر ہے؟ یہ حکومت کے بس کی بات معلوم نہیں ہوتی ۔اس کے علاوہ مختلف میدانوں میں ترقّی اور پیشرفت کے لئے سرمایہ کاری حکومت کا فریضہ ہےان میں سے سائنس و ٹیکنالوجی کا شعبہ بھی ہے چونکہ جن شعبو ں کی نجکاری نہیں ہوئی وہ طبیعی طو ر پر حکومت کے ذ مّہ ہیں اور انہیں میں سے ایک شعبہ ایٹمی ٹیکنالوجی کا ہے جس کی ترقّی اور پیشرفت حکومت کی ذمّہ داری ہے۔

دوسری طرف یہی خدشات، عدالت کے قیام ،فقر و پسماندگی کو دور کرنے کے سلسلے میں بھی موجود ہیں۔اور ان کی طرف میں پہلے بھی اشارہ کرچکا ہوں ۔البتّہ اگر آپ آج ، اغیار کےمیڈیاکا مشاہدہ کریں ، چاہے وہ کھلّم کھلّا پروپیگنڈا ہویا دو طرفہ سفارتی مذاکرات کا میدان ہو اور شاید آپ میں سے بعض کے پاس یہ بحث و گفتگو موجود بھی ہو ، ان تمام پروپیگنڈوں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ ان مشکلات کو موجودہ حکومت کے سر تھونپا جائے ۔اور یہ بات بالکل غلط ہے ، ایسا نہیں ہے ، بلکہ یہ مشکلات گذشتہ برسوں میں بتدریج پیدا ہوئی ہیں ، اور کسی کا اقدام بھی بد نیّتی پر مبنی نہیں تھا ، طریقہ کار صحیح نہیں تھا جو اس صورت حال پر منتج ہوا۔

یہ سب مل کر اس بات کا عامل بنے کہ ہم دفعہ ۴۴ کی پالیسیوں کے ابلاغ کے مسئلے پر خصوصی توجّہ دیں ، میں نے ۱۳۷۷ ھ ش یا ۱۳۷۸ ھ ش میں یہ مسئلہ تشخیص مصلحت نظام نامی کونسل کے حوالے کیا تا کہ وہ اس پر کام کرے ، ۱۳۸۳ ھ ش کے اواخر میں مذکورہ کونسل نے اپنا کام تمام کیا اور ۱۳۸۵ ھ ش میں ہم نے ان پالیسیوں کو جاری کیا اس پروجیکٹ کی تکمیل میں چند برس کا عرصہ لگا ۔

دفعہ ۴۴ کی پالیسیوں کا لب لباب وہ پانچ محور ہیں جنہیں بند "الف" بند "ب" بند "ج' بند "د" اور بند "ھ" کے ذیل میں بیان کیا گیا ہے ان میں بعض بند دو قسموں میں منقسم ہیں ۔ ان پالیسیوں کا خلاصہ یہ ہے کہ حکومت غیر ضروری اقتصادی سرگرمیوں سے آزاد ہو ، لوگوں کے تمام طبقات کے لئےاقتصادی سرگرمیوں میں یکساں مشارکت کی راہ ہموار کی جائے اور ملک کے محروم اور پسماندہ عوام کو بھی سرمایہ کاری میں حصہ دار بنایا جائے ، اور حکومت کا کردار صرف نظارت اور حاکمیّت تک محدود ہو اور اس سیاست میں ان کمپنیوں کی نجکاری سے حاصل ہونے والی آمدنی کے مصارف کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔یہ دفعہ ۴۴ کی پالیسیوں کے ابلاغ کا خلاصہ ہے۔

جب "عدالت شیئرز "کا مسئلہ پیش ہوا ہم نے بڑھ کر اس کا استقبال کیا ؛ ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہم اس کے ذریعہ سماج کے پسماندہ اور نچلے طبقات کوروزگار، پیداوار اور آمدنی فراہم کر سکتے ہیں ، یہ نہایت ہی غنیمت موقع ہے ، ہم نے تجویز کیا کہ ان شیئرز کو چھوٹ اور مہلت کے ساتھ فراہم کریں ۔

البتّہ ان پالیسیوں کامطلب جیسا کہ میں نے واضح کیا یے ہر گز یہ نہیں ہے کہ حکومت کے سرمائے اور دولت کو نیلام کیا جائے ۔ ہم حکومت کے سرمائے کو کسی بھی قیمت پر نیلام اور برباد نہیں ہونے دیں گے چونکہ حکومت کا سرمایہ حقیقت میں لوگوں کا سرمایہ ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بے تاثیر یا کم تا ثیر سرمایہ کو ملک کے اقتصادی ڈھانچے میں سرگرم اور فعّا ل کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تا ملکی اقتصاد آگے کی طرف قدم بڑھا سکے ۔البتّہ اس کے ساتھ ساتھ بیت المال اور عمومی سرمائے کو، محروم اور پسماندہ طبقات کی طرف متوجّہ کرنا ہے ۔اس سلسلے میں اذھان میں مختلف شبہات پیدا کئیے گئیے یا کئیے جا رہے ہیں، ان میں سے بعض خود میرے سامنے بھی پیش کئیے گئیے اور مجھ سے کہا گیا کہ ان پا لیسیوں کی وجہ سے بعض افراد عظیم سرمائے کے مالک بن جائیں گے اور ان اقتصادی سرگرمیوں کی وجہ سے کچھ لوگ امیر اور سرمایہ دار بن جائیں گے ،میں نے ان سے بھی کہا اور آج بھی کہہ رہا ہوں کہ اسلامی نقطہ نگاہ سے شرعی اور قانونی راہ سے سرمایہ دار اور امیر بننے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ہم نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ اگر کوئی قانونی اور جائز راستے سے سرمایہ حاصل کرے یہ سرمایہ شرعی اعتبار سے نا مطلوب ہے ۔ جو لوگ قرآن اور دین سے آشنا ہیں ان میں سے کسی نے نہ تو ماضی میں ایسا کہا ہے اور نہ ہی حال حاضر میں کوئی یہ کہہ رہا ہے ۔

دو چیزوں کو ایک دوسرے سے جدا رکھنے کی ضرورت ہے ،ایک مسئلہ سرمائے کی پیداوار کا ہے ۔ یعنی کوئی شخص درست طریقے سے سرمایہ حاصل کرے ۔اور دوسرا مسئلہ اس سرمائے کو حاصل کرنے کا طریقہ کار اور اس سے استفادہ کرنے کا ہے ۔ پہلا مسئلہ نہایت مطلوب ہے ؛ چونکہ معاشرے میں جوبھی سرمایہ آئے گا اس سے سماج کے تمام افراد کی اقتصادی حالت کے بہتر ہونے میں مدد ملے گی ۔ لیکن دوسرا پہلو بہت حساس ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ سرمائے کے حصول کا طریقہ کار ہمیشہ ہمارے مدِنظر رہے ۔ یہ دولت ، خلاف ورزی ، دھوکے بازی اور غیر قانونی طریقہ سے حاصل نہ ہوئی ہو اور اس کا استعمال بھی شرعی اعتبار سے نا مطلوب نہ ہو ؛ خون کی طرح،معاشرے کی رگوں میں دوڑ سکے ؛ فساد اور برائی میں صرف نہ ہو ۔ سورہ قصص کی ان آیات کا مشاہدہ کیجئیے جو قارون کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں ، قارون، اسلام ، قرآن ،شریعت اور لوگوں کی نگاہ میں ایک غیر پسند یدہ سرمایہ دار کا مکمّل نمونہ ہے قرآ ن قارون کی قوم کی زبانی نقل کر رہا ہے " قال لہ قومہ" یہ کسی معمولی آدمی کی بات نہیں ہے بلکہ یہ قرآ ن کی با ت ہے اور اس کا اعتبار قرآن سے ہے ؛ قرآ ن خود ان باتوں کو نقل کر رہا ہے قارون سے اس کی قوم نے کہا "وابتغ فیما اتاک ا للہ دار الآخرۃ " جو کچھ خدا نے تمہیں عطا کیا ہے اسے آخرت کے حصول کا ذریعہ قرار دو ،ہماری روایات میں بھی آیا ہے " نعم العون الدنیا علی الآخرۃ"اس ثروت کو اپنی عقبیٰ کوآباد کرنے کا ذریعہ قرار دو۔

دوسری سفارش: "ولا تنس نصیبک من الدنیا " دنیا سے اپنے حصے کو فراموش نہ کرو ۔ دنیا میں آپ کا بھی حصّہ ہے اس سے استفادہ کرو اور اس سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

تیسری سفارش: "واحسن کما احسن اللہ الیک "؛ خداوند ِ متعال نے تمہیں اس ثروت سے نوازا ہے ،؛ تمہارا بھی فریضہ ہے کہ اسے محتاج اور ضرورت مند افراد تک پہنچاؤ ،یعنی اپنے مال میں سے ایک حصّہ محتاجوں کو دو۔

چوتھی سفارش:"ولا تبغ الفساد فی الا رض " زمین میں فساد اور تباہی نہ پھیلاؤ ؛ ثروت اور مال کی سب سے بڑی آفت فساد اور تباہی پھیلانا ہے کہ جس کی روک تھام ضروری ہے عیّاش نہ بنو ۔ اس سے یہ مطالبہ نہیں کیا جا رہا کہ مال جمع نہ کرو ! دولت میں اضافہ کرنے کی کوشش نہ کرو!اسے تجارت اور دیگر اقتصادی سرگرمیو ں میں صرف نہ کرو!مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس سے ناجائز فائدہ نہ اٹھاؤ ؛ اس سے بہترین استفادہ کرو ؛ اور بہترین استفادہ یہ ہے کہ اسے اپنی آخرت کو آباد کرنے کی راہ میں صرف کرو۔ اپنے حصّے کو بھی مت بھو لو ، اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے ۔آ پ نے کتابوں میں پڑھا ہے اور خطباء سے بھی متعدّد بار سنا ہے کہ امیر المؤمنین (ع)کے اوقاف کی تعداد بہت زیادہ ہے آپ نے فرمایا " لا وقف الّا فی ملک " جوشخص کسی چیز کا مالک نہ ہو وہ اسے وقف نہیں کر سکتا ۔ یہ تمام اوقاف امیر المؤمنین کی ذاتی ملکیّت تھے ۔ امیر المؤ منین (ع)کو یہ سب املاک میراث میں تو نہیں ملی تھیں ۔ بلکہ آپ نے انہیں اپنی ذاتی محنت و مشقّت سے حاصل کیا تھا ؛ پانی کے قحط کے زمانے میں آپ کنویں کھودتے تھے ۔ پانی نکالتے تھے ؛بنجر زمینوں کو آباد کرکے وقف فرما دیتے تھے ۔جن میں سے بعض وقف صدیاں بیت جانے کے بعد آج بھی باقی ہیں جس سے ان کی اہمیّت اور قدر و قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ بہرحال سرمایہ کی پیداوار اچھی چیز ہے ، چنانچہ اگر اس سرمایہ کاری کامقصد ملکی ترقّی اور محروم طبقا ت کی مدد ہو تو یقینا یہ کام نیکی اور حسنہ شمار ہو گا اور اس پر ثواب بھی ملے گا۔

اگر کوئی مجھ سے سوال کرے کہ آیا یہ بہتر ہے کہ کوئی شخص سرما یہ کاری کرے اور اس کے ذریعہ بیس یا سو افراد کے لئیے روزگار فراہم کرے یا فرض کریں کسی گاؤں ، دیہات سے پچاس افراد کو امام رضا (ع) کی زیارت پر لے جائے جو ناداری اور فقر کی وجہ سے زیارت پر جانے سے معذور تھے یہ بہتر ہے یا اس پیسے سے جسے وہ سرمایہ کاری میں لگانا چاہتا تھا ۔دس سال لگاتار ہر سال عمرہ بجا لائے یہ بہتر ہے ، میں بغیر کسی شک و تردید کے جواب دوں گا کہ پہلی صورت مقدّم ہے ۔چاہے ہر سال عمرہ بجا نہ ہی لائے ۔ سرمایہ کاری اور ثروت کی تولید اپنے آپ میں پسندیدہ امر ہے ؛اور اگر مدد کی نیّت سے انجام پائے تو نیکی شمار ہوگا ؛اجر الٰھی اور اخروی ثواب بھی اس پر مرتب ہو گا۔

ہمارے عوام خیّر اور نیک عوام ہیں ۔ اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنا چاہئیے ۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے ، بلکہ گذشتہ دور سے یہ روایت رہی ہے ۔ اب اس میں مزید رونق آئی ہے ۔اسکولوں کی تعمیر کی تحریک کو ہی لے لیجئیے ۔جہاں کہیں بھی ضرورت پڑتی ہے خیّر حضرات میدان میں موجود ہوتے ہیں، اور آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ عوام کس قدر مالی اعانت کرتے ہیں ۔مشہد مقدّس میں، اسلامی انقلاب کی کامیابی سے پہلے ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں کی تعمیر کی رضاکارانہ تحریک کا آغاز ہوا ؛ آج شاید مشہد کا سب سے اچھّا ہسپتال یا کم از کم وہاں کے اچھّے ہسپتالوں میں سے ایک وہی ہسپتال ہے جو اس دور میں خیّر عوام کی مدد سے تعمیر ہوا تھا اور آج بھی وہی لوگ اس کا نظم و نسق چلا رہے ہیں ۔دوسری جگہوں میں بھی یہی صورت حال ہے ۔چند ماہ قبل کچھ لوگ شیراز سے میرے پاس آئے تھے جنہوں نے وہاں صحت عامہ اور علاج معا لجہ کے حوالے سے نہایت گراں قدرخدمات انجام دی تھیں ، ہم نے انہیں تاکید کی کہ اس کام کو دوسرے مقامات تک بھی پھیلائیں ۔ہمار ے عوام ایسے عوام ہیں ۔ ان کاموں کو خیّر اور امیر افراد ہی انجام دے سکتے ہیں ؛یہیں تہران میں ایک ہسپتال تھا ،جو اسلامی انقلاب کی کامیابی سے قبل، بہت سے زخمی مظاہرین کی پناھگاہ تھا ؛ یہی تجّار کا ہسپتال ۔ جسے کچھ خیّر حضرات نے تاسیس کیا تھا ، ہمارے عوام ایسے ہیں ؛ نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔اوقاف کی کثرت ،فی سبیل اللہ کاموں کی بہتات ،یہ سب ،افراد کے مال و دولت کے مظاہر ہیں ،ہم ان کے دشمن نہیں ہیں ، کیوں بلا وجہ اس بات کو منعکس کرنے کی کوشش کی جاری ہے کہ اسلامی نظام ِحکومت اور ملک کے اعلیٰ عہدیدار ہر اس شخص کہ بری نظروں سے دیکھتے ہیں اور اس سے دشمنی اور نفرت رکھتے ہیں جو پیسہ کمانے کے در پے ہے ؟ ہر گز ایسا نہیں ہے ؛ اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔

یہ اعتراض، ہماری نگاہ میں بالکل بے جا ہے ۔ ہمارے ایک بہت اچھّے اور قریبی دوست نے ہم سے کہا کہ کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ آپ نے دفعہ ۴۴ کے سلسلے میں جو پالیسیاں جاری کی ہیں اس سے سرمایہ داروں کے لئیے میدان خالی ہو جائے گا اور ان کی دولت میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔ میں نے جواب دیا ، ان پالیسیوں کے اجرا کا مقصد ہی یہی ہے ، تا کہ سرمایہ دار افراد اس میدان میں داخل ہوں اور سرمایہ کاری کریں ، اقتصادی سرگرمیوں میں حصّہ لیں ۔ وہ لوگ اس پالیسی پر معترض ہیں ؟! ہم نے ان پالیسیوں کو اسی غرض کے تحت جاری کیا ہے تا کہ یہ کام انجام پائے ۔

بعض لوگوں کے ذہن میں یہ شبہ پایا جاتا ہے کہ آپ نے اقتصادی بدعنوانیوں سے پیکار کرنے پر اتنا زور دیا اور احکام صادر کئیے کہ جن میں سے بعض پر عمل درآمد ہوا اور بعض پر نہیں ہوا، اور اب آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں ؟ میں اس سلسلے میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں : دوستو!اگر اقتصادی بدعنوانیوں سے پیکار با لکل ویسے اور اسی سنجیدگی سے جاری رکھّا جائے جیسے میں نے راہنمائی کی تھی ، اس سے سالم اقتصادی سرگرمیوں کو پروان چڑھانے اور ان میں نئی روح پھونکنے میں بہت مدد مل سکتی ہے ۔ اقتصادی سرگرمیوں کے لئیے دونوں چیزیں ضروری ہیں ۔

چند برس قبل جب میں نے پہلی بار اقتصادی بدعنوانیوں کی بات چھیڑی ، تب بھی بعض ذمّہ دار افراد کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ممکن ہے اس سے کچھ مشکلات پیدا ہوں ۔میں نے کہا ایسا نہیں ہوگا بلکہ وہ لوگ جو سالم اقتصادی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ اس بات سے بہت خوش ہوں گے کہ بعض دھوکے باز ،قانون شکن ،استحصال کرنے والے ،جاہ طلب افراد میدان میں موجود نہ ہوں اور ان کے راستے میں حائل نہ ہوں اور انہیں بدنام نہ کریں ۔

میں ان دو چیزو ں کو نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے منافی نہیں سمجھتا بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کا باعث سمجھتا ہوں ؛ میں معتقد ہوں کہ مالی عنوانی سے پیکار اور اس کی ریشہ کنی ،سالم اقتصاد میں رقابت اور دفعہ ۴۴ کی پا لیسیوں پر عمل درآمد کے لئیے موقع فراہم کرتا ہے۔ البتّہ ان دو چیزوں میں بدعنوانیوں کی روک تھام کے لئیے کچھ اقدامات ضروری ہیں جن کی پابندی ، عدلیہ ،حکومت اور پارلیمینٹ کے لئیے نہایت ضروری ہے۔ جن کی طرف میں مختصر طور پر اشارہ کروں گا۔

قو انین کو شفّاف بنائیے ،راہوں کوہموار کیجئے، اداری پیچیدگیوں کو کم کیجئے ۔یہ سازگار اقتصادی ماحول کے لئیے نہایت خطرناک چیز ہے کہ کسی اقتصادی سرگرمی کی تقدیر کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں ہوجوکسی ادارے میں میز کے پیچھے بیٹھا ہو اور اپنی ہاں یا نہ کے ذریعہ اس کی تقدیر رقم کرے ۔ایسا شخص خود بھی لغزش کا شکار ہو سکتا ہے ۔ہمیں اس کی روک تھام کرنا چاہئیے ۔قوانین اور قواعد میں اصلاح کی ضرورت ہے تا کہ انہیں ان پالیسیوں کے مطابق بنایا جا سکے ۔

میں نہایت سنجیدگی سے اپنے دوستوں کے گوش گذار کرنا چاہتا ہوں کے ان پالیسیوں کے اجرا کے کچھ لوگ مخالف اور دشمن ہیں، چونکہ ان پالیسیوں کے دشمن پائے جاتے ہیں لہٰذا ان کے نفاذ کی کا وش ایک طرح کا جہاد ہے ۔ہر وہ کوشش جوخلوص اور صحیح طریقے سے،دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئیے انجام دی جاتی ہے اسے اسلامی عرف میں جہاد کہا جاتا ہے ۔ دشمن کون لوگ ہیں ؟ بعض لوگ یہ نہیں چاہتے کہ ان پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعہ پسماندگی اور نقائص کا ازالہ ہو ،وہ با لکل یہ نہیں چاہتے کہ اسلامی نظام حکومت میں اقتصادی پیشرفت اور رونق کا بول بالا ہوچونکہ ان لوگوں نے اقتصادی دباؤ اور ناکہ بندی سے اپنی امّیدیں وابستہ کر رکھّی ہیں، ہمارے بیرونی دشمن ایسےہی ہیں ۔آج بھی دیکھ لیجئے ، بھوکے بھیڑئیے کی طرح اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ شاید حملہ کرنے کا موقع ہاتھ لگے ، اور وہ کوئی اقتصادی کاروائی کریں ،البتّہ یہ لوگ فوجی اور سماجی اقدام کرنے سے مایوس ہو چکے ہیں ؛خود بھی اقرا ر کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں کوئی اقتصادی قدم اٹھانا چاہئیے ۔ اقتصادی دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں ۔ ان پالیسیوں کے نفاذ سے اس اقتصادی دباؤ میں کمی آتی ہے یا اس کے اثرات بہت معمولی نوعیّت کے رہ جاتے ہیں ،اسی لئے وہ نہیں چاہتے کہ ان پالیسیوں پر عمل در آمد ہو۔ ممکن ہے ملک کے اندر بھی ان کے کچھ ہمنوا پائے جاتے ہو ں۔

بعض افراد کے مفادات موجودہ صورتحال سے وابستہ ہیں البتّہ یہ لوگ اس پالیسی کے داخلی مخالف شمار ہوتے ہیں ۔یہ لوگ موجودہ صورت حال میں تبدیلی نہیں چاہتے ،یہ لوگ اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہیں اور اسے ختم نہیں ہونے دینا چاہتے جہا ں ایک منتظم کی اجازت سے ،ایک مسئو ل کے قلم کی جنبش سے بہت سی چیزیں جا بجا ہوتی ہوں ۔خواہ وہ مسئو ل عدلیّہ سے مربوط ہو یا حکومت اور پارلیمینٹ سے تعلّق رکھتا ہو ،

ایسے افراد بھی مخالفین میں شمار ہوتے ہیں ۔ شاید بعض افراد ایسے بھی ہوں جو یہ نہ چاہتے ہوں کہ اس عظیم کام کاسہرا موجودہ حکومت کے سر بندھے ۔البتّہ ہم اس کا صرف احتمال دے سکتے ہیں یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے ۔

اب جب کہ اس کام کی اہمیّت اجاگر ہو چکی ہے ، میں اس سلسلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سب پر اس کی ذمّہ دارای عائد ہوتی ہے ، آپ سے گفتگو کا میرا مقصد بھی یہی تھا کہ آپ کی توجّہ اس طرف مبذول کروا سکوں کہ سب لوگ اپنے اپنے شعبوں میں ان پالیسیوں کے نفاذ کا راستہ ہموار کریں ؛ پارلیمینٹ میں اس سلسلے میں کچھ قوانین کی تدوین کی ضرورت ہے اور یاان میں ترمیم کی ، حکومت کے مختلف شعبوں کے منتظمین اور مسئولین کو اس طرف اپنی خصوصی توجّہ مبذول کرنا ہو گی اورنہایت سنجیدگی سے اس کا تعاقب کرنا ہوگا ۔

ملکی عدلیّہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے ،ہم نے عدلیہ سے وابستہ افراد سے میٹینگ میں بھی یہ تجویز رکھی تھی کہ مالکیت کے حقوق کے دفاع کے لئے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں ۔اس سلسلے میں اور اقتصادی بد عنوانیوں سے پیکار کے لئے خصوصی عدالتوں کا قیام اشد ضروری ہے ۔ دونوں جگہو ں پر خصوصی شعبوں اور خصوصی عدالتوں کا قیام ضروری ہے یعنی ایسے افراد ہوں جو پورے اہتمام کے ساتھ اس مسئلہ کا تعاقب کریں۔حکومت کے مختلف شعبوں میں بھی سب افراد اس کے بارے میں سنجیدہ ہوں اور کام میں تیزی لائیں ، سرعت عمل سے ہماری مراد '' عجلت پسندی '' نہیں ہے ؛ کام میں تیزی لائیں لیکن بلا وجہ کی عجلت سے اجتناب کریں،ایک نظام الاوقا ت وضع کریں اور اس کے مطابق کام کریں اور حکّام بالا کو نتائج سے آگاہ کرتے رہیں۔ہم نے بھی اس سلسلے میں چند ماہ قبل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو پارلیمنٹ، حکومت اور عدلیہ میں اس کا تعاقب کرے گی ، پارلیمنٹ میں بھی اس کام کے لئیے ایک کمیشن تشکیل پایا ہے اور حکومت میں بھی ایک کمیٹی اسی کام پر مامور ہے۔ کام میں تیزی لانے کی ضرورت ہے ،عجلت سے کام لئے بغیر بھی کام میں تیزی لائی جا سکتی ہے ،اس کام کے مختلف پہلوٰؤں کا اچھّی طرح مطالعہ کریں اور ہر زاویہ سے اس پر نگاہ ڈالیں ، صاحب نظر افراد سے مشورہ کریں ۔اپنے کام میں سنجیدگي سب کا فریضہ ہے۔

دوسری اہم چیز یہ ہے ان پالیسیوں کے سبھی حصّوں کو مد ِنظر رکھیں ۔ ان پالیسیوں کے پانچ بند ہیں بند '' الف '' سے لے کر بند''ہ '' تک ، بند ''الف '' دو حصوں میں منقسم ہے :پہلا حصّہ گورمنٹ کو ان کمپنیوں کے بار گراں سے آزاد کرنے کے بارے میں ہےجو دفعہ ۴۴ کے ذیل میں ذکر ہوئی ہیں یعنی وہ چیزیں جو دفعہ ۴۴ کے صدر سے مربوط ہیں اور حکومت کو آج سے کہیں پہلے اپنے آپ کو اس بوجھ سے آزاد کرنا چاہئیے تھا ۔ بند "الف '' کا دوسرا حصّہ یہ ہے کہ عوام اور نجی شعبے کو دفعہ ۴۴ کے صدر کے مشابہ موارد میں سرمایہ کاری کی اجازت دی جاتی ہے۔بند ''ب '' کارپوریشنوں اور ان کی خصوصیّات سے مربوط ہے ۔بند''ج'' ان کمپنیوں کی نجکاری اور انہیں خصوصی شعبوں کے حوالے کرنے سے متعلق ہے جن کا ذکر دفعہ ۴۴ کے صدر میں ہوا ہے البتّہ بعض چیزیں مستثنیٰ کی گئی ہیں ۔

بند ''د''کے بھی دو حصّے ہیں پہلا حصہ ان اقدامات سے مربوط ہے جو حکومت کے لئے ضروری ہیں تا کہ انتقال کا عمل خوش اسلوبی سے انجام پائے اور سرمایہ کار اس کام کی طرف راغب ہوں ؛دوسرا حصہ اس سے حاصل شدہ آمدنی کو خرچ کرنے سے متعلّق ہے ۔

آخری بند ، جو کہ بند ''ہ'' ہے وہ حکومت کی حاکمیّت کی پالیسی سے مربوط ہے ۔ حکومت کو اپنی حاکمیّت کی پالیسی برقرار رکھنا چاہئے اور اس سلسلے میں پروگرام وضع کرے ،پالیسی بنائے ، راہنمائی کرے ،اور کسی خاص چیز پر سرمایہ کاری کرے ، اس پر اپنی پوری توجّہ مرکوز کرے ۔ بہرحال ان تمام شقّوں کو ایک ساتھ ملا کر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔اگر ہم ان شقّوں میں سےبعض کو مقدّم کریں اور بعض دوسری کومؤخرکریں یا انہیں سرے سے بھول جائیں؛ تو ایسا کرنے سے تعادل ڈگمگا ئے گا اور یہ صحیح نہیں ہے ۔

تیسرا کام جو انجام پانا چاہئیے اور ہم نے پہلے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے وہ ہے قوانین کی شفاف سازی کاعمل ۔ قوانین کو صاف ستھرا اور شفاف ہونا چاہئے تاکہ کسی کے لئے عذر و بہانے ،توجیہ و تاویل اور ان میں تغیر و تبدل کی جگہ باقی نہ رہے ۔ دھوکے اور فریب کا راستہ بند کیا جائے۔اور ان لوگوں کی روک تھام کی جائے جو قوانین کے ظاہر سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہیں ۔

ایک دوسرا کام جو انجام پانا چاہیے وہ یہ ہے کہ عوام تک صحیح اطلاع رسانی ہو ۔ اور لوگوں کو اس کام کی پوری تفصیلات فراہم کی جائیں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ کہاں اور کس میدان میں وہ اقتصادی سرگرمیاں انجام دے سکتے ہیں ؟کہاں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں ؟کس طریقے سےکسی کمپنی میں داخل ہو سکتے ہیں ؟ اکثر لوگ بے خبر ہیں ۔ گذشتہ برس جب ٹیلیویژن سے ان پالیسیوں کا اعلان کیا گیا ،کچھ خواص کو تو خوشی ہو ئی لیکن عام لوگوں کے کانوں پر جوں تک بھی نہیں رینگی اور وہ اس موضوع سے بیگانے بنے رہے ! عوام کے لئے ان پالیسیوں کی تشریح و وضا حت کیئجئے ۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کس طرح حکومت کی امداد سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ،نجی شعبہ میں کن امتیازات سے استفادہ کر سکتے ہیں ، حکومت نجی شعبے کی کیا مدد کر سکتی ہے ،وہ کس میدان میں داخل ہو کر سرمایہ کاری کر سکتے ہیں ۔

اس کے بعد کا کام'' قانون سازی '' کا عمل ہے یقینا پارلیمنٹ کی تحقیقاتی کمیٹی کو اس سلسلے میں سرگرم کردار ادا کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں جن قوانین کی ضرورت ہے انہیں تدوین کیا جائے اور اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون اور مدد کی جائے ۔

آخری بات عدالتی طور پر قانونی مالکیّتوں کی حمایت کا ہے ۔ ہمارے نقطہ نطر سے، اگر انشاء اللہ ہمارے مسؤ لین( جن میں سے اکثر و بیشتر یہاں موجود ہیں ) کمر ہمت کس لیں اور اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا پختہ عزم کر لیں تو دو تین برس کے اندر ہم اپنی آنکھوں سے ملک میں ایک خوشگوار تبدیلی دیکھیں گے اور انشاء اللہ روشن اور درخشاں مستقبل کے بارے میں ہماری امّید میں مزیداضافہ ہوگا۔

والسلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ