ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا ادارہ حج کے اعلیٰ عہدیداروں اور اہلکاروں سے خطاب

بسم ا للہ الرحمٰن الرحیم

میں دل کی گہرائی سے خداوند متعال کی بارگاہ میں دعا کرتاہوں کہ وہ اپنی برکتوں کو آپ کی محنت اور کاوش کے شامل حال قرار دے انشاء اللہ آپ کی محنت خلوص نیّت پر مبنی ہے اور آپ کی اس محنت پروہی نتائج مرتّب ہوں جو آپ کے دل کی آرزو ہیں ؛ یعنی ایک ایسے حقیقی اسلامی حج کا انعقاد ہو جو پیغمبر ختمی مرتبت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کی خو شنودی کا باعث ہو۔

فریضہ حج ایک اہم اور مناسب موقع ہے جو خداوند متعال نے ہمارے لیے فراہم کیا ہے ، انفرادی طور پر ہر مسلمان کے لئیے ، اجتماعی طور پر پوری امّت مسلمہ کے لئیے ، اور با لخصوص اس اسلامی جمہوری نظام کے لئیے ایک بہترین موقع ہے جو عصر حاضر میں اسلامی حاکمیّت اور شریعت کاعلمبردار ہے ، ہم سب کو اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئیے ۔

انفرادی طور سے ، ہر انسان کے لئیے حج اس لئیے موقع غنیمت ہے کہ اسے ایک بیکران معنوی فضا میں داخل ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے ، ہم روز مرّہ کی زندگی کی ناپاکیوں اور عیوب و نقایص کو اپنے آپ سے دور کرتے ہیں اور معنویّت ، پاکیزگی اور قرب الٰہی اور اختیاری ریاضت کی منزل میں قدم رکھتے ہیں ۔ آپ جیسے ہی اس وادی میں قدم رکھتے ہیں اپنے اوپر ان چیزوں کو حرام قرار دے دیتے ہیں جو عام دنوں میں آپ کے لئیے جائز اور مباح تھیں ، احرام کا مطلب بھی یہی ہے یعنی ایسی چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرنا جو عام دنوں میں مباح اور جائز ہیں ۔کہ ان میں سے بعض چیزیں غفلت کا باعث ہیں اور بعض دوسری ، انحطاط اور پستی کا عامل ہیں ۔

مادی اور ظاہری فخر و مباہات ،اور برتری کے تمام وسائل ہم سے سلب کر لئیے جاتے ہیں ، سب سے پہلے قیمتی لباس ، درجہ اور مقام ہم سے چھین لیا جاتا ہے اور سب ایک ہی لباس زیب تن کرتے ہیں ، آئینہ میں نگاہ نہ کیجئیے چونکہ یہ عمل ، خود پسندی اور خود شیفتگی کا مظہر ہے ، عطر کا استعمال نہ کیجئیے ، چونکہ جلوہ نمائی کا باعث ہے ، راستہ چلتے ہوئے ، دھوپ اور بارش سے فرار نہ کیجئیے ، سایے کی پناہ میں نہ جائیے چونکہ یہ عمل آرام طلبی اور آسائش کا غمّاز ہے ۔اگر کسی ایسی جگہ سے آپ کا گزر ہو جہاں سے بدبو آرہی ہو آپ کو ناک بند کرنی کی اجازت نہیں ، احرام کے دیگرمحرّمات کی مثال بھی ایسی ہی ہے؛ اس مدّت کے دوران اپنے اوپر ایسی چیزوں کو حرام قرار دینا جو آسایش ، نفسانی اور جنسی شہوت کا باعث بنتی ہیں ، جو چیزیں فخر و تکبّر اور برتری اور امتیاز کا باعث بنتی ہیں ان سب کو ہم سے چھین لیا جاتا ہے ۔

اس کے بعد خانہ خدا اور مسجد الحرام کی نورانی فضا میں داخل ہونا اور وہاں کے شکوہ و عظمت کو اپنے تمام وجود سے محسوس کرنا حالانکہ وہاں کی فضا نہایت سادہ فضا ہے اور مادی زرق وبرق سے بالکل عاری فضا ہے ، لیکن وہاں کے شکوہ و عظمت کی شان ، نرالی ہے جسے عام انسان ،بیان بھی نہیں کر سکتا ۔ اس کے بعد انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سیلاب میں داخل ہونا اور ایک مرکز کے ارد گرد گھومنا وہ بھی ذکر ، دعا ، گریہ وزاری اور خدا سے راز ونیاز کی حالت میں ، صفا اور مروہ کی سعی کے دوران بھی یہی منظر ہوتا ہے ، مشعر و عرفات کا قیام بھی یہی سماں پیش کرتا ہے ، روز منیٰ کے اعمال بھی یہی کیفیّت پیش کرتے ہیں ، یہ حج کی حقیقت ہے ۔

دوستوں نے اشارہ کیا کہ میں نے حاجیوں کے آرام و آسایش کی تاکید کی ہے ، جی ہاں میں نے اس کی تاکید کی ہے ، لیکن آسایش کا مطلب ''عیش پرستی''اور آرام طلبی ہر گز نہیں ہے ، میں نے یہ بات گزشتہ برسوں میں ہمیشہ ہی ادارہ حج کے اراکین کے گوش گزار کی ہے کہ ان سہولتوں کی فراہمی کا اصلی مقصد یہ ہے کہ حجّاج کرام ، آسودہ خاطر ہو کر اپنے محبوب سے لو لگا سکیں، ان کی آسودگی خاطر کے لئیے تمام اسباب کو فراہم کیجئیے تاکہ وہ خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دے سکیں ، لیکن اس سے میری مراد حیوانی اور مادی خواب و خوراک نہیں ہے ، زیادہ کھانا اور سونا ہر گز مطلوب نہیں ،کہ ہم لوگ حج کے دوران ان چیزوں کا پیچھا کریں ۔

حج کوئی تفریحی سفر نہیں ہے ، بلکہ ایک معنوی سفر اور روحانی سفر ہے ، جسم و جان کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں حاضری کا سفر ہے ۔ اہل سلوک و معنا کی نگاہ میں '' سفر الی اللہ ''(خدا کی طرف سفر) جسمانی سفر نہیں ہے بلکہ دلی اور روحانی سفر ہے ، یہ سفر ہم سب کے لئیے جسمانی اور روحانی، دونوں طرح کا سفر ہے ، اگر ہم جسم وہاں لے جائیں اور ہمارا دل کہیں اور ہو ، تو ایسے سفر کا کوئی فائدہ نہیں ، ہوشیار رہئیے کہ کہیں خدا نخواستہ بعض افراد میں ، اس نعمت کی تکرار کی وجہ سے اور بارہا اس فریضہ کی ادائیگی کی وجہ سے ، خانہ خدا کی مکرّر زیارت کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان میں بے توجّہی اور کم اہمیتی کا جذبہ غالب آجائے اور وہ اپنے اندر تغیر و تبدیلی کا احساس نہ کریں ، یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے ۔

مرحوم شیخ محمد بھاری پر خدا کی رحمت نازل ہو ، شاید کچھ ہی دنوں میں ان کی تجلیل اور تکریم کے لئیے ایک سمینار منعقد ہونے جا رہا ہے ، موصوف ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں '' جب دعا ،ذکر اور نماز، حضور قلب سے عاری ہو جائے اور صرف تکرار کی صورت اختیار کر لے تو سنگ دلی کا باعث بنتے ہیں ! نماز سنگ دلی کا باعث بنتی ہے آخر ایسا کیوں ؟ ایسا اس لئیے ہے کہ ہماری نماز میں حضور قلب نہیں پایا جاتا ، توجّہ نہیں پائی جاتی ، نماز اگر قلبی توجّہ اور حضور کے ذریعہ ادا کی جائے تو یقینا نرمی دل ، لطافت اور پاکیزگی کا باعث بنتی ہے لیکن جب یہی نماز توجّہ اور حضور قلب سے خالی ہو تو موصوف کے مطابق سنگ دلی کا باعث بنتی ہے ۔

حج کی مثال بھی ایسی ہی ہے ، ان اعمال کو توجّہ اور حضور قلب کے ساتھ انجام دینا چاہئیے ، ایاما معدودات (۱) معلومات(۲)کی تعبیر سے صاف ظاہر ہے کہ حج و عمرے کے ایام، چند گنے چنے دن ہیں ، یہ چند روزہ فرصت، تعلیم اور تمرین کا ایک سنہری موقع ہے ، یعنی انسان قریب سے مشاہدہ کرتا ہے کہ ایسے بھی زندگی بسر کی جا سکتی ہے ، مادی لذتوں اور فخر و مباہات کی فضا سے دور رہ کر بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی پوری زندگی کو " احرامی " زندگی بنا ڈالیں ، بلکہ خدا کی حلال و طیّب چیزوں سے استفادہ کیجئیے ، لیکن دنیا کی زود گزر لذّتوں سے دل لگانا ان کے لئیے بیتابی کا اظہار کرنا صحیح نہیں ہے اور نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہم لوگ زندگی کو انہیں چند مادی لذّتوں اور شہوتوں میں محدود سمجھتے ہیں ، اس فضا کو ختم کرنا چاہئیے تا کہ ہم سمجھ سکیں کہ دن رات کے ایک حصّے کو ، آدھی رات کے کچھ لمحات کو خداوند متعال سے راز و نیاز اور پاکیزگی کے لئیے بھی وقف کیا جاسکتا ہے ، آپ حج کے موقع پر اس کی تمرین کرتے ہیں،اور سیکھتے ہیں ، حاجی ، حج کے دوران اسے سیکھتا ہے ، آپ مشاہدہ کیجئیے کہ حج کتناعظیم موقع ہے ۔

ادارہ حج کے اراکین اور عہدیداروں کا فریضہ یہ ہے کہ حج سے مشرّف ہونے والے ، مسلمانوں کے اس جم غفیر کی ، حج کے اس اہم نکتے کی طرف راہنمائی کریں خواہ وہ یہاں سے آپ کے ساتھ حج کی ادائیگی کے لئیے گئے ہوں یا ان کا تعلّق دیگر ممالک سے ہو ، سبھی کو اس بینظیر موقع کو غنیمت سمجھنا چاہئیے اور اس فرصت سے استفادہ کرنے کے لئیے سبھی کی ترغیب کریں ، حجاج کرام میں اس احساس کی بیداری سب کا فریضہ ہے ، خواہ وہ ادارہ حج کے اراکین ہوں ، مختلف کاروانوں کے سربراہ ہوں ، مختلف ثقافتی اور غیر ثقافتی شعبوں کے منتظم ہوں یا علماء دین ہوں، ان میں یہ احساس جگائیے کہ حج ایک بینظیر موقع ہے جو آپ کو نصیب ہوا ہے ، ہمیشہ اور ہر کسی کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوتی ، ورنہ کتنے ہی افراد ایسے ہیں جو یہاں ایک دن گذارنے کی آرزو دل میں لئیے بیٹھے ہیں لیکن انہیں یہ موقع نہیں ملتا ، دنیا میں حج بجا لانے کے مشتاق افراد کثیر تعداد میں ہیں ، اب جب کہ آپ کو یہ موقع میّسر آیا ہے ،اسے غنیمت سمجھئیے ، یہ انفرادی فرصت اور اس سلسلے میں ادارہ حج کے اراکین کے فریضے کی بات تھی ، یہ فرصت حج کی پہلی فرصت ہے ۔

حج کی دوسری فرصت یا دوسرا موقع امت اسلامیہ سے متعلّق ہے ، حج کا موقع امت اسلامیہ کے لئیے بھی ایک سنہری موقع ہے ، امت مسلمہ مختلف قوموں ، نسلوں ، خطّوں ،ثقافتوں اور عادات و رسوم میں بٹی ہوئی ہے اور یہ اختلاف ایک فطری چیز ہے چونکہ خداوند متعال نے دن مبین اسلام کو کسی خاص نسل ، ثقافت اور خطّے کے لئیے نہیں بھیجا بلکہ اسلام پورے عالم انسانیّت کے لئیے سعادت کا پیغام ہے ، اس لئیے مسلمانوں میں رنگ ، نسل ،ثقافت ، زبان ، رسوم و عادات ، تاریخی اور جغرافیائی اختلاف کا ہونا ایک فطری چیز ہے ، پس امت مسلمہ میں اختلاف کا پیش خیمہ پایا جاتا ہے ، لیکن اس اختلاف کو ظاہر نہیں ہونا چاہئیے ، اسے پنپنے کا موقع نہیں ملنا چاہئیے ، حج وہ سنہری موقع ہے جہاں امت مسلمہ اپنے فطری ، مصنوعی اور باہر سے تھونپے گئے اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر اپنی یکجہتی اور اتحاد کا بھر پور مظاہرہ کر سکتی ہے ۔

حج امت مسلمہ کے لئیے ایک عظیم اور سنہری موقع ہے ، آ پ ہر سال حج میں شریک ہونے والے جم غفیر کا مشاہدہ کیجئیے اور ایک دس سالہ دور کو اپنے تصوّر میں مجسم کیجئیے ، آپ دیکھیں گے کہ اس دوران ، افریقہ ، ایشیا، یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک سے ، مرد و زن ، جاہل اور کم پڑھے لکھے ، مختلف سلیقوں کے مالک ، لاکھوں افراد نےاس فریضے میں شرکت کی ہے ، اگر اس اجتماع پر اسلام کی ندائے ''ولا تفرّقوا'' (۳)حکم فرما ہوتو آپ ملاحظہ کریں گے کہ کتنا عظیم واقعہ رونما ہو گا ،اختلافات کے عوامل کا رنگ پھیکا پڑ جائے گا ، کوئی شیعہ ہے تو کوئی سنّی ، شیعوں کے مختلف فرقے ، سنّیوں کے مختلف فرقے ، مختلف فقہی مذاہب،مختلف عادات و رسوم ، یہ سب اختلاف اور جدائی کے فطری عوامل ہیں ، لیکن حج ان سب کو اپنے مہربان سایےتلے جمع کرتا ہے اور ان میں میل ملاپ اور بھائی چارگی کی فضا پیدا کرتا ہے ۔

میں یہاں ایک حاشیہ لگانا چاہتا ہوں ، اور وہ یہ ہے کہ کس قدر ناانصافی کی بات ہے کہ کوئی شخص اتحاد و یکجہتی کے اس بے نظیر وسیلے کو اختلاف اور تفرقہ ڈالنے کے لئیے استعمال کرے ، میرا یہ خطاب سبھی سے ہے ، میرے مخاطب فقط وہ متعصّب سلفی اور تکفیری نہیں ہیں جو شہر مدینہ کے چپّے چپّے پر نظر آتے ہیں اور آپ کے مقدّسات کی توہین کرتے ہیں ، بلکہ سبھی مخاطب ہیں ، ادارہ حج کے ذمہ داروں ، قافلوں کے منتظمین ، علماء کرام ، سبھی کو ہوشیار رہنا چاہئیے کہ ان کی گفتار و رفتار سے اسلامی اتحاد اور یکجہتی کو نقصان نہ پہنچے ،اورکسی کی دل آزاری کا باعث نہ بنے ، میں ان چیزوں کو نہیں گنوانا چاہتا جو اختلاف و تفرقہ کا باعث بنتی ہیں ، ان پر آپ خود غور و فکر کریں اور دیکھیں کہ آخر وہ کون سی چیزیں ہیں جو شیعوں کی دل آزاری کا سبب بنتی ہیں اور غیر شیعہ مسلمان بھائی کے سلسلے میں ان کے دل میں نفرت و کینہ پیدا کرتی ہیں ؟اسی طرح وہ کون سے عوامل و اسباب ہیں جواہل سنّت حضرات کے دل میں شیعوں کی نفرت اور کینے کا بیج بوتے ہیں ؟ان پر اچھی طرح غور کیجئیے اور انہیں اپنے دل سے باہر نکال پھینکئیے ، حج کو اختلاف اور جدائی کا میدان بننے کی اجازت نہ دیجئیے چونکہ حج اسلامی دنیا کے اتحاد ، یکجہتی اور بھائی چار ے کی علامت ہے ،اس مسئلے اور اس کے مصادیق کی شناخت میں بہت ہوشیاری اور غور و فکر کی ضرورت ہے یہ کوئی مذاق نہیں ہے ۔

تیسرا موقع اور فرصت ، اسلامی جمہوریہ سے متعلّق ہے ، اسلامی جمہوریہ ، مظلوم ہے ، میں نے کئی برس قبل بھی یہ بات کہی تھی اور آج بھی دہرا رہا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایک ایسا نظام ہے جس میں معنوی اقتدار کے تمام ارکان پائے جاتے ہیں ، وہ طاقتور ضرور ہے ، لیکن ایسا طاقتور ہے جو مظلوم بھی ہے ، اور ان دو باتوں میں کوئی تناقض نہیں ہے ، اس کی مظلومیّت کے بہت سے دلائل ہیں ، ان میں سے ایک اہم دلیل یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن، دیگر مسلمان قوموں میں اس طرزفکر اور نظریہ کو پھیلنے سے روکنے کے لئیے آئے دن اس پر بہتانوں اور الزام تراشیوں کی مسلسل یلغار کرتے رہتے ہیں ، یہ الزامات ،صرف اعتقادات اور نظریاتی مسائل تک محدود نہیں ہیں بلکہ ان کا دائرہ سیاسی اور عملی مسائل تک پھیلا ہوا ہے ، ہم پر جھوٹے الزامات لگا رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ یہ کہہ رہا ہے ، وہ کہہ رہا ہے ، یہ کر رہا ہے وہ کر رہاہے ، اس کا طرز فکر ایسا ہے ، ویسا ہے ، تیس سال سے وہ ہمار ے خلاف جھوٹے پروپیگنڈوں کی مسلسل یلغار کیے ہوئے ہیں ۔

آپ حضرات چونکہ ادارہ حج سے وابستہ ہیں اور آپ کا شمار اس نظام کے سچّے وفاداروں میں ہوتا ہے اور آپ اس نظام پر مکمّل یقین اور اعتماد رکھتے ہیں ، اگر حج میں آپ کا سامنا کسی ایسے مسلمان بھائی سے ہو جائے جو ان مسموم پروپیگنڈوں کا شکار ہو تو آپ کا سب سے پہلا فریضہ کیا ہے ؟ آپ کا پہلا فریضہ یہ ہے کہ اس کے سامنے اسلامی حقایق اور معارف کی وضاحت کیجئیے ، اسلامی جمہوریہ ایران، ایک'' اسلامی '' جمہوریّت ہے ، ہم ایرانیوں کی اکثریّت شیعہ ضرور ہے لیکن ہمارا نظام حکومت شیعوں اور اہل سنّت دونوں سے مربوط ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کی تحریک کے دوران ، اس کی کامیابی کے بعد ، آٹھ سالہ جنگ میں ، سرزمین ایران کے سنّی بھائیوں اور دیگر ممالک کی ایک عظیم تعداد نے جو اہل سنّت پر مشتمل ہے ، ہماری بھر پور حمایت کی ، ہر محاذ پر ہمارا دفاع کیا ، اس راہ میں اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کیے ۔

اسلامی ممالک میں ، خواہ وہ افریقی ممالک ہوں یا ایشیائی ممالک یا دنیا کے دیگر ممالک ، یہاں تک کہ اس ملک کے مرکز میں بھی ( کہ جس نے ہر جگہ ہماری دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے یعنی امریکہ ) ایسے مسلمان بکثرت پائے جاتے ہیں جو شیعہ تو نہیں لیکن اسلامی جمہوریہ ایران ، اس کے فقید قائد اور اس کی باہمّت قوم سے والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں؛ چونکہ یہ جمہوریّت ایک اسلامی جمہوریّت ہے لہٰذا دشمن اس کی تحریف میں لگے ہو ئے ہیں ، حقایق کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں ، اسلامی جمہوریہ ایران کی پیشانی پر دیگر اسلامی مذاہب کی دشمنی کا جھوٹالیبل چپکانےکی کوشش کر رہے ہیں ، آپ جائیے اور ان پر حقیقت واضح کیجئیے ، دنیا کے تمام مسلمان بھائی ، بہن یہ بات بخوبی جان لیں کہ یہ ملک ان کا اپنا ملک ہے ؛ اور یہاں وہی واقعہ رونما ہوا ہے جو ہر مسلمان کے دل کی آواز ہے ۔دنیا میں کون سا مسلمان'' قرآن '' کی حاکمیّت نہیں چاہتا؟یہاں قرآن حاکم ہے ؛ یہاں شریعت حاکم ہے ۔

آج، اسلامی دنیا میں وہ کون ایسا شخص ہے جس کا دل اسلامی ممالک پر اغیار کے قبضے اور ان کے نفوذ سے دکھی نہ ہو؟ان کے دل خون کے آنسو بہا رہے ہیں لیکن وہ اپنی بات لبوں پر لانے سے قاصر ہیں چونکہ انہیں اس کی اجازت نہیں ہے ، اسلامی جمہوریہ ایران ، آزادی اور حرّیت کا وہ عظیم عالمی منبر ہے جہاں سے ان مظلوم اور شکستہ دل افراد کے سینوں میں دبی آواز کو بلند کیا جاتا ہے ۔

استکباری طاقتیں اسی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالف ہیں ، امریکہ کی دشمنی بھی اسی وجہ سے ہے ، ہم مسلمانوں کی دلی آواز کی ترجمانی کر رہے ہیں ، مسلمان قومیں ، ان چند فاسد حکومتوں میں محدود نہیں ہیں ، مسلمان قومیں امریکہ کے نفوذ اس کے غرور و تکبّر اور دیگر استکباری طاقتوں سے سخت بیزار ہیں ؛ان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے ؛لیکن وہ بے بس ہیں ، ان سے کچھ بن نہیں پڑتا ، یہ باتیں، حکومت کی مختلف سطح پر کھلے عام بیان ہو رہی ہیں ؛ یہ اسلامی جمہوریہ ایران کے دلنشین حقائق ہیں؛ انہیں بیان کیجئیے ، تاکہ اسلامی دنیا اور مسلمان قومیں ان حقایق سے آشنا ہوں ؛ یہ آشنائی اور جانکاری کسی خاص طبقے سے مخصوص نہیں ہونا چاہئیے ، مثلا اسلامی ممالک کی یونیورسٹیوں کے طلباء باہمی روابط کی وجہ سے ان حقایق سے واقف ہوتے رہتے ہیں ، ان کی آ گاہی زیادہ اہم نہیں ہے بلکہ عوام کی آگاہی زیادہ ضروری ہے؛ ان کے لئیے ان حقایق کو بیان کیجئیے ، حج ، اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام کی تشریح اور وضاحت کا سنہری موقع ہے ۔

میرا نظریہ ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم پہلے بیرون ملک کی اصلاح کریں اور اندرون ملک کے عیوب و نقائص سے چشم پوشی کر لیں ، میری مراد ہر گز یہ نہیں ہے، ہمارا پہلا فریضہ یہ کہ ہم اپنی اصلاح کریں ؛اپنے دلوں کو پاک کریں ، اور ملک کےداخلی حالات پر توجّہ دیں؛ ملک کے داخلی حالات کی اصلاح ہمیں خود کرنا ہے ،ہماری قوم ایک مؤمن ، باہمّت اور جوش و ولولے سے سرشار قوم ہے ، ایک آمادہ اور تیّار قوم ہے ، لیکن ادھر ادھر کچھ ایسے عناصر بھی سرگرم ہیں جو مختلف سیاسی اور غیر سیاسی عناوین سے معاشرے کی فضا کو آلودہ کر رہے ہیں ، اس سے پاکیزگی اور صداقت کا خاتمہ کرنے کی کوشش میں ہیں اور عوام میں طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں ۔

یہ قوم وہی قوم ہے جس نے اس عظیم انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا ، اس مضبوط اور با عظمت نظام حکومت کی داغ بیل ڈالی ، اور تیس سال سے پوری طاقت سے اس کی حفاظت کر رہی ہے ، یہ ایسی عظیم قوم ہے ، جو اس پختہ ایمان اور عزم راسخ کی حامل ہے ۔

یہ نتائج اور ثمرات مفت حاصل نہیں ہوئے ، جب تک کسی قوم میں ایثار اور قربانی کا جذبہ کا ر فرما نہ ہو ، اس میں ہمّت اور جوش نہ پایا جاتا ہو تب تک یہ مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے ؛ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ، زید ،عمرو یا حکومت کے کسی عہدیدار کے بغض و عناد کی وجہ سے ، اس نظام حکومت پر سوالیہ نشان لگائیں اور اسے مورد الزام ٹھرائیں ،افسوس کی بات ہے کہ ملک کی بعض ممتاز سیاسی شخصیّات یہی کام کر رہی ہیں ۔

ملکی لٹریچر اور مطبوعات کی فضا ، سیاسی تبلیغات کی فضا ہر گز خوش آیند نہیں ہے ، ہمیں اپنی رفتار و کردارمیں ، سیاسی مؤقف میں اسلام کی پیروی کرنا چاہئیے اور ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ جب تک ہم اسلامی قدروں کے پائبند رہیں گے ،اسلامی نظام ،خدائی برکتیں اور اس کا لطف وکرم ہمارے شامل حال رہے گا، خداوند متعال ہم سے کوئی قرابت و رشتہ داری نہیں رکھتا، میں نے بارہا عرض کیا ہے کے بنی اسرائیل وہ قوم ہے کہ جس کی برتری کا اعلان خداوند متعال نے متعدّد با ر قرآن میں یوں کیا ہے''اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم و انّی فضّلتکم علی العالمین (۴) لیکن جب اس قوم نے ناز و نخرے دکھانے شروع کیے اور کفران نعمت کی مرتکب ہوئی تو ''کونوا قردۃخاسئین''(۵) اور "ضربت علیہم الذلۃ والمسکنۃ "(۶) کے ذریعہ سے اسے پھٹکارا گیا ۔

ہمارے اوپر خدا کی رحمت تبھی نازل ہو گی جب ہم اپنی زبان ، اپنے اقدامات اپنی تبلیغات پر مکمل کنٹرول اور نگرانی رکھّیں گے ، ورنہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ، حکومت پر بے لگام تنقید اور الزام تراشی وہ گناہ ہے جس سے خداوند متعال آسانی سے در گذر نہیں کرے گا ، اور ایسے میں گناہ کوئی کرتا ہے اور بھرنا سبھی کو پڑتا ہے "واتّقوا فتنۃ لا تصیبنّ الذین ظلموا منکم خاصّۃ"(۷) جی ہاں ایسا ہی ہے ، بعض ظلم اور نا انصافیوں کی آگ ظالم تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کی آگ دوسروں کے دامن کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ، جو لوگ اپنی رفتار و گفتار سے ، ناحق فیصلوں سے اس ظلم کا ارتکاب کر رہے ہیں، وہ اس کا خمیازہ بھگتنے کے لئیے تیّار رہیں ۔

حج ،ہمارے لئیے ایک درس ہونا چاہئیے ، خود حاجی کے لئیے بھی درس ہونا چاہئیے جسے یہ عظیم سعادت نصیب ہوئی ہے اور ہمارے لئیے بھی جو دور سے اسے دیکھ رہے ہیں اور اس کے حج کے قبول ہونے کی دعاکرتے ہیں ،خداوند متعال انشاءاللہ ہم سب کو حج کے دروس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) بقرہ:۱۸۴

(2) حج :۲۸

(3) آل عمران:۱۰۳

(4) بقرہ:۴۷

(5) بقرہ:۶۵

(6) بقرہ:۶۱

(7) انفال:۲۵