بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سب سے پہلے میں آپ عزیز جوانوں ، طالب علموں اور ایرانی قوم کے عزیز فرزندوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور اسی طرح پورے ملک کے تمام عزیز جوانوں کے لیئے میرا دلی پیغام اور دائمی درود و سلام ہے ۔
یہ جلسہ ۱۳ آبان کی مناسبت سے تشکیل پایا ہے ، ۱۳ آبان انتہائی اہم اور فیصلہ کن دن ہے ، یہ دن ایک اعتبار سے سکولوں اور کالجوں کے طلباء کا دن ہے اور ایک لحاظ سے یونیورسٹیوں کے اسکالروں کا دن ہے اور ایک لحاظ سے دشمن کی سازشوں کے مد مقابل ایرانی قوم کی استقامت اور پائیداری کا دن ہے ۔
میں اس سلسلے میں دو تین مطلب آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ، پہلا مطلب یہ ہے ، چونکہ آپ اسلامی جمہوریہ ایران کی سرافرازی کے عاشق ہیں اور اپنے آپ کو اسلام کا سپاہی سمجھتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے ، اس لئیے ملک کے مستقبل کے سلسلے میں آپ کے کندھوں پر سنگین ذمّہ داری ہے ، یہ ایک سچّے اور حقیقی مکتب کی پہچان ہے ، سب مسؤول ہیں ۔ وہ جوان بھی ذمہ دار ہیں جو ابھی عنفوان استعداد اور صلاحیّت کی منزل میں ہیں ؛صرف بوڑھے اور ادھیڑعمر کے افراد ہی مسؤول اور ذمّہ دار نہیں ہیں ، بلکہ ایک زاویہ سے جوان نسل کی ذمّہ داری زیادہ سنگین معلوم ہوتی ہے ، آخر کیوں؟ چونکہ جوان کی توانائی، اس کی شکوفائی،اس کی طاقت دوسرے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔جوان کو اپنے اندر یہ احساس بیدار کرنا چاہئیے کہ وہ ملک اور تاریخ کے مستقبل کا ذمّہ دارہے ، ذمّہ داری اور مسؤولیّت کا احساس ہی تھا جس نے مقدّس دفاع کے دوران اکثر جوانوں کو دفاع کے میداں کی طرف مائل کیا ، ورنہ یہ جوان ،گھروں میں اپنے والدین کے زیر سایہ ناز و نعمت ،آرام و سکون کی زندگی بھی گزار سکتے تھے ، وہ ہرگز سردی اور جاڑے کے موسم میں ملک کے مغرب میں برف سے ڈھکے فلک بوس پہاڑوں اور گرمی کے موسم میں خوزستان کے تپتے صحراؤں میں مشغول کارزار ہونے پر مجبور نہیں تھے ، لیکن ذمہ داری کے احساس نے انہیں آرام سے نہیں بیٹھنے دیا ، انہوں نے میدان جنگ میں قدم رکھا ، جس کا نتیجہ کسی معجزہ سے کم نہیں تھا۔
مجھے بہت شوق ہے کہ ہمارے جوان ، آٹھ سالہ تحمیلی جنگ کے خد وخال سے بخوبی آشنا ہوں ، میں نے بھی بارہا اس کی تاکید کی ہے اور دیگر افراد نے بھی اس کی تشریح اور وضاحت کی ہے ؛ عصرحاضر میں ہمارے جوان کے لئیے آٹھ سالہ جنگ پر ایک وسیع نگاہ ڈالنا اور اس کی تفصیلات اور جزئیات سے آشنائی بہت ضروری ہے تا کہ اس کی روشنی میں مستقبل کی منصوبہ بندی کی جا سکے ۔خوش قسمتی سے اس سلسلے میں بہت مفید کتابیں تحریر کی گئی ہیں ، حالانکہ مجھے فرصت نہیں ملتی لیکن میں جب بھی ان کتابوں کا مطالعہ کرتا ہوں ، خود میرے لئیے مفید ثابت ہوتا ہے ، ان کتابوں کا مطالعہ کیجئیے ، انہیں سمجھنے اور جاننے کی کوشش کیجئیے ! ان برجستہ اور ممتاز نوجوانوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کیجئیے ، میدان کارزار کی بعض ممتا ز شخصیات وہی جوان تھے جنہوں نے ۱۳ آبان کے دن اس عظیم تاریخ کو رقم کیا اور اس کے بعد میداں کارزار میں قدم رکھا، ان میں سے بعض جواں آج ہماری حقیقی تاریخ کے جاویداں چہروں میں بدل چکے ہیں ، احساس ذمّہ داری اسے کہتے ہیں ۔
خواہ وہ اس دور کا روس ہو یا امریکہ ، فرانس ہو یا یورپ کا مشرقی بلاک یا خطے کی رجعت پسند قوّتیں ، آٹھ سالہ جنگ کے دوران دنیا کی یہ تمام طاقتیں مل کر عراق کی بعثی حکومت کو پیسہ ،فوجی سازوسامان اور اطلاعات فراہم کر رہی تھیں ،ان کے مدّمقابل ایک ایسی قوم تھی جس کے پاس ،ایمان اور عزم کے اسلحے کے سوا کچھ نہ تھا ، اطلاعات کا فقدان تھا ، فوجی ساز سامان نہ ہونے کے برابر تھا لیکن اس کی قوّت ایمانی ، فولاد اور پتھّر کی چٹان کے مانند مضبوط تھی ،یہ دونوں طاقتیں ایک دوسرے کے مدمقابل صف آراء ہوئیں اور دنیا نے دیکھا کہ ایمان کی طاقت نے پیسے ،اسلحے اور اطلاعات کی عظیم طاقت کو پسپائی پر مجبور کر دیا ، یہ احساس ذمّہ داری ہی تھا جس نے اس تاریخ کو رقم کیا۔
جنگ سے پہلے ، انقلاب کے واقعہ کے دوران ، جوانوں کے عزم و ولولے نے ،ان کے احساس ذمّہ داری نے اس عظیم تاریخی معجزے کو برپا کیا جس نے اس خطے میں سامراج کے مضبوط قلعے یعنی شہنشاہی نظام حکومت کواپنے مومن اور فولادی ہاتھوں سے مسمار کر دیا اور اس کی جگہ ایک اسلامی اور عوامی حکومت کو بر سر اقتدار لائے ، احساس ذمّہ داری اسے کہتے ہیں ۔
ملک وقوم کا مستقبل ، عصر حاضر میں آپ کے احساس ذمّہ داری کا محتاج ہے ، اپنی ذمّہ داری کو محسوس کیجئیے ،اپنے آپ کو ایمان ،علم اور پرہیزگاری کے اسلحے سے لیس کیجئیے ،اپنی بصیرت اور آگاہی میں اضافہ کیجئیے ، حال و مستقبل کے سلسلے میں اپنی معلومات بڑھائیے، دس، بارہ برس کے بعد ایرانی قوم کی تقدیر آپ ، اور آپ جیسے پڑھے لکھے دیگر نوجوانوں کو ہاتھوں میں ہو گی اورآپ کو بہت سی ذمّہ داریوں کا بیڑا اٹھانا ہو گا ، آئندہ کے صدور ،وزراء مملکت ، اعلیٰ عہدیدار ، اور مختف شعبوں کی ممتاز اور منتخب شخصیّات ،آپ میں سے ہوں گی ، جن پر ملک کے مستقبل کی منصوبہ بندی ، اور اس کا نظم و نسق چلانے کے لئیے جدید نظریّات پیش کرنے کی ذمّہ داری ہوگی ۔ پلاننگ اور منصوبہ بندی کرنے اور انتظامی امور سنبھالنے والے افراد کے لئیے عالم ہونے کے علاوہ حقیقی معنی میں دیندار ، پارسا اور بصیر ہونا بھی ضروری ہے ،اس کے لئیے ابھی سے اپنے آپ کو تیّار کیجئیے ۔
آپ میری اولاد کی طرح ہیں اور اپنی اولاد کے لئیے ہر کوئی بہترین چیز کا انتخاب کرتا ہے ،میں نے بھی آپ کے لئیے بہتریں چیز کا انتخاب کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو تیّار کیجئیے ، اس قوم نے جس راستے کا انتخاب کیا ہے وہ بہت طویل راستہ ہے ، قوم کی سربلندی اور سرافرازی کا راستہ ہے ، پچھلی ایک دو صدی کی پسماندگی کو دور کرنا کوئی آسان کام نہیں ۔اپنے بیان کے بعد والے حصّے میں اس نکتے کی طرف اشارہ کروں گا کہ عصر حاضر میں آپ کی سب سے بڑی ذمّہ داری یہ ہے کہ آپ مستقبل کی منصوبہ بندی کریں اور اس کے لیئے اپنے آپ کو تیّار کریں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسلامی جمہوری نظام ، سامراجی دنیا ،امریکہ اورسامراجی بلاک کی دیگر حکومتوں کی پالیسیوں کا سخت مخالف ہے اور ان میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر اس اختلاف کی وجہ کیا ہے ؟ یہ ایک اہم نکتہ ہے ، آخر کیا وجہ ہے کہ آج جب دنیا کے تمام تجزیہ کار امریکی اقدامات کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں تو انہیں ایرانی قوم اور یہاں کے نظام حکومت سے ربط دینے کی کوشش کرتے ہیں ، آخر ایسا کیوں ؟ اور ہم بھی جب ملک کے داخلی مسائل پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس ملک و قوم کی بہت سی مشکلات امریکہ کی پیدا کردہ ہیں ۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟ کافی دقّت اور غور وفکر سے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ۔
اختلاف اور نزاع صرف چند سیاسی مسائل تک محدود نہیں ہے ، عین ممکن ہے کہ دو ملکوں کے مابین بعض سیاسی مسائل میں نظریّاتی اختلاف پایا جاتا ہو ، جنہیں مل بیٹھ کر سفارتی مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ کا اختلاف اس سے کہیں گہرا ہے ، مسئلے کی نوعیّت ہی دوسری ہے ، دونوں میں بنیادی اختلاف ہے ،اصل بات ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد ،امریکی حکومت دنیا کی مطلق العنان سپر پاور حکومت ہونے کی مدّعی تھی ، البتّہ اس دور میں سوویت یونین بھی اس کے مد مقابل تھا ،امریکہ اور روس کی دیرینہ رقابت صرف دو سپر پاور طاقتوں کے مابین رقابت تک محدود نہیں تھی بلکہ امریکہ دنیا کے تمام حیات بخش وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، مشرق وسطیٰ کے عظیم اور حسّاس خطّے ، با لخصوص شمالی افریقہ اور خلیج فارس کےتیل سے مالامال علاقہ پر عملی طور سے امریکہ کی اجارہ داری تھی ۔تیل اور پٹرول عصر حاضر میں موجودہ مشینری کو چلانے میں ''خون ''کا کردار ادا کر رہا ہے ، کل کیا ہوگا اس کی خبر نہیں ، لیکن آج کی دنیا میں تیل ، پیداوار ،روشنی اور گرمی اور بہت سے ممالک کے لئیے زندگی اور حیات کا نقش ادا کر رہا ہے ۔ اگر تیل نہ ہو تو فیکٹریاں بند ہو جائیں گی ، پیداوار رک جائے گی اور تجارت پر منفی اثر پڑے گا ، تیل اور پٹرول کو '' خون اور زندگی کا مقام حاصل ہے ، اس ثروت کا ایک عظیم حصّہ اس خطّے میں ہے جسے مشرق وسطیٰ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، امریکہ اس خطّے پر قابض تھا ۔
اس خطے کے بیچوں بیچ ایران تھا جو اس دور میں سامراج کا اصلی ٹھکانہ تھا، ایران کے اطراف میں مختلف ممالک تھے جو کسی نہ کسی طرح امریکی چنگل میں گرفتار تھے ، البتّہ بعض ممالک پر سوویت یونین بھی اثر انداز تھا ، لیکن غلبہ امریکیوں کا تھا ، اس روٹین کو باقی رہنا چاہیے تھا ، امریکیوں کی لالچی نگاہیں اس خطّے اور تیل کی دولت تک ہی محدود نہیں تھیں بلکہ لاطینی امریکہ ، افریقہ اور مشرقی ایشیا نیز دیگر مقامات پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرنے میں مصروف تھے اور مسلسل آگے کی سمت پیشقدمی کر رہے تھے ، روز بروز اپنی سلطنت کا دائرہ بڑہاتے جا رہے تھے اور ان کے رقباء دوڑ میں ان سے پیچھے چھوٹتے جا رہے تھے ، ان سب باتوں کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ، انشاء اللہ کسی مناسب موقع پر ضرور آپ کے سامنے اس کی تفصیلات بیان کروں گا ۔
عین اس وقت جب امریکی سامراج کا دائرہ اقتدار روز افزوں پھیل رہا تھا ، دنیا کے حسّاس ترین خطّے میں اسلامی انقلاب رونما ہوا جس نےظلم اور استکبار کو للکارا ، قوموں کے حقوق کے دفاع کا نعرہ بلند کیا ، اسلامی انقلاب نے اس خطّے میں سامراج کے سب سے اہم اڈے ، ایران کو اس کے چنگل سے آزاد کیا ، ایک دن وہ تھا جب امریکی ، تہران اور ایران کے دوسرے حسّاس اور اہم مقامات پر موجود تھے ، مسلّح افواج ، اقتصادی ، سیاسی اور دیگر اہم اور حسّاس شعبوں میں ان کے عناصر مسلّط تھے ، بادشاہ ایران جو اس ملک کے تمام اداروں کا سربراہ تھا وہ بھی امریکہ اور برطانیہ کے سفیروں کے گوش بہ فرمان رہا کرتا تھا اور اگر امریکی اور برطانوی کوئی بات منوانا چاہتے تو شاہ ایران کو خواہ نخواہ ان کی اطاعت کرنا پڑتی ، کبھی کبھی یہ چیز اس پر گراں بھی گزرتی تھی لیکن وہ ان کی اطاعت کرنے پر مجبور تھا ، ایک ایسی جگہ سے امریکیوں کو باہر نکال دیاگیا ، یہ انتہائی اہم واقعہ ہے ، کوئی معمولی زخم نہیں ہے ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ سامراجی حکومتیں اپنے سفارت خانوں کے ذریعہ مختلف ممالک میں زہرافشانی کرتی ہیں اور ملک دشمن عناصر سے قریبی رابطہ قائم کرتی ہیں اور جاسوسی کا جال بچھاتی ہیں ، آج بھی اسی کام میں مشغول ہیں ، عصر حاضر میں یہ کام ایک روٹین بن چکا ہے ، سفارت خانوں کے ذریعہ مختلف برائیوں اور اختلافات کو ہوا دی جا تی ہے ، امریکی بھی اسی راہ پر گامزن تھے اور اندر ہی اندر اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازشیں کر رہے تھے اور '' راہ امام کی پیرو ی کرنے والی '' طلباء کی تحریک نے ان کی سازشوں کو طشت از بام کر دیا ،سفارتخانے پر قبضہ کرتے ہوئے وہاں موجود اسناد کو اپنے قبضے میں لے لیا ، اب تک تقریبا سو جلدیں شایع ہو چکی ہیں جو انہیں اسناد پر مشتمل ہیں ، مجھے نہیں معلوم کہ آیا آپ نے ان کتابوں کا مطالعہ کیا ہے جو'' آشیانہ جاسوسی کی اسناد'' کے عنوان سے شایع ہوئی ہیں ، یہ کتابیں یقینا مطالعے کے لائق ہیں ، ملا حظہ کیجئیے کہ اس دور میں امریکی سفارت خانہ کس سرگرمی میں مشغول تھا ، کن لوگوں سے اس کے روابط تھے ،اور انقلاب سے پہلے اس سفارت خانے کا کیا کردار رہا ہے ؟
ہمارے طلباء نے اس عظیم تحریک کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ، امریکی آج بھی اس تحریک سے اپنی ناراضگی کو نہیں چھپاتے ، نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اس عظیم واقعہ کو رقم کرنے والے بعض افراد آج اس پر اظہار ندامت کر رہے ہیں یقینا ایسے افراد تھکاوٹ اور خواہشات نفسانی کا شکار ہیں ، اپنی نفسانی خواہشات کی پیاس بجھانے کے لیے بعض کاموں کو انجام دیتے ہیں اور آرام اور سکون کی زندگی کی تلاش میں ان کی یہ خواہشات بدل جاتی ہیں اور اپنے کیے پر اظہار ندامت کرتے پھرتے ہیں ، ایسے ہی کچھ افراد آج اس واقعہ پر ندامت کا اطہار کر رہے ہیں ،لیکن آپ جان لیجیے ! کہ یہ انتہائی اہم کام تھا اور جیسا کہ امام امت (رہ) نے فرمایا '' یہ تحریک ،انقلاب کی پہلی تحریک سے بھی بڑی تحریک تھی''چونکہ اس تحریک نے ایرانی اور عالمی سطح پر امریکی سامراج کے رعب اور ہیبت کو چکناچور کر دیا۔
ایسا عظیم واقعہ رونما ہوا ، یہ کوئی معمولی زخم نہیں ہے ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اسلامی اور انقلابی نظام حکومت کی بقا، مقدّس دفاع ،علمی ،سیاسی ،ثقافتی اور دیگر مختلف شعبوں میں اس کی حیرت انگیز پے در پے فتوحات نے دیگر قوموں پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے ،اس خطّے کی دیگر اقوام نے جب اس واقعہ کو دیکھا تو گویا ان کے دل کی آواز ،لباس حقیقت پہنے ان کے سامنے کھڑی تھی ،لہٰذا اس خطّے کی دیگر قومیں اس انقلاب اور اس کے قائد (رہ) کی دل وجاں سے عاشق ہو گئیں ،اور آج بھی ایسا ہی ہے ، آج بھی ساری مسلمان قومیں اسلامی انقلاب اور ایرانی قوم کو قدرو تحسین کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور بجا طور پر اس پر فخر و مباہات کرتی ہیں ، اس بات نے امریکیوں کے زخموں پر مزید نمک چھڑک دیا ہے ، امریکی حکومت کی ایران سے مخالفت کی بنیادی وجہ یہی ہے ۔
امریکہ چاہتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، دست بردار ہو جائے ، ہاتھ اٹھا لے ، اپنے کیے پر پشیمانی اور ندامت کا اظہار کرے ، ان کے زرخرید غلاموں ، ان کی آغوش کے پروردہ عناصر کی طرح طاغوتی نظام کی پیروی اختیار کر لے ۔ سامراجی نظام آج ہم سے یہ مطالبہ کر رہا ہے ، امریکہ ہم سے اس چیز کا مطالبہ کر رہا ہے کہ ایرانی قوم استقلال کے راستے کو خیر آباد کہہ کر اس سے وابستگی اختیار کر لے اور دو بارہ اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے ،وہ ایرانی قوم سے یہ آس لگائے بیٹھا ہے ، اور طرح طرح سے دباؤ ڈالنے کا اصل مقصد بھی یہی ہے تا کہ اسلامی جمہوریہ اور ایرانی قوم کو تھکایا جا سکے اور ایرانی قوم اپنے منتخب راستے پر چلنے سے تھک ہار کر یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ بس ، بہت ہو چکا ، ہم تھک چکے ہیں ،اور حکومت بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے تاکہ امریکہ دوبارہ ایرانی قوم سے وہی پرانہ نازیبا سلوک روا رکھ سکے جو انقلاب سے پہلے اس نے ایرانی قوم سے روا رکھا تھا اور آج بھی بعض دیگر ممالک سے وہی برتاؤ کر رہا ہے ، امریکہ ہمیں وابستہ دیکھنا چاہتا ہے ۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام حکومت اور یہاں کے عوام کے نقطہ نگاہ سے بھی دشمنی کی جڑیں بہت گہری ہیں ، ایرانی قوم اور امریکہ کی دشمنی کوئی آجکل کی بات نہیں ہے بلکہ اس کی تاریخ ،نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے ۔
۱۳۳۲ ھ۔ش سے لے کر دور حاضر تک ، انقلاب کی تحریک سے برسوں پہلے ، بالخصوص جب امام خمینی (رہ) کی قیادت میں اسلامی تحریک کا آغاز ہوا تب سے لے کر آج تک امریکہ نے ایرانی قوم کے خلاف سازشوں اور خیانتوں کا بازار گرم کر رکھا ہے، اس انقلاب پر ضرب لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اس انقلاب کو نقصان پہنچانے کے لئیے طرح طرح کے سامراجی ہتھکنڈوں کو بروئے کار لا رہا ہے ، اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد کے تیس برسوں میں ایک بھی ایسی گھڑی نہیں آئی جب امریکہ نے ایرانی قوم کے ساتھ نیک نیتی پر مبنی کوئی قدم اٹھایا ہو اور اپنے کیے کی معافی مانگی ہو اور سچے دل سے ایرانی قوم کے سلسلے میں اپنے استعماری منصوبوں سے دست بردار ہو ا ہو ۔
امریکہ سے ہمارا اختلاف صرف اتنا نہیں ہے کہ ہمارے مابین دو عالمی یا خطّے کے بعض مسائل میں نظریاتی اختلاف پایا جاتا ہے جنہیں مل بیٹھ کر آپسی مذاکرات کے ذریعہ حل کیا جا سکتا ہے بلکہ ہمارا مسئلہ موت و حیات کا مسئلہ ہے ، ہست و نیست کا مسئلہ ہے ۔ آ پ اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ ہم اہل جنگ و جدال نہیں ہیں لیکن ہم اپنی شناخت ،اپنی عزت اور استقلال کا سودا نہیں کر سکتے ۔جو قدم ایرانی قوم کی عزت کو پائمال کر نے کے لئیے آگے بڑھے گا ہم اسے قلم کر دیں گے ، جو ہاتھ اس قوم پر پنجہ جمانے کے لئیے آگے بڑھے گا ایرانی قوم اپنی غیرت اور ایمان کے بل بوتے پر اسے کاٹ ڈالے گی ۔
تیسرا مطلب جو نہایت اہمیّت کا حامل ہے یہ ہے کہ آخر اس صف آرائی اور مقابلے کا سرانجام کیا ہو گا؟مغرب اور امریکہ کی پروپیگنڈہ مشینری ، با لخصوص امریکہ ، اس کی تبلیغاتی ، مطبوعاتی اور بظاہر سیاسی اور تحقیقاتی ادارے یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ ایرانی قوم کے لیے یہ راستہ مسدود ہے اور امریکہ اپنا راستہ جاری رکھنے میں کامیاب ہو جائے گا ، یہ سراسر جھوٹ ہے ، بلکہ صورتحال بالکل اس کے بر عکس ہے ، اس راہ کا سر انجام امریکہ کی سامراجی اور طاغوتی حکومت کے لئیے مسدود ہے ، اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایران کو شکست دینے پر قادر ہوتے تو یقینا اس دن ایسا کرتے ،جب ایرانی قوم کے ہاتھ خالی تھے ، اس کے پاس اتنے جوان نہیں تھے ، اس نے ابھی اتنی پیشرفت اور ترقّی نہیں کی تھی ، نہ اتنی تجربہ کار تھی ، جنگ میں کامیابی کا مزہ نہیں چکھا تھا ۔ مختلف ،سیاسی ، ثقافتی اور علمی میدانوں میں قدرت نمائی نہیں کی تھی ، نہ آج، جبکہ ایرانی قوم ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تجربہ کار ہے ، اس کے ہاتھ مضبوط ہیں ، اس کی فوجی طاقت ماضی کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے ، قوموں میں اس کی زبان کا نفوذ بھی کہیں زیادہ ہے ، اور وہ جوانی کی نعمت سے سرشار ہے ، اس دن اس کی چار، ساڑھے چار یا پانچ کروڑ کی آبادی میں جوان اقلیت میں تھے لیکن آج الحمد للہ سات کروڑ کی آبادی میں اکثریّت جوانوں پر مشتمل ہے ، اس دن امریکہ کو آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، لیکن آج امریکہ رسوائے زمانہ ہے ، آج نہ صرف مسلمان قومیں بلکہ بہت سی مغربی قومیں بھی امریکہ سے نالاں اور گریزاں ہیں ، خود امریکہ میں بھی بہت سے صاحب نظر اور عام لوگ ، امریکی حکومت کی پالیسیوں سے متنفر اور ان پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں ۔
آج امریکہ کے حقوق بشر اور جمہوریّت جیسے کھوکھلے نعروں کی پول کھل چکی ہے جن کی آڑ میں وہ قوموں کے سر قلم کرتا تھا اور منتخب حکومتوں کو اقتدار سے محروم کیا کرتا تھا ۔ ابو غریب ، گوانٹانامواور ان جیسی متعدد جیلوں نے امریکی حقوق بشر کی قلعی کھول دی ہے ، آج امریکہ ،پاکستان اور افغانستان میں جو خون کی ہولی کھیل رہا ہے اس سے اس کے حقوق بشر کی حقیقت سب پر عیاں ہو چکی ہے ، اپنی جمہوریّت کی حقیقت وہ مقبوضہ فلسطین میں دکھا رہا ہے جہاں حماس کی منتخب حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئیے طرح طرح کی چالیں چل رہا ہے ، کیا حماس کی حکومت عوام کی منتخب حکومت نہیں ہے ؟ اس کا ایک نمونہ آپ عراق میں بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں ،طاقت اور زور کے بل بوتے پر '' سلامتی معاہدے '' کو اس پر مسلط کیاجا رہا ہے ، عراقی حکومت کا گلا اس قدر گھونٹا جا رہا ہے کہ دم نکلنے کے قریب ہے ، اب جب کہ عراقی قوم اور وہاں کی حکومت نے واضح الفاط میں اس معاہدے کی مخالفت کا اعلان کر دیا ہے ،دن بدن اس پر دباؤ بڑھاتے جا رہے ہیں دھمکیوں میں اضافہ کرتے جارہے ہیں ، حالانکہ عراق کی موجودہ حکومت وہاں کے عوام کے ووٹوں اور انتخاب سے بر سر اقتدار آئی ہے ، پس جمہوریّت کا کیا مطلب رہ جا تا ہے ؟ کیا جمہوریت اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا نام ہے ؟ ان کے صاحب نظر افراد اور تجزیہ کار وں نے گزشتہ برسوں میں بار ہا اس بات کا اعادہ کیا ہے اور اپنی تحریروں میں بھی منعکس کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطّے میں جمہوری ترین ملک ، اسلامی جمہوریہ ایران ہے ، جہاں انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے ،صدر جمہوریہ ، پالیمینٹ کے اراکین ، قائد اور خبرگان کونسل کے اراکین ،عوام کے ووٹوں کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں ، اس بات کے معترف ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے رویے پر نظر ثانی نہیں کرتے ۔ جمہوریت اور حقوق بشرجیسے کھوکھلے نعروں کی چمک اب ماند پڑ چکی ہے ، صاحبان فکر و نظر اور ممتاز شخصیات کی بات رہنے دیں ،خود قوموں کا اس پر سے اعتقاد اور یقیں اٹھ چکا ہے ۔
امریکی صدر دنیا کے جس ملک میں بھی قدم رکھتا ہے وہاں کے عوام اس کے خلاف سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ان کے لبوں پر ایک ہی آواز ہوتی ہے ، اپنے گھر لوٹ جاؤ ! امریکی ! اپنے گھر پلٹ جا ، اس سے بڑھ کر کیا رسوائی ہو سکتی ہے ؟ آج امریکہ کی آبرو کا یہ عالم ہے ، اگر امریکہ ایرانی قوم کا راستہ روکنے پر قادر ہوتا تو یقینا اس روز ایسا کرتا جب وہ اس رسوائی سے دوچار نہیں تھا،آ ج وہ ایسا کرنے پر ہرگز قادر نہیں ہے ۔
میں ،آ پ سے عرض کردوں ، عزیز جوانو! مستقبل آپ کا ہے ، آنے والا کل ایرانی قوم کا ہے ۔، ایرانی قوم کا مستقبل ، علم ،اقتدار اور شرف وعزت کی بشارت دے رہا ہے ،یہ آپ کا یقینی اور حتمی مستقبل ہے ، یہ خدا کا وعدہ ہے ؛ قرآن نے ہم سے وعدہ کیا ہے ، اسلام نے ہمیں یہ بشارت دی ہے کہ اگر قومیں ، ایمان ، غیرت اور استقامت کا مظاہرہ کریں تو یقینا وہ اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی ، ہم نے آج تک اس نسخے کو آزمایا ہے ،ہم نے صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور درمیانی مدّت کے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ، بعض جگہوں پر ہمیں کامیابی نہیں ملی چونکہ ہم نے وہاں صبر و استقامت کا مظاہرہ نہیں کیا ، قصور ہمارا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ میں ملکی مسائل اور مشکلات سے بے خبر ہوں ، میں بخوبی واقف ہوں ، جہاں کہیں بھی کوئی مشکل پائی جاتی ہے ، اگر بے عدالتی اور فقر ہے تو اس لیے ہے کہ ہمارے حکام اور عوام نے اس ہدف کے حصول میں استقامت و پائیداری کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ اگر ہم نے صبر و استقامت سے کام لیا ہوتا تو یقینایہاں بھی ہمیں کامیابی حاصل ہوتی ، قصور ہمارا اپنا ہے ، ہمیں استقامت اور صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئیے تھا ۔
آپ یہ بات اچھی طرح جان لیجئیے کہ عصرحاضر میں ایرانی قوم اور حکومت ، اور ملک کی ذمّہ دار شخصیات کا اتحاد ، کامیابی کا راز ہے ۔ دشمن اس میں رخنے ڈالنے کے در پے ہے ۔ مجھے جوانی اور جوانوں کے احساسات اور جذبات پر پورا بھروسہ ہے لیکن ایسے اقدامات سے گریز کریں جو آپسی اختلاف ،اور دشمن کے منصوبوں پر عمل در آمد کا باعث بنیں ، دشمن کے بنائے ہوئے میدان میں کھیلنے سے گریز کریں ، اس سے خبردار رہیں، سبھی ہوشیار رہیں ، سیاسی افراد ، اخبارات اور جرائد ، جوان اور ملکی ذمّہ دار حضرات ،الغرض سبھی کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔
دشمن مختلف منصوبے بنا رہا ہے ، اس میدان میں کھیلنے سے اجتناب کریں جو دشمن نے تیار کیا ہو چونکہ کامیابی یا شکست، دونوں صورتوں میں فائدہ دشمن کا ہی ہوگا ، دشمن کا منصوبہ یہ ہے کہ آپ لوگوں میں اختلاف ڈالے اور آپ کے درمیان ناامیدی اور مایوسی کی فضا پیدا کرے اور سیاست کے میدان میں سرگرم اور فعّال افراد کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کرے ، انقلاب کے اصلی خط اور اسلامی قدروں کوگوشہ نشینی پر مجبور کردے ،یہ دشمن کے منصوبے ہیں ، جوانوں کو لہو و لعب اور خواہشات نفسانی میں اسیر کرنا ، انہیں ایرانی عوام کی تحریک سے بیگانہ کرنا ، مدارس اور کلاسوں کی تعطیلی ، یہ سب دشمن کے منصوبے ہیں ، ان سے ہوشیار رہیے،ہر اس کام کی مخالفت کیجئیے جو دشمن کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں مددگار ہو ، اپنے اتحاد اور یکجہتی کو برقرار رکھیے ، امید کی کرن جگائے رکھیں ، دن بدن اپنی کاوشوں میں اضافہ کرتے رہیں ،دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لائیں ، دلی خلوص کی فضا کو حکفرما کیجئیے ، مختلف سماجی معاشرتی ذمّہ داریوں کی ادائگی میں جوش و ولولے کی فضا کو مو ج زن کیجئیے ۔
بعض افراد نے ابھی سے الیکشن کے مسائل کو چھیڑ دیا ہے حالانکہ اس میں ابھی کافی وقت باقی ہے ، ان لوگوں نے جلد بازی سے کام لیا ہے ، لیکن الیکشن کا مسئلہ انتہائی اہم مسئلہ ہے ۔ الیکشن کے نزدیک اس کی اہمیّت ، لوگوں کی مشارکت اور حصہ داری کے اعتبار سے ہے لیکن آ ج اس کی اہمیّت اس اعتبار سے ہے کہ آپ ہوشیار رہیں ، کہ کہیں آپ، بلا وجہ کی سیاسی چپقلشوں ، ایک دوسرے پر الزام تراشی اور بد گوئی میں پھنس جائيں اورآپ کی توجہ ملک کے اصلی مسائل سے ہٹ جائے ۔
میں جانتا ہوں کہ ایرانی قوم ، خداوند متعال کے فضل و توفیق کے سائے میں ان رکاوٹوں کو یکے بعد دیگرے پار کر لے گی اور انشاء اللہ ایک نا ایک دن عزت اور اقتدار کی چوٹیوں کو فتح کر لے گی ۔
پروردگارا ! امام زمانہ حضرت ولی عصر (عج) کے قلب مقدس کو ہمارے اوپر مہربان فرما ،ان کی دعاوں کو ہمارے شامل حال فرما ، ہمارے عزیز امام (رہ) اور گرانقدر شہداء کو ان کے اولیاء کے ساتھ محشور فرما ، اور ہم سب کو صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عنایت فرما ۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ