ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا یونیورسٹیوں کےسربراہوں اوراساتذہ سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہم سب سے پہلے آپ تمام برادران وخواہران کو خوش آمدید کہتے ہیں اسی کے ساتھ ہم ان دوستوں کے مشکورہیں جنہوں نے یہاں تشریف لا کر مختلف موضوعات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ڈاکٹر لاریجانی صاحب کے بھی ہم مشکور ہیں جنہوں نے اس اجلاس کا اچھا انتظام کیا ہے۔

ماضی میں ہرسال منعقد ہونے والی اس نشست اوراس جیسی دیگرنشستوں میں، میں باربارکہتا رہا ہوں کہ ہمارے اس سالانہ اجلاس کا ایک علامتی پہلو ہے اوروہ یہ ہے کہ یہ نشست اسلامی نظام کی طرف سےملک کے محققین اوریونیورسٹی پروفیسرز کے احترام کی جلوہ گرہے لیکن یہ تصور ہرگز نہ کیا جائے کہ یہ صرف ایک علامتی اجلاس ہے بلکہ قوی امید ہے کہ اس نشست میں متعدد موضوعات پر جو تبادلہ خیال ہوگا وہ علمی وسائنسی شعبہ میں ترقی کے لئے مناسب اقدامات اٹھانے کے سلسلہ میں اسلامی نظام کے پالیسی سازعہدہ داروں خاص طورسے ہمارے لئے جویہاں موجود ہیں نیز یہاں بیٹھے محترم وزراء اوردیگرعہدہ داروں کے لئے رہنما ثابت ہوگا اسی لئے ہم نے عرض کیا تھا کہ "ہم سننا چاہتے ہیں" یہ بات طے ہے کہ جن پروفیسرحضرات نے یہاں تقریر کرنے کا ارادہ کیا ہوگا انہوں نےپہلےملک میں تعلیم اوریونیورسٹیوں کی موجودہ پوزیشن کا مجموعی طورپر جائزہ لیا ہوگا اورپھرجوقابل ذکربات ان کے ذہن میں آئی ہوگی اسی کو یہاں بیان کیا ہوگا اس اجلاس میں ہمیں یہی توقع ہے۔ یقیناً اچھے خیالات ہی کا اظہارکیا گیا ہے۔

سائنس وتحقیق نیزیونیورسٹی سے مربوط دوسرے امورکوہم کیوں اس قدر اہمیت دیتے ہیں؟ اس لئے کہ ہم پسماندہ ہیں، ہمیں پسماندہ رکھا گیا ہے اوراس لئے کہ ہماری عزت، ترقی اورقومی واسلامی شناخت اسی شعبہ میں لگن اورمحنت سے کام کرنے پرمنحصرہے یہ اس کی وجہ ہے۔ ہم میں اوراس ملک میں فرق ہے جس کا تمدن فرض کیجئے کہ زیادہ پرانا نہیں ہے ہمارے ہی خطہ میں بعض ممالک ایسے بھی ہیں جن کو ملک بنے ابھی سوسال بھی نہیں ہوئے ہیں سوسال پہلے جن کے نام سے موجودہ کیفیت والی کسی جغرافیائی سرحدکا وجود ہی نہ تھا اورہمارے اسی خطہ میں بعض ایسی اقوام بھی ہیں جن کی کوئی قابل ذکرتاریخ ہی نہیں ہے دنیا کے دیگرخطوں لاطینی امریکہ ، یورپ اوردیگرعلاقوں میں بھی اس قسم کے ممالک موجود ہیں لیکن ہمارے ملک اور قوم دونوں ہی کی اپنی شناخت رہی ہے ہماری تاریخ پرانی ہے، ہمارا اپنا ماضی ہے ہم حالیہ دورمیں وجود میں نہیں آئے ہیں ہم اپنے ماضی سے بھی روشنی لے سکتے تھے اورروشنی لینی چاہئیے تھی اسلام کے بعد پانچویں، چھٹی، ساتویں ہجری تک اس ملک کی علمی ترقی پراگرنظرکیجئے تو اندازہ ہوگا کہ اگر ہم اسی انداز سے آگے بڑھتے رہتے تو اس وقت سب سے آگے ہوتے لیکن ہم اس انداز سے آگے نہیں بڑھے! کیوں؟ اس کے لئے تحقیق کی ضرورت ہے حکومتیں بدعنوان تھیں لوگوں میں حوصلے کم تھے اورپھرحالیہ دوصدیوں میں باہری علل واسباب بھی مؤثرواقع ہوئے اورآخرکارحقیقت یہی ہے کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اسی انداز سےترقی نہیں کی بلکہ تنزلی بھی اختیارکرتے رہے ہیں۔

اب ہم اس خامی کودورکرنا چاہتے ہیں اب ہمارے پاس ایک لائق اور قابل حکومت ہے قوم بھی بیدار ہے ہمارے پاس میدان علم کی شہسوار اورممتاز شخصیات ہیں اب ہم جبران کرنا چاہتے ہیں تو یا منصوبہ بندی کی سند کو ہم ایک اعزازی سند قرار دیکر جیب میں رکھ لیں اور کبھی کبھار اس کو نکال کر ہاتھ میں رکھ لیں یا ایسا نہ کریں بلکہ اس کو دستور العمل کے طور شمار کر کے اس کے ایک ایک حصہ پر عمل کریں ۔ اگرہم فیض پہنچاناچاہتے ہیں، خطہ کے لئے علمی مرکز بننا چاہتے ہیں تواس کا حل ہے اس کا حل دراز مدت منصوبے میں ہمیں معین نہیں کرنا چاہیے اسے مجریہ کے عہدہ داروں کو طے کرنا ہوگا ہماری یہی تاکید ہے ہم چاہتے ہیں کہ سائنسی وتحقیقاتی شعبہ میں یہ سند پوری طرح عملی شکل اختیار کرلے اور اس پراتنی زیادہ اہمیت دینے کی اصل وجہ یہی ہے۔

اس باب میں کچھ ضروری چیزیں ہیں جنہیں میں وقتاً فوقتاً اس طرح کی نشستوں میں پیش کرتا رہتا ہوں آج بھی اسی ذیل میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں:

ایک بات جامع علمی نقشہ سے متعلق ہے میں نے یہ بات یہاں عرض کرنے کے لئے نوٹ کررکھی تھی خوش قسمتی سے میں نے دیکھا کہ تین چار مقررین نے اپنی تقاریرکے دوران اسی جامع علمی نقشہ پرروشنی ڈالی ہے ڈاکٹر لاریجانی صاحب نے جو بیان دیا ہے وہ اس بات کا غماز ہے کہ اس جامع علمی نقشہ کو تیار کرکے سامنے لانے اوراسے مستقبل کے علمی منصوبوں کے لئے دستورالعمل بنانے کے سلسلہ میں کوششیں کی جارہی ہیں یہ ایک اچھی خوشخبری ہے البتہ ان کی زبانی سننے سے ہٹ کے مجھے ایسی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی میرے پاس کوئی ایسی اطلاع ہے مجھے خبرہے کہ ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل اس پر کام کررہی ہے یعنی کچھ کمیٹیاں اس کام پر لگی ہوئی ہیں لیکن ہمیں جوتوقع ہے ہمارے خیال سے جو ہونا چاہئے وہ یہ نہیں ہے کہ اس کام میں دیر ہوتی رہے ایک دوسال ہم بیٹھے رہیں اورآخرکارایک جامع علمی نقشہ بنا ہی ڈالیں جی نہیں ، ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے برجستہ، ممتازافراد اورماہرین بیٹھ کراس کام کومکمل کر ڈالیں اورایک پختہ اورکامل نقشہ بناڈالیں جس کے مطابق یونیورسٹیوں کے لئے اورملک کے مستقبل کے لئے علمی منصوبے تیار کئے جا سکیں میں یہیں پرمحترم وزراء سے بھی اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل کے عہدہ داروں سے بھی تاکید کررہا ہوں کہ اس کام پر لگ جائیں۔

ہم اگردراز مدت سند کو عملی شکل دینا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک کے لئے جس سائنسی مرکزیت کی پیشین گوئی کی گئی ہے وہ حاصل ہوجائے توہمیں یہ سارے کام کرنا ہوں گے جن میں سب سے اہم جامع علمی نقشہ کی فراہمی ہے۔ اعلان کردہ مقاصد اورنعرے جوآج بحمداللہ علمی محفلوں میں ایک اصول کےطورجانے جارہے ہیں انہیں عملی شکل دینے کے سلسلہ میں یہ ایک اہم قدم اورایک اہم باب ہوگا۔

دوسری بات محترم اساتذہ سے مربوط ہے اوروہ یہ ہے کہ اساتذہ کا ایک اہم کام شاگردوں کی تربیت ہے یونیورسٹی سے باہراستاد کی اہمیت وقیمت اس کے شاگردوں کی بدولت ہوتی ہے ہمارے حوزات علمیہ میں ایسا ہی ہوتا ہے وہاں اس استاد، اس ماہر فقہ، اس ماہر اصول اوراس ماہرفلسفہ کی اہمیت دوسروں کی نظروں میں زیادہ ہوتی ہے جس کے وجود کی برکتیں اس کے برجستہ شاگردوں کی شکل میں نظرآرہی ہوں شاگرد تیار کیجئیے بی اے یا اس سے اوپر کی کلاسوں میں جو لوگ آپ کا لیکچر سننے آتے ہیں آپ ان کے استاد کی حیثیت سے ان کے سامنے آتے ہیں انہیں آپ تقریر یا مجلس کا سامع نہ سمجھئیے انہیں آپ گیلی مٹی سمجھئیے جس سے آپ برتن بنانا چاہتے ہیں یہ بات الگ ہے کہ سب کی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی سب کو شوق بھی ایک جیسا نہیں ہوتا ہر جگہ حالات بھی ایک جیسے نہیں ہوتے لیکن میری نظرمیں استاد کے سامنے یہ ایک اہم ہدف ہونا چاہئیے آپ اپنا جائزہ لیجئیے کہ آپ نے کتنے شاگرد تیار کئے ہیں شاگرد صرف وہی نہیں ہوتا جو کلاس میں آکر بیٹھ جائے بلکہ شاگرد وہ ہوتا ہے جس کی شخصیت آپ کے ہاتھوں تعمیر ہو اورپھر اسے ایک مفید علمی شخصیت کے بطورعلمی دنیا کے سپرد کردیا جائے۔

یونیورسٹیوں میں اساتید کی حاضری کی جانب بھی میں یہیں پر اشارہ کرتا چلوں اب تو یونیورسٹی کا قانون بن گیا ہے کہ ہفتہ کے معینہ گھنٹوں میں اساتذہ کا یونیورسٹی میں حاضر رہنا لازمی ہے یہ بہت اہم ہے اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہئیے ایک بات گذشتہ تین چارسالوں میں، میں باربار کہتا آیا ہوں اتنا کہہ چکا ہوں کہ اب دہرانا نہیں چاہتا استاد کا طالب علم کے ساتھ بیٹھنا اس کے سوالوں کا جواب دینا یعنی استاد اورطالب علم کا آپسی تعلق صرف کلاس تک ہی محدود نہ ہو بلکہ طالب علم کو موقع ملنا چاہئیے کہ وہ استاد کے پاس آئے اس سے کچھ پوچھے کسی بات کی مزید وضاحت چاہے زیادہ کچھ سیکھے بلکہ استاد چاہے تو اپنے کمرے میں طالب علم کو کوئی اہم اورفیصلہ کن مسئلہ سمجھا دے اسے کوئی کام دے دے اسے کسی سائنسی یا تحقیقاتی مشن پر لگا دے اور یہ سب اس بات پر منحصر ہے کہ استاد یونیورسٹی میں موجود رہے کبھی ہم کہا کرتے تھے کہ ہمارے پاس اساتدہ کم ہیں لیکن آج بحمداللہ ملک میں اچھے اساتدہ کی کمی نہیں ہے طلبہ کی نسبت اساتذہ کی تعداد اچھی ہے قابل قبول ہے میرے خیال سے اس چیز کو اہم سمجھنا چاہئیے کلاس میں طالب علم کی تربیت جو میری نظر میں شاگرداورممتاز شخصیت کی تربیت ہے اس نعمت کا حصول اساتذہ کی طرف سے یونیورسٹی میں چند گھنٹے جیسا کہ قانون بن گیا ہے چالیس گھنٹے دینے پر منحصرہے مطلب یہ کہ اساتذہ شاگردوں کی تربیت کوسنجیدگی سے لیں اوراسے اہمیت دیں۔

ایک اور بات جسے کئی بار کہہ چکا ہوں لیکن یہ اتنی اہم ہے کہ پھرسے کہنا چاہتا ہوں اوروہ تحقیق اورریسرچ ہے؛ ہم نے حکومتی اہلکاروں کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں بھی اس سلسلے میں تاکید کی ہےبعض حکام سےمثلاً خودصدرجمہوریہ سےخصوصی نشستوں میں بھی ہم اس بارے میں کہتے رہے ہیں لیکن اس ذیل میں کچھ خود یونیورسٹیوں سے مربوط ہے انہیں چاہئے کہ تحقیقاتی کاموں کے لئے سہولیات ٹھیک سے حاصل کریں انہیں صحیح ڈھنگ سے استعمال کریں اورمناسب جگہ کام میں لائیں اس لئے کہ تحقیق تعلیم کی شہ رگ ہے ہم اگر تحقیق پر توجہ نہ دیں توہمیں پھرسے سالوں تک باہری مراکز کا دست نگررہنا پڑے گا کہ دنیا کے کسی کونہ میں کوئی شخص کوئی تحقیق انجام دے تو ہم اس سے اس کی کتابوں سے اور اس کی تحقیق سے فائدہ اٹھائیں اور یہاں اس کی تعلیم دیں یہ کوئی بات نہ ہوئی ، اس کا نام انحصاراوروابستگی ہے یہ وہی ترجمہ پرستی ہے اسی کا نام کسی ملک یا کسی یونیورسٹی کا دوسروں سے وابستہ ہونا ہے کسی ملک کی یونیورسٹیاں نیزکسی ملک کے علمی مراکزباقی دنیا سے اپنے علمی تعلقات محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ علمی مبادلات اورعلم حاصل کرنے کو عیب نہیں سمجھتے میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ کسی کی شاگردی اختیار کرنا ہمارے لئے باعث عار نہیں ہے کوئی استاد ہو توہم اس کے سامنے زانوئے ادب تہ کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن یہ چیز باعث عار ہے کہ ہم ہمیشہ شاگرد ہی بنے رہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے، ایک علمی ادارہ کے لئے یہ بات تنزلی کا سبب ہے کہ وہ علمی ترقی کے سرچشمہ یعنی تحقیق وریسرچ میں کمزورہو اسے علمی لحاظ سے اپنے سہارے کھڑا ہونا چاہئیے دوسروں سے فائدہ اٹھائے ان کے ساتھ علمی مبادلہ کرے لیکن علمی مبادلات کی دنیا میں وہ اسی صورت میں اپنا مناسب مقام حاصل کر پائے گا جب اس کا سہارا خود اس کا علم، اس کی تحقیق اوراس کی علمی کارکردگی ہوگی اس چیز کا دنیا میں اور علمی مبادلات میں بھی اپنا ایک اثرہوگا توتحقیق کے سلسلہ میں یہ ہماری مکررتاکید ہے۔

یونیورسٹیوں میں"نمایندگی رہبری" ادارہ کے اراکین بھی چونکہ یہاں موجود ہیں لہذاچند جملے ان کے لئے بھی عرض کرنا چاہوں گا:

جوعلماء حضرات "نمایندگی رہبری" ادارہ کی یونیورسٹی برانچ کے اراکین کے بطور جانے جاتے ہیں انہیں خود کویونیورسٹی میں دینی ماحول کے ارتقاء کواپنی اصل ذمہ داری سمجھنا چاہئے ہم یونیورسٹی انتظامیہ اور ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل سے مکرر کہتے رہے ہیں کہ یونیورسٹی اوریونیورسٹی کے ماحول کو مذہبی بنانے کے لئے ان کے کندھوں پراہم ذمہ داریاں ہیں یہ اپنی جگہ صحیح بھی ہے لیکن اگرساری ضروری تیاریاں مکمل ہوں مگر یونیورسٹی میں تعینات عالم دین طلبہ کے لحاظ سے عمیق، اصیل، مدلل اورقابل تعریف دینی فکرکا مرکز نہ ہو تو وہ ساری تیاریاں ادھوری رہ جائیں گی یونیورسٹی کے ماحول میں لگاتارجدید اورمدلل دینی افکار پیش کرتے رہنے کی ضرورت ہے اورطلبہ کی دینی فکر کوارتقاء دیجئے صرف دیندار، مذہبی اورحزب اللہی طلبہ ہی کو اپنا مخاطب نہ سمجھئے وہ تو ہیں ہی اسی کے ساتھ ملک کے تمام طلبہ آپ کے مخاطب ہیں وہ لوگ بھی آپ کے مخاطب ہیں جن کے دل میں دین سے چڑھ ہے انہیں قریب لانے کی ضرورت ہے مضبوط منطق، خوداعتمادی اوراس منطق ہی کے سہارے دلوں کو اپنی جانب کھینچاجاسکتا ہے مخالفتیں کم کرنے اورکئی جگہ ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

کلمبیا یونیورسٹی کی جومثال دی گئی ہے،وہ اچھی مثال ہے انصاف کی بات یہی ہے کہ مضبوط منطق، خودپرکنٹرول یعنی اچھے حوصلہ، خوداعتمادی نیزمنطق کے سہارے نے اپنا کام کردیا واضح سی بات ہے کہ ساری تیاریاں کی گئی تھیں بیس سے زیادہ امریکی ویورپی ٹی وی چینل وہاں کاپروگرام براہ راست نشرکرنے کے لئے موجود تھے اورپھرانہوں نے جوکیا افسوس کے اس یونیورسٹی کے سربراہ نے جو برتاؤ کیا حقیقت یہی ہے کہ ایسا برتاؤ کسی یونیورسٹی سے جڑی شخصیت بلکہ ایک عام معزز شخص کا بھی نہیں ہوسکتا توواضح تھا کہ سامنے والے کو غصہ دلانے یا اسے شرمندہ کرنے کی باقاعدہ تیاریاں کی گئی تھیں تاکہ اسے جذباتی کرکے انہیں سیاسی وابلاغی شورہنگامہ کے لئے ہمیشہ کے واسطے ایک سند مل جائے لیکن خدانے اس سب پرپانی پھیردیا اورجو وہ چاہتے تھے بحمداللہ اس کے بالکل برعکس ہوگیا اورآپ نے دیکھا کہ انہوں نے خود اس کا اعتراف کیا ہے میرا ماننا ہے کہ اس واقعہ کا اثر اس ملک کی یونیورسٹیوں سے اتنی جلدی ختم ہونے والا نہیں ہے ایک سوال، ایک مسئلہ اورایک واقعہ بن کر کہ "ہوا کیا تھا؟" اس کہانی کا تذکرہ وہاں باقی رہے گا۔

وہاں اسلامی جمہوریہ کی منطق بیان کی گئی دین کی منطق بیان کی گئی علم کے بارے میں اسلام اوردین کا نقطہ نظرپیش کیا گيا، علم کا نورہونا اس نورکی بخشش خداکے ہاتھ میں ہونے جیسے اچھے موضوعات پر گفتگوکی گئی وہ لوگ غلطی پر ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ جب وہ فرنگی امریکی یا یورپی ماحول میں ہوں توان کی وہی باتیں دہرادیں جنہیں وہ سو دوسوسال سے سنتے آرہے ہیں اورپھراپنے آپ سے کہیں اس بات میں کیا وزن ہے وزن تواسلام کی باتوں میں ہے۔

اس وقت واقعاً فکری دنیا میں جنہیں عقل وفکر سے واسطہ نہیں ہے ان کی بات نہیں کررہے ہیں مغربی دنیا کے اندرایک خلاء محسوس کیا جارہا ہے اب اس خلاء کو لیبرل ڈیموکریسی پرکرنے سے قاصر ہے سوشلزم بھی اسے پر نہ کرسکا اسے بس ایک انسانی اورروحانی منطق ہی پر کرسکتی ہے جو کہ اسلام کے پاس ہے مرحوم ڈاکٹر زریاب جو یونیورسٹی کے ماہراستادبھی تھے اور اچھے دینی طالب علم بھی انہوں نے دینی تعلیم کا کورس پورا کیا تھا اورامام (رہ) کے شاگرد بھی تھے ہمارے ایک دوست ان کے بارے میں بتا رہے تھے میں نے خود ان کی زبان سے نہیں سنا کہ انہیں آخرعمر میں یورپ جانے کا موقع ملا جب وہ واپس آئے تو کہہ رہے تھے کہ اس وقت میں نے یورپی یونیورسٹیوں کی علمی محفلوں میں جو چیز دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں ایک ملا صدرا اورایک شیخ انصاری کی ضرورت ہے شیخ انصاری حقوق اور فقہ کے ماہر تھے اورملا صدرا حکمت وفلسفہ الہی کے، وہ کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اس وقت یہ لوگ ملا صدرا اور شیخ انصاری کے لئے تشنہ ہیں یہ ایک مغرب شناس، ماہرلسانیات پروفیسر کی رائے ہے جسے کئی یورپی زبانوں پر دسترس تھی اورسالہا سال تک وہاں رہا اوروہیں کا پڑھا تھا اوراسلامی علوم سے بھی واقف تھا یہ ہے اس کی رائے جوکہ بالکل صحیح ہے۔

ہمیں اپنے اندر اور اپنی یونیورسٹیوں کے اندر اسی مضبوط منطق کی ضرورت ہے یونیورسٹی کی زبان اور طلبہ کے لب و لہجہ میں اس منطق کی ترویج ہونی چاہئے۔کچھ محترم اساتذہ نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ ہمارے بعض پروفیسرصاحبان کو بھی اس کی ضرورت ہے تواساتید بھی یہ نہ سوچیں کہ انہیں دینی تعلیمات کی کوئی ضرورت نہیں ہے اسلامیات کے ایک محقق اور مصنف جن کی کتابیں مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوکریورپ وغیرہ میں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں ہم انہیں جانتے ہیں لیکن نام نہیں لینا چاہتے وہ کچھ سال قبل بتا رہے تھے کہ جب ہم عرب ممالک بشمول خیلجی ممالک میں جاتے ہیں تو ہمیں وہاں یہ نظرآتا ہے کہ وہاں پڑھے لکھے لوگ اوریونیورسٹی پروفیسرزہمارے اساتذہ اورپڑھے لکھے لوگوں کی نسبت قرآن وحدیث سے زیادہ آشنا ہیں انہوں نےتقریباً دس سال پہلے یہ بات کہی تھی البتہ وجہ یہ بھی ہے کہ قرآن کی زبان ان کی اپنی زبان ہے ایسے ہی جیسے سعدی، فردوسی یا حافظ کی کوئی ضرب المثل آپ کے ذہن میں ہے اس لئے کہ آپ نے ان کی کتابیں پڑھ رکھی ہیں جوکہ آ پ کی اپنی زبان میں ہیں لہذا آپ کو وہ ضرب المثل یاد رہ گئی ہے ان کے کچھ نمائندے بھی جب یہاں آتے ہیں توتقریر کا آغاز اشعاراورادبی جملوں سے کرتے ہیں اس لئے کہ ان کی زبان اور قرآن کی زبان ایک ہی ہے ان کی یہ خوش اقبالی ہے کہ جوقرآن کی زبان ہے وہی ان کی اپنی زبان ہے اس زبان کو وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں لہذاقرآنی تعلیمات سے آشنا ہوتے ہیں ہم نے دیکھا کہ ان کےسیاستداں بھی ایسے ہی ہیں سیاستداں بھی جو یہاں آتے ہیں انہیں قرآن کی بعض آیات اوردین اور دینی متون کی کچھ نہ کچھ خبر ہوتی ہے کچھ چیزیں ان کے ذہن میں ہوتی ہیں چاہے اپنی جگہ وہ فاسق وفاجر اور معنویت وروحانیت سے کوسوں دور ہی کیوں نہ ہوں بہرحال ہماری یہ کمی ہے اسے دورکرلینا چاہئے اور اسکا مکمل جبران کرلینا چاہیے تو کچھ پروگرام ترتیب دینے کی ضرورت ہوگی لیکن اساتذہ جنہوں نے زحمتیں اٹھا اٹھا کے عمرگذاردی ہے انہیں چونکہ اس کمی کو فی الفوردور کرنے کی ضرورت ہے تواس کا طریقہ یہی ہے کہ خود کو دینی مسائل اوراسلامی تعلیمات سے آشنا کرلیں اس کے بعد اس کام کے لئے باقاعدہ پروگرام ترتیب دیا جا نا چاہئے جوپروفیسرحضرات کا کام بھی ہے اوریونیورسٹی میں تعینات آپ علماء حضرات کا بھی لیکن بہرحال آپ کے اصل مخاطبین طلبہ ہی ہیں۔

بہرحال یونیورسٹی کے اندردینی افکار کی ترویج کونہایت اہم سمجھئے اورنگرانی رکھئے کہ کہیں ہمارے یونیورسٹی طلبہ اوریونیورسٹی کے پڑھے لکھے لوگوں میں فکری خلاء نہ پیدا ہوجائے ہمیں بہت ساری باتیں ان تک پہنچانی ہیں البتہ باتیں ایسی ہوں جوان تک پہنچانے کے لائق ہوں اوران پر وہ قانع بھی ہوجائیں ضرورت ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کی سطح سے مطابقت رکھنے والی جدید اورمضبوط باتوں کے ذریعہ تبلیغ کو مزید عمیق اوراور با اثربنایا جائے مجھے ایسی بحثوں سے نفرت ہے کہ دین میں فکری تجددپایا جاتا پے یا نہیں، اسلامی فکری مسائل اوردینی مسائل کوجدید اورخلاق نظروں سے دیکھنا ہی فکری تجدد ہے اوراس کا مطلب بدعت ہرگزنہیں ہے انہیں اصولوں کی وہ نئی جہتیں اورنئے رخ سمجھنا اوربیان کرنا بہت ضروری ہے جنہیں انسان گذرزمان ہی کی بدولت درک کرپاتا ہے اس کام میں ہمیں غفلت نہیں برتنی چاہئے۔

بہرحال امیدوار ہوں کہ خداوند متعال آپ تمام برادران وخواہران کو کامیاب و کامراں فرمائے، آپ کی توفیقات میں اضافہ اورآپ کی تائید ونصرت فرمائے آج کی یہ نشست اچھی رہی ہے مجھےبھی اس سے فائدہ ہوا ہے کچھ خاص خاص چیزیں میں نے نوٹ کرلی ہیں انشا اللہ جوکچھ آپ نے کہا ہے اس کا ہمارے دفترکے اندراورباہرکے متعلقہ شعبوں میں تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا اوراس کے بعد جوکچھ ہمارے ذمہ ہوگا انشا اللہ انجام دیا جائے گا اورجوکچھ حکومتی عہدہ داروں سے متعلق ہوگا وزراءحضرات خود یہاں تشریف فرما ہیں ان سے بھی ان شا اللہ اس کے لئے کوشش کرنے کے لئے کہہ دیا جائے گا۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ