پہلا خطبہ
بسماللَّہالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّہ ربّ العالمين. الحمد للّہ الّذى خلق السّموات و الارض و جعل الظّلمات و النّور ثمّ الذّين كفروا بربّھم يعدلون.نحمدہ و نستعينہ و نؤمن بہ و نتوكّل عليہ و نصلّى و نسلّم على حبيبہ و نجيبہ و خيرتہ فى خلقہ سيّدنا أبىالقاسم المصطفى محمّد و على الہ الاطيبين الاطھرين المنتجبين سيّما بقيۃاللَّہ فى الارضين. و صلّ على أئمّۃ المسلمين و حماۃ المستضعفين و ھداۃ المؤمنين
عید سعید فطر کی مناسبت سے میں تمام نماز گذارعزيز بھائیوں اوربہنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اسی طرح ایرانی عوام اور پوری دنیا میں مسلمان اقوام اور عظیم امت اسلامیہ کومبارک باد پیش کرتا ہوں ۔
عید فطر کا دن دو ممتاز خصوصیتوں کا حامل ہے۔ پہلی خصوصیت طہارت و پاکیزگی اور نظافت پر مبنی ہے جو مؤمن کے دل و جان میں اس مبارک مہینے میں شرعی الہی ریاضت کی بدولت پیدا ہوئی ہے؛ روزہ بھی انھیں ریاضتوں میں سے ایک ریاضت و مشق ہے جس میں انسان اپنے پورے اختیار و ارادے کے ساتھ کئی گھنٹوں تک تمام مادی لذتوں سے پرہیز اختیار کرتا ہے اور روزہ کے طویل ایام میں اپنی نفسانی خواہشات اور ہوا وہوس پر قابو پاتا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن حکیم سے انس، کلام پروردگار کی تلاوت، قرآنی مفاہیم اور تعالیمات سے واقفیت اور اس کے ساتھ ہی ذکر و دعا اور گریہ و زاری کی یہ حالت اور وہ عشق و انس جو ایک انسان خدا وند متعال کے ساتھ رمضان المبارک کے دنوں اور راتوں میں بالخصوص شبہائے قدر میں پیدا کرتا ہے۔ یہ تمام چیزیں دل کو منور کرتی ہیں اور انسان کی روح و جان کو پاک و پاکیزہ بنا دیتی ہیں۔ چنانچہ رمضان المبارک کے یہ اہم اعمال ہمارے لئے عظیم دروس ہیں اور ہمیں ان دروس سے بھر پور استفادہ کرناچاہئے۔
ایک درس یہ ہے کہ خدا کی تلاش وجستجو کرنے والے انسان کا ارادہ تمام مادی خواہشوں، لذتوں اور ہواوہوس پر غلبہ حاصل کر سکتاہے جو انسان کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ ہمارے لئےیہ ایک اہم نکتہ ہے کبھی انسان سوچتا ہے کہ وہ خواہشات پر غلبہ پیدا نہیں کرسکتا ، لیکن ماہ رمضان کے روزے انسان پر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ جب ارادہ کرے تو ایسا کر سکتا ہے، اگر وہ قوی ارادے اور عزم راسخ کے ساتھ میدان عمل میں اتر جائے تو ہوا وہوس اور نفس پر اسے غلبہ مل سکتا ہے۔ بہکانے والے رنگين جلوؤں اور بری و ناپسندیدہ عادتوں پراللہ تعالی کی ذات پر توکل اور محکم ارادے کے ساتھ قابو پایاجا سکتا ہے اور ان سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ قوی و مستحکم ارادہ اور فیصلے ہمارے لئے جن کی تاثیر خود ایک بڑا سبق ہے خواہ وہ ذاتی قسم کی ناپسندیدہ عادتیں ہوں یا سماجی سطح کی برائياں ہوں جو مادی و معنوی میدانوں میں ہماری پسماندگی کا باعث ہوتی ہیں ہم کو ان سے الگ ہونے اور تمام رکاوٹوں پر غلبہ پانے کا درس دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ رمضان المبارک میں انسانوں کی مدد کرنے کا جذبہ اور لوگوں کے ساتھ تعاون اور ہمدردی کا جذبہ فروغ پاتا ہے۔ خود غرضی ایثار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ خوش قسمتی سے ادھر کچھ برسوں کے دوران کس قدر افراد نے نام و نمود کے بغیر مسجدوں حتی مختلف علاقوں میں سڑکوں اور گلیوں کے اندر روزہ داروں کی میزبانی کا اہتمام کیا۔ افطاری کے دسترخوان لگائے گئے اور لوگوں کو اس دسترخوان پر آنے کی دعوت عام دی گئی۔ یہ دعوتیں ہر طرح کے تکلفات سے عاری تھیں۔ تعاون و ہمدردی کی یہ کیفیت اور انسان دوستی کا یہ جذبہ بہت قابل قدر ہے جو انسان کی نفسانی طہارت کا آئینہ دارہوتا ہے۔ اس مہینے میں حاجتمندوں کی بہت مدد کی گئی۔ حتی رمضان المبارک میں لوگوں نے خون کا عطیہ بھی دیا۔ جی ہاں جس وقت حکام نے اعلان کیا کہ بیماروں کے لئے تازہ خون کی ضرورت ہے، بڑی تعداد میں لوگوں نے رمضان المبارک کے مہینےمیں خون کا عطیہ دیا۔ اسی کو کہتے ہیں خود غرضی پر جذبہ ایثار کا غالب آ جانا۔ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینا۔ یقینا یہ جذبہ بڑی حد تک ماہ رمضان المبارک کی ایجاد کردہ اس معنویت کا نتیجہ ہے جو بحمد اللہ اس سال بھی گزشتہ سالوں کی طرح پوری فضا میں چھائي رہی۔ بلکہ سننے میں یہاں تک آیا ہے کہ اس سال ملک کی فضا عام طور پر ذکر و دعا اور گریہ و مناجات سے معمور رہی۔ خاص طور پر شبہای قدر کی برکتوں سے سرشار لمحات میں تمام افراد خصوصا نوجوانوں نے ذکر الہی اور دعا و مناجات سے محفلوں کو گرم رکھا۔مختلف سیاسی، سماجی اور دیگر طبقوں سے تعلق رکھنے والے الگ الگ طرز فکر کے افراد نے ان محافل و اجتماعات کو رونق بخشی۔ سب آئے اور سب نے اپنے ہاتھ دعا کے لئے بلند کئے اور دلوں کو خالق یکتا کی جانب متوجہ کیا۔ یہ توجہ اور یہ ارتکاز بھی اپنی جگہ پر لطف الہی ہے۔ یہ خود پروردگار کی نگاہ کرم کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ ماہ رمضان المبارک کی دعائے وداع میں امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ؛ "تشکر من شکرک و انت الھمتہ شکرک" یعنی جو تیرا شکر ادا کرتا ہے تو اس کے شکر کی جزا دیتا ہے اگرچہ شکر کا یہ جذبہ تو ہی دل میں ودیعت کرتا ہے۔ "و تکافی من حمدک و انت علمتہ حمدک" اور جو بھی تیری حمد کرتا ہے اس کو تو بدلا دیتا ہے حالانکہ تونے ہی اسے حمد کی توفیق دی ہے اور حمد کرنا سکھایا ہے۔ شاعر کے بقول:
گفت آن اللہ تو لیبک ماست وان نیاز و درد و سوزت پیک ماست
"تیرا وہ "اللہ" کہنا ہی تو ہماری لبیک ہے اور تیراوہ سوز و غم اور نیاز ہمارا قاصد ہے"
در حقیقت یہی جو تم یا اللہ کہتے ہو، یہی انس جو انسان اللہ تعالی سے پیدا کرتا ہے، خدا سے باتیں کرتاہے یہ پروردگار کا لطف اور اس کی توفیق ہے جو اللہ تعالی کی جانب سے انسان کو عطا ہوئی ہے۔ "یا اللہ" کی صدا جو منہ سے نکلتی ہے وہ اجابت پروردگار کی ضمانت ہے۔ یہ معنوی لذت آپ لوگوں خصوصا نوجوانوں نے حاصل کی ہوگی۔ یہ معنوی لذت آپ نے ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک رہ کر اپنے نورانی دلوں سے محسوس کی ہے۔ اس لذت اور ذائقہ کو ہاتھ سے جانے نہ دیجئے گا۔ اس سے اپنے آپ کو محروم نہ ہونے دیجئے۔ یومیہ نمازیں، قرآن کی تلاوت، مسجد میں آمد و رفت، دعائیں، مناجاتیں اور صحیفہ سجادیہ سے استفادہ جاری رہنا چاہئے تاکہ نورانیت و طہارت کا یہ سلسلہ جاری و ساری رہے۔ یہ عید فطر کی ممتاز خصوصیت ہے جو ماہ رمضان المبارک کے نتیجے کے طور پر ہمیں حاصل ہوتی ہے۔
دوسری خصوصیت آپ کی اسی نماز سے عیاں ہے۔ عید الفطر کا دن قوم کے حقیقی اتحاد اور قلبی یکجہتی کی نمائش کا دن ہے۔ قوم کا اتحاد اور اجتماعی شکل میں "حبل اللہ" سے تمسک اور وابستگی وہ چیز ہے جو بڑی اہم اور گرانقدرہے۔ اس کو رمضان المبارک کے ایک درس کی حیثیت سے ہم کو خود اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہئے۔ یہ بھی در حقیقت ماہ رمضان المبارک کے معنوی ثمرات ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی کہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی(رہ) کی برکت سے ہم مسلمانوں اور ہم ایرانیوں کے لئے ماہ رمضان المبارک کے ساتھ ہی عالمی یوم قدس کی آمد ہوتی ہے۔
عالمی یوم قدس جو عالم اسلام کے حقیقی اتحاد و یکجہتی کا مظہرہے۔ اس سال یوم قدس کے موقع پر ایرانی عوام کے عظیم مظاہروں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اپنی جانب حتمی طور پر متوجہ کیا ہوگا۔ ایرانی قوم نے ایک آواز ہوکر ملت فلسطین کی حمایت میں نعرے بلند کئے۔ میں اس موقع پر اپنی عزيز قوم کے ہر فرد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس سال عالمی یوم قدس کے عظیم مظاہرے میں شرکت کی۔
نماز گزار عزیزبھائيو اور بہنو! ایرانی قوم کے فرزندو! جہاں تک ممکن ہو ماہ رمضان المبارک کی برکتوں کے سلسلےکو اپنے لئے، اپنے لواحقین کےلئے، اسلامی معاشرے کے لئے باقی و جاری رکھئے اور اس الہی ذخیرے کی حفاظت کیجئے جو خدا کی بہت بڑی اور عظیم نعمت ہے ۔
بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
والعصر. انّ الانسان لفى خسر. الّا الّذين امنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر.
دوسرا خطبہ
بسماللّہالرّحمنالرّحيم
الحمد للّہ ربّ العالمين و الصّلاۃ و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم المصطفى محمّد و على آلہ الاطيبين الاطھرين سيّما علىّ اميرالمؤمنين و الصّدّيقۃ الطّاھرۃ سيّدۃ نساء العالمين و الحسن و الحسين سبطى الرّحمۃ و امامى الھدى و علىّبنالحسين و محمّدبنعلىّ و جعفربنمحمّد و موسىبنجعفر و علىّبنموسى و محمّدبنعلىّ و علىّبنمحمّد و الحسنبنعلىّ و الخلف القائم المھدىّ صلوات اللَّہ و سلامہ عليھم اجمعين و صلّ على أئمّۃ المسلمين و حماۃ المستضعفين و ھداۃ المؤمنين. اوصيكم عباد اللّہ بتقوى اللّہ.
میں آپ سے الہی تقوی کی سفارش کرتا ہوں۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں ،سنتے ہیں اور عمل کرتے ہیں، ان تمام حالات میں الہی تقوی کو پیش نظر رکھیں اورخداوند عالم سے اس کی مراعات کے لئے توفیق طلب کریں۔
ایک بات اس سال کے یوم قدس کے بارے میں ہے کہ یہ عظیم اقدام عالم اسلام میں روز بروز جگہ بناتا جا رہا ہے اور اس میں مزید وسعت آتی جا رہی ہے۔ اس سال عالم اسلام کے گوشے گوشے میں مظاہرے ہوئے۔ عالم اسلام کے مشرقی حصے یعنی انڈونیشیا سے لیکر عالم اسلام کے مغربی حصہ یعنی افریقی ملک نائیجیریا تک مسلمان ملکوں میں ہر جگہ ایک ایک فرد کو یوم قدس میں اپنی خواہش اور ارادے کو ظاہر کرنے کا پورا موقع ملا۔ دنیا میں عوام کے بڑے بڑے اجتماعات یہ ثابت ہو گیا کہ قدس کے مسئلے میں عوام کے احساسات کیا ہیں۔ حتی وہ مسلمان جو یورپ میں رہ رہے ہیں، وہ اقلیتیں جو یورپی اداروں اور حکومتوں کے سخت دباؤ میں زندگی گزار رہی ہیں، انہوں نے بھی یوم قدس کے مظاہروں میں شرکت کی۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ فلسطین کا مسئلہ فلسطین کے غاصبوں اور ان کے حامیوں کی خواہش کے برخلاف عالم اسلام میں روز بروز تازہ اور زندہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے چاہا تھا کہ فلسطین کا نام مسلمان قوموں کے ذہنوں سے سے مٹا دیں۔ انہوں نے یہی فیصلہ کیا تھا اور ان کا مقصد یہی تھا کہ فلسطین کے نام سے کسی قوم اور ملک کا نقشہ عالم اسلام کے جغرافیا میں کہیں نظر نہ آئے۔ انہوں نے اپنی تمام تر کوششیں گذشتہ ساٹھ سال کے دوران اور اس عظیم المیہ کے وجود میں آنے کے بعداسی میں صرف کیں کہ فلسطین کا نام و نشاں مٹ جائے لیکن نتیجہ اس کے بالکل بر عکس نکلا ہے۔ آج عالم اسلام فلسطین کے مسئلے میں پہلے سے بہت زیادہ حساس اور بہت زیادہ جذباتی اورپرجوش ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں بیداری آگئی ہے۔ اگر یہ بیداری انیس سو اڑتالیس عیسوی میں آجاتی جب فلسطین پر با قاعدہ طور پر غاصبانہ قبضہ ہوا تھااور اس کو صیہونیوں کے حوالے کیا گیا تھا تو یقینا حالات کا رخ کچھ اور ہوتا اور عالم اسلام کا یہ تلخ و ناگوار حادثہ اور امت اسلامیہ کے پیکر پر یہ کاری زخم نہ ہوتا۔ آج مسلمان بیدار ہیں اور متوجہ ہیں۔ اور پروردگار کی توفیق شامل حال رہی تو روز بروز اس بیداری میں اضافہ ہوتا جائےگآ۔ میں یہ عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عالمی سطح پر اس حمایت و پشتپناہی میں توسیع کا سبب خود فلسطینی عوام کی شجاعانہ استقامت اور پائيداری ہے۔ ہم فلسطینی عوام کو سلام کرتے ہیں۔ حق و انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اس قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسلمان اور زندہ قوم کہلانے کے قابل ہے۔ میں اسی مقام سے آپ تمام مسلمان کے سامنے فلسطینی عوام کو، فلسطین کی قانونی حکومت کو اور اپنے برادر مجاہد جناب ہنیہ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ سب اچھی طرح جان لیں کہ ایرانی قوم نے نہ آپ کو تنہا چھوڑا ہے اور نہ کبھی آپ کو تنہا چھوڑے گی۔
دوسری طرف صیہونی غاصب حکومت کے حوصلے ہر لحاظ سےپست ہو گئے ہیں اور اس کا ڈھانچہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ آج صیہونیوں کے بڑے لوگ بھی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ صہیونی حکومت کمزوری اور شکست کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عالم اسلام وہ دن ضرور دیکھے گا اور ہمیں توقع ہے کہ فلسطینی قوم کی یہی موجودہ نسل اس دن کا آنکھوں سے مشاہدہ کرے گی کہ فلسطین، فلسطینی عوام اور فلسطینی قوم کے ہاتھوں میں ہوگا جو اس کی اصلی مالک ہے اور فلیسطینی اپنی سرزمین پر اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔
دوسری بات جو لازمی عرض کرنا ہے وہ یہ ہے کہ آج عالم اسلام کو دشمنان اسلام کی جانب سے ہمہ گیر سیاسی، ثقافتی اور تبلیغاتی یلغار کا سامناہے۔ اور عالم اسلام کی ہر فرد بالخصوص ممتاز اسلامی شخصیات ، روشن خیال مسلم دانشوروں اور علمائے اسلام ، سیاسی اسلامی شخصیات کو اس بات سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ آج ہر رخ سے اسلام اور مسلمانوں کے مقدسات پر دشمن کی یلغار کا سلسلہ جاری ہے اور یہ اس لئے نہیں ہے کہ دشمن قوی ہو گیا ہے بلکہ اس لئے ہے کہ دشمن عظیم اسلامی تحریکوں کے سامنے کمزوری و ناتوانی کا احساس کر رہا ہے لہذا اس نے ایک طرف نفسیاتی جنگ کا سلسلہ چھیڑ رکھا ہے اور دوسری طرف مسلمان ممالک کو اصلی دشمن سے غافل رکھنے کے لئےایک دوسرے سے ڈرانے کی سازش اور پروپیگنڈہ شروع کررکھا ہے اس زبوں حال دشمن سے مقابلہ کا راستہ صرف یہ ہے کہ عالم اسلام باہمی طور پر متحد ہوجائے۔ میں ایک بار پھر ایرانی عوام کی جانب سے دنیا بھر میں پھیلے اپنے تمام مسلمان بھائيوں کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اپنے اتحاد کو محفوظ رکھئیے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ مشترکہ دشمنوں کے ہاتھ کا کھلونا بن جائیں اور دشمن آپ کو عرب و عجم کے نام پر یا شیعہ و سنی کے نام پر اختلافات سے دوچار کردے۔ وہ لوگ نہ شیعوں کے دوست ہیں اور نہ سنیوں کے۔ وہ تو اسلام کے دشمن ہیں اور اسلام کو کمزور کر دینے کے در پے ہیں۔ ان کے پاس ایک یہی راستہ ہےکہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیں۔ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے خوفزدہ کر دیں۔ ایران میں جو اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے اور اسلامی نظام قائم ہے دشمن کی کوشش یہ ہے کہ اس وہ اسلامی انقلاب سے مختلف بہانوں کے ذریعہ دیگر مسلم ملکوں اور حکومتوں کو ہراساں کرے۔ہم سب آپس میں بھائی ہیں۔ ایرانی قوم اسلام کی ترقی و پیشرفت کی راہ پر گامزن ہے اور پروردگار کی توفیقات سے تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ قوم اپنی پیشرفت کو تمام عالم اسلام کا حق سمجھتی ہے۔ اپنے شرف کو عالم اسلام کا شرف اور اپنی پیشرفتکو امت اسلامیہ کی پیشرفت سمجھتی ہے۔
ایک بات میں اس ملک میں بسنے والے عزیز بھائیوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اتحاد و یکجہتی کی سفارش جس میں پورے عالم اسلام کو مخاطب قرار دیا جا رہا ہے ملک کے اندر بھی اس پر عمل ضروری ہے۔ ایران کی عظیم قوم کو چاہئے کہ اس اتحاد و یکجہتی کی حفاظت کرے۔ آج تک آپ کو جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ اسی اتحاد و یکجہتی کا نتیجہ ہے۔ اتحاد و یکجہتی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب لوگ ایک ہی انداز اور ایک ہی مزاج کے بن جائیں۔ اتحاد و اتفاق کا مطلب یہ ہے کہ مختلف ذوق اور طرز فکر کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھیں، ہاتھ میں ہاتھ ملا کر کام کریں، قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دیں۔ خود غرضی کو اپنی زندگی اور سیاست میں داخل نہ ہونے دیں۔ ویسے اس سلسلے میں ماہ رمضان المبارک بہت مددگارثابت ہوگا جو خود غرضی اور نفس پرستی کو کچلنے کا درس دیتا ہے۔ یہ ایام وہ ایام ہیں جن میں ایرانی عوام بڑے عظیم اقدامات انجام دے رہے ہیں ، ایسے بڑے کارنامے کہ جن پر دنیا کے انصاف پسند افراد داد تحسین رہے ہیں۔
بحمد اللہ اسلامی انقلاب کے چوتھے عشرے میں ایرانی عوام اور ایران کے بیدار جوان عزت و اقتدار ، جوش و ولولہ نشاط و سرور کے ساتھ داخل ہونے والے ہیں ۔ ہر جوان کام کرنے کے لئے مکمل طور پرآمادہ ہے اور آپ آج اس کا نتیجہ دیکھ رہے ہیں۔ سائنس کے میدان میں، ٹیکنالوجی کے میدان میں، مختلف قسم کی سماجی سرگرمیوں کے میدان میں اور سیاست کے پرنشاط میدان میں ہر جگہ ہمارے نوجوان کام کے لئے مستعد اورموجود ہیں ان سب کی قدر کیجئے تاکہ ایرانی عوام کی ان کامیابیوں کی حفاظت ہو سکے۔ ایک ایک شحص کے لئے خصوصا سیاسی اور سماجی شخصیات اور ممتاز افراد کے لئے ضروری ہے کہ یاد رکھیں کہ اتحاد و یکجہتی کی حفاظت، ان تمام چیزوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو ایک انسان کی نگاہ میں کسی پارٹی اور جماعت کے دائرے میں اہم ہو سکتی ہیں ۔ اس اتحاد کو باقی رکھنا چاہئے۔ خداوند متعال کا ارشاد ہےکہ تلك الدّار الآخرة نجعلها للّذين لايريدون علوّا فى الارض و لا فسادا و العاقبة للمتّقين (1)
یعنی آخرت کا گھر ان لوگوں سے متعلق ہے جو پرہیزگار ہیں اور خود کو ان امور سے دور رکھتے ہیں جن سے اللہ تعالی نے منع کیا ہے۔ خود غرضی سے کنارہ کش ہوکر خدا کی راہ میں، خدا کی خوشنودی کے لئے قومی مفادات کی راہ میں ،کلمہ اسلام کی سربلندی و سرفرازی کے لئے تلاش وکوشش کرتے ہیں۔
پروردگارا! ہم سب " کہنے و سننے والوں " کو کامیابی عطا فرما۔ پروردگارا! امام خمینی"رضوان اللہ علیہ " کی روح پاک اور شہدا کی ارواح طیبہ کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا! ہماری قوم کو روز بروز کامیابی و کامرانی عطافرما۔
بسماللَّہالرّحمنالرّحيم
انّا اعطيناك الكوثر. فصلّ لربّك و انحر. انّ شانئك ھو الابتر.
و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) سورہ قصص آیۃ 83