ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا رویان تحقیقاتی مرکزکے دورہ کے موقع پرخطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کچھ سالوں سے ملک میں ایک اچھی علمی تحریک چل رہی ہے یہ سب مانتے ہیں کہ اساتذہ، طلبہ اورمحققین سمیت سبھی اہل علم اس تحریک کا حصہ ہیں اوریہ تقریباً تمام یونیورسٹیوں اورتحقیقاتی مراکزتک پھیل چکی ہے ملک بھرکے اساتذہ، محققین اوردانشوروں کی طرف سے شروع کی گئی اس عظیم تحریک کی اپنے اعتبارسےقدردانی میں اپنا فرض سمجھتا ہے۔

میری آج اس مرکز میں آمد خوش قسمتی سے ملک میں شروع ہوئی اس عظیم اوروسیع علمی تحریک کی قدردانی کا ایک علامتی قدم ہے ابھی تو شروعات ہے، یہاں کا انتخاب ایک تو"رویان" کی وجہ سے اوردوسرے "یونیورسٹی جہاد" کی وجہ سے کیا گیا۔

رویان فاؤنڈیشن ایک کامیاب ادارہ ہونے کے ساتھ ساتھ جس چیزکے ہم آرزو مندہیں اس کا مکمل اوربہترین نمونہ ہے مرحوم سعید کاظمی سے مجھے لگاؤ تھا اوراب بھی میرا دل ودماغ اس عزیز جوان کی اہمیت وعظمت کا قائل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا قدم، ان کا طریقہ کار، ان کا نظم وانتظام اوران کی لگن وغیرہ ان سب چیزوں کاایک گلدستہ تھا جنکےہم متمنی ہیں اس ضمن میں بعد میں مزید کچھ عرض کیا جائے گا رویان بھی ان کے اور ان کے ان ساتھیوں کے تعاون سے خوب آگے بڑھا ترقی کی اورپھلا پھولاجو شروع سے ہی اس ادارہ میں مصروف عمل رہے ہیں ،اورمجھے یہ شروع ہی میں احساس ہوگیا تھا شروعات میں جب پندرہ سولہ سال قبل میرے اورمرحوم کاظمی کے ایک مشترکہ دوست نے میرے سامنے ان کے کام کی وضاحت کی اور ان کی درخواستیں پیش کیں تومجھے اسی وقت اس کام میں ایک مستحسن قدم کی نشانیاں نظر آئیں لہذا میں نے کہا کہ میں اپنی توان بھراس کام کی حمایت اورپشتپناہی کروں گا جتنا وقت گذرتا گیا ہمارے اس گمان کی قوت ملتی گئی اور سچ ثابت ہوا ۔

اس مطلوبہ آئیڈ یل کااگر میں ایک جملہ میں تعارف کراؤں تو یہ کہنا کافی ہے کہ یہ مجموعہ علم ایمان اورسعی وکوشش کا مجموعہ ہے جہاں وہ علمی سلسلہ میں سنجیدہ تھے وہیں ایمان اورتقوی وپرہیزگاری میں بھی سنجیدہ تھے صرف سطحی نہیں بلکہ یہ چیزیں ان کےکام اورادارہ کا اصلی عنصر تھیں تھکن تو وہ بھول ہی گئے تھے میرے خیال سے مرحوم کاظمی نے اپنی جان اورصحت اسی کام پر لگا دی تھی یعنی اسی لگن، شوق اور انتھک کوششوں پر، لہذا رویان میری نظروں میں بہت گرانقدراوراہم مرکزہے آپ جوان لوگ مومن حضرات وخواتین جو اس ادارہ میں کام کرتے ہیں مجھے بہت عزیز ہیں میرایقین ہے کہ رویان میں کام کرنے اورآگے بڑھنے کی بہت صلاحیت ہے۔

میری طرف سے نقل کیا گیا ہے کہ " یہ علمی تحریک کا بنیادی سل ہے" واقعیت یہی ہے جس طرح آپ کے بنیادی سلز تحقیق کا ایک نہ ختم ہونے والا پلاٹ ہیں جتنا آپ تحقیق کرکے آگے بڑھتے ہیں تحقیق کا ایک نیا موضوع سامنے آجاتا ہے پھرآپ سوچتے ہیں کہ اسے بھی تحقیقی موضوع قراردے کرآگے بڑھا جا سکتا ہے اورنئی سرحدوں کو چھوا جا سکتا ہے رویان کی مثال بھی یہی ہے یہاں کے لوگ جتنا بھی کام کرکے آگے بڑھ جائیں ان میں مزید ترقی کی صلاحیت موجود رہے گی اورعلم وایمان دونوں کے معتقد محققین سب اسی طرح کے ہیں چاہے اس ادارہ سے وابستہ ہوں یا کسی دوسرے سے، ان کی توانائیاں ختم ہونے والی نہیں ہیں۔

"یونیورسٹی جہاد" کا انتخاب کیوں کیا؟ اس لئے کہ "یونیورسٹی جہاد" انقلاب کی ایک مبارک پیداوارہے ویسے ہی جس طرح قرآن مجید میں دومسجدوں کا موازنہ کرتے ہوئے ارشاد ہے: " لمسجد اسس علی التقوی من اول یوم احق عن تقوم فیہ، فیہ رجال یحبون ان یتطھروا" یونیورسٹی جہاد کی مثال بھی یہی ہے یہ انقلاب کی عطا کردہ بنیادی چیزوں میں سے ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ شعبہ شروع سے لے کر آج تک جیسا بھی رہاہے اس نے جو کچھ سوچا اورکیا ہے سب صحیح ہے نہیں! ہم انسان ہیں کبھی صحیح سوچتے ہیں کبھی غلط کبھی صحیح قدم اٹھاتے ہیں کبھی غلط ،یہ پیچ وخم فیصلہ کا معیار نہیں ہیں معیار مقصد، راستہ اور مقصد کی حفاظت ہے ممکن ہے اس راہ میں انسان سے کوئی غلطی اور لغزش بھی ہوجائے اس شعبہ کے حدود اربعہ میرے سامنے ہیں بحمداللہ اس کی برکات بھی کافی رہی ہیں میں کچھ باتیں جہاد سے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں اس کے بعد کچھ باتیں علم وتحقیق اورملک کے مستقبل سے متعلق عرض کرونگا۔

یونیورسٹی جہاد دو لفظوں سے مرکب ہے ایک جہاد اور دوسرے یونیورسٹی اس کے تحت جہاد بھی ہونا چاہئے اور اس جہاد کو یونیورسٹی ماحول کے مطابق بھی ہونا چاہئے جہادی انداز سے قدم اٹھانے کے ایک خاص معنی ہیں ہرطرح سے کام کرتے رہنا جہادی عمل نہیں ہے۔

جہاد اور جہد کا مادہ اوراصل ایک ہی ہے اس کا مطلب ہوا کہ جہاد میں جدوجہد اور کوشش ہونی چاہئے لیکن جہاد صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے جہاد یعنی جنگ یہی جنگ جو ہم آپ اردوکی موجودہ بول چال میں استعمال کرتے ہیں جنگ کی کئی قسمیں ہیں علمی جنگ، میڈیا کی جنگ، سیاسی جنگ، اقتصادی جنگ، فوجی جنگ، کھلم کھلا جنگ، خفیہ جنگ وغیرہ ان سب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ دشمن کا وجودہے جو مد مقابل ہے جوایک رکاوٹ ہے دوست سے جنگ بے معنی ہے جنگ ہمیشہ دشمن سے ہوتی ہے۔

شاہی گھٹن کے دور میں فرض کیجئے کوئی شخص دن میں پانچ کتابوں کا مطالعہ کر لیتا تھا تو یہ جہد تو تھی جہاد نہیںتھا اگر وہ جہادکرنا چاہتا تھا تو اسے ایسی کتاب پڑھنا چاہئے تھی جو طاغوتی اورمطلق العنان حکومت سے مقابلہ کرنے کے لئے اس کی معاون ہوتی تب یہ مطالعہ جہاد ہوتا جہاد کی یہ خاصیت ہے۔

آپ کے جہاد کا دائرہ کار سائنس وٹیکنالوجی ہےیہاں آپ کو شمشیر ونیزہ اور اے کے سینتالیس نہیں چاہئے یہاں ذہن، وسائل، انسان کے اندرونی سائنسداں، فکر، قلم اورآنکھوں کی ضرورت ہے۔

یہ ایک علمی اور سائنسی ادارہ ہے اہم یہ ہے کہ یہ کیا کرے کہ اس کا یہ کام جہاد قرارپاجائے؟ آپ دیکھئے کہ آپ کے ملک، آپ کے انقلاب اور انقلاب کے ذریعہ طے کردہ اہداف ومقاصد کے خلاف کون سے جانی دشمن کمین کئے بیٹھے ہیں کہ جن سے آپ کو جنگ کرنا ہے جب اس رخ سے کام ہوگا تو جہاد قرار پا جائے گا۔

لہذااگرآپ ایسے علم کی تلاش میں ہیں جو ہمارے اہداف ومقاصد کے دشمنوں کو نہ صرف یہ کہ ناراض نہیں کرتا بلکہ خوش کرتا ہے تو یہ جہاد نہیں ہے فرض کیجئے کہ یونیورسٹی جہاد یا اس سے متعلقہ کوئی ادارہ کہے کہ فلاں سنہ میں ہمارے سو یا پانچ سو مقالے ISI میں چھپے ہیں تو یہ معیار نہیں ہوا معیاریہ ہے کہ وہ مقالے کیا تھے ؟ کس مقصد کے تحت تھے؟ ان سے آپ کو کیا فائدہ پہنچا؟ جولوگ آپ کی تمناؤں کے دشمن ہیں انہوں نے ان مقالات پرکیا موقف اختیار کیا؟ کیا انہیں خطرہ کا احساس ہوا؟ یعنی ان کے سیاسی رہنماؤں کو کسی خطرہ کا احساس ہوایا نہیں ہوا؟ اہل علم تودوسری نظرسے دیکھتے ہیں۔

جب شبیہ سازی یا کلوننگ کے بنیادی سلزکےسلسلہ میں آپ حضرات نے کوئی نظریہ دیا توحقیریا کسی دوسرے نے اس کی تعریف وتمجید بھی کردی تب امریکی حکام نے اعلان کیا کہ جینیاتی سائنسز کے لئے بھی ایک نظارتی کونسل تشکیل دی جانی چاہئے اس کا مطلب کیا ہوا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس شعبہ میں آپ کے آگے بڑھنے کی وجہ سے دشمن کو تکلیف ہورہی ہے اس کی واضح مثالیں عرض کرتا چلوں مثالیں ہزاروں ہیں جس دن آپ مثلاً ایک ایسا راڈار بنا لیں گے جس کی وجہ سے اس ملک کی فضا میں کوئی پرندہ بھی پر نہ مار سکے تو اس دن دشمن کے دل میں درداٹھے گا یعنی یہ وہ تیر ہےجو سیدھا دشمن کے سینہ پہ لگتا ہے یہ ہوگا جہاد!

جہادی قدم ، جہادی سائنس اورجہادی ریسرچ کا یہ لازمی عنصرہے دشمن سے مراد بھی صرف امریکہ نہیں ہے اب گفتگو کے دوران ہم اپنے کھلے دشمن امریکہ اورعالمی استکبار کانام لے لیتے ہیں ورنہ مراد صرف یہی نہیں ہیں دشمنوں کی کئی قسمیں ہیں کسی موقع پرکوئی بڑی اقتصادی اورتجارتی لابی سیمنٹ کا کارخانہ بنانے کی آپ کی صلاحیت سے رنجیدہ ہوکر رکاوٹیں کھڑی کرنے لگتی ہے نہیں بنانے دیتی یہاں میرے سامنے جو رپورٹیں آئی ہیں ان میں اس بات کا ذکرہے وہ چاہتے ہیں کہ سیمنٹ بنانے کے لئے ایک نظارتی کونسل بنا ڈالیں تاکہ ہرکسی کوسیمنٹ کا کارخانہ لگانے اورسیمنٹ بنانے کا حق نہ رہے۔

جہادی قدم باہدف، پوری طرح مقاصد کے پیش نظر، عاقلانہ اوردشمن شکن ہونا چاہئے یعنی یہ اسی معنی میں جنگ ہے جس معنی میں ہم روزمرہ کی بول چال میں اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں مثلاً " میں جنگ کررہا ہوں، یہ ایک جنگ ہے" یہ ایک اصطلاح ہے جہاد بھی انہیں معنی پرمشتمل ہے تویہ ہوئی جہاد کی تعریف۔

یونیورسٹی! یونیورسٹی کا مطلب یہ ہوا کہ اس سرگرمی اور اس قدم کی سطح اونچی اورطالب علم، استاد اورفعال علمی ذہن سے متناسب ہے ہر کام میں اس بات کا خیال رہنا چاہئے ان کاموں میں عوامیت اورعوام پسندی کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے ہاں بعض سرگرمیاں علمی ہیں اوراچھی ہیں جیسے یہی تحقیقات لیکن فرض کیجئے کہ مثلاً آرٹس سائنسز کا مثلاً شعبہ ادب کا کوئی علمی کام ہورہا ہے تو یہاں سے ایسی بات کہی جانی چاہئے جس کی سطح ایک معمولی ادیب سے بلند ہو یعنی سطح اونچی ہونی چاہئے آرٹس سائنسز جن سے ہمارا تعلق رہا ہے جن سے ہم با خبراورجن کے ماہرہیں مثلاً تاریخ ہے، ادب ہے، فلسفہ ہے جوکہ ہمارے ملک کے مقامی علوم ہیں ان میں بھی بہت ساری باتیں ان کہی ہیں اب کچھ باتیں توعام ہیں جنہیں یونیورسٹی جہاد نہ کہے تو کوئی بھی کہہ دے گا یونیورسٹی جہاد کو نچوڑاورحرف آخرپیش کرنا ہوگا مثلاً آپ کی قرآنی سرگرمیاں ہیں قرآنی سرگرمیوں میں بہت سارے ادارے مصروف ہیں اور سب اچھے بھی ہیں آپ جانتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جنہیں قرآنی سرگرمیوں کے سلسلہ میں خاص طورسے ذمہ داری کا احساس ہے اوریہ انقلاب سے پہلے سے ہے اب بھی یہی صورتحال ہے یعنی اگرایک مسجد میں دس جوان بیٹھ کر قرآن کی صرف تلاوت کریں تومیری نظرمیں یہ بھی اچھا ہے میں اسے پسند کرتا ہوں لیکن آپ کے یہاں اگرقرآنی سرگرمیاں ہیں توانہیں یونیورسٹی کے باہر کی سرگرمیوں سے الگ ہونا چاہئے اب بالفرض آپ کے یہاں بھی بقیہ جگہوں کی طرح کسی خوش الحان قاری کی آواز، تجوید، لحن اورانداز کی تکرار کی جارہی ہو جوکہ اپنی جگہ بہت اچھی چیزہے لیکن یونیورسٹی جہاد کی قرآنی سرگرمی یہ نہ ہوگی یہاں قرآنی سرگرمی اس سے کہیں بالاترہونی چاہئے آپ دیکھئے کہ یونیورسٹی میں قرآن فہمی کس قدرہے اس کے بعد قرآن سمجھنے پر توجہ دیجئے آپ کے یہاں قاری اس طرح کا ہونا چاہئے کہ جب وہ تلاوت کررہاہوتوسامعین قرآنی مفاہیم کو دل سے لمس کریں، محسوس کریں آپ کا جلسہ قرأت جلسہ قرآن فہمی بھی ہونا چاہئے یہاں خلاقیت کی ضرورت ہے اوریہ آپ کا کام ہے۔

لہذایونیورسٹی جہاد کے پاس اس کام کے لئے وسائل ہیں حقیرکویونیورسٹی جہاد پر مکمل بھروسہ ہے اس ادارہ نے بڑے بڑے کام کئے ہیں، اچھے کام کئے ہیں اورجیسا کہ ہم نے تلاوت کی تھی " اسس علی التقوی من اول یوم" شروع سے لے کر آج تک ہم نے یونیورسٹی جہاد کو جب بھی دیکھا دین وتقوی پراستوار دیکھا لہذا اسے دین وتقوی پر باقی رکھئے۔

کچہ منٹ پہلے یہاں کے دوستوں سے گفتگو کے دوران ہم نے عرض کیا ہے کہ کوشش کیجئے کہ آپ کی جہادی شناخت باقی رہے آپ جو دیکھ رہے ہیں کہ کچھ لوگوں کی شناخت، افکاراورذہنیت آغازانقلاب کی نسبت ایک سواسی ڈگری بدل چکی ہے یہ کوئی طبیعی امرنہیں ہے کہ آپ کہیں کہ فطرت وطبیعت ہی یہی ہے نہیں ہرگزایسا نہیں ہے فطری بات تو یہ ہے کہ اگرایک فکراورایک راستہ انسان نے منطقی استدلال کے تحت منتخب کرلیا ہے تواس راہ کی آخری منزل آنے تک چلتا رہے اگرعمرساتھ نہ دے تو اسی راہ میں مرجائے فطرت انسانی یہ نہیں ہے کہ ہم ایک راستہ پر چلنا شروع کریں بیچ میں کافی جوش وخروش دکھائیں پھرایک مرحلہ پرآکراچانک کٹ کرلیں یہ کٹ اورموڑاتنا جاری رہے کہ ایک مقام پرآکر بالکل ہی الٹا ہوجائے یہ کسی بھی صورت فطری نہیں ہے کچھ لوگ توجیہ کرتے ہیں کہ صاحب آغاز ابقلاب، آغاز انقلاب تھا اب اس کے اثرات کا وقت گذر چکا ہے لہذا ہم بدل گئے ہیں جی نہیں! وقت کمزورو بے بنیادعناصراورمحض احساسات پر مبنی واہیانہ اعتقادات پراثرانداز ہوتا ہے یا وقت تب اثرڈالتا ہے جب طمع وحرص بھی ساتھ ساتھ ہو" ان الذین تولوامنکم یوم التقی الجمعان انما استزلھم الشیطان ببعض ما کسبوا" قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ جو جنگ احد میں واپس ہولئے اوران میں ثابت قدمی کی طاقت نہیں رہی ایسا ان کے گذشتہ کارناموں کی وجہ سے ہوا،اگرہم روح کی تربیت نہ کریں گے تو طے ہے کہ ہر آنے والی شئی اس پر اثر کرے گی ایک، دو، تین، اچانک ہم دیکھیں گے کہ یہاں تو پوری شکل وصورت ہی بدل چکی ہے لیکن اگرانسان کی دینی شانخت، انقلابی شناخت فولاد کی مثل درست تفکر اورصحیح منطق کی بنیاد پر تشکیل پائی ہے توزمانہ کے گزرنے کےساتھ ساتھ یہ شناخت مزید واضح، دلچسپ اورمضبوط ہوتی جائے گی انسانوں کا حال یہ ہے اداروں کا حال بھی یہی ہے یونیورسٹی جہادجیسے ادارہ کی شناخت بدلنے نہ دیجئے یہ شناخت غیرمذہبی اورغیرانقلابی نہیں ہونی چاہئے۔

کچھ سال قبل میں نے انہیں یونیورسٹی جہاد والے بھائیوں کے مجمع میں ایک بات کہی تھی جو مجھے اب یاد بھی نہیں تھی اسے میرے پاس لے کر آئے، میں نے پڑھا تو مجھے یادآگیا اس ایمانی شناخت کی حفاظت کیجئے یہ اسی طرح باقی رہنا چاہئے خوش قسمتی سے اس سے قبل ایسا ہی رہا ہے اوراب تک یہ شناخت باقی رہی ہے اس لئے کہ یونیورسٹی جہاد کی ساخت، ادارت کا طریقہ، کارکردگی کی کیفیت، عہدہ داروں کا بقیہ افرادسے رابطہ کا انداز، سمت کا تعین اورمقاصد وغیرہ اچھے رہے ہیں اس دن جو میںنے کہا تھا وہ یہ تھا کہ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ انقلابی قدم اٹھانے کا مطلب ہے شورہنگامہ میں کوئی بے نظم سا کام، بدنظمی اورحیرانی وپریشانی،کہتے ہیں صاحب فلاں کام انقلابی تھا ختم ہوگیا یہ غلط ہے مطلقاً کسی بھی انقلابی قدم میں بے نظمی اوربلوہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے برعکس انقلابی ڈسپلن سب سے محکم اورمضبوط ڈسپلن ہے جس ڈسپلن اورنظم وضبط کی جڑیں انسان کے ذہن میں ہوں، انسان کے دل اوراس کے ایمان میں ہوں وہ بہترین ڈسپلن ہواکرتا ہے۔

کسی بھی انقلاب کے آغاز میں چاہے وہ ہماراہی انقلاب ہوکچھ بدنظمیاں دکھائی پڑتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انقلابی تحریک ابھی شروع ہوئی ہے اوراس کے تحت پرانے اور پیچیدہ ڈھانچہ کو مٹاکر اس کی جگہ ایک نیا ڈھانچہ تیار کرنا ہے یہ ایک طبیعی سی چیز ہے لیکن جب نئي بنیاد کے مضبوط ستونوں پرنئی عمارت تعمیر ہو چکی ہے تو اس کے مطابق آگے بڑھنا ایک اچھا اورمنظم قدم ہوگا جو آگے لے جائے گا یہ ہے انقلابی قدم ، لہذا انقلابیت کو بدنظمی، شورہنگامہ اورضابطہ قانون کا خیال نہ رکھنے سے الگ سمجھنا چاہئے بہرحال یونیورسٹی جہاد ان اداروں میں سے ہے جن کے ہوتے ہوئے ہم ملک کے علمی مستقبل کے سلسلہ میں پرامید ہیں۔

علم وتحقیق کے سلسلہ میں عرض کردیا جائے کہ ہمارے ملک کا علم وتحقیق کی توسیع کی راہ پر چلے بغیر اپنی منزل مقصود تک پہنچنا ممکن نہیں ہے یہ بات صرف ہمارے ملک سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ ہرجگہ علم وتحقیق کی کلیدی حیثیت ہے۔

کسی قوم کا پڑھا لکھا ہونا یہ نہیں ہے کہ دوسروں کی دانستہ چیزیں سیکھ لے، نہیں بلکہ یہ علم کا مقدمہ ہے میدان علم بہت وسیع ہے اس کے سلسلہ میں کوئی انحصار بھی ممکن نہیں ہم یہ نہ فرض کرلیں کہ چندایک ممالک اوراقوام ہیں جن کی ممتاز علمی شخصیات کو سائنس ایجاد کرنا چاہئے، نئی سائنسی راہیں تلاش کرنی چاہئیں پھر خود فائدہ اٹھا کر جو بچ جائے اسے اٹھا کے دوسروں کو دے دیں نہیں یہ توکوئی بات نہ ہوئی اس طرح کے حساب کتاب اوراس قسم کے کام کا مطلب وہی دائمی پسماندگی ہے جوبعض ممالک کولاحق ہے، اس کے معنی مختلف ممالک کے درمیان وہی ظالم ومظلوم جیسے تعلقات ہیں، اس کا مطلب گذشتہ وموجودہ صدی میں رائج یہی سیاسی ادب اوراصطلاحیں ہیں جیسے پہلی دنیا، دوسری دنیا، تیسری دنیا، شمال، جنوب وغیرہ۔

ہرانسان طالب علم یا عالم بن سکتا ہے صلاحیتیں الگ الگ ہو سکتی ہیں لیکن ایسا کوئی ملک نہیں ہے جس میں علم وحصول علم کی صلاحیت رکھنے والے ایسے افراد نہ ہوں جو اپنی استعداد اور صلاحیت کے ذریعہ علم کے اس وسیع وعریض میدان میں اپنا ایک مقام بنا سکیں اورکوئی کردارنبھاسکیں جس مک کا ماضی، تاریخ اورتجربات یہ بتا رہے ہوں کہ اس کی توانائی وصلاحیت اچھی ہے یعنی متوسط سے زیادہ ہے (ہماراملک یقیناً اسی قسم کا ہے) تواسے سائنس کی ایجاد، توسیع اور ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اس کی پسماندگی نیزسیاسی، سماجی اور اقتصادی لحاظ سے اس کے ساتھ روارکھی جانے والی نا انصافی اور تبعیض جاتی رہے گی ہرچیز میں اس کا حصہ دوسرے ممالک اورموجودہ عالمی طاقتوں کے مساوی ہوگا پھروہ اپنا انتظام وانصرام خود کرے گا، اپنے پیروں پر کھڑا ہوگا اگر کچھ دے گا تو اس کے بدلے میں کچھ لے گا لیکن موجودہ دورمیں ایسا نہیں ہے۔

موجودہ دور میں دنیا کا تسلط پسند نظام کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر قائم نہیں ہے بلکہ یہ نظام زیادہ سے زیادہ لو اور کم سے کم دو کے اصول پر کاربند ہے ثروت لوٹ لیتے ہیں، قدرتی وسائل پر قبضہ جمالیتے ہیں، دوسرے ممالک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور بدلہ میں یا تو کچھ نہیں دیتے یا کوئی نقصان دہ چیزدے دیتے ہیں یا کبھی کبھار کسی ملک کو کچھ دے بھی دیتے ہیں اس وقت دنیا کا سیاسی منظر نامہ یہی ہے تسلط پسند اور تسلط پذیر!

اگریہ سلسلہ ختم کرنا ہے تاکہ ہرملک اپنی قوم کی صلاحیت اور استعداد کے لحاظ سے عالمی تعلقات میں اپنی جگہ بنا سکے تو اس کے لئے جوچیز سب سے زیادہ کارآمد ہے وہ علم اور سائنس ہے لہذا سائنس کو خوب اہمیت دینا ہوگی تاکہ آگے بڑھا جا سکے۔

ہم نے اس تحریک کا آغاز کر دیا ہے لیکن ابھی شروعاتی دور ہے سائنسی اورتحقیقاتی مراکز کے ساتھ تعاون ضروری ہے، سائنسی، تحقیقی اورٹیکنیکل پروجیکٹوں کے ساتھ بھی تعاون کیا جانا چاہئے اسی کے ساتھ علم وتحقیق کا یہ شوق ہر جگہ پہنچنا چاہئے یہ صرف استاد اور محقق تک ہی محدود نہ رہے بلکہ طلبہ کے درمیان بھی یہ شوق بیدار ہونا چاہئے طالب علم میں بھی سائنس کی ایجاد اور توسیع کا شوق پیدا ہونا چاہئے اس کام کے لئے تدبر کی ضرورت ہے یہاں نصیحت، درخواست، حکم وغیرہ کارساز نہ ہوں گے اس سلسلہ میں تعلیمی امورکے ہر ادارہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے چاہے وہ وزارت تعلیم وتربیت ہویا سائنس وٹیکنالوجی کی وزارت،چاہے وزارت صحت وعلاج ہواورچاہے ثقافتی امورکےپالیسی ساز ادارے، ان سب پر اس ضمن میں ذمہ داری عائد ہوتی ہے انہیں کچھ ایسا کرنا چاہئے جس سے یونیورسٹی کا ماحول تلاش علم کا ماحول بن جائے طالب علم واقعاً عالم بننا چاہے اس کا مقصد صرف ڈگری حاصل کرنا یا چھوٹی موٹی ملازمت کی اہلیت پیدا کرنا نہ ہو یہ قدم ضروری ہے یہ تحریک جاری وساری رہنا چاہئے حکومت، حکومتی اداروں اوران افراد کا تعاون اس ضمن میں بہت ضروری ہے جو مخاطب کی ذہن سازی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

میری تاکید ہے کہ جب بھی ہم سائنسی ترقی کے لئے کچھ کرنا چاہیں اس وقت ہمارے ذہن میں یہ رہنا چاہئے کہ سائنس اوردین ساتھ ساتھ ہیں دین سے الگ اور دین سے دور سائنس چاہے پہلے ہی قدم میں اورمختصر سی مدت میں کسی ملک کو ایک فخریہ مقام دلا دے لیکن یہ چیز مستقبل بعید میں انسانیت کے لئے مضر ثابت ہو گی جیسا کہ آپ ملاحظہ کررہے ہیں کہ یہ چیزاس وقت بھی نقصان دہ ثابت ہورہی ہے۔

سائنس اگر دین سے الگ ہو اورخود کو پابند دین خیال نہ کرے تواس کا نتیجہ وہی ہوگا جو اس وقت دنیا میں نظر آرہا ہے سائنس ہی ہے جس کے بل بوتے پر دوسروں کو آنکھیں دکھائی جا رہی ہیں، سائنس ہی کے وسیلہ سے دوسروں کا استحصال ہو رہا ہے، سائنس ہی کے ذریعہ نسلیں برباد کی جا رہی ہیں جہاں ایٹم بم سائنس کا نتیجہ ہے وہیں طرح طرح کی منشیات بھی سائنس ہی کی ایجاد ہیں دنیا کے بہت سارے ممالک میں انسانی احساسات سے عاری افراد کے برسراقتدارآنے کا سبب سائنس ہی بنی ہے سائنس کو دین کا ساتھی سمجھنا چاہئے علم خداکی خاطر اورخدا کی راہ میں حاصل کرنا اوراستعمال کرنا چاہئے ہر جگہ یہ بات ہمارے بنیادی اصولوں میں شامل ہونی چاہئے۔

دین کے ہمراہ سائنس کی برکتیں بھی بہت ہیں یہ میں آپ سے عرض کردوں یہ مت کہئے کہ اگرہم نے سائنس کو مقدس سمجھا، اسے دین کے ہمراہ قراردیا اورمومن بننے لگے توپھراس میں ترقی نہ ہوپائے گی جی نہیں یہی آپ کا یونیورسٹی جہاد کا شعبہ یہی خود آپ کے کارنامے! یہ سارے بڑے کام مومن افراد کے ذریعہ انجام پائے ہیں یہ اس بات کی علامت ہے کہ سائنس جب ایمان کے ہمراہ ہو تواس کی توفیقات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

کچھ اورباتیں بھی میں نےعرض کرنے کے لئے نوٹ کر رکھی تھیں لیکن اب وقت نہیں بچا ہے بارہ بج چکے ہیں امید ہے کہ انشا اللہ ہماری یہاں آمد جملہ حکام کی طرف سے ملک کے سائنسی طبقہ کی جانب سے شروع کی گئی اس علمی تحریک، خاص طور سے یونیورسٹی جہاد، اوربالاخص رویان فاؤنڈیشن کی قدردانی اور حق شناسی کا پیغام قرارپائے گی، دعا ہے کہ خدا آپ سب کو اجروپاداش عطا فرمائے! خدا ہمارے عزیزمرحوم کاظمی کی روح پر اپنی رحمتیں اوربرکتیں نازل کرے! ان کی اہلیہ بھی یہاں تشریف فرما ہیں خدا انہیں صبروسکون نصیب فرمائے! ہمیں یونیورسٹی جہاد اوررویان میں مصروف عمل آپ عزیزوں کی توفیقات میں روزبروز اضافہ دکھائی دیتا رہے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ