ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کاصوبہ فارس کے دانشوروں، ماہرین اور مفکرین سے خطاب

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ عزیزوں کا یہ آج کا اجلاس میرے لئےبہت ہی دلچسپ اور لذت بخش رہا، ۔ تمام اہم شعبوں کی ممتاز وقد آور شخصیات، سرکردہ افراد، اور منتخب عہدہ داروں نے ایسے نکات بیان کئے جو میرے لئے بہت مفید ہیں۔ ہمارے عزیزوں نے جو مشورے دئیے، جو یاددہانیاں کرائی یا جو مطالبات پیش کئے ہیں انہیں لیکر کر متعلقہ حکام تک پہنچایا جائے گا اور جن چیزوں کا تعلق براہ راست مجھ سے ہےانشاء اللہ ان پر بھی عملدرآمد کی کوشش کی جائے گی۔
اس طرح کے اجلاس سے ہمیں اور قوم کو جو فوری فائدہ پہنچتا ہے وہ اس عظیم انسانی سرمائے پر توجہ مبذول کرناہے۔ مختلف دوروں کے دوران اس قسم کے اجلاس کے اہتمام کے پس پردہ میرا مقصد یہی ہوتا ہے۔ ہر دورے میں میرا اصرار رہتا ہے کہ صوبے کے دانشوروں، مفکرین اور ممتاز و منتخب شخصیات کےساتھ ایک دوستانہ اجلاس ضرور ہو۔ ہمارا مقصود یہ ہے کہ اس سے خود ہم کو بھی پتہ چلے اور بے یقینی کا شکار افراد کو یہ باور کرایا جا سکے کہ ملک میں کیسی عظیم انسانی قوت اور بے پناہ سرمایہ موجود ہے۔ قومی سطح پر اس اجلاس کے انعکاس سے ہمارے قومی افتخارات کی کتاب میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوگا اور اس پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ ہمارا ہدف ومقصد بھی یہی ہے۔
میں اس اجلاس میں سامع کی حیثیت رکھتا ہوں، اے کاش دامن وقت میں گنجائش ہوتی اور میں دوسرے عزیزوں کی گفتگو بھی سن سکتا۔ جو کچھ یہاں سننے کو ملا بہت شیریں اور دلچسپ تھا۔ مزید کچھ سننے کو ملتا تو یقینا وہ گفتگو بھی ایسی ہی ہوتی۔
جہاں تک میرے کچھ عرض کرنے کا تعلق ہے تو میں یہی کہوں گا کہ جو مقدمات فراہم ہیں ان کے پیش نظر قوم کی ترقی کے سفر کا مستقبل واضح ہے۔ ہمارا پر افتخار ماضی، با ارزش صلاحیتوں سے سرشار ہمارا حال اور مستقل کے لئے جوش و جذبہ اور بلند ہمتی، جس کا عزیزوں کی گفتگو میں بآسانی مشاہدہ کیا جا سکتاہے، اسی طرح ہماری ترقی کے سفر میں دینی و الہی رجحان، یہ سب ہمارا عظیم قومی سرمایہ ہے۔ یہ سب ہمیں اس بات کی نوید دیتے ہیں کہ ہم انشاء اللہ ملت ایران کی اسلامی تہذیب و ثقافت کو ایک بار پھر امت مسلمہ کے لئے نمونہ عمل کے طور پر پیش کر سکیں گے۔
فارس اور شیراز، جیسا کہ عزیزوں نے بیان فرمایا بہت مالامال سرزمین ہے۔ میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ علم و ادب کا شعبہ ہو یافن و ہنر کا میدان، زراعت ہو یا صنعت بالخصوص جدید صنعتی شعبے میں فارس ایک پیش رفتہ اور ممتاز صوبہ ہے۔ مستقبل کے لئے جو چیز انتہائی امید افزا ہے وہ یہی ہے۔ بحمد اللہ خلاقیت کا نعرہ جس کا لازمہ صلاحیتوں کا نشو نما اور سابقہ سرمایہ کاریوں کا ثمر بخش ہونا ہے، ایک حقیقی نعرہ ہے۔ یہ وقت کا نعرہ اور ہماری ضروریات کا آئينہ دار ہے۔ قرائن سے اس کی بخوبی نشاندہی ہوتی ہے۔ خلاقیت ملک کی ترقی کے موجودہ سفر کی ضرورت ہے۔ خلاقیت کا مطلب ماضی اور پہلے کی چیزوں پر خط بطلان کھینچنا نہیں بلکہ ماضی کی بنیادوں کے سہارے مستقبل کی تعمیر ہے۔ اس کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری ساری کوششیں اس ملک اور اپنی تاریخ کو سنوارنے پر مرکوز ہوں۔
آج ہمارے دوش پر بہت اہم ذمہ داری عائد ہے، اس سے قبل کبھی بھی قوم کے ہاتھوں میں مستقبل کا اختیار نہیں رہا ہے۔ ملک کی تاریخ سے واقف حضرات اس کی تائيد کریں گے۔ ماضی میں قوم ہمیشہ حکمرانوں کے ہاتھوں کا کھلونا رہی ہے۔ قوم کی ترقی کا دارومدار اس پر تھا کہ حکام عقلمند، دانشمند، باشعور اور زیرک ہیں یا نہیں۔ ان کا ارادہ کیا ہے اور ان کا دل کیا چاہتا ہے۔ قوم کے پاس ملک کی رہنمائي کا کوئي اختیار نہیں تھا۔ ملت ایران کے عظیم کارنامے در حقیقت اس عظیم زمین کے اندر پائے جانے والےذخیرے کے چند ذرات ہیں جنہیں حکمرانوں نے باہر آنے کا موقع دیا۔ یعنی عوام، علماء، فلاسفہ، ادبا، فنکار اور دیگر طبقات کے لوگ، پالیسی مرتب کرنے، منصوبہ بندی اور دیگر اہم فیصلوں میں کوئي کردار ادا کرنے کا موقع نہیں پاتے تھے۔ کبھی کسی بادشاہ کا دل چاہتا تھا کہ قلمرو کو وسعت دی جائے تو جنگ اور حملے کی سمت کوششیں مرکوز ہو جاتی تھیں اور جب بادشاہ پسپائي اختیار کرنا چاہتا تھا تب بھی عوام کی مرضی کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا تھا اور عوام اگر چاہتے بھی تو اس حکمراں کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے تھے۔ کبھی کبھار کوئي قیام ہوا کوئي تحریک چلی لیکن بہت محدود پیمانے پر، ایسی کسی وسیع تحریک کا کوئي تذکرہ نہیں ملتا جس سے عوام کی وابستگی اور دلچسپی رہی ہو،اس طرح موجودہ دور، ملت ایران کی تاریخ کا تابناک و درخشاں دور ہے۔
اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اسلامی جمہوری نظام کے زمانے کا طرہ امتیاز یہی ہے کہ شخص واحد کی حکمرانی کے بجائے قومی عزم و ارادے پر استوار نظام نافذ ہے۔ بنیادی فرق یہی ہے۔ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ یہ قومی اور اجتماعی ارادہ و خواہش اسلام کی تعلیمات اور آیات الہی کی روشنی میں آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کی قدر دانی ضروری ہے۔ قوم کی صلاحیتوں کے خزانے میں جو کچھ بھی ہے آج ملک کی ترقی کے لئے پوری آزادی کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں ہر لمحہ خلاقیت کی ضرورت ہے، صرف صنعت اور زراعت کے شعبوں میں ہی نہیں بلکہ ایک ملت کی زندگی کے گوناگوں شعبوں میں اس کی ضرورت ہے۔ بحمد اللہ ہماری قوم عقیم نہیں ہے۔ یہ تو وہ قوم ہے جس کی "زرخیزی" جس کی پیش قدمی اور جس کی صلاحیتوں کی گواہی تاریخ کے اوراق دیتے ہیں لہذا یہ ہمارے لئے ناممکن نہیں۔ ہم دنیا سے کم از کم دو سو سال پسماندہ رہ گئے۔ یہ تلخ حقیقت ہے جس کا اقرار کرنا پڑےگا۔ اس پسماندگی کا سبب کیا تھا یہ ایک الگ بحث ہے۔ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ ہم ترقی کے کارواں سے کم از کم دو سو سال پیچھے رہ گئے ہیں۔ جو کچھ بھی آپ نے اب تک سنا اور دیکھا ہے وہ اس جلسے میں بیان کی گئي باتوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ قومی سطح پر جو سرگرمیاں، بڑے کام اور نئي نئی ایجادات انجام دی جا رہی ہیں یہ سب مل کر ہماری پسماندگی کے ایک حصے کی تلافی کر سکتی ہیں۔ ہاں ان کوششوں میں مزید وسعت آئے اور ہم بلند ہمتی کے ساتھ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے بروی کار لائیں تو ہماری پسماندگی کی مزید تلافی ہوگی اور پھر ہم وہ مقام حاصل کر سکیں گے جو ہمارا حق ہے۔
کسی قوم کی پسماندگی بہت بڑا دکھ اور بہت بڑی مصیبت ہے، خطرناک بیماری ہے۔ بلند حوصلے اور مسلسل کوششوں کے ذریعے اس بیماری کا علاج کرنا ہوگا اور اس سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ سب سے پہلا اہم کام یہ تھا کہ ہم بیدار ہوں، اس بیماری کو پہچانیں اورپھر دوسرے مرحلے میں اس کے علاج کے لئے قدم بڑھائیں۔ یہ مراحل طے پا چکے ہیں۔ ملت ایران بیدار ہو چکی ہے۔ اسے اس ضرورت کا احساس ہے کہ خود کو شایان شان مقام تک پہنچانا ہے۔ قوم کو اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ طویل عرصے تک، کئي عشروں تک غفلت کے نتیجے میں پسماندگی کا شکار رہی ہے۔ ملت ایران کو اس کا احساس ہو چکا ہے۔ طاغوتی دور میں ہمیں میٹھے خوابوں میں دھکیل دینے کی جو سازش تھی اب بے اثر ہو چکی ہے۔ اس دور میں ہماری آنکھوں پر اس طرح پٹی باندھ دی گئي تھی کہ گویا ہم بدمست اور خود سے بیگانہ لوگ ہیں۔ ہمیں عظیم تہذیب کے دروازے اور اسی طرح کے دیگر القاب دے کر خیالوں کی دنیا میں دھکیل دیا گيا تھا۔ ہم کوئي اقدام نہیں کر پا رہے تھے۔ ہم پر جمود طاری ہو گیا تھا۔ جمود کا شکار ہو جانا اور پیش قدمی بند کر دینا بھی پسماندگی کے مترادف ہے کیونکہ دنیا ہمارے انتظار میں رکنے والی تو تھی نہیں۔ دنیا پوری رفتار سے ترقی کی شاہراہ پر گامزن تھی اور ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھےبیٹھے تھے۔ یہ از خود بیگانگی اور بدمستی کا عالم بحمد اللہ ختم ہو چکا ہے۔ قوم ہوش میں آ چکی ہے۔ انقلاب کی عظیم تحریک نے ہمیں جھنجھوڑ کر بیدار کر دیا۔ آج ہمارے نوجوانوں کو احساس ہے کہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنا ہے۔ برق رفتاری کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ان میں اس کے لئے ضروری توانائي بھی ہے اور بلند حوصلہ بھی اور دوسری جانب راستہ بھی واضح اور صاف ہے۔ لہذا ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ یونیورسٹیاں، دینی تعلیمی مراکز، تحقیقاتی ادارے، متعلقہ عہدہ داران سب پر سنگین ذمہ داریاں ہیں، ذمہ داریاں بالکل واضح ہیں اور بحمد اللہ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پیش قدمی شروع ہو چکی ہے۔ انشاء اللہ ہم روز بروز پیش رفت کریں گے۔
جو باتیں آپ حضرات نے دوستانہ سفارشات کے عنوان سے پیش کیں ان میں بیشتر کو بآسانی جامہ عمل پہنایا جا سکتا ہے۔ یہ صحیح اور مفید سفارشات ہیں۔ امید ہے کہ انشاء اللہ ان پر عملدرآمد کیا جائےگا۔
آپ حضرات سے جو باتیں میں عرض کرنا چاہتا ہوں ان میں سب سے پہلی بات تو یہ کہ آپ ممتاز شخصیات اور منتخب افراد جس شعبہ اور محکمہ میں بھی سرگرم عمل ہیں، روز بروز امیدوں کی شمعیں روشن کیجئے۔ نوجوان نسل میں نئي امیدیں پیدا کیجئے۔ ناامیدی اور مایوسی پھیلانا مستقبل کو تاریک ظاہر کرنا مہلک زہر ہے۔ معاندانہ پروپیگنڈہ مہم کے ذریعے ملک میں انتشار پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ان کوششوں کا مقابلہ کیجئے۔
تمام شعبوں میں علامتیں اور آثار ایسے ہیں جو ہمیں پیش رفت و ترقی کی نوید دے رہے ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ یہ نوید ایک نسل گزرنے سے قبل ہی عملی طور پر ہمارے سامنے آ جائے گی اور ہمارے نوجوان ملک کو اس مقام پر دیکھیں گے جو اسلامی ایران کے شایان شان ہے۔ اس دن دنیا کی قومیں، دانشور اور سائنسداں ،سائنسی اور علمی شعبوں میں کوئي نیا قدم اٹھانے کے لئے ایران، ایرانی زبان اور ایرانی ثقافت کی ضرورت محسوس کریں گے۔ یہ دن آ سکتا ہے۔ جس طرح آج انسانی ضرورت کے بہت سے فنون اور علوم حاصل کرنے کے لئے انسان کو کسی ملک یا کسی قوم کی زبان سیکھنے کی ضرورت پڑتی ہے جب وہ دن آئے گا تو دنیا کے لوگ آپ کی زبان سیکھنے کی ضرورت محسوس کریں گے، آپ کے طور طریقے سیکھنے کی کوشش کریں گے۔ وہ دن آئے گا یہ بات ممکن ہے۔ اگر ہم ہمت سے کام لیں اور یہی کوششیں جو آج نظر آ رہی ہیں اور یہی جوش وجذبہ جو ہمارے نوجوانوں، سائنسدانوں اور قوم میں موجزن ہے اگر اسی طرح برقرار رہا کہ جس کا ہمیں پورا یقین ہے، تو وہ دن دور نہیں ہے۔
اس جلسے میں شرکت کرنے والے تمام حضرات بالخصوص ان احباب کا ایک بار پھر شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے خیالات پیش کئے۔ امید ہے کہ انشاء اللہ ہم اس صوبے کی صلاحیتوں کی قدرو قیمت پہچاننے میں کامیاب رہیں گے۔
والسّلام عليكم و رحمة اللَّه و بركاته‏