ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا صوبہ فارس کے بسیجیوں اور پاسداروں سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم
والحمدللہ
رب العالمين والصّلاة والسّلام علي سيدنا ابي‌القاسم المصطفی محمد و علي آله الاطيبين الاطهرين المنتجبين؛ سيما بقية الله في الارضين.

رضا کار فورس (بسیج ) کے جوانوں کا اجتماع ملک کے جس گوشے میں بھی ہوتا ہے عطر جہاد کی خوشبو ان کے ہمراہ ہوتی ہے ۔ بالخصوص اگر یہ اجتماع ایسے مقام پر ہو جہاں کئي عرصہ سے بہت سےمشتاق دلوں کو جہاد کےمیدان میں دستوں کی شکل میں روانہ کیا جاتا رہا ہو اور تاریخ کے صفحات جن کے دلیرانہ کارناموں  اور شجاعت کے واقعات سے مملو ہیں ۔ شیراز کا یہ مرکز اور میدان ایسے ہی مقامات میں سے ایک ہے۔
یہ جو کچھ عرض کر رہا ہوں تاریخ میں موجودہے، حالانکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ با عظمت ہے جس طرح اسے رقم کیا گیا ہے اور میں اس کے بارے میں بعد میں اشارہ کروں گا، تاہم سب سے اہم بات ان حقائق کا ملکوتی کتاب، کتاب کرام الکاتبین میں درج ہونا ہے، صدیقین اور اللہ کے صالح بندوں کے نورانی صحیفہ میں اس کا ذکر ہونا ہے۔ جس چیز کے لئے انسان کو اپنی زندگی کا ہر لمحہ استعمال کرنا چاہئے اور جس کے لئے اپنی جان کی بازی لگا دینی چاہئے وہ وہی چیز ہے جس کی جانب حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے آخری لمحہ میں اشارہ فرمایا کہ " ولمثل ذالک فلیعمل العاملون" اگر انسان کو کوشش ہی کرنی ہے تو کیا اچھا ہو کہ اس کوشش کا ہدف، یہ عظیم مقام اور مرتبہ ہو۔
البتہ تاریخ میں بھی کسی چیز کا تذکرہ اپنی جگہ بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر آپ اس قوم کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو یہی نظر آئے گا کہ اقتدار کی منتقلی میں کبھی عوام کا کوئي کردار نہیں رہا۔ کبھی عوام نے اس سلسلے میں کوئی موثر رول ادا نہیں کیا۔ یہ صرف اسلامی انقلاب کا طرہ امتیاز ہے کہ جب ہمارے عظیم رہبر کی صدائے انقلاب کانوں تک پہنچی تو قوم میں حرکت پیدا ہوئی۔ ایسا نہیں تھا کہ معاشرے کے مخصوص افراد، کسی خاص جماعت اور بعض گروہوں نے میدان عمل میں قدم رکھا ہو، ایک سمندر تھا جس تلاطم برپا ہوگيا، انسانوں کا سمندر۔ جب مقدس دفاع کا مرحلہ آیا تب بھی صرف مسلح افواج نے ہی اپنے فریضہ کی ادائگي کے لئے قدم نہیں بڑھائے بلکہ بچہ بچہ آگے آیا۔ جہاں بھی جوش و جذبہ تھا جہاں بھی گرمی ایمان تھی لوگ میدان کارزار میں کود پڑے۔

اس عظیم قومی سرمائے کی جو شاخ شجرہ طیبہ کی طرح اس پاک و پاکیزہ سرزمین میں باقی رہی اور زندہ جاوید بن گئی یہی رضا کار فورس(بسیج) کا پاک و پاکیزہ درخت ہے۔ مخلص ترین، مشتاق ترین، اور پرجوش ترین افراد اس پلیٹ فارم پر جمع ہوئے، ہمارے رضاکاروں کا یہ مجموعہ ہماری ایسی عظیم طاقت تھی جو ہر لمحہ میدان عمل میں موجود رہی۔
رضاکار فورس(بسیج) کی تشکیل ، امام (خمینی رہ) کے ابتکار عمل کا نتیجہ ہے۔ بسیج، جو مقدس جذبات ، احساس ذمہ داری اور وفاداری کا مجموعہ تھا اسے ایک تنظیم کی شکل میں ڈھال دینا، ہمارے عظیم امام (خمینی رہ) کا کارنامہ تھا۔ ہم نے دیکھا کہ بعض مسلم ممالک کے سربراہوں نے اس سلسلے میں صاف لفظوں میں اعتراف کیا کہ یہ عظیم کارنامہ ہے۔ واقعی یہ ایک عظیم کارنامہ تھا جو امام (خمینی رہ) نے انجام دیا۔
یہی رضاکار دستے( بسیجی)، یعنی مشتاق دلوں کے مالک رضاکار تھے جو سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی تشکیل میں کام آئے۔ یہ کہنا صحیح ہے کہ بسیج، در حقیقت پاسداران انقلاب اسلامی کی ہی ایک کڑی اور اسی سے منسلک ادارہ ہے لیکن سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ان لوگوں کی شمولیت سے معرض وجود میں آئی جو بسیج میں پیش قدم اور ممتاز تھے، جنہوں نے لبیک کہہ کر میدان عمل میں قدم رکھا۔ یہ شجرہ طیبہ ہے۔
یہی وجہ تھی کہ ملک میں انجام پانے والے عظیم کارنامے یعنی مقدس دفاع میں ملک کو کبھی کمزوری کا احساس نہیں ہوا۔ حالانکہ فوجی طاقت، ساز و سامان اور روایتی وسائل کے لحاظ سے ہم اپنے مد مقابل دشمنوں سے بالکل الگ تھے ہمارے پاس جو کچھ تھا وہ دشمن کے پاس موجود طاقت کے ایک چھوٹے سے حصے سے بھی کم تھا، لیکن ہمیں احساس ضعف نہیں ہونے پایا۔ مقدس دفاع کے دشوار اور سخت ایام میں جوش و جذبے سے سرشار جوان دلوں میں امید کی شعمیں روشن رکھتے تھے یہ بہت کارساز ثابت ہوئے بسیج ایسا ہی ایک شجرہ طیبہ ہے۔
آپ عزیز نوجوانوں میں شائد بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے مقدس دفاع کے حالات کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے۔ آپ اس وقت کچھ نہیں کر سکے۔ چونکہ آپ موجود ہی نہیں تھے کہ میدان عمل میں آتے۔ تو اب آپ سب سے پہلے ان ایام میں سرگرم رہنے والےمومن اور جاں نثار جوانوں کی خصوصیات سے آشنائي حاصل کیجئے یہ صرف آپ ہی نہیں بلکہ ہر شخص کے لئے لازمی ہے کہ دفاع مقدس کے دوران بسیجیوں کی مجاہدانہ کوششوں اور مخلصانہ جاں نثاری سے جو معجزات معرض وجود میں آئے ان سے آگاہ ہوں۔ اس سلسلے میں بہت سی تحریریں ہیں، اچھی کتابیں لکھی گئي ہیں میرا مشورہ ہے کہ نوجوان ان کتابوں کو ضرور پڑھیں جو بسیجیوں اور دفاع مقدس کے ابتدائي سالوں کے سخت ترین حالات کے سلسلے میں لکھی گئي ہیں۔ انقلاب کی تاریخ میں جو کچھ گزرا ہے اس کی معرفت سے خود کو سیراب کریں۔ بسیج کی قدر وقیمت بہت بڑی اور عظیم بے ۔ بسیج میں سب سے پہلے ممتاز شخصیات شامل ہوئيں، سیاسی شخصیات بھی اور علمی شخصیات بھی۔ اس میں سماجی کارکنوں نے بھی شمولیت اختیار کی اور پاک و پاکیزہ دل والوں نے بھی خود کو اس کا حصہ قرار دیا۔ یہ ایسا پلیٹ فارم تھا جس پر طلبا بھی نظر آئے اور وہ سن رسیدہ افراد بھی حاضر ہوئے جن کی زندگی کا محنت و مشقت کا وقت گزر چکا تھا۔ ہر ایک کو یہی محسوس ہوتا تھا کہ وہ سیراب ہو رہا ہے۔ ان کی روحانی تشنگي، میدان کارزار میں جا پہنچنے سے دور ہوتی تھی۔ دفاع مقدس اور اس میں پر جوش شرکت کا یہ عالم تھا۔

یہی وجہ ہےکہ ملک کی تاریخ کا یہ زندہ جاوید واقعہ ہے۔ رضاکار فورس (بسیج) کی تشکیل اور مقدس دفاع کے دوران اس تنظیم کا اہم ترین رول ادا کرنا،بہت اہم کارنامہ تھا البتہ یہ بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ بسیج کا کردار معرکہ جنگ اور میدان کارزار تک محدود نہیں تھا۔ میدان جنگ، بسیج اور عوام کے کارناموں کا ایک مظہر اور ایک منظر ہے۔ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے پاک و پاکیزہ اور با اخلاق اور اچھے نوجوان بسیج کا حصہ ہیں اور بسیج انہی پر استوار ہے۔ اب جہاں بھی اسلام کو، اسلامی جمہوریہ کو ان کی ضرورت پڑتی ہے وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے وہاں نظر آتے ہیں۔ خوش قسمتی سے علم و دانش کے شعبے میں بھی بسیجی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ہم دیکھتے اور سنتے ہیں کہ یہ نوجوان نمایاں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں اور انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ جہاں بھی جوش و جذبے سے سرشار فعال نوجوانوں کی ضرورت ہے بسیجی وہاں موجود ہیں۔
آج آپ نوجوانوں کو جو بسیج کا حصہ ہیں، اسلام کے سلسلے میں اپنی اس ذمہ داری کا احساس رہنا چاہئے کہ آپ مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آپ اس عظیم تحریک کی سرعت میں اضافہ کر سکتے ہیں، آپ بہت سی گرہیں کھول سکتے ہیں۔ مختلف پہلؤوں سے جاری حملوں کا سد باب کر سکتے ہیں۔ وہ سیاسی یلغار ہو یا تبلیغاتی مہم، نفسیاتی جنگ ہو یافوجی کاروائي ہر مرحلے میں وطن کو، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کو سرچشمہ ایمان سے خروشاں جوش و جذبے اور عوامی تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ اسلامی انقلاب اور اس نظام نے الہی عوامل پر تکیہ کیا ہے جن میں سب سے اہم ایمان ہے۔ "ھو الذی ایدک بنصرہ و بالمومنین" اللہ تعالی پیغمبر اسلام (ص)کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ اللہ نے اپنی نصرت و مدد اور مؤمنین کے ذریعے آپ کی تائید و حمایت کی ہے۔ یعنی اللہ کی جانب سے نصرت و مدد اور غیبی امداد کی ایک شکل مؤمنین سے نصرت کروانا ہے۔
اسلامی جمہوری نظام کا توکل اللہ تعالی کی ذات پر ہے۔ ہمارا سفارتی شعبہ، ہماری حکومتوں کی گوناگوں سرگرمیاں عالمی سطح پر اور عالمی تعلقات کے میدان میں بہت مؤثر رہی ہیں اس کا اعتراف دوسروں نے بھی کیا ہے۔ ہماری سرگرمیوں کو کامیاب قرار دیا جا رہا ہے جبکہ ہم دنیا کی کسی بھی طاقت پر انحصار نہیں کرتے۔ ہمارا تکیہ اپنی اندرونی صلاحیتوں پر ہے جس کا سرچشمہ اللہ تعالی سے رابطہ اور اس کی ذات پر توکل ہے۔ ہماری توجہ انسانوں کے اندر اللہ تعالی کی جانب سے قرار دی جانے والی صلاحیتوں اور توانائيوں کو منظم اورکسی ایک سمت میں مرکوز کرنے پر ہے تاکہ ان کی افادیت اور تاثیر میں کئي گنا اضافہ ہو جائے۔ آج اسلامی نظام کے دوش پر یہ عظیم ذمہ داری ہے، اس طرح ہمیں ہمیشہ بسیج کی ضرورت ہے۔ خواہ سیاسی، فوجی اور اقتصادی خطرات کا مرحلہ ہو خواہ معمول کے حالات ہوں۔ بحمد اللہ عوام کے تمام طبقات نے اس ضرورت کی تکمیل کے لئے بھرپور تعاون کیا ہے۔ شہر، دیہات، قبائلی علاقے، یونیورسٹیاں ہر جگہ ہر طبقے اور ہر شعبے کے افراد نے طلبا، ملازمین، کسانوں اور مزدوروں سمیت ہر ایک نے بسیج کی دعوت پر لبیک کہا ہے۔ اس کی ایک مثال یہی عزیز قبائلی لوگ ہیں۔ یہ صوبہ قبائلی بود و باش کا صوبہ ہے اور قبائلی بسیج کا شعبہ اس صوبہ میں بہت سرگرم اور فعال ہے۔
عمومی طورپر دنیا کے مختلف ممالک میں فرقوں اور مذاہب کی زیادہ تعداد تشویش کا سبب اور فکرمندی کا موضوع سمجھی جاتی ہے، لیکن ہمارے ہاں قبائل، تاریخ میں جہاں تک مجھے علم ہے دین و دینداروں اور علماء و دینی تحریکوں کے حامی و مددگار رہے ہیں۔ تاریخ پر جہاں تک نظر ڈالیں یہی انداز نظر آتا ہے، آج بھی ایسا ہی ہے۔ طاغوتی دور حکومت میں بھی صوبہ فارس کے قبائل نے استبداد کا مقابلہ کیا۔ قبائل کو مذہبی افراد کے خلاف اکسانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ سازش کامیاب نہ ہو سکی۔ قبائل نے انقلابی عناصر کی مدد کی اور جہاں مدد نہیں کر سکے ان کی نیک تمنائیں انقلابیوں کے ساتھ رہیں۔ ہمارے قبائل کچھ اس انداز کے ہیں۔ ہماری دوسری بستیوں میں بھی یہی فضا قائم ہے، یہ آمادگی اور یہ جذبہ ہمیشہ برقرار رہنا چاہئے۔
ہم نے بارہا اشارہ کیا ہے کہ اسلامی جمہوری نظام نے عالمی سطح پر عدل و انصاف اور مساوات کی بات کی ہے جس کے نتیجے میں خود بخود کچھ دشمن پیدا ہو گئے ہیں۔ عالمی میدان میں جو طاقتیں تسلط پسندی اور جارحیت و زبردستی کی بیساکھی پر کھڑی ہیں، اسلامی جمہوری نظام کے انصاف و مساوات کے نعرے کی مخالف ہیں، اس سے ناراض ہیں۔ اسی طرح قومی خود مختاری کے ہمارے نعرے کے خلاف بھی کچھ دشمن طاقتیں صف آرا ہیں۔ تمام تسلط پسند اور دوسروں کو اپنا دست نگر دیکھنے کی خواہاں طاقتیں جو ہماری قومی دولت کو ایک زمانے سے لوٹ رہی تھیں، جب ملک میں خود مختاری کی لہر چلی اور اغیار کو نکال باہر کیا گيا تو وہ ہمارے خلاف صف آرا ہو گئیں۔ یہ خیال درست نہیں کہ ملک کی فلاں پالیسی، اور ہمارے ایک عہدہ دار کے فلاں بیان کے نتیجے میں دشمنی پیدا ہوئی۔ دشمنی کی بنیادی وجہ ہمارا نظام اور اس نظام کی ساخت ہے۔ انہیں تکلیف ہمارے نظام اور امام ( خمینی رہ) کے بنیادی اصولوں اور اصولی نعروں سے ہے۔ لیکن اس کے بر خلاف قوموں کا عالم یہ ہے کہ وہ آپ کی گرویدہ ہیں۔ وہ ایرانی بسیجی نوجوان کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھتی ہیں۔ آپ کا نام، آپ کا تذکرہ، آپ کی روش عالم اسلام کے اندر اور اس کےباہر بھی لوگوں کی دلچسپی کا موضوع ہے۔ بڑی طاقتوں کی یہ ساری دھمکیاں اسی بنا پر سامنے آ رہی ہیں۔ بہرحال عوامی تعاون اور بسیج ایک نا قابل انکار حقیقت ہے۔
تھوڑے تھوڑے وقفے سے اسلامی نظام کے خلاف تسلط پسند طاقتوں کی جانب سے پروپیگنڈہ کی لہر اٹھتی ہے۔ گویا بار بار اس مہم کو دہرایا جاتا ہے۔ کبھی ایٹمی توانائی کے نام پر، کبھی انسانی حقوق کے نام پر اور کبھی کسی اور عنوان سے اسلامی نظام کے خلاف پروپگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اب یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ تشہیراتی مہم چلا کون لوگ رہے ہیں؟ اس مہم پر ان لوگوں کے ناموں کا داغ ہی مہم کی فرومايگی ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ انہوں نے قوموں کے حقوق کو بے دردی سے پامال کیا ہے۔ انہوں نے قوموں کے ذخائر لوٹے ہیں۔ یہ ہیں اس تشہیراتی مہم کے کرتا دھرتا۔ بہرحال ملت ایران بھی غافل نہیں ہے، پوری طرح بیدار و ہوشیار ہے۔
آپ نوجوانوں کو ہمیشہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنی دینی اور انقلابی معرفت کو حتی المقدور وسعت بخشئے۔ خود کو "زبر الحدید" فولاد کے ٹکڑوں کی مانند کہ جو احادیث کی اصطلاح ہے، بنائیے جو دوسری چیزوں کو کاٹ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن اسے کوئی دوسری چیز کاٹ نہیں سکتی۔ دشمن کے مقابلے میں آبدار تلوار اور آہنی ارادوں کے مالک بنئے۔
اگر آپ ایسی شخصیت کی تعمیر اور اس کے دوام کا ارادہ رکھتے ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ آئندہ آپ سے ملحق ہونے والی نسلیں بھی شجرہ طیبہ کی شاخوں کی مانند پھلتی پھولتی رہیں اور یہ مقدس تحریک لا زوال بن جائے تو آپ اپنی معرفتوں کے ستونوں کو مستحکم بنائیے۔ میری سفارش ہے کہ نوجوان طبقہ دینی تعلیمات اور علوم کے سلسلے میں خود کو بلند مقام پر پہنچائے جس کے بہترین طریقوں میں ایک شہید مطہری (عظیم الشان مسلم دانشور) کی تحریروں اور علمی میراث سے استفادہ کرنا ہے۔ ہمارے نعرے اصولی نعرے ہیں۔ ہمارے موقف اصولی موقف ہیں۔ ان میں مزید وسعت و گہرائي پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوان شہید مطہری کی کتب کا مطالعہ کریں۔ بسیجی جاں نثاروں اور افسروں کی سوانح حیات ضرور پڑھیں۔ راہ حق کے ان شہیدوں کے حالات زندگی سے واقفیت اہم ہے سب سے پہلے مرحلے میں سردار اعلی بسیجی اہلکار ہیں لیکن یہ خصوصیات "سرداروں" تک محدود نہیں ہیں۔ میں ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا جس میں سپاہ پاسداران انقلاب کے ایک بسیجی گروہ کے چند افراد کے بارے میں تفصیلات درج تھیں کہ انہوں نے میدان جنگ میں اپنی سرعت عمل، بلند ہمتی اور قوت ایمانی کے سہارے دشمن پر جو ضرب لگائي اور میدان کارزار میں جو نورانی مقام حاصل کیا ان کے بیانوں میں اور ان میں جو شہید ہو گئے ان کے وصیت ناموں میں وہ نورانی مقام اور وہ نورانیت صاف نظر آتی ہے۔ میں جب بھی اس طرح کی کوئی چیز پڑھتا ہوں مستفیض ہوتا ہوں۔ استفادے کا یہ راستہ آپ اپنے اوپر باز کیجئے۔ آپ نوجوان ملک کی امیدیں ہیں۔ ملک کے نوجوانوں میں جو زیادہ با ایمان اور جوش و خروش سے سرشار ہیں ان کے دم سے ملک و قوم کی امیدیں بڑھتی ہیں اور بے شک بسیجی ایسے ہی نوجوان ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ اس شجرہ طیبہ اور اس مشعل فروزاں کو اس کی اسی نورانیت اور اسلامی انقلابی حقیقت کے ساتھ سرسبز و شاداب و درخشاں رکھے۔
پروردگارا! ان عزیز نوجوانوں کے دلوں کو اپنی معرفت کے نور اور توکل کی عظیم نعمت سے منور و بہرہ مند فرما۔ اسلامی انقلاب کے اہداف اور مقاصد کی تکمیل کی راہ میں ان نوجوانوں کو ثابت قدم رکھ۔ خدایا! ہمارے شہدا کو اپنے اولیائے کرام کے ساتھ محشور فرما۔ خدایا ہمیں اپنی راہ میں شہادت کی موت نصیب فرما۔ یا اللہ ہمارے کردار و رفتار و گفتار اور ہمارے اعضاء و جوارح کو الہی اہداف کی راہ میں قرار دے۔ حضرت بقیۃ اللہ (ارواحنا فداہ) کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ