بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلواۃ والسلام علی سیدنا ونبینا ابی القاسم المصطفی محمدوعلی آلہ الاطیبین الاطھرین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔
اگرچہ انقلاب کے بے مثال اورحیرت انگیز واقعات بہت ہیں اورملت ایران کی یہ تحریک جو اسلامی انقلاب پر منتج ہوئی اس کے آغاز سے لے کر انجام تک یعنی انقلاب کی کامیابی تک، اورانقلاب کی کامیابی سے لے کرآج تک اس پورے انقلابی دورمیں یکے بعددیگرے بے مثال وحیرت انگیزواقعات آنکھوں اوردلوں کواپنی جانب متوجہ کئے ہوئے ہیں لیکن ان حیرت انگیز واقعات میں بھی شہید کا مسئلہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔
جوبھی چیز شہید کے نورانی وجود سے جڑی ہوئی ہے تعجب آور ہے اس کا جہاد کی سمت قدم بڑھانا، اس مادی اور رنگا رنگ جذبوں سے بھری دنیا میں ایک جوان کا اٹھ کھڑا ہونا، اللہ کے لئے قیام کرنا اورمیدان جہاد کی طرف چل پڑنا خود حیرت انگیزہے اس کےبعدتلاش و کوشش، میدان جنگ میں اپنے کو خطرے میں ڈالنا، اورشجاعت و بہادری کا وہ باب رقم کرنا جس کی ہر سطرایک زندہ جاوید اور نورانی عملی نمونہ ہو یہ بھی حیرت انگیز قدم ہے اس کے بعد اپنے شوق تک بھرپور رسائی، مادی پردوں کا سامنے سے ہٹنا اورمعشوق و محبوب کے چہرہ کا دیدارجوکہ شہادت کے نزدیک کے ایام میں شہدا کی حرکات و سکنات اور ان کی باتوں سے عیاں تھا اوراس ضمن میں بہت کچھ نقل ہوا ہے یہ بھی ایک حیرت انگیز بات ہے۔ میں آپ فارسیوں اورشیرازی حضرات ہی کے ایک شہید کا وصیت نامہ پڑھ رہاتھا تو اس میں شہید کہتا ہے " میں بے قرار ہوں، بے قرارہوں میرے دل میں ایک آگ ہے جس نے مجھے بے تاب کردیا ہے مجھے کسی چیز سے سکون نہیں ملے گا مگر یہ کہ محبوب سے ملاقات ہو جائے اے عزیزمحبوب خدا!" یہ ایک جوان کی باتیں ہیں یہ وہ مقام ہے جہاں تک ممکن ہے ایک سالک اور عارف سالہا سال کی جدوجہدکے بعد پہنچے لیکن ایک نوخیز جوان پرمیدان جنگ میں خداکااتنا فضل ہوتا ہے کہ وہ ایک سال کا راستہ ایک شب میں طے کر لیتا ہے اوراس بے قراری اور شوق کا پروردگار کی طرف سے مناسب جواب ملتا ہے یہ شوق خود خدا کا لطف اور حضرت حق تعالی کی توفیق ہے یہ بھی حیرت انگیزبات ہے۔
اس کے بعد شہید کا خون ہے۔ شہید کے گھروالے، شہید کی ماں، شہید کا باپ، شہید کی اہلیہ اوراولاد، شہید کے بھائی بہن اور دوست واحباب، صبرنہ کرپاتے، گریبان چاق کردیتے اگر یہ جوان طبیعی موت اس دنیا سےرخصت ہوتا، شہید کے خون پر ان کی طرف سے اس قدر صبر، تحمل، اطمینان اوراستقامت نظر آتی تھی کہ انسان حیران رہ جاتا تھا دوشہیدوں کی ماں نے مجھ سے کہا " میں نے اپنے بچوں کو خود دفن کیا ان پرمٹی پھیری، لیکن میرے ہاتھوں پرلرزہ طاری نہیں ہوا" کئی شہدا کے باپ نے مجھ سے کہا " اگر میرے بچوں کی تعداد ان سے کئی گنا زیادہ ہوتی تو میں انہیں بھی راہ خدا میں قربان کرنے لئے تیار تھا" یہ کون سا عنصرہے؟ یہ کون سا جوہر ہے؟ یہ کون سی برقی رو ہے جو خدا نے واقعہ شہادت میں پنہاں کررکھی ہے اورتاریک دنیا کو اس طرح روشنی عنایت کررہی ہے؟ آٹھ سال تک ایرانی قوم کے مردوں اور عورتوں کے دلوں میں یہ نور فروزاں تھا خدا نے ہاتھ تھام لئے خدا نے مدد کی۔
اگلا مورچہ شہدا نے سنبھالا اوردوسرا مورچہ شہدا کے پسماندگان اورگھروالوں نے انہوں نے آگے بڑھ کے راستہ کی رکاوٹیں ہٹائیں اوراس قوم کو شاداب، سرفراز، قابل فخر، پرعزم اورمستحکم ارادوں کی مالک بنا دیا ، جس میں صدیوں سے سستی اورمغرورں کےسامنے سرتسلیم خم کرنے کی عادت ڈال دی گئی تھی یہ تھا ہمارے شہدا کا کارنامہ! یہ تھا ہمارے مجاہدوں کا کارنامہ! یہ تھا ہمارے جنگی معذوروں کا کارنامہ! یہ دشمن کی قید میں ہمارے آزاد لوگوں کی استقامت کا نتیجہ تھا یہ کارنامہ آپ شہداء کے گھروالوں کا ہے۔ ایران اورہرایرانی کی گردن پر آپ کا حق ہمیشہ باقی رہے گا ایران کی تاریخ کو شہداء کے گھر والوں کا حق پہچاننا چاہئے۔
فارس صوبہ اورشیراز شہر کے شہداء کی تعداد چودہ ہزار پانچ سو سے زیادہ ہے! یہ کوئی مذاق ہے؟ وہ شیراز کہ جسے جنسی بے راہ روی اوردینی اصولوں اور اقدار سے بے توجہی کا نمونہ بنانے کا منصوبہ تھا، وہ شیراز کہ جس کے لئے تمنا تھی کہ وہاں پست حیوانی جلوؤں کے سوا کچھ نہ ہو، دینی اصولوں کا پتہ تک نہ ہو یہ منصوبہ تیار کیا گیا تھا اوراس پر عملدرآمد بھی شروع ہو چکا تھا لیکن چودہ ہزارپانچ سو شہداء، چونتیس ہزارسے زائد جنگی معذورین اور ڈھائی ہزارسے اوپرآزادلوگوں(قیدیوں) کا وجود فارس صوبہ اورشیراز شہر کے لوگوں کی طرف سے دشمن کودیاگیا منہ توڑ جواب ہے سلام ہو آپ پر! خدا کی رحمت ہو آپ پر!
شیراز عظیم امامزادوں کے لئے جائے پناہ تھی فارس میں جتنے امامزادوں کے مزار ہیں اتنے ملک کے کسی حصہ میں نہیں ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ معصومین کے فرزند جہاں بھی خلفاء کے ظلم وجورکی وجہ سے یا لوگوں کے تعاون کی امید سے سفر اختیار کرتے تھے تو شیراز یا فارس صوبہ کے کسی اور شہر کا رخ کرتے تھے وہ معنویت جس کے عظیم شہید مرحوم آیت اللہ دستغیب آئینہ دار تھے اس کا سرچشمہ بہی کبھی ختم نہ ہونے والافیض رساں مرکزاور اہل بیت( علیھم السلام) کا خاندان ہے یہ بات گہرے دینی جذبوں کا پتہ دیتی ہے۔ شہید دستغیب جیسی شخصیت اس طرح کی معنویت پروان چڑھاتی ہے اس عظیم شہید کی گرم سانسیں اس علاقہ کے ان تمام جوانوں کو معنویت کا فریفتہ بنا دیتی ہیں وہی جوان دل جو جنگ کے شروع کے ایام ہی میں محاذ جنگ پرروانہ ہوگئے۔
کل میں نے فوجیوں کے اجتماع میں کہا تھا کہ انقلاب کے شروع اورمسلط کردہ جنگ کی ابتدا میں جب محاذ پرہرلحاظ سے مشکلات تھیں ، خرمشہرکا بیشتر حصہ قابض فوج کے پیروں تلے روندھا جا رہا تھا ان دنوںمیں آبادان کے علاقہ اور خرمشہر کے اس حصہ کی طرف گیا تو وہاں کچھ مخلص، نورانی اور پر جوش جوان معمولی سے ہتھیار لئے ہوئے جنگ کے لئے آئے ہوئے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ " آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟" تو جواب ملا" شیراز سے" پوری مسلط کردہ جنگ کے دوران " المہدی" اور " فجر" نامی یونٹوں اورفوج کی شیراز میں تعینات بٹالینز کے جوانوں کا وجود نمایاں تھا ان بٹالینز کے بیشتر اراکین کا تعلق شیراز یا فارس صوبہ کے دوسرے شہروں سے تھا۔ جس چیز نے ان تمام جوانوں کو اس طرح سے اسلام کے دفاع کے لئے، قومی استقلال کے دفاع کے لئے، ملک کے دفاع کے لئے، ہماری تاریخ کے اہمترین واقعہ یعنی اسلامی انقلاب کے دفاع کے لئے میدان جنگ کی طرف کھینچ لیا تھا وہ مرحوم آیت اللہ شہیددستغیب وغیرہ جیسی عظیم شخصیات کا وجود تھا اورسب سے بڑھ کر خود امام (رہ)کا وجود اس سب کا باعث تھا یہ بھی ہمارے انقلاب کی بہت ہی اہم حیرت انگیز بات ہے۔
میرے عزیزو! اس دور کو کئی سال ہوگئے ہیں آپ میں سے بہت سے جوانوں نے مقدس دفاع کا دور نہیں دیکھا ہے، اسے درک نہیں کیا ہے اورکچھ کے ذہن میں دھندھلی سی یادیں ہیں وقت کا گذر لمحہ بہ لمحہ انسان کو واقعات سے دور کرتا رہتا ہے بعض واقعات بھول جاتے ہیں جیسے کسی تالاب میں پتھر پھیکنے سے ایک کمزور سی موج پیدا ہوتی ہے موج ہوتی ہے لیکن لمحہ لمحہ گذرتے ہی کمزورہوتی جاتی ہے اورایک منٹ بھی نہیں گذرتا کہ اس کا نام ونشان تک مٹ جاتا ہے لیکن بعض واقعات اس کے بالکل برعکس ہوتے ہیں نہ یہ کہ زمانہ کا گذر انہیں کمزورنہیں کرتا بلکہ ان کی عظمت مزید نمایاں ہوتی ہے اس کی ایک مثال واقعہ کربلا ہے۔
عاشورکے دن کوئی نہیں سمجھا کہ کیا ہوا ہے اس واقعہ کی عظمت، پیغمبر(ص) کے جگرپاروں اوراصحاب واعزاء کے جہاد کی عظمت اسی طرح پیغمبر(ص)کی اولاد اورآپ کے نورہائے چشم کی قربانی کی عظمت کا کسی کو اندازہ نہیں تھا اکثر جو لوگ وہاں موجودتھے وہ بھی نہیں سمجھے جودشمن کے لشکرمیں تھے وہ اتنے سرمست، غافل اور اس قدر اپنے سے انجان تھے کہ سمجھ ہی نہ سکے کہ کیا ہوگیا ہے دنیا کے نشے میں مست، غرور، شہوت وغضب میں سرمست، حیوانیت میں مست لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے ہیں کہ دنیائے انسانیت میں کیا ہو رہا ہے ہاں! حضرت زینب(س) اچھی طرح سمجھ گئیں، حضرت سکینہ (س)خوب سمجھ گئیں، وہ مظلوم خواتین اوربچیاں خوب سمجھ گئیں کہ کیا ہوگیا ہے یہ روز عاشور کی بات ہے لیکن عاشور کے بعد ہرآنے والے دن ، بارہ محرم کو کوفہ میں، چند ہفتے بعد شام میں، چند ہفتے بعد مدینہ میں اورکچھ عرصہ بعد پورے عالم اسلام میں اس واقعہ نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ اپنی عظمت واہمیت کو نمایاں کردیا ابھی اس واقعہ کو دو سال بھی نہیں گذرے تھے کہ وہ ظالم فرعون جو اس واقعہ کا سبب بنا تھا صفحہ ہستی سے مٹ گیا اورنابود ہو گیا اورچند سال نہ گذرے تھے کہ وہ پورا خاندان نابود ہوگیا بنی امیہ کا دوسرا خاندان تخت نشیں ہوا اور پھر کچھ سالوں بعد وہ بھی صفحہ ہستی سے مٹ گیا عالم اسلام روز بروزمکتب اہلبیت(ع) سے قریب آتا چلا گیا اس مکتب سے دلبستہ اور اس کا مشتاق ہوتا چلا گیا اس واقعہ نے تاریخ میں اسلامی عقیدہ اور مکتب اسلام کی جڑیں مضبوط کرلیں اگر کربلا کا واقعہ نہ ہوتا تو آج ہمیں اسلامی اصولوں کی اتنی خبر نہ ہوتی، شاید صرف اسلام کا نام ہی ہمیں سنائی دیتا ، وقت گذرنے کے ساتھ نہ اس مقدس خون کا رنگ پھیکا ہوا اورنہ یہ واقعہ چھوٹا اورکمزور ہوا بلکہ روز بروز مضبوط، برجستہ اورمؤثرہوتا گیا یہ ایک واضح نمونہ ہے۔
آپ کا انقلاب اورآپ کے شہدا کی شہادت بھی اسی قسم کی ہے واقعہ کی شروعات ایک زلزلہ کی طرح تھی بہت سے لوگ تجزیہ کر رہے تھے کہ یہ ایک زلزلہ ہے جلد گذر جائے گا اور پھر بھلا دیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کا الٹا ہوا آج مسلم اقوام کے دلوں کی گہرائیوں میں اسلامی انقلاب کے مفاہیم مزید راسخ ہورہے ہیں یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ان لوگوں کا تبصرہ ہے جن کے دشمنوں میں سب سے بڑے دشمن ملت ایران اوراسلامی انقلاب ہے ان کا کہنا ہے وہ گواہی دے رہے ہیں۔ آپ جو دیکھ رہے ہیں کہ دشمن دھمکیاں دے رہے ہیں اورایرانی قوم پر غرا رہے ہیں اس کی وجہ ان کا یہ تجزیہ ہے ڈررہے ہیں دیکھ رہے ہیں کہ یہ واقعہ مٹا نہیں یہ موج ٹھہری نہیں بلکہ مستقل، مزید برجستہ، وسیع اور عمیق ہوتی جا رہی ہے لہذا ڈررہے ہیں۔
ایک روز انہوں نے سوچا کہ اس ملک میں انقلاب ختم ہو گیا ہے اور وجہ یہ تھی کہ کچھ نادان اور غافل لوگ یا یہ کہہ رہے تھے کہ انقلاب ختم ہوگیا ہے یا یہ کہہ رہے تھے کہ اب شہداء کا نام مت لو یا یہ کہہ رہے تھے کہ امام (رہ)کو اب تاریخی میوزیم میں رکھ دینا چاہئے اور اس طرح کی باتیں! جو بے عقل ان باتوں سے اپنے سیاسی تجزیے تیار کر رہے تھے انہیں یقین آگیا اور کہنے لگے کہ انقلاب ختم ہوگیا ہے آج جب آدمی دیکھتا ہے تو ان کے بیانات اور تجزیوں میں انکے سابقہ تجزیہ کے تئیں مایوسی کے آثار نظر آتے ہیں ایران کی عظمت، ایران کے استقلال اورایرانی جوانوں کی صلاحیتوں سے خوف کھا رہے ہیں۔
ایک قوم اور ایک ملک کی سائنسی ترقی دنیا کے ایک گروہ کی نظرمیں کیوں دھمکی آمیز ہے؟ کیوں؟ اس لئے کہ وہ واحد عالمی طاقت کے خواہاں ہیں تسلط کے خواہاں ہیں ایران کو لقمہ تر سمجھ رہے ہیں وہ تو سوچ رہے تھے کے اس ملک کو اس کے تمام قدرتی وسائل اورجغرافیائی پوزیشن کے ساتھ ایک ہی مرتبہ نگل جائیں لیکن ملت ایران کی بیداری، ایرانی جوانوں کی بیداری، ایرانی جوانوں کی صلاحیت اورسائنسی میدان میں درخشاں ترقی یہ کرنے نہیں دے رہی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کی ٹیکنیکی ترقی، آپکی جوہری توانائی اور سائنسی میدان میں آپ کی دیگر ترقیاں انہیں آپے سے باہر کر رہی ہیں جی ہاں! اگر ایرانی قوم لا تعلق ہو ایرانی جوان بے فکر ہو اورسائنس، شغل، صنعت اور خلاقیت کے درپے نہ ہواورایسے ہی عیش وعشرت کی زندگی گذارتا رہے تو وہ خوش ہوجائیں گے وہ یہی چاہتے ہیں وہ یہ نہیں چاہتے کہ شیراز سائنسی ترقی کا ایک مرکز ہو جیسا کہ میں نے کہا کہ آپ کا شیراز صنعتی ترقی کے میدان میں ملک کے دیگر صوبوں اور شہروں سے آگے ہے اور بعض سائنسی شعبوں میں تو آپ کے مردوخواتین عالمی شہرت پا چکے ہیں وہ یہ نہیں چاہتے وہ یہ نہیں چاہتے کہ ہماری یونیورسٹی، ہمارا حوزہ علمیہ، ہماری تجربہ گاہیں اورہمارے صنعتی مراکز بارونق ہوں وہ چاہتے ہیں کہ لڑکے لڑکی کا اختلاط، جنسی اختلاط، خواب غفلت اور عیاشی وغیرہ لوگوں کی زندگی پر غالب آ جائے وہ یہ چاہتے ہیں۔ آپ نے اس کے برعکس عمل کیا ہے امریکہ اورصہیونیوں کے آپے سے باہر ہونے اوراس سارے پروپیگنڈہ کی وجہ یہی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صاحب کیوں امریکہ کو دشمنی پراکسا رہے ہو؟ ٹھیک تو اگر ہمیں امریکہ کو دشمنی پراکسانا نہیں ہے توچادرتان کے سو جانا چاہئے کام وکوشش سے ہاتھ کھینچ لینا چاہئے اپنے قابل فخر کارناموں کو بھول جانا چاہئے تو امریکہ ہمارا شکر گذار ہو جائے گا یہ ہے امریکہ! کیا ایرانی قوم اس پر راضی ہے؟ وہ اس وجہ سے ہمارے دشمن نہیں ہیں کہ مثلاً ملک کے کسی ذمہ دار نے فلاں بیان دیا ہے یا ہمارے ملک کی اس طرح کی سیاست ہے جی نہیں وہ ایرانی قوم کی بیداری کی وجہ سے ہمارے دشمن ہیں جس جگہ بیداری کا مرکزہووہ اس قوم کے دشمنوں کے نشانہ پر ہے آپ ملاحظہ کیجئے، دیکھئے کہ جہاں سے بیداری پھوٹ رہی ہے جہاں سے قوم کے جوانوں کے ہوشیاری، حوصلے اورتیاریاں زیادہ سامنے آرہی ہیں اوردرخشاں ہورہی ہیں وہاں ان کی دشمنی زیادہ ہے شہداء کے گھر والوں کے زیادہ دشمن ہیں۔
الحمد للہ شیراز کے شہداء کے گھروالے اس طرح کے ہیں دیکھئے اس ماحول پر کیسے حوصلے اورکیسا احساس فخر سایہ فگن ہے یہی صحیح ہے فخر کیجئے واقعاً فخرکی بات ہے کہ انسان اپنا عزیز اپنا جوان راہ خدا میں دے دے اور جانتا ہو کہ خدا اس کام سے خوش ہوا ہے " صبراً واحتساباً" خدا کے ساتھ معاملہ کرے جانتا ہو کہ یہ جوان جو اس نے خدا کی راہ میں دیا ہے وہ دشمنوں کے حملوں کے مقابلہ میں ایک مورچہ تھا جسے اس قوم کے استقلال اورعزت کے لئے تعمیر کیا گیا تھا آپ کا ہر شہید ایک مورچہ ہے یہ فخر کی بات ہے جنگی جانبازوں اورمعذورین کی بھی یہی کیفیت ہے جنگی معذور زندہ شہید ہیں آپ عزیز جنگی معذور بھی شہداء کی مانند ہیں جوچوٹ جنگی معذور نے برداشت کی ہے شہید نے بھی وہی برداشت کی ہے اس کے مقدر میں پروازاورجانا تھا اور اس کے مقدر میں فی الحال یہیں رہنا! شہداء کے گھر والوں کو، شہید کے ماں باپ کو، شہید کی اہلیہ کو، شہید کے فرزندوں کو، شہید کے بھائی بہن اور رشتہ داروں کو اسی طرح جنگی معذور کے والد، بہن اوراہلیہ کو فخرکرنا چاہئے۔
ایک چیز جس کا مجھے ہمیشہ احساس رہتا ہے وہ جنگی معذور کی اہلیہ کا احترام ہے ان میں سے بعض عزیزخواتین نے جنگی معذورکو اسی معذوری کے ساتھ قبول کیا ہے شاباش! اور بعض ایسی ہیں کہ جنہوں نے ایک کڑیل جوان سے شادی کی تھی اچانک دیکھا کہ وہ ایک جنگی معذور بن چکا ہے قبول کر لیا استقبال کیا شاباش! جنگی معذورین کی بیویاں بہت با عظمت ہیں شہداء کی بیویاں جنہوں نے عزیز جوانوں کی تربیت کی ہے بہت باعظمت ہیں میں نے شہدائے شیراز کے حالات کے مطالعہ میں دیکھا کہ صوبہ فارس اورشیراز کے شہدء کے کچھ فرزندوں نے اعلی علمی اور تحقیقی پوزیشنیں حاصل کی ہیں یہ کیسے حاصل ہوتا ہے؟ اس ماں، اس شہید کی اہلیہ، اس بہادر خاتون اور مجاہدہ فی سبیل اللہ کی جدوجہد سے حاصل ہوتا ہے اس کا جہاد یہ ہے " حسن التبعل" حسن التبعل کا مطلب یہی ہے یعنی شوہر کی آبرو کی حفاظت کرنا، شوہر کی شخصیت کی حفاظت کرنا یہ ہے حسن التبعل! اور اس کی ایک مثال یہی ہے کہ شوہر راہ خدا میں چلا گیا تو اس کے بچوں کی ایسی تربیت کرے اورپالے پوسے کہ انہیں فخر کا احساس ہو اورشہید ہی کی راہ پر گامزن رہیں۔
میری آخری گزارش آپ سے یہ ہے کہ عزیزو! اگرشہداء عزیز ہیں جبکہ عزیزہی نہیں عزیزترین ہیں، اگرہمارے لئے محترم ہیں جبکہ محترم ہی نہیں سب سے زیادہ محترم ہیں تو ان کا احترام یہ ہے کہ ہم انہیں کی راہ پر گامزن رہیں ان کے اہداف کے حصول کی کوشش کرتے رہیں ان کے اہداف کے حصول کی کوشش کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسلامی اقداراوراسلامی جمہوریہ کے اہداف مدنظررکھیں اورانہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں اسلامی اقدار اور اسلامی جمہوریہ وہ محکم ستون اور وہ واضح نشان ہیںجو اس قوم کو دنیوی اوراخروی فخر کی بلندیوں تک پہنچا سکتے ہیں اس سلسلہ میں مردوعورت ایک سے ہیں شہید کے بچے اوربچیاں بھائی اور بہنیں اور جس جس کا شہید سے کوئی رشتہ ہے وہ اس سلسلہ میں یکساں ہیں جتنا آپ شہید سے زیادہ نزدیک ہیں اتنا آپ کافخر زیادہ اور ذمہ داری سنگین ہے ملک آپ کا ہے، ملک جوانوں کا ہے، مستقبل آپ کا ہے جو چلے گئے چلے گئے لیکن راستہ بنا گئے ہم آپ جو بچ گئے ہیں ہمیں اس بنے ہوئےراستے پر چلنا چاہئے بصورت دیگر اگر یہ ہو کہ انہوں نے راستہ بنایا ہے لیکن ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے تماشہ دیکھتے رہیں تو یہ ناشکری ہے شہدا کی قدردانی یہ ہے کہ جب انہوں نے راستہ بنایا ہے تو ہم اس راستہ چلیں اورآگے بڑھیں اس وقت یہ ہماری ذمہ داری ہے اور ایرانی قوم یہ ذمہ داری انجام دے رہی ہے الحمد للہ ملک کے حکام اس ذمہ داری پرعمل کے پابند ہیں اور اسلامی نعرے، اسلامی اصول اور بنیادیں ان کے سب سے اصلی نعرے اورپرچم ہیں ان شا اللہ یہ قوم اس عزم وحوصلہ کے ذریعہ، ان جوانوں کے ذریعہ ان مشعلوں کی روشنی میں جو شہداء کے خون سے فروزاں ہوئی ہیں اورروشنی پھیلا رہی ہیں اپنی سب سے بلند اوراعلی آرزوؤں کو پہنچ جائے گی۔
پروردگارا! شہیدوں پراپنی رحمت و مغفرت نازل فرما۔ پالنے والے! شہیدوں کے گھروالوں پر اپنا لطف، اپنا فضل اوراپنی رحمت نازل کر۔ پالنے والے! ہمیں شہیدوں کے ساتھ محشورکر۔ پالنے والے! ہماری موت صرف اپنی راہ میں شہادت کو قراردینا۔ پالنے والے! حضرت امام (رہ)کی دعا، شہیدوں کی دعا، شہید دستغیب کی دعا اور سب سے بڑھ کر حضرت ولی عصر(ارواحنا فداہ) کی دعا ہمارے شامل حال فرما۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ