ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا امام رضا(ع)کے حرم مطہرمیں زائرین اورمجاورین کےعظیم اجتماع سےخطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا ونبینا ابی القاسم محمدوعلی آلہ الاطیبین الاطہرین المنتجبین الھداۃ المھدیین المعصومین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

ربنا علیک توکلنا والیک أنبنا والیک المصیر۔

اس سال عید کی دو مبارکبادیاں ہیں عید نوروز کی مبارکبادی بھی ہے اورماہ ربیع المولود کی آمد کی بھی، یہ وہ مہینہ ہے کہ جس میں نیراعظم، نبی اکرم حضرت محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت ہوئی تھی۔ خود نوروز بھی ہم ایرانیوں کی ایک بابرکت عید ہے۔

لوگ سال کا آغاز خداکو یاد کرکے کرتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ ان کے حال کواحسن حال میں بدل دے۔ اس سال اس دعاکے ساتھ ماہ محرم وصفر کے دوران خدا کی طرف توجہ اوراس کی جانب کیا جانے والا توسل بھی عیدنوروز کی برکتوں میں اضافہ کر رہا ہے آپ اس صحن میں موجود حضرات کوحضرت علی بن موسی الرضا(علیہ السلام) کی بارگاہ کی زیارت کا شرف بھی حاصل ہوا ہے لہذا آپ کواورزیادہ برکتیں نصیب ہوئی ہیں۔ مجھے بھی کچھ باتیں بیان کرنے کا موقع ملا ہے جو آغاز سال کے موقع پر انشا اللہ ہمارے لئے مفید واقع ہوں گی۔

سال کا آغازقومی عزم کے استحکام اوراپنی عمرکے آنے والے ایک سال کوبابرکت بنانے کا اچھا موقع ہے اگرایرانی عوام کی ہر اکائی سال کے شروع میں صرف یہی عزم کرے کہ ہم اپنی محنت اورکوشش سے اس سال کوثمربخش بنائیں گے توخداوند متعال بھی یقیناً مدد کرے گا البتہ اس عظیم قومی عزم کی بنیاد یہ ہے کہ نیت پاک ہو، رضائے الہی کے حصول کا جذبہ ہو ، صراط مستقیم پرچلنے کا قصد ہو، اس کے بعد یہ دیکھا جائے کہ ہماری پوزیشن کیا ہے اورہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ موجودہ عالمی حالات اورقوم کودرپیش چیلنج کے تناظرمیں اپنی پوزیشن سمجھنا اوران چیلنجوں کے مقابلہ کے بنیادی طریقے جاننا ایک با حیات قوم کی کامیابی کے لئے شرط ہے۔ قوم کے پاس اپنی پوزیشن، مقام اورحالات کا صحیح ادراک ہونےکے ساتھ ساتھ موجودہ حالات کے لئے منصوبہ اوراس راہ میں فطری طور سے پیش آنے والی چیزوں کے مقابلہ کرنےکا حوصلہ اورپختہ عزم ہونا چاہیے۔ ایک گھنٹہ تک میں آپ کی خدمت میں حاضر رہوں گا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں اسی ذیل میں تھوڑی بہت گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔

ہم ایرانیوں کی بنیادی چیز جو ہمیشہ ہمارے مد نظر رہنی چاہئے یہ ہے کہ ہماری قوم اورہمارے جملہ عوام نے اپنے لئے ایک بڑے ہدف کا تعین کیا ہے انقلاب اسلامی کے بعد کی دہائیوں میں ہم اسی ہدف پر کاربند رہے ہیں جتنا بھی ہم غور کرتے ہیں ہمیں یہی احساس ہوتا ہے کہ ہم میں ان دو اہداف کے حصول کی لازمی صلاحیت موجود ہے یہ عظیم ہدف اسلامی ایران کی سربلندی اورمسلم اقوام کے درمیان مادی اورروحانی دونوں اعتبارسے نمونہ عمل بننے سے عبارت ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری قوم کومادی اورروحانی دونوں لحاظ سے پیشرفت کی ضرورت ہے، اس کے پاس قومی استقلال ہونا چاہئے، قومی وقارہونا چاہئے، قومی توانائیاں اورصلاحیتیں ہونی چاہئیں، اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کارلانے کی طاقت ہونی چاہئے، قوم عمومی طورپر آرام وآسائش فلاح و بہبود میں ہواوراس کی زندگی پرسماجی وعمومی انصاف حاکم ہو جب ایسا ہوجائے گا تو یہ قوم تمام مسلم اوریہاں تک کہ غیرمسلم معاشروں کے لئے بھی نمونہ عمل بن جائے گی ایرانی قوم چاہتی ہے کہ وہ ایک آزاد، خوشحال اوربا ایمان قوم ہواوراس کا ملک آباد اورترقی یافتہ ہو۔ یہ ہے ایرانی قوم کا ہدف۔

اس ہدف کے تئیں کہیں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے پارٹی جھگڑے اورسیاسی اختلافات یہاں ختم ہوجاتے ہیں یہ ہدف ایرانی قوم کی ہر فرد کو منظور ہے ہمارا ملک آباد ہونا چاہئے ہماری قوم آزاد اور سربلند ہونی چاہئے ہمیں اپنی قومی صلاحیتیں اچھی طرح بروئے کار لانی چاہئیں، ہم میں آگے بڑھنے کی توانائی ہونی چاہئے، سماجی انصاف کا پرچم ہمارے ہاتھوں میں ہونا چاہئے اسلامی ایمان کا پرچم اٹھاکے ہمیں دیگرمسلم اقوام کے آگے آگے چلنا چاہئے پوری ایرانی قوم ان ساری چیزوں کی طالب اوردلدادہ ہے اورہم یہ ہدف حاصل کر سکتے ہیں قومی صلاحیتوں کی شناخت سے بھی یہی امید پیدا ہوتی ہے اورگذشتہ تجربات بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔

ایرانی قوم باصلاحیت ہے، ثابت قدم ہے، اس میں قومی ومذہبی غیرت پائی جاتی ہے، یہ اسلام پرگہرایقین رکھتی ہے، اپنے وطن سے عشق و محبت رکھتی ہے، یہ ساری چیزیں ہمارے اندر یہ یقین اورامید پیدا کرتی ہیں کہ ہم اپنے ہدف تک رسائی کی طاقت رکھتے ہیں یہ پہنچ سے باہر نہیں ہے گذشتہ تجربات بھی یہی ثابت کرتے ہیں۔

دیکھیے ہم لوگ بدعنوان اوراغیارسےوابستہ حکومتوں کے نتیجہ میں سالہا سال تک عالمی مقابلوں کے میدان سے باہر رہے ہیں۔ کسی وقت میں ایرانی قوم علم وادب میں سب سے آگے تھی لیکن عوام سے الگ تھلگ جابر بادشاہوں کی حکمرانی میں ہمارا حال یہ ہوگیا کہ تقریباً دوسوسال سے جب سے دنیا میں علمی وسیاسی مقابلے شروع ہوئے ہیں یہ میدان سے باہر ہے۔ جب کوئی قوم اقوام عالم کے مقابلوں میں شریک ہی نہیں ہے تو فطری طور پر اس کی توانائیاں جاتی رہیں گی اوراس کی کامیابیوں کا گراف نیچے آجائے گا آپ فرض کیجئے کہ ایک کھیل کی ٹیم ہےجس میں صلاحیت بھی ہے، جوش بھی ہے، کھیلنے کا شوق بھی ہے لیکن اسے کھیل کے مقابلوں میں شریک نہیں ہونے دیا جاتا توفطری طور پر اس کی توانائیان کم ہوتے ہوتے ختم ہوجائیں گی ہماری قوم کے ساتھ یہی ہوا ہے۔

اسی کے باوجودکہ سالہا سال تک بدعنوان، نالائق اوراغیارسے وابستہ حکومتوں نیزظالم بادشاہوں نے ہماری قوم کی یہ حالت بنا رکھی تھی لیکن جیسے ہی اسلامی انقلاب کے ذریعہ ہمارے سامنے سے اس راہ میں حائل رکاوٹیں ہٹیں،ہم عالمی مقابلوں شریک ہوئے اور بڑی بڑی کامیابیاں اپنے نام ثبت کرلیں۔ سائنس اورسیاست دونوں میں اس وقت ہماری قوم دنیا میں اپنی ایک پہچان رکھتی ہے اقوام عالم کے درمیان اس کی بھی ایک حیثیت ہے سائنس میں ہم عصری لحاظ سے ترقی یافتہ ہیں لیکن دوسوسال کی پسماندگی کی تلافی بیس تیس سال میں ممکن نہیں ہے البتہ ہم ان بیس پچیس سالوں میں اس مختصروقت کے لحاظ سے بہت تیزی سے آگے بڑھے ہیں آج آپ دیکھئے کہ جوہری توانائی، بنیادی سیلز، حرام مغز کے نقصانات کو دور کرنےاوردیگردسیوں شعبوں میں ہمارے جوانوں نے پیشرفت کر لی ہے قوم کواگر ٹھیک سےان ساری چیزوں کا پتہ چلے تواسے بہت خوشی ہوگی ہماری ممتازعلمی شخصیات دنیا بھر میں معروف ہیں، ہرجگہ ان کی دادوتحسین ہورہی ہے۔

سیاسی مقابلوں کا حال بھی یہی ہے اس وقت سیاسی معاملات میں علاقائی اوربین الاقوامی دونوں سطح پراسلامی جمہوریہ ایران کا موقف بہت مقبول و پسندیدہ ہے ایران کا موقف قابل سماعت سمجھا جاتا ہے ہمارے ملک کے حکام عالمی محفلوں، غیرملکی دوروں اورکوئی موقف اختیارکرتے وقت مقبول ومعروف ہواکرتے ہیں۔ ہماری قوم کا یہ حال اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ ہم میں ان میدانوں میں وارد ہونے اورآگے بڑھنےکی بھرپورصلاحیت موجودہے۔

ہماری قوم نے عالمی سیاسی زبان میں نئے مفاہیم داخل کئے ہیں دنیا کودینی عوامی حکمرانی کا پتہ نہیں تھا اس وقت دینی عوامی حکمرانی تمام مسلم اقوام کا مطلوبہ ہدف بن چکا ہے۔ تسلط پسند نظام کی تعریف دنیا کو معلوم نہ تھی اس کی ہماری قوم نے تعریف کی تویہ لفظ عالمی سیاسی لغت میں داخل ہوگیا دین پرمبنی سیاست، قانون، ملکی انتظام وغیرہ وہ جدید الفاظ ہیں جنہیں ہماری قوم عالمی سیاسی لغت میں داخل کرچکی ہے لہذاہم دنیا کے سائنسی، سیاسی، صنعتی، معاشی اورثقافتی مقابلوں میں حصہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں نیزتھوڑے عرصہ میں کامیاب ہوجانے اورطویل عرصہ میں سب سے آگے نکل جانےکی امید بھی رکھ سکتے ہیں یہ ہماری قوم کا حال ہے۔

لیکن یہ جس راستہ پر ایرانی قوم چلنا چاہتی ہے یہ تارکول والابلارکاوٹ راستہ نہیں ہے ہمیں اس راہ میں چیلنجوں کا سامنا ہے ہمارے دوبڑے دشمن ہیں آج میں ان دودشمنوں کوآپ کے سامنے مختصراً پہچنوا دوں تاکہ یہ دیکھیں کہ ہم اورآپ ان دشمنوں کے مقابلہ میں کیا کر سکتے ہیں ہرقوم کو اپنے دشمن کی شناخت ہونی چاہئے اسے دشمن کی سازشوں کا پتہ ہونا چاہئے تاکہ خود کواس کے مقابلہ میں مسلح کرسکے ہمارے دو دشمن ہیں ایک اندرونی دشمن ہے اورایک بیرونی، اندرونی دشمن زیادہ خطرناک ہے اندرونی دشمن کون سا ہے؟ اندرونی دشمن وہ بری خصلتیں ہیں جو ممکن ہے ہمارے اندرہوں۔ سستی، کام کا حوصلہ نہ ہونا، مایوسی، حدسے زیادہ خودخواہی، دوسروں سے بدگمانی، مستقبل کے بارے میں مایوسی، خوداعتمادی کا فقدان(نہ خود پربھروسہ ہواورنہ قوم پر) یہ بیماریاں ہیں اگر یہ اندرونی دشمنیاں موجود ہوں توہمارا کام سخت ہوجائے گا ایرانی قوم کے بیرونی دشمنوں کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ ایرانی سماج میں یہ سارے جراثیم پھیلا دیے جائیں "تم نہیں کرسکتے" "تم میں اتنی صلاحیت نہیں ہے" "تمہارا مستقبل تاریک ہے" "تمہارے افق پراندھیراچھا گیا ہے" " تم بے بس ہوگئے ہو" "تمہاراقافیہ حیات تنگ ہوچکا ہے" کوشش یہ رہی ہے کہ ہماری قوم کو مایوس، کاہل، خوداعتمادی سے مبرا، سست اوردوسروں کی دست نگربنا دیا جائے یہ صفات اندرونی دشمن ہیں۔ ملک میں اسلامی تحریک کے آغاز سے پہلے سالوں تک ہماری قوم انہیں بیماریوں میںمبتلا رہی ہے جس قوم میں یہ بیماریاں ہوں گی اس کا ترقی کرپانا ممکن نہیں جس قوم کے افراد سست، خود پسند، خوداعتمادی نہ رکھنے والے، ایک دوسرے سے رابطہ نہ رکھنے والے، ایک دوسرے سے بدگمان اورمستقبل کے تئیں مایوسی کا شکار ہوں ایسی قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی یہ چیزیں دیمک کی طرح جڑیں کھوکھلی کرکے پیڑگرا دیتی ہیں یہ کیڑے ہیں جوپوراپھل خراب کردیتا ہے ان خصلتوں سے جنگ کی ضرورت ہے ہماری قوم کو امید افزا، خوداعتماد، مستقبل کے تئیں پرامید، ترقی کا خواہشمند اورروحانیت پر یقین رکھنے والا ہونا چاہئے۔ معنویت اس راہ میں ہماری مدد کرسکتی ہے۔ الحمدللہ اس وقت ہماری قوم میں اس طرح کی خوداعتمادی اوراس قسم کی امیدیں موجود ہیں انہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہے اگر ہم ان دشمنوں کواپنے اندرسے، اپنے نفس سے اوراپنے سماج سے مٹا ڈالیں توبیرونی دشمن بھی ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

اب بات کرتے ہیں بیرونی دشمن کی، ہمارے ان اہداف کا بیرونی دشمن عالمی تسلط پسند نظام ہے وہی جسے ہم عالمی استکباربھی کہتے ہیں عالمی استکباراورتسلط پسند نظام دنیا کوتسلط پسند اورتسلط پذیر میں تقسیم کرتے ہیں اگر کوئی قوم تسلط پسندوں کے مقابلہ میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہے تویہ تسلط پسند اس کے دشمن بن جاتے ہیں اس پر دباؤ ڈالتے اوراس کی مزاحمت کو ناکارہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ دشمن ہر اس قوم کے لئے موجود ہے جومستقل، باعزت اورترقی یافتہ بننے کی خواہشمند ہے اورتسلط پسندوں کے دباؤ میں نہیں آنا چاہتی۔ یہ باہری دشمن ہے اس وقت یہ دشمن عالمی صہیونی لابی اورامریکہ کی موجودہ حکومت کی صورت میں ہے البتہ یہ دشمنی آج کی نہیں ہے طریقے بدلے ہیں لیکن ایرانی قوم سے دشمنی کی سیاست انقلاب کے بعد سے چلی آ رہی ہے اپنی بساط بھر دباؤ ڈالتے رہے ہیں لیکن بے حاصل، ان کے دباؤ کے نتیجہ میں نہ توایرانی قوم کمزور ہوئی ہے اورنہ ہی پسپائی پرمجبور، معاشی پابندیاں، فوجی دھمکیاں، سیاسی دباؤ نفسیاتی جنگ، کچھ بھی کارگر ثابت نہیں ہواہے اس وقت ہم پندرہ بیس پچیس ستائیس سال پہلے کے مقابلہ میں زیادہ مضبوط ہیں یہ اس بات کی علامت ہے کہ دشمن کوایرانی قوم اوراسلامی جمہوری نظام سے دشمنی میں ناکامی ہوئی ہے لیکن یہ دشمنیاں اپنی جگہ موجودہیں۔

اس وقت دنیا میں ایک تضاد پایا جاتا ہے، ایرانی قوم مسلم اورعلاقائی اقوام(ایشیائی اقوام، افریقی اقوام، لاطینی امریکہ کی اقوام، مشرق وسطی کی اقوام) کی نظرمیں بہادر، حق وعدل کی حامی اورظالم طاقتوں کے مقابلہ میں ثابت قدم ہے انہوں نے ایرانی قوم کو اس طرح کا پایا ہے یہ لوگ ایرانی قوم کی تعریف کرتے ہیں لیکن یہی قوم اوریہی اسلامی جمہوری نطام کہ جس کی اقوام عالم اتنی تعریف کرتی ہیں مغرورطاقتوں کی نظرمیں انسانی حقوق کی پامالی کا ملزم ہے، عالمی امن تاراج کرنے کا ملزم ہے، دہشت گردی کی حمایت کا ملزم ہے یہ تضاد ہے۔ اقوام عالم کی نظروں اوربڑی طاقتوں کی خواہشوں میں تضاد ہے یہ تضادعالمی تسلط پسند نظام کے لئے خطرہ کی گھنٹی ہے ان میں اوراقوام عالم میں فاصلہ آئے دن بڑھتا جا رہا ہے مغرب کی لیبرل ڈیموکریسی میں یہ مستقل بڑھتا ہوا شگاف پڑ چکا ہےجو آئے دن بڑھتا جا ئے گا استکباری پروپیگنڈہ ایک حد تک ہی آخرحقائق کی پردہ پوشی کرسکتا ہے ہمیشہ توایسا نہیں کر سکتا اقوام عالم کی بیداری آئے دن بڑھتی جا رہی ہے آپ ملاحظہ کیجئے کہ ہماراصدرمملکت جب ایشیا، افریقہ یا لاطینی امریکی ممالک کا دورہ کرتا ہے تو لوگ اس کے حق میں نعرے لگاتے ہیں، اس کے حق مين مظاہرے کرتے ہیں اس کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں لیکن امریکی صدرجب جنوبی امریکہ کے ممالک یعنی امریکی " خلوت گاہ" کی جگہ کا دورہ کرتا ہے تولوگ اس کی آمد پرامریکی پرچم نذرآتش کرتے ہیں امریکی صدر کے خلاف نعرے لگاتے ہیں اس کا مطلب لیبرل ڈیموکریسی کی بنیادوں میں لغزش ہے جس کی پرچمداری کا اس وقت مغرب اور سب سے بڑھ کے امریکہ دعوی کررہا ہے عوامی رجحانات ومشاہدات اوران بڑی طاقتوں کی خواہشوں میں تضادآئے دن بڑھ رہا ہے یہ لوگ جمہوریت کی بات کررہے ہیں، انسانی حقوق کی بات کر رہے ہیں، عالمی امن کی بات کر رہے ہیں، دہشت گردی سے جنگ کی بات کر رہے ہیں لیکن ان کا شرپسند باطن ان کی جنگ پسندی، اقوام عالم کے حقوق کی پامالی اوردنیا کے وسائل توانائی کے لئے نہ ختم ہونے والی بھوک کا عکاس ہے یہ سب اقوام عالم دیکھ رہی ہیں لیبرل ڈیموکریسی اوراسکے پرچمدارامریکہ کا وقاردنیا میں، اقوام عالم کی نظروں میں آئے دن گرتا جا رہا ہے اس کے مقابلہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کا وقار آئے دن بڑھ رہا ہے دنیا کی اقوام یہ جانتی ہیں کہ امریکی انسانی حقوق کے دفاع کا جھوٹا دعوی کر رہے ہیں اس کی ایک مثال ان کا خود ہمارے ملک کے ساتھ برتاؤ ہے ایران طاغوتی دور میں، پہلوی دور میں مکمل طور پر امریکہ کی مٹھی میں تھا پورے ایران پر امریکیوں کا تسلط تھا انہوں نے خطہ کے عرب ممالک کی حرکات وسکنات کنٹرول کرنے کے لئے یہاں فوجی اڈہ قائم کررکھا تھا ان پر ایران کے اڈہ سے نگرانی رکھنا چاہتے تھے ایران اسرائیل کے ساتھ شریک معاہدہ تھا اس ملک پر تاناشاہی کا بدترین دورگذررہا تھا مجاہدوں کو جیل میں ایذائیں دیتے تھے ملک بھر میں(اسی مشہد شہرمیں، تہران سمیت ملک کے ہر شہر میں) گھٹن اورلوگوں پرطاغوتی حکومت کے جلادوں کا سخت دباؤ تھا ہمارا تیل لوٹا جارہا تھا یہ جلاد عمومی مال اورقومی سرمایہ لوٹ کر حکام اورغیرملکیوں کے حوالہ کر دیتے تھے ایرانی قوم کو عالمی سائنسی وصنعتی مقابلوں میں شرکت سے روکا جاتا تھا قوم کی تذلیل کی جاتی تھی اس دور کا ایران خطہ میں امریکہ کا اول درجہ کا اتحادی تھا یہاں کے حکمراں بھی امریکہ کومحبوب تھے اس طاغوتی حکومت کی طرف سےانسانی حقوق یا جمہوریت کی پامالی پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا تھا آج ایران ایک آزاد ملک ہے اس قدر عوامی حکمرانی کے باوجود(ہمارے یہاں کی عوامی حکمرانی کی مثال دنیا میں بمشکل ہی مل سکتی ہے) ملکی حکام اورعوام کے درمیان اتنے مضبوط تعلقات کے باوجود آج کا ایران امریکیوں، امریکی حکومت اوروہاں کے سیاسی قائدین کی نظرمیں ایک ناپسندیدہ ملک ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمی استکبار دنیا میں موجود حقائق کی مخالف سمت میں چل رہا ہے امریکیوں کو البتہ اس دشمنی سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے اورنہ ہی مستقبل میں کوئی فائدہ پہنچے گا ملت ایران کے استحکام اورمضبوطی میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے اوراسی طرح انقلابی اقدار کو بھی آئے دن نئی زندگی وشادابی مل رہی ہے۔

ان دودشمنوں کے مقابلہ میں ہمارے کچھ فرائض ہیں سب سے پہلے دشمن کی شناخت ضروری ہے اس کے بعد اس کی چال سمجھنا چاہئے اس وقت ہمارے باہری دشمنوں کے پاس بھی ہمارے سلسلہ میں پلاننگ ہے ہم اپنا پنج سالہ منصوبہ متعین کرتے ہیں بیس سالہ منصوبہ تیار کرتے ہیں تاکہ اپنا راستہ معین کیا جا سکے ہمارا دشمن بھی اس طرح ہمارے خلاف منصوبہ بناتا اورپالیسی تیار کرتا ہے ہمیں اس کی پالیسی کو سمجھنا چاہئے ملت ایران کے خلاف عالمی استکبار کی پالیسیوں کا میں تین جملوں میں خلاصہ بیان کرتا ہوں اول: نفسیاتی جنگ، دوم: معاشی جنگ ،سوم : سائنسی ترقی وپیشرفت سے مقابلہ، استکبار کی ہماری قوم سے دشمنیوں کا خلاصہ یہی تین چیزیں ہیں البتہ ذرائع ابلاغ، میڈیا اورسیاسی شخصیات ان چیزوں کو عوام کے سامنے زیادہ واضح کریں میں صرف اس بحث کا عنوان اورخلاصہ آپ کے سامنے عرض کررہا ہوں:

نفسیاتی جنگ کے معنی کیا ہیں؟ نفسیاتی جنگ کا مقصد سامنے والے کو مرعوب کرنا ہے اب یہ لوگ کسے مرعوب کرنا چاہتے ہیں عوام کی اتنی بڑی تعداد تو مرعوب نہیں ہو سکتی توپھریہ لوگ کسے اپنے سے مرعوب کرنا چاہتے ہیں؟ حکام کو، سیاسی شخصیات کو، ہماری اپنی اصطلاح میں ممتازشخصیات کو، ان لوگوں کو یہ لوگ مرعوب کرنا چاہتے ہیں۔ جن لوگوں پر حرص وطمع کا حربہ کارگر ہو، انہیں لالچ دیتے ہیں عوامی ارادے کمزور کرنا چاہتے ہیں، عوام کے دلوں کو ان کے اپنے ہی معاشرے کے حقائق سے دور کرنا چاہتے ہیں، نفسیاتی جنگ کا یہ مقصد ہے ایک صحتمند شخص سے باربارکہا جائے کہ صاحب آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی، آپ کچھ مریض سے ہیں تواسے بھی تھوڑا بہت بیماری کا احساس ہونے لگے گا اسی کے برعکس بیمار آدمی سے باربار کہا جائے کہ آپ ٹھیک ہیں تووہ خود کو صحتمند محسوس کرنے لگتا ہے ملکی حقائق کواپنے پروپیگنڈہ کے ذریعہ یہ ہماری عوام کی سامنے الٹ کر پیش کرنا چاہتے ہیں ہماری قوم با استعداد، با صلاحیت، لائق اوربیشمارقدرتی وسائل کی مالک ہے ایسی قوم آگے بڑھ سکتی ہے اس کے مایوس ہوجانے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے لیکن یہ لوگ حقائق کوبدل کرہمیں مایوس کرنا چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ عوام کا حکام پر سے اعتماد کم ہوجائے حکام پرعوام کا اعتماد ہر ملک کے لئے ایک بڑی نعمت ہے اس نعمت کو چھین کے حکام پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھانا چاہتے ہیں افواہوں کے ذریعہ لوگوں کوپابندیوں اورحملوں کی دھمکیاں دینا چاہتے ہیں اپنے پروپیگنڈہ میں ملزم کومدعی اورمدعی کوملزم بتاتے ہیں اس وقت امریکہ ملزم اوراقوام عالم مدعی ہیں ہم امریکہ کے مدعی ہیں امریکہ ملزم ہے استکبار، سامراج، جنگ طلبی، دوسرے ممالک پر فوجی قبضہ اورفتنہ انگیزی پرہم اس کےمدعی ہیں۔ لیکن وہ خود کو مدعی اورہمیں ملزم کی جگہ کھڑاکرنا چاہتے ہیں خود امریکہ کے اندرانسانی حقوق کی صورتحال افسوسناک اور امن وامان کا فقدان ہے۔ سنہ ۲۰۰۳میں ایک سال کے اندر تیرہ ملین امریکی شہریوں کی گرفتاری کی رپورٹ توخود انہوں نے پیش کی ہے ایذاء رسانی کی اجازت دیتے ہیں عام لوگوں کے ٹیلیفون ٹیپ کرنے کی اجازت دیتے ہیں چند سال پہلے کے گیارہ ستمبرکے واقعہ کے بعد انہوں نے لاکھوں لوگوں کی تفتیش کی ہے امریکہ کے اندرکی سلامتی کی صورتحال یہ ہے اورملک کے باہرکہیں ابوغریب جیل کا واقعہ امریکہ کے دامنگیر ہے توکہیں طرح طرح کی ایذارسانیاں، کہیں گوانتاناموبہ جیل کا بدنما داغ امریکہ کی پیشانی پر موجودہے توکہیں یورپ اوردیگرخطوں میں واقع مخفی قیدخانے ہیں امریکیوں کو جواب دینا چاہیے امریکہ مجرم ہے امریکہ انسانی حقوق پیروں تلے روندھ کرخود انسانی حقوق کا علمبرداربن جاتا ہے اورپھراپنی من مرضی سے ملت ایران سے بازپرس کرنے کی سازش بھی کرتا ہےتم انسانی حقوق پامال کررہے ہو، دہشت گردی یہ لوگ خود پھیلا رہے ہیں یہ سارے امور نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں جووہ کررہے ہیں۔

دشمن کی طرف سے چھیڑی گئی نفسیاتی جنگ کا ایک پہلو ہے اختلاف کی آگ لگانا ہمارے ملک کے اندر یہ لوگ قومی، مسلکی(شیعہ، سنی)، سیاسی اورتجارتی اختلافات کوہوادے رہے ہیں ملک کے اندر ان کے ایجنٹ ہیں جومختلف شکلوں میں ان کے مقاصد کی تکمیل کے لئے کوشاں ہیں یہ لوگ افواہیں اڑاتے ہیں عراق کے سلسلہ میں ایران پر الزام ترشی ہورہی ہے جن لوگوں نے عراق پر قبضہ کر رکھا ہے، عراقی قوم کی تذلیل کی ہے، عراقی مردوں، عورتوں اورجوانوں کی طرح طرح سےبے عزتی کی ہے اس وقت بھی امریکی وبرطانوی افواج عراق میں لوگوں سے حددرجہ بدرفتاری کررہے ہیں وہ ایران پر الزام لگارہے ہیں کہ یہ عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے جس وقت امریکہ اوردیگر بہت ساری مغربی حکومتیں معدوم بعثی صدام کی حمایت کر رہی تھیں تو ایران نے عراق کے حریت پسندوں کے لئے اپنی باہیں پھیلا دیں عراقی حریت پسند یہاں آئے اوراس طرح ہم نے انہیں صدام کے شر سے محفوظ رکھا اب یہی لوگ عراق میں اقتدارمیں آئے ہیں۔ دہشت گردی وہاں امریکہ، برطانیہ اوراسرائیل کی خفیہ تنظیموں کی ایما پرہورہی ہے اس ملک میں جاری برادرکشی شیعہ سنی جنگ کا نتیجہ نہیں ہے شیعہ ، سنی صدیوں سے عراق میں ساتھ ساتھ رہے ہیں اورکبھی ان میں لڑائی نہیں ہوئی ہے عراق میں بے شمارخاندان ایسے ہیں جن کے بعض افراد شیعہ اوربعض سنی ہیں شیعہ سنی آپس میں شادیاں کرتے ہیں ایک ساتھ زندگی بسرکرتے ہیں دہشت گردی خود امریکہ کی دین ہے اورانہیں کواس بدامنی سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔

شیعوں کا دبدبہ بڑھ رہا ہے، ایران شیعیت کی ترویج کر رہا ہے، شیعہ ہلال بن گیا ہے وغیرہ وغیرہ یہ ساری افواہیں اڑائی جا رہی ہیں نفسیاتی جنگ کا ایک پہلو یہ ہےکہ سب سے پہلے یہ کہ ملت ایران کے اندرپھوٹ ڈال دیں اورپھر ایران اوردیگرمسلم اقوام کے درمیان خلیج بنا دیں۔ پڑوسی ممالک کو اسلامی جمہوریہ ایران سے خائف کرنا امریکہ کی پالیسی رہی ہے کچھ اپنی ہوشیاری سے امریکی چال کو سمجھ گئے ہیں اورکچھ ممکن ہے غلطی سے امریکی سازشوں میں پھنس جائیں ہم نے اپنے خلیج فارس کے پڑوسی ممالک( جن کے پاس دنیا کا سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا علاقہ ہے) کی طرف ہمیشہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اس وقت بھی ہم دوست ہیں اورایک دوسرے کی طرف دوستی ہی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ خلیجی ممالک کے درمیان ایک مشترکہ دفاعی معاہدہ ہو، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا جائے، اس اہم خطہ میں دفاع کے لئے امریکہ برطانیہ وغیرہ جیسے لالچیوں کو ہر گز نہیں آنا چاہیے ہمیں خود اس خطہ کا امن وامان محفوظ رکھنا ہے اوریہ خلیجی ممالک کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔

اسی ذیل میں ملک کے سیاسی عناصرکومیری دوستانہ نصیحت ہے کہ ہوشیاررہیے اس طرح کا بیان نہ دیجیے ایسا کوئی موقف اختیارنہ کیجیے جس سے دشمن کواس نفسیاتی جنگ میں تعاون مل رہا ہو،دشمن کے ساتھ تعاون نہ کیجئے اس وقت جوبھی لوگوں میں مایوسی پھیلائے، حکام پرسے ان کا بھروسہ ختم کروائےیا انہیں مستقبل کے بارے میں مایوس کرے گویااس نے دشمن کی مدد کی ہے اس وقت جوشخص اختلاف کو ہوا دے کسی بھی قسم کے اختلاف کو اس نے ایرانی قوم کے دشمن کی مدد کی ہے جن کے پاس قلم ہے، زبان ہے، اسٹیج ہے، مقام ہے انہیں ہوشیاررہنا چاہئے اپنے آپ سے دشمن کو فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دینا چاہئے نفسیاتی جنگ ایرانی قوم سے لڑنے کا دشمن کا اہم ترین حربہ ہے۔

معاشی جنگ ایک اورحربہ ہے دشمن ایرانی قوم کے لئے اقتصادی مشکلات کھڑی کرنا چاہتا ہے میں عرض کردوں کہ ایرانی قوم کے لئے معاشی پیشرفت کے مواقع فراہم ہیں دفعہ چوالیس کی کلی پالیسیوں کا اعلان کردیا گیا ہے حکومت انہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے سخت کوشاں ہے اوراسے کوشاں ہی رہنا چاہیے ان پالیسیوں کے نفاذ سے صرف مالداروں کوہی نہیں بلکہ عام عوام کو بھی معاشی سرگرمیوں کے مواقع فراہم ہوں گے سنہ 1386 (شمسی)اورآنے والے ایک دو سال تک حکومت اورملک میں دیگرامور میں سرگرم افرادکی توجہ معیشت پر ہی مرکوز رہنی چاہیے ہم اپنی معیشت میں بہارلاسکتے ہیں پابندیوں کی دھمکیاں دی جارہی ہیں پابندیاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑسکتیں، کیا ابھی تک ہم پرکبھی پابندیاں عائد نہیں ہوئی ہیں؟ پابندیوں کے دور ہی میں ہم جوہری توانائی تک پہنچے ہیں پابندیوں ہی کے سایہ میں ہم نے سائنسی ترقیاں کی ہیں پابندیوں ہی کے زمانہ میں ملک بھر میں وسیع پیمانہ پرتعمیرنو کا کام ہوا ہے پابندیاں توبعض حالات میں ہمارے لئے نفع بخش ثابت ہو سکتی ہیں وہ اس طرح کے اس سے ہمارے حوصلے بڑھیں گے اورہماری سرگرمیاں تیز ہوجائیں گی آج سے شروع ہونے والےسال اورآنے والے ایک دوسال تک ملکی توجہ معیشت پر ہی مرکوز رہےگي دفعہ چوالیس کی پالیسیوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے جولوگ سرمایہ کاری کر سکتے ہیں وہ تو کر ہی سکتے ہیں اس کے علاوہ کئی لوگ مل کر سرمایہ لگانا چاہیں تواس کا بھی امکان ہے عوامی اکائیاں اورمختلف عوامی طبقات ایک دوسرے کے ساتھ شراکت کرکے سرمایہ کاری کر سکتے ہیں تقریباً ایک کروڑ افراد پر مشتمل معاشرہ کے غریب طبقہ کے لئے "حصص انصاف" رکھے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگرلوگ بھی ان پالیسیوں سے مستفید ہوسکتے ہیں اس کا امکان ہے۔ حکام کو چاہیے کے عوام کو معاشی سرگرمیوں میں شمولیت کے طریقہ کارسےآگاہ کریں ان پالیسیوں کا مطلب سماج میں عمومی سطح پردولت کمانا ہے دولت کمانےمیں اسلامی نقطہ نظر سے کوئی حرج نہیں ہے دولت کمانے اوردوسروں کا مال لوٹنے میں فرق ہے عمومی سرمایہ سے چھیڑچھاڑاورقانون سے لاپروائی برتتے ہوئے دولتمند بن جانا ممنوع ہے لیکن قانونی طریقہ سے دولت کمانا شرعی اوراسلامی نقطہ نظرسے منع ہی نہیں بلکہ اچھا اورنیک عمل ہے پیسہ کمایے لیکن اسراف نہیں ہونا چاہیے اسلام ہم سے کہتا ہے کہ پیسہ کماؤ لیکن اسراف نہ کرو فضول خرچی اسلام کومنظورنہیں ہے جتنا کماؤ اسے مزید کمانے کے لئے آگے لگادو، پیسہ کبھی بھی رکا نہیں رہنا چاہئیے (اسی کو اسلام میں ذخیرہ اندوزی کہتے ہیں) اورنہ ہی خرچ میں اسراف سے کام لینا چاہیے زندگی کے غیرضروری امورمیں پیسہ خرچ نہیں کرنا چاہیے ان ساری چیزوں کا خیال رکھتے ہوئے دولت کمایئے عوام کی دولت ملک کی دولت ہے اس سے سب کو فائدہ ہوگا دفعہ چوالیس اوراس کی پالیسیوں کا لب لباب یہی ہے ایسا طریقہ کار اپنایا جائے جس سے عوام خاص طورسے کمزورطبقہ کے سامنے پیسہ کمانے کے مختلف مواقع ہوں اورانہیں کشادگی حاصل ہویہ عوامی خوشحالی کی سمت ایک بڑاقدم ہوگا۔

سائنسی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا اہم نمونہ جوہری توانائی کے مسئلہ میں دیکھا جاسکتا ہے مغربی حکومتیں اپنی سیاسی اورغیرسیاسی گفتگو کے دوران کہتی ہیں کہ ہم ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے اتفاق نہیں رکھتے نہ رکھیں ہم نے کیا ایٹمی طاقت کے حصول کی کسی سے اجازت مانگی ہے؟ کیا ایرانی قوم نے کسی سے اجازت لے کراس میدان میں قدم رکھا ہے جویہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم اس سےاتفاق نہیں رکھتے ٹھیک ہے آپ اتفاق نہیں رکھئے! ایرانی قوم اتفاق رکھتی ہے اوریہ توانائی حاصل کرنا چاہتی ہے میں نے گذشتہ سال بھی پہلی فروردین(اکیس مارچ) کواسی جگہ کہا تھا کہ جوہری توانائی ہمارے ملک کی ضرورت ہے دوررس ضرورت، آج اگرحکام اس توانائی کے حصول میں کوتاہی کریں گے توآنے والی نسلیں اس پر ان کی بازپرس کریں گی ایران اورملت ایران کو اسلحہ کے لئے نہیںبلکہ زندگی گذارنے کے لئے جوہری توانائی کی ضرورت ہے کچھ لوگ دشمن ہی کی باتیں دہرا رہے ہیں کہ صاحب، کیا ضرورت ہے؟ کیا ضرورت ہے؟ مستقبل خطرہ میں ڈالنا اورملک کی آنے والے کل کی ضروریات پوری طرح نظراندازکردینا کوئی مسئلہ نہیں ہے؟ کیا ملک کے حکام کوآنے والی نسلوں سے خیانت کا حق ہے؟ آج ہم تیل خرچ کررہے ہیں ایک دن یہ ختم ہوجائے گا اس دن ملت ایران بجلی، کارخانہ، گرمی، روشنی اوراپنی زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے دوسرے ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلائے کہ ہمیں توانائی دے دو؟ کیا یہ ملک کے موجودہ حکام کے لئے جائز ہوگا؟ کچھ لوگ دشمن کے جملے دہرا رہے ہیں۔ جولوگ ڈاکٹرمصدق اورآیت اللہ کاشانی کے ذریعہ تیل کو قومی بنانے کی تعریف کرتے ہیں (جبکہ وہ کام تو اس کام مقابلہ میں چھوٹا تھا یہ اس سے بڑا کام ہے) وہی لوگ جوہری توانائی سے متعلق ایسی باتیں کر رہے ہیں جو اس دور میں ڈاکٹر مصدق اورآیت اللہ کاشانی کے مخالفین کر رہے تھے یہ بات قابل قبول نہیں ہے ہم نے اس سلسلہ میں پیشرفت کی ہے اپنی خلاقیت کے بل بوتے پر پیشرفت کی ہے حکام نے کوئی غیر قانونی کام بھی نہیں کیا ہے ہماری ساری سرگرمیاں آئی، اے، ای، اے کے سامنے ہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے ہمیں ان کی نظارت پرکوئی اعتراض نہیں لیکن ہنگامہ کھڑا کرنا، اس مسئلہ میں ایرانی قوم پر دباؤ ڈالنا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کوہتھیاربناکے استعمال کرنا وغیرہ ہمارے مد مقابل آنے والی بڑی طاقتوں کے لئے مضرثابت ہوگا میں یہ بتا دوں کہ اگرسلامتی کونسل کو ہتھیار بنا کے استعمال کرنے اوراس طریقہ سے ہمارے مسلمہ حق کونظرانداز کرنےکی کوشش کی گئی توہم نے آج تک جو کچھ بھی کیا ہے بین الاقوامی ضوابط کے اندرکیا ہے لیکن اگر انہوں نے لاقانونیت کرنا چاہی توہم بھی لاقانونیت کریں گے اورضرورکریں گے یہ لوگ اگر دھمکی، زورزبردستی اورتشدد کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں تویہ جان لیں کہ ایرانی حکام اورعوام اپنے ان دشمنوں پرضرب لگانے کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کریں گے جوان پرجارحیت کا قصد رکھتے ہیں۔

میں اپنے معروضات ختم کرنا چاہتا ہوں ملت ایران کے خادم کی طرف ملت ایران کوکچھ نصیحتیں ہیں: میری پہلی نصیحت ہے کہ اس سال جو نعرہ ہم نے دیا ہے یعنی قومی اتحاد اوراسلامی یکجہتی اس کی رعایت کیجئے قومی اتحاد کا مطلب ہے ایرانی قوم کی ہمبستگی اوراسلامی یکجہتی کا مطلب ہے کہ ساری مسلم اقوام قدم سے قدم ملا کر چلیں ایرانی قوم دیگرمسلم اقوام کے ساتھ اپنے تعلقات مضبوط کرے ہمیں اگرقومی اتحاداوراسلامی یکجہتی کوعملی شکل دینی ہے تواس کے لئے اپنے مشترکہ اصولوں کا سہارا لینا ہوگا ہمیں فروعات میں نہیں پڑنا چاہیے جن میں اختلاف ہے۔

میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ ہماری عزیز قوم خاص طورسے جوان اپنے اندرسے خوداعتمادی ختم نہ ہونے دیں اے عزیزجوانو! اے ایرانی قوم کے عزیزجوانو! آپ کرسکتے ہیں آپ بڑے بڑے کام کرسکتے ہیں آپ اپنے ملک کوعزت ووقارکی بلندیوں تک لیجا سکتے ہیں خوداعتمادی، حکام پر بھروسہ اورحکومت پر اعتماد وغیرہ ہی وہ چیزیں ہیں جنہیں دشمن ہمارے اندرنہیں دیکھنا چاہتا دشمن چاہتاہے کہ لوگوں کوحکومت(جس کےسرملکی انتظام کی ذمہ داری ہے) پربھروسہ نہ ہو، کوشش کرکے اس کی یہ چال ناکام بنا دیجئے میں حکومت کی حمایت کرتا ہوں اور عوام کی منتخبہ ہر حکومت کی حمایت کرتارہا ہوں آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ موجودہ حکومت کی میں خاص طور سے حمایت کرتا ہوں البتہ ایسا بلا وجہ نہیں ہے پہلی بات یہ کہ ہمارے ملک کے سیاسی نطام اوراسلامی جمہوری نظام میں حکومت کی اہمیت بہت زیادہ ہے دوسری بات یہ کہ سب سے زیادہ ذمہ داریاں حکومت ہی کے سر ہیں اس کے بعد یہ کہ یہ مذہبی رجحانات اوریہ اسلامی وانقلابی اقداربہت اہم ہیں۔ محنت ومشقت، جدوجہدعوام سے رابطہ صوبائی دورے، انصاف کی پالیسیاں، عوامی رنگ وروپ وغیرہ بہت اہم ہیں میں ان ساری چیزوں کی قدرکرتا ہوں اسی بنا پر میں حکومت کی حمایت کرتا ہوں البتہ یہ حمایت بغیر کسی حساب کتاب کے نہیں ہے اس کے مقابلہ میں مجھے حکومت سے کچھ توقعات ہیں سب سے پہلی توقع جو مجھے حکومتی عہدہ داروں سے اورسب سے پہلےمیں جوان سے کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ اپنے اندرتھکاوٹ نہ آنے دیں، خداپرتوکل ہاتھ سے جانے نہ دیں، خداپر بھروسہ رکھیں اوراس عوام پربھی بھروسہ رکھیں، اپنا عوامی رنگ وروپ محفوظ رکھئے، جن دنیاوی زرق وبرق میں دوسرے مبتلا ہوجاتے ہیں آپ مبتلا مت ہوئیے، محتاط اورہوشیاررہیے، پارٹی جھگڑوں میں نہ پڑیں، سیاسی جھگڑوں میں وقت برباد نہ کریں، اپنے پورے وجود اورپوری طاقت سے لوگوں کے لئے کام کرتے رہیں لوگوں سے جو کہتے ہیں اس کے لئے کوششیں کرتے رہیں اوراسے عملی شکل دیں۔

ہمیں بیدار رہنا چاہیے، خداسے متوسل ہونا چاہیے، اس کا ذکر کرنا چاہیے، ایرانی قوم عظیم ہے توانا ہے اعلی مقاصد کی حامل ہے ان اہداف کی سمت رواں دواں بھی ہے خداوندمتعال اریانی عوام پر اپنا فضل وکرم نازل فرمائے، آپ پراپنے لطف وکرم کی بارش برسائے! انشا اللہ سنہ ۸۶ 13 یہ پہلا دن عوام کے لئے بابرکت سال کی شروعات کا دن قرار پائے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ