بسم اللہ الرحمن الرحیم
یا مقلب القلوب والابصار، یا مدبرالیل والنھار، یا محول الحول والاحوال، حول حالنا الی احسن الحال۔
اللھم صل علی علی بن موسی الرضا المرتضی الامام التقی النقی۔
عید نوروزاورنئے شمسی سال کی آمد کے موقع پرجملہ اہل وطن کومبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اسی کے ساتھ دنیا بھرمیں مقیم ایرانیوں نیزنوروز منانے والی دیگراقوام ،بالخصوص شہداءکےلواحقین، جانبازوں اوران کے لواحقین نیزملت ایران کی سرافرازی و سربلندی کے لئےخاطرجدوجہدکرنے اورقربانیاں دینے والے تمام افرادکی خدمت میں بھی نئے سال اورعید نوروزکی آمد پرمبارک پیش کرتا ہوں۔
نوروز کی آمد سے قدرت میں تازگی آجاتی ہے، دنیا پھرسے جواں ہوجاتی ہے، انسان کی مادی زندگی کی فضا تروتازہ ہوجاتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہواگردنیا کی تازگی کے ساتھ ساتھ انسان کا قلب وروح بھی ترو تازہ اورنیا ہوجائے،خداکا ذکرکرنے، اس سے مدد مانگنےاورہربھائی بہن بلکہ پوری انسانیت کی خیروبھلائی کا پودالگانے سے انسان کا قلب وروح بھی تازہ ہوجاتا ہے۔
نوروزکی رسومات بھی بڑی حسین ہیں۔ دنیا بھرمیںتحویل کے وقت ایرانی خداکویادکرکے زندگی میں بنیادی تبدیلی کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ نوروز کی ایک حسین رسم آپسی میل ملاپ، صلہ رحم اورسماجی اکائیوں کے درمیان روابط اورجذبہ ہمدردی کا استحکام ہے۔ دیگراقوام عالم کے بعض قومی تہواروں سے اگر تقابل کیا جائے کہ جن میں غیراخلاقی حرکتیں بھی ہوتی ہیں اوراس قسم کے جذبہ ہمدردی کا نام ونشاں تک نہیں ہوتا تواندازہ ہوتا ہے کہ ہم ایرانیوں کا قومی تہواراورہمارے شمسی سال کا آغازایک تویہ کہ قدرتی بہار سے مقارن ہے جواپنی جگہ خود ایک امتیاز ہے اس کے ساتھ دیگربہت سی اچھی اورعمدہ خصوصیات سے لبریز ہے۔ دل میں خوشی، لبوں پہ مسکراہٹ، ایک دوسرے کو خوش آمدید کہنا، ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا اورزندگی کے ماحول میں نئی جان ڈالنا وغیرہ بہت ہی اچھی اورپسندیدہ رسومات ہیں جن کے ایرانی قدیم زمانہ سے پابند ہیں اسلام کا مقدس آئین اورشریعت ان سب کی تائید کرتی ہے۔
ایک نظر سنہ 85 13 شمسی پر ڈالتے ہیں جو ختم ہوچکا ہے اورایک نظرسنہ 1386 پرڈالتے ہیںجو انہیں لمحوں سے شروع ہو رہا ہے سنہ پچاسی(۸۵) مرسل اعظم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام مبارک سے مزین تھا۔ سال کے آغاز سے لے کراختتام تک آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تذکرہ ہوتا رہا نیز آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مزید معرفت اورآپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کی خصوصیات، حالات اورتعلیمات سے آگاہی کے لئے کوششیں کی جاتی رہیں۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت کا میدان بہت وسیع ہے اوردرحقیقت ہمارا ہر سال، سال مرسل اعظم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے سنہ پچاسی بھی دیگرسالوں بلکہ انسان کی پوری زندگی ہی کی مثل گوناگوں حوادث، تلخی، شیرینی، اورغموں خوشیوں سے بھرارہا پوری زندگی کا یہی حال ہے لیکن مجموعی طور پر میں ملت ایران سے کہہ سکتا ہوں کہ سنہ پچاسی میں ہماری کامیابی، پیشرفت اورخوشیوں کا گراف بالترتیب ناکامی،ٹھہراؤاورتلخیوں کے مقابلہ میں اونچا رہاہے۔ اندرونی طور پر ملکی ترقی کے لئے کوششیں ہر جگہ نظرآئیں حکام کے منصوبے اورعمومی اقدامات خوب رہے اس پر انشا اللہ اپنی عزیزقوم سے خطاب(۱) کے دوران مزید روشنی ڈالوں گا۔
عالمی سیاست اوربین الاقوامی سطح پربھی ایران کےاسلامی جمہوری نظام کوقابل توجہ کامیابیاں ملی ہیں ہمارا ملک اورقوم اسلامی جمہوری نطام کی بدولت دنیا میں سرفراز ہواہےہرموڑ پرہمارا قومی وقارنیز ہمارے عوام کی دیگر اقوام عالم اورمسلم اقوام کے لئے نرمی ومہربانی نمایاں ہوئی ہے۔ سائنس اورمعاشی پیشرفت کے سلسلہ میں ہمارا پختہ عزم کسی حد تک دوسروں پر عیاں ہوا ہے ہمیں بحمد اللہ اندرونی وبیرونی معاملات میں کافی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
سنہ 1386 میں قومی تحریک جاری وسار رکھنے کا ہمارا طریقہ کار قومی ضروریات کے عین مطابق ہونا چاہیے یہ ایک حقیقت ہے کہ ہماری قوم، بدعنوان طاغوتی طاقتوں اوراغیار سے وابستہ یا نالائق حکومتوں کے زیراثردسیوں سال شاید دوسوسال تک ہرمیدان میں پسماندہ رہی ہے اوراب اگرہمیں اسلام اوراسلامی جمہوری نظام کی بدولت خودآگاہی وخوداعتمادی نصیب ہوئی ہے توہمیں یہ طولانی راہیں تیزی سے طے کرنا ہیں ہمارے سربلند ومایہ ناز ملک ایران کو جس جگہ ہونا چاہیے ابھی ہم اس سے کافی دور ہیں۔ البتہ بلند حوصلوں، بے پایاں امیدوں اورمتفقہ قومی جدوجہد کے بغیریہ مسافت طے کرنا ممکن نہ ہوگا۔
ہماری قوم کے سامنے واضح ہدف ہے "قومی استقلال، قومی وقار اورہرخاص وعام کی خوشحالی" ہی ہمارا عظیم قومی ہدف ہے اسلام اورایمان کی بدولت ان تمام چیزوں کا حصول ممکن ہے ہم نے یہ تجربہ کرکے کامیابی حاصل کی ہے اپنے پسندیدہ اورمطلوبہ مستقبل تک پہنچنے کے دشوارگذارراستوں پرچلنے کی ہماری قوم میں بہت طاقت ہے ہماری ساری قومی توانائیاں اگرہررخ سے بروئے کار لائی جائیں توبلا شک ملت ایران اپنی ہرآرزواورتمنا پوری کر لے گی۔
اسلام کی برکت سے ایرانی قوم میں تحرک پیدا ہوا اورپھر یہ بیداری، امید اورخوداعتمادی آج تک آئے دن بڑھتی رہی ہے لہذا ہرنئے سال کی آمد پرہمیں اپنے عزم وارادہ میں نئی جان ڈال کرایک نئے میدان میں اترنا چاہیے۔
فطری طور پر ہر زندہ قوم کے سامنے چیلنج ہوتے ہیں چیلنج اورزندہ رہنا لازم وملزوم ہیں ہرزندہ موجود کواپنے زندہ رہنے کی قیمت چکانا پڑتی ہے تاکہ اپنے اہداف ومقاصد تک پہنچ سکے جہاں زندگی ہوتی ہے وہاں چیلنج بھی ہوتے ہیں رکاوٹیں بھی ہوتی ہیں رکاوٹوں سے عبور کرنا پڑتا ہے جہاں زندگی ہوتی ہے وہاں دشمنیاں بھی ہوتی ہیں دشمنیوں کے مقابلہ کے لئے عمیق فکروتدبر کی ضرورت ہے۔ پختہ عزم ہی اس عظیم تحریک کی بنیاد ہونا چاہیے ملت ایران اس قومی عزم کی محتاج ہے آج تک یہی عزم نظرآیا ہے۔ اس میں آئے دن مزید پختگی لانے کی ضرورت ہے۔
عالمی حالات دیکھ کربخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ملت ایران کے دشمن دو چیزوں کے ذریعہ ہمارے ساتھ دشمنی نکالنا چاہتے ہیں(پوری دنیا میں اس وقت جو چیز محسوس کی جارہی ہے یہی ہے) ایک: اس قوم کی صفوں میں اختلاف ڈالنا، ہمارااتحاد پارہ پارہ کرنا، اتحاد جیسی عظيم نعمت ہم سے چھین کرہمیں اندرونی اختلافات میں مبتلاکرنا۔ دوسرے: معاشی مشکلات پیدا کرنا، ایرانی قوم کوخوشحالی اورتعمیرنوکے باب میں اٹھائے جارہے اقدامات سے روکنے کی کوشش۔ یہ دونوں چیزیں دشمن کی مختصراوردرمیانہ مدت پالیسیوں میں دکھائی دے رہی ہیں اگروہ زبان پر نہ بھی لاتے تب بھی یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا لیکن دشمن خود ان پالیسیوں کے معترف ہیں۔
سنہ چھیاسی میں تمام قومی طاقتیں، ایرانی قوم کے اعلی اہداف کی معتقد طاقتیں، ملکی حکام اورباحوصلہ جوان سب ایک دوسرے کے شانہ بشانہ معیشت کے باب میں سرگرم عمل ہوجائیں۔ معاشی سرگرمیوں کا میدان وسیع ہے خاص طورسے اب جب بنیادی آئین کی دفعہ چوالیس کی پالیسیوں کا اعلان کردیا گیا ہے، حکام کوجوتاکیدات کی گئی ہیں اورانہوں نے بھی اس باب میں اپنے عزم کا اظہار کیا ہے توعوام کے لئے معاشی سرگرمیوں کی راہیں کھل گئی ہیں۔ حکام دستیاب سہولیات سے عوام کوآگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھیں؛ ہمارے ملک کی معاشی صلاحیت بہت زیادہ ہے لہذا ایک خوشحال معاشرہ کی تعمیرکے لئے کوشش کی جاسکتی ہے۔
دوسری بات " عوام میں عمومی سطح پراتحاد" ہمارےدشمن اپنے پروپیگنڈہ، نفسیاتی جنگ اوراپنی گوناگوں خطرناک سازشوں کے ذریعہ ملت ایران کی صفوں میں اختلاف ڈالنا چاہتے ہیں۔ کبھی قوم وقبیلہ کی بنیادپر، کبھی مسلک کوبہانہ بنا کر اورکبھی پیشہ وارانہ جذبات بھڑکا کے ہمارے اتحادکا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ عالم اسلام کی سطح پر بھی دشمن کی طرف سے سخت کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ ملت ایران اوردیگرمسلم معاشروں میں خلیج پیدا کردی جائے، مسلکی اختلافات کو ہوا دی جائے اوردنیا کے جس کونہ میں بھی ممکن ہوشیعہ سنی کو آپس میں لڑواکر دیگراقوام وملل کے درمیان اب تک بڑھتی ایرانی قوم کی عظمت وعزت کا خاتمہ کردیا جائے۔
قوم کو ہوشیار رہنا ہوگا ملک کی تعمیر نو اور سب سے بڑھ کر قومی اتحادویکجہتی نیز امت مسلمہ کے درمیان اتحاد قائم رہے۔ عقلمندی، ہوشیاری اورتفکروتدبرکے ساتھ یہ اتحاد قائم بھی رکھا جائے اوراسے روزبروزپائدارومستحکم بھی کیا جائے اسی لئے میں قوم کے اتحادکوبہت اہمیت دے رہا ہوں اورمیرے خیال سے اس سال کا نام " قومی اتحاد اوراسلامی یکجہتی کا سال" ہونا چاہیے یعنی ملک کے اندرتمام عوامی اکائیوں اور گوناگوں قوموں، مسلکوں اورپیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان اتحاد ہونا چاہیے اوراسی طرح بین الاقوامی سطح پربھی تمام مسلمانوں نیزامت مسلمہ کے مختلف فرقوں کے درمیان اتحاد،بھائی چارہ اوریکجہتی قائم رہنی چاہیے۔
اس وقت اسلام کی عظمت بھی مسلم اقوام کی غیروابستگی اوران کے پختہ عزم پرمنحصرہے اب تک الحمدللہ ایرانی قوم اس راہ کی علمبرداررہی ہے اورآئندہ بھی پرچمدارہی رہے گی۔
خداوند متعال سےدعا ہے کہ وہ ہمارے عظیم امام (رہ)کی ملکوتی روح پر مغفرت نازل کرےاوران کے درجات بلند فرمائے، انہوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا ہے امید ہے کہ ملت ایران اس راہ میں کامیاب وکامران رہے گی۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ