بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا ونبینا ابی القاسم محمد وعلی آلھ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین المعصومین المکرمین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔
قال اللہ الحکیم فی کتابھ "الم ترکیف ضرب اللہ مثلاًکلمۃ طیبۃ کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء۔ تؤتیٰ اکلھا کل حین باذن ربھا ویضرب اللہ الامثال للناس لعلھم یتذکرون"
عظیم الشان و با عظمت مجلس ہے اور اس سے زیادہ با عظمت ملک بھر بلکہ دنیا کے کونہ کونہ میں وہ دھڑکتے دل ہیں جو ان ایام میں حضرت امام (رہ) کی یاد میں ڈوب جاتے ہیں یہ علامت ہے اس ذات کی عظمتوں کی جس نے خدا کی توفیق سے ایک قوم کو بلکہ پوری امت مسلمہ کو عظمت وسربلندی عطا کی۔
خداوند متعال نے کلمہ طیبہ کو پھل دار پاکیزہ درخت سے تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں زمین میں قائم اور شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہیں اورمناسب موقع سے صاحبان اشتیاق کو اپنا پھل دیتا رہتا ہے " تؤتیٰ اکلھا کل یوم باذن ربھا" کلمہ طیبہ ہروہ فکر ہے جوکسی بزرگ اورالہی شخص کے دل میں پیدا ہو اورلوگوں کے لئے برکتوں کا باعث بن جا ئے، کلمہ طیبہ ہر وہ عمل ہے جو ایک صالح انسان کے اعضا وجوارح کے ذریعہ انجام پائے اور انسان کی ہدایت اوردنیائے انسانیت کی پیشرفت کا باعث بن جائے اسی طرح کلمہ طیبہ وہ انسان بھی ہے کہ جس کا وجود اس طرح کی فکر نیک اوراس قسم کے عمل صالح کا مرقع ہے اس آیت کے بعد خداوند عالم فرماتا ہے" یثبت اللہ الذین آمنوابالقول الثابت فی الحیوۃ الدنیا وفی الآخرۃ" وہ قول ثابت سبب بنتا ہے کہ اس کا قائل بھی ثابت اورقائم ودائم رہے کلمہ طیبہ قول بھی ہے، اس کا قائل بھی ہے فکر بھی ہے وہ چیز بھی ہے جواس فکر کا نتیجہ ہے اوروہ انسانی شخصیت بھی ہے کہ جس پراس فکروعمل کا وجود منحصرہے۔
یہی وجہ ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے عظیم امام(رہ) روز بروز مزید مقبول ہوتے جارہے ہیں ہمارے یہاں اورتمام اسلامی ممالک میں روز بروزہمارے عظیم امام(رہ) کی شخصیت مزید برجستہ اوران کی فکروراہ مزید معروف وملموس ہوتی جارہی ہے جس چیز نے اس کو دوام و استمرار بخشا اوران برکتوں کووجود عطا کیا وہ چیز کیا ہے؟ وہ پرخلوص ایمان اورسچا عمل ہے ۔
ہمارے بزرگ امام(رہ) اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں " ان الذین آمنوا وعملوا الصالحات سیجعل لھم الرحمن ودا" ان کا مقصد الہی، رفتاروکردار ایمانی اورعمل صالح تھا ایسا شخص اسلامی معاشرہ کے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے اسے موت نہیں آتی جیسے انبیاء واولیاء الہی! جنکا جسم تو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوگیا لیکن ان کی حقیقت اورشناخت آج بھی زندہ ہے۔
مادی لیڈروں کوطرح طرح کی ترکیبوں سے زندہ رکھنا چاہتے ہیں لیکن نہیں ہوپاتا سوویت یونین کے لیڈرکی لاش ممی بنا کے اسے زندہ رکھنا چاہا لیکن نہ ہوسکا وہ ممی تو ایک بے جان جسم ہی ہے اس کی فکر، اس کے اصول، اس کا تذکرہ اپنے معاشرہ میں بھی اوردنیا میں بھی مٹ چکا ہے .
مادی لیڈرشپ اورمعنوی وروحانی قیادت میں فرق یہی ہے روحانی قیادت کی بقا کا سبب قدرت کے اصل منبع سے متصل ہونا، خدا سے رابطہ رکھنا، ہرچیز کواسی کی سمجھنا اورہرکام کواسی کی خاطرکرنا ہے مردان خدا کی طاقت، جاودانگی اوراثرورسوخ کا راز یہی ہے اس لحاظ سے اوراس اصول کے تحت امام (رہ) ہمیشہ زندہ رہیں گے ان کے دشمن، ان کے مخالف ان کے مذہبی وسیاسی حریف مٹ گئے اورمٹ جائیں گے لیکن امام(رہ) اپنی فکر، اپنی شخصیت اوراپنے وجود حقیقی کے ذریعہ اسلامی اورعظیم انسانی معاشرہ میں باقی رہیں گے اوران کا وجود روزبروزمزید برجستہ، مضبوط اور محسوس ہوتا جائے گا۔
اسلامی ممالک کی عوام میں اس عظیم شخص کی عجیب وغریب مقبولیت کا راز اورسبب اپنے آپ سے اوپراٹھنا، اپنے لئے کچھ نہ چاہنا، خدا کوسامنے رکھنا، اسی سے الہام لینا اورحقیقی معنی میں اسی کے لئے ساری جدوجہد کرنا ہے یہی بزرگ امام (رہ) کی عظمت اوران کی روحانی قیادت کا راز ہے انبیاء کی مقبولیت اورجاودانگی کا راز بھی یہی تھا ورنہ ظاہری رکھ رکھاؤ، سیاسی جوڑتوڑ اورخوشنما اورعوام پسند نعرے لگانا توسب کو آتا ہے دوسرے بھی یہ کام کرتے ہیں ایک روحانی قائد کے دلوں میں گھرکرنے کا سبب یہ نہیں ہے اس کی حکومت بھی صرف روحانی شکل وصورت والی نہیں ہوتی بلکہ انبیاء (ع) کی حکومت جیسی ہوتی ہے ظالموں اورجابروں جیسی حکومت ہرگز نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ آپ جب امام(رہ) کی زندگی پر نظر دوڑاتے ہیں توملاحظہ کرتے ہیں کہ خدا سے ارتباط واتصال نے انہیں سکون واطمینان بخشا تھا جہاں دوسرے گھبرا جاتے تھے وہ مطمئن رہتے تھے جہاں دوسروں کے قدموں میں لغزش آجاتی تھی وہاں ان کے قدم جمے رہتے تھے اپنی وصیت میں بھی ایرانی قوم بلکہ ساری مسلم اقوام کو مخاطب کرتے ہوئے پرسکون دل اورمطمئن قلب کے ساتھ لوگوں کو خداحافظ کہتے اورجواررحمت الہی کی طرف چل پڑتے ہیں آخری وقت میں بھی پرسکون دل کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔
کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ بات آتی تھی کہ ایسا کیونکرہواکہ ہم نے انقلاب میں اتنے شہید دیئے اس کے باوجود امام (رہ) جوکہ دینی احکام اور جان ومال کے سلسلہ میں نہایت باریک بینی سے کام لیتے تھے پریشان نہیں تھے اورمطمئن قلب کے ساتھ دنیا کو ترک کرکے اپنے پروردگار کی ملاقات کو چلے گئے، کہتے تھے کہ اتنا جوخون بہا ہے انہیں اس کا جواب تودینا ہی ہوگا ؟! امام (رہ) کی طرف سے ان وسوسوں کا جواب یہ ہے کہ اتنے خونوں کا جواب وہی دے گا جس نے صفین ونہروان میں بہے خون کا جواب دیا ہوگاان سختیوں کا جواب بھی وہی دے گا جو اپنی زندگی میں امیرالمومنین(علیہ السلام) کی برداشت کردہ سختیوں اوررنج ومحن کا جواب دے گا کسی قوم کو نجات دلانے کے لئے انقلاب لانے میں خرچ کی ضرورت ہے کسی قوم کی آزادی واستقلال کے تحفظ کے لئے آٹھ سال تک جنگ کرنے میں خرچ کی ضرورت ہے عالمی لٹیروں کے سامنےاپنی حقانیت اوحقوق کے اثبات میں خرچ کی ضرورت ہے امام (رہ)نے یہ خرچ برداشت کیا یہ عوام کا ان پراعتماد تھا، عوام میں اپنا اعتماد امام (رہ)نے اس راہ میں لگا دیا لیکن خدا نے اس خرچ کی بھرپائی کردی اورجتنا انہوں نے خرچ کیا تھا اس سے کئی گنا زیادہ انہیں واپس لوٹا دیا۔
ان کی تشیع جنازہ کرنے والوں کی تعداد ان کا استقبال کرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ تھی اس کا مطلب یہی ہے کہ " من کان للہ کان اللہ لہ" وہ دلوں میں بسے تھے توانہوں نے اس سرمایہ کا استعمال اپنے لئے نہیں کیا اس سرمایہ کو وہ خدا کی ملکیت سمجھتے تھے جسے خدا کی راہ میں خرچ کیا جانا چاہئے تھا تو انہوں نے خرچ کردیا توخدانے بھی یہ سرمایہ دگنا انہیں واپس کیا راہ خدا کی یہ کیفیت ہے اس کے لئے جدوجہد اورخرچ کی ضرورت ہوتی ہے خرچ کرنا پڑتا ہے۔
اگرکوئی قوم خدا کو نہیں مانتی، دین اور قیامت کو بھی نہیں مانتی وہ بھی اگرعزت حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے خرچ کرنا پڑے گا، اسقلال وآزادی چاہتی ہے تو اسے خرچ کرنا پڑے گا اگراپنے حقوق کوعالمی غنڈوں سے بچانا چاہتی ہے تواسے اس کا خرچ اٹھانا پڑے گا کسی کونہ میں بیٹھ کرترقی وپیشرفت اورعزت وسرداری کی آرزو کرنے اور میدان عمل میں کوئی جدوجہد نہ کرنے سے کچھ بھی ممکن نہیں ہے کچھ لوگ اس سلسلہ میں بس شکوے گلے کرنا اورنقائص گنوانا ہی جانتے ہیں لیکن ترقی کے لئے انہیں اپنے حصہ کا جو خرچ برداشت کرنا ہے اس کے سلسلہ میں چپ سادھ لیتے ہیں جب سعی وکوشش کا وقت ہوتا ہے تو بیٹھ کر تماشا دیکھتے ہیں جب کسی قضاوت کا وقت ہوتا ہے تو بے رحمی اورناانصافی سے کام لیتے ہیں ایسا نہیں ہواکرتا۔ جوقوم، گروہ یا فرد اپنی آرزؤں تک پہنچنا چاہتی ہے اسے محنت کرنا پڑتی ہے ہماری قوم نے محنت کی اورانقلاب کامیاب کردیا، محنت کی اورمسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ میں کامیاب ہوگئی۔
اسلامی جمہوریہ کے خاتمہ اورانقلاب کی نابودی کے لئے تمام عالمی طاقتوں نے متحد ہوکرعراق کی بعثی حکومت کو آگے کردیا لیکن قوم ثابت قدم رہی اس ثابت قدمی کے نتیجہ میں دنیا کو یہ تجربہ ہوگیا کہ جہاں بھی حق، حقیقت اوراپنے حقوق کے دفاع کی بات ہوگی ایرانی عوام خطرات کے میدان سے کبھی پیچھےنہیں ہٹیں گے اورکسی بھی قوم کے لئے اپنے حقوق کے حصول کا واحد راستہ یہی بصیرت وآگاہی پرمبنی ثابت قدمی ہے۔ آگاہ ہوں، اپنے حقوق کو پہچانتے ہوں اورپھران کے حصول کے لئے ثابت قدم ہوجائیں دوسروں کے سامنے ہاتھ جوڑنے سے حق نہیں ملتا۔
امام (رہ)عالمی طاقتوں کو خوب پہچانتے تھے جارح اورتسلط پسندطاقتوں سے مؤدبانہ گذارش نہیں کی جاسکتی جتنا آپ التماس کریں گے پیچھے ہٹیں گے نرمی دکھائیں گے تسلط پسند کی فطرت یہ ہے کہ وہ اتنا ہی تسلط پرآمادہ ہوگا، دھمکیاں تیز کردے گا، مزید آگے بڑھے گا، حق کومقابلہ کرکے لینا پڑتا ہے ایرانی قوم نے اپنے استقلال کا حق لے لیا، اپنی عزت حاصل کرلی، اپنی سرحدیں محفوظ کر لیں اپنی اسی استقامت وپائداری اوراسی جدوجہد کی برکت سے ملک میں ایک مضبوط حکومت قائم کرلی اوراپنی طاقت کا احساس کرلیا۔
میرے عزیزو! ایران کی عظيم قوم ! ائے عزیز نوجوانو! خوداعتمادی پیدا کیجئے، اپنے اوپر یقین رکھئے، آپ نے پہلے بھی بہت کچھ کیا ہے بعد میں بھی بہت کچھ کریں گے تسلط پسند طاقتیں اگر کسی قوم کوکچھ دینا چاہتی ہیں تو وہ لینے کے لائق نہیں ہے جوہری توانائی کے حصول کے حق کے لئے ایرانی قوم درخواست کرے تاکہ متکبراورخودساختہ عزت دار عالمی طاقتیں قبول کرلیں کہ ہاں اسے جوہری توانائی کے حصول کا حق ہے! جی نہیں! یہ آزاد اورغیروابستہ قوم کی شان نہیں ہے تمام باقی حقوق کا حال بھی یہی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ سیاست کی پرآشوب دنیا میں حضرت امام (رہ)نے اس علاقہ میں ایک نیا چہرہ پیش کیا ہے اوروہ اسلامی جمہوریہ اورایران کی زندہ قوم ہے جس نے یہ جمہوری نظام قائم کیا اوراس کی حفاظت کی، یہ ایک اسلامی اورقومی شناخت ہے جوصرف ایرانی قوم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق تمام مسلم اقوام سے ہے ہمارے عظیم امام(رہ) نے ایرانی قوم کی ہمت سے یہ شناخت پیدا کی اوراسے زندہ رکھا۔
کئی سالوں تک اس خطہ پر مغربی تسلط مضبوط ہوتا رہا دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرق وسطی پر قبضہ کا کام تقریباً ختم ہوچکا تھا سامراج نے جوکام کئی سال پہلے شروع کیا تھا وہ اب اسے انجام تک پہنچتا دکھائی دے رہا تھا، عراق پر کسی طرح سے قبضہ تھا ایران پر کسی دوسری طرح سے تسلط، عرب ممالک اردن، سیریا، لبنان، مصر اوردیگرممالک کسی نہ کسی طرح پہلے ہی تسلط پسند مغربی ، یورپی اور پھر امریکی سامراج کےخطرناک قبضہ میں تھے انھوں نے اس کام کو مستحکم کرنے کے لئے اس خطہ میں غاصب صہیونی حکومت کی داغ بیل بھی ڈال دی تاکہ انہیں اطمئنان ہوجائے کہ مغرب واضح طورپراس خطہ میں صہیونیوں کے توسط سے سیاسی وفوجی لحاظ سے سرگرم ہے اورہرچیز کو کنٹرول کررہا ہے۔
اس صدی کے اواسط میں کچھ ممالک کے اندر کچھ آزادی خواہ تحریکیں اٹھیں جنہیں مغربی ممالک نے عراق میں کسی بہانے سے ، دوسرے عرب ممالک میں کسی اور بہانے سے اور مصر میں کسی دوسرے انداز سے جلد ہی کچل دیاکیونکہ وہ کسی بھی صورت میں اس قدرتی وسائل سے سرشاراس حساس علاقہ کا کنٹرول کھونا نہیں چاہتے تھے ایسے میں اچانک اسلامی انقلاب نے ان کی آنکھیں کھول دیں انہیں یقین ہی نہیں آرہاتھا کہ روحانی تحریک اورامام (رہ)کی قیادت اتنی عظیم عوامی تحریک میں بدل جائے گی ایرانی عوام متحد ہوکر میدان میں اترے اورایرانی قوم کی ہمت اورہمارے عظیم امام (رہ)کی بے مثال قیادت میں یہ معجزنما واقعہ رونما ہوا۔
دنیائے سیاست میں کوئی یقین ہی نہیں کرسکتا تھا کہ اس خطہ میں خاص طور سے ایران میں جہاں کےحکمرانوں پرامریکہ سوفیصد قابض ہے وہاں ایک ایسا نطام سراٹھا لےگا جس کی بنیاد مذہب ہوگی اورہاتھوں میں اسلام اورلاالہ الااللہ محمدرسول اللہ کا پرچم ہوگا اس دور میں جولوگ سیاست کو عمیق نظروں سے دیکھ رہے تھے وہ سمجھ گئے کہ اب علاقہ میں حالات کا رخ بدل گیا ہے تسلط پسندوں نے اس چراغ کو بجھانے، اس تحریک کوختم کرنے اور پھیلنےسے پہلے ہی اس نومولود کا گلا دبانے کی بہت کوششیں کیں لیکن با بصیرت لوگ دیکھ رہے تھے اورجان رہے تھے کہ یہ قدرت الہی کا جلوہ ہے۔ یہ پھل دار پودا روبروز رشد کرتا اورجڑیں پھیلاتا گیا یہ اسلامی جمہوریہ کا پودا تھا یہ وہی کلمہ طیبہ ہے "اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء"۔
اس وقت اس پورے علاقہ میں اسلامی جمہوریہ کا نظام سب سے مضبوط نظام ہے اس وقت ایرانی قوم اس علاقہ میں سب سے زیادہ پرجوش، عزم مصمم رکھنے والی اورثابت قدم قوم ہے اس دوران اسلامی جمہوری نظام سرعت کے ساتھ ہرشعبہ میں آگے بڑھا ہے سیاسی میدان میں اس نے کچھ اہم چیزوں کے ذریعہ دنیا کا سیاسی ادب بدل دیا ہے سائنسی میدان میں اس خطہ اوراس ملک پرمطلق ٹھہراؤ کوتوڑدیا ہے ہمارے جوانوں میں خوداعتمادی ہے انہیں اپنے اوپر یقین ہے حکومت اورعوام اپنے اہداف کی سمت تیزی سے رواں دواں ہیں اس دوران جتنی بھی حکومتیں آئیں سب اسلامی انقلاب ہی کے راستہ پر آگے بڑھیں ہیں اوربڑے بڑے کام انجام پائے ہیں عالم اسلام میں اسلامی جمہوریہ روز بروز زیادہ مقبول اورایرانی قوم کی عزت میں روز بروز اضافہ ہوتا رہا ہے۔
آج آپ عالم اسلام کےکسی بھی کونہ اورامت مسلمہ کے کسی بھی حصہ میں جوانوں، یونیورسٹی والوں اورعام لوگوں کے درمیان جائیں اورسروے کریں توآپ کو پتہ چلے گا کہ ان کی اکثریت اسلامی جمہوریہ، حضرت امام (رہ)اورایرانی قوم سے محبت رکھتی نیزان کی حمایت اورتصدیق وتائید کرتی ہے۔ قوم میدان میں، نظام شاہراہ ترقی پر، ملک اپنے اہداف کی سمت رواں دواں اورنوجوانوں کے دل امیدوں سے سرشار ہیں لیکن ہمیں یہ جان لینا چاہئے اوراس بات پر توجہ رکھنی چاہئے کہ اس مبارک تحریک کی بقاء اس بات پر منحصر ہے کہ ہم انقلاب کے اصل راستے پر گامزن رہیں جیسا کہ آج تک ایرانی قوم کی اکثریت اور ملک کے ممتاز افراد کی ایک بڑی تعداداسی راستے پر رواں دواں ہے۔
اگر اس راہ کی اصل بنیادوں میں سے چند ایک کاذکرکیا جائے تو ایک اسلامی ہونا، دوسرے عوامی ہونا اورتیسرے جدید اورخلاقیت پر مبنی ہونا ہے۔
اسلامی ہونے کی بہت سی خاصیات ہیں بہت ساری چیزیں اسی عنوان اور اسی اسلامی ہونے سے سمجھی جاتی ہیں ان پر توجہ رہنی چاہئے ہم کہتے ہیں کہ ہمارا نظام اسلامی ہے یعنی اسلام پر مبنی ہے تواس کا مطلب ہوا کہ یہ سارے مسلمانوں میں مقبول ہے اورکسی ایک فرقہ سے مخصوص نہیں ہے یہ صحیح ہے کہ اس نظام کا چشمہ شیعہ تعلیمات سے پھوٹا اورایک شیعہ مرجع تقلید نے اس کی قیادت کی ہے لیکن اسلامی جمہوریہ نے کبھی بھی اپنے اوپر کسی خاص فرقہ کا خول نہیں چڑھایا ہے اوریہی وجہ ہے کہ عالم اسلام کے کونہ کونہ میں مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان اس نظام کے حامی اورشیدائی ہیں اورامام (رہ)کا نام احترام سے لیتے ہیں ان پورے اٹھائیس سالوں میں آج تک عرب ممالک اورغیرعرب اسلامی ممالک یعنی عالم اسلام کے شرق وغرب میں نوجوان ہمارے عظیم امام (رہ) کے نام کے شیدائی اوراسلامی جمہوریہ پرفریفتہ ہیں۔
اس وقت لبنان کے مخلص شیعہ نوجوانوں کی طرح فلسطین کے سنی نوجوانوں نے بھی اسلامی جمہوریہ سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اسلامی جمہوریہ کو دیکھ کران میں امیدیں جاگنے لگتی ہیں اسلامی جمہوریہ کی استقامت ان کی امیدیں باندھتی ہے اسلامی جمہوریہ کی عزت میں وہ اپنی عزت محسوس کرتے ہیں۔ جس کسی اسلامی ملک میں ہماراکوئی اعلی سطحی عہدہ دار گیا وہاں کی یونیورسٹی یا لوگوں کے درمیان گیا لوگوں نے اسےسرآنکھوں پربٹھایا اوراس سے اظہار محبت کیا جس عہدہ دار کا موقف جتنا زیادہ اسلامی جمہوریہ کے موقف کا آئینہ ہو اتنا ہی عالم اسلام میں اس کی مقبولیت وعزت بڑھ جاتی ہے لہذا ہمارے ملک میں اسلام فرقوں اورمذہبی شناخت سے اوپر اٹھ کے ہے ہمارے ملک کی اکثریت شیعہ امامیہ اور اہلبیت(علیھم السلام) کے مخلص دوستداروں کی ہے ان کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں اہلسنت کے مختلف مذاہب کی پیروکار اکثریت اورعراق، لبنان، پاکستان اوربحرین میں ہمارے اپنے شیعہ بھائی سب اسلامی جمہوریہ کو ایک نظرسے دیکھتے اوراس کے لئے قربانی دینے کے لئے تیار ہیں مسلط کردہ جنگ کے دوران دوسرے ممالک کے ایسے افراد ہمارے علم میں تھے جو اسلامی جمہوریہ کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے قربانی دینے کے لئے تیار تھے اسلامی ہونے کا مطلب اسلام سے وابستہ اورشرع مقدس اسلام پر مبنی ہوناہے۔
اسلامی ہونے کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہم اخلاقی اقدار، سماجی وسیاسی قوانین اوردین کے کلی قواعد کو کتاب وسنت سے اخذ کرتے اوراس کے پابند ہیں ہمیں کتاب وسنت پر عمل کرنے پر فخر ہے اورہم معتقد ہیں کہ قرآن وسنت کا صحیح اورکھلی آنکھ سے ادراک اسلامی معاشرہ کے لئے زندگی کے گونا گوں مسائل کے سلسلہ میں سیکڑوں راہیں کھول سکتا ہے کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ کتاب وسنت کی پابندی دنیاوی زندگی میں انسان کے مختلف، پے درپے اورنت نئے تجربات کو محدودکردیتی ہے اس طرح کا خیال کتاب وسنت کی عدم شناخت اوراسے عامیانہ نگاہوں سے دیکھنے پر مبنی ہے لیکن کتاب وسنت پر مجتہدانہ نظریں مختلف راستے کھول دیتی ہیں تاکہ انسان خود کو سماج کو اورمختلف سلسلوں کو چلا سکے اسے اپنے سامنے کھلی راہیں نظرآتی ہیں۔
اسلامی ہونے کا ایک اہم رخ یہ ہے کہ اسلامی اجتہاد ہرضرورت پوری کرسکتا ہے فقہاء، متکلمین، اسلامی فیلسوف اورعلوم اسلامی کے ماہرین کی علمی پشتپناہی بہت سارے راستے کھول سکتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ کی دوسری اصل بنیاد عوامی ہونا ہے اسلامی جمہوری نظام کا عوامی ہونا اس کی ایک اصلی پہچان ہے یعنی عوامی رائے، عوامی شناخت اورعوام کی مرضی اسلامی جمہوریہ نطام اوراس مضبوط ستون کے اصلی عناصر کا جزو ہیں عوامی رائے فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے عوامی ضروریات پورا کرنا اسلامی جمہوری نظام اوراس کے عہدہ داروں کا اصل مقصد ہے ان میں مادی ضروریات بھی شامل ہیں اورمعنوی، اخلاقی اورروحانی ضروریات بھی۔
اسلامی جمہوری نظام میں جہاں لوگوں کا اقتصاد اہمیت رکھتا ہے وہاں ان کا تحفظ بھی اہمیت رکھتا ہے جسطرح ان کا جسمانی تحفظ اہم ہے اسی طرح ان کا اخلاقی تحفظ بھی اہم ہے جس طرح ملک کا نظام اہم ہے اسی طرح گھر کا نطام بھی اہم ہے اسلامی جمہوری نظام ان تمام ضروریات کو پورا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے یہاں عوام کو حقیقی معنی میں رائے دینے کا حق ہے مغرب کی شکست خوردہ لیبرل ڈیموکریسی جیسی بدنام جمہوریت یہاں نہیں ہے مغربی جمہوریت حقیقت میں عوامی انتخاب پر مبنی نہیں ہے۔ وہاں سرمایہ دار انتخاب کرتے ہیں یہاں تک کہ پارٹی ممبران کو بھی یہ حق حاصل نہیں صرف پارٹیوں کے رہنما انتخاب کرتے اورچنتے ہیں وہ جسے چاہتے حکمراں بناتے اورجسے چاہتے ہٹا دیتے ہیں بڑے بڑے فیصلے وہ لیتے ہیں اکثر فیصلوں میں عام لوگ الگ تھلگ ہوتے ہیں نہ ہی ان کی طرف کوئے توجہ دیتا ہے انہیں کام کاج میں اتنا مصروف کردیتے ہیں کہ ان کے پاس اپنے دل کی بات کہنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔
ڈکٹیٹرشپ نہایت ہی ماڈرن اورپیشرفتہ شکل میں اس وقت بہت سارے مغربی ممالک پر حاکم ہے جن میں سرفہرست امریکہ ہے وہاں عام انسان صاحب اختیاروارادہ ہونے کے باوجود حکومت سازی میں کوئی کردارادا نہیں کرتے پیسہ ہے اورطاقت، سرمایہ دار ہی سب کچھ طے کرتے اورہرچیزمیں جیسے چاہتے کردار اداکرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ غلط اصولوں پرمبنی مغربی جمہوریت کو مسترد کرتا ہے دینی عوامی حکومت کا مطلب انسان کی حقیقی کرامت اوردین الہی کی چاردیواری کے اندرعام لوگوں کا اپنی مرضی سے کوئی قدم اٹھانا ہے یہاں کی چاردیواریاں دوران جاہلیت کی سنتیں، اقتصادی کمپنیوں کے مطالبات اورفوجیوں اورجنگی کمانڈروں کے خودساختہ اصول نہیں ہیں اسلامی جمہوریہ اس سب کے برخلاف دین کی چاردیواری کے اندرقدم بڑھاتاہے اوریہاں عوامی رائے ہی فیصلہ کن کرداراداکرتی ہے۔
اس وقت مغربی حکومتیں جن میں سرفہرست امریکہ ہے اپنی اسی کڑوے تجربات والی ناکام جمہوریت کو زبردستی کچھ ممالک پرمسلط کرنا چاہتی ہیں عوامی ووٹ سے برسراقتدارآئی فلسطینی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں عراقی حکومت جو واقعاً عوام کے ووٹ سے وجود میں آئی ہے اس کی راہ میں طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ کودتا اورکودتا سے بنی فوجی حکومت کی اپنی اطاعت کی شرط پربھرپورحمایت کرتے ہیں اس سب کے باوجود عوامی حکومت کی بات کرتے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ کی تیسری پہچان خلاقیت ہے میں اپنی ممتاز سیاسی وسماجی شخصیات سےپرزورانداز میں کہوں گا کہ وہ کتاب وسنت سے جواسلامی اصول اخذ کرتے ہیں من وعن انہیں کو بیان کریں اوراسی کوپوری دنیا کی اوراپنی عوام کی سوالیہ نظروں کے سامنے رکھیں، یہ بہت بری بات ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ مغربیوں کےمقابلہ میں احساس کمتری کی بنا پراسلامی افکار کو اس طرح پیش کرنے کی کوشش کریں کہ ان میں اورمغربی نظریات میں مطابقت پیدا ہوجائے یہ بہت ہی نامناسب اورناشایستہ حرکت ہے اس وقت ہمارے پاس اپنے اصول وتعلیمات ہیں ہمارا سیاسی ادب دنیا بھرمیں جاذب ہے کچھ لوگ چونکہ مغربی تعلیمات پر فریفتہ ہیں لہذا اسلامی افکار اوراسلام میں گوناگوں سماجی اورحکومتی اصولوں کواس طرح بیان کرتے ہیں تاکہ ان میں اورمغربی اصولوں میں مطابقت نظرآئے اورمقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ خوش ہوجائیں۔
ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ جس اسلامی جدت وخلاقیت کی واضح طورپرہم نے اتنی برکتیں دیکھی ہیں اگرچہ عملی طورپر ہم میں بہت سی خامیاں بھی رہی ہیں اس سے کس طرح دنیا والوں کو واقف کرایا جائے، اس وقت سچی اورحقیقی معنوی تعلیمات کے مشتاق دنیا میں بے شمار ہیں، بہت ہیں البتہ سچی معنوی تعلیمات کے مشتاق ہیں نہ کہ ان چیزوں کے جنہیں منحرف مکاتب فکرروحانیت کا نام دے کرپیش کرتے ہیں مشینی زندگی سے بہت سے لوگ عاجزآگئے ہیں مکتب اسلام ان کے لئے ایک نئی کھڑکی کھول کے ایک نئی دنیا انہیں دکھا سکتا ہے لہذا ہمیں اسلامی حقائق اوراسلامی خلاقیت بیان کرتے وقت اسے دوسروں کے غلط اصولوں سے مطابقت دے کے اس نورکا خاتمہ نہیں کرنا چاہئے ہم دوسروں سے سیکھنے کو عیب نہیں سمجھتے جو ہمیں نہیں آتا اسے دوسروں سے سیکھنا چاہئے دوسروں کی اچھی باتیں ہمیں تسلیم کرنی چاہئیں یہ اسلام کا حکم ہے لیکن جہاں ہم اسلام کو بیان کرنا چاہتے ہیں وہاں خالص اسلام بیان کریں۔
میں ایک جملہ میں عرض کردوں عزیز بھائیو اوربہنو! ہمارے عظیم امام (رہ)کے ایجاد کردہ اس انقلاب پر دنیا میں کسی کو یقین نہیں تھا جب مسلط کردہ جنگ میں بھی یہ محفوظ رہا اوراس نے کامیابی اپنے نام لکھی تو دنیا ایک بارپھرانگشت بدنداں رہ گئی جس دن اس نے سائنسی ترقی کرکے جوہری اوردیگر سائنسی کامیابیوں کے ذریعہ اپنی توانائیاں منظرعام پر رکھیں تو صاحبان نظرکی آنکھیں ایک بارپھراسے تعجب وخیرگی سے دیکھنے لگیں میں عرض کردوں کہ آپ کو ایک طویل راستہ طے کرنا ہے اوراس راستہ میں بے شمار کامیابیاں آپ کے قدم چومنے کی منتظرہیں ایرانی قوم نے اب تک جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ انشا اللہ ثابت قدمی، بصیرت اورآگاہی کی برکت سے مستقبل میں ملنے والی کامیابیوں کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوں گی ایران کا مستقبل اپنے ماضی سے کہیں زیادہ بہتر ہوگا۔
اس وقت دشمن کے مطلق العنان شہنشاہ جیسے ذرائع ابلاغ ایرانی قوم اوراسلامی جمہوریہ کی ایک خراب اورغلط تصویرپیش کرتے ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایرانی قوم ان اٹھائیس سالوں میں تمام تر دھمکیوں اورچیلنجوں کے باوجود کامیاب ہوچکی ہے ایرانی قوم نے تمام تر دباؤ کے باوجود اپنے اصول اوراہداف کی حفاظت کی ہے ایرانی قوم اپنے صبرواستقامت کی وجہ سے سائنس وٹیکنالوجی، ملک کی سیاسی وسماجی قیادت اور عالمی عزت ووقارکے معاملہ میں خود کوبہت آگے پہنچا چکی ہے اوراس وقت خطہ کی مسلم اقوام کے لئے نمونہ عمل ہے یہ اقوام ایرانی قوم کی استقامت و پائداری کی وجہ سے سربلندی محسوس کرتی ہیں، انہیں عزت کا احساس ہوتا ہے وہ ایرانی قوم کی عزت کو اپنی عزت سمجھتی ہیں یہی وہ شناخت ہے جو اسلامی انقلاب، اس عظیم ہستی کی استقامت اورایرانی قوم کی جرأ ت وہمت سے وجود میں آئی ہے۔
ہم پربھاری ذمہ داریاں ہیں جنہیں ہم کو پورا کرنا ہوگا حکام پر بھی سخت ذمہ داریاں ہیں جو انہیں پوری کرنی ہوں گی قوم کو حق بھی ہے اورجس چیز کی اسے حکام سے سب سے زیادہ توقع ہے وہ ہے عدل وانصاف! قیام عدل کے لئےجو کہ بہت سخت ہے ہم سب کو کوشش کرنی چاہئے میں نے اس سال کے شروع میں کہاتھا کہ اقتصاد ملک کا ایک اہم مسئلہ ہے، دشمن کی طرف سی چھیڑی ہوئی نفسیاتی جنگ دوسرا بڑا مسئلہ ہے، سائنسی ترقی تیسرا مسئلہ ہے جو ہماری قوم کے لئے نہایت اہم ہے۔
ہماری عزیزقوم اوراقتصادی میدان میں سرگرم افراد اقتصاد کے سلسلہ میں جتنا ان سے ہوسکے کوشش کرتے رہیں سرمایہ کاری ہو یا محنت کشی، صنعتی وٹیکنالوجی کے میدان میں خلاقیت ہویا زرعی ترقی ،جس سے جس سلسلہ میں جوہوسکے کرتارہے۔
قومی اتحاد کے سلسلہ میں اوردشمن کی نفسیاتی جنگ کے جواب میں سب کو ہوشیاررہنا چاہئے خدا کے فضل سے ایرانی قوم میں خطرات کا سامنا کرنے کی طاقت ہے دشمن جسے چیلنج سمجھتا ہے اس کا یہ مقابلہ کرسکتی ہے دشمن نے عظیم ایرانی قوم میں پھوٹ ڈالنے والی چیزوں پرنظریں جما رکھی ہیں خلیج بڑھانا اورخلیج پیدا کرنا اس کا کام ہے اس سال کے آخرمیں انتخابات ہونا ہیں دشمن سوچ رہا ہے کہ وہ انتخابی رقابتوں کے ذریعہ ہماری عوام میں پھوٹ ڈال سکتا ہے اورہم خدا کی مدد سے آنے والے انہیں پارلیمانی انتخابات کو اس قوم کی ترقی اورعزت وآبروکا وسیلہ بنا لیں گے۔
قوم میں بھائی چارگی ضروری ہے لیکن صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ آپسی بھائی چارگی کے ساتھ ساتھ پوری امت مسلمہ اوردیگر اقوام اورممالک کے ساتھ بھی بھائی چارہ قائم رہنا چاہئے شیعہ ،سنی لڑائی دشمنوں کی ایک بہت بڑی سازش ہے یہ لوگ دنیاوی واخروی حقائق سے بے خبر ایک متعصب اوربنیادپرست گروہ کو اسلامی فرقوں سے مقابلہ کے لئے آگے کردیتے ہیں عراق، لبنان اوردیگرعلاقوں میں مختلف انداز سے یہ کام کرتے ہیں تاکہ اختلاف کے شعلے بھڑک اٹھیں۔
ایران، عراق، پاکستان، لبنان، فلسطین اوردنیا کے دیگرعلاقوں میں جہاں کہیں بھی مسلمان بھائی رہتے ہیں ان کا تعلق کسی بھی مذہب ومسلک سے ہووہ یہ جانتے ہیں کہ ہمارااوراسلام کے حقیقی علماء کا نظریہ یہ ہے کہ "مسلمان بھائی کے خون میں ہاتھ رنگنا ایک ناقابل معافی گناہ ہے" جو لوگ مسلمان بھائیوں کے خون میں ہاتھ رنگتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ ہم اسلام کی پیروی کررہے ہیں؟! ہم اسلامی احکام کی پابندی کررہے ہیں؟! (وہ جان لیں کہ) یہ اسلام کی روح کے منافی ہے سب جان لیں : ایرانی قوم کا دیگرمسلم اقوام کے ساتھ بھائی چارہ حقیقی بھائی چارہ ہے مسلکی اختلافات اپنی جگہ ہیں شیعہ، شیعہ ہیں، سنی، سنی ہیں، خود اہلسنت اورشیعوں کے اندربھی فکری اورمسلکی اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن ان سب کولاالہ الااللہ ومحمدرسول اللہ کے پرچم تلے آپس میں بھائی بن کے رہنا چاہئے تاکہ اسلام اورامت مسلمہ کے دشمنوں کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا جا سکے۔
پروردگارا! ہمارے عظیم امام (رہ) کوانبیاء کے ساتھ محشورفرما، ہمیں ان کی گرانقدر معنوی میراث کا قدرداں بنا دے،ہمیں ان کی بے نظیرشخصیت کا قدرداں قراردے، پالنے والے ملت ایران کو کامیاب فرما، ایرانی قوم کو کامیابی سے ہمکنارفرما، ایرانی قوم کی عزت میں روزبروز اضافہ فرما، پالنے والے عظیم امت مسلمہ کواپنی تمام نعمتوں اورکرامتوں کے ذریعہ سربلندفرما، پالنے والے عظیم امت مسلمہ کوروزبروز مزید متحد فرما! پالنے والے اسلامی جمہوریہ اور اس قوم کے محبوب مرحوم امام (رہ)کے چاہنے والے دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں ان پراپنا فضل وکرم نازل فرما، حضرت ولی عصر(عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) کے قلب مقدس کوہم سے راضی وخوشنود فرما۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ