بسم اللہ الرحمن الرحیم
خداکا شکر کہ آج ایک بار پھر قوہ مقننہ کے منتخب نمائندے اپنی فخریہ کاوشیں زحمتیں اورخدمتیں بیان کرنے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں۔
کتنا اچھا لگتا ہے جب کسی پیشہ سے وابستہ انسان اپنے ماضی کا سختی، باریکی اوربغیرکسی چشم پوشی کے محاسبہ کرتے وقت بارگاہ ایزدی میں پیش کئے جانے کے لائق کاموں کی ایک فہرست اپنے سامنے پاتا ہے ہم سے جو کہا گیا ہے کہ " حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا" اورعلمائے سلوک واخلاق نے جو محاسبہ کو سالک کی اولین ذمہ داریوں میں قرار دیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم مستقل اپنا نامہ اعمال پڑھتے رہیں تاکہ جب وہ ہمارے سامنے پیش کیا جائے توچونک نہ جائیں لہذا قبل اس کے بارگاہ الہی میں ہمارا نامہ اعمال پڑھا جائے ہم خود پڑھ کے دیکھ لیں کہ جہاں کہیں کوئی خامی ہے اسے دور کردیں اورجواچھائیاں ہیں اس پر خدا کا شکر بجا لائیں لیکن اگر ہم اپنا محاسبہ نہ کریں اورایسے ہی غافل بیٹھے رہیں تو وہاں اچانک پکڑے جائیں گے۔
امام سجاد(ع) دعائے ابوحمزہ ثمالی میں خدا سے عرض کرتے ہیں " اللہم فارحمنی اذا انقطعت حجتی وکلّ عن جوابک لسانی وطاش عند سؤالک ایای لبی" خداجب سوال کرے گا تو انسان کے پاس سارے دلائل ختم ہوچکے ہوں گے یا عام زبان میں کہا جائے کہ "بولتی بند ہوجائے گی" زبان کی گویائی جاتی رہے گی اوریہاں تک کہ عقل وذہن بھی کام کرنا چھوڑ دیں گے " وطاش عند سؤالک لبی" جوباریکی سے اپنا محاسبہ کرتے ہیں انہیں ایک طرح کی کشادگی کی امید ہے اس لئے کہ جب ہم نے اپنا نامہ اعمال ملاحظہ کیا اوردیکھا کہ اس میں کچھ خامیاں موجود ہیں توچونکہ ابھی وقت ہے عمر باقی ہے ان کا جبران کرلیں گے "وانیبواالی ربکم" " انیبوا" کا مطلب ہے لوٹ آؤ اورجبران کرو اوراگرہمیں اس میں اچھائیاں نظرآئیں توہم خداکی امداد، توفیق اورہدایت دیکھ کرمطمئن اورپرامیدہوجائیں گے۔ خدا کا شکربھی بجا لائیں گے اوروہی طریقہ کارجاری بھی رکھیں گے محاسبہ کا یہ فائدہ ہے۔
جس طرح انفرادی محاسبہ ضروری ہے اسی طرح اجتماعی محاسبہ بھی ضروری ہے پارلیمنٹ، حکومت، ملک کے دیگرادارے اورحکام بھی بیٹھ کراپنا محاسبہ کریں ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے اگرایسی فہرست انسان کے سامنے آئےجیسی حداد عادل صاحب نے اپنی ہمیشہ کی شیریں کلامی کے ساتھ پیش کی ہے تووہ فطرتاً خوش ہوجائے گا اورخداکاشکربجالائے گا لیکن مطمئن نہ ہوگا اورمطمئن ہونا بھی نہیں چاہئے غفلتوں اورخامیوں سے چشم پوشی صحیح نہیں ہے جب ہم دوسروں کا محاسبہ کررہے ہوں اوربیچ میں دوستی اورتعلقات وغیرہ کا لحاظ نہ ہو تو کس طرح سختی کرتے ہیں، چشم پوشی سے کام نہیں لیتے اورپوائنٹ ڈھونڈھتے ہیں اپنے سلسلہ میں بھی ہمیں یہی رویہ اختیار کرنا چاہئے دعاہے کہ خداوند متعال ہمیں، آپ کو اور ملک کےتمام ذمہ داروں کو خود کو دیکھنے والی چشم بصیرعنایت کرے ہمیں عمل اورعزم وارادہ کی روز بروز مزید طاقت دے " قوّ علی خدمتک جوارحی واشدد علی العزیمۃ جوانحی"
تین سال گذر چکے ہیں تین سال جیسا کہ حدادعادل صاحب نے حقیرکی زبانی کہا کہ یہ کوئی مختصروقت نہیں تھا لیکن یہی لمبے وقت پلک جھپکنے میں گذرجاتے اورختم ہوجاتے ہیں انسان جب آنکھ کھولتا ہے تودیکھتا ہے کہ "گذرچکا" پوری عمرایسے ہی گذرجاتی ہے جب انسان ستر سال یا ستر سال سے اوپر کا ہوجاتا ہے(آپ کی تواکثریت ماشا اللہ جوان ہے) تو دیکھتا ہے کہ پلک جھپکنے میں سب کچھ گذرچکا ہے اوراتنے لمبے راستہ سے وہ گذرچکا ہے۔ یہ ایک سال بھی پلک جھپکنے میں ہی گذرجائے گا ہمارے لئے باقی وہی رہے گا جو ہم اس ایک سال میں کریں گے جس طرح الگ الگ حرفوں سے جدول بھرتے ہیں تا کہ ایک صحیح جملہ بن جائے اسی طرح یہ ایک سال بھی جدول ہے اس جدول کے خانوں میں جو کچھ بھریں گے وہی باقی رہے گا ایک ایک چیز ہمیں دیکھنا ہوگی کہ اس مدت میں ہم کیا کریں گے؟ کیسے کریں گے؟ کس مقصد کے تحت کریں گے؟ کس رخ سے کریں گے؟ ہمیں پہلے سے پتہ ہونا چاہئے کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں؟اورکیوں کرنا چاہتے ہیں؟ لازمی تدبیریں کیجئے ایک سال بھی کوئی کم وقت نہیں ہے بہت ہے ایک سال میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے اس کے بارے میں بعد میں عرض کروں گا۔
ہم کچھ عرصہ پارلیمنٹ میں رہے ہیں اورسب دیکھتے رہے ہیں باہر سے بھی ہم مختلف ادوار کی پارلیمنٹ کا نزدیک سے مشاہدہ کرتے اورنمائندوں کے ساتھ رابطہ میں رہے ہیں لہذا اس لحاظ سے موجودہ پارلیمنٹ سے متعلق یہ حقیر جوکہہ سکتا ہے اور جو کچھ اس کے بارے میں مجموعی طور پر ذہن میں ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ اچھی ہے اسے پارلیمنٹ کا ایک اچھا دور شمار کیا جا رہا ہے اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ ایک نامناسب ماحول میں تشکیل پائی (اس کی بقیہ عمومی خصوصیات اورخدوخال کا بعد میں تذکرہ کروں گا) ایسے ہی جیسے سنگلاخ چٹان میں سے گھاس یا درخت اگ آتا ہے "الاوان الشجرۃ البریۃ اصلب عوداً وابقی وقوداً" پتھر پہ جو درخت اگتا ہے وہ زیادہ مضبوط بھی ہوتا ہے اور جب اسے جلاتے ہیں تواس کی آگ کا اثر بھی دیر تک رہتا ہے آپ کی پارلیمنٹ اس قسم کی ہے۔
اس پارلیمنٹ کی تشکیل سے قبل بعض غافل افراد کچھ ایسے کام کررہے تھے جیسے الیکش بائیکاٹ، نمائندوں کا استعفاء، پارلیمنٹ میں پارلیمنٹ کے خلاف ہڑتال وغیرہ جن کی وجہ سےایک عجیب اوربری فضا بنی ہوئی تھی پارلیمنٹ سے اٹھنے والی عمومی آوازنظام کے بہت سے بنیادی اصولوں سے متضاد تھی ایسے ماحول میں یہ پارلیمنٹ وجود میں آئی۔
اس کا مطلب کیا ہوا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پارلیمنٹ کو فرد واحد تعینات نہیں کرتا بلکہ اسے عوام منتخب کرتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کے دل اسی چیز کی خاطر تڑپتے ہیں جس کے خاتمہ کے کچھ لوگوں نے منصوبے بنا لئے تھے اس قوم کا دل اسلامی اصولوں کے لئے تڑپتا ہے ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ قوم کی ایک ایک فرد اول درجہ کی مقدس شخصیت ہے لیکن یہ دعوی ضرور کرنا چاہیں گے کہ جوعملی اعتبارسے اول درجہ کے مقدس نہیں ہیں وہ بھی اسلام، اسلامی اقدار اوران قدروں کی اہمیت کے قائل ہیں جو انقلاب نے اس ملک کو دی ہیں کیونکہ ان کا مزہ چکھ چکے ہیں اس قوم کا ذہن اس دور کو کیسے بھول سکتا ہے جب یہ عظیم ملک اور یہ تاریخی قوم سامراجی طاقتوں اورصہیونیوں کے ہاتھ کا کھلونا بنی ہوئی تھی وہ اس ملک کے اقتصاد، ثقافت، یہاں کے عوام کی زندگی، عقائد، لباس اوران کےدلوں سے کھیلنا چاہتے تھے اس قوم کی اس سے زیادہ توہین تصور نہیں کی جاسکتی تھی غربت تھی، امتیازی سلوک تھا، داداگیری تھی ظلم تھا اوراس سب کے ساتھ ساتھ مقدسات کی توہین کی جارہی تھی، ہرچیز کا رخ اسلام قرآن اوردین سے متضاد تھا مردوعورت کو جنسی بے راہ روی کی طرف کھینچا جا رہا تھا یہ قوم اس دور کو فراموش نہیں کرسکتی یہ بھی فرض کرلیں کہ قوم کی اکثریت نے اس دورکواپنے ہاتھوں سے لمس نہیں کیا ہے چونکہ اکثریت جوان ہے اوروہ دور ہم نے دیکھا تھا تب بھی کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو قوم کے ذہن میں محفوظ رہ جاتی ہیں اوران کی آغوش میں قوم کی فہم وبصیرت اوراس کے اصول پروان چڑھاکرتے ہیں لوگ ایسے اصولوں کو دل سے چاہتے ہیں۔
توعوام کی انہیں خواہشات نے موجودہ پارلیمنٹ کو جنم دیا ہے آپ نے بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران اقدار کی پابندی، جنسی بے راہ روی سے جنگ، غریب طبقہ کے لئے کام، قومی عزت واستقلال کی حفاظت کی کوشش اور اسلامی اصولوں کو اپنا منشوربنایا جس کا لوگوں نے استقبال کرتے ہوئے آپ کو ووٹ دیا اوریہ پارلیمنٹ وجود میں آگئی قوم کا یہ انتخاب ملک کی تاریخ میں ایک اہم موڑبن جائے گا تاریخ بے رحم ہوا کرتی ہے آئندہ نسلیں تاریخ پڑھ کے یہ نظریہ قائم کریں گی کہ ملک کی تاریخ میں یہ بہت ہی حساس اوراہم موڑتھا آپ کی پارلیمنٹ کی حقیقت یہ ہے۔
انصاف کی بات یہ ہے کہ اسی حقیقت اوراسی انتخابی منشورکے تحت بہت ہی بنیادی اوراہم قدم اٹھائے گئے ہیں آپ کے دوست موجودہ پارلیمنٹ کےحامی یادشمن کوئی بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا پارلیمنٹ نے ثابت کیا کہ وہ سماج کے کمزورطبقات کے مسائل کو اہمیت دے رہی ہے، اس کے لئے سہولیات سے محروم فقیر اورکمزور طبقہ کے لوگوں کی مشکلات کا حل ہی بنیادی مسئلہ ہے آپ نے اس پر توجہ دی، کہتے بھی رہے اوربہت سے قوانین میں بھی یہ چیز نظر آئی جوکہ بہت ہی اہم اوراچھی بات ہے۔
ملک میں ایک عظیم اقتصادی تحریک کی داغ بیل ڈالنے کی بنیادی آئین کی دفعہ چوالیس کی پالیسیوں کے باب میں پارلیمنٹ کا جواب اچھا تھا۔
خصوصی کمیشن تشکیل دیا گیا جس کی طرف اشارہ کیا گيا اورجواچھی طرح کام کررہا ہے البتہ پارلیمنٹ کے سبھی نمائندوں کو اس کی پشتپناہی کرنا چاہئے صرف کمیشن کے ممبران کی کوششیں ناکافی ہیں آگے بڑھئے اورایسا محکم ومضبوط قانون پاس کرا لیجئے تاکہ آپ کا یہ کارنامہ ملک کے لئے یادگار بن جائے۔
موجودہ پارلیمان کی ایک واضح خصوصیت بین الاقوامی معاملات اوراستکبارکے مقابلہ میں اسکا مضبوط اوراصولی موقف ہے۔ کتنی بری بات ہے کہ قوم کے اہداف اوراس کےاصولوں کے مخالف دشمنوں کویکبارگی ملکی انتظامیہ کے اندرسے ہری جھنڈی دکھائی جائے تویہ کتنے شرم کی بات ہے؟ کتنی سبکی محسوس ہوتی ہے؟۔
امریکی مداخلت کے جواب میں ہماری منطق کوئی کمزورمنطق نہیں ہے یہ ایسی منطق ہے کہ اگرساری اقوام عالم پر واضح ہوجائے تودل وجان سے اسے قبول کرلیں گی ہم نہ زورزبردستی چلاتے اورنہ غیرمعمولی بات کرتے ہیں ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک ملک اورایک قوم، پوری دنیامیں تسلط پسند ، جارح اورمطلق العنان حکومت کواپنے وسائل اپنے انسانی وسائل سے چھیڑچھاڑکرنے کی اجازت نہیں دینا چاہتی وہ نہیں چاہتی کہ یہ طاقت اس کی سیاست کا تعین کرے اوراس سے اختیارات چھین لے۔ کہتے ہیں یہ کرو یہ نہ کرو، یہ فروخت کرو وہ خریدو، تمہاری حکومت فلاں بات مان لے فلاں نہ مانے یہی کام اس وقت امریکہ دنیا میں کئی جگہ کررہا ہے سابق سوویت یونین کے متصرفہ علاقوں میں مستقل یہی کرتے رہے ہیں، مشرق وسطی میں دسیوں سال سے یہی کررہے ہیں ایشیا اوردیگرکئی ممالک میں ان کی یہی حرکتیں ہیں ایران نے کہا ہم تمہیں اپنے امورمیں مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ہم اپنے فیصلے خود کرناچاہتے ہیں توکیا یہ بری بات ہے؟ ایرانی قوم استکبارکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے صاف صاف کہتی ہے کہ تم اگر انسانی حقوق کی بات کرتے ہوتوعراق، افغانستان، افریقہ کوسوو اورخود امریکہ میں اتنا کھلم کھلا انسانی حقوق پامال کیوں کررہے ہو؟ یہ ایسی بات نہیں ہے جسے دوسری قومیں نہ سمجھ رہی ہوں۔
آپ ملاحظہ کیجئے کہ ہمارے ملک کے حکام، صدر یا دوسرے اعلی سطحی حکام میں سے کوئی کسی ملک کا دورہ کرتا ہے تواگراسے یونیورسٹی، پڑھے لکھے لوگوں اورعام لوگوں کے درمیان جانے اوربات کرنے کا موقع ملے تولوگ دل کی گہرائیوں سے ان کا استقبال کرتے ہیں ایسا کیوں ہے؟ اس سے پہلے بھی ایسا ہی ہواکرتا تھا حقیرکا پاکستان کا دورہ، ہاشمی صاحب کا افریقہ کا دورہ اورخاتمی صاحب کا بعض دوسرے علاقوں کا دورہ( اس کی مثا ل ہے) ہمارے موجودہ صدرجمہوریہ جب کسی اسلامی ملک میں جاتے ہیں تواگروہاں لوگوں کوموقع ملے اورانہیں اجازت ہو تو آپ کی زبانی سنے آپ کے دوٹوک موقف کی بنا پرآپ کا بےحد گرم جوشی سے استقبال کرتے ہیں اس کا مطلب یہ ہواکہ اقوام عالم خاص طورپرعالم اسلام کو یہ باتیں پسند ہیں۔
اب ہم ایک حکومت، ایک قوم اورایک ملک کے بطوردنیا کے کسی گوشہ کی مسلح یا غیرمسلح معترض جماعت بن کرنہیں بلکہ حکومتی سطح پرثابت قدمی سے یہ باتیں کہہ رہے ہیں اورپوری دنیا ہماری استقامت کی داد دے رہی ہے تو ایسے میں یکبارگی ہمارے محاذ خاص طورنظام چلانے والے خیموں سے(دشمنوں کو) اشارہ دیا جائے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں!(توکتنی شرم کی بات ہے) " یا ایھا الذین آمنوالاتتخذواعدوی وعدوکم اولیاء ۔ ۔ ۔ تسرون الیھم بالمودۃ"۔
اس پارلیمنٹ نے قانون سازیہ کے اعلی ارفع اسٹیج سے کھڑے ہوکرہرمعاملہ اورہرنشیب وفراز میں اپنے استکبار مخالف موقف کا منطقی انداز میں پوری وضاحت سے صاف صاف اعلان کیا ہے ان کی گفتارورفتارپرمنطق واستدلال حاکم ہے یہ بہت ہی عمدہ بات ہے اس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی آپ کے دوست بھی یہ مانتے ہیں اورآپ کے دشمنوں کوبھی اس کا اعتراف ہے یہ بھی آپ کے لئے بنیادی طورسے قابل فخربات ہے۔ جب اپنا محاسبہ کیجئے تواس بات پر خدا کا شکربجا لائیے۔
گذشتہ تین سالوں میں اس پارلیمنٹ کا ایک اور امتیازجوانشا اللہ باقی بچے ایک سال میں بھی باقی رہے گا یہ ہے کہ یہ پارلیمنٹ سیاسی کشیدگی اوراختلافی بحثوں سے دوررہی ہے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان جب بھی پارلیمنٹ کی کاروائی سننے کے لئے ریڈیو کھولے تو لڑائی جھگڑے اورالزام تراشی کے علاوہ کچھ سنائی ہی نہیں دیتا اس پارلیمنٹ کا کرداراس ضمن میں اچھا اورقابل قبول رہا ہے البتہ کچھ ایک باتیں پارلیمنٹ میں ویسی بھی کہی گئی ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کروں گا لیکن مجموعی طورپراس پارلیمنٹ میں کھینچا تانی نہیں رہی ہے اندرونی طورسے یہ اچھی رہی ہے دیگر خصوصیات کا ڈاکٹرحدادعادل صاحب نے ذکر کردیا ہے اوراپنی سرگرمیوں اورکارناموں کا ذکربھی کیا ہے۔
عزیز بھائیو اوربہنو! آخری سال امتحان کا سال ہے میں نےموجودہ پارلیمنٹ کی شروعات میں ہی کہہ دیا تھا اور اس سے پہلے بھی کہتا رہا ہوں کہ کسی علاقہ کا نمائندہ مستقل صرف اسی علاقہ پرتوجہ مبذول کرانے کی کوشش میں نہ لگا رہے پارلیمنٹ ممبر کا یہ کام ہی نہیں ہے ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ ہم مثلاً فلاں شہر یا فلاں صوبہ کے نمائندہ ہیں توہمیں اس شہریا اس صوبہ کوہمیشہ ترجیح دینا چاہئیے ایسا اگر ہوگا توغیر منظم اورغلط رقابتیں شروع ہوجائیں گے جن کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے صحیح ہے کہ آپ ملک کے فلاں حصہ سے منتخب ہوکر آئے ہیں لیکن آپ صرف اسی علاقہ کے نہیں بلکہ پوری قوم کے نمائندہ ہیں آپ کا کام قانون سازی ہے اپنے حلقہ کے لئے سہولیات اورتعمیراتی امداد کا حصول نہیں! آئین کوبھی مد نظررکھئے آپ قانون بنائیے لیکن ایسا مضبوط اوراچھا قانون بنائیے کہ اس کے فوائد آپ کے علاقہ کو بھی نصیب ہوں۔ آخری سال میں اس طرح کی چیزوں میں شدت آجاتی ہے میں بغیرکسی رورعایت کے آپ سے عرض کردوں کہ محتاط رہئیے توآخری سال امتحان الہی کا سال ہے ہمیشہ ایسا ہی رہا ہے اب بھی یہی صوتحال ہے لہذا محتاط رہئیے۔
آپ کو ایک سال اور پارلیمنٹ میں رہ کے عوامی خدمت کا موقع ملے گا ایک سال بھی اہم موقع ہے اس بات کے مدنظراس عرصہ میں ہمارے خیال سے جو ہونا چاہئے وہ یہ ہے کہ دیکھئے کہ ترجیحات کیا کیا ہیں اس کے بعد پوری سنجیدگی سے ان کی انجام دہی میں لگ جائیے کچھ عرصہ پہلے محترم اسپیکر نے پندرہ سولہ نکاتی فہرست میرے حوالہ کی تھی اچھی تھی لیکن حقیرنہ کچھ معین کرے گا اور نہ کسی چیز کو ترجیح دے گا آپ خود دیکھئے ملک میں جواہم اوربنیادی یا فوری ضروریات ہیں یا بہت زیادہ بنیادی نہیں لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر فوری ہیں ان کا انتخاب کرکے ذاتی مسائل جو کسی کے بھی سامنے آسکتے ہیں حزبی اورذاتی مسائل وغیرہ انہیں خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان ضروریات کو پورا کرنے میں لگ جائیے اس طرح یہ سال بھی بابرکت قرار پا سکتا ہے۔
البتہ آپ کے اہم اوربنیادی خطوط جنہیں آپ کی خصوصیات کے بطور عرض کرنا لازمی ہے ان میں سے ایک جوہری معاملہ میں آپ کا دوٹوک موقف ہے یہ بھی آپ کی واضح خصوصیت ہے آپ نے بہت اچھا کیاجو حکومت کو ثابت قدمی پرملزم کیا یہی صحیح تھا حکومت خود مشتاق اورپیش قدم تھی یہ ملک کے موجودہ وآئندہ مفادات کے عین مطابق ہے کم آمدنی والے کمزور طبقات پر بھی پہلے کی طرح توجہ دیتے رہئیے۔
ہم نے جو کہا کہ آپ بنیادی کاموں کو ترجیح دیجئیے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے انہیں کاموں میں کچھ بنیادی نکات ہیں ان پر بھی توجہ دیجئے مثلاً ایک بار امام (رہ)نے اسلامی پارلیمنٹ نمائندوں سے کہا تھا کہ یہ صحیح ہے کہ آپ جو بھی قانون پاس کریں گے وہ نگراں کونسل کے پاس جائے گا اوراگرآئین سے متصادم ہوا تو وہاں سے مسترد ہو جائے گا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس مسودہ کے بارے میں آپ کو علم ہے کہ یہ آئین کے برخلاف ہے اسے بھی پاس کرکے وہاں بھیج دیجئے اوروہ مسترد کردیں اورپھر تشخیص مصلحت کونسل کے پاس جائے وغیرہ وغیرہ نہیں ایسا نہ کیجئے اس سے پارلیمنٹ کا وقت برباد ہوگا آئین سے کھلم کھلا متصادم مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کرنا یا اجرائی امورمیں مداخلت اسی قسم میں سے ہے۔
حکومت اورپالیمنٹ کے درمیان اچھا تال میل ہے مجھے پتہ ہے کہ ان کے درمیان کیسے تعلقات ہیں مجموعی اورکلی اہداف ومقاصد دونوں کے یکساں ہیں ہاں سلیقہ اورانداز اپنا اپنا ہوسکتا ہے الگ الگ سلیقہ میں بھی بہرحال ایک فریق کو چھوٹا بننا پڑے گا تاکہ معاملات حتمی شکل اختیار کریں بنیادی مصلحت کے پیش نظر میں یہ آپ سے عرض کردوں کہ حکومت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کے چلئے ملکی ادارت وانتظام کے سلسلہ میں حکومت کا طریقہ کارہرمنصوبہ میں صحیح ہے حکومت کا پارلیمنٹ یا بعض دیگرممتازیا دوسرےافراد سے نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے نظریاتی اختلاف کے سلسلہ میں کوئی بھی شخص یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ حق ہمیشہ ایک ہی طرف ہے ممکن ہے حق کبھی ایک طرف ہوتوکبھی دوسری طرف لیکن یہ اس بات کا سبب نہیں بننا چاہئے کہ انقلابی بنیادوں پر کاربند پوری شدومد سے کام اورخدمت میں مشغول محنتی اور اصول پسند حکومت کمزورکردی جائے اس پر دھیان رکھئے۔
ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ تنقید نہ کیجئے تنقید دوطرح کی ہوتی ہے دردمندانہ تنقید کی پہچان یہ ہے کہ تنقید کرنے والا مثبت نکات بھی ذکر کرتا ہے تاکہ معلوم رہے کہ تنقید ذاتی مقاصد، انتقام اوراذیت پہنچانے کے مقصد سے نہیں ہورہی ہے ہمارے کسی ادارے میں مثبت نکات بھی ہوں اور منفی بھی ہم اس پر تنقید کرتے وقت اس کے مثبت نکات کا سرے سے تذکرہ نہ کریں اور منفی نکات کی فہرست گنوانا شروع کر دیں توظاہر سی بات ہے کہ وہ ادارہ کمزور ہوتا جائے گا اس بات کی پہچان کہ ادارہ کو کمزور کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے یہ ہے کہ ہم مثبت نکات بھی بیان کریں اوراگرکوئی اعتراض بھی ہے تو اسے بیان کریں اس میں نہ کوئی حرج ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مخالف!
حکومت اورپارلیمنٹ میں تفاہم اس دور کی ایک برکت ہے دشمن پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں یہ میں آپ سے عرض کردوں کہ کچھ لوگ حکومت اور پارلیمنٹ کی آپسی مفاہمت کے مخالف ہیں شروع سے ہی کہتے پھررہے ہیں کہ ان لوگوں نے حکومت اورپارلیمنٹ کو ایک کردیا ہے درحالیکہ اس اتحاد میں کسی کا ہاتھ نہیں ہے یہ تو خود قوم نے کیا ہے پہلے جس طرح کے صدرکاانتخاب کیا بعد میں اسی طرح کے پارلیمنٹ نمائندوں کا بھی انتخاب کردیا تو یہ ایک ہو گئے اب کیا کیا جائے؟ یہ تفاہم کوئی بری چیز نہیں اچھی چیز ہے اس طرح یہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرکے اپنے مشترکہ اہداف حاصل کرسکتے ہیں۔
اس بات پر توجہ رکھئیےجو بیانات آپ زبان پر جاری کرتے ہیں یا کوئی یاددہانی کراناچاہتے، حکومت پرنگرانی ہو یا کسی سے کوئی سوال کرنا ہو، یاددہانی ہویا وضاحت طلبی! اس سب میں ہم یہ خیال رکھیں کہ دشمن اس سے کوئی غلط پیغام نہ لے لے، اس لئے کہ بعض اوقات ہمارا ارادہ غلط نہیں ہوتا لیکن ہماری گفتگو کے انداز سے مد مقابل کواشتباہ ہوجاتا ہے وہ سوچنے لگتا ہے کہ ان لوگوں میں کچھ اس کے حامی بھی ہیں اس طرح اس کی تشویق ہوجاتی ہے اوراس کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں محتاط رہئے کہ کہیں دشمن کے حوصلے بلند نہ ہوجائیں۔
بہرحال تین سال گذرجانے کے بعد ہم آپ سے یہی کہہ سکتے ہیں کہ "آپ کے حوصلے بلند رہیں" خداآپ کی مدد کرے تاکہ آپ لغزشوں سے بچتے ہوئے اسی صراط مستقیم پر گامزن رہیں اورلغزش قدم کے سلسلہ میں محتاط رہیں روایات میں موجود ہے کہ شک والی جگہوں پرجانے سےبھی پرہیز کیجئے اس لئے کہ شک والی جگہ کے پاس جانے سے پھسل کرحد پارکرجانے کا خطرہ ہے اسی لئے ہماری دعا ہے کہ خداوند متعال آپ کی تائیدو نصرت فرمائے، آپ کو توفیق دے اورآپ کی مدد فرمائے تاکہ اس دور کے اختتام پرآپ کے ہاتھوں میں بارگاہ ایزدی میں پیش کرنے کے قابل نامہ اعمال موجود ہو۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ