بسم اللہ الرحمن الرحیم
لازم ہے کہ سب سے پہلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائیہ کے تمام اہلکاروں و کارکنوں اور ملت ایران کو اس عظیم دن کی منسبت سے مبارکباد پیش کروں۔
بلا شبہ 19 بہمن 1375 ہجری شمسی مطابق (دو فروری سنہ ۱۹۷۹ء )کے دن رونما ہونے والا واقعہ ایک اہم موڑ تھا فضائیہ کے بعض اراکین نے والہانہ انداز میں طاغوتی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ۔ فضائیہ کے ان اراکین کا یہ انداز انکے احساسات اور ذہنی کیفیات کا غماز تھا اور انکا یہ عمل بہادری اور ہوش دونوں سے مملو تھا ۔ بروقت رونما ہونے والے اس طرح کے واقعات ممکن ہےایک قوم کی تقدیر بدل دیں یایہ کہ اپنی تقدیرکی جانب بڑھ رہی قوم کی رفتار دو چنداں کر دیں، اس دن فضائیہ نے یہی کارنامہ انجام دیا یہ ایک عظیم کارنامہ تھا جس نے بہت سارے لوگوں کے لئے راستہ ہموارکردیا۔ جوخوبصورت ترانہ ان عزیزوں نےابھی پڑھا ہے " اولینم کہ دل دادم بہ رہبر" (رہبر کو دل دینے والا سب سے پہلا میں ہوں) حقیقت یہی تھی۔ اس عمل کی جڑیں پہلے سے موجود تھیں ایسا نہیں ہے کہ آج طے کریں اور کل چل پڑیں بلکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ نتیجہ تھا فضائیہ کےاندر ابھر رہے احساسات اور ذہنی کیفیات کا یعنی جب مناسب وقت آیا تواس طرح سے یہ احساسات اور ذہنی کیفیات سامنے آ گئیں لہذا آج کا دن اہم اور نہایت مبارک دن ہے۔
بنیادی طورسے تاریخی واقعات دہرانے کا مقصد ان واقعات میں چھپے اسباق اور عبرتیں آنے والی نسلوں تک منتقل کرناہےاس واقعہ سے ملنے والا سبق ہر دور میں زندہ ہےچونکہ یہ شجاعت، ہمت اورخوداعتمادی ، ایمانی جوش و ولولےاور صحیح عقلانیت پرمبنی قدم تھا اگر ایمان نہ ہوتا تو یہ عمل انجام نہیں پا سکتا تھا اور ہمارا پورا انقلاب آغاز سے انجام تک اسی حقیقت کا مظہر ہے ایک صحیح اور باہوش فکرجو جوش ایمان سے سرشار ، شجاعت و ہمت کے ہمراہ اور اس راہ میں پیش آنے والے ہر اقدام سے بے خوف ہو توکسی بھی قوم کی سربلندی کے یہی اصلی عناصرہوتےہیں اوران چیزوں کا فقدان ہی کسی قوم کی ذلت کا باعث بنتا ہے۔
ایرانی قوم نےطاغوت کے دور میں ایک کٹھن وقت گذارا ہے اس قوم کی ماضی کی تاریخ عزت و سرافرازی سے درخشاں ہونے کے با وجود غیر ملکی کے ذریعہ اس کی تذلیل کی جاتی تھی نچلی سطح سے لے کر اعلی سطح کے ملکی حکام کی توہین کی جاتی تھی معاشرہ کے ممتاز افرادکی توہین کی جاتی تھی وہ لوگ توہین کرتے تھے جو خودکو ان باتوں سے بالا تر سجھتے تھے اورایران کو ایک کھیت سمجھتے تھےجہاں ہل چلائیں، لوٹ مار مچائیں، فصل کو اکٹھا کریں اورپھرلوٹ کے واپس چلے جائیں ملت ایران اس کے مقابلہ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔
اغیار کی طرف سے اس قوم پرروا رکھی گئی تذلیل و تحقیر کی جگہ انقلاب نے اسے عزت بخشی، تلخ و ذلت آمیز وابستگی کی جگہ استقلال و آزادی عطا کی، اغیار کے سامنے سر تسلیم خم کرنےکی جگہ استقامت وپائداری سے نوازا، اس دور میں ہمارے اس بڑے ملک کے نچلی سطح سے لے کر اعلی سطح کے حکام ملک کے بنیادی مسائل میں بھی اغیار کے آگے سر تسلیم خم کرتےتھے یعنی ملک کے اندر وہی ہوتا تھا جو اغیار" کچھ دہائیوں تک برطانیہ اورپھر امریکہ" چاہتے تھے جہاں تک حکام کے ہاتھ میں تھا اور جہاں تک قوم مجبوراً برداشت کررہی تھی اغیار کے سامنے سرخم تھا انقلاب اسلامی نے اس سراپا تسلیم کی کیفیت کو اقتدارو استقامت میں بدل دیا، وابستگی کو استقلال میں بدل دیا، ذلت کو عزت میں بدل دیا، بے بنیاد غیر منطقی مطلق العنان موروثی حکومت کو عوامی حکومت میں بدل دیا ،چند سالوں کےاندر جو طاغوتی حکومت کے ذریعہ انسانی اقدار پامال کرنےوالے مراکز بنائے گئے تھے انقلاب نے آ کر ان سب کو ختم کر دیا اور انکی جگہ ایسے مراکز قائم کئے جن کے ذریعہ ملک کی ایک نئی شناخت وجود میں آ گئی۔
فوج کو بھی ایک نئی شناخت مل گئی آج کی فوج طاغوتی دور کی فوج سے پوری طرح مختلف ہے آج آپ عوامی مفادات کے محافظ ہیں اس وقت فوج کی ڈیوٹی تھی طاغوتی حکومت اور اس سے وابستہ ملک پر حاکم پلیدافرادکے مفادات کا تحفط ، اس وقت آپ دشمن کے سامنے احساس عزت کرتےہیں خود سیکھتے ہیں ،خود بناتے ہیں ،خود تحقیق کرتے ہیں، اس وقت فوج کوجو دیا جاتا تھا آنکھیں بند کرکے قبول کرنے پر مجبور تھی تو اس راہ پر جب کوئی قوم چل نکلتی ہے تو ترقی کی بلندیاں چھوتی ہے ایرانی قوم نے یہ راستہ ڈھونڈھا اور اس پر گامزن ہوگئی ، ہم نے سرمایہ بھی لگایا ہماری قوم پہلے بھی جانتی تھی اور اب بھی جانتی ہے کہ اسے اپنے اہداف تک رسائی کے لئے سرمایہ لگانا پڑے گا سرمایہ لگائے بنا ترقی ہو بھی نہیں سکتی ہم نے سرمایہ لگایا اور خدا کی توفیق سے آگے بڑھے۔
اس وقت ملت ایران با عزت ہے دوسروں کو راہ دکھاتی ہے اسلامی جمہوری نظام ایک باعزت نطام سمجھا جاتا ہے مختلف ممالک مختلف علاقائی وغیرعلاقائی طاقتیں اعتراف پر مجبور ہیں اور ایرانی قوم کی عظمت کا اعتراف کر رہی ہیں ہماری قوم نے ہر میدان میں اپنی طاقت و توانائی کا مظاہرہ کیا ہے اور ہمیں اس چیز کی قدرکرنا چاہیے۔
آپ عزیزجوان جوفضائیہ میں مصروف عمل ہیں آپ بھی اپنے کام میں انہیں چیزوں کو مد نظر رکھئیے اور انہیں چیزوں کے حصول کی کوشش کیجئے فضائیہ کو ترقی کرنا چاہئے جو عزت ملی ہےاسمیں اور اضافہ کیا جانا چاہئےمقدس دفاع کے دوران فضائیہ نےاچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس کے بعد بھی اس نے کئی کارنامے انجام دئے ہیں اسی سلسلہ کو آگے بڑھاتے رہئے ترقی کا راستہ کہیں ختم نہیں ہوتا اس پر کیسے چلنا ہے یہ فضائیہ میں مختلف عہدوں پر فائز آپ جوانوں کےحوصلوں پر منحصر ہے مستقبل آپکا ہے، ملک آپ کا ہے، فضائیہ آپ کارکنوں کی ہے آپ کی ترقی قوم و ملک کی ترقی ہے اپنے آپ کو مضبوط کیجئے مضبوطی کیلئے صرف مادی وسائل ہی کافی نہیں ہیں اپنی ایمانی طاقت اورترقی کے ارادہ وعزم راسخ کی طاقت میں اضافہ کیجئے یہ چیزیں اپنے اندر مضبوط کیجئے اور پھر آگے بڑھتے رہئے۔
خوش قسمتی سے اس سلسلہ میںقوم سنجیدہ ہے مختلف طریقوں سے قوم کے ارادے توڑنے کی بڑی کوششیں کی گئیں لیکن کامیابی نہ مل سکی اہم اور خوش آیند بات یہ ہے کہ ہم ان اٹھائیس ،انتیس سالوں میں بغیر کہیں رکے آگے بڑھتے آئے ہیں تمام سیاسی جلوے، تحریکیں اور ذمہ داریاں مجموعی طور پر ایرانی قوم کو ترقی دلاتی آئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا دشمن اس سلسلہ کو روکنے کی بڑی کوششیں کر رہا ہےلیکن نہ ابتک کامیاب ہوا ہے اور نہ کبھی کامیاب ہوگا اب وہ اس بات کا اعتراف بھی کر رہے ہیں عالمی خبریں ملاحظہ کیجئے تو پتہ چلے گا کہ عالمی منصوبہ ساز مراکز، دنیا کی سیاسی محفلوں اورعالمی طاقت کے مراکز کے لب و لہجہ میں ایران کی ستائش نظر آرہی ہے البتہ بعض کے لب و لہجہ سے دشمنی و حسد اور کسی گوشے سے کسی کے لب و لہجہ میں ایران کے لئےفریفتگی اورخوشی بھی ساتھ ساتھ دکھائی دیتی ہےالبتہ یہ حکام اور سیاستدانوں کا حال ہے قومیں ملت ایران پر فریفتہ ہیں حکام جب مسلم یا بعض جگہوں پر غیر مسلم اقوام کے سامنے آتے ہیں توانہیں یہ شیفتگی و فریفتگی نظر آتی ہے یہ سب صرف ملت ایران کی ثابت قدمی کی وجہ سے ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ہماری قوم انقلاب کی یاد اسی لئے مناتی ہے تاکہ معلوم رہے کہ جس عزت بخش محرک نے انہیں اس قابل فخر راہ پر گامزن کیا ہے وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے گیارہ فروری(بائیس بہمن) کی عظيم ریلی آ رہی ہے آپ ملاحظہ کریں گے کہ ہماری عزیز قوم میں اس سال بھی گذشتہ سالوں کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ جوش و خروش" ہر سال گذشتہ سال سے زیادہ جوش و خروش دکھائی دیتا یے" دنیا والوں کو دکھائی دے گا گیارہ فروری کی ریلیوں میں عوام کی شرکت کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے یہ ایک عظیم چیز ہے دوسرے ممالک میں انقلابات اورقومی دنوں کی سالگرہ کا اپنے عزیز ملک کی ان عظيم ریلیوں سے موازنہ کیجئے ہمارےانقلاب کی سالگرہ ایک حکومتی خشک پروگرام نہیں ہوتا بلکہ سو فیصد ایک عوامی پروگرام ہوتا ہےشدید گرمی ہو یا سخت سردی، ہر طرح کے موسم میں جس جگہ بھی عوام کی شرکت ضروری ہوتی ہے وہاں یہ حاضر ہو جاتے ہیں اور گیارہ فروری کو ہر سال قوم اس موقع کو غنیمت سجھتے ہوئے میدان میں اترتی ہے اور اپنی بھر پور شرکت تمام دشمنون اور مخالفوں کو دکھاتی ہے یہ چیز پوری دنیا میں دیکھی جاتی ہے ممکن ہے ذرائع ابلاغ میں کچھ اورکہیں تعدادکم بتائیں لاکھوں کی تعداد کو میڈیا ہزاروں کی بتائے پروپیگنڈہ میں یہی ہوتا ہے لیکن جو لوگ سمجھنا چاہتے ہیں کہ ملت ایران کس حال میں ہے وہ سمجھ جاتے ہیں حقیقت دیکھ لیتے ہیں لوگوں کی موجودگی اور انقلاب اور اسکے عظیم اہداف سے انکی وابستگی کا احساس کر لیتے ہیں۔
گیارہ فروری کا دن اور اس دن کی ریلیاں عوامی طاقت، ایرانی قوم کے اقتدار، عوام کی موجودگی، اور قومی عزم و ارادہ کا مظہر ہیں مرد، خواتین ، جوان اوربوڑھے ہر حال میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ملک بھرمیں خود کو سامنے لا کر دکھاتے ہیں یہ بہت با عظمت قدم ہے۔
کچھ باتیں ملکی مسائل اورکچھ ان مسائل سے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں جن سےعالم اسلام اس وقت دوچار ہے ملکی مسائل میں سب سے اہم مسئلہ انتخابات کا ہے انتخابات نہایت حساس اور فیصلہ کن مرحلہ ہوا کرتا ہے آپ ملاحظہ کیجئے کہ جب بھی الیکشن ہوا ہے صدارتی الیکشن ہو یا پارلیمانی یا کوئی اورانتخابات ہوں ،عالمی استکبار کی پروپیگنڈہ مشینری ہمیشہ کوشاں رہی ہے کہ عوام کم تعداد میں انتخابات میں حصہ لیں، ان کی ہمت اور حوصلہ پست ہو جائے انتخابات سے ان کی امیدیں ٹوٹ جائیں یا کم ہو جائیں، لیکن خدا کی فضل و کرم سے یہ لوگ کامیاب نہیں ہو سکے ہیں اس بات سے الیکشن کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے جو لوگ جمہوریت، عوامی حکومت، انسانی حقوق اور عوامی نظام حکوت کی باتیں کرتے اور اس بہانے سے دیگر ممالک پر لشکر کشی کر کے قتل و غارت گری مچاتے اور فتنہ وفساد پھیلاتے ہیںوہ ایرانی قوم کی عوامی حکومت کے سامنے خودکو ہارا ہوا تصور کر رہے ہیں یہ ان کے سامنے ایک ناقابل حل مسئلہ ہے سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ اس کے ساتھ کیا کریں اور کیا کہیں، کودتا سے تشکیل پانے والی حکومت کی حمایت کرتے ہیں، موروثیاور سلطنتی حکومتوں کا ساتھ دیتے ہیں جن ممالک میں عوامی ووٹ کبھی بھی فیصلہ کن نہیں رہا ہے وہاں حکومت تشکیل دینے میں تعاون کرتے ہیں تو اب جب ایرانی قوم آزادانہ طور سے قانون ساز، قانون نافذ کرنے والے اور دیگربنیادی عہدہداروں کا انتخاب کرتی ہے تو اس کے جواب میں کیا کہیں اور دنیا والوں کے سامنے کیا کریں تو مجبوراً یا یہ کہیں گے کہ آزادی نہیں تھی یا یہ کہ لوگوں نے شرکت نہیں کی یا اگر ہو سکے تو الیکشن ہی نہ ہونے دیں جیسا کہ ایک وقت میں بعض فریب خوردہ افراد کے ذریعہ انہوں نے کوشش کی کہ سرے سے الیکشن کی ہی چھٹی کردیں سرے سے الیکشن ہی نہ ہو لیکن خدا کے فضل سے وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکےلیکن ان کی کوشش ضرور تھی تو اس بات سے الیکشن کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
انتخابات میں اہم عوام کی بھر پور شرکت ہے سب انتخابات میں حصہ لیں یہ ایک قومی فرض ہے جو مختلف حکومتوں اورمختلف سیاسی رجحانات یاپارٹیوں کی وجہ سے ختم نہیں ہو جاتا ،انتخابات ایک ذمہ داری ہے اس میں سب کو شرکت کرنا چاہئے ضرورت ہےکہ انتخابات میں شرکت کوسب اپنی ذمہ داری سمجھیں ،بہانے نہ تراشے جائیں ،بعض باتیں محض بہانہ تراشی ہوتی ہیں کبھی کبھی بات بہانہ نہیں بلکہ اصل وجہ ہوتی ہے اور کبھی کبھی لوگوں کو مایوس کرنے کے لئے بہانے بنائے جاتے ہیں دنیا میں جہاں جہاں بھی انتخابات ہوتے ہیں ہمیں ان کی خبرہے دنیا کے انتخابات سے اگر ہم اپنے انتخابات کا موازنہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے الیکشن دنیا کے صاف ستھرے انتخابات کا حصہ ہیں ہمارے یہاں انتخابات سب سے اچھے ہوتے ہیں ۔
میں الیکشن حکام کو پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور پھر تاکید کر رہا ہوں کہ قانون پر سختی سے عمل کریں قانون ایک چار دیواری ہے سب کو قانون کا پابند ہونا چاہئےقوم و حکام کی حرکات و سکنات میں قانون حق و باطل کو الگ الگ کرنے والی لکیرہے قانون سے دوری نہیں ہونی چاہئے اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے بحمداللہ خیال رکھا جاتا ہے ہم اس لئے تاکید کر رہے ہیں کہ مزیدباریکی سے قانون پر عمل ہو تاکہ کسی پرظلم نہ ہو،کسی کا حق برباد نہ ہو اوراس کے ساتھ ساتھ لوگوں کا حق بھی ضائع نہ ہو، برے افراد کا تعارف نیک اور صالح افراد کے بطور نہ ہو اور نیک افراد بھی اپنے حق سے محروم نہ ہوں ،انہیں بھی برے اشخاص کے بطور متعارف نہ کرایا جائے ان باتوں کا سب کو خیال رکھنا چاہئے اصل انتخابات میں حصہ لینا ہے سب کو الیکشن میں شرکت کرنی چاہئے یہ سب کا فرض ہے۔
ابھی انتخابات میں کچھ وقت ہے اس سے پہلےمیں اپنی عزیز قوم سےاس سلسلہ میں مزید کچھ عرض کروں گا ابھی جو عرض کیا ہے وہ اس لئے کہ جو لوگ انتخابات کے بارے میں سوچ رہے ہیں، بیان دے رہے ہیں، منصوبے بنا رہے ہیں منصوبوں کا نفاذ کر رہے ہیں یا اس سلسلہ میں کوئی قدم اٹھا رہے ہیں تو وہ اس مسئلہ کی اہمیت مد نظر رکھ کر اپنا کام انجام دیں۔
عالم اسلام کے مسائل میں ہماری نظر میں اس وقت مسئلہ فلسطین اور غزہ کی مصیبت ایک عمومی مسئلہ ہے یہ مسئلہ صرف وہاں کے رہنے والوں سے مخصوص نہیں بلکہ عالم اسلام، مشرق وسطی اور ایک لحاظ سے تمام اقوام عالم سے مربوط ہے۔
مشرق وسطی سے متعلق امریکہ کے پاس ایک بالکل غلط اورظالمانہ پالیسی ہے جسکا واحدمقصد اس علاقہ میں امریکی مفادات کا حصول ہے اس علاقے میں رہنے والی اقوام اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کے مفادات پامال ہوتے رہیں انکی تذلیل ہوتی رہے قتل عام ہوتا رہے داغ اٹھاتے رہیں زندگی کی سختیاں انہیں توڑ کر رکھ دیں، اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے صرف اس لئے کہ امریکہ اپنے مفادات حاصل کرتا رہے مشرق وسطی سے متعلق امریکی پالیسی کی یہی بنیادہےاور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ عوام و حکام دونوں ہی یہ جانتے ہیں لیکن کبھی کبھی جوچیزمحسوس ہوتی ہےوہ یہ ہے کہ اس پالیسی کے مقابلہ میں جو طریقہ اختیار کیا جانا چاہئے اس میں کوتاہی ہو رہی ہے۔
غزہ و فلسطین کےلوگوں کا اپنی پوری طاقت سے مقابلہ میں کھڑےرہنا لائق تحسین ہےایک طرف سے سخت اقتصادی دباؤ، دوسری طرف سے حملے، قتل عام، مصیبتیں، انہدامی کاروائیاں اور بچوں وعورتوں پر فائرنگ ، تاہم یہ لوگ ثابت قدم ہیں دشمن کا مقصد عوام اور انکی منتخبہ حکومت کو ایک دوسرے سےالگ کرنا ہےاور اس مقصد تک پہنچنے کےلئےوہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں علاقہ کے بارے میں ذلت آمیز تاریخی کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور اس کا یہ نتیجہ نکل رہا ہے امریکہ اور غاصب صہیونیوں کے ساتھ بیٹھ کرعلاقہ کے بارے میں فیصلے کرنے کا یہی نتیجہ ہے۔ امریکی صدر آئے اور چلے گئےاور پھر غزہ کے بچے اور خواتین اس بھٹی میں جلنے لگے۔ یہ محاصرہ یہ قتل عام۔
اس علاقہ میں ان کا مقصد جب واضح ہے تو پھر ان سے مذاکرات کرنے کا کیا فائدہ؟ اسلامی حکومتیں کوئی فیصلہ لیں اور غزہ کے محاصرے کا خاتمہ کریں مصری حکومت اور عوام پراس سلسلہ میں سنگین ذمہ داری ہےدوسری مسلمان حکومتیں بھی اپنی ذمہ داری پرعمل کرتے ہوئےمصر کے ساتھ تعاون کریں۔
پندرہ لاکھ افراد کے لئے ایک بڑا قید خانہ بنا کر انہیں بھوک پیاس، ایندھن کے فقدان اور سخت سردی میں دردناک سزادی جارہی ہے اسرائيل نےفلسطینیوں کے کھیت، باغات ،تجارت سب برباد کرتے ہوئے ان پرہوائی و زمینی حملے شروع کررکھے ہیں ،کیا یہقابل برداشت ہے؟ غاصبوں اور صہیونیوں کو ان مظلوم لوگوں کے خلاف دوسرے فلسطینیوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہئےاگرایساہوگیاتویہ ذلت کا داغ کبھی انکی پیشانی سےمٹ نہیں پائے گااس سلسلہ میں انہیں عرب حکومتوں کا استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں دینا چاہئے۔
یہ ایک نہایت ہی اہم مسئلہ ہے۔
فلسطینی قوم نےجو راستہ اپنے لئے انتخاب کیا ہےوہی صحیح راستہ ہے یعنی مزاحمت ،استقامت اور مقابلہ کا راستہ ، فلسطینی قوم کواسی کے ذریعہ ایک دن نجات ملےگی۔
امید ہے کہ خداوند متعال ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں سے آشنا فرمائے۔ مسلم اقوام کی صحیح راستہ پر چلنے میں دستگیری ہدایت اور مدد فرمائے۔ اسلامی حکومتوں کو صحیح راستے کی ہدایت فرمائے۔ انشا اللہ ہمیں توفیق نصیب ہوکہ عالم اسلام کی مشکلات ہم مسلمان خود دور کریں اور آپسی ہمدردی، یکجہتی اور تعاون کےذریعہ دشمن کو ناکام بنا دیں ۔ امید ہے کہ خدا وند ہمارے عزیزشہدا کو صدر اسلام کے شہدا، پیغمبراسلام(ص) اور سیدالشہدا(علیہ السلام)کےساتھ محشور فرمائے! اور ہمارے عظیم امام (رہ)کو اپنے اولیا کے ساتھ محشور کرے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ