ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا قم کے بعض علماء اور عوام کے مختلف طبقات سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیزبھائیواوربہنو! خوش آمدید! آپ نےاس سردوبرفانی دن میں اتنی دورسے آکراپنے اس عمل اورآمدکےذریعہ نوجنوری( انیس دی)کے تاریخی دن کےلئےایک بارپھرعقیدت واحترام کااظہارکیاہے اور یہ دن اسی چیز کا سزاوار بھی ہے۔

عظیم تاریخی واقعات رونما ہونےکےلمحات دراصل تاریخ اقوام کی ترقی کا موجب بنتے ہیں۔ واقعہ عاشورا رونماہونےمیںصرف آدھا دن لگا تھا وہی واقعہ کہ جس نے تاریخ بدل کررکھ دی۔ کبھی کبھی کسی قوم کی زندگی میں کوئی اتناعمیق،منطقی اوربجا واقعہ پیش آجاتا ہےکہ اس کےاثرات سالہا سال اور کبھی کبھی صدیوں تک باقی رہتے ہیں. ایرانی قوم کی تاریخ میں 19 دی مطابق ۹ جنوری کے واقعہ کی یقیناً یہی حیثیت ہے۔ جب طاغوتی مشینری کے ظلم اوراغیارکی مداخلت کی مخالفت میں سالوں سے چلے آرہے عوامی احتجاج اورمقدس انقلابی غم وغصہ کا پیمانہ لبریز ہو چکا تواب ایک معقول اوربجا اقدام کی ضرورت تھی اور یہ کام آپ اہل قم نے ۹/ جنوری کو انجام دے ڈالا،جس سے یہ چرخہ پھر سے چلنےلگ گیا۔ طاغوت نےاپنےتاریک اور ذلت آمیز دورحکومت میں اس ملک و قوم پرجو ظلم ڈھائے ہیں وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔

انکے دردناک کارناموں کی ایک مثال۷/ جنوری کا وہ واقعہ ہے جو رضاشاہ کے دور میں پیش آیا اور وہ یہ تھا کہ اسلام اور ایران کے دشمنوں کے منصوبہ کے تحت ان لوگوں نے اس وقت کے درباری دانشوروں کے تعاون سے ایرانی خاتون کو پردہ اورعفت کے دائرہ سے باہر نکالنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ عورت کی عفت کے طفیل مسلمان معاشروں میں جو ایمانی طاقت ہمیشہ سے موجود ہے اسے نیست و نابود کر دیا جائے۔

سات جنوری کاواقعہ یعنی پردہ پر پابندی طاغوتی حکومت کا بہت بڑاجرم ہے اسلام نے سماج کی حفاظت اور مردوعورت دونوں کی سلامتی کےلئے ان کے درمیان حائل اور فاصلہ رکھا ہے اس فاصلہ کے خاتمہ کامقصد ایرانی مسلمان خاتون کو انہیں پریشانیوں میں مبتلا کرنا تھا جن میںمغربی معاشرہ کی عورت مبتلا ہے تو رضا خان نے اس ملک میں یہ قدم اٹھایا۔

مغربی عورت کی جنسی بے راہروی کا نتیجہ گھراورخاندان کی بربادی کی صورت میں نکلا، ایسا نہیں تھا کہ پردہ ہٹا دینے سے عورت سیاسی، علمی اور سماجی سرگرمیوںمیں آگے بڑھی ہو یہ تو پردہ کے ساتھ بھی ہو سکتا تھا ہم نے خوداسلامی نظام میں اس کا تجربہ کیا ہے، نہیں بلکہ پردہ کا خاتمہ اسلامی معاشرہ سے عفت و حیا کے خاتمہ کا مقدمہ تھا تاکہ لوگ جنسی خواہشات میں اسیرہوجائیں جو کہ نہایت قوی ہوتی ہیں اورباقی سب کچھ چھوڑ دیں ایک عرصہ تک وہ کامیاب بھی رہے لیکن ایرانی قوم کے عمیق ایمان نے مزید کامیاب نہیں ہونے دیا اس پوری مدت میں ہماری مسلمان خواتین تمام تر سختیوں کےبا وجود اس تباہ کن دباؤکی مزاحمت کرتی رہیں ۔ خودرضاخان کےدورمیں، اسکے جانے کے بعداور بقیہ طاغوتی دورمیں کسی نہ کسی طرح مزاحمت کرتی رہیں اوراسی جنوری کے مہینے میں یعنی ۷/ جنوری ۱۹۷۸ کو مشہد میں مومن خواتین کی ایک بڑی تعداد نے "پردہ کی حفاظت" کا نعرہ لگاتے ہوئےاحتجاج کیا۔ ہم اس وقت شہر بدر تھے ہمیں وہیں پتہ چلا کہ مسلمان، مومن اور بہادر خواتین نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے ۔ مذہبی اہداف، اخلاقی اقدار، اقتصادی ترقی اوربین الاقوامی عزت خاک میں ملا دینا طاغوتی حکومت کے مظالم کا ایک گوشہ ہے ۔ مختصر یہ کہ قوم کا کل سرمایہ برباد کردیناخبیث طاغوتی حکومت کی سرگرمیوں کا حصہ تھا۔

ایرانی قوم بروقت بیدارہوئی اوراپنےعظیم الشان رہبر و قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئےمیدان عمل میں وارد ہو گئی نوجنوری(انیس دی) کاواقعہ ایک حساس تاریخی موڑ ہے اسے زندہ وپائندہ رہنا چاہئے۔ اس سے قبل بھی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور اب بھی کی جا رہی ہیں کہ لوگ اپنے احساسات اوراس قسم کے حساس تاریخی مواقع بھلا بیٹھیں۔ اہل قم نے اپنی وفاداری اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا ہے اس دوران کچھ ایسے لوگ بھی سامنے آئے ہیں جو قرآن کی ان لفظون کے مصداق ہیں" فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ" یعنی انہوں نے اسلام انقلاب اور امام کے ساتھ کی ہوئی بیعت توڑ دی اور بیعت توڑنےمیں ان کا اپناہی نقصان ہوا لیکن کچھ لوگوں نے وفاداری کا ثبوت دیا ہےاورہماری قوم کی بھاری اکثریت انہیں افراد پر مشتمل ہے انہوں نے اپنے وعدے نبھائے اور خدا نے بھی انہیں اجر عظیم عطا کیا انہیں جنگ میں کامیابی دی، سپرپاور طاقتوں کےمد مقابل ہر میدان میں کامیابی عطا کی اوراس قوم کو خداوند متعال نے قومی سطح پر اور مختلف میدانوں میں ترقی سے سرافراز کیا۔

ایرانی قوم اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کی سمت رواں ہو گئی اس سلسلہ میں بڑے بڑے قدم اٹھائے اور آج بھی اسی سمت رواں دواں ہے یہ تھا نو جنوری سے متعلق! اوراب کچھ باتیں محرم اورواقعہ عاشورا سے متعلق:

محرم بھی ایک تاریخی موڑ ہے شیعوں نے اپنی پوری توانائیوںسے واقعہ عاشورا کی حفاظت کی ہے آپ ملاحظہ کیجئے کہ صدیاں اور سال گذر گئے ہیں لیکن کبھی بھی اہلبیت(ع) کے چاہنے اورماننے والے نام امام حسین(ع)، یاد امام حسین(ع)، تربت امام حسین (ع)اورعزائے امام حسین (ع)سے جدا نہیں ہوئے ہیں بہت کوششیں کی گئیں لیکن شیعوں نے کبھی ان چیزوں کو ترک نہیں کیا آپ نے سنا ہی ہوگا کہ متوکل نے راستہ بند کر دیا تھایہ مکارانہ کوششیں اور مخالفتیں تھیں اس قسم کی بے شمار کوششوں سےکوئی دورخالی نہیں رہا ہے، کہیں علمی انداز میں، کہیں احساساتی انداز میں، توکہیں سائنسی اندازمیں اس قسم کی کوششیں ہوتی رہی ہیں لیکن شیعوں نےعزاداری کومحفوظ رکھا ہے اورمحفوظ رکھناچاہئے۔

کہتے ہیں کہ تم لوگوں میں آنسو اور گریہ و ماتم کی ترویج کیوں کر رہے ہو؟ یہ اشک و ماتم محض اشک و ماتم نہیں ،اقدار کے محافظ ہیں اس عزاداری، ماتم اور آنسو کے اندروہ گوہر مخفی ہے جو خزانہ انسانیت میں سب سے عزیز اور قیمتی ہے اور وہ معنوی و الہی اقدار ہیں ان کی حفاظت کرنا ہے تو یاد رکھئے کہ حسین ابن علی(ع) ان اقدار کا مجسمہ ہیں انکی یاد ان اقدار کی حفاظت ہے۔

امت مسلمہ اگر امام حسین(ع) کا نام اوران کی یاد زندہ رکھے اوران کے نقش قدم پر چلے تو اپنی تمام مشکلات پرقابو پا لےگی، یہی وجہ ہے کہ ابتدا سے انتہا تک یعنی عوام، حکام، بزرگان اورخودعظیم الشان امام (رہ) سب نےاسلامی انقلاب میں امام حسین(ع)، واقعہ عاشورا اور عوام کی عزاداری پر انحصار کیا اور اسی کی ضرورت تھی اس عزاداری کےظاہری اعمال میں حقیقتیں مخفی ہیں یہ دلوں کوجوڑتی اور تعلیمات اسلامی عام کرتی ہے۔

لیکن ذاکرین، واعظین اور نوحہ خوان یہ پیش نظر رکھیں کہ عزاداری ایک عظیم حقیقت کانام ہے،اس سے کھلواڑ نہ کیا جائے، واقعہ کربلا کے حقائق کو بازیچہ نہ بنایا جائےاس میں اضافہ نہ کیا جائے، اس میں خرافات شامل نہ کئے جائیں ،عزاداری کے نام پر نا معقول حرکتیں نہ کی جائیں، یہ نہیں ہونا چاہئے یہ امام حسین(ع) کا ساتھ دینا نہیں ہے جب ہم نے قمہ زنی کے بارے میں بیان دیا تو گوشہ و کنار سے آوازیں آنے لگیں کہ یہ عزاداری ہے، عزاداری کی مخالفت نہ کی جائے، یہ عزاداری کی مخالفت نہیں ،عزاداری کی تضییع کی مخالفت تھی ،عزاداری امام حسین (ع)ضائع و برباد نہیں ہونی چاہئے منبراورمجلس حقائق دینی یعنی حقائق حسینی (ع)بیان کرنے کی جگہ ہے۔ اس سلسلہ میں اشعار بھی ہونے چاہئیں، جلوس بھی ہونے چاہئیں اور نوحے و قصیدے بھی ہونے چاہئیں آپ نے دیکھا سنہ ۷۸ میں یزد و شیراز سمیت کچھ اضلاع میں لوگوں نے ماتمی جلوس نکالے اور پھرملک بھر سے ماتمی جلوس نکلنے لگے جن میں لوگ حالات حاضرہ کو نوحوں کی شکل میں پیش کر رہے تھےحالات حاضرہ کو واقعہ کربلاسے ربط دے کر بیان کر رہے تھے یہ صحیح بھی ہے۔

انقلاب سے کئی سال قبل شہید مطہری امام بارگاہ ارشاد سے چلا چلا کر کہہ رہے تھے : واللہ " جملات کا مضمون احتمالا یہ تھا" آج کے دور کا شمر فلاں ہے اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم کا نام لیا کرتے تھے ،حقیقت بھی یہی ہے ہم شمر پر اس لئے لعنت کرتے ہیں کہ دنیاسے شمر اور اس کے کردار کا خاتمہ ہو جائے ہم یزید و عبیداللہ پر اس لئے لعنت بھیجتے ہیں کہ دنیا میں اگر مومنین پرشیطانی، یزیدی عیاش اورظالم حکومت ہو تو اس کا مقابلہ کیاجائے قیام امام حسین علیہ السلام کا مقصد الہی، انسانی اور اسلامی اقدار کی مخالف حکومت کی ناک رگڑنا اور اسے نابود کرنا تھا امام حسین (ع)نے اپنے قیام کےذریعہ یہی کام انجام دیا ہے۔

ہماری مجالس حسینی مجالس ہیں یعنی یہ مجالس ظلم، ناجائز قبضہ اوروقت کے شمروں، یزیدوں اور ابن زیادوں کی مخالف ہیں اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ عزاداری امام حسین (ع)ہی کی تحریک کا ادامہ میں ہے۔

اس وقت دنیا ظلم و جور سے بھری ہے آپ دیکھئے کہ یہ لوگ کیا کیا کر رہے ہیں فلسطین میں کیا کر رہے ہیں، عراق میں کیا کر رہے ہیں، اقوام عالم کے ساتھ کیا کررہے ہیں،غریبوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں، دنیا کے ممالک کے قومی سرمایہ کے ساتھ کیا کر رہے ہیں، یہ وسیع و عریض میدان حسین ابن علی( علیہ السلام) کی عظیم تحریک کےدائرہ میں شامل ہے امام حسین (ع)کا درس صرف شیعوں یا مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ دنیا کے آزاد اور حریت پسند لوگوں کے لئے ہے۔

تحریک آزادی ہند کے قائد نے ساٹھ، ستر برس قبل امام حسین (ع)کا نام لیا اور کہا کہ میں نے ان سے سیکھا ہے جبکہ وہ ایک ہندو تھا مسلمان بھی نہیں تھا مسلمانوں میں بھی ایسا ہی ہے یہ ہیں امام حسین! آپ کے پاس اتنا قیمتی جوہر ہے جس سے پوری انسانیت فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

امام حسین (ع) کی عزاداری اس نہج پر ہونی چاہیےکہ اس میں بیان کووسیع کیا جائے، واضح ہو، لوگوں کو اس سے آگاہی ملے، ان کا ایمان قوی ہو، لوگوں میں دینداری کاجذبہ پیدا ہو، ان کی شجاعت اور مذہبی غیرت میں مزید اضافہ ہو، لوگ مدہوشی اورلاپرواہی کی کیفیت سے باہر آئیں۔اس دورمیں تحریک حسینی اورعزادری منانے کا یہی مطلب ہے اسی لئے یہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی۔

عزاداری جہاں ایک رخ سےہرشخص کےجذبات واحساسات متاثرکرتی ہے، وہیں اپنی گہرائی اور معنویت کے ذریعہ اہل فکرو بصیرت کی آگاہی کا موجب بھی ہے حالیہ برسوں میں ،میں نے متعدد دفعہ امیرالمومنین(ع) کا یہ جملہ دہرایا ہے آپ فرماتے ہیں" الالایحمل ھذاالعلم الا اھل البصر والصبر" اسلام ،توحید اور انسانیت کا علم وہی اٹھا سکتے ہیں جن میں یہ دو خصوصیات ہوں "البصروالصبر" ایک بصیرت اور دوسرے استقامت ، امام حسین علیہ السلام بصیرت و استقامت کا مجسمہ ہیں۔

امام حسین (ع) کے پیروکاربھی اسی نقش قدم پرگامزن ہوئے، صدیوں کے بعد جب انہیں لائق اور شائستہ قائد ملا، تو انہوں نےیہ عظیم انقلاب برپا کر دیا ،عظیم اسلامی انقلاب ایک عظیم واقعہ ہے ایک عظیم داستان ہے ہم چونکہ خود اس تحریک میں شامل ہیں اس لئے ہمیں بہت زیادہ اس واقعہ کے عظیم پہلووں کی خبر نہیں ہے آنے والی نسلیں اور جو لوگ باہر سے اس واقعہ پر نطر رکھے ہوئے ہیں انہیں ہم سے زیادہ اس تحریک کی عظمت اور اس کے پہلووں کی خبرہوگی ،جس دنیا میں مال و دولت، حکومت و سیاست سب مذہبی و انسانی اقدار کے خلاف ہوں وہاں جغرافیائی لحاظ سے ایک حساس علاقہ میں ایک نظام کا وجود میں آنا ایک قوم کا قیام کرنا، انسانی اقدار کا پرچم بلند کرنا اور توحید کا نعرہ لگانا ایک معجزہ ہےیہ ہمارے زمانے کا معجزہ ہے پھر ہر طرف سے اس پر حملہ کیا جاتا ہے چھوٹے بڑے شیطان سب پوری طاقت سے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں لیکن وہ نہ صرف یہ کہ شکست سے دوچارنہیں ہوتا بلکہ ان میں کئی ایک کو شکست دے دیتا ہے انہیں پیچھے دھکیل دیتا ہے چنانچہ آج آپ استکبارکی عقب نشینی کی علامتیں مشاہدہ کر رہے ہیں اوراس جنگ میں ایرانی قوم کو فتح حاصل ہوگئی۔

انتخابات بھی آ رہے ہیں انتخابات بہت اہمیت کے حامل ہیں اس نظام کی عظمت کی ایک نشانی یہی انتخابات ہیں یہی وجہ ہےکہ لوگ اتنی واضح چیز ہونے کے با وجود ایرانی قوم کے انتخابات کا انکارکر رہے ہیں انتخابات کے ذریعہ وجود میں آنے والی عوامی حکومت کا حاسد اور ہٹ دھرم دشمن انکار کر رہےہیں کیوں؟ اس لئے کہ جانتے ہیں کہ یہ ایرانی قوم کی کامیابی کی ایک اہم علامت ہے جبکہ ان اٹھائیس سالوں میں اوسطاً ہر سال انتخابات ہوئے ہیں ۔

مختلف ادوار میں مختلف انقلاب آئے ان میں جو لوگ قوم کے رہبرکہے جاتے تھےکچھ عرصہ بعد خود کودرماندہ محسوس کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہمیں مکمل اختیارات چاہئیں، ڈاکٹر مصدق نے دو سال سے زیادہ اس ملک پر حکومت کی ان دو سالوں میں انہوں نے دو بار پارلیمنٹ تحلیل کرکے پارلیمنٹ کے اختیارات بھی اپنے ہاتھ میں لے لئے اور کہنے لگے کہ اس کے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔ مصدق کی حکومت ایک عوامی حکومت تھی لیکن نہیں چل سکی اب اس وقت کی آبادی کے ذریعہ ایک عوامی انقلاب آتا ہےآج ملک کی آبادی اس سے تین گنا زیادہ ہے پھراس انقلاب کےخلاف اتنی سازشیں کی جاتی ہیں اس قدر پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے لیکن پھر بھی یہ انقلاب پوری بہادری سے عوامی ووٹ پرانحصار کرتا ہے، مطمئن ہے، انتخابات کے ذریعہ چاہتا ہے کہ عوام فیصلہ کرے، مداخلت کرے، سامنے آئے ہرقیمت پر الیکشن کرانا چاہتا ہے اب سے چار سال قبل یعنی گذشتہ دور کے انتخابات سے پہلے ایک ڈرامہ کیا جارہا تھا اور ایک کھیل کھیلا جا رہا تھا جس کا مقصد الیکشن کی سرے سے چھٹی تھی لیکن خدا نے نہیں چاہا اور ایسا نہیں ہوا مومن عوام کی ثابت قدمی حائل ہو گئی اور یہ لوگ انتخابات کا خاتمہ نہ کر سکے۔

انتخابت آ رہے ہیں یہ انتخابات بہت اہم ہیں صرف یہی انتخابات نہیں، بلکہ سارے انتخابات اہمیت کے حامل ہیں یہ بھی ان میں سے ایک اہم انتخابات ہیں لوگوں کی کچھ ذمہ داریاں ہیں اسی طرح حکام اور ممتاز شخصیات کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں سب سے پہلے یہ کوشش ہونی چاہئے کہ انتخابات کی اہمیت اور عظمت اپنی جگہ محفوظ ومعین رہے تاکہ لوگ امید اور اطمینان کے ساتھ پولنگ بوتھ تک جائیں۔ افسوس کی بات ہے کچھ لوگ اپنے بیانات میں مستقل کہے جا رہے ہیں کہ دھاندلی نہ ہو، دھاندلی نہ ہو۔ انشا اللہ ان کا کوئی غلط مقصد نہیں ہوگا لیکن کیسی دھاندلی؟! یہاں مجریہ گذشتہ تیس برسوں سےبالکل صاف ستھرے الیکشن کراتی چلی آرہی ہےکچھ لوگوں کو یہ کہتے ہوئے شرم تک نہیں آئی کہ بین الاقوامی ناظرآکرالیکشن کی نگرانی کریں اغیار!دشمن! جوسرے سےانتخابات اور ایرانی قوم کے مخالف ہیں جو ہر اس چیز کے مخالف ہیں جو ایرانی قوم کے فائدہ میں ہو، وہ آکر فیصلہ کریں یہ ایرانی قوم کی سب سے بڑی توہین ہوگی بلاوجہ بات بڑی نہ کریں، ہم نے تمام متعلقہ افراد، وزارت داخلہ، محترم گارڈین کونسل اورتمام کارگزاران اورنگراں حضرات کو بارہا تاکید کی ہے اور مزید تاکید کرتے ہیں کہ محتاط رہیں اپنی ذمہ داری اور فرض کوصحیح اور اچھی طرح انجام دیں عوام کے ووٹ ان کے پاس امانت ہیں ہرگز کسی کو مداخلت نہ کرنے دیں ،ہم نے ہمیشہ یہی تاکید کی ہے اور یہ لوگ بھی اب تک اس بات کے پابند رہے ہیں آگے بھی خداکےفضل سےپابند رہیں گے عوام کے اس اہم کام اور باعظمت الیکشن کی حیثیت شکوک وشبہات پھیلاکراور یہ کہہ کہہ کرختم نہ کریں کہ دھاندلی ہوگي، یہ ہوگا ہے وہ ہوگا ، یہ ہوئی پہلی بات۔

دوسری بات جو چند روز قبل میں نے یزد میں بار بار کہی آج پھر کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ انتخابات میں سب لوگ اپنا طرزعمل سنجیدہ رکھیں جوامیدوار ہیںوہ بھی، جو ان کے حامی ہیں وہ بھی اورجوبعض امیدواروں کے مخالف ہیںوہ بھی! ملک کی مختلف پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ بداخلاقی، ایک دوسرے پرالزام تراشی، ایک دوسرے کی بد گوئی اور توہین وغیرہ کو قطعی بیچ میں نہ آنے دیں ایسی چیزیں اگرسامنے آئیں تودشمن ان سے خوش ہوتا ہے۔

تیسری بات یہ کہ دشمن کی سرگرمیوں پر نگرانی رکھیں پرسو یعنی دو روز قبل امریکی صدر بش نےکہا ہے کہ ہم ایران میں فلاں گروپ کی حمایت کرتے ہیں امریکہ کی طرف سے حمایت ہر شخص کے لئے باعث ذلت ہے سب سے پہلے وہ لوگ غور کریں کہ جن کی یہ وحشی دشمن حمایت کرنا چاہتا ہے اور دوسرے نمبر پر عوام غورکریں کہ وہ کیوں ان کی حمایت کر رہا ہے ان میں کیا کمی ہے جس کی وجہ سے دشمن ان کی حمایت کرنا چاہتا ہے ایک گھر کے اندرممکن ہے دو بھائیوں یا بہن، بھائی میں اختلاف ہو ایسے میں اگرایک دشمن، چور، گھرکے باہرکا ڈاکو ان میں سے کسی ایک سے تعلقات بنا لے اور کہے کہ میں تمہاری حمایت کرتا ہوں تو اسے ہوش میں آ جانا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ میں نے کون سا غلط کام کیا ہے مجھ سے کیا خطا ہوئی ہے کہ یہ خاندانی دشمن میری حمایت کرنا چاہتا ہے عوام بھی ہوشیاررہےاورانتخابات کواغیار کے ہاتھ کا کھلونا نہ بننے دے۔

انتخابات ایرانی قوم کی چیز ہے، اسلامی جمہوریہ کی چیز ہے، اسلام کی چیز ہےاپنےاور دشمن کے درمیان سرحدیں طے کی جائیں میں نے بارہا کچھ ایسے سیاسی افرادکو یاددہانی کرائی اورنصیحت کی ہے جن کی کچھ سرگرمیاں ہیں اور کبھی کبھی کچھ مخالفتیں کرتے رہتے ہیں میں نےان سے کہا ہے کہ خیال رکھئے گا کہ آپ اوردشمن کےبیچ کی سرحدیں کہیں نرم نہ ہوجائیں، مٹ نہ جائیں جب سرحد نرم ہو جائے گی تو اس بات کا احتمال زیادہ ہے کہ دشمن سرحد پار کر کے اس طرف آجائے یا یہ دوست غفلت میں اس پاردشمن کے پاس چلا جائے توسرحدیں واضح اور معین کیجئے۔

اٹھائیس سال سے یہ قوم امریکہ کی طرف سےدشمنی، سازشیں اور نقصانات برداشت کر رہی ہے اس قوم کے خلاف ان سے جو کچھ ہو سکا کیا محتاط رہیئے اور سرحدوں کا تعین کیجئے کچھ لوگ ان کے ایجنٹ ہیں انکے نوکر ہیں ان کے وظیفہ خور ہیں ان کے ساتھ اپنی سرحدوں کا تعین کیجئے بصیرت اور صبر کا ایک مقام یہی ہے بصیرت جب انتخابات کا وقت آتا ہے تو ایرانی قوم کو بصیرت کی ضرورت ہے غور کیجئے اور دیکھئے کہ دشمن نےکیاموقف اختیار کیا ہے اس پرشکوہ عوامی تحریک میں پورے اطمینان سے صحیح فیصلہ کیجئے یہ عوام کی ذمہ داری ہے انھیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

البتہ خاطر جمع رکھئے میں بھی مطمئن ہوں کہ آپ عوام کی مجاہدت اورایمان کی برکت سے خدا اپنا فضل وکرم آپ سے واپس نہیں لےگا خداوند متعال نے اپنا لطف و کرم، نصرت و امداد اور حمایت و ہدایت لوگوں کے شامل حال رکھی ہے اورمزید شامل حال رکھےگا اور آخرکارفتح ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ ایران کی ہوگی۔

امیدوار ہوں کہ خداوند آپ کو توفیق عطا فرمائے! شہدا کی ارواح مقدسہ کو ہم سے راضی وخشنود رکھے! امام (رہ)کی پاک روح کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرمائے! آپ سب کو خیر اور اجر عنایت کرے اور ولی عصر(ارواحنا فداہ)کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرمائے۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ