ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا صوبہ یزد کی یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلبا سے خطاب

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ عزیزجوانوں کی پرخلوص اوربارونق بزم میں حاضر ہونے پر میں بہت خوش ہوا ہوں، آپ جوان ہیں اور جوان خلوص، ہمت،صدق وصفا اوراہداف تک رسائی کے شوق کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ہمارے عزیز جوانوں نے مختلف موضوعات سے متعلق جو باتیں کی ہیں وہ میرے لئے دلچسپ تھیں البتہ اس لحاظ سے نہیں کہ دوستوں کی تمام تجاویز کو اولویت حاصل ہے اور ان پر عمل ہونا چاہئے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ قابل عمل ہیں بھی یا نہیں اور اس کے لئے ان کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور ہم ان پر غور خوض کرنے کےلئے کہہ دیں گے لیکن ایک ممتاز طالب علم، ایک طلبہ تنظیم کے رکن جوان طالب علم کا طلبہ کے درمیان کھڑے ہو کر موجودہ مسائل سے متعلق اپنی فہم کا جرات و خود اعتمادی سے بیان کرنا اور کچھ مطالبہ کرنا میرے لئے اہم اور نہایت شیریں چیز ہے میری آج کی گفتگو بھی اسی سے متعلق ہے۔

قوم میں خود اعتمادی اسلامی انقلاب کا نتیجہ ہے

میں نے کل عوامی اجتماع میں خود اعتمادی سے متعلق کچھ باتیں کہی تھیں جو بنیادی طور سے آپ کے لئے ہیں جن لوگوں کی خود اعتمادی کے ہم شدید محتاج ہیں وہ جوان طبقہ ہے خاص طور سے ممتاز اہل علم طبقہ جو علمی ،سیاسی اور عملی لحاظ سے کسی نہ کسی شکل میں ملک کا مستقبل سنبھالنے والا ہے لہذا یہ طبقہ خود اعتمادی کی نصیحت پر خوب دھیان دے، اسے دل سے قبول کرے اور اپنے ہر کام میں اسے معیار قرار دے، کل میں نے اس پر مختصر روشنی ڈالی تھی آج قدرے مفصل بیان کرنا چاہتا ہوں۔

پہلی بات یہ ہےکہ میں خود اعتمادی کی بات کیوں چھیڑ رہا ہوں ملک میں ایسا کیا ہو گیا ہے جو میں اصرارکر رہا ہوں کہ قوم یا جوانوں کی خود اعتمادی پر تکیہ کیا جائے اس کی ذرا وضاحت کرنا پڑے گی : ہماری قوم کے اندر انقلاب کی وجہ سے، مقدس دفاع کی وجہ سے، امام کی خاص شخصیت کی وجہ سے" بعد میں اگر مجھے یاد رہا تو میں بتاؤں گا کہ قوم اندر خود اعتمادی پیدا کرنے میں امام کی شخصیت اور آپ کی شخصیت کے بنیادی پہلوؤں کا سب سے اہم کردار رہا ہے" اور کئی طرح کی ترقی کے نتیجہ میں ایک مناسب حد تک خود اعتمادی پائی جاتی ہے لیکن چونکہ ہم اور ہمارے دشمنوں کے درمیان نفسیاتی اور پروپیگنڈہ جنگ چل رہی ہے یا یوں کہا جائے کہ نرم جنگ چل رہی ہے اور دشمن اسے جاری رکھنے پر مصر ہےلہذا ڈر ہے کہ کہیں خود اعتمادی میں خدشہ نہ آجائے، یہ کمزور اورمتزلزل نہ ہو جائے یا یہ کہ اتنی خود اعتمادی نہ ہو کہ جتنی ہماری قوم کودرکار ہے ہم راستے کے درمیان میں ہیں میں صاف دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے ملک کے بہت سے ممتازافراد میں ابھی تک لازمی خود اعتمادی کی کمی ہے۔

احساس کمتری ایک خطرناک بیماری

خود اعتمادی کی ضداحساس کمتری ہے، اقوام عالم کی ایک جماعت- آج مغرب جس کا مظہر ہے- کی فکر کے مقابلہ میں احساس کمتری، ان کے فلسفہ کے مقابلہ میں احساس کمتری، ان کے علم کے مقابلہ میں احساس کمتری، قومی ترقی کے جو نمونے وہ تجویز کرتے ہیں ان کے مقابلہ میں احساس کمتری جبکہ مختلف اقوام کی ترقی کے مختلف نمونے ہیں۔ احساس کمتری ایک نہایت خطرناک بیماری ہے اور دسیوں سال تک یہ بیماری ہماری قوم میں پھیلائی جاتی رہی ہے مغربی کلمات، مغربی فکر، مغربی کلمات سے ماخوذ اصطلاحات اس وقت ہم میں رائج ہیں مجھے سنائی دیتی ہیں افسوس کی بات ہے کہ جو مغربی کلمات دسیوں سال قبل لوگوں کی زبان پر جاری ہوئے وہ تو ہیں ہی، اس کے علاوہ بھی ریڈیو، ٹی وی سے تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد کوئی نیا مغربی لفظ پیش کردیا جاتا ہے اور لوگ ایک دوسرے سے اس کے معنی پوچھتے پھرتے ہیں کہ صاحب! اس کا کیامطلب ہے؟! کسی سے جا کے پوچھیں تو تب انہیں اس لفظ کی معنی معلوم ہوتے ہیں ضرورت کیا ہے اس سب کی؟ ملک میں جو نیا مفہوم وارد ہوا ہے اس کے لئے کوئی لفظ لے کے آئیے کوئی لفظ بنا ڈالئے فارسی زبان بہت وسیع ہے تو یہ احساس کمتری (قوم پرمغربیوں کے) سابقہ اثرات کا نتیجہ ہے یہ سب کیوں کہا میں نے؟ تاکہ معلوم ہو کہ ابھی ہمیں خود اعتمادی میں بہت اضافہ کرنا ہے مجھے ڈرہے کہ قومی خود اعتمادی کہیں لازمی رشدو نمو سے محروم نہ رہ جائے اس لئے یہ گفتگو کر رہا ہوں کل بھی اس مقصد سے یہ باتیں کی تھیں اور آج بھی اس خصوصی گفتگو میں جو قدرے مفصل ہوگی یہ باتیں کرنے کا یہی مقصد ہے۔

اپنا سفرجاری رکھنے کی لگاتار کوشش

ہم ایسے دوڑنے والے ہیں جنہیں آخری لکیر تک دوڑنا ہے جیت کی لکیر تک پہنچنا ہے لہذا لگاتار دوڑنا ہوگا یہاں ایک پلے کارڈ پر آپ نے لکھا ہے" سنہ2026 میں ایران ترقی یافتہ ملک ہوگا" بیس سالہ منصوبہ میں لکھا ہے کہ ایران دیگر علاقائی ممالک سے ٹیکنالوجی وغیرہ میں آگے ہوگا تو آپ کیا سوچ رہے ہیں کہ دوسرے ممالک ایسے ہی کھڑے ہیں کہ ہم آگے بڑھتے چلے جائیں اوروہ اپنی جگہ رکے رہیں گے؟ وہ بھی آگے بڑھ رہے ہیں یہ دوڑ کا مقابلہ ہے اگر بیچ راہ میں ہماری آپکی ہمت جواب دے جائے، امیدیں ٹوٹ جائیں ہم یہ سوچنے لگیں کہ صاحب ! کوئی فائدہ نہیں ہے توظاہر سی بات ہے ہم منزل تک نہیں پہنچ پائیں گے میں اسی بات سے ڈررہا ہوں اسی لئے خود اعتمادی پر بات کرنا چاہتا ہوں۔

دشمن یعنی دنیا پر قبضہ کی خواہاں لابی

آج کسی حد تک ہم میں خود اعتمادی ہے ان چند اسباب کی برکت سے جو ہم نے ذکر کئے، ہمارا دشمن دنیا پر قبضہ کی خواہاں استکباری لابی ہے دشمن جو میں کہتا ہوں اس سے مراد یہی ہے اب آپ کہئیے کہ اس کا مصداق امریکہ ہے توہوگا! یا فلاں حکومت ہےتوہوگی! کسی ملک یا حکومت سے ہمارا اختلاف علاقہ، نسل، قوم اور نام کا نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ دنیا کی سیاسی طاقتوں میں کچھ تسلط پسند طاقتیں ہیں اور انہیں عادت ہو گئی ہے دوسروں پرقبضہ جمانے اور کسی سخت رکاوٹ سے دوچار نہ ہونے کی، اب ان کے سامنے ایک سخت رکاوت کھڑی ہے اور اس کانام ہے اسلامی حکومت اور اسلامی جمہوریہ! اس رکاوٹ سے ان کا شدید مقابلہ ہے بات اصل میں یہ ہے۔ دشمن سے مراد طاقت اور تسلط کی خواہاں عالمی لابی ہے اب اس کا کوئی بھی نام ہو البتہ میری نظر میں اس کا مصداق اس وقت ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت ہے اس عالمی تسلط پسند لابی کا سب سے بڑا شیطان مجسم یہی حکومت ہے اب یہ جو بھی ہو اس کا نام کچھ بھی ہو یہ دشمن ہے اور ہم سے اس کی دشمنی کی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں ایک رکاوٹ ہے اس کی مثال ایک تیز دھار آری کی ہے جو کاٹتی چلی جاتی ہے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے بنا کہیں رکے اب اگر سامنے مضبوط لوہا آجا تا ہے تووہ اسے آگے نہیں بڑھنے دیتا تو ہم پر دباؤ اسی لئے ہے یہ ہمارے مغرب سے ٹکراؤ کا رد عمل ہے۔

ہتھیارنہ ڈالنے کا ارادہ

کچھ لوگ ایسے ہی بیٹھ کر منھ بولے باپ اور بوڑھے بزرگ کی طرح فلسفیانہ انداز میں داڑھی ہلا ہلا کے کہتے ہیں صاحب! کیوں سب سے لڑرہے ہو بات لڑنے کی نہیں ہے بات یہ نہیں ہے کہ ہم کسی سے لڑنا چاہتے ہیں بات یہ ہے کہ ہم تسلط پسندی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ہماری قوم کو صدیوں سے یا کم سے کم دسیوں سال سے خواب غفلت اورمدہوشی میں رکھا گیا ہے ہمارے ساتھ انہوں نے جو چاہا کیا اب ہم جاگے ہیں، ہوش میں آئے ہیں تو اب ہم کسی کے سامنے جھکیں گے نہیں یہی ہمارا جرم ہے" وما نقموامنھم الاان یومنوا باللہ العزیزالحمید" اوریہی ہماراچیلنج ہے۔

حزب اللہ کی خود اعتمادی کےسامنے دشمن کی شکست

ایرانی قوم سے جو دشمنی کی جارہی ہے آپ کی خود اعتمادی اس کا مقابلہ کرےگی اس سے لڑے گی خاص طور سے اب جب امریکہ مشرق وسطی کی اپنی سیاست میں ہار گیا ہے۔ مشرق وسطی میں امریکی سیاست کا اصل محور اسلامی جمہوریہ ایران تھا ایک طرف افغانستان اور ایک طرف عراق، سوچ رہے تھے اسلامی جمہوریہ ایران قیچی کے دو لبوں کے بیچ دباؤ میں آجائے گا اور تسلیم ہوجائےگا امریکہ کی مشرق وسطی کی سیاست تھی اسرائیل کو مضبوط کرنا اور ان کا ایک بڑا منصوبہ تھا مقبوضہ فلسطین کے قریبی ہمسایہ ملک لبنان کے اندراثرورسوخ رکھنے والی مومن اور متحرک طاقت یعنی حزب اللہ اور مزاحمتی طاقت کا خاتمہ! پچھلے سال کی ذلت آمیز شکست نے ان کا منصوبہ ناکام کر دیا اس کے بعد گذشتہ سال سے لیکر اب تک مستقل ہاتھ پیر مار رہے ہیں کہ لبنان کے اندر کچھ کر لیں امریکہ کی حامی حکومت اور امریکہ کی حامی ایک فوج بنا لیں اس وقت لبنان کے سامنے یہی مسئلہ ہے امریکی اس بات پہ تیار نہیں ہیں کہ اپنے زعم کا یہ پکا پکایا گوشت دانتوں سے چھوٹ جانے دیں اس لئے اس کوشش میں ہیں کہ ایسے ایجنٹ کو صدارتی کرسی پر بٹھا دیں جو فوج کا سربراہ بھی ہے اور اس کے بعد حزب اللہ کو دبائیں لیکن ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں امریکہ جیسی طاقت کے لئے یہ ایک ناکامی ہے ایسے ایسے دعوؤں، اتنی طاقت، اسقدر دولت، غیر معمولی حد تک مضبوط ڈپلومیٹک مشینری، ایسے ایسے انسانی اور تکنیکی وسائل کے با وجود حزب اللہ کے سامنے ٹک نہ سکے۔ یہ حزب اللہ کو ایران سے منسلک گردانتے ہیں حزب اللہ کی کامیابی کو اسلامی جمہوریہ کی کامیابی قرار دیتے ہیں یہاں بھی وہ ہار گئے۔

قوم کی خود اعتمادی کےسامنے دشمن کی شکست

چند ماہ قبل امریکی اصرار کر رہے تھے کہ ایران اپنی تمام جوہری سرگرمیاں ترک کر دے وہی کام جو انہوں نے لیبیا کے ساتھ کیا یعنی سرگرمیاںختم کرکے وہاں جھاڑو پھیر دے اور پھر اسے امریکہ کے حوالے کر دے اپنے پورے کام کی چھٹی کر دے، اب چند ہفتے قبل حالت یہ ہو گئی ہے کہ کہہ رہے ہیں کہ ایران جہاں تک پہونچ گیا ہے بس وہیں کام روک دے، دیکھئے دونوں باتوں میں بہت زیادہ فاصلہ ہے ایک وقت میں یہ پانچ عدد سینٹری فیوجز برداشت کرنے کو تیار نہیں تھے ،کہا گیا تھا کہ صرف پانچ عدد! تو انہوں نے جواب دیا نہ! نہیں ہو سکتا! حکام یوروپ سے اس بات پر مذاکرات کے لئے بھی تیار ہو گئے تھے کہ ہمیں بیس عدد سیٹری فیوجز نصب کرنے دیئے جائیں تو ان لوگوں نے کہا کہ نہیں ہو سکتا اگر ہم کہتے کہ صرف ایک عدد ہی نصب کرنے دیجئے ، تب بھی وہ یہی کہتے کہ نہیں نصب کرسکتے آج ایران نےتین ہزار سینٹریفیوجز نصب کردیئےہیں مزید اچھے خاصے نصب کرنے کیلئےتیار ہیں اب کہہ رہے ہیں کہ یہیں پر روک دو یہ بھی امریکہ کی ایک شکست ہے۔

گیارہ ستمبرکے بعد امریکیوں کی کوشش علاقہ میں دو خیمےدکھانےکی تھی ڈیموکریسی کی حمایت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ! کتنا پروپیگنڈہ کیا انہوں نے، کتنا کام کیا، فوجی جارحیت، لشکر کشی! کتنا خرچ کرتے گئے یہ کہنے کے لئے کہ ہمارےپاس ڈیموکریسی ہےاورعلاقہ میں دہشت گردی ہم اس علاقہ کو نجات دینے کے لئے آئے ہیں جو کرسکتے تھے کرتے گئےلیکن آج آپ عراق کی عوام سے پوچھئیے جہاں انکی سرگرمیوں کا مرکز تھا تو کہیں گے کہ دہشت گردی کی وجہ خود امریکی ہیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ امریکہ عراق میں ڈیموکریسی لایا ہے جو حکومت تشکیل پائی ہے اور جو پارلیمنٹ وجود میں آئی ہے یہ امریکیوں کی مرضی کے بر خلاف ہوا ہے وہ یہ نہیں چاہتے تھے لیکن مجبور ہو گئے یہ بات سب جانتے ہیں تو اس طرح یہ مختلف جگہوں پرناکام ہوئے ہیں۔

دشمن کو ناتواں اورکمزور نہیں سمجھنا چاہیے

جب کوئی تسلط کی خواہاں طاقت کسی قوم کو نفسیاتی شکست د ینے اوراس کی خود اعتمادی توڑنے میں یوں ناکام ہو جائے تو کیا اس کے بعد یوں ہی بیٹھی رہے گی؟ جی نہیں یوں ہی نہیں بیٹھےگی بلکہ نئی ترکیبیں نکالنے میں جٹ جائے گی اور جب وہ نئی ترکیبیں سوچ رہی ہے تو ہمیں بھی نئے طریقہ ہائے کار ڈھوڈھنے ہوں گے دشمن کی نئی چالوں کا پتہ لگانا ہوگا ہمیں یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ دشمن کےذرائع کم نہیں ہیں میں نے کئی بار کہا ہے کہ" دشمن کو کمزور اور ناتواں نہیں سمجھا جا سکتا" دشمن کے ذرائع ابلاغ کا اسلامی جمہوریہ کے ذرائع ابلاغ سے کوئی موازنہ ہی نہیں ہے یہ بھی میں آپ سے عرض کردوں کہ دشمن کے پاس ثقافتی کام اور پروپیگنڈے کے بہت سےوسائل ہیں، مستقل لگے ہوئے ہیں اور پیسہ بھی خوب لگا رہے ہیں یہ جو کہتے ہیں کہ ہم آٹھ کروڑ ڈالر یا دس کروڑ ڈالر ایران میں حکومت کے مخالفین یا ان کے بقول اپوزیشن کو دے رہے ہیں یہ صرف دکھانے کے لئے ہے ان کاموں کے لئے ان کا بجٹ اس سے کہیں زیادہ ہے وہ سرمایہ لگا رہے ہیں۔ ہم اور آپ کو، اس ملک کے جوان کو، اس ملک کے طالب علم کو، یہاں کے عہدہ دار کو، یونیورسٹی پروفیسر کو یہ پتہ لگانا ہوگا کہ دشمن کس راستہ سے دراندازی کرے گا اس کا پہلے سے پتہ لگانا ہوگا اگر پہلے سے پتہ لگا لیا تو پھرآپ جان جائیں گے کہ سماج میں کیا ہو رہا ہے یا کیا ہونے والا ہے فرض کیجئے کہ آپ جانتے ہیں کہ کوئی سیلاب یا طوفان آنے والا ہے تو پھرجب سیلاب یا طوفان سے پہلے کے واقعات ظہور پذیر ہونگے تو آپ ان کو جانتے ہونگےکہ یہ سیلاب سے پہلے کے لمحات ہیں اس کے عوامل کو آپ جانتے ہوں گے لیکن اگرآپ ان عوامل سے بے خبر ہیں توکبھی غیر دانستہ طورانسان ان عوامل کے ساتھ تعاون کرتا ہے اس وجہ سے ہمارے لئے یہ بات سنجیدہ ہے۔

خود اعتمادی کی اہمیت

پہلے میں خوداعتمادی سے متعلق چند جملے عرض کر دوں، جب کسی ملک کے ممتاز لوگوں میں خوداعتمادی ہوتی ہے تو اس کا سب سے پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان دوسروں کی مدد اور دستگیری کا منتظر نہیں رہتا جس قوم میں خوداعتمادی نہیں ہوتی اسے ہمیشہ انتظار رہتا ہے کہ کوئی اس کے لئے کچھ فراہم کرے اسے کچھ دے جب آپ کو یہ انتظارہو کہ کوئی آپ کے لئے پکا پکایا کھانا لے کے آئے تو آپ کبھی خود کھانا نہیں پکائیں گے اور نہ کبھی خود سے پکانا آئےگا تو یہ ایک بنیادی خطرہ ہے جو بالکل واضح ہےیعنی یہ کوئی پیچیدہ فلسفی مسئلہ نہیں ہے لیکن کبھی ہم ملک کی پسماندگی کے اس واضح سے محرک سے ہی غافل ہو جاتے ہیں۔

شکست کا تصورزہر ہے

مجھے یاد ہے، انقلاب سے کئی سال پہلے کی بات ہے: ایک روز اتفاق سے ایک دوست کے یہاں جانا ہوا جن کا تعلق ملک کے ایک شمالی شہرسے تھا، وہ مشہد آئے ہوئے تھے تو ہم ان سے ملنے چلے گئے ان کے شہر کا پارلیمنٹ ممبر بھی مشہد آیا ہوا تھا اوروہ بھی ان سےملنےانکےگھر پہنچ گیا اتفاق سے ہم ایک گھنٹہ تک ایک پارلیمنٹ ممبرکے ہمنشیں ہو گئے ہم بھی اس وقت جوان تھے جس طرح اس وقت آپ جو دل میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں ہم بھی بات کے عوارض و جوانب کا خیال نہیں رکھتے تھے میں نے حکومت کی تنقید شروع کردی جو باتیں اس دوران ہمارے ذہن میں تھیں سب کہہ ڈالیں وہ بھی شاہ کی پارلیمنٹ کا ممبر تھا اسے برا لگ گیا تو اس نے ہم سے بحث کرنے کی ٹھان لی، ایک بات جومیںنےاس سےکہی تھی وہ یہ تھی کہ صاحب! آپ نے ملک کوایک جگہ روک رکھا ہے سب درآمدات ہی درآمدات ہیں ، سب دوسروں کی مصنوعات؟! ہم خود کیوں کچھ نہیں کرتے ہیں اس کا جواب بڑا دلچسپ ہے اندازہ لگائیے کہ کس قسم کی سوچ تھی کہنے لگا صاحب ٹھیک ہے ٹھیک ہے، یوروپی نوکر کی طرح ہمارے لئے کام کرتے ہیں تو ہم ان کے محنت کےنتیجہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں اندازہ لگائیے کہ کس طرح ایک قوم اوراسکے ممتاز لوگوں کی رگ وپے میں یہ زہر گھول دیتے ہیں کہ وہ اس قسم کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔

خود اعتمادی صلاحیتیں نکھرنے کا پیش خیمہ

جب خود اعتمادی نہ ہو تو انسان دوسروں کی مدد اور دستگیری کا منتظر رہتا ہے ایسے ہی جیسے ایک مفلوک الحال زمین گیر شخص ایک گوشہ میں بیٹھا منتظر ہے کہ کوئی یہاں سے گذرے اور اس کی کچھ مدد کر دے، اس کی ضد بے نیازی ہے انسان اس بات کا منتظر نہ ہو کہ کوئی اس کے لئے کچھ لائے جب اسے یہ انتظار نہیں ہوگا تو اسے اپنی ضروریات فراہم کرنے کی فکر ہوگی اور ایک قوم کے وجود میں پوشیدہ صلاحیتیں کام کرنے لگیں گی اور جب صلاحیتیں کام کرنے لگ جائیں، جو چھپی تھیں وہ سامنے آجائیں، تو کامیابی ہاتھ آئے گی اور پہلی کامیابی کے بعد دوسری کامیابیاں بھی ملنے لگیں گی ایک کامیابی اپنے ساتھ دوسری کامیابیاں بھی لاتی ہے کام کی فطرت یہی ہے۔

مقدس دفاع خوداعتمادی کا مظہر

دفاع مقدس کے شروع میں فوج اوررضاکاروں کے پاس واقعاً کچھ نہیں تھا ضروری اسلحہ بھی نہیں تھا قابل ذکر ہتھیاروں میںبس کلاشنکوف ہوا کرتی تھی اور ایک شخصی بندوق،اتنے ہتھیاروں سےتو جنگ نہیں ہو سکتی تھی لہذا سوچنے لگے کہ کچھ کیا جائے اس سوچنے نے ان کی بہت ساری مشکلات دور کر دیں میں عزیز جوانوں کوتاکیدکرتا ہوں کہ وہ شہید فوجی افسران کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں ان کی کچھ باتوں میں جذباتی اور روحانی پہلو ہیں اور ان کی بھی اپنی جگہ اہمیت ہے اوربعض جگہوںپر انہوں نے اپنے تجربات ذکر کئے ہیں کہ میدان جنگ میں کیا کرتے تھے میں نے بارہا کہا ہے کہ جنگ کے دوران ہمیں کئی گنازیادہ رقم دے کردوسرے ممالک سےآر،پی، جی سات اسمگل کرانا پڑتی تھی بہت زیادہ سختیاں برداشت کرنے اور کئی گنا زیادہ رقم دینے کے بعد اس طرح کے سادے سے ہتھیار مل پاتے تھے لیکن تجربات اور خوداعتمادی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایرانی قوم کے اپنے بنائے ہوئےکچھ ہتھیارعلاقہ میں نمبر ون اور بے مثال ہیں اورباقی بھی کم نظیر ہیں یہ اس وجہ سے ہوا کہ ہمارے ہاتھ لوگ ہتھیار نہیں بیچتے تھے ہمیں کوئی ہتھیار نہیں دیتا تھا تو ہمیں احساس ہوا کہ ہمیں خود پر بھروسہ کرنا کرنا چاہیے ہمارے جوانوں نے خود پر بھروسہ کیا اور اس خود اعتمادی نے صلاحیتیں نکھار دیں صلاحیتوں کا نکھار نتیجہ دیتا ہے اور ہر نتیجہ کے ساتھ کامیابیوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے ہر جگہ یہی ہے نئی دریافت ہو، سائنس ہو، نئی مصنوعات ہوں یا ترقی کا نشان سب میں خوداعتمادی کی ضرورت ہے۔

ایران کی ترقی ہمارا ہدف ہے

پچلھے سال مشہدوسمنان کے دورہ کے دوران طلبا سے ہوئی ایک دو ملاقاتوں میں میں نے ترقی کے نشان کے بارے میں بات کی تھی ترقی کا ایرانی نشان! مقامی نشان! یعنی ہمیں یوروپی نظریات کا تابع نہیں ہونا چاہئے میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے علم سے فائدہ نہ اٹھایا جائے فائدہ اٹھایا جائے لیکن ان کے نسخے ان کے اپنے لئے ہیں ہمیں اپنی بیماری کا نسخہ خود لکھنا ہوگا تاکہ ہمیں اس پر اعتماد ہو، بھروسہ ہو، ہم اس پر مطمئن ہوں اب اگر خود اعتمادی نہیں ہوگی تو ہم یہی کہیں گے کہ صاحب !ہم یہ کہاں کر پائیں گے؟ دوسروں نے اتنے تجربے کئے ہیں اب ہم ان سے بڑھ کر کیا لانا چاہتے ہیں؟ یہ خوداعتمادی کے فقدان کی وجہ سے ہے افسوس کہ اس وقت بھی کچھ لوگ اس طرح کی بات کر رہے ہیں ہمارے کچھ پڑھے لکھے لوگ یہی کہتے ہیں ہم نے کہا کہ ترقی کا مقامی نشان بنایا جائے تو کہنے لگے کہ کون سا مقامی نشان؟ کیسے بنے گا؟ دیکھئے یہ ماضی ہی کے اثرات ہیں خود اعتمادی کا فقدان! اگر کوئی قوم ترقی کرنا چاہتی ہے تو اسے دوسروں کا منتظر نہیں رہنا چاہئے۔

ممتاز لوگوں کی طرف سے خود کو ناکام محسوس کرنے کی تلقین

مغربیوں اور یوروپیوں نے ایک جوبظاہرحسین ترین کام کیا اور اس کا سارا فائدہ خود اٹھایا وہ یہ تھا کہ دوسرے ممالک کے ممتاز لوگوں کو اپنی مٹھی میں لے لیا ان میں اپنی افکار منتقل کیں اورپھرانہیں انکے اپنے اپنے ملک بھیج دیا کہا جاؤ! یعنی انگلینڈ، فرانس اور دیگر مغربی ممالک نے پیسہ خرچ کر کے اپنی سیاسی افکار دوسرے ممالک تک منتقل کرنے کےبجائے اپنے تربیت شدہ افراد وہاں بھیج دیے جوبغیرپیسہ اور منت سماجت کےوہاں پر ان کا کام کرتے تھے غریب اور پسماندہ ممالک کیلئے مصیبت تھی یہ چیز! اب بھی اس طرح کے کچھ بچے کھچے لوگ ہیں جو ان کا کام کر رہے ہیں یہ چیز ختم ہونی چاہئے خود اعتمادی کی اہمیت یہ ہے کہ اگر ہم قومی سطح پرخود پر بھروسہ رکھتے ہوں تو ہماری صلاحیتیں نکھر جائیں گی تب ہم دیکھیں گے کہ ہاں ہم بھی کر سکتے ہیں یہ ہمارے لئے ثابت ہو جائے گا۔

خود اعتمادی کے سامنے تین اصلی رکاوٹیں

خود اعتمادی اور اس کے فوائد حاصل کرنے کی راہ میں تین اصلی رکاوٹیں ہیں ہمیں اس بات کی طرف توجہ رکھنا پڑے گی! یہ رکاوٹیں قومی خود اعتمادی اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی لگاتار کامیابیوں کے سلسلہ کو توڑ سکتی ہیں

(الف) مایوسی

مایوسی ایجاد کرنا! سائنسی لحاظ سے ہم مغربی ممالک سے کتنے پیچھے ہیں اس کا پرچار کرنا! یہ ایک حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں دو سو سال سے علمی اور سائنسی کام ہو رہے ہیں ہمارے اور ان کے درمیان ایک فاصلہ ہے تواب لوگ اس فاصلہ کو معیار بنا کے کہتے ہیں کہ صاحب! آپ کیسے یہ فاصلہ طے کریں گے؟ یہ کیسےممکن ہے؟ یہ کہہ کہہ کر ہمارے محققین اور سائنسدانوں کو مایوس کرتے ہیں میرا کہنا ہےکہ: ہاں یہ ممکن ہے! کیوں ممکن نہیں؟! ہم دوسرے کے علم سے فائدہ اٹھا کر قدم بقدم آگے بڑھیں گے پہلے بھی ہم نے ایسا کیا ہے ہم نے دوسروں کے علم سے فائدہ اٹھا کے کچھ ایسی چیزیں تیار کی ہیں جو دنیا میں نہیں ہیں مثلاً طب اوردواسازی میں ہم نے ترقی کی ہے مغربی سائنس کو بنیاد بنا کے ہم آگے بڑھے اور ان سے اچھی چیزیں بنائی ہیں ہم اگر ان سے دور ہیں تو اس بات پر ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے ہم اپنی سائنسی رفتار میں تیزی لا سکتے ہیں جس کے نتیجہ میں ہمارے اور ان کے درمیان کا فاصلہ روز بروز کم ہوتا چلا جائے گا ہم ہمت کر کے آگے بڑھیں گے خاص طور سے اس وقت کہ جب مغربی معاشرہ شدید مشکلات سے دوچار ہے جو آج سے پچاس یا سو سال پہلے نہیں تھیں اس وقت اخلاقی گراوٹ، جنسی بے راہ روی، یاس و نا امیدی وغیرہ اس وقت مغربی معاشرہ میں پہلےکےدورسےکہیں زیادہ ہےیہ چیزیں وہاں ایک بحران کی سی صورت حال اختیار کر چکی ہیں البتہ یہ طویل عرصہ سے چلے آرہے مسائل آسانی سے نظر نہیں آتے لیکن ان کے مفکرین کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ پریشان ہیں ان کی نئی نسل انحطاط کا شکار ہے، جرائم بڑھ رہے ہیں، گھر،خاندان بکھر رہے ہیں اور اس میں مزید تیزی آ رہی ہے اب سب کچھ ان کے کنٹرول سے باہر ہو گیا ہے اور پریشان ہیں تو کیا حرج ہے کہ ایک پرعزم قوم جس نے کسی حد تک خود کو ان آفتوں سے محفوط رکھا ہے جس کے پاس ارادہ ہے، خداپر توکل ہے، خود پر بھروسہ ہے معینہ اہداف رکھتی ہے وہ یہ فاصلہ طے کر لے اور آگے بڑھے جیسے وہ آگے بڑھے ہیں ہم کسی دور میں مغرب سے آگے تھے پھر ہم انحطاط کا شکار ہوئے اور وہ کوشش کر کےآگے بڑھ گئے اب پھر سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں یہ سائنسی فاصلہ طے کرنا اس قوم کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے جس کے جوان ہمت سے قدم بڑھا رہے ہیں حکام اورانتظامی عہدہ دار پوری ہمت اور جانفشانی سے منصوبہ سازی کر رہے ہیں۔ تو تین رکاوٹیں دشمن ہمارے سامنے کھڑی کر سکتا ہے ایک مایوسی پھیلانا ،دوسرے باصلاحیت افراد کو منحرف کرنا اور تیسرے ہمارے خلاف کوئی سخت قدم اٹھانا یعنی فوجی حملہ وغیرہ کردینا۔

مایوسی اور نا امیدی پھیلانے کے سلسلہ میں ، میں آپ جوانوں سے کہہ رہا ہوں کہ آپ غور کر کے اس کی علامتوں کی نشاندہی کیجئے ابھی اسی وقت وہ لوگ کام کر رہے ہیں اور کچھ لوگ ان کی زبان اور انہی کے لب و لہجہ میں ان کے حق میں زبان چلا رہے ہیں۔

یاس و نا امیدی پھیلانے کے چند نمونے

چند نمونے ملاحظہ کیجئے: جوہری توانائی کے مسئلہ میں خود ہمارے ملک کے اندر یہ ہنگامہ مچا دیا کہ صاحب جوہری توانائی فضول خرچی ہے کیوں ایسا کر رہے ہو؟ عالمی پروپیگنڈہ تو خیرپوری طرح اس کے پیچھے لگا ہی تھا اور اب بھی لگا ہوا ہے لیکن خود ہمارے ملک کے اندر جب سے یہ مسئلہ سامنے آیا ہے یعنی گذشتہ پانچ سال سے مستقل یہ کہا جا رہا ہے یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے خط لکھا کہ ہم فزیکس کے ماہر ہیں یہ جو کہا جا رہا ہے کہ ہم نے اتنے سینٹری فیوجز لگا دیئے ہیں اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے اتنا کہا گیا یہ سب کہ ہم ایک ٹیم بھیجنے پر مجبور ہو گئے کہ جا کے دیکھے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو یہ لوگ کہہ رہے ہیں وہی صحیح ہے یہ پانچ سال پہلے کی بات ہے ٹیم نے واپس آ کے بتایا کہ نہیں صاحب! نہایت عمدہ، صحیح اور مضبوط سائنسی طریقہ سے کام چل رہا ہے پہلے کہا کہ یہ ہم کرہی نہیں سکتے جب دیکھا کہ کر سکتے ہیں تو کہنے لگے کہ یہ فضول خرچی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے پچھلے سال عید نوروز کی اپنی تقریر میں، میں نے اس پر مفصل روشنی ڈالی تھی اب یہاں وہ سب دہرانا نہیں چاہتا! کیسے فائدہ نہیں ہے؟! ہمیں اگلے بیس سالوں تک جوہری توانائی سے کم سے کم بیس ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کرنا ہے یعنی بجلی کے خرچ اور ضروری پیداوار کے جو اندازے لگائے گئے ہیں ان کے لحاظ سے بیس ہزار میگاواٹ بجلی جوہری توانائی سے حاصل کرنے کی ضرورت ہے، بصورت دیگر ہمیں دوسروں سے بجلی بھیک میں لینا پڑے گی اور اگر بھیک مانگنے میں شرم آئی یا ہمیں کسی نے بھیک نہ دی تو فیکٹریاں، صنعتیں، بہت سارے وسائل ترقی اور ان بہت سی چیزوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا جن کا انحصار بجلی پر ہے۔ تو ہم کب سے کام شروع کریں کہ آنے والے بیس سالوں کے اندر بیس ہزار میگاواٹ بجلی بنا لیں؟ اگریہ کام شروع کرنے میں دیر نہیں ہوئی ہے تو یہ قبل ازوقت بھی نہیں ہے اور شاید دیر بھی ہو چکی ہو! کیسا عجب مغالطہ ہے کہ "ہمیں ضرورت ہی نہیں ہے" یا یہ کہتے ہیں کہ ایٹمی بجلی گھر تو آپ بنا نہیں سکتے اس تین چار فیصد افزودہ یورینیم کو کیا کریں گے پھر وہی نہیں کر سکنے کی بات! ہم کیوں نہیں بنا سکتے؟ جو قوم بنا استاد کے یورینیم کی افزودگی کا اتنا بڑا مرکز بنا سکتی ہے وہ ایٹمی بجلی گھر کیوں نہیں بنا سکتی؟ بنا سکتی ہے۔ کیوں نہیں بنا سکتی؟ کسی زمانے میں کہتے تھے کہ تم بھاپ کا بجلی گھر بھی نہیں بنا سکتے مجھے یاد ہے میرے اپنے صدارتی دور میں ایک بجلی گھر تھا جس کی تعمیر سابقہ شاہی دور میں شروع ہوئی تھی اور پھر بیچ ہی میں رہ گئی تھی یہاں وہاں کے چکر لگا رہے تھے کہ کسی ملک سے بین الاقوامی انجینئر آکر اسے مکمل کریں کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ ملک کےاندر کے لوگ بھی اسے مکمل کر سکتے ہیں ہم نے کچھ متعلقہ افسران کو صدارتی دفتر بلایا اورکچھ سربراہان مملکت وزیراعظم وغیرہ کو بھی اس مسئلہ پر گفتگو کی دعوت دی سب نے کہا کہ ہم اس بجلی گھر کی تعمیرجوتہران کے نزدیک بھی ہے مکمل نہیں کر سکتے ان کا فیصلہ تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے ہمیں ہر صورت میں باہر سے انجینئر بلانا پڑیں گے ہم نے باہر سے کسی کو نہیں بلایا داخلی ماہرین گئے اور اسے مکمل کر دیا اور کام بھی صحیح کیا اس وقت کئی سالوں سے وہ بجلی گھر بجلی دے رہا ہے اور ملک اس کی بنی بجلی سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔

انقلاب کے شروع میں " جہادسازندگی ادارہ" دانہ محفوظ رکھنے کااسٹور تعمیر کرنا چاہتا تھا آپ جانتے ہوں گے کہ طاغوتی دور میں ہمارے یہاں یہ اسٹور روس بناتا تھا یہ اسٹور دیکھنےمیں توسادہ ہوتے ہیں لیکن ان میں نسبتاً کچھ پیچیدہ سی تکنیک ہوتی ہے جہاد سا زندگی نے کہا ہم دانہ محفوظ رکھنے کا اسٹور بنانا چاہتے ہیں آس پاس سے آوازیں آنے لگیں کہ نہیں بنا پاؤگے بلا وجہ خود کو پریشان اور ملک کا سرمایہ برباد نہ کرو، نمونہ کے طور پر انہوں نے خوزستان میں ایک چھوٹا سا اسٹور بنایا تو میں نےاس کا معائنہ کیا۔ آج آپ کا ملک اسلامی جمہوریہ دنیا میں اول درجہ کےدانہ محفوظ رکھنے کے اسٹور بناتا اوراس طرح کے اول درجہ کے اسٹور بنانے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

تہران کے نزدیک ایک ڈیم میں سے پانی ٹپکنے لگا ، کہا گیا کہ اسے جا کے ٹھیک کر لیا جائے تو جواب ملا کہ وہی کمپنی آکے اسے ٹھیک کرے جس نے اسے تعمیر کیا تھا تو خیر اسے ٹھیک کرنے کیلئے وہی کمپنی بلائی گئی یہ ہمارے صدارتی دور کے شروع کی بات ہے کہہ رہے تھے کہ ہم کہاں ڈیم تعمیر کر سکتے ہیں؟ وہی پرانی تلقینیں! ہمارے جوانوں نے ہمت کر کے ڈیم تعمیر کرنے کا بیڑااٹھایا تو خدا کے فضل سے اسلامی جمہوریہ ایران اس وقت علاقہ میں بہترین ڈیم تعمیر کرنے والا ملک بن گیاہے۔ کوئی بھی علاقائی ملک اسلامی جمہوریہ ایران کی سی کیفیت کی بڑی ڈیم تعمیرکرنے پر قادر نہیں ہے کنکریٹ یا پتھرکسی کی بھی ہو! جو ڈیمیں ہم نے تعمیر کی ہیں وہ انہیں کی طرح کی باہری کمپنیوں کے ذریعہ تعمیر کی گئی طاغوتی دور کی ڈیموں سے بہتر اور بڑی ہیں نیز یہ کے لاگت بھی کم آئی ہے اورکام بھی ہمارااپناہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ کر سکتے ہیں ایٹمی بجلی گھربھی بنا سکتے ہیں اور بنانا چاہئے! آج شروع کریں گے تو چند سالوں کے بعد نتیجہ سامنے آجائے گا اگر چند سال بعد شروع کریں تو اس کے چند سال بعد تک نتیجہ آجائے گا اگر شروع ہی نہ کریں گے تو پیچھے رہ جائیں گے اگر یورینیم کی افزودگی شروع نہ کی ہوتی تو دس سال بعد بیس سال بعد مجبوراً شروع کرنا پڑتی ، کہتے ہیں کہ روس والے تمہیں افزودہ یورینیم دے رہے ہیں ایٹمی بجلی گھرپیداشدہ بجلی دے رہے ہیں توتمہیں خود کیا کرنا ہے امریکہ کے محترم کم عقل صدر نے بھی اپنے حالیہ بیان میں یہی فرمایا ہے کہ جب روس والے بیچ رہے ہیں تو ایران کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟ یہاں بھی کچھ لوگ جو نہ ان کے ایسے محترم ہیں اورنہ اتنے کم عقل، وہ بھی یہی بات دہرا رہے ہیں کہ روس تو بیچ رہا ہے آپ ملاحظہ کررہے ہیں یہ وہی پہلی دوسری بات ہے کہ تم خود یورینیم افزودہ کرکے کیا کرو گے یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی تیل کی دولت سے مالا مال ملک سے کہا جائے کہ تم اپنے یہاں تیل کے کنویں تعمیر کر کے کیا کروگے باہر سے خرید لو یعنی تیل کی دولت سے مالامال ملک تیل درآمد کرنے والا بن جائے ! کتنی مضحکہ خیز بات ہے! اگر کسی دن ان کی مرضی آگئی کہ اب ہم یہ ایندھن تمہیں نہیں دیں گے یا اس قیمت اور اس شرط پر دیں گے تو ایران ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔

جوہری توانائی قومی خود اعتمادی کی مضبوط پشت پناہ

دیکھئے ان چیزوں پر اگر توجہ کی جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ دشمن کے ناامیدی پھیلانے کی سازش کا ہی حصہ ہیں جوہری توانائی کا اتنا عظیم کام انجام پانے اور اس پرعوام کی طرف سے اس قدر خوشی کا اظہار کرنے کے بعد جناب منھ اٹھا کے کہہ رہے ہیں کہ ملک کوجوہری توانائی جیسی غیر ضروری چیز کی خاطر اس طرح کے مسائل میں کیوں بلاوجہ پھنسا رہے ہو؟ نا امیدی پھیلانا یہی ہے اسی چیز سے آپ کو بچ کے رہنا ہے یہ کام قومی خود اعتمادی کو نقصان پہونچانے والے امور میں سے ایک ہے افسوس کہ چند سال قبل یہی کام ہوا یعنی جوہری توانائی کا مسئلہ جسے ایرانی قوم کی قومی خود اعتمادی کےلئے ایک مضبوط پشت پناہ ہونا چاہئے تھا اسے ہم سے خود اعتمادی سلب کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا مستقل دباؤ ڈالا کہ کام بند کردو، یہ بند کردو، وہ بند کردو،جب اصفہان کی یو، سی، ایف کی فیکٹری میں پہونچے تو کہنے لگے کہ اسے بھی بند کردو، یہ بھی (ایٹم بم) کا مقدمہ ہے حقیر نے اس وقت حکام سے کہا تھا کہ اگر ان کی باتوں پر کان دھروگے تو یہ کل کہیں گے کہ اس ملک میں یورینیم کی جتنی بھی کانیں ہیں وہ سب اکٹھی کر کے ہمارے حوالہ کرو تاکہ ہم بالکل مطمئن ہو جائیں کہ تم ایٹم بم نہیں بنا رہے ہو!

اس عقب نشینی سے بھی ہمیں فائدہ پہونچا ایسا نہیں ہے کہ یہ بالکل غیر مفید رہی ہو اس کا فائدہ یہ ہواکہ ہمیںبھی اپنے یوروپی اور مغربی حریفوں کی باتوں اور وعدوں کا تجربہ ہوگیا اور عالمی رائے عامہ کو بھی! اب اگر کوئی ہم سے کہے کہ وقتی طور سے کام بند کردوتو ہم پوچھیں گےکہ کیوں ہم نے ایک بار وقتی طور سے کام بند کیا، دوسال تک کام بند رہا اس کا کیا فائدہ ہوا؟ پہلے کہا وقتی طور سے کام بند کردو، رضاکارانہ طور سے کام بند کر دو، ہم نے بھی وقتی اور رضاکارانہ سمجھ کے کام بند کردیا اس کے بعد جب پھر سے کام شروع کرنے کا نام لیا تو انہوں نے دنیا بھرکی میڈیا اور سیاسی محفلوں میں ایک تماشا بنا دیا ارے فریاد! ایران پھر سے، پھر سے کام شروع کرنے جا رہا ہے گویا کام بند کئے رہنا ایک مقدس چیزہے اس کے نزدیک بھی نہیں جایا جاسکتا تو ہمیں یہ تجربہ حاصل ہوا ہے آخر کار کہنے لگے کہ وقتی طور سے کام بند کرنا کفایت نہیں کرےگا بلکہ اس ایٹمی کام کی ہمیشہ کے لئے چھٹی کردو، انہیں یوروپیوں نے جب کہا کہ چھ مہینے کے لئے بند کرو تو ہم نے بند کر دیا اس کے بعد کہنے لگے کہ بالکل چھٹی ہی کر دو! توعقب نشینی سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہم کو بھی تجربہ ہوگیا اور عالمی رائے عامہ کو بھی! بہرحال ایک عقب نشینی تھی! عقب نشینی کی گئی!

میں نے اسی وقت حکام کے ساتھ ایک میٹنگ میں کہا تھا اورمیرا وہ بیان ٹی وی پر نشر بھی ہوا تھا کہ اگر ان کے مطالبات ایسے ہی بڑھتے رہے تو میں خود میدان میں اتروں گا اور پھر یہی کیا میں نے! میں نے کہا کہ عقب نشینی کا سلسلہ بند کرکے اس کی جگہ پیشروی کی جانی چاہئیے اور اس سلسلہ کا پہلا قدم بھی اسی حکومت میں اٹھنا چاہئے جس میں عقب نشینی اختیار کی گئی ہے! اور پھر یہی ہوا گذشتہ حکومت ہی کے دور میں پیشروی کی گئی پہلا قدم اٹھا، اصفہان کی یو،سی، ایف فیکٹری فعال کرنے کا فیصلہ لیا گیا، وہ فیکٹری فعال ہو گئی اور اس کے بعد سے آج تک بحمداللہ ترقی ہوتی آئی ہے۔

امریکہ سے تعلقات ہمارے لئےنقصان دہ ہیں

امریکہ کے ساتھ سیاسی تعقات ہمارےلئے نقصان دہ ہیں پہلی بات یہ ہے کہ اس سے امریکہ کا خطرہ ٹل نہیں جائے گا امریکہ نے عراق پر حملہ کیا در حالیکہ ان کے درمیان سیاسی تعلقات استوار تھے امریکہ کا سفیر یہاں اوریہاں کاسفیروہاں تعینات تھا ، تعلقات قائم کرلینے سے کسی بھی تسلط پسند پاگل طاقت کا خطرہ کم نہیں ہو جاتا اور دوسری بات یہ ہے کہ امریکہ سےکسی بھی ملک کے تعلقات صرف آج نہیں بلکہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہے کہ اس ملک میں امریکی ایجنٹوں کے فعال ہونے کا موجب بنتے رہے ہیں انگلینڈ والوں کابھی یہی طریقہ کار ہے انگریزوں کا سفارت خانہ بھی کئی سالوں تک قوم کے پست افراد سے رابطہ کا مرکز تھا وہ افراد کے جو دشمن کے لئے خود کو فروخت کرنے پر آمادہ ہیں۔ تو ان دونوں کے سفارت خانوں کا یہ ایک "کام" ہے۔

سترہ اٹھارہ سال قبل چین میں پیش آنے والے واقعات جن کی وجہ سے وہاں ایک غیر معمولی ہنگامہ ہو گیا تھا تمام تشویشناک صورتحال اور ہنگاموں کے پیچھے امریکی سفارت خانہ کا ہاتھ تھا، ایران میں انہیں یہ کمی محسوس ہو رہی ہے یہاں ان کے پاس کوئی مرکز نہیں ہے اور ایک مرکز کی یہاں انہیں ضرورت ہے اسی چیز کے پیچھے ہیں وہ! انہیں جاسوسوں اور خفیہ اہلکاروں کی بلا روک ٹوک آمدورفت اور یہاں کے پست اور ایجنٹ لوگوں کے ساتھ ان کےناجائزتعلقات کی ضرورت ہے اور یہ چیز انہیں میسر نہیں ہے تعلقات استوار کرنےسے ان کی یہ کمی پوری ہوجائےگی اب لوگ بیٹھ کے لمبی لمبی بحثیں کرتےاوردلیلیں پیش کرتے ہیں کہ امریکہ سے تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں نقصان ہو رہا ہے نہیں جناب! امریکہ سے تعلقات نہ ہونا ہمارے حق میں مفید ہے جس دن امریکہ سے تعلقات استوار کرنا ہمارے لئے مفید قرار پا جائے گا اس دن سب سے پہلے میں کہوں گا کہ امریکہ سے تعقات قائم کئے جائیں۔

کہتے ہیں کہ امریکہ سے دشمنی کیوں مول رہے ہو؟ فرض کیجئے کہ صدر کوئی سخت بیان دیتے ہیں تو نام نہاد عقلمند لوگ کہتے ہیں یہ بیان سخت تھا یہ امریکہ کی طرف سے دشمنی کا موجب بنے گا نہیں صاحب! امریکہ کی طرف سے دشمنی ان لفظوں اور عبارتوں کی پابند نہیں ہے وہ بنیادی طور سے دشمن ہے آغاز انقلاب سے اب تک مختلف ادوار میں دشمنی ہی دشمنی رہی ہے(فوجی حملہ کے خطرہ کے بارے میں بعد میں چند جملے کہوں گا) کم سے کم ان اٹھارہ سالوں میں یعنی آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ کے بعد سے اب تک ہر وقت یہ خطرہ سر پہ منڈلاتا رہا ہے یعنی ہمیشہ ایرانی قوم کو دھمکایا جاتا رہا ہے کہ یہ لوگ فوجی حملہ کر سکتے ہپں یہ کوئی آج کی بات تھوڑی ہے دشمن کا خطرہ ٹالنے والی چیزآپ کی طرف سے طاقت کا اظہار ہے آپ کی طرف سے کمزوری کا اظہار دشمن کی ہمت باندھتا ہے جو چیزدشمن کے سرپھرے پن کو لگام دے سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسے احساس ہو جائے کہ آپ طاقتور ہیں لیکن اگر اسے یہ احساس ہو گیا کہ آپ کمزور ہیں تو پھر جو اس کا دل چاہے گا وہ کرے گا۔

(ب) غیر منطقی اعتراضات

اس مقام پرمیںناامیدی پھیلانے کی ایک اور مثال عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں یعنی انصاف کا تقاضا ہے کہ یہ بات کہی جائے اور وہ بے جا اور غیر منطقی اعتراضات ہیں آپ ملاحظہ کیجئے کہ اس وقت ملک کا انتظامی عملہ جب بھی کوئی فیصلہ لیتا ہےتومخالفت پر کمر بستہ کچھ لوگوں کی طرف سے اعتراض کر دیا جاتاہے غیر منطقی اعتراض! اقتصادی فیصلہ ہو یا سیاسی! فن اور ثقافت سے متعق کوئی فیصلہ ہو یا بین الاقوامی مسائل سے متعلق!حکومت پر اعتراض کردیا جاتا ہے اب رہبر کے سلسلہ میں کچھ کہنے سے حجاب آتا ہوگا لہذا تھوڑا بہت خیال رکھتے ہیں لیکن حکومت پرآزادی واطمئنان سے توہین آمیز لہجہ میں باتیں کی جاتی ہیں یہ کام غلط ہے!

شاید یہ سب کرنے والوں کو خبر نہ ہو کہ ان کاموں کے کتنے غلط نتائج برآمد ہوتے ہیں یہ نا امیدی پیدا کرنا ہے یہ خود اعتمادی کے بالکل برعکس ہےاس سےاپنی شکست، انفعال اور کمتری کا احساس پیدا ہوتا ہے افسوس کی بات ہے اس طرح کے کام کرنے والوں اوراس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کو خبر نہیں ہے کہ ان کی ان حرکتوں کا کیا اثرہوتا ہے یہ بدخواہ افراد نہیں ہیں البتہ کچھ بدخواہ بھی ہیں لیکن زیادہ تر بدخواہ نہیں ہیں لیکن انہیں خبر نہیں ہے! اپنے کام کا صحیح سے جائزہ نہیں لے پارہے ہیں حکومت جب کوئی اقتصادی فیصلہ لیتی ہے تو اعتراض پراعتراض کیا جاتا ہے اور وہ بھی توہین آمیز لہجہ میں! کوئی سیاسی فیصلہ کرتی ہے توتب بھی یہی! بین الاقوامی مسائل سے متعلق کوئی فیصلہ لیتی ہے توتب بھی یہی! کہیں کا دورہ کرے تو اعتراض! کہیں کا دورہ منسوخ کرے تو اعتراض! جب ہم بس پر سوار ہو گئے ہیں اور اس کے ڈرائیور پر بھروسہ کر لیا ہے تو ہرموڑ پر تھوڑی اسے ٹوکا جا سکتا ہے صاحب! خیال رکھو! صاحب میرے ہاتھ کو یہ ہو گیا ہے! صاحب! میرا دل کانپ گیا! بھئی وہ ڈرائیونگ کر رہا ہے نا! چل رہا ہے اوریہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکومت واقعاً فعال اور اپنی بعض خصوصیات میں نمونہ ہے یہ جو ہر شہر کا دورہ کرتے ہیں میرے نزدیک بہت اہم ہے، بہت دلچسپ ہے۔ صدر، وزیراورملک کے اعلی انتظامی عہدہ دار ہرشہر میں جاتے ہیں یہ شہر شہر کا دورہ بہت مؤثرواقع ہوتا ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رپورٹیں تو ہم پڑھ ہی لیتے ہیں جی نہیں رپورٹیں پڑھنا اور دورہ کرنا دو الگ الگ چیزیں ہیں شاید اکثر عہدہ داروں سے زیادہ میرے پاس رپورٹیں آتی ہیں جب انسان کسی شہریا صوبہ کا دورہ کرتا ہے، عوام کے ساتھ بیٹھتا ہے جوانوں کے ساتھ بیٹھتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ رپورٹوں اور زمینی حقائق میں کتنا فرق ہے قریب سے دیکھنےاور سننے کی اہمیت رپورٹوں سے کہیں زیادہ ہے اور حکومت آج یہی کر رہی ہے ملک کے ہر علاقہ کا دورہ کرتی ہے اب اس میں سے کوئی نقطہ پکڑ لیتے ہیں اور اسے کمزور پوائنٹ بنا کر اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں اس دورہ میں سو عدد منصوبے کیوں بنائے ہیں جبکہ ان میں سے صرف پچاس ہی قابل عمل ہیں؟ تو ٹھیک ہے اگر پچاس پر ہی عمل ہو جائے تو یہ بہتر نہیں ہے؟ یہی نا امیدی پیدا کرنا ہے بےجا اعتراضات! کیوں وہاں کا دورہ کیا؟ کیوں وہاں کا دورہ نہیں کیا؟ یہی اعتراضات مایوسی پیدا کرتے ہیں اور میں نے عرض کیا کہ یہ سب کرنے والے اکثر لوگ اپنےاس کام کےعواقب کی طرف متوجہ نہیں ہیں آخراس حکومت میں بھی کچھ کمزوریاں ہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ حکومت کمزوریوں سے بالکل مبرا ہے دوسری حکومتوں کی طرح اس کی بھی کچھ خطائیں ہیں کمزوریاں ہیں لیکن اگر میں نقائص نکال رہا ہوں تو کیا مجھ میں کوئی نقص نہیں ہے؟ ہمارے نقائص بھی بہت ہیں ایک دو تھوڑی ہیں انسان جائزالخطا ہے اسے کوشش کرنی چاہئے کہ غلطیاں نہ کرے یا کم غلطیاں کرے اگرکوئی دوسرے میں کوئی غلطی دیکھے تو اسے چاہئے کہ اسے ہمدردی سے دوسرے کے گوش گذار کرے ،شور ہنگامہ مچانا، لوگوں کو مایوس کرنا انکی خود اعتمادی پر ضرب لگانا انہیں مستقبل کےتئیں نا امید کرنا کہیں سے روا نہیں ہے یہ میری سب سے تاکید ہے میڈیا سے بھی، اخبارات سے بھی حکام سے بھی اور ان افراد سے بھی جن کے پاس عوام سے مخاطب ہونے کا کوئی نہ کوئی اسٹیج ہے پارلیمنٹ، نماز جمعہ۔ یونیورسیٹی یا کوئی دوسرا اسٹیج! ملکی مفاد و مصلحت اسی میں ہے ملک کی مصلحت کے تقاضے کی رعایت ضروری ہے تویہ بھی قومی خود اعتمادی سے مقابلہ کا ایک طریقہ ہے۔

(ج) مطبوعاتی حقارت

حالیہ برسوں میں ایک تیسرا طریقہ بھی مغربیوں نےنکالاہے جس کا استعمال بڑی شدومد سےکیا جارہا ہے اور وہ ہے مطبوعاتی حقارت! اخباروں کے ذریعہ غلط بےبنیاد تبلیغات! آدمی سوچتا ہے کہ غلط تبلیغات وغیرہ تو کچھ ہی لوگ کرتے ہیں اور وہ بھی کسی خاص جگہ لیکن ایسا نہیں ہے اس وقت بین الاقوامی سطح پرغلط تبلیغات کی ایک قسم رائج ہے اور وہ ہے اخبارات کی بے بنیاد تبلیغات، اس وقت ذرائع ابلاغ بھی فراوان ہیں۔

امریکی انسانی حقوق کی مثالیں

انسانی حقوق کا شور شرابا بھی ایک مسخرہ بازی ہے انسانی حقوق کی باتیں وہ کر رہے ہیں جن کے گوانتا نامو بہ پر ہر شریف انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے ان کے صدرجمہوریہ کی طرف سے ایذارسانی کی منظوری انسان کو اس حقیقت کے آگے شرمندہ کردیتی ہے۔ گوانتاناموبہ کی فائلیں، تفتیشی کاروائیوں کی فائلیں اعلی افسران کے حکم سے نذرآتش کردی جاتی ہیں جو لوگ اس قدر انسانی حقوق سے لاپرواہ ہیں جو لوگ قوموں کی تحقیر کرتے ہیں۔ اس وقت آپ عراقی عوام سے جا کے پوچھئے تو سب سے پہلے یہی کہیں گے کہ یہ لوگ ہماری توہین کرتے ہیں سب سے پہلا مسئلہ بھوک اور بے روزگاری نہیں ہے عرب جوان میں ایک قسم کی نخوت ہوتی ہے ایک قسم کا غرور ہوتا ہے اسے آکر اس کی اہلیہ کے سامنے ہتھکڑی لگاتے ہیں اسے پیٹ کے بل لٹا کے اوپر سے جوتوں سے دباتے اور پیٹتے ہیں اسے شرمندہ کرتے ہیں یہ لوگ اس قدر انسانی حقوق سے انجان ہیں! عراق کی ابو غریب جیل میں ملزمان کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں کہ اسے یاد کرکے بھی انسان کو شرم آتی ہے مجھے کبھی یاد آئے تو شرم آجاتی ہے پھر آکے یہ لوگ بات کرتے ہیں انسانی حقوق کی! اور اسلامی جمہوریہ اور اپنے مخالف ہر ملک پر الزام لگاتے ہیں کہ تم انسانی حقوق پامال کررہے ہو یہ مسخرہ بازی نہیں توکیا ہے؟ اب یہی مسخرہ بازی جو باہری دشمن کر رہا ہے افسوس کہ ملک کے اندر بھی اسے دہرایا جاتا ہے اور اس کی صدائے بازگشت سنائی دیتی ہے وہی باتیں یہ لوگ بھی کہتےہیں۔

امریکی جمہوریت کی مثالیں

جمہوریت میں دیکھئیے تو وہ لوگ کہ جو کودتا سے تشکیل پانے والی حکومتوں کی حمایت کرتے ہیں" کودتا سے تشکیل پانے والی حکومتیں اس وقت ہیں میں نام نہیں لینا چاہتا آپ خود جانتے ہیں" موروثی حکومتوں کی باقاعدہ پشت پناہی کرتے ہیں جہاں جمہوریت کے نعرے لگا کر فوج لے کے گئے وہاں انہوں نے جمہوریت قائم کرنا ہی نہیں چاہی عراق میں پہلے فوجی حکمراں کو تعینات کیا جب دیکھا کہ کام آگے نہیں بڑھ رہا ہے تو سیاسی حکمران تعینات کیا پھر الیکشن کی مخالفت کی ان کی مرضی کے برخلاف انتخابات ہوئے اور اب مستقل عوام کی منتخبہ حکومت اورپارلیمان کو دھمکا رہے ہیں اس کے بعد ہم سے کہہ رہے ہیں کہ تمہارے یہاں جمہوریت نہیں ہے اور پھر ملک کے اندر بھی کچھ لوگ یہی بات دہرا رہے ہیں اس پر واقعاً مجھے تعجب ہے! یہ سب نا امیدی پیدا کرنا اور مسخرہ بازی ہے جوکہ قومی خود اعتمادی کے بالکل بر عکس ہے۔

انتخابات جمہوریت کا واضح نمونہ

ہم ہر سال ایک الیکشن کراتے ہیں ایسا ہی ہے نا؟ کیا لوگ الیکشن میں حصہ نہیں لیتے؟ دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت کے دعوے کئے جاتے ہیں وہاں اس کے علاوہ کچھ اور ہوتا ہے؟ اس قدر شوق سے لوگ مختلف انتخابات میں حصہ لیتے ہیں رقابتیں ہوتیں ہیں مختلف پارٹیوں کے بیچ رقابتیں ہوتی ہیں اس کے با وجود اب یہ بات، جو بھی کہہ رہا ہو وہ دشمن ہے ملک کے اندرکچھ لوگ صاف کہتے ہیں کہ جمہوریت نہیں ہے عوام کی حکومت نہیں ہے یا صاف صاف نہیں کہتے لیکن ایسے کہتے ہیں کہ اس کے معنی بھی وہی "نہیں ہے" کے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں ملک میں عوامی اقتدار لانے کی کوشش کرنی چاہئے توکیا آپ جو چیز موجود ہے اسی کو وجود میں لانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں؟ یہ بھی ان چیزوں میں سے ہے جو قومی خود اعتمادی کے بالکل بر عکس ہیں ہماری قوم کوخوداعتمادی کی ضرورت ہے اور خود اعتمادی ہونی چاہئے۔

مغرب کو حقوق نسواں کے سلسلہ میں جوابدہ ہونا چاہئے

خواتین کے مسئلہ کے بارے میں ، میں نے بار ہا اپنی عزيز بہنوں ، بیٹیوں اور بچیوں سے کہا ہے اور آج پھرسنجیدگی سے کہہ رہا ہوں کہ عورت کے بارے میں جسے جواب دینا چاہئیے جس کا دامن داغدار ہے وہ مغرب ہے اسلام نہیں ہے! اسلامی جمہوریہ نہیں ہے! جنہوں نے مخالف جنسوں کے بیچ کی حدیں مٹا ڈالی ہیں قول وفعل پروپیگنڈہ اور یہاں تک کہ فلسفہ کےذریعہ جنسی آزادی کی ترویج کی ہے انہیں جوابدہ ہونا چاہئے ان کے اس کام کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرد کے اندر فطری طور سی پائی جانے والی عورت سے زیادہ طاقت اور عورت کے ساتھ جارحیت کے ساتھ پیش آنے کی خو کی وجہ سے عورت مظلوم واقع ہوئی اور اس کے حقوق پامال کرڈالے گئے عورت کو اپنا مال بیچنے کا ذریعہ بنا لیا گیا تجارتی مال کی طرح! آپ مغربی جرائد ملاحظہ کیجئیے! کوئی چیز بیچنے کے لئے عورت کو برہنہ دکھاتے ہیں عورت کی اس سے بڑی توہین بھی کوئی ہو سکتی ہے؟ ان لوگوں کو جواب دینا چاہئے۔

پردہ عورت کا احترام ہے

حجاب اس شخص کا احترام ہے جو حجاب میں ہے عورت کا حجاب عورت کا احترام ہے ماضی میں اکثر ممالک کے اندر(چونکہ مجھے سب کی خبر نہیں اس لئے اکثر کہہ رہا ہوں) اسی یوروپ میں دوسوسال پہلے شریف گھرانوں کی عورتیں اپنے چہرے پر نقاب سا ڈالے رہتی تھیں شاید بعض پرانی فلموں میں آپ نے دیکھا ہو ایک نقاب ڈالے رہتی تھیں تاکہ ان پر نظریں نہ پڑیں یہ احترام ہے قدیم ایران میں رؤسا و شرفا اوربڑے لوگوں کی عورتیں حجاب میں رہتی تھیں لیکن نچلے طبقوں کی عورتیں بے حجاب بھی نکل آتی تھیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں سمجھا جاتا تھا اسلام نے آکریہ تفریق ختم کی اسلام نے کہا کہ نہیں عورت کو پردہ میں رہنا چاہئے یعنی یہ احترام ساری عورتوں کے لئے ہے ، یہ ہے اسلام کا نظریہ! اس سب کے باوجود وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں اور ہمیں جواب دینا پڑ رہا ہے وہ جواب دیں انہیں جواب دینا چاہئے کہ کیوں انہوں نے تجارتی مال کی طرح عورت کو ہوس رانی کا ذریعہ بنایا ہے ابھی کل ہی مجھے ایک ہفتہ پہلے کے اعداد وشمار بتائے گئے ہیں کہ دنیا کی ایک تہائی عورتیں مردوں کے ہاتھوں پٹتی ہیں میرے خیال سے تو اس بات پر آدمی کے آنسو نکل آنے چاہئے یہ رلانے والی بات ہے یہ زیادہ ترصنعتی ممالک میں ہوتا ہے مغربی ممالک میں ہوتا ہے اور یہ نتیجہ ہے جنسی تشدد اور عورت سے تشدد آمیز جنسی مطالبات کا! عورت کے سلسلہ میں یہ ہے ان کا وحشی پن! اس کے بعد عورت کے موضوع پر بات کرتے ہیں کہ تم نے پردہ لازمی قراردیا ہے جبکہ وہ بےپردگی کو لازمی قرار دے رہے ہیں خاتون طالب علم کواس بات پر یونیورسیٹی میں گھسنے نہیں دیتے کہ اس نے اسکارف اوڑھ رکھا ہے اسکے بعد ہم سے کہہ رہے ہیں کہ تم نے پردہ کو کیوں لازمی کررکھا ہے یہ عورت کا احترام ہے اور وہ(جوتم کر رہے ہو) وہ پردہ دری اور عورت کی بے احترامی ہے۔ مغرب کی مسخرہ بازی کی اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔

خوداعتمادی حقارت کی زد پر

میں اس بات سے پریشان ہوں کہ وہ اپنی غلط تبلیغات کے ذریعہ اپنےمطلوبہ نتائج تک نہ پہونچ جائیں خود اعتمادی پر بات کرنے کی ایک وجہ یہی ہے پہلے مرحلہ میں یہ مسخرہ بازی ہمارے تین چار ممتاز لوگوں پر اثر ڈال دے انہیں مغرب کی اہانتوں پرایرانی قوم کی طرف سے شرم کا احساس ہونے لگے اس کے بعد وہ وار کرنا شروع کردیں اور اس طرح خود اعتمادی پر چوٹ پہنچے، یاد رکھئے کہ یہ حقارت کسی قوم کی خود اعتمادی توڑنے کےتین طریقوں میں سے ایک ہے۔

سخت کاروائی کا خطرہ

سخت کاروائی بھی ایک مسئلہ ہے البتہ اب اس کا خطرہ کم ہے۔ پہلے کی نسبت کم ہے یہاں بھی میں عرض کر دوں کہ کہ نا انصافی سے کام لیا جاتا ہے گویا ہم ہی ہیں جنہوں نے تسلط پسند امریکی حکومت کی دھمکیوں کا رخ اپنی جانب موڑا ہے ایسا نہیں ہے میں نے عرض کیا کہ عراق کی طرف سے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے اختتام کے بعد سے لے کر آج تک کوئی وقت ایسا نہیں گذرا ہے جب امریکی حملہ کا خطرہ نہ رہا ہو اب پہلے سے کم ہے گذشتہ حکومت کے افراد شروع میں جب آئے تو کہنے لگے کہ ہماری حکومت بننے سے قبل امریکی توپیں اوربندوقیں ایران کی طرف رخ کئے فائر کے لئے آمادہ تھیں ہم آئے تو انہیں ہٹا لیاگیا تو بہرحال خطرہ پہلے سے تھا اسی گذشتہ حکومت کے دور میں بدی کے مجسمہ نے ایرانی قوم کو بدی کا ایک محورقرار دیا یہ اس وقت کی بات ہے جب امریکیوں کا کچھ خیال رکھا جا رہا تھا ملک کے اندر بھی بعض اوقات کچھ انہیں خوش کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کہتے رہتے تھے البتہ یاد رکھئے کہ ملک کے اعلی حکام،صدور، بلند پایہ عہدہ دار وغیرہ ان تمام ادوار میں مخلص اور نظام کے بنیادی اصولوں کے پابند رہے ہیں یہ انقلابی تھے یہ باتیں ان لوگوں سے متعلق نہیں ہیں یہ ان افراد سے متعلق ہیں جو ہر جگہ ساتھ ساتھ لگے رہتے ہیں اور ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن کا اصل شخص معتقد نہیں ہوتا بہر حال یہ سب رہا ہے۔

البتہ ہمیں ایک قوم ایک ملک اور نظام ہونے کے ناطے ہمیشہ فوجی لحاظ سے چوکس رہنا چاہئے آج اگر امریکہ ہے تو ممکن ہے کل سوویت یونین رہا ہو کبھی ممکن ہے صدام کی طرح کا کوئی شرپسند پڑوسی ہی ہو ہمیں ہروقت چوکنا رہنا پڑے گا البتہ ہم چوکس ہیں بھی، آج جب بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ فوجی کاروائی کی فائل امریکہ کی میز سے ہٹ گئی ہے اور بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ فائل کبھی میز پر تھی ہی نہیں جو اسے ہٹانے کا سوال پیدا ہو میرا خیال ہے اورہمارا عمل بھی یہی ہے کہ ہمیں چوکس رہنا چاہئے، ہوشیار رہنا چاہئے، فوجی عہددہداروں کو بیدار رہنا چاہئے قوم کو ہوشیار رہنا چاہئے!

بات سمیٹی جائے کہ ہر دور میں قومی خوداعتمادی ہماری قوم کی ضرورت ہے خاص طور سے آج کے دور میں! خاص طور سے اس لئے کہ دشمن مختلف مواقع پر ایرانی قوم کے مقابلہ میں آکر شکست کھا گیا ہے اس لئے نئی ترکیبوں، نئے چارہ کار اور نئی مکاریوں کی تلاش میں ہے" و مکروا و مکراللہ" آپ بھی خدا کے بندے ہیں اس کے مکر اور چال کے مقابلہ میں اپنی غیر معمولی ہوشیاری کا مظاہرہ کیجئے۔

خود اعتمادی کے موضوع پر غور کرنے کی ضرورت

جو چیزیں خود اعتمادی میں ضعف لاتی ہیں ان سے پرہیز کیا جائے خاص طور سے ممتاز افراد کو پرہیز کرنا چاہئیے ان میں سے کچھ ایک کا میں نے ذکر کردیا ہے باقی آپ خود اس پر غور کیجئے مطالعہ کیجئے! جو چیزیں خوداعتمادی کو مضبوط کرتی ہیں ان کی تقویت کیجئے طلبہ اپنی نشریات میں، استاد کلاس میں، طلبہ اپنی تنظیموں کے اندر اور اس کے علاوہ جہاں بھی طالب علم دوسروں کو اپنے سے متاثرکر سکے(وہاں دوسرے شخص میں خوداعتمادی کی تقویت کی جا سکتی ہے)

مؤثر طالب علم

برادران میں سے کسی نے کہا کہ طلبہ بہت موثر واقع ہو سکتے ہیں لیکن ہر بات میں ان سے مشورہ نہیں لیا جاتا مشورہ کے لئے ایک خاص ماحول کی ضرورت ہوتی ہے بغیر مشورے کے کوئی کام نہیں ہو رہا ہے۔ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ حکام کو مشور دینے سے کہیں زیادہ ایک طالب علم اپنے زیر اثر انسانوں کوراستہ دکھانے میں کامیاب ہو سکتا ہے آپ اپنے گھر پر اثرڈال سکتے ہیں، اپنے بھائی بہنوں کو متاثر کر سکتے ہیں، اپنے ماں باپ پر اثر ڈال سکتے ہیں اپنی ذاتی زندگی میں اپنے کسی خاندان والے، دوست، کھیل کے ساتھی وغیرہ کو آپ اپنا ہم خیال بنا سکتے ہیں ان پر آپکی زبان، رفتار اور کردار کااثرہو سکتا ہے ایک طالب علم کےلئے یہ بہترین توفیق اور کامیابی ہے یعنی جہاں جہاں طالب علم اپنا اثر قائم کر سکتا ہے وہاں اپنا اثر قائم کرنا بہت بڑی توفیق ہےاس کیلئے اس سے زیادہ بھی مواقع ہیں۔ خاص طور سے اس وجہ سے کہ آپ جوان ہیں اپنی جوانی کی قدر پہچانئے! جوانی کی تازگی اور حوصلوں کی قدر پہچانئے ہم لوگ خوف واختناق کے دور میں۔۔۔ خیر! اپنے بارے میں زیادہ نہیں کہنا چاہئے بہر حال آپ ہمارے اس وقت سے کہیں آگے ہیں چلئے یہ بھی بتائے دیتا ہوں اس میں کوئی حرج نہیں ہے جب ہم آپ کی عمر کے جوان تھے تو سلامتی کی صورتحال کہیں جانے یا کہیں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی تھی جب کہیں مجبوراً بات کرنا پڑتی تھی تو تین چار گھنٹے لگاتار کھڑے کھڑے بحث و گفتگو اور کہنے اور سننے میں لگ جاتے تھے! جوان میں طاقت ہوتی ہے، شادابی ہوتی ہے توانائی ہوتی ہے وہ اپنی اس جوانی کی طاقت کے ذریعہ دوسروں پر اپنا اثر ڈال سکتا ہے خلاصہ یہ کہ خود اعتمادی کو کمزور کرنے والی چیزیں جتنا ہو سکےاتنا مٹائی جائیں اور خود اعتمادی کو مضبوط کرنے والی چیزیں جتنا ہو سکے اتنا مضبوط کی جائیں۔

پروردگارا! ان نورانی، پاک، روشن اورتجھ سے تقرب کی استعداد رکھنے والےدلوں کو اور نورانی بنا! انہیں اپنے سے زیادہ سے زیادہ نزدیک کر! ان کی عاقبت بخیر کر! پروردگارا! اس ملک کا مستقبل جو ان جوانوں کے ذریعہ تعمیر ہوگا اسے حال اور ماضی سےکہیںزیادہ بہتراورخوبصورت قرار دے! پروردگارا! اس رہ پر چلنے والے بزرگ اساتید اور ان میں سر فہرست ہمارے بزرگوارامام (رہ)اورعزیز شہدا کو اپنے اولیاءکے ساتھ محشور فرما! اس شہر اور اس صوبہ کے برجستہ شہدا بزرگوار شہید مرحوم آیت اللہ صدوقی اور اس صوبہ کے دیگر عزیز شہدا کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کر!

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ