ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

ولی امر مسلمین کا پیغام حجاج بیت اللہ الحرام کے نام


ولی امر مسلمین کا پیغام حجاج بیت اللہ الحرام کے نام
ولی امر مسلمین ، رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حجاج بیت اللہ الحرام کے نام اپنے پیغام میں حج ابراہیمی کو حقیقی توحید کا مرکز و محور قرار دیا، اورحج کے عظیم دروس کو دہرانے اور ان کو عملی جامہ پہنانے پرتاکید کرتے ہوئے فرمایا : مشرکین سے برائت اور بتوں و بت گروں سے بیزاری، مؤمنین کے حج کی روح رواں ہے اور حج کا ہر رکن و مقام ، مسلمانوں کے درمیان باہمی اتحاد اور اسلامی انسجام کا مظہراورحقیقی و ایمانی اخوت و برادری کا آئینہ دار ہے۔

رہبر معظم کے پیغام کا متن حسب ذیل ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید نا محمد المصطفی و علی آلہ الاطیبین و صحبۃ المنتجبین

بیت اللہ الحرام کے زائروں ، خداوند متعال کے مہمانوں اور اس کی دعوت پر لبیک کہنے والوں پر سلام ۔
درود وسلام ہو ان دلوں پر جو یاد خدا کی طراوت سے مملو ہیں اور جنھوں نےخدا کی بیشمار رحمت اور اس کا فیض حاصل کرنے کے لئے اپنے دل کے دریچوں کو کھول رکھا ہے ۔ان قیمتی شب و روز و گرانقدر لمحات میں بہت سے ایسے قدر شناس افراد ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو معنویت کے حوالے کردیا ہے اور اپنی روح و جان کو توبہ واستغفار کے نور سے منور کیا ہے اور اس مقدس وادی میں خداوند متعال کی طرف سے مسلسلنازل ہونےوالی رحمت کی موجوں کے ذریعہ اپنے آپ کو شرک اورگناہوں کی آلودگیوں سے پاک و صاف کیا ہے خدا کا سلام ہو ان پاک و پاکیزہ دلوں اور ان صاحب دلوں پر ،
تمام بھائیوں اور بہنوں کے لئے سزاوار ہے کہ وہ اس عظيم و گرانقدر سرمایہ پر اپنی توجہ مبذول کریں اور اس فرصت سے بھر پور فائدہ اٹھائیں، اس معنوی مقام پر مادی زندگي کے بارے میں اپنے دلوں کو مشغول نہ کریں کیونکہ یہ تو ہمارا دائمی مشغلہ ہے۔اس مقام پر خدا کی یاد اس کی بارگاہ میں توبہ و استغفار ، تضرع و زاری ، پاک و پاکیزہ کردار، سچائی اور نیک فکرپر اپنا عزم بالجزم کریں اور خداوند متعال سے اس سلسلے میں مدد و نصرت طلب کریں اور اپنے دل کو توحید اور معنویب کی خالص فضا میں پرواز کا موقع فراہم کریں، خدا کی راہ و صراط مستقیم پر پائدار رہنے کے لئے توشہ فراہم کریں ۔
یہاں حقیقی اور خالص توحید کا مرکز و محور ہے ۔ یہ وہی مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم (ع)نے اپنے نفس پر غلبہ پیدا کرتے ہوئے توحید کا سبق دیا اور پروردگارکا حکم بجالانےاور اپنے پارہ جگر کو اس کی راہ میں قربان کرنے کے لئے منی میں حاضر کیا اور اپنے اس عمل کو عالمی تاریخ کے تمام موحدوں کے لئے یادگار بنادیا ،یہ وہی مقام ہے جہاں سرور کونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے طاقت و دولت کے نشے میں مخمور متکبروں کے سامنے توحید کا پرچم بلند کیا ۔اور خداوند متعال پر ایمان کے ساتھ طاغوتی طاقتوں سےبیزاری کو مسلمانوں کی نجات و رستگاری و فلاح و بہبود کی شرط قراردیا : فمن یکفر بالطاغوت و یؤمن باللہ فقداستمسک بالعروۃ الوثقی(1)۔۔۔
حج ان عظیم دروس کو یاد کرنے اور سمجھنے کا مقام ہے ۔ مشرکوں ، بتوں اور بت گروں سے بیزرای و نفرت ، مؤمنین کے حج کی روح رواں ہے مؤمنین کی طرف سے اپنے دل کو خدا کے سپرد کرنے کی تلاش وکوشش اور شیطان سے برائت و بیزاری، اس پر رمی کرنا اور اس کے مد مقابل محاذ قائم کرنا حج کے ہر مقام پرنمایاں ہے ۔ اور مسلمانوں کےدرمیان باہمی اتحاد و انسجام ویکجہتی اور حقیقی اخوت و برادری اور ایمانی طاقت کے جلوے اورقومی و قبائلی اور قدرتی واعتباری تفاوتوں کےختم ہونےکے آثار حج کے ہر مقام پر نظر آتے ہیں ۔
یہ وہ دروس ہیں جو دنیا کے ہر خطے کے رہنے والے مسلمانوں کو یاد کرنا چاہیے اور ان دروس کی بنیاد پر اپنی زندگي اور اپنےمستقبل کے پروگراموں کو استوار کرنا چاہیے۔
قرآن کریم میں دشمنوں کے مقابلے میں اسلامی معاشرے کے اقتدار و عزت وعظمت کے سلسلے میں تین علامتیں ہیں جو خدا وند متعال کی بندگی ،عبودیت ، مؤمنین کے درمیان مہر و محبت و رافت و رحمت اور دشمن کے مد مقابل اسقامت و پائداری پر مشتمل ہیں ۔
محمد رسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفار ، رحماء بینہم ، تراھم رکعاً سجداً یبتغون فضلاً من اللہ و رضواناً(2)۔۔۔ یہ تین چیزيں مسلمانوں کی عزت و عظمت اور ان کی سرافرازی کے اصلی رکن ہیں ۔
ہر مسلمان اس حقیقت پر توجہ رکھتے ہوئے عالم اسلام کی موجودہ مشکلات کے علل و اسباب کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے ۔
آج دنیا کی سامراجی ، استکباری اور متکبر طاقتیں اور ان کو چلانے والے سامراجی مراکز امت اسلامی کی بیداری کو اپنے ناجائز مفادات کےلئے بہت بڑا خطرہ اور چیلنج تصور کرتے ہیں ۔ اور ان سامراجی و منہ زور اور تسلط پسند طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام مسلمانوں خاص طور پر مسلم سیاستدانوں ، علماء و دانشوروں اور مفکرین کو امت اسلامی کا متحد و مضبوط و مستحکممحاذ تشکیل دیناچاہیے اور اسلامی قدرت و طاقت کو ایک جگہ جمع کرکے امت اسلامی کو حقیقی معنوں میں عزت و عظمت سے سرافراز کرنا چاہیے ۔ علم و دانش ، تدبیر و ہوشیاری ،ذمہ داری کا احساس ، تعہد ، خدا پر توکل اس کے وعدوں پر امید ، خدا وند متعال کی مرضی و خشنودی کو حاصل کرنے کے لئےمعمولی اور حقیر چیزوں سے چشم پوشی ، اپنی ذمہ داری پر عمل ، امت اسلامی کے اقتدار کے اصلی عناصر میں شامل ہیں ۔جو امت اسلامی کو معنوی و مادی میدان میں پیشرفت اور عزت و استقلال تک پہنچاسکتے ہیں اور دشمن کو اسلامی ممالک پر حملے ،دست درازی اور افزوں طلبی سے باز رکھ سکتے ہیں ۔
مؤمنین کے درمیان مہر و عطوفت امت اسلامی کی موجودہ حالت کو بہتر بنانے کی دوسری علامت ہے ۔ امت اسلامی کے بعض حصوں میں اختلافات اور تفرقہ ایک خطرناک بیماری ہے ۔ اور اس بیماری کاپوری طاقت کے ساتھ علاج ضروری ہے ۔ اسلام دشمن عناصر طویل مدت سے اس سلسلے میں اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب وہ امت اسلامی کی بیداری سے سخت خوف و ہراس میں مبتلا ہیں ۔ لہذا اس نے امت اسلامی کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی کوششیں بھی مزید تیز تر کردی ہیں۔قومی ہمدردی رکھنے والے افراد کا یہی کہنا ہے کہ تفاوتوں کو تضاد میں اور مختلف النوع ہونے کو آپسی دشمنی ،جھگڑے اور لڑائی میں نہیں بدلنا چاہیے ۔
ایرانی عوام نے اس سال کو اسلامی اتحاد و یکجہتی کا سال قراردیا ہے یہ نام درحقیقت دشمنوں کے شوم پروپیگنڈوں نیز ان کی طرف سے امت اسلامی کے درمیان اختلافات ڈالنے کی سازشوں کے پیش نظر رکھا گیا ہے ۔ دشمن کی یہ سازشیں فلسطین ، لبنان ، عراق ، پاکستان اور افغانستان میں کار گر ثابت ہوئی ہیں جہاں ایک مسلمان ملک کے لوگ اپنے ہی بھائیوں کے خلاف صف آرا ہوگئے اورانھوں نے ایک دوسرے کا خون بہانے پر کمر ہمت باندھ لی ،ان تمام تلخ اور دردناک حوادث میں دشمن کی سازشیں آشکار تھیں اور تیز نگاہوں نے ان سازشوں کے پیچھے دشمن کا ہاتہ دیکھ لیا ۔
حکم خدا " رحماء بینھم " کا مطلب یہ ہے کہ آپسی دشمنیاور لڑائیوں کا سلسلہ ختم ہو ۔ آپ ان مبارک ایام میں ، دنیا کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ سب ایک ہی گھر کے ارد گرد طواف کررہے ہیں ، ایک ہی کعبہ کی طرف نماز ادا کررہے ہیں ، شیطان کی علامتوں پرمل کر پتھر پھینک رہے ہیں،قربانی کرنے کی منزل میں ایک جیسا عمل انجام دے رہے ہیں ، عرفات و مزدلفہ میں ایکدوسرے کے ساتھ ملکرخدا کی بارگاہ میں تضرع وزاری کررہے ہیں ، اسلامی مذاہب اصلی ترین فرائض و احکام اور عقائد میں ایک دوسرے کے اس قدر نزدیک ہیں اس عظیم اتحاد کے بعد معمولی تعصبات اور قبل از وقت فیصلوں کی بنا پر کیوں مسلمانوں کے درمیان فتنہ و فساد اور جھگڑے کی آگ پھیلائی جائے ؟!۔ جبکہ دشمن بھی اس آگ پر مزید تیل چھڑکنے کا کام کرتا ہے ۔ آج وہ لوگ جو بے عقلی ، نادانی اور جہالت کی بنا پر مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقے پر کفر و شرک کا الزام عائد کرتے ہیں ،اور انکا خون بہانا جائز سمجھتے ہیں وہ لوگ خواہ نخواہ ، سامراجی طاقتوں اور کفر و شرک کی خدمت کررہے ہیں بہت سے لوگ جنھوں نے پیغمبر اسلاماور آئمہ طاہرین کی عزت و تکریم کو کفر وشرک قراردیا اور وہ خود کافروں اور ستمگاروں کے حامی اور مددگار بن گئے ۔جبکہ پیغمبر اسلام (ص) اور اہلبیت اطہار ، اور اولیاء خدا کی عزت و تکریم حقیقی دینداری ہے ۔
اسلام کے سچے علماء ، متعہد مفکرین اور اچھے حکمرانوں کو ان خطرناک سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہیے ۔
اسلامی اتحاد و انسجام آج ایک اہم فریضہ ہےجس کو اسلامی مفکرین ، دانشوروں اور صاحبان عقل و خرد کے تعاون سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔
عزت کےیہ دو رکن؛ یعنی ایک طرف سامراجی طاقتوں کے مقابلے میں مقتدر محاذ کا قیام ، اور دوسری طرف مسلمانوں کے درمیان مہر و محبت ، اخوت و برادری کے قیام کے ساتھ جب تیسرےرکن یعنی خدا کی بندگي اور عبودیت کے ہمراہ ہوجائیں گے تو اس وقت امت اسلامی، صدر اسلام کے مسلمانوں کی طرح عزت و عظمت کی طرف گامزن ہوجائے گی ۔اور پھر امت اسلامی دشمنوں کی طرف سے عائد کی گئی پسماندگی ، ذلت و حقارت سے نجات پاجائے گی ۔اس عظیم تحریک کا آغاز ہوچکا ہے اور امت اسلامی کی بیداری کا سلسلہ پوری دنیا میں شروع ہوگیا ہے اوردنیا میں جہاں کہیں اسلامی ممالک میں اٹھنے والی بیداری سے سامراجی طاقتوں پر چوٹ پڑتی ہے تو وہاس کو ایران یا شیعیتکی طرف نسبت دینے کی کوشش کرتی ہیں اور جمہوری اسلامی ایران کو اس کا ذمہ دار قراردیتی ہیں کیونکہ ایران نے دنیا میں اسلامی بیداری پیدا کرنے میں اہم اور سرگرم کردار ادا کیا ہےحزب اللہ کی 33 دن کی لڑائی میں اسرائیل پر تاریخی فتح ، عراقی عوام کا مدبرانہ قیام اور تسلط پسند طاقتوں کی مرضی کے خلاف عوامی حکومت اور پارلیمنٹ کی تشکیل ، فلسطین کی قانونی حکومت کا پائدار صبر اور فلسطینی عوام کی فدا کاری اور مسلمان ممالک میں اسلام کی حیات نو کی بہت سی ایسی علامتیں ہیں جن پر دشمن ، شیعہ سازی ، ایران سازی جیسے الزامات عائد کرتے ہیں تاکہ امت اسلامی کی یکجہتی و اتحاد میں خلل ایجاد کرسکیں لیکن ان کا یہ مکر وفریب سنت الہی کو نہیں بدل سکے گا جس میں دین خدا کی نصرت کرنے والوں اور مجاہدین فی سبیل اللہ کی فتح و کامیابی کو حتمی و یقینی قراردیا گیاہے ۔
مستقبل ، امت اسلامی کے ہاتھ میں ہے ۔اور ہم سب کو اپنی طاقت و توانائی کے لحاظ سے اس مستقبل کو نزدیک تر بنانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ حج کےمناسک آپ سب کو مبارک ہوں ، حاجیوں کواس فرض کو ادا کرنے کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ بہتر موقع ملا ہے ۔
امید ہے کہ خداوند متعال کی توفیق اور حضرت امام مہدی موعود عجل اللہ لہ الفرج ، کی دعا ، آپ کو اس عظیم مقصد میں مدد و نصرت عطا کرے ۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
السید علی الحسینی الخامنئی
٤ ذی الحجہ ١٤٢٨

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1. سورۃ البقرہ، الآيۃ 271
2. سورۃ الفتح، الآيۃ 29