ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا اسلامی ممالک کی اعلی عدالتوں کے سربراہوں سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں آپ تمام عزیزمہمانوں، بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں آپ اپنے اسلامی ملکوں سے یہاں اپنے گھر تشریف لائے ہیں۔

یہاں آپ اپنے گھر اور اپنے بھائیوں کے درمیان ہیں ہمارے خیال سے یہ عظیم اجلاس امت مسلمہ کے لئے ایک غنیمت موقع ہے اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس طرح کے اجلاس کا پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے آشنا ہوجاتے ہیں اس بات کو نہایت اہم سمجھنا چاہئے ایک عرصہ سے، دسیوں سال سے امت مسلمہ کے دشمن ہم مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھا کرمختلف شکلوں میں ہمیں ایک دوسرےسے دور کرتے آئے ہیں ہمیں ایک دوسرے سے انجان بناتے رہے ہیں ایک دوسرے سے بد ظن کرتے آئے ہیں ہم بھائی ہیں لیکن ہماراطورطریقہ بیگانوں جیسا ہے اور بیگانے امت مسلمہ کی اس اندرونی صورت حال سے غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں ہمیں اس کی اصلاح کرنی چاہئے، ہمیں اس کی اصلاح کرنی چاہئے اور یہ اس قسم کے اجلاس اس سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔

امت مسلمہ ایک زندہ اورعظمیم پیکر ہے اس کے اپنے اہداف ومقاصد ہیں جو کسی ایک اسلامی ملک یا قوم سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ عالم اسلام کے مشترکہ اہداف ہیں ان اہداف کوبرقراررکھنے اوران تک رسائی کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنا ہوگا مسلمان حکومتوں کا ایک دوسرے سے قریب ہونا مسلمان قوموں کے ایک دوسرے سے نزدیک ہونے کا باعث بنے گا اور جب قومیں ایک دوسرے کے قریب آجائیں گی تواپنے تجربات، جذبات اوراخلاق وآداب ایک دوسرے میں منتقل کریں گی اور اس کے نتیجہ میں امت مسلمہ کو جوکچھ ملے گا وہ ایک عظیم اور نہایت گرانقدر چیز ہوگی۔

عالم اسلام کو بڑی طاقتوں کی طرف مسلسل حملوں کا سامنا ہے جو کسی ایک ملک اروقوم پرنہیں بلکہ پوری امت مسلمہ پرحملہ ہے اوران حملوں کا نشانہ بننے والی ایک چیز یہی اسلامی حقوق اوراسلامی نظام عدل ہے۔ اسلام کے پاس بہترین ترقی یافتہ عدالتی قوانین ہیں اسلامی عدالتی حقوق دنیا کے سب سے بہترین اور ترقی یافتہ حقوق ہیں یہ تو ہر کوئی دیکھ سکتا ہے عالم اسلام کے کونہ کونہ میں علماء نے مختلف ادوارمیں جو کچھ اسلامی حقوق، اسلامی تعزیرات، اسلامی نظام عدل اور اسلامی عدالت سے متعلق لکھا ہے جب ہم اسے ملاحظہ کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک نہایت قیمتی سرمایہ ہے ہم اگردورحاضر میں اس سرمایہ کو محور قرار دیتے اوراسے وقت کے بدلاؤ اور ترقی سے ہم آہنگ کرتے رہتے تو ہم اسےمزید بہتر بنا سکتے تھے لیکن عالم اسلام کے اندر یہ کام نہیں ہوا سامراجی طاقتوں نے جس طرح امت مسلمہ کی سیاست و اقتصاد پر قبضہ کررکھا تھا اسی طرح اسلامی ممالک و اقوام کی ثقافت اور نظام عدل کو بھی یرغمال بنا لیا نتیجہ میں بغیرکسی وجہ کے ہمارا نطام عدل فرنگی نظام عدل میں بدل گیا عالم اسلام کے دکھ درد اور مشکلات یہی ہیں۔

آج عالم اسلام کو خود اعتمادی اور خداپر توکل کی ضرورت ہے ہمیں اپنے اندرخوداعتمادی واپس لانا ہوگی عالم اسلام کے اندر کبھی کبھی دکھائی پڑتا ہے کہ ایک فقیہ بنا خود اعتمادی کے فتوی صادر کر رہا ہے، قاضی بنا خوداعتمادی کے فیصلہ سنا رہا ہے اور مخالفین اسلام کے ابلاغی حملوں کے مقابل پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ اس وقت عالم اسلام کو سیاست واقتصاد کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ حیات منجملہ اسلامی حقوق اوراسلامی نظام عدل میں خوداعتمادی کی ضرورت ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی کبھی ایک فقیہ کسی اسلامی حکم کی وضاحت نہیں کرتا یا انکارکردیتا ہے اوراس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ حکم مغرب والوں کو پسند نہیں یہ بہت بری بات ہے ہمارے پاس معیار موجود ہے ہمارا معیارکتاب وسنت ہے اورآج یعنی اکیسویں صدی میں انسانی زندگی کی انتظام وانصرام میں یہی معیار مفید اورکام آّنے والا ہے ہم زمانہ سے پیچھے نہیں ہیں۔ اگر ہم اسلامی احکام کی جانب صحیح سے پلٹ جائیں تومغربی تہذیب سے بہتر طور پرآج کے انسان کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ دنیا میں مغربی ثقافت کی بالادستی کا نتیجہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں نہ انصاف ہے اور نہ امن اور نہ ہی انسانوں کے درمیان اخوت وبرادری کاجذبہ ہے اسکے مقابلہ میں دشمنی، نفاق اورحسد کی تو حد ہی نہیں اوردنیا پر عالمی طاقتوں کا بے لگام کنٹرول بھی اپنی جگہ موجود ہے بہرحال یہ سب مغربی تہذیب اور دنیا پر مغربی تہذیب کی بالادستی کا نتیجہ ہے۔

آپ ملاحظہ کیجئے کہ آزادی فکرکے دعویدار ممالک کے اندرمذہبی اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے اورپھر اس کا اس بات سے موازنہ کیجئے کہ مختلف ادوار میں اسلامی ممالک کے اندر رہنے والی اقلیتوں کے ساتھ اسلام کا کیا سلوک رہا ہے خلفائے راشدین کے دورمیں ملنے والی فتوحات کے دوران مسلمان جہاں بھی قدم رکھتے تھے تو جنگ کے خاتمہ پرجب حکومت ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی تو غیر مسلموں سے مہربانی سے پیش آتے تھے یہی مشرقی روم کا علاقہ جواب چند اسلامی ممالک پر مشتمل ہے یہاں کچھ یہودی رہتے تھے یہ بات تاریخ میں موجودہے جب مسلمان وہاں پہونچے تو انہوں نے قسم کھا کے کہا " والتوراۃ' تورات کی قسم " لعدلکم احب الینا مما مضی علینا" (تورات کی قسم ہمیں اپنے ماضی سے زیادہ آپ کا عدل وانصاف محبوب ہے) ان الفاظ میں انہوں نے مسلمانوں کے عدل و انصاف کی تعریف کی۔ آج بھی آپ اسلامی ممالک کے اندر ملاحظہ کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں یہودی، عیسائی اورزرتشتی آزادی سے زندگي بسر کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اپنا نمایندہ بھیجتے ہیں، اپنی عبادات انجام دیتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں بھی ایسا ہی ہے تویہ ہے اسلام! آج کے متمدن اور انسانی حقوق کے حامی کہلانےوالے ممالک کا مذہبی اقلیتوں خاص طور سے مسلمانوں کے ساتھ جو برتاؤ ہے اس سے اقلیتوں کے ساتھ اسلام کےبرتاؤ کاموازنہ کیجئے!

آج دنیا انصاف کی پیاسی ہے، امن کی پیاسی ہے، امتیازی سلوک نہ ہونے کے لئے تشنہ ہے ان کی یہ پیاس اسلام ہی بجھا سکتا ہے مغربی تہذیب وتمدن نے دکھا دیا ہے کہ اس میں انسانیت کے لئے عدل قائم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے آج کے حالات پر نظر ڈالئے فلسطین کی حالت دیکھئے، صہیونی حکام صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ اگر ہمارے اور فلسطینیوں کے درمیان یعنی صہیونیوں اور فلسطینیوں کے بیچ مقبوضہ فلسطین کے اندر مساوات قائم ہوجائے تو صیہونیوں کا انجام بھی جنوبی افریقہ جیسا ہوگا یعنی وہ نسلی امتیاز کا اعتراف کر رہے ہیں دنیا اسے سن رہی ہے، مغربی تہذیب وتمدن کی ماری ہوئی دنیا یہ سن رہی ہے لیکن اپنی ذمہ داری انجام نہیں دے رہی۔

یہ صورتحال ہمیں وارننگ دے رہی ہے اورہم مسلمانوں سے کہہ رہی ہے کہ ہمیں خوداعتمادی پیدا کرنے اور خدا پر توکل کرنے کی ضرورت ہے اوریہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اپنی فکروتدبر کے ساتھ متحد ہوکر منصوبہ بند طریقہ سے قدم بڑھائیں تو خداوند متعال ہمیں کامیابی عنایت کرے گا ہمیں خدا سے حسن ظن رکھنا چاہئے " ویعذ ّب المنافقین والمنافقات والمشرکین والمشرکات الظانین باللہ ظن السوء وغضب اللہ علیھم ولعنھم واعدّ لھم جھنّم وساءت مصیراً" ہمیں خدا سے حسن ظن رکھنا چاہئے سوئے ظن نہیں رکھنا چاہئے ہم نے کب اور کہاں قدم بڑھایا، عمل کیا اور خدا نے ہماری مدد نہیں کی؟ جہاں بھی ہم مشکلات سے دوچار ہوئے، جہاں بھی ہمیں کمزوری اور شکست کاسامنا کرنا پڑا وہاں ہمارے عمل میں کمی تھی ہم نے عمل کا حق ادا نہیں کیا جہاں بھی ہم نے عمل کا حق اداکیا وہاں خدا نے ہماری مدد کی اور یہ خدا کا وعدہ ہے" وعداللہ الذین آمنوامنکم وعملواالصالحات لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم" اورقرآن کریم میں اس طرح کی بہت سی آیات ہیں۔

عدالت اورحقوق کے زمرے میں ہم سے جو مربوط ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس باب میں اسلامی عدالت کے تئیں خود اعتمادی اورالہی وقرآنی تعلیمات کی جانب بازگشت پرباقاعدہ توجہ دیں اس طرح کے اجلاس اور یہ آپسی نشستیں اس ضمن میں ہماری معاون و مدد گارہوسکتی ہیں خوش قسمتی سے اسلامی ممالک کےپاس اس سلسلہ میں اچھے تجربات ہیں ہمارے پاس بھی اچھے تجربات ہیں ہم نے بھی انقلاب کی تقریباً ان تین دہائیوں میں مفید تجربات حاصل کئے ہیں ہمارے بھائی ہمارے ان تجربوں سے فائدہ اٹھائیں، ہم ایک دوسرے سے تعاون کریں تاکہ اسلامی عدالت کی عظیم عمارت حقیقی معنی میں تعمیر کی جا سکے۔

کل اس اجلاس میں میہمانوں اورمیزبانوں کی طرف سے جو تجاویز سامنے آئی ہیں میں نے سنی ہیں بہت ہی اچھی تجاویز ہیں اس طرح کی ایک یونین کی تشکیل اور ان تجاویز پر عمل کے ہم حامی ہیں ہم سب ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں تاکہ اسلامی ممالک اس باب می ترقی کر سکیں۔ البتہ ہمارے ایک ساتھ بیٹھنے، آپسی محبت اوران نشستوں کے کچھ لوگ مخالف بھی ہیں یہ مخالف بھی خاموش نہیں بیٹھیں گے یہ بھی ہمارے ذہن میں رہنا چاہئے! ہم یہ طے کر لیں کہ خداکی مدد سے ہم اپنے کاموں کو بھائی چارہ کے ساتھ صحیح ڈھنگ سے انشااللہ آگے بڑھائیں گے۔ خدا سے توفیق کے طلبگار رہیں اس سے مدد مانگیں اور انشا اللہ یہ امید رکھیں کہ خدا ہماری مدد کرے گا۔

میں امید کرتا ہوں کہ تہران میں آپ کا اچھا وقت گذرے اوراچھی یادوں کے ساتھ آپ یہاں سے رخصت ہوں ۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ