ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا قارئین قرآن کریم سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں اورعزیزقاریوں کو طیب اللہ انفاسکم پیش کرتا ہوں انشا اللہ۔

آج ہمیں یہ تلاوتیں اورقرآن کے شیریں ودلنشیں نغمے سن کر لطف آیا بحمداللہ ہمارے نوجوان اس سلسلہ میں بہتر، خوبصورت اوراچھے اندازمیں ترقی کی سمت گامزن ہیں یہ دونوں جوان جنہوں نے تلاوت کی ہے نیزجن گروپوں نے ملکر قرآن پڑھا ہے سبھی بہت ہی اچھے ہیں ہمارے قاری حضرات بھی اچھے ہیں ہرسال یہ تلاوتیں سن کے اس بات کا خوب احساس ہوتا ہے تلاوت قرآن اورقرآنی آہنگ ماضی کے مقابلہ میں کافی ترقی کرچکا ہے اگرانقلاب سے پہلے کے دورسے موازنہ کیا جائے توالحمد للہ صفربلکہ صفرکے نیچے سے شروع کرکے اعلی مراتب تک رسائی ہوچکی ہے یہ ہماری بہت بڑی خوش نصیبی ہے۔

یہاں پردوتین مشکلیں ہیں جنہیں عرض کرتا چلوں: ایک یہ کہ ہم یہ نہ سوچیں کہ قرآن کی تلاوت، قرآن سے انس اورقرآن کی نشرواشاعت بس یہی ہے یہ ایک بڑی پریشانی ہے کہیں ہم بھی اس غلط فہمی اورکج فکری میں مبتلا نہ ہوجائیں حقیرکی نظرمیں تلاوت کی بہت اہمیت ہے اس کی وجہ بھی اس سے پہلے اس طرح کی نشستوں میں عرض کرچکا ہوں یہاں دہرانا نہیں چاہتا قرأت کرنے والوں اوراستاد قاریوں کومیں واقعاً بہت اہمیت دیتا ہوں لیکن یہ سب مقدمہ ہے اس بات کا کہ ہمارے معاشرہ کے اذہان پر قرآنی ثقافت کی فضا حاکم ہوجائے آپ مسلمان ہیں لہذا جوان، مرد، عورتیں، بچے سب قرآن سے مانوس ہوجائیے اپنے آپ کو حقیقت میں خدا کا مخاطب سمجھتے ہوئے قرآن کی تلاوت کیجئے، اس میں تدبرکیجئے اوراس سے سیکھئے اس کے بعد عمل کا مرحلہ ہے لیکن ایک مرحلہ عمل سے بھی پہلے کا ہے جسے میں ابھی عرض کرتا ہوں قرآن سیکھنا، قرآنی تعلیمات کا سمجھنا، قرآن کی آیات وکلمات میں تدبرکرنا۔

جوکلمات آپ ملاحظہ کررہے ہیں یہ وہی کلمات ہیں جو خداوند متعال نے وحی الہی کے آخری معنوی ذخیرہ کے بطورانسانیت کو عطا کئے ہیں یہی کلمات ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ اوردنیا کے آخری کونہ تک انسان کو سعادت اورفلاح ونجات کی راہیں دکھاتے رہیں گے یہ کلمات معنی ومطالب سے لبریز ہیں انہیں درک کرنا چاہئے۔

افسوس کہ ہمارے سامنے زبان کا حجاب ہے، لغت کا حجاب ہے یہ ہمارانقص ہے یعنی غیرعرب ہر قوم کا نقص ہے جن کی زبان عربی ہے ان کے درمیان قاری جب تلاوت کرتا ہے توسننے والے پوری طرح نہ سہی لیکن سمجھ جاتے ہیں قرآن کا طرز بیاں فصیح وبلیغ اورنہایت ہی بلندوبالا ہے تشبیہ دینا مقصد نہیں ہے لیکن جیسے کسی مجمع میں اگر گلستان سعدی پڑھی جائے گلستان سعدی بلیغ فارسی ہےلیکن لوگوں کی سمجھ میں آتی ہے ہاں اس کی باریکیاں صرف ادبااور اعلی درک وفہم کے مالک افرادہی سمجھتے ہیں اسی کوہزاروں گنا بڑھا لیجئے توقرآن بھی ایسا ہی ہے قرآن کی باریکیاں اورلطافتیں ممکن ہے عرب کا عام سامع نہ سمجھ پائے لیکن بہرحال ان لفظوں کا مفہوم تو وہ سمجھتا ہی ہے اسی لئے اس کا دل قرآن سے مانوس ہوجاتا ہے اورتلاوت سنتے وقت اس کی آنکھیں چھلک جاتی ہیں چونکہ خداکا موعظہ سن رہا ہوتا ہے ہم پرزبان کا پردہ پڑاہے لیکن یہ مسئلہ قابل حل ہے کوئی یہ نہ سوچے کہ کیا کریں کچھ نہیں ہوسکتا جی نہیں یہ مسئلہ پوری طرح قابل حل ہے بہت سارے قرآنی کلمات ہماری فارسی بول چال میں رائج ہیں انہیں ہم سمجھتے ہیں پرانے دورمیں مشہد میں ہم "قرآنی نشست" رکھا کرتے تھے ایسے ہی بیٹھتے تھے، کبھی کبھی میں ان جوانوں کے درمیان تقریر کرتا تھا جواب بوڑھے ہوچکے ہیں توان سے بھی یہی کہتا تھا میں مثال دیا کرتا تھا کہ مثلاً " ولنبلونکم بشیء من الخوف والجوع ونقص من الاموال والانفس والثمرات وبشرالصابرین" اس آیہ کریمہ کو دیکھئے اس کی صرف دوتین لفظیں ایسی ہیں جنہیں فارسی بولنے والے نہیں سمجھ پائیں گے باقی سب سمجھ لیں گے "لنبلونکم" کا ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن "شیء" کا مطلب وہ سمجھتے ہیں شیء اشیاء آپ فارسی میں بولتے ہیں "خوف" کا مطلب بھی وہ سمجھتےہیں، "جوع" کا مطلب بھی سمجھتے ہیں، "نقص" کا مطلب بھی سمجھتے ہیں، "اموال" کا مطلب بھی سمجھتے ہیںِ، "انفس" کا مطلب بھی سمجھتے ہیں اور"ثمرات" کا مطلب بھی سمجھتے ہیں۔فارسی بولنے والے ان لفظوں سے نا آشنا نہیں ہیں لہذاقرآن کی آیات کو سمجھنا، حروف ربط اورلفظوں کی ترکیب سمجھنا، قرآن سے انس رکھنا اوراس کا ترجمہ دیکھتے رہنا کوئی مشکل نہیں ہے۔

الحمدللہ آج کل اچھے ترجمے کافی تعدادمیں موجود ہیں جن دنوں کی ہم بات کر رہے ہیں اس وقت ایک بھی ایسا مناسب ترجمہ نہیں تھا جسے پڑھ کرلوگ مطمئن ہوں کہ یہ صحیح ترجمہ ہے آج الحمد للہ متعدد اچھے تراجم موجود ہیں انہیں پڑھئے لوگ پڑھیں گےتوقرآن کے معانی سمجھنے لگیں گے قرآنی آیات کے معانی کو نہ سمجھ پانا ایک پریشانی ہے۔ اسے برطرف کیا جانا چاہئے۔

دوسری مشکل یہ ہے کہ قاری جب خوبصورت لحن اوراچھا طرزاداسیکھ کرتلاوت کرتا ہے تو یہ نہ سوچنے لگے کہ اس کا کام صوت اوردھن جوڑنا اوراچھی آواز اورانداز میں قرآنی الفاظ کی ادائیگی ہے یہ پریشانی اگرلاحق ہوجائے تو بہت نقصان پہنچائے گی قاری جب قرآن کی تلاوت کرنے بیٹھے تو اس طرح تلاوت کرے کہ گویا اسے مخاطب کے دل پر نازل کررہا ہے اس طرح قرآن پڑھئے مصرکے معروف سبھی قراء اس قسم کے نہیں ہیں کچھ اسی طرح کے ہیں اورکچھ نہیں ہیں لیکن آپ ان سے واسطہ نہ رکھئے آپ صرف قرآن کی اس طرح تلاوت کیجئے کہ گویا قرآنی مفاہیم اورقرآنی آیات مخاطب کے دل پر نازل ہورہی ہیں دھن اورلے کومفہوم ومعنی سے مطابقت دیجئے، مفہوم اورمعنی کی وضاحت کے لئے دھن اورلے سے فائدہ اٹھائیے قرآنی لے اورنغموں کا سب سے بڑاکمال یہ ہے کہ یہ مفہوم ومعنی کی تجسیم اورانہیں مخاطب کو ذہن نشین کرانے میں مدد گارہیں ہمارے قاریوں کواس کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

ہم نے قرآنی موسیقی،قرآنی لے، قرآنی نغموں، قرآنی لحن اوردوران تلاوت ٹھہرنے اورملانے کے بارے میں کافی گفتگوکی ہے اب الحمدللہ اہل قرآن کی زبانی یہ چیزیں مکرر کہی جارہی ہیں ترجمہ سے متعلق ہم مشاہدہ کررہے ہیں کہ بہت سارے قاریوں کی ترجمہ پر نظرہے وہ اس باب میں خاص باتوں کا لحاظ رکھتے ہیں اب وہی باتیں پھرسے نہیں کہنا چاہتا ضروری یہی ہے کہ قاری کا مقصد مخاطب کے ذہن پرکلام کا اثر ڈالنا ہویعنی آپ ہمارے دلوں کوہلا کر رکھ دیجئے ہدف یہ نہ ہو کہ ہم قاری کو دادوتحسین دیں بلکہ ہدف یہ ہونا چاہئے کہ قاری اپنی تلاوت سے ہمارے دل ہلادے خاص طورسے آج جن آیات کی تلاوت کی گئی ہے شروع سے آخر تک میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ اتفاقاً زیادہ ترتوحیدی آیات کی تلاوت کی گئی ہے جیسا میں نےبتایا ہے اس طرح اگر ان آیات کی تلاوت کیجئے تو سننے والے کا دل اچھل پڑے گا اورآپ کی تلاوت توحید کے بارے میں کسی استدلالی کتاب کے برابر اثرکرے گی اچھی تلاوت کا یہ اثرہوتاہے۔

تیسری مشکل یہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ نزول قرآن، تلاوت قرآن اورقرآنی نشستوں کا مبارک مہینہ آئے توہم بھی ایک قرآنی نشست کا انعقاد کر لیں اس کے علاوہ بھی مسجدوں اوردوسری جگہوں پرلاتعداد قرآنی محفلیں رکھی جاتی رہیں لیکن جب ماہ رمضان ختم ہوجائے قرآن بند کرکے چوم کے طاق پر رکھ دیں ایسا نہیں ہونا چاہئے ہمیں خود کوقرآن سے جدا نہیں کرنا چاہئے ہمیں ہمیشہ قرآن سے ملحق اوراس سے مانوس رہنا چاہئے روایات میں آیا ہے کہ ہرروز پچاس آیتوں کی تلاوت کیا کرو یہ ایک اندازہ ہے اگر اتنا آپ نہ کرسکیں توروزانہ دس آیتوں کی تلاوت کر لیا کیجئے یہ نہ کہئے گا کہ سورہ حمد اور سورہ قل ھواللہ تو نماز میں پڑھتے ہیں کل ملا کے دس آیتیں ہوجائیں گی اوریہی تو فلاں صاحب نےکہا ہے کہ دس آیات کی تلاوت کرلیا کرو۔ جی نہیں واجبی یا نافلہ نماز کے دوران جو قرآن آپ پڑھتے ہیں اس سے ہٹ کے قرآن کھول کر بیٹھئے قلبی توجہ کے ساتھ دس، بیس، پچاس سو آیتوں کی تلاوت کیجئے قرآن کوغورکرنے، سمجھنے اوراس سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے پڑھئے، ایک قرآن پڑھنا یہ ہے کہ انسان ظاہری طورپر شروع سے آخرتک قرآن پڑھ لے میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ اس طرح پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے البتہ اس سے پہلے میں یہی کہا کرتا تھا (کہ کوئی فائدہ نہیں ہے) لیکن اب میں نے اپنی رائے بدل دی ہے ہم یہ نہیں کہہ سکتے لیکن قرآن کی تلاوت سے جتنا فائدہ حاصل ہونے کی توقع ہے اس کے مقابلہ میں یہ فائدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔

ایک تلاوت یہ ہے جیسے ہم لوگ تلاوت کرتے ہیں کہ قرآن پڑھ کے مجلس، محفل یا کسی تقریر میں بیان کرنے کے لئے کوئی نکتہ ڈھونڈھ لیں یہ غلط نہیں ہے لیکن یہ بھی وہ تلاوت نہیں ہے جوہم پر فرض ہے۔

ایک تلاوت یہ ہے کہ انسان ایک سامع کی طرح خدا کی باتیں سننے بیٹھ جائے خداآپ سے بات کر رہا ہے جس طرح آپ کے کسی عزیز یا بزرگ کا آپ کے پاس خط آجاتا ہے توآپ اسے بیٹھ کے پڑھتے ہیں کیوں پڑھتے ہیں اس لئے کہ خط آپ کے لئے اورآپ کے پاس لکھا گیا ہے قرآن اس طرح پڑھئے کہ یہ خدائے متعال کا خط ہے امانت دار دلوں اورزبانوں نے اسے خدا سے لیا اورآپ تک پہنچایا ہے ہمیں اس سے مستفید ہونا چاہئے روایات میں آیا ہے کہ جب آپ کوئی سورہ پڑھ رہے ہوں توآپ کی کوشش یہ نہیں ہونی چاہئے کہ جلدی سے اسے ختم کر لیا جائے بلکہ کوشش ہونی چاہئے کہ قرآن کوسمجھ لیا جائے چاہے آپ سورہ، پارہ، حزب کے آخریا وسط تک بھی نہ پہونچ پائیں لیکن غوروفکرکریں اس طرح قرآن پڑھیئے! اگرکوئی شخص قرآن سے مانوس ہوجائے تو وہ قرآن سے دل نہیں توڑے گا ہم اگر قرآن سے مانوس ہوجائیں تو واقعاً قرآن سے دل نہیں توڑیں گے۔

آخری بات جواس سے پہلے بھی کئی بارکہہ چکا ہوں حفظ قرآن سے متعلق ہے حفظ قرآن بہت بڑی نعمت ہے یہ جوان اورنوجوان اس عمرکی قدرپہچانیں جس میں وہ حفظ کرنے پرقادرہیں آپ ابھی جس عمر میں ہیں اس میں آپ حفظ کرسکتے ہیں اس وقت جو حفظ کریں گے وہ آپ کے ذہن میں محفوظ رہے گا ہم بھی حفظ کرسکتے ہیں ہماری عمر میں بھی یہ ممکن ہے لیکن زیادہ دیر تک یاد نہیں رہتا جلد بھول جاتا ہے ایسا نہیں ہے کہ ہماری عمر میں قرآن حفظ نہیں کیا جاسکتا کیوں نہیں؟ ہم سے زیادہ پچہتراسی سال کی عمر میں بھی حفظ کیا جاسکتا ہے میں نے سنا ہے کہ مرحوم آیت اللہ خوئی نے عمرکے آخری سالوں میں قرآن حفظ کرلیا تھا بہت بڑی بات ہے اگراسی سال کا ضعیف العمرشخص قرآن حفظ کرلے، حفظ کیا جا سکتا ہے لیکن زیادہ دیر تک یاد نہیں رہتا جلد بھول جاتا ہے اگر آپ جوانی یا نوجوانی کی عمر یعنی انہیں نوجوانوں کی عمر میں جنہوں نے یہاں تلاوت کی ہے حفظ کر لیں تو یہ آپ کے لئے سرمایہ اورذخیرہ بن جائے گا قرآن اگرحفظ ہوتواس میں غوروفکرکرنا حفظ نہ ہونے سے زیادہ ممکن ہے بعض دفعہ انسان قرآن میں کوئی آیت دیکھتا ہے تو اسے لگتا ہے اس نے یہ آیت اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہے لیکن حافظ کے لئے یہ صورتحال پیش نہیں آتی دعا ہے کہ ہم نے جو کہا اورسنا ہےخداوند متعال اسے ہمارے دلوں میں بسا دے۔

پروردگارا! ہمیں قرآن کے ساتھ زندہ رکھ اور قرآن کے ساتھ موت دے، پالنے والے! ہمیں قرآن کے ساتھ محشورفرما، ہمیں قرآنی معارف اورقرآن میں موجود اعلی معرفت سے بہرہ مند فرما، پالنے والے ہمارے دلوں کو قرآن کے ذریعہ زندہ کر، انہیں قرآن کا نورعطاکر! پالنے والے ہمیں قرآن کا حقیقی حافظ بنادے ، ہمارے معاشرہ کو قرآنی بنادے، پالنے والے قرآن کے قاریوں، قرآن کے چاہنے والوں اور قرآن کے اساتذہ (جو الحمد للہ ہماری نشست میں بھی موجود ہیں) پرلطف وکرم نازل فرما، اورانہیں قدردانی اورشکرکی توفیق عطا کر، پالنے والے! ہمارے یہ اساتذہ ترویج قرآن کی کوشش کررہے ہیں، قرآن کی ترویج کا دائرہ روزبروز وسیع ہوتا رہے حضرت ولی عصر(عجل اللہ تعالیٰ فرجھ الشریف) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی و خوشنود فرما، ہمارے عزیز امام (رہ)کے دل ان کی روح مطہر اورراہ قرآن میں جہاد کرنے والے شہداء کی ارواح طیبہ کو ہم سے راضی وخوشنود فرما۔

رحم اللہ من قرأ الفاتحۃ مع الصلوات