ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

یوم شجرکاری کی مناسب سے بیانات

بسم الله الرّحمن الرّحیم

 

اس سال بھی، حسبِ روایت، بحمداللہ ہمیں یہ سعادت نصیب ہوئی کہ چند پودے — دو یا تین — زمین میں لگائیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جوانوں کے ساتھ ساتھ ہم جیسے عمر رسیدہ افراد بھی اس عظیم، نیک، ضروری اور خوش آئند عمل کی طرف مائل ہوں، اور تمام افراد اس جذبۂ شوق کے ساتھ درخت کاری اور سبزہ افزائی میں حصہ لیں، تاکہ وطن عزیز کی سرزمین سرسبز و شاداب ہو۔

درخت لگانا درحقیقت ایک طویل مدتی سرمایہ کاری ہے؛ یہ مستقبل بینی کا مظہر ہے، دولت کی تخلیق ہے۔ یہی ننھا سا پودا کچھ عرصے میں ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر لیتا ہے؛ اگر وہ پھلدار ہو تو ایک نعمتِ خالص ہے، اگر لکڑی عطا کرنے والا ہو تب بھی ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ گویا شجرکاری ایک ایسا عمل ہے جس میں محض نفع ہے، نقصان کا کوئی پہلو نہیں۔

اس کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ درخت اور سبزہ فضا کی تطہیر اور ہوا کی تازگی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ کھیتیاں اور سبزیاں جنہیں پروردگارِ عالم زمین سے اُگاتا ہے، انسان کی زندگی کے ماحول اور فضا کی کیفیت پر مثبت اثر ڈالتی ہیں۔ پس، شجرکاری کا یہ فائدہ بھی ہے کہ یہ ماحولیاتی تحفظ کا ذریعہ ہے، اور ماحولیات بذاتِ خود ایک نہایت اہم اور ناگزیر حقیقت ہے؛ کیونکہ یہ انسان کی زیست کا احاطہ کرتی ہے، اور انسانی فطرت اس کے بغیر ادھوری ہے۔

ایک اور قابلِ توجہ پہلو یہ بھی ہے کہ درخت اور سبزہ، ماحول کو طروتازگی، پاکیزگی اور دلکشی عطا کرتے ہیں۔ یہ صرف مادی منافع یا صحت بخش فضاء تک محدود نہیں، بلکہ آنکھوں کو مسرت بخشتے ہیں، دلوں کو راحت دیتے ہیں۔ اگر رہائشی ماحول ہرا بھرا ہو، اور خالق کی عطا کردہ نباتاتی جلوہ گری سے مزیّن ہو، تو یہ روحانی اعتبار سے انسان پر نہایت مثبت اثر ڈالتا ہے، اور باطن کو شادمانی و سکون عطا کرتا ہے۔

یہ تمام پہلو ظاہر کرتے ہیں کہ شجرکاری مادی، ماحولیاتی اور روحانی ہر زاویے سے نفع بخش اور باعثِ خیر و برکت عمل ہے؛ حقیقتاً اس میں ذرّہ برابر بھی ضرر یا نقصان نہیں۔

میری مخلصانہ تاکید ہے کہ قومی شجرکاری مہم، جس کا آغاز گزشتہ برس ہوا اور بحمداللہ قابلِ قدر پیشرفت بھی ہوئی، اسے پوری سنجیدگی اور عزم کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ یہ جو شہید صدر رئیسی کے دور میں اعلان کیا گیا کہ چار برس کے دوران ایک ارب درخت لگائے جائیں گے، تو یہ نہ صرف قابلِ عمل ہے بلکہ ایک مثالی ہدف بھی ہے — بشرطیکہ قوم یکسوئی سے سرگرمِ عمل ہو، اور متعلقہ حکومتی ادارے عوام کی ہمہ جہت معاونت کریں؛ خواہ آگہی و تشہیر کے ذریعے ہو، یا عملی، فنی اور انتظامی معاونت کے ذریعے۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ایسا نہ ہو کہ ایک جانب ہم پودے لگائیں، اور دوسری جانب قیمتی، کارآمد اور سالہا سال پرانے درختوں کو کاٹ کر ضایع کریں۔ بے شک بعض مواقع پر — خواہ وہ جنگلاتی ہوں یا غیر جنگلاتی علاقے — درختوں کی کٹائی ناگزیر ہوتی ہے یا فنی تقاضا ہوتی ہے، لیکن عمومی صورتِ حال میں درختوں کا بے دریغ خاتمہ یقیناً ایک خطرناک اور نقصان دہ عمل ہے۔ جنگلات کی تباہی سے بچاؤ لازم ہے، زرعی اراضی کو رہائشی یا تجارتی مقاصد کے لیے تبدیل کرنے سے اجتناب برتنا ناگزیر ہے۔ اور سنا ہے کہ بحمداللہ تہران اور دیگر چند شہروں میں اس حوالے سے قابلِ ستائش اقدامات بھی کیے گئے ہیں، جن کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے۔

میری پُرخلوص تاکید ہے کہ ہمارے عزیز ہم وطن، شجرکاری کو ایک نیکی، ایک صدقۂ جاریہ تصور کرتے ہوئے اپنائیں، درختوں کی افزائش کریں، سبزے کی بڑھوتری کو فروغ دیں، اور اپنے ماحول کو اس مبارک عمل کے ذریعے خوشگوار بنائیں؛ ساتھ ہی اپنے لیے مادی، روحانی اور معنوی فوائد بھی مہیا کریں۔

خداوندِ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اس نیک عمل میں کامیابی و سرافرازی عطا فرمائے۔

والسّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته