ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

شب ولادت باسعادت حضرت امام حسن مجتبیٰؑ کے موقع پر شعراء اور اہل ادب سے خطاب

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم(1)

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین.


اگر وقت میں گنجائش  ہوتی تو میں چاہتا تھا  کہ اُن شعرا کا کلام سنوں جن کے آپ نے نام لیے، اور بعض دوسرے حضرات کا بھی جنہیں میں اس محفل میں دیکھ رہا ہوں اور جن کی لطیف روح، اعلیٰ ذوق اور پختہ شاعری سے میں واقف ہوں؛ لیکن اب وقت گزر چکا ہے اور انسان جب تھک جائے – حالانکہ آپ سب جوان ہیں اور اتنی جلدی نہیں تھکتے، مگر خصوصاً ہماری عمر میں انسان جلدی تھک جاتا ہے – تو وہ شعر کا لطف اس طرح سے نہیں لے سکتا جیسے لینا چاہیے۔

ذمہ دارانہ  اور انقلابی شاعری الحمدللہ ترقی کی جانب گامزن ہے۔ آج کی رات میرے لیے نوید بخش  تھی۔ جو اشعار پڑھے گئے، عموماً بہت اچھے تھے۔ البتہ سب ایک ہی درجہ کے نہیں تھے؛ کچھ اشعار بہتر تھے، کچھ اچھے تھے۔ اور پڑھنے کا انداز اور اشعار کے نکات پر توجہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ اشعار ابتدائی نوعیت کے نہیں ہیں؛ یعنی ان شعرا کے اندر ایک جذبہ ایک فکر کارفرما ہے؛ یعنی الحمدللہ ملک میں تربیت یافتہ شاعر روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ اور مجھے یہ رپورٹ بھی دی گئی کہ رواں ایرانی سال  متعلقہ مراکز کی جانب سے انجام پانے والے امتحان میں انقلابی اور مذہبی احساس ذمہ داری حامل شاعری کرنے والے شعرا بہت کامیاب رہے ہیں

 

شاعری کی طرف یہ بڑھتا رجحان خاص طور پر نوجوانوں میں، بہت امید افزا ہے۔ شعر ایک اہم چیز ہے۔ شاعری ایک بے مثال فن ہے۔ مختلف اقسام کے ذرائع ابلاغ ہونے کے باوجود شاعری ایک  طاقتور اور مؤثر ابلاغی حیثیت رکھتی ہے جو ان زرایع کے باوجود کمزور نہیں ہوئی ہے۔ شاعری واقعی ایک مؤثر ذریعۂ ابلاغ ہے۔ لہٰذا جتنا شعر ترقی کرے، اور اچھے شعرا کی تعداد بڑھے، یہ خوشی اور مسرت کا باعث ہے۔

مقدار یقیناً بہت زیادہ ہو گئی ہے ــ جو کہ بہت خوش آئند ہے ــ ہم توقع رکھتے ہیں کہ معیار بھی اسی انداز میں بڑھے۔ فی الحال ہمارے نوجوان شعرا کے حلقے میں مقدار کو معیار پر فوقیت حاصل ہے؛ لیکن جو صلاحیتیں میں دیکھ رہا ہوں، یہ سب ان شاء اللہ باکمال بنیں گے، اگر اسی طرح محنت سے آگے بڑھتے رہیں۔ باکمال شاعر بھی الحمدللہ کم نہیں ہیں؛ یعنی اچھے شعرا، قوی شعرا، وہ شعرا جن سے توقع تھی کہ اعلیٰ درجہ پر پہنچیں گے اور پہنچ چکے ہیں، الحمدللہ ہمارے انقلابی و متعہّد شعرا کے حلقے میں موجود ہیں۔ لیکن میں نے بارہا اور بار بار یہ کہا ہے کہ کوئی بھی شخص – چاہے شعر میں ہو یا کسی اور شعبے میں – اپنے ارتقاء کو دیکھ کر یہ محسوس نہ کرے کہ اب وہ کافی ہے۔

اگر آپ  دیکھتے ہیں  کہ آپ کا شعر ارتقاء پا چکا ہے اور آپ کی صلاحیت بڑھ گئی ہے اور آپ کی تخلیق ایک نمایاں تخلیق بن چکی ہے، یہ آپ کو مطمئن نہ کرے؛ اس لیے کہ آپ ابھی تک حافظ سے فاصلے پر ہیں، سعدی سے فاصلے پر ہیں، نظامی سے فاصلے پر ہیں۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارا زمانہ سعدی پرور بن سکتا ہے؛ بن سکتا ہے۔ اب وہ عوامل جو ایک شخص کو شاعر بناتے ہیں اور الفاظ و جملوں اور تراکیب کو بروئے کار لانے کے قابل بناتے ہیں، یہ ایک تفصیلی بحث ہے، جس پر میں گفتگو نہیں کرنا چاہتا؛ بہرحال یہ زمانہ ایسا زمانہ ہے کہ شاعر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے؛ اس کا یہ مطلب نہیں کہ شعرا ہمیشہ شکوے شکایتیں نہ کریں۔ ہمیشہ یہی حال رہا ہے؛ شعر کی پیدائش کے آغاز سے، یعنی ہزار سال سے کچھ زیادہ عرصے سے، شعرا ہمیشہ شاکی رہے ہیں۔ آپ دیکھیں، بڑے شعرا باوجود اس قدر درباری نوازشوں کے، اور بادشاہوں کی قربت اور انعامات کے، اور مدح خوانی کے:

شنیدم که از نقره زد دیگدان
ز زر ساخت آلات خوان عنصری(2)

ان سب کے باوجود وہ شاکی تھے اور ہمیشہ زندگی سے شکوہ کرتے رہے۔ یہ ہے؛ اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ ختم ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کی بے ترتیبی اور کج روی ختم نہیں ہوتی؛ لیکن باقی لوگ نہیں دیکھتے، شاعر دیکھتا ہے؛ باقیوں کے پاس زبان نہیں ہوتی، شاعر کے پاس اظہار کی زبان ہوتی ہے؛ یہی فرق ہے؛ اور یہ کوئی عیب نہیں۔ لیکن ہمارے آج کے شعرا کو بحمدللہ سماجی لحاظ سے – مادی مسائل سے قطع نظر – عزت حاصل ہے، یہ بات کہ "یہ شاعر ہے، یہ ایک عظیم فن کا اہل ہے"، محفوظ ہے۔

ہم نے طاغوت کے دور میں بڑے بڑے شعرا دیکھے، جو واقعی بلند پایہ شعرا تھے، لیکن کوئی ان کی قدر نہیں کرتا تھا۔ مثلاً مرحوم امیری فیروز کوہی بہت بڑے شاعر تھے؛ میری نظر میں اپنے زمانے کے بہترین غزل گو تھے، لیکن امیری کی کسی کو پروا نہیں تھی؛ یعنی کوئی ان کی طرف توجہ نہیں کرتا تھا۔ اگر وہ گلی میں چلتے تو اسی گلی میں جہاں ان کا گھر تھا، کوئی ان کو سلام بھی نہیں کرتا تھا۔ کبھی کسی ریڈیو پروگرام میں، کسی ٹی وی پروگرام میں – حالانکہ اس وقت ویسے بھی ایسے پروگرام کم تھے – حتیٰ کہ اخبارات و رسائل میں بھی ان کو اور ان جیسے لوگوں کو مدعو نہیں کیا جاتا تھا۔ صرف اتنا ہوتا تھا کہ مثلاً فلاں اخبار، اپنی صفحہ پُر کرنے کے لیے، رہیؔ یا امیری یا کسی اور کی کوئی غزل شائع کر دیتا تھا۔ کسی کو ان کی پروا نہیں تھی۔ آج شاعر ٹی وی پر ہے، ریڈیو پر ہے، مختلف پروگراموں میں ہے۔ لہٰذا آج کا ماحول سعدی بننے کے لیے سازگار ہے، حافظ بننے کے لیے تیار ہے، نظامی بننے کے لیے راہ ہموار ہے، اور آگے بڑھا جا سکتا ہے۔

خصوصاً وہ زبان جو آج ہماری شاعری نے اختیار کی ہے، یہ زبان بے مثال ہے؛ یعنی جو اشعار آپ نے آج سنائے، ان کی زبان ایک بے مثال زبان ہے؛ یہ انقلاب کے دور کی پیداوار ہے۔ اب اس کی تعریف کیا ہے، یہ تحقیق اور غور طلب ہے؛ البتہ کچھ لوگوں نے اس میدان میں کام کیا ہے۔ ابھی میرے لیے یہ پوری طرح واضح اور روشن نہیں ہے لیکن زبان، ایک نئی زبان ہے؛ نہ یہ قدیم خراسانی اشعار کی زبان ہے، نہ عراقی طرز کی غزلوں کی زبان ہے، نہ ہندی انداز کی غزلوں کی زبان ہے؛ ہر ایک سے کچھ کچھ لیا ہے اور ان سب پر ایک اضافہ بھی کیا ہے جو اسی دور کے ساتھ خاص ہے۔ یہ بذات خود ایک اہم بات ہے جو ہمارے دور میں ایک بڑے شاعر، بڑے شعرا اور بلند چوٹیاں فرض کی جا سکتی ہیں۔ ان شاء اللہ یہ کام ہونا چاہئے۔

 شاعر کا باطن، شاعر کے شعر پر اثر انداز ہوتا ہے؛ کیونکہ جو کچھ آپ کہتے ہیں، وہ آپ کے باطن سے اُبھرتا ہے؛ جتنا آپ کا باطن پاکیزہ اور صاف ہوگا، آپ کا شعر بھی اتنا ہی پاکیزہ اور صاف ہوگا۔ یعنی اس نکتے پر ضرور توجہ دینی چاہیے؛ ہم نے اس کی مثالیں دیکھی ہیں، ایسے شعراء جنہوں نے اپنے مخصوص روحانی رجحانات کے تحت شعر کہے ہیں اور ان کے اشعار انہی رجحانات کی عکاسی کرتے ہیں۔ میرا مشورہ یہ  ہے کہ خاص طور پر نوجوان شعراء، جو قدرتی طور پر ذوق، نرمیِ احساسات رکھتے ہیں، وہ جہاں تک ممکن ہو تقویٰ اور شرعیت کی پاسداری، اور معرفتی بنیادوں سے وابستگی پر زیادہ غور و فکر کریں۔ لہٰذا آپ قرآن میں دیکھتے ہیں کہ سورۂ شعرا کے آخر میں شعراء کے بارے میں ارشاد ہے: "إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا"(3)؛

کیوں "ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا"؟ بھئی، سب کو کثرت سے ذکر کرنا چاہیے؛ [لیکن] یہاں شاعر کے لیے خاص طور پر فرمایا کہ "ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا"، اس کا مطلب یہ ہے کہ شاعر کو اس ذکرِ کثیر کی خاص ضرورت ہے؛ یعنی لازم ہے کہ وہ ذکرِ کثیر کرے۔

میری ایک اور سفارش، فارسی ادب کے خزانے سے استفادہ کرنے کی ہے۔ جی ہاں، ہم نے کہا کہ مثال کے طور پر آپ کا اسلوبِ شعر سعدیؒ کے اسلوب سے مختلف ہے، لیکن سعدیؒ ایک عظیم فنّی تجربے کا مجموعہ ہیں، یا ان کے بعد کے درجے میں حافظؒ اور دیگر بعض شعراء، جن کی واقعی مثال نہیں ملتی؛ یہ سب فنّی ذخائر کے اعتبار سے بہت ممتاز ہیں۔ ان کے اشعار کے ٹکڑوں اور ذروں سے بھی نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں؛ یعنی آپ جو خوش ذوق ہیں، آپ جو جوان ہیں، آپ جو کچھ ایسی چیزیں دیکھ سکتے ہیں جو ہم جیسے لوگ نہیں دیکھ سکتے، آپ بہت عمدہ چیزیں سیکھ سکتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ ان [شعراء] کی طرف رجوع کیا جائے۔

ایک اور نکتہ، عاشقانہ شعر اور غزلِ عاشقانہ کا ہے۔ بعض اوقات میں اس محفل میں دیکھتا ہوں ــ اور گذشتہ برسوں میں بھی یہ مشاہدہ ہوا ہے ــ کہ جیسے عاشقانہ غزل کوئی جرم ہے، یا جیسے یہ کوئی منفی چیز ہے؛ نہیں، بالآخر شاعر میں محبت سے پیدا ہونے والے احساسات، اور عاشقانہ احساسات، جنم لیتے ہیں، اور اس میں کوئی قباحت نہیں؛ لہٰذا عاشقانہ شعر کہنا ہرگز کوئی غلط بات نہیں۔ ان اشعار کے پہلو بہ پہلو جو مقدّس اور اعلیٰ مفاہیم کے لیے کہے جاتے ہیں، عاشقانہ شعر بھی کہے جائیں تو کوئی حرج نہیں؛ البتہ اہم بات یہ ہے کہ عاشقانہ شعر فارسی شاعری  میں ہمیشہ عفیف اور نجیب رہا ہے؛ اپنے عاشقانہ شعر کو اس نجابت اور عفّت سے باہر نہ جانے دیں؛ یہی ہمارا مؤقف ہے۔ عاشقانہ شعر کی برہنگی اور بے پردگی و بے حیائی درست نہیں۔ طاغوت کے دور میں کچھ شعراء ایسے تھے جو اس معاملے میں عمداً مبتلا تھے۔ میں نے ایک موقع پر ان میں سے بعض کے نام بھی لیے تھے جنہیں اب دہرانا نہیں چاہتا؛ لیکن بہرحال عاشقانہ شعر کہا جا سکتا ہے بغیر اس کے کہ عفّت و نجابت اور ان جیسی دیگر اقدار پر کوئی حملہ ہو۔ یہ بھی ایک قابلِ توجہ نکتہ ہے۔

ایک اور نکتہ مضمون اور مضمون سازی کا مسئلہ ہے۔ البتہ ان اشعار میں جو ابھی پڑھے گئے، عمدہ مضامین موجود تھے، کہ انسان حقیقتا دیکھتا ہے کہ مضمون یابی اور مضمون سازی موجود ہے؛ لیکن ایک ہی بات کو کئی زبانوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ آپ وہی بات جو سو دوسرے شعراء نے کہی ہے ــ چونکہ مضامین کی کمی نہیں؛ جیسا کہ کہا گیا ہے: "یک عمر می‌توان سخن از زلف یار گفت"(4) ــ آپ اسے ایک نئے ترکیب اور ایک نئے سانچے میں پیش کریں؛ یہ ایک نیا مضمون بن جائے گا۔ جب کہا جاتا ہے کہ ہندی طرز کا شعر مضمون دار ہوتا ہے، تو اسی کا مطلب ہوتا ہے؛ ورنہ وہ مضامین جو ہندی شعر میں ہیں، ایسا نہیں کہ وہ دوسرے شعروں میں نہیں ہیں؛ البتہ جس انداز میں وہ ہندی طرز میں استعمال ہوئے ہیں، اس طرح اور جگہ نہیں ملتے۔

شادم که از رقیبان، دامن‌کشان گذشتی
گو مشتِ خاکِ ما هم بر باد رفته باشد(5)

کیا یہ کسی نے نہیں کہا؟ کیوں نہیں، شاید کوئی شخص اس مضمون کے ساتھ دس اشعار بھی ڈھونڈ سکتا ہے؛ لیکن یہ تعبیر کہ "دامن‌کشان گذشتی"، یہ مضمون سازی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ مفہوم صائب کے اشعار میں حد سے زیادہ ہے ــ یعنی صائب کا پورا کلام اسی انداز پر ہے ــ اور صائب کے پیروکار شعراء جیسے حزین وغیرہ بھی اسی طرح کے ہیں، اور ان کا پیچیدہ مرکز بیدل مرحوم ہیں، جن کا کلام بہت مشکل ہے، اور میری نظر میں اس بات پر اصرار کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم بھی ویسے ہی مضمون سازی کریں جو شرح و تفصیل کی محتاج ہو۔ البتہ بیدل کا مقام بہت بلند ہے، اور ان کا کلام، معنی و الفاظ دونوں میں، بے مثال ہے؛ لیکن اصرار کی بات نہیں کہ ہم ضرور اسی طرز پر شعر کہیں۔ بہرحال، مضمون ضروری ہے؛ زبان، موزوں الفاظ کا استعمال، ضروری ہے؛ عامیانہ زبان اور خاص طور پر سطحی گفتگو کو شعر میں نہ لانا ضروری ہے۔ [اگر] آپ ان باتوں کا خیال کریں، تو شعر ارتقاء پاتا ہے، شعر نمایاں ہوتا ہے۔ میں نے یہاں لکھا ہے: "مضامینِ درس آموز، زبانِ رسا و شیریں، اور لطیف و رقیق شاعرانه احساس کے ہمراہ"؛ اگر یہ عناصر موجود ہوں، تو شعر واقعی ایک ممتاز شعر بن جائے گا۔

ایک اور بات، یہ ہمارے زمانے کے موجودہ مفاہیم کا مسئلہ ہے۔ میرے خیال میں کبھی بھی اتنے زیادہ سماجی مفاہیم جو شوق پیدا کرنے والے ہوں، اس حد تک اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ اب آپ دیکھیں کہ اسی محفل میں شہید سلیمانی کا ذکر ہوا، شہید رئیسی کا ذکر ہوا، شہید سنوار کا ذکر ہوا، شہید نصر اللہ کا ذکر ہوا اور یقیناً بہت سے معزز حضرات بھی تیار تھے [کہ کہیں] یا شاید کچھ اشعار ان ہی موضوعات پر رکھتے ہوں؛ یعنی یقیناً رکھتے ہوں گے؛ کیونکہ میں نے آقای ملکیان (6) اور کچھ دیگر دوستوں سے اسی موضوعات پر بہت اچھے اشعار سنے ہیں۔ یہ بہت اہم موضوعات ہیں؛ حقیقت میں یہ وہ مفاہیم زندہ کرنے والے ہیں جو لوگوں کے ذہنوں میں زندہ رہنے چاہئیں۔ یہی ہمارے زمانے کا کام ہے۔ میرے خیال میں یہ بھی ضروری ہے۔

اور اسی طرح توحیدی، معرفتی اور حکمت سے متعلق مفاہیم بھی شاعری میں اہم ہیں۔ کہ جب میں نے کسی ایک دوست کے شعر کے بارے میں کہا کہ واقعا وہ حکیمانہ شاعری تھی، تو یہ بالکل درست ہے؛ کچھ تعبیرات اور مفاہیم جو شاعری میں آتے ہیں، وہ حکمت آمیز اعلیٰ مفاہیم ہوتے ہیں اور یہ بہت قیمتی ہیں۔ ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہیے؛ اور البتہ ان کے سننے والے کم ہو نگے؛ بلاشبہ یہ تمام مفاہیم ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

گفتم ز کجایی تو، تسخر زد و گفتا من
نیمی‌ام ز ترکستان، نیمی‌ام ز فرغانه(7)

یہ بہت کم لوگ سمجھ پاتے ہیں کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے؛ یعنی وہ مستی جو وہ بیان کر رہا ہے:

ای لولی بربط‌زن تو مست‌تری یا من؟
ای پیش چو تو مستی، افسون من افسانه(8)

ہم میں سے اکثر یہ نہیں سمجھ پاتے کہ یہ کیا مفہوم ہے، مگر یہ مفہوم موجود ہے، اس کے طلب گار بھی ہیں اور سمجھنے والے بھی ہیں؛ ایسے لوگ ہیں جو ان مضامین کو سمجھتے ہیں اور اگر کوئی ایسا شخص ہو جو اس کے مخاطبین اچھے سے تلاش کر سکے تو وہ کامیاب ہو سکتا ہے۔

ٹیلی ویژن کے استعمال کے حوالے سے بھی میرا ایک اور خیال ہے؛ اب یہ ذاتی پسند ہے؛ میں نہیں چاہتا کہ اس پر کوئی حکم صادر کیا جائے۔ کہ ہم کسی اچھے شاعر کو مثلاً اپنے معیار کے مطابق کسی ایک پروگرام میں لائیں، جس کا شیڈول مرتب اور ہفتہ وار ہو، اور ایک گھنٹہ تک ناظرین کے سامنے رکھیں تاکہ وہ اس جوان کا شعر سنیں، اس دوسرے کا شعر سنیں، بحث کریں، گفتگو کریں، اس سے شاعر کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ ٹیلی ویژن کا شاعر کو اس طرح استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ سب بھی ایسا نہیں کرتے؛ مجھے اس بات کا ڈر  ہے کہ اس طرح کے پروگراموں سے شاعری بازار میں بکتی ہوئی چیز بن جائے گی؛ اچھے شاعر کا بھی وہی حال ہوگا۔ البتہ شاعری کو ٹیلی ویژن یا ریڈیو پر پڑھنا چاہیے؛ اچھے اور معیاری طریقے سے، ایک اچھے مقدمے کے ساتھ [پڑھنا چاہیے]؛ ایک اچھا میزبان کہے: ہاں، یہ شاعر ہیں، ان میں یہ خصوصیات ہیں، اور پھر شاعر احترام کے ساتھ آ کر وہاں بیٹھے اور اپنا شعر پڑھے؛ یہ بہت اچھا ہوگا، لیکن جیسے میں نے بیان کیا، اس طرح شاعری کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور اس کے لیے زیادہ لوگ ممکنہ طور پر نہیں آئیں گے؛ یعنی عوام سب نہیں چاہتے کہ ایسے شعری پروگرام ہوں۔ بہرحال، ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ آپ تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھیں گے۔

ایک دوست نے جو مجھے آج رات کی تقریر کے لیے مشورہ دیا تھا، ایک بہت اچھا نکتہ بتایا اور وہ یہ تھا کہ ہمارے ماضی کے شعری دفتر میں یہ رواج رہا ہے کہ دفتر کی ابتدا توحیدیہ اور تحمیدیہ سے ہوتی تھی؛ «اوّل دفتر به نام ایزد دانا» (9) حتیٰ کہ مولوی بھی، جو خدا کا نام نہیں لیتے، در حقیقت وہ ازلی وصل اور معنوی تعلقات کو بیان کرتے ہیں، جو کہ وہ بھی خدا ہے، وہ بھی روحانیت ہے، وہ بھی معرفت ہے۔(۱۱) اور میرے خیال میں اگر آپ اس کو مدنظر رکھیں تو بہت اچھا ہوگا؛ یعنی آپ جو اپنے اشعار کا دفتر شائع کرتے ہیں، اس کی ابتدا ایسے معارفی اشعار سے ہو، توحیدی اشعار سے ہو، تحمیدی اشعار سے ہو۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو کامیاب کرے۔

والسلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

1۔ اس محفل کے شروع میں کچھ شعرا نے اپنے اشعار سنائے

2۔ خاقانی۔ دیوان شاعری، قطعات، اس مطلع کے ساتھ ایک قطعہ کہ

" بہ تعریضی گفتی کہ خاقانیا چہ خوش داشت نظم روان عنصری"

3۔ سورہ شعرا، آیت نمبر 227 "۔۔۔۔ الّا ان کے جو ایمان لائے، اچھے کام کئے اور خدا کو بہت یاد کرتے ہیں"

4۔ صائب تبریزی، دیوان شاعری، غزلیات۔

یک عمر میتوان سخن از زلف یار گفت

در بند آن مباش کہ مضمون نماندہ است

5۔ حزیں لاہیجی۔ دیوان شاعری، اس مطلع کی غزل کہ

ای وای بر اسیری کز یاد رفتہ باشد

در دام ماندہ باشد ، صیاد رفتہ باشد

6۔ جناب محمد حسین ملکیان

7۔ مولوی، دیوان شمس، غزلیات، اس مطلع کی غزل کہ

من بیخود وتو بیخود ما را کہ برد خانہ

من چند تورا گفتم کم خور دوسہ پیمانہ

گفتم زکجایی تو؟ تسخر زد وگفت ای جان

نیمی ام ز ترکستان نیمی ام زفرغانہ

8۔ ایضا

9۔ سعدی، دیوان شاعری، غزلیات، اس مطلع کی غزل کہ

اول دفتر بہ نام ایزد دانا صانع پروردگار حیّی و توانا

11۔ مولوی، مثنوی، دفتر اول

بشنو این نی چون شکایت میکند ازجدایی ھا حکایت میکند