بسم الله الرّحمن الرّحیم(1)
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
جلسہ بہت ہی عمدہ رہا۔ ہمارے عزیز نوجوانوں کی بیانات سے مجھے اس نتیجے تک پہنچنے میں دیر نہ لگی کہ طلبہ کے مجموعی فکری و تحلیلی معیار میں ترقی ہو رہی ہے؛ یعنی اس سال میں نے جو باتیں سنیں، ان کا معیار ان باتوں سے بلند تر تھا جو میں پچھلے برس، یا گزشتہ برسوں میں سنتا آیا ہوں۔ خود یہ بات ایک امیدافزا اور بشارت بخش معاملہ ہے؛ یعنی ملک کا نوجوان طبقہ اور طالب علم طبقہ مسلسل حرکت میں ہے اور ترقی کی طرف گامزن ہے۔ بعض اوقات ہم خود حرکت میں مصروف ہوتے ہیں، مگر ہمیں اس حرکت کا شعور نہیں ہوتا، لیکن یہ حرکت جاری ہوتی ہے؛ فی الحال یہی کیفیت ہے۔ خوش قسمتی سے اس وقت طلبہ کے ماحول پر جو طرزِ فکر حاوی ہے، وہ تدریجاً پختگی اور جامع نگاہ کی سمت میں بڑھ رہا ہے۔
البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں یہاں کہی گئی ہر بات سے اتفاق رکھتا ہوں؛ ممکن ہے بعض باتیں ایسی ہوں جن سے مجھے اختلاف ہو۔ مثلاً فرض کیجیے کہ ایک بھائی نے کہا کہ وہ افراد جن کے ہاتھ میں اقتدار کے عناصر ہیں، مثلاً سیکیورٹی یا عسکری ادارے وغیرہ، وہ حساس مواقع پر صہیونی حکومت کے مقابلے میں اپنے فرائض ادا نہیں کرتے اور صرف بیانیہ جاری کرتے ہیں! یہ بات درست نہیں ہے؛ نہیں، وہ افراد جنہیں عمل کرنا چاہیے، انہوں نے اپنے وقت پر عمل کیا ہے۔ اگر وہ عمل جس کی آپ توقع رکھتے ہیں انجام نہیں پایا، تو تحقیق کریں اور پیروی کریں — البتہ بعض معاملات کی تحقیق ممکن نہیں، کیونکہ وہ بہت سے مسائل خفیہ نوعیت کے ہوتے ہیں — تب آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہاں، وہ عمل جو انجام پایا یا نہیں پایا، وہ مکمل طور پر قابلِ قبول ہے۔
جوانوں کے حوالے سے بھی کہا گیا کہ میں نے نوجوانوں پر اعتماد کرنے سے دستبرداری اختیار کی ہے، نہیں، میرا واحد سہارا اور امید تو آپ نوجوان ہی ہیں۔ میں نوجوانوں پر تکیہ کرنے کو ضروری سمجھتا ہوں، مگر بہت سے شرائط ہیں جن پر توجہ دینا ضروری ہے — ممکن ہے میں آج کی گفتگو میں ان میں سے کچھ کی طرف اشارہ بھی کروں — اور سب سے بنیادی شرط یہ ہے کہ آپ اپنے مؤقف پر ثابت قدم رہیں، ’’استقامت‘‘ دکھائیں؛ ایسا نہ ہو کہ آپ کسی تجزیے پر پہنچیں، کوئی انقلابی اور درست رائے قائم کریں، جو قابلِ قبول ہو، مگر کسی چھوٹے سے مانع یا شک کی وجہ سے آپ اپنے اس نظریے سے ہٹ جائیں اور بےحس انسان میں تبدیل ہو جائیں۔ اس جذبے، اس احساس، اس نشاط، اور اس تجزیے کی حفاظت کیجیے۔
محترم وزارت علوم اور وزارت صحت کے ذمہ داران سے بھی میری گزارش ہے کہ ان باتوں پر سنجیدگی سے توجہ دیں؛ یہاں تک کہ ان بھائیوں اور بہن کی تحریری باتوں کو — جن میں کچھ شکایتیں موجود تھیں — حاصل کریں، پڑھیں، غور کریں اور اس پر عملدرآمد کریں؛ ان میں سے بعض نکات بالکل درست ہیں۔ ہم بھی، جہاں تک ہم سے متعلق ہو، یقیناً ان پر عمل کریں گے۔
میں نے آج کی اپنی بات کو تین حصوں میں ترتیب دیا ہے جنہیں پیش کروں گا؛ ایک مختصر بیان ماہِ رمضان اور روزے کے بارے میں ہے؛ دوسرا بحث طلبہ کے متعلق ہے، یعنی آپ کے متعلق؛ تیسری گفتگو حالیہ زبان زدِ عام سیاسی حالات سے متعلق ہے جن پر کچھ نکات پیش کیے جائیں گے۔
البتہ یہ کہنا ضروری ہے کہ گزشتہ سال جب یہ اجلاس منعقد ہوا تھا اور اب کے درمیان مختلف واقعات پیش آئے ہیں؛ گزشتہ سال کی صورتحال مختلف تھی۔ گزشتہ برس، جب آج کے دن ہم آپ طلبہ سے ملاقات کر رہے تھے، شہید رئیسی زندہ تھے، شہید سید حسن نصراللہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ( ہمارے ساتھ تھے، شہید ہنیہ، شہید صفی الدین، شہید سنوار، شہید ضیف اور دیگر کئی عظیم انقلابی شخصیات ہمارے درمیان یا ہمارے ساتھ موجود تھیں، جو اس سال نہیں ہیں۔ دشمنان، مخالفین اور اسلامی جمہوریہ کے رقبا کی سطحی، کمزور اور بےبنیاد نگاہیں اس واقعے سے ایک غلط تاثر اخذ کرتی ہیں۔ میں، ان کے موقف کے برخلاف، آپ سے پورے اطمینان کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہاں، یہ برادران بہت ہی قیمتی اور بلند مرتبہ تھے اور یقیناً ان کا نہ ہونا ہمارے لیے ایک خسارہ ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں، لیکن ہم، جو اس سال ان شخصیات کو اپنے درمیان نہیں پاتے، پچھلے سال کی نسبت — اسی دن کے موقع پر — بعض میدانوں میں مضبوط تر ہیں، بعض میں کمزور نہیں، اگرچہ کچھ میں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ اس سال، بحمدالله، ہمارے پاس مختلف پہلوؤں سے ایسی قوتیں اور صلاحیتیں موجود ہیں جو گزشتہ سال ہمارے پاس نہ تھیں۔ پس ہاں، ان عزیزوں کا نہ ہونا ایک نقصان ہے، اور مغربی ایشیا کے علاقے میں جو واقعات پیش آئے وہ تلخ اور دردناک تھے، لیکن اسلامی جمہوریہ، بحمدالله، اپنی ترقی، ارتقا اور قوت میں اضافہ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔
سنہ ہجرت کے تیسرے سال میں، پیغمبر اکرمؐ نے حمزہ جیسی شخصیت کو کھو دیا؛ جنگِ اُحد میں حمزہؓ پیغمبرؐ کے پاس سے چلے گئے۔ اور صرف حمزہ ہی نہیں، [بلکہ] ان میں نمایاں ترین حمزہ تھے، ورنہ دیگر شجاع، دیگر ساتھی بھی رخصت ہوئے؛ یہ سنہ ہجرت کے تیسرے سال کی بات ہے۔ چوتھے اور پانچویں ہجری میں پیغمبرؐ، تیسرے سال کی نسبت کہیں زیادہ قوی اور مضبوط تھے؛ یعنی ممتاز شخصیات کا چلے جانا ہرگز پیچھے ہٹنے، پسپائی یا کمزوری کی علامت نہیں ہے، بشرطیکہ دو عنصر موجود ہوں: ایک "ہدف" (نصب العین(، دوسرا "کوشش"؛ ہدف اور کوشش۔ اگر یہ دو عناصر کسی قوم میں موجود ہوں، تو شخصیات کی موجودگی یا عدم موجودگی یقیناً نقصان ہے، لیکن مجموعی تحریک کو کوئی ضرب نہیں پہنچتی۔
اب ماہِ رمضان کا موضوع۔ خداوند متعال فرماتا ہے:
یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِینَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ؛ (۲( یعنی اس آیت کے مطابق روزے کا مقصد تقویٰ ہے۔ تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ کا مادہ "وقایہ" ہے۔ وقایہ یعنی حفاظت۔ تقویٰ یعنی حفاظت کا ذریعہ، مصونیت کا وسیلہ، ایک ایسا عنصر جو انسان کو محفوظ بنائے؛ یہی تقویٰ ہے۔ تقویٰ انسان کو محفوظ بناتا ہے؛ کس سے؟ برائیوں سے، وسوسوں سے، بداندیشیوں سے، بدنیتیوں سے، خیانتوں سے، فسق و فجور سے، شہوت پرستی سے، فرض کی ادائیگی سے لاپرواہی اور واجب عمل کو ترک کرنے سے؛ تقویٰ یہی ہے؛ یہ بہت اہم چیز ہے۔ روزہ آپ کو اس کیفیت کا ایک نمونہ، ایک مختصر جھلک عطا کرتا ہے؛ یعنی آپ بھوکے ہیں اور کھانا موجود ہے، پیاسے ہیں اور پانی موجود ہے [لیکن] آپ کھاتے نہیں، پیتے نہیں؛ یعنی خود کو روکتے ہیں؛ یہی تقویٰ ہے، لیکن چند گھنٹوں پر اور چند مخصوص چیزوں پر محدود ہے؛ یہی حالت میری اور آپ کی زندگی میں عمومی ہونی چاہیے تاکہ ہم با تقویٰ بن سکیں۔
پورے قرآن میں تقویٰ کے آثار بہت زیادہ ذکر ہوئے ہیں لیکن میں ابھی دو اثرات کی طرف اشارہ کرتا ہوں: پہلا: وَ مَن یَتَّقِ اللَّهَ یَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا * وَ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لا یَحْتَسِبُ؛ (۴( اگر تقویٰ حاصل ہو جائے تو تقویٰ کشادگی پیدا کرتا ہے، "دنیاوی گشائش"۔ تقویٰ دنیاوی گشائش کا سبب بنتا ہے؛ یعنی معیشت پر اثر ڈالتا ہے، امن و امان پر اثر ڈالتا ہے؛ تقویٰ یہی ہے۔ ایک با تقویٰ معاشرہ ہو تو یَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا؛ تقویٰ اس کے لیے راستے کھول دیتا ہے۔
دوسرا: هُدًى لِّلْمُتَّقِینَ؛(۵( قرآن تقویٰ رکھنے والوں کے لیے ہدایت ہے؛ "الہی ہدایت"۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں، بلکہ سب سے اہم شے یہی ہے۔ کیا ہم نجات، فلاح، اور سعادت نہیں چاہتے؟ تو پھر ہمارے لیے ایک ہدف ہے؛ اور اس ہدف تک پہنچنے کے لیے کسی کی رہنمائی درکار ہے، کوئی ہمیں ہاتھ پکڑ کر لے چلے؛ وہ خدا ہے۔ اور خدا کب دستگیری کرتا ہے؟ جب ہم تقویٰ کی رعایت کریں۔ لہٰذا روزے کو ایک وسیلہ بنائیں تاکہ ہم اپنے اندر تقویٰ کو مضبوط کریں؛ یہی اصل بنیاد ہے۔ آج ان دونوں نتائج، یعنی گشائش اور ہدایت، کی ہمیں عملی طور پر ضرورت ہے۔ ہمیں، دونوں کی ضرورت ہے: دنیاوی کشادگی کی بھی، اور الہی ہدایت کی بھی۔
اچھا، تقویٰ کو حاصل کیسے کریں؟ اس بارے میں گفتگو کی گئی ہے، راہیں بھی بتائی گئی ہیں، جو کچھ میں ایک جملے میں عرض کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ تقویٰ میرے اور آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے؛ اس کے لیے ہمارے عزم و ارادے کی ضرورت ہے؛ ہمیں ارادہ کرنا ہوگا۔ امام خمینیؒ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) نے اپنی ایک اخلاقی کتاب میں ــ شاید "چہل حدیث" یا "اسرار الصّلاۃ" میں ــ اُس قاری سے مخاطب ہو کر جو توحید کے راستے پر چلنا چاہتا ہے اور توحیدی سلوک اختیار کرنا چاہتا ہے، کئی بار دہرایا اور فرمایا: " مردانہ ارادہ کرو، قاطعانہ ارادہ کرو"؛(۶(
آپ کے عزم، آپ کی توجہ، اور آپ کی نگہداشت سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ وہ نوجوان جو کسی پرکشش مگر حرام واقعے کے دوران اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے، یہ عمل اس کے اندر تقویٰ کی قوت کو بڑھا دیتا ہے، اور اس کی خودداری، ضبط نفس، اور حفاظت کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ تھا رمضان کے بارے میں بیان۔
[اب] بات کرتے ہیں طالبعلموں کے بارے میں؛ آپ لوگوں نے جو باتیں طلبہ کے مسائل کے بارے میں کہیں، اور جو امید اس طلبہ تحریک سے ان دلوں میں ہے جو یونیورسٹی پر یقین رکھتے ہیں، وہ سب باتیں بالکل درست تھیں، اور میں ان سب کی تصدیق کرتا ہوں۔ میں نے ایک مختصر نکتہ یہاں یادداشت کیا ہے ــ [البتہ] اگر انشاءاللہ آج مختصر انداز میں بیان کر سکا ــ اور وہ ہے یہی "طلبہ کے تشخص ((identity" کا مسئلہ۔
دیکھیے، ان دو صدیوں کے دوران جب مغربی تمدن ہمارے ملک میں داخل ہوا اور ہم سے رابطے میں آیا اور ہم نے مغرب اور مغربی تمدن سے تعامل شروع کیا، ایرانی نوجوان کو مغربی تمدن کے ساتھ دو مختلف تجربات حاصل ہوئے: ایک تجربہ اُس کا پہلا تجربہ تھا جس کا نتیجہ خیرہ ہونا اور خودفراموشی تھا؛ دوسرا تجربہ اُس کے بعد کا تجربہ تھا جس کا نتیجہ شناخت، انتخابی رویہ، احساسِ استقلال، اور بعض مواقع پر مکمل جدائی اور دوری کا احساس تھا۔
میں ان دونوں رویوں کو مختصر بیان کرتا ہوں۔
پہلا رویہ، جب ہم نے مغربیوں، مغربی عناصر، اور مغربی مظاہر سے پہلا رابطہ رابطہ قائم کیا، ایرانی نوجوان ــ بات نوجوان کی ہو رہی ہے، میں نوجوانوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں؛ دیگر طبقاتِ عوام کا احساس بھی تقریباً نوجوانوں جیسا ہی تھا؛ فی الحال میرا خطاب نوجوانوں سے ہے ــ جب اس نے مغرب سے رابطہ قائم کیا، تو اس کے ذہن میں ایک مفروضہ ایجاد ہوا، ایک قطعی تصور جنم لیا، اور وہ یہ تھا: "ترقی یافتہ مغرب، اور پسماندہ، کمزور ایران"؛ "کامیاب مغرب، اور زوال پذیر ایران" کا دو طرفہ تصور؛ یہ تصور اس کے لیے یقینی بن گیا۔
جب ایرانی نوجوان نے مغرب کی ترقی، مغربی علم، مغربی ٹیکنالوجی اور اسی جیسے امور کو دیکھا، تو اسے احساس ہوا کہ وہ پیچھے رہ گیا ہے، زوال پذیر ہے، ناتوان ہے؛ اور مغرب ترقی یافتہ ہے، لہٰذا اُس کی پیروی کرنی چاہیے، اُس کے پیچھے چلنا چاہیے۔
یقیناً واقعیت بھی یہی تھی؛ یعنی سو سال پہلے کا ایران، حقیقتاً سو سال پہلے کے مغرب سے بہت پیچھے تھا۔ اب اس کے اسباب و عوامل مفصل ہیں اور آج کی ہماری گفتگو کا موضوع یہ نہیں، لیکن بہرحال یہ ایک حقیقت تھی۔
البتہ یہاں ایک اہم نکتہ موجود ہے: اگر آپ اپنے مقابل فریق کو دیکھیں ــ مثلاً مغرب کو دیکھیں ــ اور اس کی طاقت کے نکات کو دیکھیں، اور اگر یہ طاقت کے نکات آپ کو اپنی کمزوریوں کی طرف متوجہ کریں اور آپ کو سوچنے پر مجبور کریں، تو یہ اچھی بات ہے۔ انسان دیکھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور ہم کیا کرنا چاہیے؛ فرض کریں انہوں نے علمی ترقی حاصل کی، تو ہمیں بھی عملی ترقی حاصل کرنی چاہیے؛ اگر ایسا ہو تو یہ اچھا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مغرب کو ایک کامیاب وجود کے طور پر دیکھا گیا، [یعنی] ان کی طاقتوں کی وجہ سے ہماری اپنی طاقتیں بھلا دی گئیں!
ہم بھی کچھ مضبوط نکات رکھتے تھے؛ ملتِ ایران کے پاس کچھ قوت کے عناصر موجود تھے: ایمان تھا، پاکیزگی تھی، بھائی چارہ تھا، خاندان تھا، وفا [تھی]، حیا [تھی]؛ یہ سب ہماری طاقتیں تھیں۔ ہم ان سے غافل ہو گئے، اُس زمانے کا ہمارا نوجوان ان سے غافل ہو گیا؛ خود بھی غافل ہوا، اور ملک کے اندر کچھ لوگ یا تو پیدا ہو گئے یا پہلے سے موجود تھے جنہوں نے اس غفلت کو شدید تر کر دیا؛ یعنی خودی کے شعور تک پہنچنے کے بجائے، خودفراموشی کا شکار ہوگئے اور عوام کے درمیان یہ نظریہ عام کر دیا کہ اگر آپ کہیں پہنچنا چاہتے ہیں، اگر آپ کی زندگی، آپ کا علم، آپ کی صلاحیتیں اُس مقام تک پہنچیں جو آپ مغرب میں دیکھتے ہیں، تو آپ کو ہر معاملے میں ان جیسا بننا ہوگا، آپ کو مغربی بننا ہوگا، آپ اپنی اصل اقدار پر تکیہ کرتے ہوئے کسی مقام تک نہیں پہنچ سکتے! وہی مشہور بات تقیزاده(۷) کی کہ: "فرقِ سر سے لے کر پاؤں کے ناخن تک مغربی بن جانا چاہیے؛ لباس مغربی ہو، اخلاق مغربی ہو، زندگی کا طرزِ عمل مغربی ہو، سب کچھ مغربی ہو، تب ہی ہم ان کے مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔"
اصل مسئلہ یہ ہے کہ مغرب کی نقل اخلاقی، فکری اور سلوکی پہلوؤں میں تو کی گئی، لیکن اُن بنیادی امور میں جن پر مغرب کی بنیاد تھی، کچھ بھی نہیں ہوا۔ جی ہاں، بظاہر ایک یونیورسٹی بنا دی گئی، لیکن اس یونیورسٹی سے رضا خان کے دور میں نہ کوئی عظیم انسان نکلا، نہ کوئی ایجاد، نہ کوئی نیا کام، نہ کوئی علمی پیشرفت ہوئی۔ مغربی لوگوں نے بھی اسی نظریے کو تقویت دی؛ انہوں نے بھی اسی احساس، اسی یقین کو کہ مغرب کی پیروی کرنی چاہیے، مغرب کا تابع ہونا چاہیے، تقویت بخشی۔ اُس وقت مغربی حکومتوں کی نمائندگی ایران میں حقیقتاً برطانیہ کے ہاتھ میں تھی، جو ہر شے پر، ہر فرد پر قابض تھے؛ وہ ایک آمر کو اقتدار میں لائے۔ رضاخان اقتدار میں آیا؛ وہ اپنے اقتدار، آمرانہ طرز، اور زور زبردستی کے مزاج کے ساتھ ہر جگہ چھا گیا، اور اس کے اردگرد ایک حلقہ جمع ہوا، جو فکری لحاظ سے ــ کیونکہ یہ باتیں خود اُس کی عقل میں نہیں آتی تھیں ــ مغرب کی طرف رجحان، حقیقت میں مغرب کی تابع داری، اور مادی تمدنِ مغرب میں فنا ہوجانے کی فکر کو عوام میں عام کرتے، رواج دیتے، اسے عملی شکل دیتے، اور ہماری معیشت، ہمارے مختلف مسائل، اور ہمارے سماجی امور میں اس کو آگے بڑھاتے۔ گویا مغرب کا پرچمِ حمایت انہی کے ہاتھ میں تھا۔
رضاخان دراصل تباہ کن مغرب پسندی کی علامت تھا؛ یعنی ایسا مغرب پسندی جو برباد کر دے؛ گویا ہر چیز کو مغربیوں کے سپرد کر دیا گیا، اور نتیجہ یہ ہوا کہ ملک باطن سے، اندر سے کھوکھلا ہو گیا۔
لہٰذا جب بیس سال بعد وہی انگریز رضاخان کو دوبارہ ہٹا کر لے گئے، تو ہمارے ملک کے پاس نہ ایک قومی فوج تھی، نہ قومی معیشت، نہ قومی سلامتی، نہ داخلی قومی سیاست، نہ خارجی قومی سیاست، حتیٰ کہ ایک قومی لباس بھی نہ تھا! یعنی ملک کی ترقی کو صرف لباس کی تبدیلی، یا فلاں قسم کی ٹوپی پہننے جیسے امور میں محدود کر دیا گیا۔ مغرب کے ساتھ ان کا رابطہ اس طرح کا ہوا۔
قاجار اور پہلوی ادوار کے ایک سیاسی فرد، مخبرالسّلطنه هدایت، کے قول کے مطابق، "نگاہ مغربی شہروں کے سڑکوں (Boulevards) پر تھی، نہ کہ لیبارٹریوں پر، نہ کہ کتب خانوں پر"؛ ان کا طرزِ نگاہ یہی تھا۔
یقیناً وہ فکری شخصیات، جیسے تقیزاده، فروغی، حکمت وغیرہ، اس دور کے سب سے بڑے قصوروار ہیں، اور انہی کی وجہ سے ہمارے ملک نے دہائیوں تک ترقی نہ کی۔ توجہ رکھیں، اگر اُن کی جگہ ایک مخلص اور محب وطن گروہ موجود ہوتا، تو وہ ملک کو آگے لے جا سکتا تھا۔ ان لوگوں نے ملک کو پیچھے رکھا۔ یہ ہے مغرب کے مقابل ابتدائی رویّہ اور ردعمل۔
دوسرا تجربہ ــ جو میرے خیال میں زیادہ اہم ہے؛ اور جو ہمیں آج اس مقام تک لے آیا ــ وہ آہستہ آہستہ تلخ واقعات کے درمیان عوام کے لیے ظاہر ہوا۔ ہمارے ملک میں مغربیوں کے ظالمانہ اور غیر منصفانہ اقدامات؛ ملک کے بعض علاقوں پر انگریزوں اور تزاری روسیوں کا قبضہ، جو اُس زمانے میں مغرب ہی کا حصہ تھے؛ پھر بعد میں سوویت یونین نے بھی کچھ حصوں پر قبضہ کیا؛ اس تسلط کے اثرات؛ شمالی ایران، جنوبی ایران، مشرقی ایران پر قبضہ کیا، کچھ علاقوں پر تسلط حاصل کیا، سرکوب کیا، قحط پیدا کیا۔ ہزاروں افراد ــ اب یہ عدد یقینی طور پر ہمارے پاس نہیں، لیکن بعض کہتے ہیں چند ملین افراد ــ اُس قحط کے سبب جان سے گئے، جو مغربیوں نے اس ملک میں پیدا کیا تھا۔ اندرونی تحریکوں کو دبایا گیا؛ تبریز میں ایک انداز سے، مشہد میں دوسرے انداز سے، گیلان میں تیسرے انداز سے؛
اور مختلف قسم کی خیانتیں جیسے وثوقالدوله کا معاہدہ،(۸)، دارسی آئل کنٹریکٹ کی توسیع(۹) رضا شاہ کے ذریعے، اور اس جیسے دیگر اقدامات۔ ان اعمال نے بتدریج ہوشمند افراد، عوام، اور خاص طور پر نوجوانوں کو مغربیوں کی حقیقت کی طرف متوجہ کیا؛ یعنی ظاہر کی اس مرتب، چمک دار، اور بعض اوقات مسکراتی شکل کے پیچھے، ایک خبیث باطن، ایک خائن باطن پوشیدہ ہے؛ اسے محسوس کیا گیا۔ بتدریج وہ جوش، وہ خیرہ ہونے کی کیفیت جو مغربی تمدن کے لیے عوام اور نوجوانوں میں تھی، کم ہوتی گئی۔
نہضتِ ملی نفت (قومی تیل کی تحریک) جو سن ۱۳۲۹ اور ۱۳۳۰ ہجری شمسی (۱۹۵۰ء–۱۹۵۱ء) میں رونما ہوئی، یقیناً ایک اہم مرحلہ تھا، ایک تاریخ ساز مرحلہ تھا؛ یہ ایک مرکزی نقطۂ تھا جس نے مغربیوں کا باطن ہمیں دکھایا؛
مغرب کی کلیّت، اُس کی باطنی حقیقت، اس تحریک کے ذریعے ــ اس کی مقدمات، اس کے نتائج اور اثرات کے ذریعے ــ ایرانی عوام پر عیاں ہو گئی۔ مصدق، تیل کے معاملے میں انگریزوں کے خلاف اپنی جدوجہد میں، امریکہ پر تکیہ کیے ہوئے اور اس سے امید لگائے ہوئے تھے؛ علنی طور سے، صراحت سے پرامید تھے کہ امریکہ ان کی حمایت کرے گا انگریزوں کے خلاف، [لیکن] امریکہ ہی نے مصدق کو دھچکا پہنچایا؛ یعنی وہی امریکہ جس سے مصدق کو مدد کی امید تھی، اسی امریکہ نے انکے خلاف بغاوت کروائی۔ "کیم روزویلٹ"، وہ مشہور و معروف کودتاچی عنصر جس نے ۲۸ مرداد کی بغاوت کو عملی شکل دی، ایک امریکی شخص تھا؛ امریکی پیسے سے، امریکی وسائل سے وہ آئے اور اس بغاوت کو انجام دیا، اور چند دہائیوں تک ملک کو اسیر رکھا۔
تو، ان واقعات کا ایک نتیجہ نکلا؛ اور وہ نتیجہ یہ تھا کہ ترقی کے لیے مغرب پر تکیہ نہ صرف مددگار نہیں ہے بلکہ رکاوٹ بھی ہے؛ یعنی مغرب پر انحصار ہمیں ترقی تک نہیں پہنچاتا بلکہ ترقی میں مانع بنتا ہے۔ یہ بات واضح ہو گئی کہ ایران میں کوئی بھی ایسی چیز جو مغرب کی زیادتیوں اور مفادات کے خلاف ہو، مغربی طاقتیں اُس سے بےرحمانہ طریقے سے نمٹتی ہیں؛ یا تو براہ راست نمٹتی ہیں، جیسے کہ ۲۸ مرداد میں براہِ راست مداخلت کی اور بغاوت کی؛ یا بالواسطہ نمٹتی ہیں، یعنی اپنی کٹھ پتلی حکومت کے ذریعے، جیسا کہ ۱۵ خرداد ۱۳۴۲ میں ہوا؛ وہاں بھی انہوں نے ردّعمل دکھایا، قتل و غارت کی، قتلِ عام کیا، لیکن یہ سب محمدرضا کے ہاتھوں ہوا۔
تو، یہ کیفیت، یعنی مغربی مادّی تمدّن کی باطنی حقیقت کا ایرانی قوم اور ایرانی نوجوان کے لیے واضح ہو جانا، اس بات کا سبب بنی کہ ردِّعمل ظاہر ہوں؛ کچھ افراد نے سینہ سپر کیا۔ مرداد میں بغاوت ہوئی، اُسی سال آذر مہینے میں، تہران یونیورسٹی میں، کچھ نوجوان طلبہ نے اس وقت کے امریکی نائب صدر نکسن کی آمد پر قیام کیا، مزاحمت کی، اور تین طلبہ حکومت کے ایجنٹوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے؛ یعنی اپنی جانیں قربان کر دیں۔ اسی دن سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ البتہ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ یونیورسٹی نے بہت بڑے واقعات میں کردار ادا کیا ہے۔ جی ہاں، آج کی یونیورسٹی، انقلاب سے پہلے کی یونیورسٹی اور یہاں تک کہ انقلاب کے بعد کی یونیورسٹی، بیس سال پہلے کی یونیورسٹی سے بہت مختلف ہے؛ آج کی یونیورسٹی آگے ہے، اس کی ترقی زیادہ ہے، مختلف مسائل کی سمجھ زیادہ پیچیدہ اور گہری ہے، اور اس کی استقامت بھی عمدہ ہے۔ برخلاف اس پروپیگنڈے کے جو کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی کہا جاتا ہے کہ موجودہ نسل کے طلبہ اور ایرانی نوجوانوں میں ۶۰ کی دہائی کی نسل جیسی آمادگی نہیں ہے، یہ بات درست نہیں ہے؛ آج بھی وہی آمادگی موجود ہے۔ ہم نے اسے مختلف مواقع پر مشاہدہ کیا ہے، اور آج بھی اپنی آنکھوں کے سامنے ایرانی نوجوان کی صفِ اوّل میں موجودگی اور دشمن کے مقابلے میں آمادگی کا مشاہدہ کر رہے ہیں؛ ان کی بصیرت بھی بہتر ہے، اور ان کی آمادگی بھی بحمداللّٰہ بہت اچھی ہے۔
البتہ اُس انحرافی رجحان کو یہ اقدام روک نہ سکا؛ وہ سلسلہ جاری رہا؛ وہ سلسلہ انقلاب کے آغاز تک، کھلے طور پر، لوگوں کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اثرانداز ہوتا رہا؛ یعنی حقیقتاً اگر انقلاب ۱۳۵۷ میں نہ آتا، تو اُس وقت کے حکومتی و ثقافتی عہدیداران کا رویہ ایسا تھا کہ ملک کو اس کی تمام اخلاقی، روحانی خصوصیات اور سرمائے سے محروم کر دیتا؛ یعنی انحصار ــ مادی اور معنوی دونوں ــ بیرونِ ملک، امریکہ، اور دیگر مختلف ممالک پر، روزبروز بڑھتا جاتا اور اُن کے لیے لوٹ مار کے دروازے مزید کھل جاتے؛ انقلاب نے ایرانی قوم کی فریاد رسی کی، ملک کو نجات دی، اس یلغار کو روکنے میں کامیاب ہوا۔ وہ آخرکار انقلاب آنے تک اپنے راستے پر چلتے رہے۔
میں اس مسئلے کو بہت اہمیت دیتا ہوں: امام خمینیؒ (رضوان اللّٰہ علیہ) کی سب سے بڑی فنی مہارت یہ تھی کہ انہوں نے سب سے پہلے "قوم" سے خطاب کیا، کسی خاص طبقے سے نہیں، کسی خاص پارٹی یا مخصوص گروہ سے نہیں؛ انہوں نے ایرانی قوم سے بات کی، قوم کو تشخص دیا، قوم سے مطالبہ کیا اور ان سے توقع کا اظہار کیا؛ انہوں نے قوم کو میدان میں لا کھڑا کیا، اسے میدانِ عمل میں داخل کیا؛ یہ امام خمینیؒ کا عظیم لارنامہ ہے۔ ماضی کے کسی واقعے میں، اس طرح کی وسیع قومی تحریک، کسی ایسے رہنما کی دعوت پر، جو امام خمینیؒ جیسا ہو ــ اور ویسا کوئی تھا بھی نہیں ــ کبھی وقوع پذیر نہیں ہوئی۔
یہ اس طرح تھا کہ امام خمینیؒ نے قوم کو احساسِ تشخص دیا، ان سے توقع رکھی کہ وہ میدان میں آئیں، ان پر اعتماد کیا، قوم کی ثقافتی و تاریخی شناخت کو یاد دلایا، ہم سب کو غفلت سے نکالا۔ ہم اپنی صلاحیتوں سے غافل تھے؛ امام خمینیؒ نے ہمیں ہماری توانائیوں، ہماری جدوجہدوں کی طرف متوجہ کیا، ہمیں میدانِ عمل میں لے آئے، قوم کو میدان میں لے آئے، اور اس عمل میں واقعی مجاہدہ کیا؛ اللہ تعالیٰ نے بھی اس پر برکت نازل کی۔ قوم مرعوب نہیں تھی، مرعوب نہیں ہوئی، [امام خمینیؒ] نے قوم سے مرعوبیت کا احساس چھین لیا۔ تو، یہ ہے وہ عمومی کیفیت جو ہمارے ملک کے نوجوانوں کی اکثریت میں، مغرب کی موجودگی اور مغربی مادّی تمدّن کے ساتھ دوسرے مرحلے کی ٹکراؤ کے طور پر پیدا ہوئی؛ اور اس سلسلے میں ہم نے بہت گفتگو کی ہے۔
لیکن دنیا کے غنڈے باز آنے والے نہیں ہیں؛ اصل اہم نکتہ یہی ہے۔ دنیا کے وہ غنڈے، وہ طاقتیں جنہوں نے برسہا برس ایران میں جو چاہا کیا، پچاس ہزار فوجی اور غیر فوجی مشیر یہاں لائے، ملک کے وسائل کو اپنی مرضی سے لوٹا، اپنی مرضی سے فیصلے ہم پر مسلط کیے:"کس کو تیل بیچو، کس کو نہ بیچو، کس کے ساتھ تعلق رکھو، کس سے نہ رکھو، کس کو وزیر اعظم بناؤ، کس کو نہ بناؤ، علما کے ساتھ کیسا سلوک کرو، یونیورسٹی کے ساتھ کیسا برتاؤ کرو"
برسوں انہوں نے اس ملک میں اسی انداز سے زندگی گزاری — ان کے ہاتھ کاٹے جا چکے ہیں، اور اب وہ خاموش نہیں رہ سکتے۔ انقلاب کے آغاز سے لے کر آج تک وہ انقلاب کے ساتھ دشمنی میں مشغول رہے، مقابلہ کرتے رہے، سازشیں رچتے رہے، اور جو کچھ ان کے بس میں تھا، وہ کیا۔
یقیناً اس تمام مدت میں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے، انقلاب ان پر غالب آیا ہے۔ دنیا کے غنڈے کہتے ہیں کہ دنیا کو ہماری تابع داری اختیار کرنی چاہیے! آپ خود دیکھ رہے ہیں؛ آج سب اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں، دنیا میں سب کے سامنے ایک مثال موجود ہے۔)۱۱( ]وہ کہتے ہیں] سب کو ہماری اطاعت کرنی چاہیے، سب کو ہمارے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح دینی چاہیے؛ سب سے پہلے ہم۔ آج وہ پوری دنیا کو یہی دکھا رہے ہیں؛ در حقیقت، وہ مغرب کی اصلیت کو سب کی آنکھوں کے سامنے لا رہے ہیں۔ البتہ میرے خیال میں — میرا گمان ہے — اسلامی ایران واحد ملک ہے جس نے صاف طور پر اس بات کو مسترد کیا ہے؛ ہم نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہم کسی بھی قیمت پر دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات پر ترجیح نہیں دیں گے۔
اچھا، اب واپس آتے ہیں ایرانی طالب علم نوجوان کے موضوع کی طرف۔ آج میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دشمن کی یہ پالیسی — یعنی تبعیت، بے بسی اور وابستگی کی ذہنیت کو فروغ دینا — آج بہت سنجیدگی سے دشمن کے ایجنڈے کا حصہ بن چکی ہے؛ یعنی نئی تدابیر کے ساتھ، خاص طور پر سائنسی ترقی، انٹرنیٹ اور دیگر جدید ذرائع کے استعمال سے، وہ اس محاذ پر سرگرم عمل ہیں؛ وہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے طالب علم کہاں کھڑے ہیں؟
یقیناً یہاں جو جذبات ظاہر کیے گئے، جو باتیں بیان ہوئیں، جو روح دکھائی گئی، وہ نہایت عمدہ ہے۔ اس دشمنی، سازش اور نفوذ کے ارادے کا علاج — جو ہمارے عزیز ملک پر اپنی کھوئی ہوئی بالادستی دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے — بس یہی روح، یہی احساس اور یہی دانشجویی تحریک ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں۔
دشمن کی اس تحریک کے مقابلے میں — جس کا میں نے ذکر کیا کہ آج نئی شکلوں میں جاری ہے — اسلامی تحریک بھی خوش قسمتی سے ترقی کر رہی ہے۔
ہم آج دینی، اخلاقی اور یہاں تک کہ عرفانی موضوعات میں بھی اچھی اور مثبت اختراعات دیکھ رہے ہیں۔ خوش قسمتی سے، علمی حوزوں میں، خود یونیورسٹی میں، اور معاشرے کے مختلف شعبوں میں فکری لحاظ سے اچھے عناصر ابھر کر سامنے آئے ہیں؛ انہوں نے اسلامی مفاہیم کو سمجھانے کے لیے مناسب اور عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ زبان حاصل کی ہے، اسے پہچانا ہے اور استعمال بھی کر رہے ہیں۔ یہی باتیں جو آپ نے یہاں بیان کیں — اور اس کا دس گنا زیادہ مواد طلبہ اجتماعات میں یقینی طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے، جس کا میں آگے اشارہ بھی کروں گا —
یہی وہ چیز ہے جس کی میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک ملاقات میں تاکید کی تھی: "مواد کی تیاری" (۱۲)؛ یہی مواد ہے۔ مجازی فضا (انٹرنیٹ، سوشل میڈیا) کے لیے، سب سے اہم کاموں میں سے ایک، مواد کی تیاری ہے۔ یہ سب کچھ مواد ہے۔ وہ کام جو آپ انجام دے سکتے ہیں، وہ فکر جو آپ تخلیق کر سکتے ہیں، وہ گہرا تجزیہ جو آپ مسائل پر کر کے پیش کر سکتے ہیں — یہی وہ "مواد کی تیاری" ہے جس کی ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں۔
طالب علم کو اسی جگہ پر کھڑا ہونا چاہیے؛ طالب علم کی اصل جگہ یہی ہے۔ طالب علم ایک معلّم کی طرح، ایک خبردار کرنے والے کی طرح، ایک راہنما چراغ کی مانند کردار ادا کر سکتا ہے؛ اپنے سازگار اور مناسب ماحول میں، اپنی استطاعت کے مطابق۔ آپ یہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں، ہمارے عزیز طلبہ کی یہی شناخت ہے؛
یہ اظہارِ قابلیت، وضاحت و تشریح کرنے کی استعداد۔
یقیناً میری کچھ نصیحتیں بھی ہیں۔ گزشتہ سال میں نے کچھ نصیحتیں کی تھیں؛ یہاں چند نکات ذکر کیے تھے۔(۱۳)
ان میں سے ایک یہ تھی کہ طلبہ تنظیمیں اپنی توجہ یونیورسٹی کے اندرونی ماحول پر مرکوز رکھیں؛ میں اس بات پر زور دیتا ہوں۔ یہ کام، جیسا کہ مجھے رپورٹ دیا گیا، ویسا انجام نہیں پایا جیسا ہونا چاہیے تھا؛ میری آپ نوجوانوں سے یہی توقع ہے۔ رکاوٹیں تو موجود ہیں؛ ہر بڑا اور اہم کام اپنے ساتھ کچھ رکاوٹیں ضرور لاتا ہے۔ یہ نہ سمجھیں کہ آپ کسی ہموار شاہراہ پر چل رہے ہیں؛ نہیں، راستے میں نشیب و فراز ہیں، پیچ و خم ہیں، مشکلات ہیں؛ ان مشکلات پر غالب آئیں۔ مشکلات پر قابو پائیں! اگر آپ تفہیم کے لیے موزوں زبان استعمال کریں، تو آپ یونیورسٹی کے ماحول پر اثر ڈال سکتے ہیں۔ آپ کا سامع، آپ کا مخاطب ایک طالب علم ہے، ایک نوجوان ہے، جو عناد نہیں رکھتا، دشمنی نہیں رکھتا، سننے کے لیے آمادہ ہے، قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہی توقع، جس کا یہاں ایک بھائی نے اظہار کیا، کہ
"وہ مراکز جو وضاحت و تشریح کے لیے قائم کیے گئے ہیں، وہ اپنا کام انجام نہیں دے رہے"، تو یہ توقع آپ سے بھی ہے؛ آپ طلبہ تنظیمیں مطالعہ کریں، آمادہ ہوں، اور یونیورسٹی کے ماحول کو اپنی درست سوچ سے متاثر کریں؛
یہ ایک اہم تاکید ہے۔
یک نصیحت یہ ہے کہ آپ باقاعدہ اور سنجیدہ ہم فکری کی نشستیں منعقد کریں؛ یعنی واقعی کسی مسئلے پر غور و فکر کریں، ان قابلِ اعتماد فکری افراد سے استفادہ کریں جو آج ہمارے پاس موجود ہیں ــ ہمارے پاس ایسے فکری افراد موجود ہیں جن پر بھروسا کیا جا سکتا ہے ــ ان کو ہم فکری نشستوں میں شامل کریں؛ روزمرّہ کے اہم مباحث کو زیرِ بحث لائیں۔ بعض مباحث جو اٹھائے جاتے ہیں، وہ درجہ اول کے موضوعات نہیں ہوتے، بلکہ درجہ دوم یا سوم کے ہوتے ہیں۔ ملک کے اصل مسائل وہ ہیں جو انقلاب کی تحریک اور مجموعی طور پر معاشرے کی حرکت سے جُڑے ہوئے ہیں ــ داخلی و خارجی امور ــ ان مسائل کی شناخت کریں اور انہیں بحث کا مرکز بنائیں۔ مختلف مواقع پر مختلف قسم کے تجزیے سامنے آتے ہیں؛ اخبارات میں، سوشل میڈیا کے ماحول میں؛ یہ تجزیے آپ کے دل میں تردید نہ ڈالیں؛ یعنی مختلف تجزیوں کے سامنے آ کر آپ الجھن یا شک و شبہ کا شکار نہ ہوں۔ اپنا تجزیہ، اپنی فہم اور اپنی تحقیق خود انجام دیں اور غلط بیانیوں پر غالب آئیں۔
میری ایک اور نصیحت یہ ہے کہ طلبہ کی جانب سے حکام پر بعض اعتراضات اور تنقیدات لاعلمی کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ مثلاً فرض کریں کہ کیوں وعدۂ صادق ۲ فلاں وقت پر پورا نہیں ہوا، اور فلاں وقت پر ہوا؛ اگر فلاں وقت پر پورا ہو جاتا، تو فلاں واقعہ پیش نہ آتا؛ تو یہ صحیح بات نہیں ہے؛ یہ درست تجزیہ نہیں ہے۔ جو لوگ ان کاموں کے ذمہ دار ہوتے ہیں، ان کی لگن، وابستگی، محبت اور آمادگی انقلاب کے لیے مجھ سے اور آپ سے کسی طور کم نہیں ہے؛ ان پر الزام نہیں لگایا جا سکتا؛ وہ حساب کتاب رکھتے ہیں، تجزیہ و تدبیر سے کام لیتے ہیں؛ جو کچھ وہ انجام دیتے ہیں، اگر آپ ان کی جگہ ہوتے تو غالباً آپ بھی وہی فیصلہ کرتے؛ ہمیشہ اس امکان کو ذہن میں رکھیں اور لوگوں کو موردِ الزام نہ ٹھہرائیں؛ یعنی جو واقعات آپ مشاہدہ کرتے ہیں اور جن میں آپ کو کبھی کوئی ابہام محسوس ہوتا ہے، ان میں ہمیشہ اس امکان کو مدنظر رکھیں کہ اس فیصلے کے پس پشت کوئی درست اور حقیقی تدبیر کارفرما ہو سکتی ہے۔
تنقید کرنے میں، میں نے گزشتہ سال بھی یہ نصیحت کی تھی کہ تنقید کریں، اس میں کوئی حرج نہیں؛ اس حوالے سے سوالات بھی اٹھائے گئے کہ پھر کس طرح اور کس انداز سے تنقید کی جائے؟ مثلاً جنگی صورتحال میں، یا دشمن کی مخالفت کے دوران کیسی تنقید کی جائے کہ وہ دل آزاری کا سبب نہ بنے؟ تو عرض یہ ہے کہ تنقید میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن تنقید اور الزام تراشی میں فرق ہے؛ خیال رکھیں کہ تنقید کرتے وقت کسی کو موردِ الزام نہ ٹھہرائیں۔ سوالات اٹھانا کوئی مسئلہ نہیں، سوال اٹھائے جائیں، ابہام بیان کیا جائے، اور جواب دینے کا موقع فراہم کیا جائے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سامنے والا بعض سوالات کے جواب دینے کی فرصت نہیں رکھتا یا اس معاملے میں جواب دینا ممکن نہیں ہوتا؛ تو ایسی صورتوں میں حتیٰ کہ ابہام بھی بیان نہ کریں۔ اس طرح کے انداز میں فرضی احتمالات کو قطعی نہ سمجھیں۔
میری رائے میں تنقید کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ ایسا تاثر پیدا نہ ہو کہ ملک کسی بند گلی میں جا رہا ہے؛ یعنی اس طرح تنقید نہ کریں کہ جب عام لوگ سنیں تو وہ مایوسی کا شکار ہو جائیں؛ نہیں، بعض اوقات جو اعتراض بیان کیا جاتا ہے وہ اس طرح ہوتا ہے کہ انسان سن کر محسوس کرتا ہے جیسے کوئی راستہ ہی باقی نہیں بچا؛ تو یہ غلط ہے۔ یہ تأثر دینا کہ فلاں اقتصادی مسئلے یا فلاں ثقافتی یا تعلیمی و جامعاتی مسئلے میں کوئی راہِ نجات نہیں، یہ درست نہیں؛ یہ عوام کو مایوس کرتا ہے؛ اس سے سختی سے گریز کیا جانا چاہیے۔ تفرقہ اندازی، دو قطبی فضا پیدا کرنا، مایوسی پھیلانا، فیصلہ ساز حکام کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنا، یہ چیزیں تنقید میں شامل نہیں ہونی چاہئیں۔
کبھی مجھ سے بھی سوالات کیے جاتے ہیں؛ البتہ براہِ راست نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر یا دفتر میں آنے والے سوالات میں۔ مثلاً فرض کیجیے یہ سوال کہ کیوں فلاں شخص نے اُس وقت رضایت دی جب تمام وزراء کو اعتماد کا ووٹ ملا، حالانکہ ممکن ہے کہ ان میں بعض وزراء ان معیاروں پر پورے نہ اترتے ہوں جو اس کے مدنظر تھے؟ یہ ایک سوال ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تمام وزراء کا پارلیمان سے ووٹِ اعتماد حاصل کرنا ایک مثبت عمل ہے؛ اگر کوئی وزیر اعتماد کا ووٹ نہ لے، تو اس کی وزارت بغیر سربراہ کے رہ جاتی ہے۔ کسی ادارے کا بغیر سربراہ رہنا اس سے کہیں زیادہ بدتر ہے کہ کوئی ایسا شخص سربراہ ہو جس میں بعض مطلوبہ معیار نہ بھی ہوں؛ کیونکہ اس سے بدنظمی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بہت اچھی بات ہے کہ حکومت مناسب وقت میں تشکیل پا جائے اور ملک کا انتظام سنبھالے۔ حکومت کو ملک چلانے کے قابل ہونا چاہیے؛ اور پارلیمنٹ کا یہ ووٹ یہی ایک عظیم خوبی رکھتا ہے۔ فطری طور پر انسان اس پر خوش ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ بیک وقت انسان کسی وزیر کی کارکردگی کو مکمل طور پر پسند نہ کرے؛ یا اس کی بعض خصوصیات کو مثبت نہ سمجھے؛ لیکن یہ دونوں باتیں ایک ساتھ جمع ہو سکتی ہیں، ان میں کوئی تضاد نہیں۔ اس قسم کے امور بہرحال پیش آتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ طلبہ کی اصل فکر ان چیزوں پر نہیں ہونی چاہیے؛ یہ ملک کے بنیادی مسائل نہیں ہیں؛ ملک کے اصلی مسائل، جیسا کہ میں نے عرض کیا، کچھ اور ہیں۔
اب، امریکہ کے حالیہ مسئلے اور مذاکرات کی دعوت سے متعلق چند جملے عرض کرتا ہوں۔ سب سے پہلے یہ کہ امریکی صدر کہتا ہے کہ ہم ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں، اور ایران کو مذاکرات کی دعوت دیتا ہے، اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے ایک خط بھیجا ہے ــ جو البتہ ہمیں نہیں پہنچا؛ یعنی مجھے نہیں پہنچا ــ تو میری نظر میں یہ عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم مذاکرات کے حامی ہیں، ہم چاہتے ہیں مذاکرات کریں، صلح ہو، جھگڑا نہ ہو، مگر ایران مذاکرات پر آمادہ نہیں۔ اچھا، ایران کیوں آمادہ نہیں؟ ذرا خود پر نظر ڈالیں۔ ہم کئی سال مذاکرات کی میز پر بیٹھے، اسی شخص نے، مکمل شدہ، طے شدہ اور دستخط شدہ معاہدے کو میز سے اٹھا کر پھاڑ دیا (14)؛ تو ایسے شخص سے مذاکرات کیسے کیے جا سکتے ہیں؟
میرے اس بات کے جواب میں، ملک کے اندر ایک اخبار نویس لکھتا ہے کہ "جناب! وہ دونوں فریق جو آپس میں جنگ کرتے ہیں، امن کے لیے مذاکرات کرتے ہیں تو وہ بھی ایک دوسرے پر اعتماد نہیں رکھتے؛ تو اعتماد نہ ہونا، مذاکرات میں رکاوٹ نہیں بنتا"؛ یہ غلط تجزیہ ہے؛ وہ دونوں فریق جو امن کے لیے مذاکرات کرتے ہیں، اگر اُنہیں اس بات کا یقین نہ ہو کہ جو معاہدہ ہوگا اُس پر عمل ہوگا، تو وہ مذاکرات نہیں کرتے؛ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ بیکار ہے، ایک فضول کام ہے۔ مذاکرات میں انسان کو یقین ہونا چاہیے کہ دوسرا فریق اپنے کیے ہوئے وعدے پر عمل کرے گا۔ جب ہمیں یقین ہے کہ وہ عمل نہیں کرے گا، تو پھر مذاکرات کا کیا فائدہ؟ لہٰذا، مذاکرات کی دعوت اور مذاکرات کی باتیں عوام کو فریب دینے کے لیے ہیں۔
امریکہ کی پابندیوں کے بارے میں ــ کہ ہماری ایٹمی مسئلے پر مذاکرات نوّے کی دہائی میں ابتدا ہی سے پابندیوں کے خاتمے کے لیے تھے ــ خوش قسمتی سے دنیا میں پابندیوں کا اثر کم ہوتا جا رہا ہے۔ جب پابندیاں جاری رہتی ہیں، تو وہ آہستہ آہستہ اپنا اثر کھو دیتی ہیں۔ خود وہ لوگ بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں؛ یعنی وہ خود بھی اقرار کرتے ہیں کہ جس ملک پر پابندیاں لگائی گئی ہوں، وہ رفتہ رفتہ ان پابندیوں کو بے اثر کرنے کے طریقے تلاش کر لیتا ہے اور ان پابندیوں کو ناکام بنا دیتا ہے۔ ہم نے ان میں سے بہت سے راستے تلاش کر لیے ہیں، ہم نے پابندیوں کو ناکام بنایا ہے۔ ہاں، پابندیاں بے اثر نہیں ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ اگر ہماری اقتصادی حالت خراب ہے تو اس کی وجہ صرف پابندیاں ہیں؛ نہیں، ہماری اپنی بے توجہی بعض اوقات اثر انداز ہوتی ہے؛ بلکہ اکثر مسائل ہماری بے توجہی سے پیدا ہوتے ہیں۔ البتہ اس کا ایک حصہ پابندیوں سے بھی متعلق ہے، لیکن وہ بھی آہستہ آہستہ بے اثر ہو رہی ہیں؛ یہ بھی مسلّمات میں سے ہے۔
ایٹمی ہتھیار کے بارے میں ــ جس کا بار بار ذکر ہوتا ہے کہ ہم ایران کو ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے ــ اگر ہم ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتے، تو امریکہ ہمیں روک نہیں سکتا تھا۔ یہ کہ ہمارے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں اور ہم اس کے پیچھے بھی نہیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم خود، کچھ وجوہات کی بنیاد پر، نہیں چاہتے، جن وجوہات کا ہم پہلے ذکر اور بحث کر چکے ہیں۔ ہم نے خود نہیں چاہا؛ وگرنہ اگر ہم خود چاہتے، تو وہ ہمیں روک نہ سکتے۔
اگلا نکتہ: امریکہ فوجی کارروائی کی دھمکی دیتا ہے! یہ دھمکی میرے خیال میں غیرعقلمندانہ ہے؛ یعنی جنگ، جنگ چھیڑنا، ضرب لگانا، یہ یکطرفہ نہیں ہوتا۔ ایران جوابی حملے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یقینا ضرب لگائے گا۔ میں حتیٰ یہ بھی مانتا ہوں کہ اگر کسی موقع پر امریکہ یا اس کے عوامل سے کوئی غلط حرکت سرزد ہو جائے، تو اس کا سب سے زیادہ نقصان انہی کو ہوگا۔ البتہ جنگ کوئی اچھی چیز نہیں ہے، ہم جنگ کے پیچھے نہیں ہیں، لیکن اگر کوئی اقدام کرے تو ہمارا ردعمل فیصلہ کن اور حتمی ہوگا۔
اگلی بات یہ ہے کہ امریکہ آج کمزور ہونے کے راستے پر گامزن ہے، طاقتور ہونے کے نہیں؛ یہ ایک حقیقت ہے۔ اقتصادی لحاظ سے بھی وہ کمزوری کی طرف بڑھ رہا ہے، دنیا میں سیاسی حیثیت کے لحاظ سے بھی، اپنی داخلی سیاست کے اعتبار سے بھی، اور اپنی داخلی سماجی صورت حال کے اعتبار سے بھی؛ ہر پہلو سے امریکہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ امریکہ اب وہ طاقت نہیں رکھتا جو تیس سال یا بیس سال پہلے تھی، اور نہ ہی رکھ سکے گا، اور نہ ہی رکھ سکتا ہے۔
اگلا نکتہ یہ ہے کہ بعض لوگ اندرونِ ملک اسی مسئلۂ مذاکرات کو بار بار بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں: "حضور! آپ جواب کیوں نہیں دیتے؟ آپ مذاکرات کیوں نہیں کرتے؟ آپ امریکہ کے ساتھ بیٹھ کیوں نہیں جاتے؟ تو بیٹھ جائیں۔" میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر مذاکرات کا مقصد پابندیوں کا خاتمہ ہے، تو اس امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات پابندیاں ختم نہیں کریں گے؛ یعنی وہ پابندیاں نہیں ہٹائیں گے، بلکہ ان پابندیوں کی گتھی کو اور بھی الجھا دیں گے؛ دباؤ میں اضافہ کریں گے۔ اس حکومت کے ساتھ مذاکرات، دباؤ میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ میں نے چند روز قبل حکام کے ساتھ گفتگو میں بھی یہ بات کہی تھی (15)۔ وہ نئے مطالبات پیش کرتے ہیں، نئی توقعات بیان کرتے ہیں، نئی حد سے بڑھے ہوئے تقاضے سامنے لاتے ہیں؛ مسئلہ اس سے بھی بڑھ جائے گا جو آج موجود ہے۔ لہٰذا مذاکرات کسی مسئلے کو حل نہیں کرتے، کوئی گتھی نہیں سلجھاتے۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے۔
آخری نکتہ؛ دشمن کی توقع کے برخلاف، نہ فلسطین کی مزاحمت رکی ہے اور نہ لبنان کی مزاحمت کمزور ہوئی ہے بلکہ دونوں اور زیادہ طاقتور اور باحوصلہ ہو گئی ہیں۔ یہ شہادتیں ظاہری لحاظ سے ان کے لیے نقصان دہ تھیں، لیکن جذبے کے لحاظ سے انہیں تقویت ملی ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا، کہ جب سید حسن نصراللہ (رضوان اللہ علیہ) جیسی شخصیت اس دنیا سے چلی جاتی ہے، تو ان کے بعد والے دنوں میں حزب اللہ کی جانب سے جو کارروائی صہیونی حکومت کے خلاف ہوتی ہے، وہ پچھلی کارروائیوں سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ فلسطینی مزاحمت میں، کبھی ہنیہ، کبھی سنوار، کبھی ضیف اس دنیا سے چلا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ایسی حالت میں کہ جب صہیونی حکومت، اس کے حامی اور امریکہ مذاکرات پر اصرار کر رہے ہوتے ہیں، اپنے مطالبات فریقِ مخالف پر مسلط کر دیتے ہیں؛ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کا جذبہ مزید طاقتور ہو چکا ہے۔
میری آخری بات یہ ہے؛ ہم بھی یہ کہتے ہیں: ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ فلسطینی مزاحمت اور لبنانی مزاحمت کی حمایت کریں گے۔ اس پر ملک کے تمام ذمہ داران کا اتفاق ہے۔ حکومت، محترم صدر، دیگر افراد اس بات پر متفق ہیں، کوئی مسئلہ موجود نہیں۔ اور انشاءاللہ ایرانی قوم آئندہ بھی، ماضی کی طرح، دنیا میں استکبار کے مقابلے میں مزاحمت کی علمبردار کے طور پر متعارف ہوگی۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1۔ اس جلسے کے شروع میں طلبا تنظیموں کے کچھ نمائںدوں نے سیاسی، سماجی، علمی اور ثقافتی مسائل میں اپنے نظریات بیان کئے۔
2۔ سورہ بقرہ، آیت نمبر 183۔ " اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، روزہ تم پر واجب کیا گیا ہے اسی طرح، جس طرح کہ تم سے پہلے والوں پر واجب کیا گیا تھا۔ شاید تم پرہیز گار بن جاؤ۔"
3۔ سورہ طلاق، آیت نمبر 2 و 3
4۔ سورہ بقرہ آیت نمبر 2
5۔ شرح چہل حدیث، صفحہ 10
6۔ سید حسن تقی زادہ، پہلوی حکومت میں سینیٹ کا پہلا چیئرمین
7۔ 1919 میں احمد شاہ قاجار کے صدر اعظم وثوق الدولہ اور برطانوی حکومت کے نمائندوں نے ایک سمجھوتے پر دستخط کئے جس کی رو سے ایران کے سبھی فوجی اور مالی ادارے انگریزوں کی نگرانی میں دے دیے گئے اور اسی طرح ریلویز اور کچی سڑکیں بھی انہیں واگزار کر دی گئيں۔
8۔ حکومت ایران اور ولیم ناکس ڈی آرسی (William Knox D'Arcy) کے درمیان 1901 میں ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے شمالی حصوں کو چھوڑ کر، پورے ایران میں تیل نکالنے اور بیچنے کا ٹھیکہ ساٹھ برس کے لئے، ولیم ڈی آرسی کو دے دیا گیا۔ اس کے بدلے میں ڈی آرسی نے یہ قبول کیا کہ اس ٹھیکے پر کام کرنے کے لئے وہ ایک کمپنی یا کمپنیاں تاسیس کریں گے اور سالانہ بیس ہزار لیرہ نقد اور اتنی ہی رقم کمپنی کے شیئر سے اور منافع کا سولہ فیصد حکومت ایران کو ادا کریں گے۔
9۔ 7 دسمبر 1953
10۔ بعض ملکوں سے درآمد کی جانے والی اشیا پر امریکی صدر کی جانب سے ٹیرف لگائے جانے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
11۔ 29 بہمن مطابق 18فروری کے قیام کی مناسبت سے، 18-02-2025 کو صوبہ مشرقی آذربائیجان کے عوام کے ایک اجتماع سے خطاب
12۔ 07-04-2024 کو ملک کی یونیورسٹیوں کے طلبا اور طلبا تنظیموں کے نمائندوں سے رمضان المبارک کی مناسبت سے ملاقات میں رہبر انقلاب کا خطاب
13۔ ڈونلڈ ٹرمپ
14۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں، 8 مئی 2018 کو ایک فرمان صادر کرکے، امریکا کو جامع ایٹمی معاہدے سے نکال لیا جس پر امریکا کے اس وقت کے صدر باراک اوباما کی حکومت، ایران اور سلامتی کونسل کے رکن پانچ ملکوں اور جرمنی اور یورپی یونین نے دستخط کئے تھے۔
15۔ 09-03-2024 کو رمضان المبارک کی مناسبت سے اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب