ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

نئے شمسی سال ۱۴۰۴ ہجری کے آغاز پر پیغام

بسم الله الرّحمن الرّحیم
یا مُقَلّبَ القُلوبِ و الاَبصار، یا مُدَبّرَ اللیلِ وَ النَّهار، یا مُحوّل الحَولِ و الاَحوال، حَوّل حالَنا اِلی اَحسَنِ الحال.

نئے سال کا آغاز، شب‌های قدر اور ایّامِ شہادتِ امیرالمؤمنین (صلوات الله و سلامه علیه) کے ہمراہ ہے۔ اُمید ہے کہ ان شبوں کی برکتیں اور مولیٰ المتقین (علیه الصّلاة و السّلام) کی توجہات پورے سال ہمارے عزیز عوام، ہماری ملت، ہمارے ملک اور ان تمام افراد کے شاملِ حال ہوں جن کا نیا سال نوروز سے شروع ہوتا ہے۔

سال ۱۴۰۳ ایک پُرماجرا سال تھا۔ اس سال مسلسل جو واقعات پیش آئے، وہ سال ۱۳۶۰ کے واقعات سے مشابہ تھے اور ہمارے عزیز عوام کے لیے دشواریاں اور مشقتیں ساتھ لائے۔ سال کے آغاز میں ملتِ ایران کے محبوب صدر، مرحوم آقای رئیسی (رحمة الله علیه) کی شہادت واقع ہوئی۔ اس سے پہلے دمشق میں ہمارے کچھ عسکری مشیروں کی شہادت ہوئی۔ اس کے بعد تہران میں اور پھر لبنان میں مختلف واقعات رونما ہوئے جن میں ملتِ ایران اور امتِ اسلامی نے قیمتی شخصیات کو کھو دیا۔ یہ سب تلخ حوادث تھے جو پیش آئے۔ ان کے علاوہ، سال بھر اور بالخصوص سال کے دوسرے حصے میں اقتصادی مشکلات نے عوام پر دباؤ ڈالا اور معیشتی دشواریوں نے لوگوں کو مسائل سے دوچار کیا۔ یہ سختیاں پورے سال جاری رہیں؛ لیکن اس کے بالمقابل ایک عظیم اور حیرت انگیز مظہر بھی سامنے آیا، اور وہ تھا ملتِ ایران کی قوّتِ ارادہ، روحانی بلند ہمتی، اتحاد اور اعلیٰ سطح کی آمادگی کا مظاہرہ۔

سب سے پہلے، ایک ایسے واقعے جیسے کہ صدر کی ناگہانی شہادت، کے مقابلے میں عوام نے جس عظمت کے ساتھ الوداع کیا، جو نعرے لگائے، اور جس بلند حوصلے کا مظاہرہ کیا، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اگرچہ یہ مصیبت بہت سنگین تھی، لیکن اس نے ملتِ ایران کو کمزور محسوس کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ اس کے بعد قانونی مدت کے اندر اندر بڑی سرعت کے ساتھ انتخابات منعقد کیے گئے، نئے صدر کا انتخاب ہوا، حکومت تشکیل پائی اور ملک کا نظامِ انتظامی خلا سے نکل کر نظم میں آگیا۔ یہ سب بہت اہمیت کے حامل ہیں اور ملتِ ایران کی روحانی بلندی، بلند صلاحیتوں اور عظیم توانائیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہمیں اس پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

اس کے علاوہ، گزشتہ مہینوں کے واقعات میں جب ہمارے بہت سے دینی اور لبنانی بھائی مشکلات کا شکار ہوئے، تو ملتِ ایران نے فراخ دلی کے ساتھ ان کی مدد کی۔ اس سلسلے میں جو واقعہ پیش آیا، یعنی عوام کی جانب سے لبنانی اور فلسطینی بھائیوں کی مدد کے لیے سیلاب کی مانند امداد کا بہاؤ، یہ ہمارے ملک کی تاریخ کے ان واقعات میں سے ہے جو ہمیشہ کے لیے یادگار اور ناقابلِ فراموش ہیں۔ وہ سونے جو ہماری خواتین نے سخاوت کے ساتھ اپنے آپ سے جدا کئے اور اس راہ میں پیش کئے، اور وہ امداد جو ہمارے مردوں نے انجام دی، یہ سب اہم امور ہیں۔ یہ ملت کے پختہ عزم و ارادے اور مضبوط ہمت کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ جذبہ، یہ میدان میں حاضری، یہ آمادگی، یہ روحانی طاقت، ہمارے عزیز ایران کے مستقبل اور ہمیشہ کی زندگی کے لیے ایک سرمایہ ہے۔ ان شاء الله ملک اس سرمایہ سے بھرپور فائدہ اُٹھائے گا اور خداوند متعال بھی اپنی عنایات کو ملت پر جاری رکھے گا۔

گزشتہ سال ہم نے شعار «جهش تولید با مشارکت مردم» کو پیش کیا، جو ملک کے لیے نہ صرف ضروری بلکہ ایک لحاظ سے حیاتی تھا۔ لیکن سال ۱۴۰۳ کے مختلف حادثات نے اس شعار پر مکمل طور سے درآمد میں رکاوٹ پیدا کی۔ البتہ، اچھی کوششیں ضرور ہوئیں؛ حکومت، عوام، نجی شعبہ، سرمایہ کار اور کاروباری افراد، ان سب نے عمدہ اقدامات کیے، لیکن جو کچھ واقع ہوا، وہ اُس سے کم تر تھا جس کی توقع کی گئی تھی۔ لہٰذا، اس سال بھی ہمارا اہم مسئلہ معیشت کا مسئلہ ہے۔ جو بات میں اس سال اپنی توقع کے طور پر محترم حکومت، معزز حکام اور اپنے عزیز عوام سے بیان کر رہا ہوں، وہ ایک اقتصادی مسئلہ ہے۔ یہی اقتصادی مسئلہ اس سال کا شعار بھی ہوگا، اور وہ ہے: معیشت میں سرمایہ‌کاری۔

ملک کی معیشت کے اہم مسائل میں سے ایک، پیداواری سرمایہ‌کاری ہے۔ پیداوار اُس وقت بڑھتی ہے جب سرمایہ‌کاری ہو۔ البتہ، سرمایہ‌کاری زیادہ تر عوام کی جانب سے ہونی چاہیے—اور حکومت کو اس کے مختلف طریقے منظم کرنے چاہئیں—لیکن جہاں عوام کے پاس یا تو جذبہ نہ ہو یا سرمایہ‌کاری کی طاقت نہ ہو، وہاں حکومت بھی میدان میں آسکتی ہے؛ عوام کے ساتھ مقابلے کے طور پر نہیں بلکہ اُن کی جگہ، جہاں عوام نہ آئیں، وہاں حکومت آئے اور سرمایہ‌کاری کرے۔ بہر حال، پیداواری سرمایہ‌کاری ملک کی معیشت اور عوام کی معیشتی مشکلات کے حل کے لیے ضروری مسائل میں سے ایک ہے۔ عوام کی معیشت کی اصلاح کے لیے منصوبہ‌بندی کی ضرورت ہے، لیکن یہ منصوبہ‌بندی ایسے مقدمات کے بغیر ممکن نہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت اور عوام دونوں، پُرعزم اور پُر انگیزہ ہوکر، پیداواری سرمایہ‌کاری کو سنجیدگی سے لیں اور اس کے پیچھے لگ جائیں۔ حکومت کا کام، راہیں ہموار کرنا اور پیداوار کی راہ کی رکاوٹیں دور کرنا ہے؛ عوام کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی چھوٹے اور بڑے سرمایہ کو پیداوار کی راہ میں لگائیں۔ اگر سرمایہ، پیداوار کی راہ میں لگایا جائے، تو وہ نقصان دہ کاموں جیسے سونا خریدنا، ذر مبادلہ (foreign exchange) خریدنا اور اس جیسے دیگر امور کی طرف نہیں جائے گا، اور نقصان دہ سرگرمیاں انجام نہیں پائیں گی۔اسٹیٹ بینک اس میدان میں کردار ادا کر سکتا ہے، اور حکومت بھی بہت مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ لہٰذا، اس سال کا شعار ہے: «پیداوار کے لیے سرمایہ‌کاری» جو ان شاء الله عوام کی معیشت کے لیے کشادگی کا سبب بنے گا، اور حکومت کی منصوبہ‌بندی، عوام کی شراکت کے ساتھ، ان شاء الله مسئلہ کو حل کرے گی۔

میں ان چند دنوں کے حالیہ واقعات کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔ غاصب صیہونی رژیم کا غزہ پر دوبارہ حملہ ایک بہت بڑا جرم اور تباہ کن سانحہ ہے۔ پوری امتِ اسلامی کو چاہیے کہ اس کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑی ہو۔ اپنی گوناگوں اختلافات کو پسِ پشت ڈال دیں۔ یہ مسئلہ امتِ اسلامی کا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے تمام آزادی‌خواہ افراد، خواہ امریکہ میں ہوں، مغربی ممالک اور یورپی ممالک میں ہوں یا دیگر ممالک میں، سب کو اس خیانت‌آمیز اور تباہ کن اقدام کے خلاف سختی سے مقابلہ کرنا چاہیے جو یہ (صیہونی) کر رہے ہیں۔ ایک بار پھر بچوں کا قتلِ عام ہو رہا ہے، گھروں کو تباہ کیا جا رہا ہے، لوگ بے گھر ہو رہے ہیں، اور عوام کو چاہیے کہ اس سانحے کو روکیں۔ البتہ امریکہ بھی اس جرم کی ذمہ‌داری میں شریک ہے۔ دنیا کے سیاسی تجزیہ نگاروں کی متفقہ رائے یہ ہے کہ یہ کاروائی یا تو امریکہ کے اشارے پر، یا کم از کم امریکہ کی موافقت اور "سبز اشارے" کے ساتھ انجام دی گئی ہے۔ لہٰذا امریکہ بھی اس جرم میں شریک ہے۔ یمن کے واقعات بھی ایسے ہی ہیں؛ یمنی عوام، خصوصاً عام شہریوں پر ہونے والے حملے بھی ایک جرم ہیں جنہیں ضرور روکا جانا چاہیے۔

امید ہے کہ خداوند متعال نئے سال میں امتِ اسلامی کے لیے خیر، صلاح اور کامیابی مقدر فرمائے اور ملتِ ایران بھی ان شاء الله اس نئے سال کا آغاز رضایت، خوشی، مکمل اتحاد اور کامیابی کے ساتھ کرے اور سال کے آخر تک اسی راہ پر گامزن رہے۔

امید ہے کہ قلبِ مقدسِ ولیّ عصر (ارواحنا فداه)، امامِ بزرگوار کی پاکیزہ روح اور شہداء کی مطہر ارواح ہم سے راضی و خوشنود ہوں۔