بسم اللہ الرّحمن الرّحیم (1)
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین و صحبہ المنتجبین و من تبعھم باحسان الی یوم الدّین.
مبارک ہو یہ عیدِ سعید اور بابرکت عیدِ فطر، اُمتِ اسلامی کو، ملتِ ایران کو، حاضرین کے مجمع کو، معزز مہمانوں اور اسلامی ممالک کے برادر سفیروں کو۔
حقیقتاً آج کی دنیائے اسلام کو اُن نکات کی ضرورت ہے جو اُسے آپس میں جوڑتے ہیں، اُنہیں ایک دوسرے سے مربوط کرتے ہیں، اور ان سب کو ایک مؤثر، فعال اکائی میں تبدیل کرتے ہیں۔ عیدِ فطر ان میں سے ایک ہے۔ اس دعا میں جو ہم نمازِ عید فطر کے قنوت میں پڑھتے ہیں:"وَ لِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ [ذُخراً] وَ شَرَفاً وَ [کَرامَتاً وَ] مَزیداً"(2)، اس جملے "مزید" میں ایک پُرمعنی اور گہرے مفہوم کی بات ہے؛ یعنی یہ عیدِ فطر سبب بنتی ہے کہ اسلام کی عزّت، اور رسولِ مکرمؐ کی عزّت روز بروز بڑھے؛ اُن کا دین، اُن کا وہ راستہ جو انہوں نے بشریت کے سامنے رکھا، روز بروز زیادہ پھیلے، زیادہ ترقی کرے۔ عیدِ فطر ایسی ہی خصوصیت کی حامل ہے۔ یہ کب ممکن ہوگا؟ وہ عیدِ فطر جس میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شریک نہ ہوں، التجا نہ ہو، اللہ سے گفتگو نہ ہو، اجتماع نہ ہو، تو وہ عیدِ فطر یہ خصوصیت نہیں رکھتی۔ عیدِ فطر کو ہم مناتے ہیں، ہم اسے اسلام اور مسلمانوں کے لیے شرف، برکت اور فضیلت کا دن قرار دیتے ہیں؛ اپنے عمل سے، اپنے رویّے سے، جو اقدامات ہم کرتے ہیں۔ اگر اُمتِ اسلامی میں اتحاد ہو، ہمت ہو، بصیرت ہو، تو عیدِ فطر حقیقتاً "مزید" (اضافہ کا باعث) بن جائے گی۔
آج دنیائے عالم میں متنوع حوادث تیز رفتاری کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں؛ چاہے ہمارے خطے میں ہوں یا دنیا کے دیگر حصّوں میں۔ ان واقعات کی تیز رفتاری کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تمام افراد جو اپنے آپ کو عالمی واقعات کا حصہ سمجھتے ہیں یا ان واقعات میں موثر جانتے ہیں، وہ ان کو تیزی اور دقّت سے پیروی کریں اور اپنے مقام کو مشخص کریں؛ آج یہ ذمّہ داری اسلامی حکومتوں کے سامنے ہے۔ اسلامی حکومتوں کو چاہیے کہ اپنی قوموں، اپنے دوستوں، اپنے دشمنوں، اور اُن حوادث کے بارے میں جو اُن کے سامنے ہیں یا جو اُن کے منتظر ہیں، غور و فکر کریں۔
دنیائے اسلام ایک عظیم دنیا ہے۔ ہم مسلمان، ایک بڑی آبادی رکھتے ہیں، دنیا کے نقشے پر ایک اہم مقام کے حامل ہیں، اور قدرتی وسائل کے لحاظ سے دنیائے ثروت مند ممالک میں شمار ہوتے ہیں؛ اگر دنیائے اسلام ان اہم مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہے، تو اس کے لیے ایک بنیادی اقدام کی ضرورت ہے، اور وہ ہے: اتحاد؛ دنیائے اسلام کا اتحاد۔
اتحاد کا مطلب یہ نہیں کہ سب حکومتیں ایک ہو جائیں؛ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی رجحانات میں سب ایک جیسے سوچیں۔ دنیائے اسلام کے اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے مشترکہ مفادات کو پہچانیں؛ سب سے پہلے یہ جانیں کہ اُن کے مشترکہ مفادات کیا ہیں۔ ہمیں اپنے مفادات اس طرح سے بیان نہیں کرنے چاہئیں کہ وہ اختلاف، جھگڑے اور تنازعے کا سبب بنیں۔ دنیائے اسلام کا گھرانہ ایک گھرانہ ہے، ایک مجموعہ ہے؛ اسلامی حکومتوں کو چاہیے کہ اس نکتہ پر غور کریں اور اس راستے میں آگے بڑھیں۔
جمہوری اسلامی ایران نے اپنا دستِ دوستی تمام اسلامی حکومتوں کی طرف بڑھایا ہے، وہ خود کو اُن کا بھائی سمجھتا ہے ــ جیسا کہ ابھی صدرِ محترم نے بیان کیا ــ خود کو اُن کے ہمراہ ایک بڑے اور بنیادی محاذ میں شمار کرتی ہے۔
آئیے ہم آپس میں تعاون کریں، مشورہ کریں، دنیائے اسلام کے اتحاد کو محفوظ رکھیں؛ تب ہی جابر طاقتیں، ظالم قوتیں، زورگو حکومتی طاقتیں دنیائے اسلام پر ظلم نہیں کر سکیں گی، دھونس نہیں جما سکیں گی، اور تاوان کا مطالبہ نہیں کریں گی۔
بدقسمتی سے، آج تاوان لینا اور زبردستی خراج طلبی کرنا بڑی طاقتوں کے معمول کا طرز عمل بن چکا ہے۔ بڑی طاقتیں کمزور ممالک، حکومتوں اور قوموں سے تاوان طلب کرتی ہیں، اور اس کا کھلے عام اظہار بھی کرتی ہیں۔ ہمیں اجازت نہیں دینی چاہیے کہ دنیائے اسلام امریکہ اور اس جیسے ممالک کی خراج طلبی کا شکار ہو۔
ہمیں مظلوموں کے حقوق کا دفاع کرنا چاہیے۔ آج دنیائے اسلام کا ایک حصّہ شدید زخمی ہے؛ فلسطین زخمی ہے، لبنان زخمی ہے۔ ان علاقوں میں جو جرائم انجام دیے جا رہے ہیں، ان میں سے بعض بے نظیر ہیں؛ ہم نے نہ اپنی زندگی میں اور نہ تاریخ میں ــ جو ہم نے دیکھی یا پڑھی ــ یہ سنا ہے کہ دو سال سے بھی کم عرصے میں بیس ہزار بچوں کو کسی جنگ میں شہید کر دیا گیا ہو! یہ کوئی مذاق کی بات نہیں؛ دنیائے اسلام کو چاہیے کہ ان باتوں کو دیکھے، سمجھے، پہچانے، اور فلسطینی عوام کے رنج کو محسوس کرے اور اپنے اوپر لازم سمجھے۔
اگر دنیائے اسلام ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لے، تو وہ سب کچھ کر سکتی ہے؛ اس کے لیے جنگ اور عسکری اقدام کی بھی ضرورت نہیں، صرف اتنا کافی ہے کہ اتحاد ہو، یکجہتی ہو، اسلامی حکومتوں کے درمیان ہمزبانی ہو، تب دوسرے خود ہی اپنا حساب کر لیں گے۔
ہم اُمید کرتے ہیں کہ خداوندِ متعال اس عیدِ فطر کو پوری امتِ اسلامی کے لیے بابرکت بنائے اور اسلامی ممالک کے ذمہ داروں کو یہ ہمت، یہ جذبہ، یہ حرکت عطا فرمائے تاکہ وہ حقیقی معنوں میں اُمتِ اسلامی کو تشکیل دے سکیں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
- اس اجتماع میں صدر جمہوریہ ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے بھی خطاب کیا۔
- اقبال الاعمال، جلد 1، صفحہ 289