ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

تینوں شعبوں کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات میں خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم(1)

و الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة اللّه فی الارضین.


آپ کو عید مبارک ہو! ان‌شاءاللّٰہ آپ خود بھی اور آپ کے اہلِ خانہ بھی اس اخلاص سے بہترین استفادہ کرسکیں گے، اور جیسا کہ جناب ڈاکٹر عارف ــ جو ایک تجربہ کار شخصیت ہیں، واقعی طور پر تجربہ رکھتے ہیں ــ نے فرمایا اور بیان کیا، اُسے عمل اور حقیقت کے مرحلے تک پہنچا سکیں گے۔

مجھے ضروری ہے کہ ایک بار پھر تاکید کروں کہ میں آپ کے اہلِ خانہ کو، آپ کی بیویوں کو عید کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر بیویاں آپ کے ساتھ ہوں، ہمفکر ہوں، ہم دل ہوں، تو وہ کام جن کی آپ حضرات ذمہ داری اٹھاتے ہیں ــ چاہے وزراء ہوں، یا مجلس کے اراکین، معاونین، مشیرین، یا مختلف شعبوں کے سربراہان ــ وہ بہتر انداز میں آگے بڑھتے ہیں۔ اس کا ایک حصہ آپ کے برتاؤ اور رویے پر بھی منحصر ہے۔ بعض ذمہ دار افراد جب میدانِ کار و ذمہ داری میں داخل ہوتے ہیں، تو کام کا شوق اور اس سے لگاؤ اس قدر اُنہیں مشغول کر دیتا ہے کہ انہیں یاد ہی نہیں رہتا کہ ان کے بچے بھی ہیں، ایک بیوی ہے، کچھ ذمّہ داریاں ہیں، ایک گھر ہے، اور انہیں دوپہر اور رات کا کھانا اکٹھے کھانا چاہیے؛ بالکل ہی بھول جاتے ہیں۔ یہ مت بھولیے!

جناب ڈاکٹر عارف کے بیانات کے حوالے سے میں ایک جملہ عرض کرنا چاہوں گا۔ جو کچھ آپ نے طے کیا ہے اور جو باتیں آپ پارلیمنٹ اور اسکے عملی اجلاسوں میں زیرِ بحث لاتے ہیں، وہ سب بہت عمدہ ہیں ــ جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا ــ لیکن ہمارا ملک ایک اہم کمی کا شکار ہے۔ ہمارے پاس قانون کی کمی نہیں ہے، ضوابط کی کمی نہیں ہے، اچھے منصوبوں کی کمی نہیں ہے ــ بے شمار عمدہ منصوبے پیش کیے جا چکے ہیں، زیرِ بحث آئے ہیں، منظوری بھی حاصل کر چکے ہیں ــ لیکن جس چیز کی ہمیں کمی ہے، وہ ہے “پیروی” (فالو اپ)، تعاقب، پیگیری؛ پیروی کی جائے۔
بعض اعداد و شمار جو انہوں نے پیش کیے، انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں؛ فرض کیجیے کہ جو انہوں نے پٹرول کے استعمال کا عدد بتایا، وہ شاید اُس مقدار سے دوگنا ہے جو ملک میں استعمال ہونا چاہیے۔ تو یہ مسئلہ قابلِ حل ہے۔ کبھی ملک میں پٹرول کا روزانہ استعمال ۸۰ ملین، ۷۵ ملین، یا اس کے آس پاس رہا ہے، اور کبھی اس سے بھی کم؛ لیکن اب ڈاکٹر صاحب نے ۱۶۰ ملین سے زائد کا عدد ذکر کیا! تو اس مسئلے کو تعاقب کی ضرورت ہے، پیروی ہونی چاہیے۔
مدارس کے مسائل، تعلیمی انصاف، کمزور اور محروم طبقات کے حوالے سے اقدامات ــ یہ سب امور پیروی چاہتے ہیں؛ میری درخواست یہ ہے کہ ان معاملات کی پیروی کیجیے۔ اجلاس بہت اچھے ہیں، فیصلے بہت اچھے ہیں، سربراہان اور منتظمین کا جوش و شوق اور ان کا جذبہ بہت عمدہ، ضروری اور بابرکت چیز ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔
آپ جو منتظمین ہیں، شوق رکھتے ہیں، دلچسپی رکھتے ہیں، اور آپ نے اپنے نائبین کو حکم دیا، وہ بھی ممکن ہے آگے کسی اور کو ہدایت دیں، لیکن اس پورے تسلسل میں یہ ہدایات آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جاتی ہیں، کمزور ہوتی جاتی ہیں، اور کبھی ایسا وقت آتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔

ان ضروری امور میں سے ایک کام کفایت شعاری ہے۔ میں نے کچھ نکات سال کے شعار اور اس جیسے مسائل کے بارے میں نوٹ کیے ہیں جنہیں عرض کروں گا، لیکن فی الحال کفایت شعاری بہت اہم ہے؛ برق (بجلی) کے استعمال میں، توانائی کے وسائل کے استعمال میں۔ خود سرکاری اداروں کو سب سے زیادہ کفایت شعاری اختیار کرنی چاہیے؛ کیونکہ سب سے بڑے صارف خود حکومت ہے، سرکاری ادارے ہیں؛ سب سے زیادہ پٹرول حکومت استعمال کرتی ہے، سب سے زیادہ بجلی حکومت استعمال کرتی ہے، اور اسی طرح باقی چیزیں بھی۔ لوگوں کو کفایت شعاری کی عادت ڈالیے۔ جیسا کہ سعدی نے کہا ہے:

چو دخلت نیست، خرج آهسته‌تر کن
که می‌گویند ملّاحان سرودی:
اگر باران به کوهستان نبارد،
به سالی دجله گردد خشک‌رودی(2)

یہ بالکل ایسا ہی ہے۔ اب مجلس میں موجود کچھ آذری‌زبان افراد کی خاطر ایک مثال عرض کرتا ہوں: "شط اگر اولماسا بغداد اولماز"؛(3) یہ بھی اسی بات کا ایک اور رخ ہے۔ آخرکار اس پیروی کو سنجیدہ لینا چاہیے۔ یہ پہلا مسئلہ ہے۔

میں نے یہاں نوٹ کیا ہے کہ سرکاری اداروں کا مشترکہ اور اوّل درجے کا ایجنڈا، اقتصادی امور کے میدان میں، سال کے نعرے کے نفاذ میں مدد کرنا ہونا چاہیے۔ یعنی یہ کہ "سرمایہ‌گذاری برائے تولید" (پیداوار کے لیے سرمایہ‌کاری) محض ایک نعرہ نہ ہو، بلکہ ہر فرد خود کو اس میں شریک سمجھے، تو یہ ملک کو بہت سے مسائل سے نجات دلائے گا۔

ہم سرمایہ‌کاری میں مسئلے کا شکار ہیں۔ پیسہ لوگوں کے ہاتھوں میں کم و بیش موجود ہے، فن یہ ہے کہ آپ ــ چاہے مرکزی بینک ہوں، وزارتِ اقتصادیات ہو، یا دیگر ادارے ــ اس سرمائے کو صحیح سمت میں رہنمائی دیں، اور وہ سمت ہے: پیداواری سرمایہ‌کاری۔ اس کو تعاقب کیجیے؛ یہ بے حد اہم ہے۔ یقیناً یہ عوام کے لیے بھی ہے، یعنی جو شخص سرمایہ‌کاری کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے یہ باعثِ فخر ہے کہ اس کے پاس مال ہے، اور وہ اسے ملک کی ترقی اور حالات کی بہتری کے لیے صرف کرے؛  یہ افتخار عوام کو یاد دلائیے تاکہ وہ جان لیں کہ اس کام پر فخر کرنا چاہیے۔
لیکن اصل کام حکومت کے ہاتھ میں ہے؛ یعنی حکومت بمعنائے عام، حاکمیت؛ عدلیہ کا اس میں کردار ہے، مجلس کا کردار ہے، مختلف وزارتی شعبوں کا کردار ہے کہ یہ عمل واقع ہو اور پایۂ تکمیل کو پہنچے۔

یقینی بنائیں کہ سرمایہ‌کاری کے لیے تحفظ میسر ہو۔ کچھ سال پہلے، یہاں حسینیہ میں ایک نشست ہوئی تھی، جس میں مَیں نے بیرونی سرمایہ‌کاری کے جذب کرنے اور اس جیسے موضوعات پر گفتگو کی تھی۔(4) ان ہی نشستوں میں ایک تجربہ‌کار اور دانا دوست ــ اللہ انہیں رحمت دے، وہ وفات پا چکے ہیں ــ اُٹھے اور کہا کہ بیرونی سرمایہ‌کاری، مقامی سرمایہ‌کاری کا ملازمہ ہے؛ یہاں آپ اگر شوکیس کو درست کریں، ظاہر ہو جائے گا کہ مقامی سرمایہ‌کار مائل، راغب اور مشتاق ہے، اور سرمایہ‌کاری کے لیے آمادہ ہے، تو پھر وہ بیرونی سرمایہ‌کار بھی دیکھے گا، حوصلہ پائے گا، اور کہے گا کہ یہاں تو سرمایہ‌کاری ممکن ہے۔ اندرونی سرمایہ‌کاری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دُور کریں۔ یہ پابندیوں کو بے اثر بنانے کے بہترین طریقوں میں سے ایک ہے۔

مَیں بارہا یہ کہہ چکا ہوں کہ پابندیوں کے مسئلے کا دو طریقوں سے حل ہے: ایک، پابندیوں کو ختم کیا جائے، جو کہ ہمارے ہاتھ میں نہیں، بلکہ دوسری فریق کے ہاتھ میں ہے؛ اور دوسرا، ان پابندیوں کو بے اثر بنایا جائے، جو ہمارے ہاتھ میں ہے۔ پابندیوں کو بے اثر بنانے کے راستے تلاش کریں؛ اس کے کئی طریقے ہیں، اور حقیقتاً ممکن ہے کہ ان پابندیوں کو بے اثر بنایا جائے، بلکہ اگر ہم اندرونی صلاحیتوں سے بخوبی استفادہ کریں، تو ہم ایسے مقام پر پہنچ سکتے ہیں جہاں ملک پابندیوں سے متاثر ہی نہ ہو؛ یعنی اگرچہ پابندیاں عائد کی جائیں، پھر بھی ملک اپنے قدموں پر کھڑا ہو سکے؛ کیوں کہ ہمارے ملک کی اندرونی صلاحیتیں یہ طاقت رکھتی ہیں۔

تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کا مسئلہ، جس کا ذکر کیا گیا، میرے مؤکد فرمودات میں شامل ہے۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ پہلے درجے کی ترجیح میں، نیز ایشیا کے ان ممالک کے ساتھ جو اقتصادی قطب شمار ہوتے ہیں ــ جیسے چین، روس، ہندوستان ــ اقتصادی روابط کو ہموار کریں۔ بلاشبہ، کچھ معاملات سخت ہیں، یہ ہم جانتے ہیں، لیکن ہر سخت کام کی بھی بھرپور کوشش، اور بہتر تدبیر سے اسے انجام دیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ہمسایوں سے تعلقات کا مسئلہ نہایت اہم ہے۔ ان معاملات میں درمیانی ہاتھ بھی بہت مؤثر ہیں؛ یعنی وہ درمیانی مسئول جو بعض اوقات عادی ہو چکے ہوتے ہیں (صرف) کسی خاص اجناس کو کسی مخصوص جگہ سے لانے کے۔

چند روز قبل، مَیں نے یہ بات کسی سے کہی کہ میری صدارت کے زمانے میں، جب ہم ایک افریقی ملک گئے جو کہ اس وقت بھی ایک اچھا مویشی اور زراعتی مرکز تھا، وہاں کے صدر نے مجھے کہا: ہمارا پیدا کردہ گوشت ایک اعلیٰ معیار کا گوشت ہے؛ یعنی یورپی ممالک ہم سے گوشت خریدتے ہیں ــ اُس وقت سب چیزیں حکومتی سطح پر درآمد ہوتی تھیں؛ ساٹھ کی دہائی میں گوشت بھی حکومت درآمد کرتی تھی ــ آپ یورپ سے گوشت درآمد کرتے ہیں، جبکہ یورپ وہی گوشت جو ہم سے خریدتا ہے، دوگنی قیمت پر آپ کو دیتا ہے! مَیں یہاں آکر متعلقہ ذمہ داران سے کہا کہ جائیں اور اس کی پیروی کریں؛ لیکن انہوں نے کچھ نہ کیا؛ زبانی طور پر خیر مقدم کیا، عملی طور پر کچھ نہ ہوا۔ ہمسایوں، اقتصادی مراکز، متنوع ممالک، اور اسی افریقا سے تجارتی لین دین کا معاملہ بہت اچھا ہے۔ یہ روابط جو محترم صدر(۵) ان ممالک کے صدور کے ساتھ عید اور دیگر مواقع پر قائم کر رہے ہیں، بہت اچھے ہیں، کارگشا ہیں؛ وزارت خارجہ کی مجموعی سرگرمیاں ــ یہ دورے اور آمدورفت ــ بہت مؤثر سرگرمیاں ہیں۔

عمان کی ان مذاکرات کے متعلق بھی ایک بات عرض کروں۔ مَیں یہ نکتہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مذاکرات، وزارت خارجہ کے درجنوں کاموں میں سے ایک ہیں؛ یعنی وزارت خارجہ کے بہت سے کام ہیں جن میں سے ایک یہ عمان کے مذاکرات اور حالیہ موضوعات ہیں۔ کوشش کریں کہ ملکی مسائل کو ان مذاکرات سے نہ جوڑیں؛ یہ میری تأکید ہے۔ وہی غلطی جو ہم نے جوہری معاہدے میں کی، یہاں دہرائی نہ جائے۔ اُس وقت ہم نے ہر چیز کو مذاکرات کی پیش رفت پر موقوف کر دیا؛ یعنی پورے ملک کو مشروط کر دیا۔ ظاہر ہے جب سرمایہ‌کار یہ دیکھے گا کہ ملکی امور مذاکرات پر منحصر ہیں، تو وہ سرمایہ‌کاری نہیں کرے گا؛ کہے گا دیکھیں آخرکار مذاکرات کہاں پہنچتے ہیں۔ یہ مذاکرات بھی ایک عمل ہے، ایک بات ہے، وزارت خارجہ کے چند اہم امور میں سے ایک ہے جو جاری ہے۔ ملک کو چاہیے کہ اپنی مختلف شعبوں میں سرگرمیاں جاری رکھے: صنعت، زراعت، خدمات کے شعبے، ثقافت، تعمیراتی شعبے، اور خاص منصوبے جیسے جنوب مشرقی علاقوں کے مخصوص مسائل؛ ان سب کو سنجیدگی سے آگے بڑھائیں؛ ان کا ان جاری مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں جو عمان میں شروع ہوئے ہیں۔ یہ بھی ایک الگ مسئلہ ہے۔

اسی ضمن میں، ان مذاکرات کے بارے میں نہ حد سے زیادہ خوش فہمی رکھیں، نہ حد سے زیادہ بدگمانی؛ یہ بہرحال ایک عمل ہے، ایک تحریک ہے، جس کا فیصلہ ہوا ہے، اور اس پر عملدرآمد ہو رہا ہے، اور ان ابتدائی مراحل میں اچھا قدم اٹھایا گیا ہے، اچھا عمل ہوا ہے، آئندہ بھی اس کو پوری دقت سے آگے بڑھایا جائے ــ سرخ لکیر (ریڈ لائنز) معیّن ہیں؛ دونوں فریقوں کے لیے واضح ہیں ــ اور مذاکرات اچھے انداز میں جاری رہیں۔ ممکن ہے کہ نتیجہ خیز ہوں، ممکن ہے نہ ہوں؛ ہم نہ بہت زیادہ پرامید ہیں، نہ مایوس۔ البتہ مخالف فریق کے متعلق ہمیں بہت بدگمانی ہے، ہم انہیں تسلیم نہیں کرتے، ہم انہیں جانتے ہیں؛ لیکن ہمیں اپنی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے، ہم جانتے ہیں کہ ہم بہت سے کام کر سکتے ہیں، اور اچھے طریقے جانتے ہیں۔

ساتواں منصوبہ (پروگرام) کا معاملہ بھی بہت اہم ہے، جو اب تاخیر کے ساتھ، آخرکار اسی سال سے شروع ہو رہا ہے۔ کوشش کریں کہ اس پروگرام کی شروعات، چھٹے پروگرام کی طرح نہ ہو۔ چھٹے پروگرام کے بعض حصے ابتدا ہی میں منحرف ہو گئے؛ کوشش کریں کہ ساتویں پروگرام کے مختلف شعبے انحراف کا شکار نہ ہوں۔ یہ مجلس (پارلیمنٹ) کی مصوبہ ہے، اور ایک ایسا کام ہے جو ملک کے لیے ضروری ہے، نظام کی عمومی پالیسیوں پر مبنی ہے، اور مجموعی طور پر ایک اچھا پروگرام ہے۔ آخرکار یہ قانون ہے، اس پر عمل ہونا چاہیے، البتہ دقّت کی جائے کہ یہ اپنے معیار کے مطابق اور درست طور پر نافذ ہو، اور کسی قسم کا انحراف نہ پیدا ہو۔

ایک جملہ غزہ کے مسئلے کے بارے میں عرض کروں۔ غزہ کے واقعات میں، حقیقتاً اس مجرمانہ گروہ نے جو فلسطین پر حکومت کر رہا ہے، جرم و جنایت کی تمام حدیں پار کر دی ہیں؛ واقعی حد سے تجاوز کر چکے ہیں! مجھے یاد نہیں پڑتا، میرے علم میں نہیں کہ کبھی ایسا واقعہ پیش آیا ہو کہ جان بوجھ کر، مخصوص اہداف کے ساتھ، مظلومین کو، بچوں کو، مریضوں کو، صحافیوں کو، اسپتالوں کو، اور ایمبولینسوں کو نشانہ بنایا گیا ہو؛ یعنی یہ واقعاً ایک بہت عجیب چیز ہے، اور بہت ہی زیادہ سنگدلی و قساوت قلبی کا تقاضا کرتی ہے، جو اس گروہ اور اس خبیث مجرمانہ ٹولے میں موجود ہے!

میری رائے میں، دنیائے اسلام کو کوئی اقدام کرنا چاہیے، کوئی عملی قدم اٹھانا چاہیے۔ چاہیے کہ ایک مناسب ہم آہنگی کے ساتھ ــ خواہ اقتصادی لحاظ سے ہو، یا سیاسی اعتبار سے، اور اگر ضرورت ہو تو عملیاتی لحاظ سے بھی ــ دنیائے اسلام کو مجتمع ہو کر اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے اور کچھ کرنا چاہیے۔ البتہ، ان کو اللہ تعالیٰ کے کوڑے کا انتظار بھی کرنا چاہیے؛ یعنی اس قسم کا ظلم، سخت خدائی جواب رکھتا ہے ــ اس میں کوئی شک نہیں ــ لیکن یہ [الٰہی انتقام]، لوگوں کی ذمہ داری، ہماری ذمہ داری، حکومتوں کی ذمہ داری کو کم نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ اپنا کام خود کرتا ہے، ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنا فرض ادا کریں۔

امید ہے کہ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ تمام مسلمان قوموں کا، امت اسلامی کا، عزیز ملتِ ایران کا، آپ ذمہ داران کا انجام بخیر کرے، کاموں کو آسان فرمائے، اور اللہ تعالیٰ ہم سے اور ہمارے کام سے راضی ہو، ان شاء اللہ۔ ہر حال میں، ہر کام میں خدا کو پیش نظر رکھیں۔

والسّلام علیکم و رحمة‌الله و‌ برکاته

 

  1. اس ملاقات کے آغاز میں ــ جو نئے شمسی ہجری سال کے آغاز کی مناسبت سے منعقد ہوئی ــ جناب ڈاکٹر محمدرضا عارف (نائبِ اول صدرِ جمہوریہ) نے کچھ نکات بیان کیے۔
  2. سعدی، گلستان، باب ہفتم
  3. "شط اگر نباشد، بغداد نیست"
    (اگر دریا نہ ہو تو بغداد بھی وجود نہیں رکھتا۔)
  4. اُن بیانات میں سے جو ملک بھر کے صنعتی، تجارتی، پیداواری اور اصناف کے ذمے داروں کے ساتھ ملاقات میں، مورخہ 10 تیر 1380 کو، بیان کیے گئے۔
  5. جناب ڈاکٹر مسعود پزشکیان
  6. ایران اور امریکہ کے درمیان ایرانی جوہری مسئلے اور پابندیوں کے خاتمے کے حوالے سے بالواسطہ مذاکرات کی طرف اشارہ، جن کا پہلا اجلاس رواں سال 23 فروردین کو سلطنتِ عمان میں منعقد ہوا۔