ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

اصفہان کے 24 ہزار شہداء کی یاد میں منعقدہ کانگریس کے منتظمین سے خطاب

بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحیم (۱)
و الحمد للّه ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة اللّه فی الارضین.

بہت خوش آمدید، عزیز بھائیو، عزیز بہنو اور مجاہدین فی سبیل اللہ۔ میں ان افراد کو جو مجاہدین اور شہداء کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے کام کرتے ہیں، مجاہد فی سبیل اللہ سمجھتا ہوں۔ یعنی یہ خود ایک جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اور کوشش کریں کہ "جَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ" (۲)؛ اس جہاد کو ایسے انجام دیں جیسے اس کا حق ہے۔

اصفہان ہر تمدنی علامت میں پیشگام تھا؛ علم، صنعت، فن، معماری، علماء کی تربیت، بہادری اور ان سب چیزوں میں؛ یہ سب تاریخ سے معلوم ہے۔ انقلاب کے واقعات نے دکھایا کہ اصفہان اللہ کی راہ میں قربانی اور جہاد فی سبیل اللہ میں بھی پیشگام ہے؛ یعنی انقلاب اور دفاع مقدس میں اصفہان کی خصوصیات میں ایک بے مثال اور منفرد امتیاز کا اضافہ ہوا۔

وہ عظیم شہداء جنہوں نے اسلام اور اس ملک کی آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ان کی ایک طویل فہرست ہے، جیسا کہ [آپ نے] کہا کہ ملک کے تمام شہداء میں سے دس فیصد اصفہان صوبے سے تعلق رکھتے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے، اصفہان نے ملک کے دیگر تمام صوبوں سے زیادہ شہداء پیش کیے ہیں۔ یہ سب حقائق ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ، یہ قربانی اور نورانی شہادت کا رشتہ، اصفہان میں ماضی سے لے کر آج تک جاری ہے۔

یعنی ایک وقت ہم شہید مدرس کو دیکھتے ہیں، پھر ایک دور میں مثلاً شہید بہشتی اور ان جیسے دیگر افراد کو دیکھتے ہیں، پھر ایک دور میں شہید خرّازی، شہید ہمّت، اور شهبازی جیسے شہداء نظر آتے ہیں، پھر ایک وقت میں شہید کاظمی کو دیکھتے ہیں، پھر ایک وقت میں شہید زاہدی، نیلفروشان، اور وہ شہداء جنہیں حالیہ دنوں میں شہید کیا گیا ــ جن میں تین اصفہانی تھے ــ دیکھتے ہیں؛ یعنی یہ شہادت کا سلسلہ عارضی نہیں ہے کہ ہم کہیں، "ٹھیک ہے، ایک دن 370 شہداء کا جنازہ نکالا گیا،(۳) یہ ختم ہوگیا۔" نہیں، یہ اصفہان میں جڑ پکڑ چکا ہے؛ یہ اہم بات ہے۔ آپ جو شہداء کی یاد کو زندہ رکھتے ہیں، ان نکات کو نمایاں کریں، انہیں دکھائیں۔ آج کا نوجوان، آج کی نسل، ان چیزوں کی ضرورت رکھتی ہے، انہیں جاننا چاہیے؛ یہ اصفہان کی شناخت ہے۔

اصفہان کے حوالے سے ایک اہم نکتہ دین داری کا ہے؛ اصفہان کی دین داری۔ شاید میں نے پہلے بھی اصفہان کے عزیز عوام سے ملاقاتوں میں یہ بات کہی ہو،(4) میں خود اصفہان میں ان مجالس اور اجتماعات کا گواہ ہوں جنہیں ہم عام طور پر ملک کے کسی اور حصے، حتیٰ کہ مشہد اور تہران میں بھی نہیں دیکھتے تھے ــ یہ سالہا سال پہلے کی بات ہے، پچاس یا ساٹھ سال پہلے کی۔ لوگوں کے رجحانات، ان کی توجہ، رمضان سے محرم تک کے مجالس، جو عموماً عزاداری کے مہینے نہیں تھے؛ کہاں؟ اصفہان کے بازار کے تیمچوں میں۔

اب یہ تو سطحی باتیں ہیں۔ اصفہان کے عوام کی دین داری کو اصفہان کے علماء کی طویل فہرست سے جانا جاسکتا ہے۔ ابھی آپ نے مرحوم آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی کا ذکر کیا؛ جی ہاں، وہ ایک عظیم عالم تھے۔ اگر آپ سید ابوالحسن اصفہانی (رضوان اللہ علیہ) کے اساتذہ کے دور کو دیکھیں، تو اصفہان میں اتنے بڑے علماء تھے جو سید ابوالحسن اصفہانی اور میرزائے نائینی کے استاد کے درجے کے تھے، اور یہ سب اصفہان کے طلبہ تھے، کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ ان تمام علماء کو کیسے فہرست کیا جائے۔

یہ علماء خود اصفہان، نجف آباد اصفہان، اصفہان کے مختلف دیہاتوں، یا خوانسار جیسے علاقوں سے تھے، جہاں خوانساری خاندان کے افراد، جن میں سب سے بڑے مرحوم آیت اللہ سید محمد ہاشم اور دیگر افراد تھے، وہاں سے آئے تھے۔ اصفہان کے عوام کی عظمت اور دین داری کو اصفہان کے ان علماء کے طویل فہرست سے پہچانا جا سکتا ہے۔ یہ دسویں اور گیارہویں صدی کے دور کی بات نہیں ہے، نہ ہی صفوی دور کا معاملہ ہے، بلکہ ہماری اپنی موجودہ صدی کا معاملہ ہے۔ یہی اصفہان کے عوام کی دین داری ہے!

ایک نکتہ یہاں موجود ہے؛ ہم کیوں اصفہان کے لوگوں کی دین داری پر زور دیتے ہیں؟ وہ نکتہ یہ ہے کہ اصفہان یہ ظاہر کرتا ہے کہ دین داری اور شرعی پابندیوں کا سلسلہ علم، صنعت، ثقافت، تمدن، اور دیگر امور کے ساتھ گہری ہم آہنگی رکھتا ہے؛ نہ صرف یہ کہ ان کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے، بلکہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ گہرائی میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری ایرانی تہذیب کی ایک مثال ہے؛ ایرانی تمدن، جو کبھی انسانی تمدن کی چوٹی پر تھا، ہمیشہ سے دین کے ساتھ، حتیٰ کہ اسلام سے پہلے بھی، دین داری کے ساتھ منسلک رہا ہے۔

یہ کہ کچھ لوگ کوشش کرتے ہیں اور زبردستی ایرانی تہذیب کے اجزاء کو الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور دین، علم، صنعت، ثقافت، اور فنون کے درمیان فاصلہ پیدا کرنے کی سعی کرتے ہیں، یہ کام غلط ہے، حقیقت کے خلاف ہے، اور بے فائدہ ہے۔ یہ ممکن بھی نہیں۔ آج بھی ہمارے بہترین نوجوان ہمارے سب سے جدید علمی مراکز میں کام کر رہے ہیں۔ آج بھی یہی حال ہے۔

ہماری اپنی موجودہ صدی میں بھی، ملک کے سب سے نمایاں صلاحیتیں ہمارے سب سے ترقی یافتہ سائنسی میدانوں میں سرگرم عمل تھیں۔ مرحوم ڈاکٹر چمران (رضوان اللہ علیہ)، جو علم کے شعبے میں اور اسی طرح کے دیگر میدانوں میں امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھتے تھے، خود مجھے بتاتے تھے کہ وہ ان آخری مراحل تک پہنچ گئے تھے جہاں امریکی لوگ غیر امریکی طلبہ کو پہنچنے کی اجازت نہیں دیتے۔ وہ کون تھے؟ چمران؛ متدین چمران، مجاہد چمران، وہ چمران جو اپنی بیوی اور بچوں کو امریکہ سے اٹھا کر لبنان لے آئے، تحریک مزاحمت کی خدمت کیلئے؛ اور پھر اپنی بیوی اور بچوں سے جدا ہونے کے لیے تیار ہوگئے تاکہ وہیں رہ کر جدوجہد اور جہاد کر سکیں، اور آخر کار انہیں اس کا اجر ملا، جو شہادت تھی۔

یعنی ایرانی تمدن میں دین اور تمدنی علامات کی یہ ہم آہنگی اور ہم بستگی ایک حقیقت ہے، ایک ایسی سچائی جو ناقابل انکار ہے، اور بے وجہ اس کے برعکس دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

انصاف کی بات یہ ہے کہ ملت ایران کی کوششیں، ہمارے نوجوانوں کی قربانیاں، اور ان کی جاں نثاری، آج تک اسلامی جمہوریہ کے قیام اور بقا کا سبب بنی ہیں؛ اور آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ اگر یہ قربانیاں نہ ہوتیں، تو اسلامی جمہوریہ کے لیے اپنی حیات کو جاری رکھنا ممکن نہ ہوتا۔ اور اگر ایک نام نہاد اسلامی جمہوریہ باقی رہ بھی جاتا، تو اس کے لیے اصولوں اور مبادیات کو محفوظ رکھنا ممکن نہ ہوتا؛ وہ ایک بے معنی شکل اختیار کر لیتا، جیسا کہ کچھ دیگر مقامات پر ہوا ہے۔

مختلف ادوار میں، انقلاب کے آغاز سے، انقلابی جدوجہد سے لے کر انقلاب کی فتح تک، انقلاب کے ابتدائی مسائل تک، دفاع مقدس کے دور تک، اور اس کے بعد سے لے کر آج تک، مختلف معاملات میں، یہ نوجوان ہی تھے جنہوں نے اپنی جاں نثاری کے ذریعے نظام کو بچایا، اسے استحکام دیا، اور دوام بخشا۔ اور ان شاء اللہ، آئندہ بھی یہی حال رہے گا؛ جیسا کہ ہماری علمی اور دینی تحریک بھی ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔

میری جو تاکید ہے، سب سے پہلے یہ ہے کہ آپ ان کاموں کو، جو آپ ان تقریبات میں انجام دیتے ہیں، اس طرح کریں کہ ان کے اثرات ہوں۔ صرف ایک کتاب بنانا کافی نہیں ہے، صرف ایک فلم بنا دینا کافی نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ ایک فلم پر آپ محنت کریں اور اسے بنائیں، لیکن کوئی اسے دیکھے ہی نہ۔ اگر کوئی فلم اچھی ہدایت کاری کے بغیر ہو، اچھی تیاری کے بغیر ہو، مضمون اچھا نہ ہو، دلچسپ اور خوبصورت نہ ہو، تو آپ نے محنت کی، پیسہ خرچ کیا، لیکن کسی نے اس فلم کو نہیں دیکھا!

بہترین ہدایت کار، بہترین کہانی نویس، بہترین فلمساز، اور بہترین معاون تلاش کریں۔ دس فلموں کے بجائے دو فلمیں بنائیں، لیکن ایسی دو فلمیں جو جب نشر ہوں، تو سب کہیں کہ دوبارہ دکھاؤ؛ یہی اچھی بات ہے۔ تاکہ آپ شہید ہمّت، شہید زاہدی، شہید کاظمی، شہید خرّازی، اور ردانی پور جیسے شہداء کو متعارف کرا سکیں۔ اور دیگر بہت سے۔ اصفہان کے نمایاں شہداء کے نام اتنے زیادہ ہیں کہ انسان چاہے جتنا بتائے، ختم نہیں ہوتے۔

یہ ایک نکتہ ہے: اثر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ ایسی کتاب بنائیں کہ جب اس کا پہلا ایڈیشن ختم ہو، تو خریدار دوسرے اور تیسرے ایڈیشن کی طلب کریں، اور یہ سلسلہ جاری رہے۔ اور اسی طرح جو دیگر کام جو آپ انجام دیتے ہیں۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ آپ اپنے کاموں کے اثرات کا جائزہ لیں — یہ وہی بات ہے جو میں نے کچھ دوسرے لوگوں کو بھی کہی تھی جو کسی اور شہر سے آئے تھے — یعنی آپ کوئی ایسا نظام بنائیں جو آپ کے کاموں کا مشاہدہ کرے؛ یہ دیکھیں کہ آپ کے نوجوان، آپ کی کاوشوں کو دیکھنے کے بعد، ان کے رویے، طرز زندگی، لباس پہننے کا انداز، نمازِ جماعت میں شمولیت، مجالس میں جانا، سیاسی مسائل سے نمٹنے کا انداز، ماضی کے مقابلے میں کس حد تک بدلا ہے۔
یقیناً یہ کام مشکل ہے اور محنت طلب ہے، لیکن یہ ضروری ہے؛ کیونکہ جب آپ کا کام واقعی ایک موثر، زندہ، اور جاندار کام ہوگا اور فی سبیل اللہ جہاد کے زمرے میں آئے گا، تب یہ نکات ضرور اس میں شامل ہوں گے۔

میری تجویز یہ ہے کہ اصفہان کی عسکری تنظیمیں بھی اس کام میں فعال کردار ادا کریں؛ جیسے سپاہ کے یونٹ، لشکر امام حسین، لشکر نجف، یا تیپ قمر بنی ہاشم — جو کہ شاید اس وقت اصفہان کا حصہ تھا — یا فوج کے یونٹ، جیسے پایگاهِ ہشتم، جس نے ان امور میں کم کام نہیں کیا، توپخانہ کا مرکز جو اصفہان میں موجود تھا، اور دیگر مراکز، یہ سب بیٹھ کر جنگِ تحمیلی کے دوران اور اس سے پہلے یا بعد کے واقعات کو بیان کریں۔

یہ بیان کس شکل میں ہونا چاہیے؟ کمپیوٹر گیمز کی صورت میں۔ آج کل دنیا میں کمپیوٹر گیمز پیغام پہنچانے کے ایک اہم ذریعے کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں؛ یہ محض کھیل نہیں ہیں۔ ذہین لوگ بیٹھ کر ایسی جنگی گیمز ڈیزائن کرتے ہیں جن میں ایران اور خود ان کے درمیان جنگ کو دکھایا جاتا ہے، اور وہ اس طرح ڈیزائن کی جاتی ہیں کہ جب ایک امریکی نوجوان کمپیوٹر پر بیٹھ کر یہ گیم کھیلتا ہے، تو وہ طاقت اور قابلیت کا احساس کرتا ہے اور یہ امید پاتا ہے کہ ہم اس جنگ میں کامیاب ہوں گے۔ ہمیں بھی اسی طرح کے طریقے اپنانے چاہییں۔

یا مختصر کہانیوں کے ذریعے واقعات بیان کرنا؛ مثلاً کوئی شخص محض دس سطری ایک یادداشت بیان کرتا ہے، کس کے بارے میں؟ محاذ پر اپنے کسی ساتھی کی شہادت کے لمحے کے بارے میں۔ نہ وہ شخص جو یہ واقعہ بیان کر رہا ہے مشہور ہوتا ہے، نہ وہ جس کے بارے میں یہ بات کی جا رہی ہے، لیکن جب آپ یہ کہانی پڑھتے ہیں، جب ایک نوجوان یہ کہانی پڑھتا ہے، تو یہ اس کے دل کی گہرائیوں پر اثر ڈالتی ہے۔
یہ وہ کام ہیں جن کے لیے ہنر مند لوگوں کی ضرورت ہے، اور ان میں فنکاروں کی شمولیت لازمی ہے۔

میرے خیال میں اگر یہ کام کیے جائیں اور ماضی کے بڑے واقعات کو ہوشیاری اور درست طریقے سے بیان کیا جائے، تو بہت سی مشکلات حل ہو جائیں گی اور کام آگے بڑھیں گے۔ اور ان شہداء کی یاد خود آج کے نوجوانوں میں بلند حوصلے اور مجاہدانہ جذبے کو زندہ کرنے والی ہوتی ہے۔

واقعی، شہید کاظمی کی زندگی شہید حججی(5) کو پیدا کرتی ہے؛ یعنی جب یہ کہانی پڑھی جاتی ہے، تو یہ نیا جذبہ پیدا ہوتا ہے، یہ نیا فرد وجود میں آتا ہے۔ لہٰذا ان کاموں کو ان شاء اللہ جاری رکھیں۔ خدا آپ کو کامیاب کرے۔

والسّلام علیکم ورحمة اللّه

  1. اس ملاقات کے آغاز میں حجت‌الاسلام والمسلمین سیّد یوسف طباطبائی‌نژاد (ولی فقیہ کے نمائندے اور صوبہ اصفہان میں کانگریس کی پالیسی ساز کمیٹی کے صدر) اور سرتیپ مجتبیٰ فدا (سپاہ صاحب‌الزّمان، صوبہ اصفہان کے کمانڈر اور کانگریس کے سیکریٹری جنرل) نے رپورٹس پیش کیں۔
  2. سورہ حج، آیت 78 کا حصہ؛ "... اللہ کے راستے میں ویسا جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے..."
  3. 25 آبان 1361 کو، شہر اصفہان سے تعلق رکھنے والے آپریشن محرم کے 370 شہداء کو عوام کی شاندار موجودگی کے ساتھ اور ان کے ہاتھوں پر تشییع کیا گیا۔
  4. رجوع کریں: بیانات برائے مختلف اقشارِ اصفہان کے لوگوں سے ملاقات (28/8/1401)
  5. شہید محسن حججی، مدافع حرم کے شہداء میں سے ایک، جنہیں داعش کے عناصر نے قید کے بعد شہید کیا۔