ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

جناب فاطمہ زہرا س کی ولادت پر ہزاروں خواتین اور بچیوں سے ملاقات

بسم الله الرّحمن الرّحیم(1)

و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.

میں حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) کی ولادت کی ایام کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور خوشی محسوس کرتا ہوں کہ الحمدللہ یہ جلسہ اس سال بھی منعقد ہوا۔ میرے خیال میں، یہ جلسہ ان بہترین اور غیر معمولی نشستوں میں سے ایک ہے جو اس حسینیہ میں منعقد ہوتی ہیں۔ اس میں ہماری عزیز بہنوں اور بیٹیوں کی کثیر تعداد، پرجوش جذبات اور محترم مقررین، خواتین کی جانب سے بیان کردہ بہترین گفتگو شامل ہے۔ حقیقتاً یہ ایک یادگار جلسہ ہے۔

بہت عمدہ نکات بیان کیے گئے۔ میں ابھی یہیں سے دفتر کے ذمہ داران، تحقیقاتی شعبے کو تاکید کرتا ہوں کہ ان خواتین کی پیش کردہ باتوں کو سنجیدگی سے دیکھیں۔ ان میں سے کچھ نکات ہماری اپنی ذمہ داری ہیں، جیسے میرے یا دفتر کے متعلق؛ جبکہ اکثر نکات حکومتی اداروں اور دیگر شعبوں سے متعلق ہیں۔ جو کچھ ہمارا کام ہے، وہ مکمل کیا جائے، اور جو حکومتی اداروں کا کام ہے، اسے پیروی کے ذریعے آگے بڑھایا جائے۔

الگوی سوم زن (مسلمان انقلابی خاتون کا ماڈل) کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔ سوشل میڈیا میں گھرانے کے حوالے سے جو مسائل پیش آرہے ییں، جو نہایت باریک بینی اور خوبی سے بیان کیے گئے، اور آبادی کے مسئلے کو گھرانے کے ذریعے حل کرنے کی بات ہوئی۔ انہوں نے ولادت اور شرح باروری پر زور دیا، البتہ خود انھوں نے کہا کہ ان کے دو بچے ہیں، جو کہ کم ہیں، فن و ہنر، خاص طور پر ایرانی سنیما اور تھیئٹر کے بارے میں ایک محترمہ نے باتیں بیان کیں جو اہم ہیں، شادی کے امور میں آسانیاں پیدا کرنے کی باتیں بہت اہم ہیں، واقعی، ہماری موجودہ مشکلات میں سے ایک، یہی ہے۔ اور یہ باتیں جو ان محترمہ نے بیان کیں، بہت اچھی باتیں ہیں۔ ان کاموں کی انجام دہی پر نظر رکھی جائے، یہ اہم مسائل ہیں۔ یہاں عائیدہ سرور صاحبہ کا ذکر ہوا، جنہیں میں نے پہلے بھی یہاں دیکھا تھا، اس دن جب ان کے دوسرے بیٹے کی شہادت کی خبر انہیں ملی تھی۔ میں ان کے جذبے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان کے فرزندوں کی فقدان پر تعزیت کرتا ہوں۔

میں نے یہاں کچھ نکات تیار کیے ہیں جو وقت کی اجازت کے مطابق پیش کروں گا: حضرت صدیقہ کبریٰ (سلام اللہ علیہا) کے بارے میں چند باتیں، پھر عورت کے موضوع پر چند نکات، جو آج دنیا بھر میں ایک اہم انسانی مسئلہ ہے، اور آخر میں خطے کی موجودہ صورتحال پر چند کلمات عرض کروں گا۔

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں، میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ عظیم شخصیت، یہ نوجوان خاتون، عالم خلقت کے محیر العقول حقائق میں سے ایک ہیں۔ ۔ اگر ان کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کو سمجھا جائے تو یقیناً یہ معلوم ہوگا کہ وہ کائنات کی ایک حیران کن حقیقت اور تخلیق ہیں۔ ایک جوان بیٹی، جو اپنی جوانی میں (ایک روایت کے مطابق اٹھارہ سال کی عمر میں شہید ہوئیں، اور دیگر روایات میں بیس یا بائیس سال کی عمر کہی گئی ہے) بہرحال اس عظیم شخصیت کے بارے میں پیغمبر اکرم یا دوسروں نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی سے متعلق ہے - معنوی لحاظ سے اور ملکوتی و جبروتی تشخص کے مرتبے کے لحاظ سے ایک ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ اس کا غضب، خدا کے غضب کا سبب بن جائے، اس کی خوشی، خدا کی خوشی کا باعث بن جائے۔ شیعہ اور سنی دونوں نے یہ روایت نقل کی ہے۔ شیعہ کتابوں میں یہ الفاظ ہیں: "اِنَّ اللهَ یَغضَبُ لِغَضَبِ فاطِمَةَ وَ یَرضیٰ لِرِضاها" (۲) (بیشک خدا فاطمہ کے غصے سے غضبناک ہوتا ہے اور ان کی رضا سے راضی ہوتا ہے)۔ اہلسنت کی کتابوں میں یہی روایت، حضرت فاطمہ زہرا سے خود پیغمبر اکرم کے خطاب کی صورت میں ہے کہ پیغمبر نے فاطمہ سے فرمایا: "یا فاطِمَةُ! اِنَّ اللهَ لَیَغضَبُ لِغَضَبِکِ وَ یَرضیٰ لِرِضاکِ (۳)(اے فاطمہ! خدا تمہارے غصے سے غضبناک ہوتا ہے اور تمہاری رضا سے راضی ہوتا ہے)۔ تمھاری خوشی سے خدا خوش ہوتا ہے اور تمھارے غضب سے خدا غضب ناک ہوتا ہے۔ یہ بہت عجیب چیز ہے! ایسا نہیں ہے کہ ہم کہیں کہ یہ بلند مرتبہ انسان، جہاں خدا غضب ناک ہوتا ہے، وہ بھی غضب ناک ہوتا ہے؛ نہیں، اس کے برخلاف ہے، جب بھی وہ غضب ناک ہوتا ہے، اللہ بھی غضب ناک ہوتا ہے۔ آپ عظمت کو دیکھیے!
سختیوں میں پیغمبر کی غم گسار، جہاد میں امیر المومنین کی ہمراہ، عبادت میں فرشتوں کی آنکھیں چکاچوندھ کر دینے والی اور سیاست میں وہ فصیح و بلیغ اور آتشیں خطبے دینے والی تھیں، ان کے خطبوں میں، چاہے وہ جو انھوں نے مسجد میں دیے مہاجرین و انصار کے سامنے اور چاہے وہ جو انھوں نے مدینے کی خواتین کے درمیان دیے، سیاست بھی ہے، معرفت بھی ہے، شکوہ بھی ہے، منقبت بھی ہے، ہر چیز ہے، ایک غیر معمولی چیز ہے اور وہ بھی بہترین اور اعلیٰ الفاظ میں، نہج البلاغہ کے خطبوں کی طرح۔ وہ امام حسن کی پرورش کرنے والی ہیں، حسین ابن علی کی پرورش کرنے والی ہیں، حضرت زینب کی تربیت کرنے والی ہیں، دیکھیے جب یہ خصوصیات ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھا ہوتی ہیں تو واقعی انسان کے سامنے دنیا کی ایک حیرت انگيز حقیقت آ جاتی ہے۔ ان کا بچپن آئيڈیل ہے، ان کی نوجوانی آئيڈیل ہے، ان کی شادی آئيڈیل ہے، ان کی زندگي کی سیرت آئيڈیل ہے، یہ سب برترین نمونہ ہائے عمل ہیں جو مسلمان خاتون کی بالاترین حد کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہ اوج ہے۔ اسلام، مسلمان خواتین کو، تمام خواتین کو اس اوج کی طرف بلاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ سبھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتے لیکن اس سمت میں بڑھ تو سکتے ہی ہیں۔ ساتھ ہی یہ مسلمان عورت کے آئيڈیل کے بارے میں سب سے خوبصورت، سب سے مناسب اور سب سے نمایاں بات ہے جسے ان خواتین نے "تیسرے آئيڈیل" کا نام دیا۔ حضرت فاطمہ زہرا، ایک آئيڈیل ہیں۔ تو یہ حضرت صدیقۂ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں کچھ باتیں تھیں۔

اور اب خواتین کے مسئلے پر۔ آج دنیا میں خواتین کا مسئلہ مختلف پہلوؤں سے زیرِ بحث ہے۔ دنیا کے ہر حصے میں ہر گروہ کسی نہ کسی مقصد، کسی نہ کسی سمت کے ساتھ خواتین کے مسئلے پر گفتگو کر رہا ہے۔ اس معاملے میں، دنیا کے سرمایہ دار اور سیاستدان – جو کہ وہی سیاستدان ہیں جو ان سرمایہ داروں پر انحصار کرتے ہیں – زندگی کے ہر شعبے کے مسائل میں مداخلت کرتے ہیں۔ آج اور کل، دنیا کے سیاستدان اور سرمایہ دار – وہی جو دنیا میں نوآبادیات کا سبب بنے – زندگی کے ہر مسئلے، ہر پہلو میں مداخلت کر رہے ہیں۔ ان کے پاس ذرائع ابلاغ بھی ہیں – دنیا کے سب سے مؤثر ذرائع ابلاغ ان کے اختیار میں ہیں – اور وہ ان ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔

ان کی مداخلت کا مقصد کیا ہے؟ خواتین کے مسئلے میں ان سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کی مداخلت کا مقصد ایک نظریاتی یا فلسفیانہ موقف نہیں ہے۔ یہ ایسا نہیں کہ وہ خواتین کے بارے میں کوئی فلسفیانہ نظریہ رکھتے ہیں جسے وہ پھیلانا چاہتے ہیں۔ نہ ہی یہ انسانی احساسات کا نتیجہ ہے کہ خواتین کے کسی مسئلے پر وہ فکر مند ہیں اور مدد کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ کوئی سماجی یا عوامی ذمہ داری پوری کر رہے ہوں۔ ان کی مداخلت کا مقصد دراصل استعماری اور سیاسی مقاصد کا حصول ہے۔ تو پھر محرک کیا ہے؟ محرک، سیاسی و سامراجی مداخلت ہے۔ وہ اس مسئلے میں شامل ہوتے ہیں تاکہ ان کی مزید مداخلت، مزید اثر و رسوخ اور ان کے نفوذ کے دائرے کی مزید توسیع کی تمہید رہے، بہانہ رہے۔ وہ اس مجرمانہ محرک کو، شر انگیز محرک کو بظاہر ایک فلسفیانہ لبادے میں، بظاہر ایک فکری آڑ میں اور بظاہر ایک انسان دوستانہ جذبے کے نام پر پیش کرتے ہیں۔ یہ مغرب والوں کا جھوٹ ہے، یہ مغربی سرمایہ داروں کا جھوٹ ہے جو آج دنیا پر مسلط ہیں۔ یہ جھوٹ مختلف معاملوں میں دیکھا گيا ہے، اسی جھوٹ کو، اسی دروغ گوئي کو، اسی ریاکاری کو ہم نے مختلف مسائل میں، مغرب کے سیاستدانوں اور ماہرین اقتصاد کی کارکردگي میں دیکھا ہے۔
اس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ قریب ایک صدی پہلے، مثال کے طور پر انھوں نے عورت کی آزادی اور عورت کی مالی خود مختاری کی بات اٹھائی کہ عورت مالی اعتبار سے خود مختار ہونی چاہیے یا اسے آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ بظاہر یہ ایک اچھا مقصد معلوم ہوتا تھا، لیکن اس کا پس منظر کیا تھا؟ اصل حقیقت یہ تھی کہ ان کے کارخانوں کو مزدوروں کی ضرورت تھی۔ مردوں کی تعداد کافی نہیں تھی، اس لیے خواتین کو کارخانوں میں کام کرنے کے لیے لانا چاہتے تھے، اور وہ بھی مردوں سے کم اجرت پر۔ یہ منصوبہ یورپ اور مغربی ممالک میں نافذ کیا گیا۔ یہ صرف امریکا سے مختص نہیں تھی، اس حقیقت کو انھوں نے ایک انسان دوستانہ ظاہر کی آڑ میں چھپایا، اس نام سے کہ عورت کی مالی خود مختاری ہونی چاہیے، اسے آزادی حاصل ہونی چاہیے، وہ گھر سے باہر نکل سکے، کام کر سکے، انسانیت نے وہاں بھی اس جھوٹ کو دیکھا۔
اس کی ایک دوسری مثال، البتہ اس کا عورت کے مسئلے سے کوئي تعلق نہیں ہے، امریکا میں غلاموں کی آزادی کا مسئلہ ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں، سنہ اٹھارہ سو ساٹھ کے آس پاس، امریکیوں نے ابراہم لنکن کے توسط سے جو اس وقت امریکا کے صدر اور ری پبلکن پارٹی کے رہنما تھے، غلاموں کی آزادی کا نعرہ لگایا۔ معاملے کا ظاہری رخ یہ تھا کہ غلاموں کو آزاد ہونا چاہیے، وہ اس معاملے میں مدد بھی کرتے تھے اور غلاموں کو اسمگل کر کے جنوبی امریکا سے شمالی امریکا کی طرف لے جاتے تھے کیونکہ شمال اور جنوب کے درمیان جنگ تھی، لیکن معاملے کا حقیقی رخ یہ نہیں تھا، معاملے کی باطنی حقیقت یہ تھی کہ جنوب والے زراعت کے کام میں، تسلط رکھتے تھے، وہاں زرعی زمینیں تھیں اور ان زمینوں میں غلام مفت میں کام کرتے تھے، وہ غلام تھے، بس زندہ رہنے بھر کی تنخواہ ملتی تھی۔ شمال والوں نے حال ہی میں صنعت تک رسائي حاصل کی تھی اور انھیں مزدوروں کی ضرورت تھی، ان کے پاس اپنی ضرورت بھر کے مزدور نہیں تھے، وہ چاہتے تھے کہ ان غلاموں کو مزدور کی حیثیت سے اپنے کارخانوں میں استعمال کریں، اس کا راستہ یہ تھا کہ ان سے کہیں تم آزاد ہو، یہاں آؤ اور کارخانوں میں کام کرو! درحقیقت ان لوگوں نے انھیں کھیتوں کے غلام سے کارخانوں کے غلام میں بدل دیا۔ اصل بات یہ تھی۔

آج بھی ایسا ہی ہے۔ عورت کے سلسلے میں اس وقت دنیا میں جو ہنگامہ بپا ہے، فیمینزم یا تانیثیت کا مسئلہ، عورت کے حقوق کا مسئلہ، خواتین کی آزادی اور ان کے حقوق کا مسئلہ، یہ سب ظاہری پہلو ہیں، ان کے پیچھے بہت سی پالیسیاں ہیں، خطرناک محرکات ہیں۔ یہ محرکات کیا ہیں؟ کچھ مقاصد ہمیں معلوم ہیں، جبکہ باقی وقت کے ساتھ سامنے آئیں گے۔ لیکن محرک انسانی محرک نہیں ہے۔ یہ جھوٹ اور بے ایمانی آج بھی موجود ہے۔ محرکات خالصتاً سیاسی، خالصتاً نوآبادیاتی، اثر و رسوخ کا ایک ذریعہ ہیں، جو یقیناً ہمارے موجودہ اجلاس کا موضوع نہیں ہے۔

خیر، اب ہم دنیا میں ایسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں کہ کچھ لوگ "خواتین" کے اہم مسئلے پر بحث کر رہے ہیں، لیکن وہ اس بحث میں سچے نہیں ہیں۔ ہم مسلمان کی حیثیت سے، "عورت" کے مسئلے کے بارے میں بولنا چاہتے ہیں، بات کرنا چاہتے ہیں، اپنی رائے اور منطق پیش کرنا چاہتے ہیں، اپنے درمیان اس منطق کو رائج کرنا اور اس منطق کے مطابق عمل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے اور آج یہ کام انجام پانا چاہیے۔ البتہ انقلاب کے آغاز سے ہی اسے انجام پانا چاہیے تھا اور بڑی حد تک کام ہوا بھی ہے لیکن کام پورا ہونا چاہیے، ختم ہونا چاہیے۔ میں اس سلسلے میں کچھ نکات عرض کرنا چاہتا ہوں۔

اگر ہم اسلام کے نظریے کے مطابق عورت کے سلسلے میں ایک منشور تیار کرنا چاہیں جس میں مختلف شقیں ہوں تو میرے خیال میں اس منشور میں جو سب سے پہلا موضوع آنا چاہیے، وہ زوجیت کا مسئلہ ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ زن و مرد ایک دوسرے کا جوڑا ہیں، ایک دوسرے کو مکمل کرنے والے ہیں، عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے خلق ہوئے ہیں۔ قرآن مجید میں اس بات کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے: "وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا" (4)(اللہ نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے۔) یہ خطاب، "جَعَلَ لَكُم"، تمھارے لیے قرار دیا، مردوں سے نہیں ہے، انسان سے خطاب ہے، چاہے وہ عورت ہو یا مرد۔ اے افراد بشر! خدا نے خود تمھاری جنس سے تمھارے لیے جوڑا بنایا ہے، قرار دیا ہے۔ قرآن میں "زوج" کا لفظ مرد اور عورت دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ میں نے اس کی آیت بھی نوٹ کی ہے۔ [وہ آیت] جہاں "زوج" کا استعمال "عورت" کے بارے میں کیا گیا ہے: یَا آدمُ سکُون اِنْ زَوَجَکُ الْجَنَّۃَ (5) زوج، یہاں  بیوی کے بارے میں ہے۔ خاتون شخص! ایک اور جگہ [قرآن کہتا ہے:] "قَد سَمِعَ اللَهُ قَولَ الَّتی‌ تُجادِلُکَ فی‌ زَوجِها"(6) یہاں "زوج" کا استعمال "مرد" کے لئے کیا گیا ہے ۔ اس لیے ہم نے آپ کے لیے آپ کی جنس سے ایک جوڑا بنایا ہے۔ یقیناً یہ صرف انسانوں کے لیے بھی نہیں ہے۔ میں اس مظلب کو بحث کے ضمن میں بیان  کروں گا کہ یقیناً ماہرین کو اس کوتفصیل سے دیلھنا چاہیے۔

اسلام کی نظریے کے مطابق، عالمِ خلقت، انسانی تاریخ اور کائنات کی بنیاد تکمیل، ہم آہنگی اور پیوند پر ہے؛ یہ بالکل اس کے برعکس ہے جو ہیگل، مارکس اور ان جیسے دیگر نظریہ دانوں نے دیالیکٹکس کے حوالے سے پیش کیا ہے، جن کے مطابق کائنات کی بنیاد تضاد پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک چیز وجود میں آتی ہے، اس کے مخالف میں ایک اور چیز پیدا ہوتی ہے، اور ان دونوں کے تضاد سے تیسری چیز وجود میں آتی ہے، پھر اس تیسری چیز کا بھی ایک مخالف پیدا ہوتا ہے، اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے؛ اور تاریخ اسی طرح آگے بڑھتی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ نہیں، ایک چیز وجود میں آتی ہے اور اس کے ساتھ ہم آہنگی اور اتحاد کے لیے دوسری چیز پیدا ہوتی ہے۔ ان دونوں کے اتحاد، ہم آہنگی اور زوجیت سے تیسری چیز وجود میں آتی ہے؛ اور تاریخ اس طرح آگے بڑھتی ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر ماہرین کو غور کرنا چاہیے، اس کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنا چاہیے، اور اسے آگے لے جانا چاہیے تاکہ دیکھ سکیں کہ اس کی گہرائی کہاں تک ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو، مرد اور عورت کو زوج بنایا ہے؛ یعنی ایک دوسرے کو مکمّل کرنے والا ۔ زوجیت کا مطلب اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ ایک وحدت قائم ہو، ورنہ زوجیت ممکن نہیں۔ اگر دو افراد ایک دوسرے کے ساتھ ہوں، اتحاد اور ہم آہنگی قائم کریں، تو اس سے ایک تیسری وحدت پیدا ہوتی ہے، اور وہ ہے گھرانہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھرانے کا تصور اسلامی فکر میں ایک گہری بنیاد رکھتا ہے۔ گھرانہ ایک الٰہی سنت اور تخلیق کا نظام ہے۔ صرف یہ نہیں کہ مرد اور عورت ایک دوسرے سے ملیں اور سلام علیک کریں، یا ان کے درمیان کچھ تعلق ہو، بلکہ زوجیت کا مطلب ہے ایک تیسری وحدت کی تخلیق؛ یعنی گھرانہ ۔ اسلام میں خاندان پر خاص زور دیا گیا ہے، اور خوش قسمتی سے ایران میں روایتی خاندانی نظام ایرانی ثقافت کی گہرائی اور طاقت کا ایک اہم اشاریہ ہے۔ لہٰذا، اسلامی منشور کا پہلا نکتہ خاندان کی تشکیل، زوجیت، اور مرد و عورت کا ایک دوسرے کے مکمّل ہونا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ زوج، یعنی یہ دو افراد، حیاتِ طیبہ (پاکیزہ زندگی) کے حصول کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، جو کہ انسانی تخلیق کا مقصد ہے۔ اس سلسلے میں، مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے؛ کوئی دوسرے پر برتر نہیں ہے۔
البتہ انسانوں میں فرق ہوتا ہے؛ عورتوں میں بھی، مردوں میں بھی، کچھ زیادہ صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں، کچھ کم۔ لیکن مرد اور عورت، بطور مرد اور عورت، حیاتِ طیبہ کے حصول میں برابر ہیں۔ قرآن میں فرمایا گیا: "مَن عَمِلَ صالِحاً مِن ذَکَرٍ اَو اُنثیٰ‌ وَ هُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحیِیَنَّهُ حَیاةً طَیِّبَةً" (7)(جو بھی نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو یا عورت، اور وہ مومن ہو، ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے۔) یہ سورۂ نحل میں بیان ہوا ہے۔ سورۂ احزاب میں جسے میں نے کئی دفعہ خواتین کے درمیان بیان کیا، فرمایا گیا: "اِنَّ المُسلِمینَ وَ المُسلِماتِ وَ المُؤمِنینَ وَ المُؤمِناتِ وَ القانِتینَ وَ القانِتاتِ وَ الصّادِقینَ وَ الصّادِقاتِ وَ الصّابِرینَ وَ الصّابِراتِ وَ الخاشِعینَ وَ الخاشِعاتِ وَ المُتَصَدِّقینَ وَ المُتَصَدِّقاتِ وَ الصّائِمینَ وَ الصّائِماتِ وَ الحافِظینَ فُرُوجَهُم وَ الحافِظاتِ وَ الذَّاکِرینَ اللَهَ کَثیراً وَ الذَّاکِراتِ (8)"۔ عورت اور مرد کے درمیان دس خصوصیات ہیں، خدا کی سمت، حیات طیبہ کی سمت معنوی سفر میں، عالم ملکوت میں اور توحید کے اعلیٰ معنوی و روحانی عالم میں انسانی عروج کی سمت آگے بڑھنے میں زن و مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ بھی ایک بنیادی اصول ہے جو اس منشور میں شامل کیا جانا چاہیے۔

 

اگلا موضوع یہ ہے کہ اگرچہ ظاہری طور پر مرد اور عورت کے جسمانی لحاظ سے فرق موجود ہے، جیسے کہ مرد کا قد عام طور پر زیادہ لمبا ہوتا ہے اور اس کی آواز بھاری ہوتی ہے، لیکن فکری اور روحانی صلاحیتوں کے لحاظ سے دونوں جنسوں میں بےپایان استعداد موجود ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یعنی علم کے میدان میں مرد اور عورت دونوں مقابلہ کر سکتے ہیں۔ یہ کہنا درست نہیں کہ مرد خواتین سے زیادہ علم رکھتے ہیں؛ تاریخ میں بڑی، عظیم خواتین گزری ہیں جنہوں نے علمی لحاظ سے بلند مقام حاصل کیا۔ آج کے دور میں تو یہ تعداد سینکڑوں گنا زیادہ ہے، چاہے وہ یونیورسٹی ہو یا دینی مدارس، دونوں میں خواتین نمایاں ہیں۔ علم، ہنر، فکری اور عملی جدت، سماجی اور فکری اثرات، سیاسی سرگرمیوں، اور اقتصادی میدان میں کام کرنے کی صلاحیت دونوں جنسوں میں یکساں طور پر موجود ہے۔  لہٰذا، عورت ان میدانوں میں داخل ہو سکتی ہے اور بعض اوقات اسے داخل ہونا ضروری بھی ہوتا ہے۔ سیاست، معیشت، بین الاقوامی امور، علمی مسائل، ثقافتی اور فنون کے میدان، ہر جگہ عورت کی شرکت ممکن اور بعض اوقات واجب ہے۔ یہ نکتہ بھی اسلامی منشور برائے خواتین میں شامل ہونا چاہیے۔

ایک اور موضوع یہ ہے کہ خاندان کے اندر مرد اور عورت کے کردار مختلف ہوتے ہیں، لیکن یہ فرق کسی کی برتری کو ظاہر نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر، خاندان کی کفالت مرد کی ذمہ داری ہے، لیکن یہ اس کی برتری کی دلیل نہیں بنتی۔ اسی طرح، بچوں کو جنم دینا عورت کی ذمہ داری ہے، لیکن یہ اس کی برتری یا کمزوری کی دلیل نہیں۔ یہ دونوں اپنی جگہ پر ایک امتیاز ہیں۔ خاندان میں مرد اور عورت کے حقوق کا حساب اس بنیاد پر نہیں ہوتا۔ ان کے حقوق یکساں ہیں۔ قرآن میں فرمایا گیا: "وَ لَهُنَّ مِثلُ الَّذی عَلَیهِنّ"(9)۔ خاندان کے حقوق کے لحاظ سے، مرد اور عورت دونوں برابر ہیں، اور ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔عورت عاطفی لحاظ سے کچھ خاص خصوصیات رکھتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے بارے میں فرمایا:"اَلمَراَةَ رَیحانَةٌ وَ لَیسَت بِقَهرَمانَة (10) "۔  گھر کے اندر عورت کو پھول کی مانند سمجھنا چاہیے۔ اس کی حفاظت کی جائے، اس کی تازگی اور خوشبو سے ماحول کو معطر کیا جائے، اور اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ تو عاطفہ کے لحاظ سے ہے، لیکن حقوق کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔ یہ نکتہ بھی منشور میں شامل ہونا چاہیے۔

اس منشور میں ایک اور موضوع یہ ہے کہ آپسی میل جول کے لحاظ سے عورت اور مرد کی کچھ حد بندیاں ہیں، یہ وہ خصوصیت ہے جس پر اسلام زور دیتا ہے۔ آج مغرب میں جو بےراہروی نظر آتی ہے، وہ ہمیشہ نہیں تھی؛ یہ صرف جدید دور کی پیداوار ہے، شاید دو یا تین صدی پہلے کی۔ اگر کوئی 18ویں یا 19ویں صدی کے ناولز اور کتب پڑھے تو وہاں مغربی عورت کے بارے میں ملاحظات پائے جاتے ہیں، جو آج کے مغربی معاشرے میں موجود نہیں ہیں۔ اسلام ان ملاحظات پر زور دیتا ہے، جیسے کہ حجاب، عفت، اور نگاہ کی حدود۔ یہ نکتہ بھی منشور میں شامل ہونا چاہیے۔

ایک اور انتہائی اہم مسئلہ، ماں ہونے کی روحانی قدر ہے۔ ماں ہونا ایک اعزاز ہے۔ آج کچھ لوگ، میں مشاہدہ کرتا ہوں ان پالیسیوں کی پیروی کرتے ہوئے جن کی بنیاد سرمایہ دارانہ اور استعماری مقاصد پر ہے، مادری کو منفی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ خاندان کے لیے بچوں کی پیدائش ضروری ہے تو مذاق اڑاتے ہیں اور طنز کرتے ہیں کہ "آپ عورت کو بچوں کی پیدائش کے لیے محدود کر رہے ہیں۔" ماں ہونا ایک اعزاز ہے! آپ ایک انسان کو اپنی محنت سے، چاہے وہ دورانِ حمل ہو یا ابتدائی زندگی میں، پروان چڑھاتی ہیں، اس کی پرورش کرتی ہیں، اور اسے ایک مکمل انسان بناتی ہیں۔ کیا یہ کوئی معمولی افتخار ہے؟ یہ ایک عظیم اعزاز ہے، بہت اہم اور بہت قیمتی۔ اسی لیے اسلام میں "ماں" پر خاص زور دیا گیا ہے۔


پیغمبر اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا: "مَن اَبَرّ" میں کس کے ساتھ نیکی کروں؟ کس پر سب سے زیادہ مہربانی اور حسن سلوک کروں کسے ترجیح حاصل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "اُمَّک" (اپنی ماں کے ساتھ)۔ پھر اس شخص نے پوچھا: "ثُمَّ" (اس کے بعد کس کے ساتھ؟)۔آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا: "اُمَّک" (اپنی ماں کے ساتھ)۔ تیسری بار اس نے پھر سوال کیا: "ثُمَّ" (اس کے بعد کس کے ساتھ؟) آپ ﷺ نے پھر فرمایا: "اُمَّک" (اپنی ماں کے ساتھ)۔ جب اس نے چوتھی بار پوچھا: "ثُمَّ" (پھر کس کے ساتھ؟) تو آپ ﷺ نے فرمایا: "اَبَاکَ" (پھر اپنے باپ کے ساتھ)۔ یعنی باپ کا درجہ چوتھے نمبر پر ہے(11)۔

اسی طرح، ایک شخص پیغمبر اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ وہ جہاد پر جانا چاہتا ہے، لیکن اس کی ماں راضی نہیں ہے۔ یا کوئی آیا تھا اور جہاد پر جانا چاہتا تھا - [یقینا] اس وقت اور اس معاملے میں کافی تعداد سپاہیوں کی موجود  تھی - اس نے کہا کہ میری ماں راضی نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: " ماں کی خدمت کو اختیار کرو، اس کا ثواب اس جہاد سے زیادہ ہے"(12)۔ البتہ بیان ہوا کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب مجاہدین کی تعداد کفایت کرتی ہو، یعنی میدان میں ضرورت پوری ہو چکی ہو۔

جیسا کہ روایت میں آیا ہے: "اَلجَنَّةُ تَحتَ اَقدامِ الاُمَّهات" (13) (جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے)۔ یہ ایک کنایہ ہے، علامتی تعبیر ہے۔ "ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت" کا مطلب یہ ہے کہ جنت ماں کے قریب ہے، ماں کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر تم جنت چاہتے ہو، تو اپنی ماں کے پاس جاؤ۔ ماں سے محبت کرو، اس سے مہربانی کرو، اس کی خدمت کرو، اس کی اطاعت کرو، اور اس کا احترام کرو؛ وہ تمہیں جنت عطا کرے گی۔
یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے۔

یہ چند نکات اسلام میں خواتین کی حیثیت اور ان پر اسلام کے نظرئیے سے متعلق ہیں۔ اگر کوئی اس موضوع پر اسلامی منشور ترتیب دینا چاہے تو ممکن ہے کہ یہ منشور تقریباً 30 یا 40 اہم نکات پر مشتمل ہو۔ میں نے ان میں سے چند اہم نکات یہاں پیش کیے ہیں۔

ہمارے ملک میں، خوش قسمتی سے، اس اسلامی نظرئیے کی بنیاد پر، ہم نے انقلاب کے آغاز سے لے کر آج تک مؤمن، دانا، اور سرگرم خواتین کے پروان چڑھنے کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہی نہیں، انقلاب کے آخری دنوں یا آخری سال کے دوران بھی خواتین کی شرکت ایک فیصلہ کن عنصر تھی۔ امام خمینیؒ نے خواتین کی شرکت پر کسی قسم کی مصلحت یا رعایت نہیں دکھائی۔ کچھ لوگ خواتین کی ریلیوں اور مظاہروں میں شمولیت کے خلاف تھے، لیکن امامؒ نے سختی سے ان کے اس نظریے کو رد کیا۔ خواتین کی شرکت واقعی اثرانداز تھی؛ جب خواتین میدان میں آئیں تو مردوں، حتیٰ کہ ان بی‌تعلق مردوں کو بھی محسوس ہوا کہ انہیں میدان میں آنا چاہیے۔ خواتین کی شرکت نے ان کے شوہروں اور جوان بیٹوں کو یہ احساس دلایا کہ ان کا بھی میدان میں اترنا فرض ہے۔ ایک معنوں میں، انقلاب کو خواتین نے کامیاب بنایا۔

انقلاب کی کامیابی اور اسلامی جمہوری نظام کے قیام کے بعد بھی، مختلف شعبوں میں خواتین میدان میں آئیں۔
یہاں جو باتیں خواتین نے بیان کیں، وہ نہایت متین، درست اور ایک اعلیٰ اور پختہ سوچ کی عکاس تھیں۔
یقیناً، اس اجتماع میں سیکڑوں یا اس سے بھی زیادہ فکر رکھنے والی خواتین موجود ہیں، اور ملک میں یقیناً بہت سی خواتین علمی، فکری، تخلیقی، اجتہادی اور اختراعی میدانوں میں نمایاں ہیں۔ یعنی واقعی اس میدان میں کام ہوا ہے۔

ایرانی خواتین نے ملک کی شناخت، اس کی ثقافت، اور تاریخی و اصیل روایات کی حفاظت کی۔ انہوں نے اپنی وقار، حیا، اور عفت کے ذریعے اس کام کو انجام دیا۔ وہ یونیورسٹیوں میں داخل ہوئیں، سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا، بین الاقوامی سرگرمیوں میں بھی شریک ہوئیں، لیکن اخلاقی خرابیوں کا شکار نہیں ہوئیں۔ یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے کہ وہ ان مسائل سے متاثر نہیں ہوئیں جن کا ہم آج بہت سے مغربی ممالک میں مشاہدہ کرتے ہیں، جہاں خواتین ان مسائل کا شکار ہیں۔ ایرانی خواتین نے اب تک اسی انداز میں اپنی راہ جاری رکھی، اور ان شاء اللہ آگے بھی اسی طرح چلتی رہیں گی۔ بڑے واقعات میں ہماری خواتین نے نمایاں کردار ادا کیا۔ جنگ کے دوران انہوں نے نمایاں کردار ادا کیا، حرم کی حفاظت میں نمایاں رہیں، سیاسی جدوجہد میں بھی چمک دکھائی، تحقیقی مراکز میں بھی نمایاں رہیں۔ یونیورسٹیوں میں، حوزہ علمیہ میں بھی۔ وہ وقت یاد آتا ہے جب میں خود حوزہ علمیہ میں تھا، مجھے یاد نہیں کہ کوئی خاتون فقہ کے اجتہاد کے مقام تک پہنچی ہو۔ لیکن آج، خوش قسمتی سے، ایسی خواتین جو مجتہد ہیں اور فقہ کے اجتہاد کے مقام تک پہنچی ہیں، کم نہیں ہیں۔ میری تو یہاں تک رائے ہے کہ بہت سے خواتین سے متعلقہ مسائل، جن کا موضوع خود خواتین ہوتی ہیں، اور مرد ان مسائل کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پاتے، ان معاملات میں خواتین کو خاتون مجتہد کی تقلید کرنی چاہیے۔ لہٰذا، انقلاب کے دوران، ہمارے ملک میں خواتین کی ترقی بہت شاندار رہی ہے۔ اتنے زیادہ خواتین سائنسدان، ہم نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اتنی زیادہ خواتین یونیورسٹی کی پروفیسرز، ہم نے کبھی نہیں دیکھیں۔ اتنی زیادہ شاعر خواتین، اتنی زیادہ خواتین لکھاری، اتنی زیادہ فنکار خواتین، اور وہ بھی دینداری کے ساتھ، کبھی نہیں تھیں۔ آج، خوش قسمتی سے، یہ سب ہمارے پاس موجود ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دشمن بھی بیکار نہیں بیٹھا، وہ بھی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔

دشمنانِ نظامِ جمہوری اسلامی نے بہت جلد یہ سمجھ لیا کہ روایتی جنگی حربوں سے انقلاب کو شکست نہیں دی جا سکتی؛ وہ نرم طریقوں کی طرف چلے گئے۔ انہوں نے جان لیا کہ جنگ، بمباری، فتنے پیدا کرنے والے عناصر، قوم پرستی، اور اس جیسے دیگر حربوں سے اسلامی ایران کو شکست نہیں دے سکتے، اور نہ ہی اسے جھکا سکتے ہیں؛ اس لیے انہوں نے نرم طریقوں کا سہارا لیا۔ نرم طریقے کیا ہیں؟ یہ پروپیگنڈا ہے، وسوسے ہیں، اور ان کے نعرے ہیں جن میں صداقت نہیں ہوتی۔ ان کے نعروں میں جھوٹ اور فریب واضح نظر آتا ہے۔ یہ لوگ مختلف ناموں اور عنوانات کے ساتھ میدان میں آتے ہیں: خواتین کے دفاع کے نام پر، خواتین کے معاشرے کے دفاع کے نام پر، کسی مخصوص گروہ یا کسی ایک خاتون کے دفاع کے نام پر۔ یہ لوگ کسی ملک میں کسی خاتون کے دفاع کے بہانے فتنہ برپا کرتے ہیں۔ یہ نرم حربے استعمال کر رہے ہیں۔

ہماری بیٹیاں، ہماری خواتین، ہماری اساتذہ، ہماری طالبات، اور پورا خواتین کا معاشرہ اس میدان میں خود کو ذمہ دار سمجھے۔ یہاں ایک خاتون نے کہا: "من اصبح و لم یھتم بامور المسلمین فلیس بمسلم(14)"، (جو شخص صبح کرے اور مسلمانوں کے امور کی فکر نہ کرے، وہ مسلمان نہیں)۔ یہ بات مردوں تک محدود نہیں، بلکہ خواتین کو بھی شامل کرتی ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ مسلمانوں کے امور میں سے ایک اہم مسئلہ یہی وسوسے، چالاکیوں پر مبنی منصوبے، اور نرم جنگ کے وہ طریقے ہیں جو خواتین کو اور معاشرتی اقدار کو گمراہ کرنے کے لیے اپنائے جا رہے ہیں۔
خاص طور پر ان حربوں کو سمجھنا اور ان کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔

اب خطے کی صورتحال کے بارے میں ایک بات کہوں گا۔ خطے میں، شام میں جو کچھ ہوا اور جو مظالم صیہونی ریاست کر رہی ہے، جو ظلم امریکہ کر رہا ہے، اور جو مدد دوسرے کچھ عناصر انہیں فراہم کر رہے ہیں، ان سب کو لگا کہ مزاحمت ختم ہو گئی۔ لیکن وہ سخت غلطی پر ہیں۔ سید حسن نصراللہ کی روح زندہ ہے، سنوار کی روح زندہ ہے۔
شہادت نے انہیں زندگی کی دنیا سے ختم تو کیا، لیکن ان کا جسم گیا ہے، روح باقی ہے، ان کا فکر باقی ہے، اور ان کا راستہ جاری ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ روزانہ غزہ پر حملے ہو رہے ہیں، اور وہاں لوگ شہید ہو رہے ہیں، روزانہ!
پھر بھی وہ ڈٹے ہوئے ہیں، پھر بھی مزاحمت کر رہے ہیں۔ لبنان مزاحمت کر رہا ہے۔ صیہونی ریاست اپنے خیال میں شام کے ذریعے خود کو تیار کر رہی ہے تاکہ حزب اللہ کے مجاہدین کو محاصرے میں لے اور ختم کر دے۔ لیکن وہ جسے ختم ہونا ہے، وہ خود اسرائیل ہے! ہم فلسطینی مجاہدین کے ساتھ کھڑے ہیں، اور ہم حزب اللہ کے فی سبیل اللہ مجاہدین کے ساتھ ہیں۔ ہم ان کی حمایت کرتے ہیں، اور جو کچھ بھی ہمارے بس میں ہو، ان کی مدد کرتے ہیں۔
ہم امید رکھتے ہیں کہ ان شاء اللہ وہ دن جلد دیکھیں گے جب ان کے بدترین دشمن ان کے قدموں تلے روندے جائیں گے۔

والسّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

  1. اس ملاقات کے آغاز میں خواتین اور لڑکیوں کے مختلف میدانوں میں سرگرم چھے خاتون کارکنوں نے اپنے نظریات بیان کیے۔ اسی طرح حزب اللہ لبنان کے رکن دو شہیدوں کی والدہ محترمہ عائدہ سرور نے مزاحمتی محاذ کی خواتین کی نمائندگي میں مزاحمت کے جاری رہنے اور فتحیاب ہونے کے سلسلے میں گفتگو کی۔
  2. امالی صدوق، مجلس 61، صفحہ 384 (بے شک اللہ فاطمہ کی خوشی سے خوش اور ان کے غضب سے غضب ناک ہوتا ہے۔)
  3. اسد الغابہ، جلد 6، صفحہ 224 (اے فاطمہ! بے شک اللہ تمھارے غضب سے غضب ناک اور تمھاری خوشی سے خوش ہوتا ہے۔)
  4. سورۂ نحل، آيت 72، اور اللہ نے ہی تمھاری جنس سے تمھارے لیے جوڑا بنایا۔
  5. سورۂ بقرہ، آیت 35، اے آدم! تم اور تمھاری بیوی دونوں بہشت میں رہو۔
  6. سورۂ مجادلہ، آيت 1، بےشک اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے بحث کر رہی ہے۔
  7. سورۂ نحل، آيت 97، جو کوئی بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو ہم اسے (دنیا) میں پاک و پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔
  8. سورۂ احزاب، آيت 35، بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں اللہ نے ان کیلئے مغفرت اور بڑا اجر و ثواب مہیا کر رکھا ہے۔
  9. سورۂ بقرہ، آيت 228، عورتوں کے کچھ حقوق ہیں جس طرح کہ مردوں کے حقوق ہیں۔
  10. کافی جلد 5، صفحہ 510
  11. کافی جلد 2، صفحہ 159
  12. کافی جلد 2، صفحہ 160
  13. مستدرک الوسائل، جلد 15، صفحہ 180،
  14. علل الشرائع، صفحہ 131