ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

شام کی صورتحال پر عوام کے مختلف طبقات سے ملاقات میں خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم(1)
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین.


میں اپنے تمام عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں جنہوں نے آج اس حسینیہ کی فضا کو اپنے خلوص اور محبت بھرے توحیدی جذبات سے بھر دیا۔ خاص طور پر وہ بھائی اور بہنیں جو کچھ دوسرے شہروں سے یہاں آئے ہیں۔

ہمارا خطہ جو کہ دنیا کے حساس ترین خطوں میں سے ایک ہے، آج کل کچھ ایسے  واقعات پیش آئے  ہیں کہ ہمیں ان  واقعات کو صحیح طور پر سمجھنا چاہیے اور ان سے عبرت لینی  چاہیے۔  ملک کی رائے عامہ بھی  ان  واقعات میں الجھی ہوئی  ہے۔ لوگ سوال کرتے ہیں، ان کےزہن میں  کچھ باتیں  ہیں، نظریات  ہیں۔ اسی لئے ضروری ہے کہ ان  ابہامات کو  دور کیا جائے ۔ میں شام کے معاملات کا تجزیہ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا - تجزیہ دوسرے لوگ  کریں گے  - میرا مقصد  صرف "وضاحت کرنا اور تصویر کشی کرنا  " ہے۔ "وضاحت" سے میرا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اسے بیان  کرنا ہے جو  شاید  پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، جہاں  تک  ہم دیکھ رہے ہیں  اور سمجھ رہے  ہیں۔ "تصویر کشی "  کا مطلب  یہ ہے کہ  آج کے  ان واقعات میں  اپنی سمجھ کے مطابق ہماری اپنی صورتحال، اپنی تحریک، خطے کی نقل و حرکت، خطے کے مستقبل کی منظر کشی کرنا  اور جایزہ لیناہے۔ یہ ان بحثوں کا نتیجہ اور خلاصہ ہے جو میں آج پیش کروں گا، انشاء اللہ۔

 

سب سے پہلے، اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ شام میں جو کچھ ہوا وہ ایک مشترکہ امریکی اور صہیونی منصوبے کا نتیجہ ہے۔ ہاں،  اس   سلسلے میں شام کی  ایک ہمسایہ   حکومت نے بھی  میں ایک واضح کردار ادا کیا ہے، اور اب بھی ادا کر رہی ہے - جسے  ہر کوئی  دیکھ سکتا ہے - لیکن وہ بنیادی وجہ جو ان حالات کا باعث بنی ہیں ؛ وہ مرکزی سازشی  عنصر ، امریکہ اور صیہونی حکومت کا مرکزی کنٹرول روم ہے ۔ ہمارے پاس اس حوالے سے شواہد موجود  ہیں؛ یہ شواہد شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے

انہی شواہد میں سے ایک  اس واقعے کے متعلق  ان کا  رویہ ہے۔ اگر آپ  ایک ملک میں - اس ملک کی حکومت سے متفق نہیں ہیں- جنگ ہوتی ہے اور  دو گروہ  آپس میں دست وگریبان ہوجاتے   ہیں؛ جو معمولا  ہر جگہ ہوتا ہے، آپ مداخلت کیوں کرتے ہیں؟  زرائع کے مطابق صیہونی حکومت نے شام کے 300 سے زائد مقامات پر بمباری کی ہے! اگر آپ اس واقعے میں ملوث نہیں ہیں، اگر اس واقعے کا منصوبہ آپ سے متعلق نہیں ہے، تو بیٹھ کر دیکھیں۔ دو گروہ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ آپ کیوں  جنگ میں داخل ہو رہے ہیں اور تین سو چھوٹے پوائنٹس پر بمباری کر رہے ہیں [کس لیے]؟ امریکیوں نے خود اعلان کیا - یقیناً، کل تک، شاید اس کے بعد مزید - کہ انہوں نے 75 پوائنٹس پر بمباری کی! ان بمباری والے مقامات میں سے کچھ شام کے بنیادی ڈھانچے کے مراکز ہیں۔ ایسی جگہیں ہیں جہاں اسے بنانا، اسے ٹھیک کرنا اتنا آسان نہیں اور کسی ملک کے لیے مشکل  کام ہے۔ ہوائی اڈہ بنانا، تحقیقی مراکز بنانا، سائنسدانوں کو تیار کرنا۔ یہ آسان کام نہیں ہیں۔ صیہونی حکومت اور امریکہ نے اس معامل میں مداخلت کیوں کی اور جنگ میں ایک طرف ہو کر ملک پر بمباری شروع کر دی؟ 300400 پوائنٹس پر بمباری کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔

 

اس کے علاوہ صیہونی حکومت نے شام کی سرزمین پر قبضہ کر لیا؛ اس کے ٹینک دمشق کے قریب آگئے۔ گولان کا علاقہ جو کہ دمشق سے تعلق رکھتا تھا کئی سالوں تک ان کے ہاتھ میں تھا، اب انہوں نے دوسرے علاقوں پر  بھی قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ امریکہ و یورپ اور دنیا کے دیگر ممالک  کی  حکومتیں  جو ان چیزوں کے بارے میں حساس ہیں، وہ ایک میٹر اور دس میٹر  زمین کے بارے میں بھی حساس ہیں،وہ  نہ صرف خاموش ہیں اور احتجاج نہیں کرتے بلکہ مدد بھی کررہے  ہیں۔  یہ انہی  کا کام ہے۔

اس کے علاوہ، ایک اور عنصر [یہ ہے کہ] ان آخری ایام میں شام کے لوگوں یا شام کے کسی علاقے کے لوگوں کے لیے، یا خاص طور پر زینبیہ کے ارد گرد کے علاقے کے لیے، سہولیات کے لحاظ سے، کچھ مدد کی ضرورت تھی۔ کچھ وسائل ، فورسز اور عمارتوں کو یہاں سے وہاں منتقل کرنا تھا، صہیونی اور امریکی طیاروں نے سارا راستہ بند کر دیا ۔ F-15  طیارے   آئے  اور انہوں  نے ، کسی بھی طیارے کو گزرنے نہیں دیا۔ یقیناً ہمارے جہاز کا ایک پائلٹ بہادر تھا،  اس نے خطرہ مول لیا، لیکن وہاں  اس سے زیادہ  کام کی ضرورت تھی اور مزید کام کرنا تھا۔ [لیکن] انہوں نے  نہیں کرنے  دیا۔ اگر آپ کا  اس مسئلے کوئی تعلق نہیں ، اگر آپ ان لوگوں میں سے  نہیں ہیں جو شام کے ایک دہشت گرد گروہ یا مسلح گروہ سے  لڑ رہے ہیں، اگر آپ ان کے پیچھے نہیں ہیں تو آپ یہ کام کیوں کر رہے ہیں؟ کیوں مداخلت کررہے ہیں؟ کیوں مدد کررہے ہیں؟ کیوں شام کی عوام  کی مدد کرنا چھوڑ رہے ہیں؟

 

یقیناً، یہ حملہ آور جن کا میں نے ذکر کیا، ان میں سے ہر ایک کا ایک مقصد ہے۔ ان کے مقاصد مختلف ہیں۔ شمالی شام یا جنوبی شام کے کچھ لوگ زمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ خطے میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کرتا ہے۔  یہ ان کے مقاصد  ہیں؛ اور وقت بتائے گا کہ ان شاء اللہ ان میں سے کوئی بھی ان مقاصد  میں کامیاب نہیں ہوپائے گا۔ شام کے زیر قبضہ علاقے جوشیلے شامی جوانوں کے ذریعے آزاد کرائے جائیں گے - اس میں کوئی  شک نہیں کہ ایسا ہو گا - امریکہ اپنے قدم نہیں جماسکے گا  اور خدا کے فضل سے امریکہ کو مزاحمتی محاذ کے ذریعے خطے سے نکال باہر کیا جائے گا۔

 

میں نے کہا "مزاحمتی محاذ"، مجھے "مزاحمتی محاذ" کے بارے میں چند  نکات عرض کرنے  دیں۔ شام کے ان واقعات کے بعد استکباری ایجنٹ خوش ہیں، وہ یہ سوچ کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ شامی حکومت کے زوال کے ساتھ جو مزاحمت کے حق میں تھی، مزاحمتی محاذ کمزور ہو گیا ہے۔ وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مزاحمتی محاذ کمزور ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں وہ بہت غلط ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان باتوں سے مزاحمتی محاذ کمزور ہو گیا ہے، وہ مزاحمت اور مزاحمتی محاذ کی صحیح سمجھ نہیں رکھتے۔ وہ نہیں جانتے کہ مزاحمتی محاذ کا مطلب کیا ہے۔

"مزاحمتی محاذ" ہارڈ ویئر کا کوئی ٹکڑا نہیں ہے جو ٹوٹ جائے یا گر جائے یا تباہ ہو جائے۔ ’’مزاحمت‘‘ ایک ایمان ہے،  ایک تفکر ہے، یہ ایک قلبی اور قطعی  عزم ہے۔ مزاحمت ایک مکتب ہے، ایک اعتقادی  مکتب ہے۔ جو  بہت سے لوگوں کے ایمان کا حصہ ہے، یہ کوئی روایتی چیز نہیں- جو  بات میں کر رہا ہوں کہ یہ لوگوں کا ایمان  ہے یعنی یہ دبانے سے  نہ صرف کمزور نہیں ہوتا ہے بلکہ  اور مضبوط ہوتا ہے۔

مزاحمتی محاذ کے لوگوں کا جزبہ ان خباثتوں کو دیکھ کر اور  مضبوط ہوتا ہے جب وہ  اس ظلم  کو دیکھتے ہیں  تو مزاحمتی محاذ کا دائرہ وسیع ہوتا جاتا ہے۔ مزاحمت اس طرح ہوتی ہے۔ جب دشمن کے وحشیانہ جرائم کو دیکھتے ہیں تو وہ لوگ جو شک کرتے تھے کہ مزاحمت کریں یا نہ کریں، شک سے باہر آجاتے ہیں اور  یہ جان جاتے  ہیں کہ ظالم اور جابر کے  سامنے  سینہ سپر ہونے کے علاوہ   اس راستے کو  جاری نہیں رکھاجا سکتا۔ اسی لئے کھڑا ہونا چاہیے، مزاحمت کرنی چاہیے۔ مزاحمت کا مطلب یہ ہے۔

 

لبنان کی حزب اللہ کو دیکھیں ، حماس کو دیکھیں، جہاد کو دیکھیں  (2)، فلسطینی  مزاحمتی محاز کو دیکھیں۔ ان پر بہت دباؤ تھا۔  جو مصیبت حزب اللہ پر گزری کیا   کوئی  عام بات تھی؟ حزب اللہ نے سید حسن نصر اللہ جیسے رہبر  کو کھو دیا۔ کیا یہ کوئی چھوٹی  بات تھی؟ حزب اللہ کے حملے، حزب اللہ کی طاقت، حزب اللہ کے  مضبوط ہاتھ  پہلے سے زیادہ  مضبوط ہو گئے۔ دشمن نے بھی اس کو سمجھا اور قبول  کیا۔ انہوں نے سوچا کہ اب جب کہ انہوں نے حملہ کیا ہے، وہ لبنانی علاقے میں داخل ہو سکتے ہیں، حزب اللہ کو پیچھے دھکیل سکتے ہیں، مثال کے طور پر دریائے لیطانی کی طرف، اور آگے آ سکتے ہیں۔ وہ نہ آسکے۔ حزب اللہ پوری طاقت کے ساتھ کھڑی ہے۔ انہوں  نے  ایسا کام  کیا کہ وہ خود  کہنے پر مجبور ہوگئے : جنگ بندی! یہ مزاحمت ہے۔

غزہ کو دیکھیں ! وہ ایک سال اور چند ماہ سے غزہ پر بمباری کر رہے ہیں، انہوں نے یحییٰ سنوار جیسے شخص کو شہید کر دیا۔ایسے مہلک حملے کیے لیکن لوگ آج بھی ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ لوگوں پر دباؤ ڈالیں گے تو لوگ خود حماس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ لیکن برعکس ہوا۔ لوگ حماس کے زیادہ حامی بن گئے۔ جہاد بھی اسی طرح ہے، باقی فلسطینی عناصر بھی وہی ہیں۔  یہ ہے مزاحمت ، مزاحمتی محاز  یہ ہے: آپ جتنا اسے دبایں گے، یہ اتنا ہی مضبوط ہوتا جائے گا۔ جتنا زیادہ  ظلم کریں گے،  اسکے حوصلے اتنے  زیادہ بڑھیں گے  ۔ جتنا آپ ان سے لڑیں گے، وہ اتنے ہی وسیع تر ہوتے جائیں گے۔ اور میں آپ کو بتاتا ہوں، خدا کی قدرت سے، مزاحمت کا دائرہ ماضی  کے مقابل پورے خطے میں  پھیل جائے  گا۔ وہ جاہل تجزیہ نگار جو مزاحمت کے معنی سے ناواقف ہے، سمجھتا ہے کہ جب مزاحمت کمزور ہوگی تو اسلامی ایران بھی کمزور ہو جائے گا! میں کہتا ہوں کہ ایران مضبوط اور طاقتور ہے اور خد اکے حکم سے اور بھی طاقتور ہوگا۔

مزاحمت کے بارے میں ایک اور بات عرض کروں۔ پہلے تو یہ بتاؤں کہ مزاحمت کا مطلب کیا ہے۔ مزاحمت کا مطلب ہے امریکا اور کسی بھی دوسری تسلط پسند طاقت کے تسلط کے مقابلے میں ڈٹ جانا، مزاحمت کے معنی یہ ہیں۔  مزاحمت کا مطلب ہے کہ اقوام امریکا وغیرہ جیسوں کی برتری کی غلام نہ بنیں، مزاحمت کے یہ معنی ہیں۔ اس معنی میں مزاحمت، علاقائي اقوام کے عقیدے سے جڑی ہوئي ہے۔ مجھے حکومتوں سے مطلب نہیں ہے، اقوام، مزاحمت کو اہمیت دیتی ہیں، مزاحمت کی جڑیں، اقوام کے ایمان اور ان کے عقیدے سے جڑی ہوئي ہیں۔ آپ نے دیکھا کہ غزہ کی حمایت میں خطے کی اقوام نے کیا کیا؟ ان لوگوں نے، جن کی زبان نہ ان کی زبان ہے، نہ جنھوں نے ان کا علاقہ دیکھا ہے اور نہ ہی خود انھیں پہچانتے ہیں، اس پورے علاقے میں، اور ایک طرح سے پوری دنیا میں، صیہونی حکومت کے خلاف اور غزہ کے لوگوں کے حق میں استقامت دکھائي۔ خطے کی اقوام کا مشترکہ عقیدہ یہ ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے۔

دیکھیے، اب تقریباً ۷۵ سال ہوچکے ہیں جب فلسطین پر قبضہ کیا گیا تھا؛ تو، ایک واقعہ جو ۷۵ سال پہلے پیش آیا، رفتہ رفتہ مدھم ہوجانا چاہیے، لوگوں کے ذہنوں سے نکل جانا چاہیے، خاموش ہوجانا چاہیے۔ لیکن آج خطے کی قوموں اور خود فلسطینیوں کی فلسطین کے مسئلے پر استقامت شاید اُس وقت کے مقابلے میں، جب یہ واقعہ پیش آیا تھا، دس گنا زیادہ ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ مسئلہ ختم ہو، یہ شدت اختیار کر رہا ہے۔ ایک مشترکہ اور عمومی عقیدے کی یہی خاصیت ہوتی ہے؛ اور یہ، یقیناً، جاری رہے گا۔

صیہونی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی قوموں کی سرخ لکیر ہے۔ میں حکومتوں کی بات نہیں کرتا؛ وہ الگ انداز میں بات کرتی ہیں، مختلف باتیں کہتی ہیں۔ لیکن اگر قوموں سے پوچھا جائے تو وہ مخالفت کرتی ہیں؛ واضح اکثریت قوموں کی مخالف ہے۔ یقیناً، صیہونی حکومت جرائم بھی کرتی ہے، لیکن جرائم کسی کو کامیاب نہیں بناتے؛ نہ صیہونی حکومت کے لبنان میں جرائم، نہ اس کے غزہ میں جرائم، نہ مغربی کنارے میں جہاں فلسطینی گروہ اپنی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ وہاں بھی بڑے جرائم ہورہے ہیں، لیکن جرم کسی کو کامیاب نہیں کرتا۔ یہ اللہ کا قانون ہے، اور آج غزہ اور لبنان میں، یہ تاریخی تجربہ ہماری نظروں کے سامنے ہو رہا ہے۔

تو، یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے، جن مسائل کا ذکر ہم نے شام کے حوالے سے کیا، ان سالوں میں شام میں موجودگی اختیار کی یا نہیں؟ سب جانتے ہیں کہ ہاں؛ دفاع حرم کے شہداء اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ہم موجود تھے۔ لیکن کس طرح؟ یہ وضاحت چاہتا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ ہماری موجودگی سب جانتے ہیں، شہداء کی تشییع سب نے دیکھی، لیکن چند باتیں ہیں جو اکثر لوگ نہیں جانتے یا کم از کم ہمارے بہت سے نوجوان نہیں جانتے۔ ہم نے شام کی حکومت کی مدد کی، لیکن اس سے پہلے کہ ہم شام کی حکومت کی مدد کرتے، ایک اہم مرحلے میں، شام کی حکومت نے ہمارے لیے ایک حیاتیاتی مدد فراہم کی۔ یہ بات اکثر لوگ نہیں جانتے۔ دفاع مقدس کی جنگ کے دوران، اس وقت جب سب صدام کے لیے کام کر رہے تھے اور ہمارے خلاف سازش کر رہے تھے، شام کی حکومت نے ہمارے حق میں اور صدام کے خلاف ایک بڑا اور فیصلہ کن اقدام کیا۔

یہ اقدام کیا تھا؟ انہوں نے اس آئل پائپ لائن کو بند کر دیا جو وہاں سے تیل کو بحیرہ روم اور یورپ لے جا رہی تھی، اور جس کا پیسہ صدام کی جیب میں جاتا تھا۔ دنیا میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ انہوں نے صدام کے تیل کے بہاؤ کو روک دیا۔ کتنا تیل وہاں سے جا رہا تھا؟ روزانہ ایک ملین بیرل۔ روزانہ ایک ملین بیرل تیل اس پائپ لائن سے بحیرہ روم کی طرف جا رہا تھا۔ شام کی حکومت خود بھی اس راستے سے فائدہ اٹھا رہی تھی، ٹرانزٹ فیس لے رہی تھی، لیکن اس سے بھی دستبردار ہوگئی۔ یقیناً، اس کا معاوضہ انہیں ہم سے ملا؛ یعنی اسلامی جمہوریہ ایران نے اس خدمت کو بغیر کسی معاوضے کے نہیں چھوڑا۔ تو پہلے انہوں نے ہماری مدد کی۔ یہ ایک بات تھی۔

اب داعش کے فتنے کی بات کریں۔ داعش یعنی دہشت گردی اور بدامنی کا بم؛ داعش کا مطلب تھا عراق کو غیر محفوظ بنانا، شام کو غیر محفوظ بنانا، پورے خطے کو غیر محفوظ بنانا، اور پھر اپنے اصل اور آخری ہدف یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف آنا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو غیر محفوظ بنانا؛ یہی داعش کا مقصد تھا۔ ہم نے اس میں موجودگی اختیار کی۔ ہمارے جوان عراق اور شام دونوں جگہوں پر موجود رہے، دو وجوہات کی بنیاد پر، پہلی وجہ "مقدس مقامات کا احترام اور حفاظت"؛ کیونکہ وہ لوگ، جو روحانیت اور دین سے دور تھے، مقدس مقامات سے دشمنی رکھتے تھے، انہیں تباہ کرنا چاہتے تھے اور تباہ بھی کیا۔ سامرہ میں آپ نے دیکھا؛ بعد میں امریکیوں کی مدد سے سامرہ کے مقدس گنبد کو تباہ کر دیا۔ یہی کام وہ نجف میں کرنا چاہتے تھے، کربلا میں کرنا چاہتے تھے، کاظمین میں کرنا چاہتے تھے، دمشق میں کرنا چاہتے تھے۔ داعش کا یہی مقصد تھا۔ ظاہر ہے، ایک مؤمن، بہادر، اہل بیتؑ سے محبت کرنے والا جوان ایسی کسی چیز کو برداشت نہیں کرتا اور اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ ایک وجہ تھی۔ دوسری وجہ ہمارے ملک کے امن و امان کا مسئلہ تھا، ہمارے ذمہ داروں نے بروقت سمجھ لیا کہ اگر وہاں اس بدامنی کو روکا نہ گیا تو یہ یہاں تک پھیل جائے گی اور ہمارے وسیع ملک کو بدامنی میں مبتلا کر دے گی۔ داعش کی بدامنی کوئی معمولی بات نہیں تھی؛ آپ کو ان تمام واقعات یاد ہوں گے جو پیش آئے؛ شاہ چراغ کا واقعہ(3)، کرمان کا واقعہ(4)، مجلس کا واقعہ(5) اور ان جیسے دیگر واقعات۔ جہاں بھی ان کو موقع ملا، انہوں نے ایسی تباہ کن کارروائیاں کیں۔ یہ سب یہاں آنا تھا۔ امیر المؤمنینؑ نے فرمایا: "وہ قوم جو اپنے گھر میں دشمن سے لڑنے پر مجبور ہو، ذلیل ہو جاتی ہے؛ دشمن کو اپنے گھر تک نہ پہنچنے دو۔"(6)

لہٰذا ہمارے جوان گئے، ہمارے عظیم سردار گئے، ہمارے شہید سلیمانی اور ان کے ساتھی اور معاونین گئے۔
انہوں نے وہاں کے نوجوانوں کو، عراق میں بھی، شام میں بھی، پہلے عراق میں، پھر شام میں، منظم کیا، مسلح کیا، داعش کے خلاف کھڑے ہوئے، داعش کی کمر توڑ دی اور کامیابی حاصل کی۔ تو، اس مسئلے میں ہماری موجودگی ایسی تھی۔

اس بات پر توجہ دیں کہ شام میں ہماری عسکری موجودگی کی نوعیت ــ عراق میں بھی یہی معاملہ تھا ــ اس معنی میں نہیں تھی کہ ہم اپنی فوجیں ــ اپنی آرمی، اپنے سپاہ ــ لے کر وہاں جائیں اور اُس ملک کی فوج کی جگہ ہماری فوج لڑے؛ نہیں، اس بات کا کوئی مطلب نہیں بنتا؛ یہ نہ منطقی ہے اور نہ عوامی رائے اسے قبول کرتی ہے کہ یہاں سے ایک فوج اٹھے اور جا کر ان کی فوج کی جگہ لڑے۔ نہیں، جنگ کرنا خود اُس ملک کی فوج کا کام ہے۔ ہمارے جوان جو کچھ کرسکتے تھے اور جو کچھ انہوں نے کیا، وہ مشاورتی کام تھا۔

مشاورتی کام کیا ہے؟ اس کا مطلب ہے مرکزی اور اہم کمانڈ سنٹرز قائم کرنا، حکمت عملی طے کرنا، اور لڑائی کے طریقے متعین کرنا، اور ضرورت پڑنے پر جنگ کے میدان میں اترنا۔ لیکن سب سے اہم کام اس علاقے کے اپنے نوجوانوں کو منظم کرنا تھا۔ ہمارے اپنے نوجوان بھی، ہمارے بسیجی بھی، بےتاب اور مشتاق تھے، زور دیتے تھے اور بہت سے خود گئے؛ ہم اجازت نہیں دیتے تھے، بارہا مجھ سے درخواست کرتے، سوال کرتے، لکھتے، پیغام بھیجتے، اور اصرار کرتے کہ ہمیں اجازت دیں کہ شام جا کر دشمن کے خلاف کھڑے ہوں۔ ظاہر ہے، اس وقت یہ مناسب نہیں تھا؛ یعنی اس وقت مصلحت نہیں تھی، لیکن وہ مختلف طریقوں سے چلے جاتے تھے ــ جیسا کہ آپ جانتے ہیں؛ ان میں سے کچھ کہانیاں مشہور بھی ہیں ــ اور کچھ شہید ہوئے، کچھ الحمدللہ صحیح سلامت واپس آئے۔
اصل کام مشاورتی تھا۔ ہماری موجودگی وہاں مشاورتی تھی؛ کم مواقع پر ہماری اپنی فورسز کی ضرورت پیش آئی، اور وہ بھی زیادہ تر رضاکار اور بسیجی تھے، جو مقامی فورسز کے ساتھ مل کر کام کرتے تھے۔ شہید سلیمانی نے شام میں مقامی نوجوانوں کا ایک چند ہزار افراد پر مشتمل گروپ تربیت دیا، مسلح کیا، منظم کیا، اور انہیں تیار کیا، جنہوں نے مزاحمت کی۔ لیکن بدقسمتی سے بعد میں خود ان کے اپنے فوجی حکام نے مسئلہ پیدا کیا اور مشکلات کھڑی کیں، اور اس چیز کو، جو ان کے اپنے فائدے میں تھی، چھوڑ دیا۔

داعش کے فتنہ کے ختم ہونے کے بعد، کچھ فورسز واپس آگئیں، اور کچھ وہیں رہ گئیں؛ وہ ان معاملات میں موجود تھے، لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا، اصل جنگ اُس ملک کی فوج کو لڑنی چاہیے۔
اُس ملک کی فوج کے ساتھ ہی وہ بسیجی فورس لڑ سکتی ہے، جو کہیں اور سے آئی ہو؛ اگر اُس ملک کی فوج کمزوری دکھائے تو پھر یہ بسیجی کچھ نہیں کر سکتے۔ اور بدقسمتی سے یہی ہوا؛ جب استقامت اور مزاحمت کی روح کمزور پڑ جائے تو یہی ہوتا ہے۔ آج جو مصیبتیں شام پر آ رہی ہیں ــ اور اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ کب تک جاری رہیں گی؛ کب شام کے نوجوان اٹھ کھڑے ہوں گے اور اسے روکیں گے ــ یہ ان کمزوریوں کا نتیجہ ہے جو وہاں ظاہر ہوئیں۔

ایرانی قوم اپنی فوج اور اپنے سپاہ پر فخر کرتی ہے۔ مسلح افواج کے اعلیٰ حکام، لبنان کے مسئلے، حزب اللہ کے مسئلے میں مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہم صبر نہیں کر سکتے، ہمیں جانے دیں؛ اس کا موازنہ کریں اُس فوج سے جو صبر نہیں کر سکتی اور بھاگتی ہے! ہماری فوج طاغوت کے دور میں بدقسمتی سے ایسی ہی تھی؛ وہ بھی دشمن کے حملوں اور بیرونی قوتوں کے سامنے، مختلف جنگوں میں، جن میں دوسری جنگِ عظیم بھی شامل ہے، استقامت نہیں دکھا سکی۔ اُس وقت دشمن آیا اور تہران تک پہنچ گیا؛ کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ جب مزاحمت نہ ہو تو نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ مزاحمت کرنی چاہیے، اللہ کی دی ہوئی طاقت کا استعمال کرنا چاہیے۔

ہم ان مشکل حالات میں بھی تیار تھے۔ یہاں آئے اور مجھ سے کہا کہ شام کے لیے جو بھی وسائل ضروری ہیں، ہم نے تیار کیے ہیں، جانے کے لیے تیار ہیں؛ [لیکن] آسمان بند تھے، زمین بند تھی؛ صیہونی حکومت اور امریکہ نے شام کی فضائی حدود کو بھی بند کر دیا اور زمینی راستے بھی بند کر دیے؛ کوئی امکان نہیں تھا۔ معاملات اسی طرح ہیں۔ اگر اُس ملک کے اندر تحریکیں باقی رہتیں اور وہ دشمن کے خلاف کچھ کر سکتے، تو دشمن ان کی فضائی حدود کو بھی بند نہیں کر سکتا تھا اور زمینی راستے کو بھی بند نہیں کر سکتا تھا؛ ان کی مدد کی جا سکتی تھی۔ خیر، یہ ایک عمومی تصویر ہے۔

کچھ اور نکات بھی ہیں جو یہاں پیش کرنے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ سب جان لیں، مسئلہ اسی طرح نہیں رہے گا؛ یہ کہ اب کوئی گروپ دمشق یا کہیں اور آئے، جشن منائے، ناچ گانا کرے، لوگوں کے گھروں پر حملہ کرے، اور صیہونی حکومت بمباری کرے، ٹینک اور توپ لے آئے، یہ حالات اسی طرح نہیں رہیں گے؛ یقینی طور پر غیور شامی نوجوان اٹھ کھڑے ہوں گے، مزاحمت کریں گے، قربانیاں دیں گے، لیکن اس صورتِ حال پر غالب آئیں گے۔
جیسے کہ غیور عراقی نوجوانوں نے کیا؛ غیور عراقی نوجوانوں نے، ہمارے عزیز شہید کی مدد، قیادت، اور تنظیم کے ذریعے، دشمن کو گلیوں اور سڑکوں سے نکال باہر کیا، اپنے گھروں سے باہر کر دیا، وگرنہ امریکی عراق میں بھی یہی حرکتیں کرتے تھے؛ گھروں کے دروازے توڑتے تھے، مالک مکان کو بیوی بچوں کے سامنے زمین پر لٹاتے تھے، اور اپنے بوٹ اس کے چہرے پر رکھتے تھے۔ یہ واقعات عراق میں بھی پیش آئے، لیکن انہوں نے مزاحمت کی، مقابلہ کیا، اور ہمارے شہید عزیز نے اپنی تمام توانائیاں اسی راہ میں لگا دیں۔ شامی بھی یہی کریں گے۔ ہاں، ممکن ہے وقت لگے، طویل ہو، لیکن نتیجہ یقینی اور قطعی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ شام کا واقعہ ہمارے لیے ــ ہم میں سے ہر ایک کے لیے، ہمارے حکام کے لیے ــ سبق بھی رکھتا ہے اور عبرت بھی؛ ہمیں اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ایک سبق یہ ہے کہ دشمن سے غفلت نہ برتی جائے۔
جی ہاں، اس واقعے میں دشمن نے تیزی سے عمل کیا، لیکن ان کو یہ پہلے ہی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ دشمن ایسا کرے گا اور تیزی سے کرے گا۔ ہم نے ان کی مدد بھی کی تھی؛ ہماری انٹیلیجنس ایجنسی نے کئی مہینے پہلے سے شام کے حکام کو انتباہی رپورٹیں پہنچا دی تھیں۔ البتہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ رپورٹیں اعلیٰ حکام تک پہنچی تھیں یا نہیں، یا درمیان ہی میں غائب ہو گئیں؛ لیکن ہمارے انٹیلیجنس حکام نے انہیں بتا دیا تھا۔ کب سے؟ شہریور (ستمبر)، مہر (اکتوبر)، آبان (نومبر) سے مسلسل رپورٹیں دی جا رہی تھیں۔ غفلت نہیں کرنی چاہیے، دشمن سے غافل نہیں ہونا چاہیے؛ دشمن کو کمزور بھی نہیں سمجھنا چاہیے، اور دشمن کی مسکراہٹ پر بھی اعتماد نہیں کرنا چاہیے؛ کبھی دشمن خوش اخلاقی سے بات کرتا ہے، مسکراتے ہوئے بات کرتا ہے، لیکن خنجر پیچھے چھپائے ہوئے ہوتا ہے اور موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ مزاحمت کے محاذ کو نہ اپنی کامیابیوں پر غرور کرنا چاہیے اور نہ اپنی ناکامیوں پر مایوس ہونا چاہیے۔
کامیابیاں اور ناکامیاں آتی رہتی ہیں۔ انسان کی ذاتی زندگی بھی ایسی ہی ہوتی ہے: اس میں کامیابیاں بھی ہوتی ہیں، ناکامیاں بھی۔ گروہوں کی زندگی بھی ایسی ہی ہوتی ہے: اس میں کامیابیاں بھی ہوتی ہیں، ناکامیاں بھی۔
ایک دن ایک تحریک طاقتور ہوتی ہے، اور ایک دن مغلوب۔ حکومتیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں، ممالک بھی ایسی ہی۔ زندگی میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے؛ انسان اس اتار چڑھاؤ سے نہیں بچ سکتا۔
ضروری یہ ہے کہ جب کامیابی حاصل ہو تو غرور نہ ہو؛ کیونکہ غرور جہالت پیدا کرتا ہے اور خود غرور انسان کو غافل کر دیتا ہے۔ اور جب ناکامی ہو، کسی جگہ ہار جائیں، تو افسردہ، مایوس، اور دل شکستہ نہ ہوں۔

اسلامی جمہوریہ ایران ان چالیس اور کچھ سالوں میں بڑے اور سخت واقعات کا سامنا کر چکی ہے؛ بڑے واقعات! نوجوانوں نے وہ دن نہیں دیکھے؛ اسی تہران میں لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے، سوویت یونین کے بنے ہوئے صدام کے میگ-25 طیارے یہاں اوپر سے گزر رہے تھے، اگر نرمی کرتے تو بمباری نہیں کرتے، لیکن خوف پھیلاتے۔ اور ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے؛ نہ ہمارے پاس دفاعی نظام تھا، نہ وسائل۔ ہم ان سب حالات کا سامنا کر چکے ہیں۔ ایک دن اسی تہران میں، سب اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک صدام کے طیارے یہاں آئے، تہران پر بمباری کی؛ ایئرپورٹ پر بمباری کی، اور دیگر جگہوں پر۔
میں خود اس دن تہران ایئرپورٹ کے قریب ایک فیکٹری میں تقریر کر رہا تھا۔ شور ہوا، ہم کھڑے ہوئے اور کھڑکی سے دیکھا، میں نے خود عراقی طیارہ دیکھا جو نیچے آیا، بم گرائے، اور چلا گیا۔ ہم نے یہ سب دیکھا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ان تمام مختلف اور تلخ واقعات کا سامنا کیا ہے، لیکن ان واقعات میں ایک لمحے کے لیے بھی غیر فعال نہیں ہوئی۔

مؤمن کو ان واقعات کا اثر نہیں لینا چاہیے۔ اثر لینے خطرہ بعض اوقات خود واقعے سے زیادہ ہوتا ہے۔ اثر لینا یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا، اور اس لیے ہتھیار ڈال دے! یہ اثر لینا ہے۔
لہٰذا کامیابیوں میں "غرور" زہر ہے، اور ناکامیوں اور مشکلات میں "مایوسی" زہر ہے؛ ان دونوں سے بچنا ضروری ہے۔ قرآن کہتا ہے: " اِذا جاءَ نَصرُ اللهِ وَ الفَتحُ * وَ رَاَیتَ النّاسَ یَدخُلونَ فی دینِ اللهِ اَفواجًا * فَسَبِّح بِحَمدِ رَبِّک؛ ، مغرور نہ ہو! اور استغفار کرو؛ اپنی کوتاہیوں پر اللہ سے معافی مانگو!"(7)

کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی کوشش ہوتی ہے کہ عوام کے دلوں میں خوف پیدا کریں؛ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ اب کچھ لوگ باہر سے یہ کام کرتے ہیں؛ غیر ملکی ٹی وی چینلز، ریڈیو، اور اخبارات فارسی میں عوام سے بات کرتے ہیں، اور حالات کو ایسا پیش کرتے ہیں کہ لوگوں کو ڈرائیں اور ان کے دلوں میں خوف پیدا کریں؛ ان کے ساتھ تو مختلف طریقے سے نمٹا جائے گا، لیکن اندرون ملک کوئی ایسا نہ کرے۔ اگر کوئی شخص اپنے بیان یا تجزیے میں ایسی بات کرے جس کا مطلب عوام کے دلوں میں خوف پیدا کرنا ہو، تو یہ جرم ہے اور اس پر کارروائی ہونی چاہیے۔

یقیناً ایرانی قوم تیار ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی جگہ پر موجودگی وہاں کی حکومت کی اجازت اور تعاون کی محتاج ہے۔ ہم نے عراق میں بھی ان کی حکومت کی درخواست پر موجودگی اختیار کی؛ شام میں بھی ان کی حکومت کی درخواست پر گئے؛ ان کی درخواست اور اجازت سے ہم جا سکے۔ اگر وہ درخواست نہ کریں، تو ظاہر ہے راستہ بند ہو جائے گا اور ان کی مدد ممکن نہ ہو گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ ان شاء اللہ مدد کرے گا، اور صیہونیت کی جڑیں اور مغربی عناصر کی شر انگیزیاں اس خطے سے ختم ہو جائیں گی؛ اللہ کے فضل سے۔

والسّلام علیکم و رحمة ‌الله و برکاته

  1. شام کے مخالف گروہوں کی پیش قدمی، مختلف شہروں اور علاقوں پر قبضے اور دمشق کی جانب ان کی پیش روی کے نتیجے میں، جس میں شامی فوج کی عدم مداخلت اور مزاحمت شامل تھی، شامی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور بشار الاسد (صدرِ مملکت) شام سے نکل گئے۔ یہ ملاقات خطے اور مزاحمتی محاذ کی صورتحال کی وضاحت کے لیے منعقد کی گئی۔
  2. فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک۔
  3. 4 آبان 1401 کو حضرت احمد بن موسی (علیہ السّلام) کے مزار پر دہشت گرد حملے کے نتیجے میں، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی، زائرین اور خادمین پر فائرنگ کے باعث 13 افراد شہید اور 30 زخمی ہو گئے۔
  4. 13 دی 1402 کو، شہید حاج قاسم سلیمانی (سپاہ پاسداران قدس فورس کے کمانڈر) کی شہادت کی چوتھی برسی کے موقع پر گلزار شہداء کرمان میں زائرین کے درمیان دو بم دھماکوں کے نتیجے میں تقریباً 100 افراد شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔
  5. 17 خرداد 1396 کو داعش کے چند ارکان کے بہارستان میدان میں پارلیمنٹ کی عمارت پر حملے کے نتیجے میں، ملاقاتیوں اور عملے کے افراد میں سے متعدد شہید اور زخمی ہوئے۔
  6. نہج البلاغہ، خطبہ 27: "خدا کی قسم، کوئی قوم کبھی اپنے گھر میں حملہ ہونے کے بعد عزت مند نہیں رہ سکتی۔"
  7. سورہ نصر، آیات 1 تا 3:
    "جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے،
    اور تم دیکھو کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں،
    تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے معافی مانگو؛ بے شک وہ بہت معاف کرنے والا ہے۔"