بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین
میرے عزیز بھائیوں اور بہنوں خوش آمدید۔ آپ سب کو اور ان تمام لوگوں کو جو ملک بھر میں مجھے سن رہے ہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ بسیج کے بارے میں چند جملے عرض کرنا چاہوں گا۔ بسیج مستضعفین کا وجود میں آنا ہمارے ملک کا ایک انوکھا واقعہ تھا ،یہ کام دنیا کے کسی اور ملک میں کسی اور جگہ پر کبھی نہیں ہوا یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھاجس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ میں اس کی وضاحت مختلف طریقوں سے کروں گا۔ یہ کسی کی تقلید کے باعث وجود میں نہیں آیا ، یہ کوئی تقلیدی کام نہیں ۔ پہلی بات یہ ہے کہ یہ رجحان ہماری قومی ثقافت اور ہماری تاریخ کی وجہ سے ہوا۔ اس بات کا نتیجہ یہ ہے کہ چونکہ یہ رجحان یہ فکر ہمارے کلچر اور تاریخ میں جڑیں رکھتی ہے یہ پائدار ہے۔اور اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بادوام ، اور مستقل ہے، کیونکہ اس کی جڑیں مضبوط ہیں۔ اس کا تعلق اس قوم سے، اس تاریخ سے اور ہماری قومی و ایرانی شناخت سے ہے۔
یہ ایک ثقافتی نیٹ ورک ہے۔ بسیج بنیادی طور پر ایک ثقافتی اور سماجی نیٹ ورک کا نام ہے اور یقیناً فوجی بھی ۔ آج جو پہلی چیز ذہن میں آتی ہے وہ بسیج کا عسکری پہلو ہے، جب کہ عسکری پہلو اپنی تمام تر اہمیت کے ساتھ بسیج کے ثقافتی اور سماجی پہلوؤں سے زیادہ اہم نہیں ہے۔ یہ گروپ امام خمینی رح نے بنایا تھا اسکی بنیاد انہوں نے رکھی تھی ۔ ان حالات میں جب ہر طرف سے خطرہ تھا امام نے اسکی بنیاد رکھی ۔ ہمارے امام عالی مقام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ خطرات میں اچھے مواقع پیدا کرتے تھے ۔ آپ میں سے اکثر نے امام کا دور نہیں دیکھا۔ ہمارے امام کی خصوصیات میں سے ایک یہ تھی کہ : آپ نے خطرات سے مواقع پیدا کئے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ ۴ نومبر ۱۹۷۹ امریکی سفارت خانہ جو جاسوسی کا مرکز تھا اس پر قبضہ کرنے کا واقعہ پیش آیا۔ اس دن دنیا کی پہلی طاقت یعنی امریکہ نے اپنے پنجے اور دانت دکھانا، دھمکیاں دینا، پابندیاں لگانا شروع کر دیں۔ ان دھمکیوں کے وقت ، اس واقعے کے تقریباً بائیس تےیس دن کے بعد ، امام نے بسیج کی تشکیل کا حکم جاری کیا۔ یعنی جس ملک نے ابھی انقلاب برپا کیا ہے، اس کے پاس اپنے دفاع کا تقریباً کوئی ذریعہ نہیں ہے اور وہ اتنے بڑے خطرے کی زد میں ہے، ایسے میں امام نے ملک کی سماجی ،ثقافتی اور فوجی میدان میں ایک ایسا نہال لگا یا۔ انہوں نے اس خطرے میں ایک موقع پیدا کیا۔
جیسے کہ نے کہا کہ بسیج کا عسکری پہلو بھی ایک پہلو ہے۔ لیکن سب سے پہلی چیز کو اہم ہے وہ یہ ہے کہ بسیج ایک "مکتب"کا نام ہے، یہ ایک "فکر" ہے۔ درحقیقت یہ ایک فکری اور ثقافتی نیٹ ورک ہے۔ بسیج اگر فوجی کام کرتا ہے تو سماجی کام بھی کرتا ہے، سائنسی کام بھی کرتا ہے، اس کی بنیاد وہی منطق اور فکر ہے جو بسیج کی بنیاد ہے۔ اگر میں اس منطق اور اس بنیاد کو دو لفظوں میں بیان کرنا چا ہوں جس پر بسیج قائم ہے تو وہ ہیں "ایمان" اور "خود اعتمادی" ۔ یا آپ یوں کہہ سکتے ہیں: "خدا پر یقین" اور "خود اعتمادی"؛ یہ دو بسیج کی بنیادیں ہیں۔ بسیج خدا پر یقین اور خود اعتمادی پر مبنی ہے۔ یہ درخت آج، کل اور مستقبل میں جو کچھ بھی پھل دے گا، وہ ان دو چیزوں کی وجہ سے ہے: خود اعتمادی اور خدا پر یقین۔ بسیج کی بہت سی خصوصیات ہیں جو سب ان دو بنیادوں پر استوار ہیں۔ بسیج میں ہمت و قوت ، ،پھرتی و تیزی ، حکمت عملی ہے، اس کی فکر ونظر وسیع ہے، اور دشمن کی شناخت ، اسی طرح مختلف واقعات و حالات میں الرٹ رہنا - یہ بسیج کی خاصیت ہے- اور بسیج کی یہ امتیازی خصوصیات ، انہی دو خصوصیات کی وجہ سے ہیں کہ اگر آپ غور کریں اور سوچیں، تجزیہ کریں، بحث کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی۔ البتہ میں بس ایک مختصر بات کہوں گا۔
جب ہم خدا پر یقین کہتے ہیں تو خدا پر یقین کا نتیجہ خدا کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہے ، خدا پر بھروسہ کرنا، خدا کے وعدے پر یقین رکھنا ہے۔ خدا پر ایمان کا مطلب یہ ہے۔ اول، ہم خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں، دوسرا، ہم خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہیں اور خدا کی مدد کی امید رکھتے ہیں۔ سوم، ہم اس وعدے پر بھروسہ کرتے ہیں جو خدا نے ہمیں دیا ہے۔ مثال کے طور پر، " اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم " (2) جو خدا کی مدد کرے گا تو خدا بھی اسکی مدد کرے گا یہ آیت خدا پر یقین کے بارے میں ہے۔
خود اعتمادی کے بارے میں یہ کہوں گا کہ ۔ خود اعتمادی کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں کو پہچان لے۔ ہم اکثر اپنی وجودی صلاحیتوں سے بے خبر رہتے ہیں۔ ہم اپنی جسمانی صلاحیتوں سے بھی بے خبر ہیں، فکری صلاحیتوں ، روحانی اور قلبی صلاحیتوں کو چھوڑیں۔ خود اعتمادی ہمیں ان صلاحیتوں سے آگاہ کرتی ہے، پھر ہمیں ان صلاحیتوں کی قدر طناس بناتی ہے، جو اس بات کا سبب بنتا یے کہ ہم ان صلاحیتوں سے استفادہ کریں ۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن کی تفصیل میں اب ہم نہیں جائیں گے۔
بلاشبہ،جیسے میں نے عرض کیا "خدا پر یقین" - خواہ بسیج کے افراد ، یا بسیج تنظیم کے مختلف ابعاد میں دیکھا جائے اس وقت سے موجود تھی جب سے یہ ادارہ وجود میں آیا- جب یہ وجود میں آیا اس وقت سے یہ حقیقت ہمارے سامنے تھی یہ ایک خدائی وعدہ ہے۔ کہ خدا فرماتا ہے «وَ لِلهِ جُنودُ السَّماواتِ وَ الاَرضِ وَ کانَ اللهُ عَلیماً حکیما»، ، (3) اسی جگہ، "اور آسمانوں کے رب کا، اور زمین، اور رب، حکمت والا"؛ (4) "عزیز" کا مطلب ہے وہ ہستی جو ہمیشہ غالب آئے اور کبھی شکست نہ کھائے۔ یہ "عزیز" کا معنی ہے۔ اور آسمانوں اور زمین میں موجود یہ تمام اجزا خدا کا لشکر ہیں۔ اگر ہم خدا کے بندے ہیں تو یہ لشکر ہماری مدد کو آ سکتا ہے۔ یہ خدا کی سنت ہے یہ ایک فطری چیز ہے۔ البتہ اس لشکر کا کنٹرول ہمارے پاس نہیں ہے کہ ہم جب چاہیں اس خدائی فوج کو استعمال کریں۔ بلکہ اس کا کماندر خدا ہے۔ تاہم، خدا ، خاص حالات میں اور بعض شرائط کے ساتھ، جب ہم تیار ہوتے ہیں، تو وہ ہمیںیہ اختیار دیتا ہے۔ یہ قرآن کے الفاظ ہیں، یہ قرآن کریم کی واضح تشریحات ہیں:بَلیٰ اِن تَصبِروا وَ تَتَّقوا وَ یَأتوکُم مِن فَورِهِم هٰذا یُمدِدکُم رَبُّکُم بِخَمسَةِ آلافٍ مِنَ المَلائِکَةِ مُسَوِّمین؛(۵)
ہاں صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو، تو عنقریب تمہارے مدد کو آؤں گا۔ اور ملائکہ الٰہی بھی مدد کو آئیں گے۔ ہم نے اس مدد کو دیکھا؛ ہم نے مقدس دفاع میں خدا کی مدد کو دیکھا، اور اس سے پہلے بھی، اسکے بعد بھی دیکھا، ہم نے ہر میدان میں چاہے سیاسی میدان ہو ، فوجی میدان ہو،یا علمی و سائنسی ہم نے نسرت الھی کو دیکھا ہے۔ آپ خدائی مدد کب دیکھ سکتے ہیں؟ جب آپ کوئی ایسا کام کرتے ہیں جو آپ کے خیال میں ناممکن ہے، لیکن وہ ممکن ہو جاتا ہے، وہ حقیقت میں تبدیل ہو جاتا ہے یہ نصرت الھی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ سب بسیج کے خدا پر یقین کی یہ وجہ سے ہے۔ہم نے عرض کیا کہ بسیجی میں بھی اور بسیج کے ادارے میں بھی، ہر بسیجی میں خود اعتمادی، اپنی فکری، روحانی اور جسمانی توانائیوں اور صلاحیتوں کی شناخت، قوت ارادی، فیصلے کی توانائی، اپنی قدر اور دشمن کے ارادے کا تابع نہ بننے کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔
ہمارے وجود میں ایک عنصر ہے جسے ہم اکثر اس سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اور وہ ہے فیصلہ کرنے کی طاقت اور قوت ارادی ۔ ہمارے پاس ارادہ ہے، ہمارے پاس قوت ارادی بھی ہے۔ انسان کی قوت ارادی بعض اوقات اتنی مضبوط ہو جاتی ہے کہ وہ کچھ خلق کر سکتا ہے، اسے وجود میں لا سکتا ہے۔ یہ طاقت ہم میں ہے۔لیکن ہمیں اسکی شناخت نہیں ، ہم اس کی قدر نہیں کرتے، ہم اسے مضبوط نہیں کرتے۔ بسی جی اور بسیجی مکتب کی زندگی میں، اس فطری اور باطنی انسانی صلاحیت کو جاننا ایک ممتاز خصوصیت ہے۔دشمن کے ارادے کا تابع نہ ہونے اور اپنے ارادے کو غلبہ دینے کی خصوصیت کے لئے خود اعتمادی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ آپ اپنی خصوصیات اور صلاحیتوں کو پہچان سکیں۔ یہ بات اقوام کے لئے عالمی سامراج کے منصوبوں کے منافی اور ان کے برعکس ہے۔
عالمی استکبار، یعنی عالمی طاقتیں، قوموں پر تسلط قائم کرنے کے لیے پہلا کام یہ کرتی ہیں کہ ان قوموں کی توانایئوں و صلاحیتوں کا انکار کرتی ہیں، ان قوموں کی تذلیل اور تحقیر کرتی ہے۔ یہ قرآن میں بھی ہے۔ فرعون کے بارے میں [وہ کہتا ہے:] "فاستخف قومہ فتاویٰ" (6) اب وہ آج کی دنیا کے سلاطین سے زیادہ شریف تھا۔ امریکی سلطان، یورپ سلطان - اور دوسرے سلاطین - وہ ان سے زیادہ شریف تھا۔کیونکہ اس نے یہ کام صرف اپنے لوگوں پر کیا ۔جبکہ یہ لوگ دوسری قوموں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ ؛ فرعون نے اپنے ہی لوگوں کو ذلیل کیا، ان کے کاموں کو چھوٹا ظاہر کیا ، ان کی توانایئوں سے انکار کیا: " اَ لَیسَ لی مُلکُ مِصرَ وَ هذِهِ الاَنهارُ تَجری مِن تَحتی " (7) نتیجہ یہ نکلا کہ ان لوگوں نے دیکھا کہ وہ افضل ہے، اس لیے انہوں نے اس کی اطاعت کی استعمار کا منصوبہ ہے: آپ کی تاریخ سے انکار کرنا ، آپکی شناخت سے انکار، آپکی صلاحیتوں سے انکار کرنا ۔ جیسے جب آپ اپنے ملک کے تیل کو جو برطانیہ کے قبضے میں ہے قومی ملکیت میں لانا چاہتے ہیں تو اندرون ملک میں ان کے ایجنٹ تقریریں کرنے آتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ کیا کوئی ایرانی آبادان ریفائنری کا انتظام چلا سکتا ہے؟ ایک ایرانی تومٹی کا لوٹا بھی نہیں بنا سکتا! قوموں کی اس طرح تذلیل کرتے ہیں۔ ۔ بسیج اس قومی تحقیر کا نقطہ مقابل ہے۔تسلط پسند طاقتیں، کسی قوم پر اپنا تسلط جمانے کے لئے اس کے ملی عقائد میں تحریف کرتی ہیں۔ اس کی تاریخ میں تحریف کرتی ہیں، اس کی شبیہ بگاڑتی ہیں اور تحقیر کرتی ہیں۔
میرے عزیز بھائیوں اور بہنوں، میرے بچوں! گذشتہ کئی برسوں ایران کی تزلیل کی گئی ، خصوصا قاجار اور پہلوی دور میں۔ انقلاب نے صفحہ پلٹ دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد پیرس میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں دنیا کے حالات کےبارے میں فیصلہ کرنے کے لیے کئی ممالک نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے شرکاء وہ تھے جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا یا زخمی ہوئے؛ ایران پہلی جنگ عظیم کے متاثرین میں شامل تھا، جس نے ایک وفد بھیجا، [لیکن] ایرانی وفد کو پیرس کانفرنس میں شرکت کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس طرح تحقیر کرتے تھے۔ ایسے دور میں ایرانی قوم کی اس طرح تحقیر ہوئی۔ بسیجی فکر اس کے گرد حصار کھینچتی ہے۔ اور اس انتہائی خطرناک ہتھیار کو بے اثر کردیتی ہے۔ اور خود اعتمادی دیتی ہے۔ اور ایک نوجوان اپنی صلاحیتوں کو محسوس کرتا ہے؛ یہ اس کی خود اعتمادی ہے، اس کا خدا پر یقین ہے، جس کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ عالم ہستی خدا کی فوج ہے اور اگر وہ خدا کی راہ میں آگے بڑھے تو یہ لشکر اس کی مدد کو آئے گا۔ آج بھی اسی طرح ہے، کل بھی ایسا ہی رہے گا۔ بلاشبہ یہ بسیجی جذبہ، یہ بسیجی صلاحیت، یہ بسیجی ریاست جو ہمارے ملک میں اور خوش قسمتی سے دیگر کئی ممالک میں، مزاحمتی محاذ کے اراکین میں موجود ہے، یہ جذبہ یقیناً استکبار ،امریکہ اور مغربی طاقتیں اور صیہونی حکومت کی تمام پالیسیوں پر غالب آئے گا۔
دو تین باتیں بسیجی کے بارے میں۔ ایک نکتہ یہ ہے کہ حضرت امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اس ملک میں انقلاب کی کامیابی سے پہلے، اپنی تحریک اور جدوجہد کے پندرہ برس کے دوران بسیجی فکر کے لئے حالات کو سازگار بنایا، اس کو وجود بخشا اور اس کی تقویت کی۔ یہ خصوصیات جو ہم بسیج کی بیان کرتے ہیں، ان میں سے بہت سی ایسی ہیں کہ بسیج کے ادارے کے باہر ظاہر ہوتی ہیں حتی بعض ایسی ہیں جو بسیج کی باضابطہ تشکیل سے پہلے ہی ظاہر ہو چکی تھیں۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے 1963 سے 1979 تک، تقریبا پندرہ سولہ برس اس بسیجی جذبہ، اس خود پر یقین، خدا پر یقین، اس خود اعتمادی، خدا پر اس اعتماد اور کامیابی کی اس امید اور روشن مسقبل کی ایرانی عوام کو نشاندہی اور تلقین کی اور ہمارے نوجوانوں نے جن کے اندر ظرفیت اور صلاحیت تھی، امام کے اس پیغام کو سمجھا۔ کمزوری پیدا کرنے والے ان تمام عوامل کے مقابلے میں یہ پیغام قبول کیا گیا، لہذا بتدریج اس تحریک نے پیشرفت اور ترقی کی، وسیع تر ہوئی۔ اس نے انقلاب کی شکل اختیار کی اور ایک ایسی حکومت کا خاتمہ کیا جس کو دنیا کی تقریبا سبھی طاقتوں کی حمایت حاصل تھی۔ پہلوی حکومت کی امریکی حمایت کر رہے تھے، یورپ والے حمایت کر رہے تھے، روس والے بھی حمایت کر رہے تھے، سب حمایت کر رہے تھے۔ اس کے پاس وسائل بھی بہت تھے۔ امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے اس حکومت کا تختہ الٹ دیا، اس کو نابود اور جڑ سے ختم کر دیا جبکہ عوام کی جانب سے ایک بھی گولی نہیں چلائی گئی۔
دنیا میں حکومتوں کے خلاف بغاوتیں ہوتی ہیں، زیادہ تر ناکام اور نا پائیدار ہوتی ہیں (لیکن) یہاں مسلحانہ جنگ نہیں ہوئی، عوام اپنے جسم و جان اور اپنے ایمان کے ساتھ آئے، میدان ميں اترے ، انھوں نے میدان پر قبضہ کیا اور حریف کو میدان سے باہر کر دیا۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد امام (خمینی رحمت اللہ علیہ) نے گوناگوں ضرب اور وار کو روکنے کے لئے بسیج کی دیوار کھڑی کر دی۔ دفاع مقدس سے پہلے بھی، دفاع مقدس کے دوران بھی، دفاع مقدس کے بعد بھی، فوجی میدان میں بھی، سماجی میدان میں بھی، علمی میدان میں بھی، اسلحہ سازی میں بھی اور بین الاقوامی و سیاسی میدان میں بھی (بسیج نے عظیم کارنامے انجام دیے)
توجہ فرمائيں کہ سماجی اور علمی طاقت، سیاسی طاقت وجود میں لاتی ہے۔ جو قوام اپنے اندر اپنے اتحاد، اپنے عزم، اپنی استقامت، اور میدان میں موجود اپنی قابل توجہ فعال افرادی قوت، دکھانے ميں کامیاب رہے، اپنی علمی اور سائنسی توانائی ثابت کر سکے اور اپنی سماجی توانائی دکھا سکے وہ سیاسی لحاظ سے بھی طاقتور ہو جاتی ہے، بین الاقوامی میدان میں محکم انداز ميں بول سکتی ہے اور اپنی بات آگے بڑھا سکتی ہے۔ امام (رضوان اللہ علیہ ) نے یہ کام انجام دیے۔
بسیج نے نہ صرف مقدس دفاع کے دوران ملک کی حفاظت اور امنیت برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ ، تعمیراتی کاموں اور سائنسی کاموں میں بھی بسیج آگے آگے رہی۔ یہ لوگ جو 20 فیصد افزودہ یورینیم کے معاملے میں بدنیتی پر مبنی امریکی سازش کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوئے تھے، جس کی ملک کو ضرورت تھی،وہ بسیجی ہی تھے۔ شہید شہریاری ایک بسیجی تھے، ہمارے ایٹمی شہداء جو بسیجی تھے وہ استاد بھی تھے۔ [اس کی] ایک تفصیلی کہانی ہے۔ ہمیں ریڈیو فارماسیوٹیکل کے لیے 20% افزودہ یورینیم کی ضرورت تھی۔ یہ ملک کی اشد ضرورت تھی۔ ہمارے پاس کچھ مقدار پہلے سے تیار تھی، وہ ختم ہو رہی تھی۔ پس ہر حال میں ہمیں خریدنی تھی ۔ لیکن کس سے ؟امریکہ سے ؟امریکیوں نے کہا کہ آپ کے پاس جو بھی پیداوار ہے اس کا 3.5 فیصد آپ ہمیں دیں، ہم آپ کو بدلے میں 20 فیصد دیں گے۔ اس دن دنیا کے دو مشہور صدور - جن کا میں نام نہیں بتانا چاہتا اور جن کے ہمارے ساتھ اچھے تعلقات تھے - انہوں نے اس معاہدے میں ثالثی کا کردار ادا کیا، ہمارے ملک کے حکام نے بھی اسے قبول کیا۔ یہ ۲۰۰۰ کے عشرے کے وسط کی بات ہے۔ مذاکرات کے درمیان میں یہ دیکھا گیا کہ امریکی ہمیں دھوکہ دے رہے ہیں، ہم سمجھ گئے اسی لئے مذاکرات کو روک دیا گیا۔ جب وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ملک کی 20% ضرورت کے پیش نظر ایران ان کے سامنے ہتھیار ڈال دے گا، اسی وقت ہمارے بسیجی پروفیسروں نے 20% [یورینیم] تیار کر لیا! امریکیوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا ہوگا۔ میں نے چند سال پہلے یہاں ایک بار کہا تھا (9) کہ یورینیم کی افزودگی کے اس عمل میں سب سے مشکل حصہ 20% تک پہنچنا ہے، اس کے بعد سے بہت آسان ہے۔ یہ مشکل مرحلہ ہم نے طے کیا اور ہمارے بسیجی نوجوانوں اور ہمارے بسیجی سائنسدانوں نے اندرونی طور پر اس مقدار میں یورنیم پیدا کیا جب کہ دشمن ہمارے خلاف چالیں چل رہا تھا، اور ہمیں اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ بسیج نے ان شعبوں میں کام کیا ہے۔ بسیج عالمی تعاملات میں سرگرم رہا ہے۔ لہذا، فوجی، سماجی، سائنسی اور بین الاقوامی سیاست دونوں میں، متحرک قوت فعال، موثر اور بہت سی صلاحیتوں کی حامل تھی۔
جیسا کہ نے کہا کہ یقیناً ان میں سے اکثر کام بسیجی ادارے کے اندر نہیں ہوئے،بلکہ ادارے سے باہر انجام پائے۔ لیکن جو چیز ہمارے لیے اہم ہے وہ : بسیجی جزبہ ، بسیجی مکتب اور بسیجی ثقافت ہے ۔ کوشش کریں اس سے محروم نہ ہوں۔ آج آپ ملک کے جس شعبے میں بھی ہیں، آپ جہاں کہیں بھی ہیں، اگر آپ کسی کارخانہ میں ، یا کسی یونیورسٹی میں ، یا کسی بھی میدان میں کام کررہے ہیں، اگر آپ سائنسی لیبارٹری میں ہیں، یا میدان جنگ میں ہیں، تو اس جذبے کو اس آمادگی کو حالات و واقعات کے حوالے سے حساس ہونا ، اسے ہاتھ سے نہ جانے دیں اور ہمیشہ تیار رہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے۔
دوسرا نکتہ۔ آج کی دنیا میں، مختلف ممالک میں بہت سے نوجوان ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور خود کو بیکار محسوس کرتے ہیں۔ اب وہ جوان جو کوئی ہدف نہیں رکھتا ، اس کے کوئی مقاصد نہیں، وہ خود کو ناکارہ محسوس کرتا ہے۔ بے شک، بہت سے ایسے ہیں جو مضبوط ہیں، لیکن کچھ جوان حساس ہیں، وہ خود کو ناکارہ محسوس کرتے ہیں،اسی لئے خودکشی بڑھ رہی ہے. آپ اعدادوشمار میں سنتے اور پڑھتے ہیں کہ دنیا میں خودکشی بڑھ رہی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے؛ نوجوان ایک ذہنی تعطل کا شکار ہو جاتا ہے، وہ خود کو بے مقصدمحسوس کرتا ہے، وہ اپنے سامنے موجود مختلف رکاوٹوں کے سامنے خود کو بے بس سمجھتا ہے، [اسی لیے] بے بسی کا یہ احساس اسے ایک آخری انجام کی طرف لے جاتا ہے۔ "بسیج فکر " اس بند راستوں کو کھولنے کا نام ہے۔ بسیجی فکر اور بسیجی ثقافت کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے: یہ اس جمود کو توڑنے والا ہے، یہ نوجوانوں کو مایوس نہیں ہونے دیتا۔ کیوں کیونکہ جس طرح میں نے بیان کیا ، سب سے پہلے اسے خود پر اعتماد ہے، اسے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے اور وہ جانتا ہے کہ اگر وہ کوشش کرے گا تو وہ کر سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ تسلط پسندوں کے آگے مغلوب نہیں ہوتا۔ اس وقت آپ دیکھیں کہ مختلف مسائل میں امریکا، صیہونی حکومت اور دوسروں کے پروپیگنڈوں نے کیسا ہنگامہ مچا رکھا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر بسیجی نوجوان کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ آتی ہے اور وہ اس ہلڑ ہنگامے کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ بنابریں مرعوب بھی نہیں ہوتا۔
تیسرے بسیجی نوجوان کے سامنے ہدف اور مقصد ہوتا ہے۔ وہ بے مقصد و بے ہدف نہيں ہے اور اپنے ہدف پر یقین رکھتا ہے۔ بسیجی نوجوان کا ہدف اسلامی معاشرہ ہے۔ اس کے بعد اسلامی تمدن ہے۔ وہ اس کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔ بسیجی نوجوان کا مقصد عدل و انصاف کا نفاذ ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ کام کر سکتا ہے اور اس راہ میں آگے بڑھتا ہے۔
بسیجی نوجوان موت سے نہیں ڈرتا۔ جیسے کہ آپ لوگوں نے دیکھا ، وہ مقدس دفاع کے دوران منتیں کرتے تھے روتے تھے کہ ہمیں جنگ پر جانے دیں۔ چونکہ ان کی عمر مناسب نہیں تھی، اسی لئے انہیں اجازت نہیں تھی۔ یہ آج سے ۳۵ ، ۴۰ سال پہلے کی بات ہے، مثال کے طور پر چند سال قبل شام و عراق میں حرم کے دفاع کے لئے بھی یہی ہوا۔ اس دوران کتنے نوجوانوں نے مجھے خطوط لکھے، ان میں سے کچھ نے مجھ سے ملاقات کی اور پوچھا کہ جناب ہمیں جانے دیں۔لیکن انہیں اجازت نہیں ملی،پھر وہ کسی ایسے گروپ کے پاس گئے جنہیں وہاں جانے کی اجازت تھی۔ یہ سب آپ نے خود سنا ہے ، اور ان کے حالات پڑھے ہیں اور آپ جانتے ہیں۔ کہ وہ موت سے نہیں ڈرتے۔ اور آخر کار شہادت کو پالیتے ہیں۔ وہ شہادت پر یقین رکھتے ہیں؛ وہ اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ اگر وہ اس طرح دنیا سے جایئں گے تو وہ اعلیٰ الہی و معنوی عہدوں پر فائز ہونگے۔ اسی لئے ان کے سامنے راستہ کھلا ہے،اور یہاں کوئی بند دروازہ موجود نہیں۔ ایسے شخص کو فنا ہونے کا ڈر نہیں ۔ کیونکہ کوئی تعطل نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ایرانی بسیجی کو یقین ہے کہ وہ صیہونی حکومت کو ایک دن ضرور تباہ کر دے گا۔
اگلا نکتہ؛بسیج کو روز بروز ملک میں مضبوط کیا جانا چاہیے۔ بسیج کو مضبوط کرنا ہوگا۔ بسیجی پرچم قوم کے حقوق کے دفاع کا پرچم ہے۔ یہ حق کا دفاع کرنے والا پرچم ہے۔ یہ پرچم ہمیشہ لہراتا رہے گا۔ اس کو مدد کی ضرورت ہے، اس کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔اسے کس طرح مضبوط کریں ؟اسے وہ گہرائی عطا کریں ، معیار کو بہتر بنایئں گہرائی دے بسیجی تعلیمات کو بسیجی نوجوانوں کے ذہنوں میں رچ بس جانا چاہیے، اور ان کے معیار کو بہتر بنانا چاہیے۔ چیزوں کو سطحی نظر سے نہ دیکھیں۔ اس کے لئے کتابیں ضروری ہیں، ،مطالعہ ضروری ہے، بحث ومباحثہ، مطالعاتی اور تحقیقی نشستیں ضروری ہیں۔ یہ سب بہت ا ہم ہہے۔
سیاسی میدان میں بھی ؛ بسیج کو تقویت دینے کی ضرورت ہے۔ بسیج کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس خطے کے ممالک کے لیے امریکہ کی پالیسی دوہری ہے: یا تو "ڈکٹیٹر " یا "ملک میں افراتفری و فساد ": یا تو آمریت یا انارکی۔ امریکہ نے اس خطے کے لیے ان دو راستوں کو مد نظر رکھا ہے۔ وہ ایسا ملک چاہتے ہیں، جس پر ایک مطلق العنان طاقت قابض ہو جس کے ساتھ وہ جو چاہیں کر یں اور وہ ان کے سامنے سر جھکائے ر ہے۔ اوراگر ایسا نہ ہوا تو ملک میں افراتفری پھیل جائے گی، لوگوں کا جینا مشکل ہو جائے گا۔ بسیج کو ان دونوں سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ یعنی آمریت اور استبداد ، یا افراتفری اور انتشار ؛ اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی ملک میں واقع ہوتا ہے تو اس کامطلب ہے دشمن کام کر رہا ہے اور [بسیج] کو اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے۔ خیر، اب یہ تھے بسیج سے متعلق مسائل جن پر ہم نے بحث کی۔ بسیج سے متعلق اور بھی باتیں ہیں۔ لیکن ابھی کے لیے یہ کچھ باتیں عرض کیں۔
اس علاقے کے بارے میں ایک لفظ کہوں۔ میں لبنان، فلسطین، غزہ وغیرہ کے ان موجودہ مسائل کے بارے میں دو باتیں کہنا چاہوں گا، جہاں آپ سب مسائل سے واقف ہیں اور خبریں دیکھیں اور سنیں اور معلومات حاصل کریں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ لوگوں کے گھروں پر بمباری کرنا کوئی کامیابی نہیں۔یہ بے وقوف لوگ یہ مت سوچیں کہ چونکہ انہوں نے لوگوں کے گھروں پر بمباری کی، ہسپتالوں پر ،لوگوں کے اجتماعات پر بمباری کی، تو وہ جیت گئے۔ نہیں، دنیا میں کوئی بھی اسے فتح نہیں سمجھتا۔ یہ فتوحات نہیں ہیں۔ دشمن غزہ میں نہیں جیت سکا، لبنان میں دشمن نہیں جیت سکا۔ دشمن غزہ اور لبنان میں کبھی نہیں جیت سکے گا۔ انہوں نے جو کیا وہ فتح نہیں، جنگی جرم ہے۔ انہوں نے اس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے، (10) [لیکن] یہ کافی نہیں ہے۔ نیتن یاہو اور ان مجرم لیڈروں کی سزائے موت کا حکم جاری کرنا چاہیئے ، یہ پہلا نکتہ ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ لبنان، فلسطین اور غزہ میں صیہونی حکومت کے جرائم کا جو نتیجہ وہ چاہتے ہيں اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ یعنی یہ جرائم استقامت کی تقویت کر رہے ہیں اور استقامت شدت اختیار کر رہی ہے۔ یہ بھی ایک قاعدہ کلی ہے۔ اس کے برعکس نہیں ہو سکتا۔ غیور فلسطینی نوجوان، غیور لبنانی نوجوان دیکھ رہا ہے کہ اگر میدان مجاہدت میں ہو تو خطرہ ہے میدان مجاہدت میں نہ ہو تو بھی خطرہ ہے۔ ڈاکٹر ہے، نرس ہے، مریض ہے، مزدور ہے، روزی کمانے والا ہے لیکن موت کا خطرہ، بمباری کا خطرہ اور دشمن کے خطرات ہیں۔ اس کے لئے کوئی اور راستہ نہيں بچا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جاکر مجاہدت کروں۔ اس لئے کہ وہ مجبور کر رہے ہیں۔ یہ احمق خود ہی اپنے کاموں سے استقامتی محاذ کو وسیع تر کر رہے ہیں، استقامت کی شدت بڑھا رہے ہیں۔ یہ ایک حتمی نتیجہ ہے اس کے برعکس نہیں ہو سکتا۔ میں آج کہتا ہوں کہ آج استقامتی محاذ جتنا وسیع ہے کل اس سے کئي گنا زیادہ وسیع ہوگا۔
پالنے والے تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ، سبھی بندگان صالح کے مطلوب (امام مہدی عج اللہ فرجہ الشریف) کو جلد سے جلد بھیج دے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ
1۔ اس موقع پر پہلے بریگیڈیئرغلام رضا سلیمانی (بسیج مستضعفین کے کمانڈر) نے ایک رپورٹ پیش کی ۔
2۔ سورہ محمد آیت نمبر 7 "۔۔۔ اگر خدا کی مدد کرو تو وہ تمھاری نصرت کرے گا۔"
3۔ سورہ فتح، آیت نمبر4 کا ایک حصہ"۔۔۔۔ اور زمین وآسمان کے فوجی خدا کے ہیں، اور خدا دانا اور کاموں کو ٹھیک کرنے والا ہے۔"
4۔ سورہ فتح آیت نمبر 7 " اور زمین وآسمان کے فوجی خدا کے ہیں اور خدا کو کبھی شکست نہیں دی جا سکتی اور وہ امور کو ٹھیک کرنے والا ہے"
5۔ سورہ آل عمران ، آیت نمبر 125 " ہاں اگر صبر کرو اور پرہیزگاری اختیار کرو اور وہ اسی جوش و خروش کے ساتھ تم پر حملہ کریں تو خداوند عالم پانچ ہزار علامت والے فرشتوں سے تمھاری مدد کرے گا۔
6۔ سورہ زخرف آیت نمبر 54
7 ۔سورہ زخرف آیت نمبر 51"۔۔۔۔۔ کیا مصر کی بادشاہت اور یہ نہریں جو میرے محل کے نیچے بہہ رہی ہیں میری نہیں ہیں ؟"
8۔ سورہ فتح کی آیت نمبر چار کا ایک حصہ:۔۔۔۔ "اور زمین وآسمان کے فوجی خدا کے ہیں۔۔"
9۔ نومبر 2015 میں یونیورسٹیوں، تحقیقی مراکز اور سائنس وٹیکنالوجی پارک کے سربراہوں سے ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی کا خطاب
10۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے مہینوں کی تاخیر سے آخر کار 21 نومبر 2024 کو صیہونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو اور سابق وزیر جنگ یواف گالانٹ کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا۔ یہ حکم غزہ میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر صادر کیا گیا۔